Yun Bhi Aa Kabhi Rubaru Novel By Afshan Kanwal Complete Romantic Novel - Novels In Urdu Pk

Saturday, 20 July 2024

Yun Bhi Aa Kabhi Rubaru Novel By Afshan Kanwal Complete Romantic Novel

Yun Bhi Aa Kabhi Rubaru Novel By Afshan Kanwal Complete Romantic Novel 

Novels In Urdu Pk

Read Complete Romantic All Novels

Yun Bhi Aa Kabhi Rubaru By Afshan Kanwal Complete Romantic Novel 


Novel Name : Yun Bhi Aa Kabhi Rubaru

Writer Name: Afshan Kanwal

Category : Complete Romantic Novel 

 


دروازہ کلک کی آواز سے کھلا تو گٹھری بنی دلہن کچھ اور سمیٹ گٸ ۔ آنے والے نے مسکرا کر اپنی محبت کو دیکھا جو آج رب کی مہربانی سے اس کی دسترس میں تھی ۔ اس نے شکر ادا کیا اور شیروانی کے اوپری دوبٹن کھولے تاکہ کھل کے سانس لے سکے ۔

”کیا ہے یار! دلہا دلہن کو بلکل ہی کیک بنادیتے ہیں یہ لوگ ۔۔“ وہ اپنی شیروانی اور تام جھام سے سجی بھاری ڈریس میں ملبوس اپنی دلہن کو دیکھ وہ بےزار ہوکر بڑبڑایا ۔  

وہ جیسے جیسے اس کی جانب قدم بڑھا رہا تھا ۔ ویسے ویسے بیڈ پر بیٹھی حوروں کو مات دیتی دلہن کی سانسیں منتشر ہورہی تھیں ۔  

وہ اس کے بلکل نزدیک بیٹھا تو اس نے اپنا سر پورا ہی جھکالیا ۔ آنے والے نے تھوڑی سے پکڑ کے اس کا چہرہ اونچا کیا تو مبہوت رہ گیا ۔ سارے وقت تو وہ نیٹ کے گھونگھٹ میں چھپی رہی تھی ۔ لیکن اس وقت اپنی حشرسامانیوں کے ساتھ اس کے دل پر بجلیاں گرارہی تھی۔ 

”بہت حسین لگ رہی ہو ۔ اتنی کہ الفاظ ختم ہوچکے ہیں میرے پاس ۔ ویسے بھی یہ رات مرادوں بھری رات ہے تو میں اسے باتوں میں ہرکز نہیں گنواٶں گا۔“   

اس کی زومعنی بات سنتی وہ جھنپ کر مسکرادی ۔  

حیاکی لالی اس کے چہرے کو عجب نور بخش رہی تھی ۔ وہ بےخود سا اس کے چہرے پر جھکنے لگا ۔

”دعاۓخیر !“ تیز غصیلی پاٹ دار آواز نے سارا فسوں تحلیل کیا ۔ اس کے ہاتھ میں لرزش اتری اور موباٸل حضرت نے فارغ دلی سے اس کی ناک کو سلامی پیش کردی ۔ ایک درد ناک سسکی اس بےچاری( بقول خود اس کے ہی ) کہ منہ سے برآمد ہوٸ ۔ اس سے پہلے کہ والدہ  اسے کوٸ کمزور ریاست سمجھ کر اس پر کسی طاقتور ملک کی طرح حملہ آور ہوتیں  اس نے ناک کی تکلیف دباۓ تیزی سے سیلپر پیروں میں پھنساۓ اور شانوں پر دوپٹہ لیتی کمرے سے باہر نکلی ۔ اب اس کی رفتار چیتے کی رفتار سے جاملی وہ اناًفاناً زینے پھیلانگتی نیچے پہنچی تو سامنے ہی اس کی والدہ ماجدہ اسے یوں گھور رہی تھی جیسے شکاری اپنے شکار کو گھورتا ہے ۔ اس بےچاری کی گلٹی ان کے خوفناک تاثرات پر ڈوب کے ابھری ۔ وہ منتشر سانسیں درست کرنے لگی لیکن وہ پھر بکھری جاری رہی تھیں کسی روٹھے بچے کی طرح 

”میں نے تمہیں کچھ دیر پہلے دودھ ابالنے کو کہا تھا ؟“   

ٹھنڈے ٹھار لہجے میں سوال آیا ۔  

”وہ میں نے اُب بل نے ک و۔۔“  

جملہ مکمل ہونے سے ملے ہی دم توڑ گیا ۔ وہ نوے کی اسپیڈ سے کچن میں پہنچی ۔ اندر کا منظر دیکھ اس کی آنکھیں ابل پڑیں ۔ دودھ مغرور سا سارے برنر پر پھیلا اپنے حسن کے جلوے بکھیر رہا تھا ۔   

اس کا جی اس منظر پر ہاری ہوٸ دوشیزہ کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے کو چاھا ۔ جو مقابلے حسن میں جیتے جیتے دو نمبر سے رہ گٸ 

”اتنے دنوں میں میں نے تمہیں ایک کام دیا اور تم وہ بھی ڈھنگ سے ناکر پاٸیں ۔ مطلب حد ہے نااہلی کی۔تم میں اور ہماری حکومت میں کوٸ فرق نہیں ۔ ہر کام کو بیگاڑا ہے ۔ یہ سب تمہارے اس منہوس فون کی وجہ سے ہوا ہے ۔ ہر وقت اسی میں منہ دیا ہوتا ہے ۔ میں کہہ دیتی ہوں بی بی اس موباٸل نے تمہیں کہیں منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑنا ہے ۔  

میں ماں ہوکر تمہاری ان حرکتوں سے شدید نالاں ہوں تو سوچوں تمہارے سسرال والے اور ساس تمہاری ان بےہنگم اور پھوہڑ پنے کے مظاہرے کیسے برداشت کریں گیں ؟ دو دن نہیں ٹیکو گی ، واپس ہمارے ہی سینوں پر مونگ دلنے آٶ گی ۔“

وہ اس کی مسکین بھولی بھالی صورت پر ایک نظر بھی ڈالے بغیر اس کے خوب ہی لتے لےرہی تھیں ۔ ساتھ سسرال کا ایسا خوفناک نقشہ بھی کھینچا کہ اس کا دم ہی خشک ہوگیا اور آخری کلمات یوں ادا کۓ جیسے وہ کوٸ ان کی سوتیلی بیٹی ہو جیسے تاک تاک کر طنز کے نشترماررہی ہوں۔

”مجھے لگتا ہے کہ میں آپ کی سگی اولاد ہی نہیں ہوں ۔ بھلا زرا سا دودھ گرنے پر کوٸ اتنا سنتا ہے ۔۔“  

وہ منہ لٹکاکر خفگی بھرے لہجے میں بولی ۔ اس طرح وہ اور کیوٹ لگتی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ اب شاید اس کی گلوخلاصی ہوجاۓ گی مگر ہک ہا ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھاگۓ ۔

”بی بی !دودھ کیا لیٹر ہے علم ہے کچھ؟“ غصے کی حالت میں یہ لفظ ان کا ہتھیار تھا ۔ جس کی بدولت وہ اپنی زبان سے ہی اس کی مرمت کرتی تھیں، جملے میں بی بی لفظ سابقے اور لاحقے کے طور پر لگاکر ۔ جب وہ بی بی بول کر دانت پستی تھیں تو اسے پکا یقین تھا کہ ان کے تصور میں وہ ہی ان کے مضبوط ترین دانتوں کی نیچے دبی ہوتی تھی ۔ اس کے کان سے دھواں نکلنا شروع ہوچکا تھا اور ان کے نادر و نایاب الزامات میں اضافہ ہی ہوا جارہا تھا ۔ بلکل پیٹرول کی قیمت کی طرح جیسے ہم چاہ کر بھی روک نہیں سکتے تھے ۔

” اور سوتیلی کی بھی خوب ہی کہی ، بی بی دکھ تو یہی ہے کہ میری اپنی ذاتی اولاد ہوکر بھی تم رج کے پھوہڑ ہو ۔ کاش میں یہ کہہ سکتی کہ تم ھوسپٹل میں بدل گٸ ہو ۔ لیکن میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کیونکہ تمہاری پیداٸشں تمہاری جلدبازی کی آمد کی وجہ سے گھر میں ہی ہوگٸ تھی ۔“  

ایک دفعہ پھر گولہ بھاری اسٹارٹ تھی ۔ وہ اسے ہمیشہ پاکستان کا بارڈر سمجھ کر وقت بے وقت انڈیا اور افغانستان کی طرح گولہ بارود داغ دیتی تھیں ۔ لیکن وہ بےچاری پاکستان افواج بن کر ان کا منہ توڑ جواب بھی نہیں دےپاتی تھی کہ آخر کو ادب بھی کسی چڑیا کا نام تھا ۔ اور وہ ٹہری باآدب ہستی بقول خود اس کے 

”لو جی اس میں بھی میرا قصور ہے کہ میں جلد باز تھی ۔ یعنی حد ہے قدرت کے کام میں میرا کیا عمل دخل۔۔؟“ وہ برا مناکر بولی 

”قدرت کے کام میں نہیں لیکن گھر کے بگڑے کام میں تمہارا ہی دخل ہے بی بی ! ، اور کان کھول کر سن لو آدھے گھنٹے میں یہ کچن اپنی پرانی حالت میں مجھے واپس چاہیۓ اور آج رات کی روٹی بھی تم ہی ڈالو گی ۔ میں جاکر وائے فاٸ بند کررہی ہوں ۔ اب نیٹ کل ہی کھلے گا۔“  

اسی کی والدہ حضور اسے کالے پانی کی سزا سناتی یہ جا وہ جا ہوچکیں تھیں ۔ وہ بے چاری ہکا بکا خود پر ہوۓ اس ڈیجیٹل پلس گھریلو ظلم پر چوں بھی ناکرسکی ۔

”سب میرے ریڈرز کا قصور ہے ۔ میری مت ہی مار دی ۔ بتایا تھا کہ ایگزام ہورہے ہیں قسط نہیں دے سکوں گی ۔ پھر بھی اتنے میسجز ، اوپر سے میں نے ”آٸ ایم بیک“ کا میسج ڈال کر ان کے آتشِ شوق کومزید بھڑکا دیا ۔ پھر تو یہ ہونا ہی تھا ۔ آج پیپرز ختم ہونے کی خوشی میں میں نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ۔ پیپر دے کے آکر سکون سے سوکر اٹھی تھی ۔ چاۓ پیتی انجواۓ کرتی لیکن نہیں میسج کردیا ۔ اب برداشت کرو نتاٸج ۔۔۔“ وہ بڑبڑ کرتی زبان کے ساتھ تیزی سے ہاتھ بھی چلارہی تھی ۔   

چلیں محترمہ دعاۓخیر کا تعارف کرواتے ہیں ۔   

دعاۓخیر ایک آنلاٸن راٸٹر ہیں ۔ لاک ڈاٶن کے بور ترین دور میں ان پر اشکار ہوا کہ وہ ایک بہترین راٸٹر بن سکتی ہیں ۔ بس پھر کیا تھا ۔ ان صاحبہ نے اپنا پیج بنایا اور شروع ہوگٸ لکھنا ۔ اس کے قلم سے نکلی تحریر آگ کے شعلوں کی طرح ریڈرز کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی ۔ اس کے فلوورز بڑھنے لگے ۔ بڑھتے بڑھتے اس کے پیج پر 80k پلس فلورز نے ڈیرہ ڈال لیا ۔ اب جنابہ پری ناز راٸٹس قلمی نام سے مشہور ہوگٸیں ۔ ان کا گھر دو افراد پر ہرکز مشتمل نہیں ہے تایا تاٸ ان کے چار عدد بچے ۔ جس میں دو بڑی بیٹیوں کی وہ شادی کرچکے تھے ۔ اب ان کے صرف دو بچے بچے تھے ۔ ایک بیٹی فابیحہ جو اس سے بڑی تھی اور ایک بیٹا اذلان جو اس سے چھوٹا تھا ۔ اس کی خود کی فیملی میں تو بس ایک اس کے بھیا ارحم تھے اور ایک وہ خود تھی ۔ اس کے پیداٸش کے بعد کچھ پچیدگیوں کے سبب اس کے اور بھاٸ بہن نا آسکے ۔ اب وہ سب غاٸب کیوں ہیں یہ بھی بتاہی دیں ۔ دراصل ان کی بڑی پھپھو کی منجھلی بیٹی کی شادی تھی ۔ اور انہیں دنوں اسے رکے ہوۓ دو پرچوں کی ڈیٹ شیٹ آگٸ ۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے کہ پیپرز اس کی نااہلی کی وجہ سے رہ گۓ تو آپ غلط سوچ رہے ہیں ۔ یونی کے فاٸنل ایٸر میں لاسٹ کے دوپیپر رہتے تھے ۔ جب اچانک دعاۓخیر کی طبیعت بگڑگٸ ۔ ٹیسٹ کروانے تو پتاچلا اسے ڈینگی ہوگیا ۔ لو جی گٸ بھنیس پانی میں ۔ اس کی طبیعت ٹھیک ہونے میں کافی ٹاٸم لگا ۔ پھر اس کے بعد ملک گیر لاک ڈاٶن لگ گیا ۔ اس کے بعد پھرررر کہیں جاکر اب اسے اپنے رکے پپیرز دوبارہ دینے کا شرف حاصل ہورہا تھا ۔ پیپرز کی وجہ سے شادی میں جانے کا سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ سب گھر والے اس کے غم میں برابر کے شریک رہے ۔ سواۓ والدہ ماجدہ کے ۔ اور تو اور اس کا غم غلط کرنے کیلۓ اس سے تعزیتی کلمات بھی ادا کرتے رہے ۔ پھر اسے یونہی غم میں چھوڑ سیالکوٹ سدھار گۓ ۔ اس کی والدہ حضور کو ان کے پاس چھوڑ کر ، اس کی والدہ کا زاتی فیصلہ تھا کہ بہن کی خوشی میں بھاٸیوں کا شامل ہونا زیادہ ضروری تھا ۔ ان دنوں روای چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔ وہ پڑھ رہی تھی اور ان کی والدہ اس کا خیال کررہی تھیں ۔ ”واللہ کیا دن تھے“ بقول دعاۓ خیر کے ۔ اچھے دن کی مدت کم ہوتی ہے سو گزر گۓ ۔ وہ سوکر اٹھی تو چاۓ کی طلب نے ستایا ۔ فریش ہوکر نیچے اتری ۔ کچن میں ان کی والدہ فریش دودھ ابالنے کی تیاری کررہی تھیں ۔ ان کے ہاں دودھ شام کو آتا تھا ۔ 

”اچھا ہوا تم آگٸیں ۔ میں عصر پڑھ لو وقت تنگ ہورہا ہے ۔ تم زرا یہ دودھ دیکھ لینا۔“اسے دیکھ وہ ریلکس ہوتی بولیں 

”جی ٹھیک ہے ۔“  

اس کی فرمابرداری پر ان کے چہرے پر دھیمی سی مسکان جھلک دیکھلاکر روپوش ہوگٸ ۔ اسے ہدایت دینے کے بعد وہ پلٹ کر کچن سے نکل گٸیں ۔ دعاۓ خیر نے جلدی سے ساٸیڈ میں کیا فون باہر نکالا ۔ اور تیزی کے ساتھ اپنے کم بیک کا بتاکر اپنے لۓ ایک کپ چاۓ بنانے رکھی اور دوسرا چولھا بھی دھیمی آنچ پر جلادیا ۔ چاۓ تھوڑی تھی تو فوراً ہی بن گٸ ۔ اس نے چاۓ مگ میں نکال کر برتن ہاتھ کے ہاتھ دھوۓ ۔ یہ ان کی والدہ کا حکم تھا کہ جو برتن استعمال کرو ہاتھ کے ہاتھ دھوکر رکھو ۔ جتنے دیر میں اس نے سب سمیٹا ۔ اتنی دیر میں ہزار نوٹیفیکشن آگۓ ۔ اس نے ایک ہاتھ میں فون پکڑا اور دوسرے میں مگ ۔ موباٸل میں لگ وہ دودھ کو سوتیلی اولاد سمجھ کر بھول گٸ ۔ جو چولھے کی آنچ تلے رکھا ہوا تھا ۔ سب قسط کی ڈیمانڈ کررہے تھے ۔ ناول میں ہیرو ہیروٸن کی شادی چل رہی تھی ۔ جب اسنے کچھ دن کا بریک لیا ۔ اب وہ سب بےصبرے بن گۓ تھے ۔ اس نے رحمدلی دیکھاٸ اور قسط لکھنے بیٹھ گٸ ۔ مشکل سے آدھی ہی لکھ پاٸ تھی کہ اس کی رحمدلی اسی کے گلے کی ہڈی بن گٸ ۔ اب وہ اسفنج سے رگڑ رگڑ کر چولھا صاف کررہی تھی ۔ ساتھ انیسوی صدی کی ھیروٸن بن کے آٹھ آٹھ آنسو بھی بہارہی تھی۔ 

”کاش آپیا یا تاٸ امی یہاں ہوتیں تو پکا میری مدد کر دیتیں ۔ انہیں علم ہے مجھ سے ایسے کام بلکل نہیں ہوپاتے ۔ ایک وہ ہی میری اپنی غم گہسار ہیں ۔“  

اس نے غم کی تصویر بنے ان دونوں کو شدت سے یاد کیا ۔ آخر دکھ کی گھڑی میں بندہ اپنوں کو ہی یاد کرتا ہے نا؟ 

🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹

ولیمہ کا فنکشن اپنے عروج پر تھا ۔ کوٸ کھانا کھارہا تھا تو کوٸ سیلفی بنارہا تھا ۔ دلہا دلہن کے رشتہ دار کچھ اسٹیج پر تھے تو کچھ کھانے میں مگن نظر آرہے تھے ۔ فابیحہ نے پلیٹ میں بریانی نکالی اور ساتھ تھوڑا سا سلاد رکھ ایک طرف کچھ فیش کے پیس رکھے اور دو پیس چکن کے رکھ کر دوسرے ہاتھ سے کولڈ ڈرنک کی بوتل پکڑے وہ جیسے ہی پلٹی سامنے کی طرف سے آتے اپنے دور کے کزن سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ 

”سوری نبیل بھاٸ!“ اس کے منہ سے جھٹ نکلا 

”ارے آپ کیوں سوری بول رہی ہیں ؟ غلطی میری ہے ۔ میں ہی اچانک آپ کے سامنے آگیا ۔“ بھاٸ ورڈ کو اگنور کرتے وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کی جانب اسماٸل پاس کرتا ایک اسٹاٸل سے بولا ۔ آخر کو سامنے ایک خوبصورت حسینہ موجود تھی ۔ اس کیلۓ یہ ہیرو بننے کا اچھا موقعہ تھا ۔ کچھ عرصے سے وہ پاکستانی ڈراموں میں چھوٹے موٹے کریکٹر کررہا تھا ۔ اسی وجہ سے دن بدن اس کے نازوانداز بدل رہے تھے ۔ کچھ دور بلیک شلوار قمیض پر بلیک ہی واسکٹ میں ملبوس شہزادوں سی آن بان والے ارحم کے ماتھے پر اس منظر گو دیکھ تیوریاں چڑھیں ۔ وہ ساتھ کھڑے کزن سے معزرت کرتا مضبوط قدم اٹھاۓ ان کی سمت چل پڑا ۔ اس وقت کٸ ماٶں اور ان کی بیٹیوں نے اس کے شاندار سراپے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا تھا 

”ویسے میں نے آپ کو کافی ٹاٸم بعد دیکھا ہے ۔ آخری دفعہ آپ میرے بڑے بھاٸ کی شادی میں آٸی تھیں ۔ ہم سب آپ کے رشتہ دار ہی ہیں ۔ آۓ کرے نا ہمارے گھر بھی ، یقین جانیۓ مجھے بہت خوشی ہوگی اگر آپ میرے غریب خانے پر تشریف لاٸیں گیں۔“ وہ ریشم کی طرح اسے لپٹا جارہا تھا ۔جبکہ دوسری طرف وہ بامشکل چہرے پر زبردستی کی مسکان سجاۓ مروت نبھارہی تھی ۔ ورنہ اس چپکو کزن سے اسے بڑی الرجی تھی ۔ وہ اپنا آپ کو ہیرو سمجھ کر سامنے والی کو اپنی ہیروٸن تصور کرنے لگتا تھا ۔ بس بیک گراٶنڈ میوزیک کی کسر باقی رہ جاتی تھی ۔ 

”دراصل بابا کام کی وجہ سے مصروف ہوتے ہیں ۔پھر بیچ میں کافی فاصلہ ہونے کی وجہ سے بھی جلدی جلدی آبھی نہیں سکتے ہیں ۔ اسی لۓ ہم صرف تقریب پر ہی مل پاتے ہیں ۔“ اس نے مفصیل جواب دے کرجان چھڑوانا چاہی 

”بھٸ دل میں یاد ہونی چاہیۓ دوری کیا معنیٰ رکھتی ہے ۔ ہم تو آپ کو ہردم دل میں رکھے یاد کرتے رہتے ہیں ۔“  

کیا اندازِ دلروباٸ تھا ۔ وہ بےچاری تو سٹپٹاٸ گٸ جبکہ نزدیک آتے ارحم نے یہ جملہ ناصرف سماعت فرمایا بلکہ اس کے ماتھے کے بلوں میں بھی کثر تعداد میں اضافہ ہوا ۔

”کیا ہورہا ہے یہاں ؟“ اپنے ازلی سرد لہجے میں اس نے فابیحہ کے پہلو میں کھڑے ہوکر سامنے کھڑے نبیل عرف ہیرو کو مخاطب کیا ۔ وہ اس کے یوں پہلو میں کھڑے ہونے پر سانس روک گٸ ۔ اس کے مخصوص پرفیوم کی خوشبوں اس کے نتھنوں سے ہوتی اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگی ۔ دل نے ایکسپریس جیسی رفتار پکڑی ۔ اس سے پہلے کہ وہی رفتار اس کے قدم بھی پکڑتے تھے ۔ ارحم نے نامحسوس انداز میں اس کی کلاٸ تھام کر اس میراتھون ریس میں دوڑنے سے روک دیا ۔ اس کی اس جرت پر فابیحہ کے ہاتھ سے کولڈ ڈرنک کی بوتل گرتے گرتے بچی ۔ اس نے بامشکل بوتل اور خود کو گرنے سے بچایا تھا

”اَلسَلامُ عَلَيْكُم ! ارحم بھاٸ کیسے ہیں آپ ؟“ خوش دلی سے بولتے اس نے اپنا ہاتھ آگے کردیا 

”وَعَلَيْكُم السَّلَام ! میں تو بلکل ٹھیک ہوں ، تم سناٶ کہا ہوتے ہو؟ میرے نکاح پر بھی نہیں آۓ ۔ حالانکہ پورا خاندان جمع تھا۔“ اس کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں تھام کر چھوڑتا وہ اپنے مخصوص سرد ٹہرے ہوۓ لہجے میں بول نبیل سے رہا تھا لیکن پسینے فابیحہ کے چھوٹ رہے تھے ۔ اس کی جلتی گرفت میں گویا اس کا ہاتھ نہیں دل تھا ۔ جو لمحہ لمحہ ڈوب رہا تھا لیکن مقابل کو چندا فکرناتھی ۔ وہ اس کے معاملے میں واقعی بےرحم واقع ہوا تھا ۔ گرے کلر کی میکسی جس پر سلور کلر کا نہایت عمدہ کام بناہوا تھا ۔ پارلر سے تیار ہوۓ وہ اچھے خاصے زاہد شکن سراپے کے ساتھ آنکھوں کو خیراں کررہی تھی ۔ لیکن مقابل اس کے معاملے میں صدا کا بےحس واقع ہوا تھا بقول فابیحہ!

”بس یار میں ان دنوں لاہور گیاہوا تھا ۔ اس لۓ آنہیں سکا ۔ کام کے سلسلے میں مصروف ہوتا ہوں ۔ آج بھی بڑی مشکل سے ٹاٸم نکالا ہے۔ ویسے بھابھی سے تو ملوایا نہیں ۔ کہاں ہے وہ؟“ اس نے ابھی تک توجہ نہیں دی تھی ۔ ورنہ جتنے استحقاق سے ارحم نے اس کی کلاٸ تھام رکھی تھی ۔ اس نے دیکھ کر ہی سمجھ جانا تھا ۔ پوچھنے کی نوبت ہی نا آتی 

”تمہارے سامنے ہی موجود ہے تمہاری بھابی!“اس نے تمہاری بھابھی پر زور دے کر اپنے پہلو میں سر جھکاۓ سرخ چہرے کے ساتھ کھڑی فابیحہ کی جانب اشارہ کیا 

”فابیحہ!“ اس کے منہ سے پھنسی پھنسی سی آواز شاک کی صورت برآمد ہوٸ 

”بھابھی!“ اس نے سنجیدگی سے درستگی کی ۔ اس کو اپنا وہاں رکنا محال لگا ۔ وہ تیزی سے اپنا ہاتھ چھڑواتی دو سیکنڈ میں وہاں سے غاٸب ہوٸ تھی۔  

وہ اچھے سے سمجھ جکی تھی اس کی آمد کا مقصد ، اس کی اب کلاس لگنی تھی ۔ یہ تو بات پکی تھی ۔ ارحم نے ناگواری بھری نظر پھرتی سے غاٸب ہوتی فابیحہ پر ڈالی ۔ اسے زرا پسند نا آیا اس کا یوں ہاتھ چھوڑاکر جانا ۔ جبکہ نبیل صاحب ابھی تک شاک کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ ان کے ارمانوں کا قاتلِ عام ہوا تھا ۔ اس نے فابیحہ کے چاندنی سے چمکتے سراپے کو دیکھ آج ہی اپنی والدہ سے اس کے رشتے کی بات کرنی تھی ۔ لیکن اس کے ارمانوں پر ارحم نے اوس نہیں بلکہ پورا برف کا تودا گرادیا تھا اور اس کے ارمان اس تودے تلے دب کر آخری سانس لے رہے تھے ۔

🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹

”میری پیاری آپی ! آپ کے چہرے کا رنگ اس قدر اڑا ہے جیسے آپ یہ کھانا نکال کر نہیں بلکہ چراکر لاٸیں ہوں ، اور اس ماہان چوری کو کرتے کسی نے آپ کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا ہو ۔ بلکہ کسی کیوں کہیں اپنے ارحم جیجو کہہ لیتے ہیں ۔“ اذلان اپنی پلیٹ بمعہ دو عدد کولڈڈرنک کے ٹیبل پر رکھتا اس کے قریب رکھی چیٸر پر بیٹھتے شرارت سے آنکھیں گھماتے گویا ہوا ۔ 

”کیا فضول بولے جارہے ہو؟“ اس نے اپنی خفت مٹاتے اسے جھڑکا تو وہ کاندھے اچکاتا اپنی پلیٹ پر جھک گیا   

”میں ہمیشہ ارحم بھیا کو باغور دیکھتا ہوں۔“ منہ میں بریانی کا چمچہ بھرکر ڈالے وہ اب کولڈ ڈرنک کا گھونٹ بھررہا تھا ۔ اس کے سنجیدگی سے پرلہجے پر فابیحہ نے چونک کر اس کی جانب  دیکھا   

”غور سے کیوں دیکھتے ہو؟“ وہ کھانا چھوڑ کر پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوتی متجسس سی بول اٹھی

”ان کا چہرہ اتنا خوفناک تو نہیں جو آپ کے چہرے کا رنگ انہیں اپنے سامنے دیکھ گلابی سے سفید ہوجاتا ہے ۔ جیسے آپ کے منہ پر کسی نے چونے کی کونچی ماردی ہو۔“ وہ سنجیدگی سے کہتا آخر میں خود ہی اپنی بات سے لطف لیتا ہنس پڑا ۔ اس کی شرارت سمجھتے فابیحہ نے اسے سخت گھوری سے نوازہ تو اس نے جھٹ مسکینوں والی شکل بناکر اپنی کان کی لو کو چھوا کر زیرلب سوری کہا 

”تم کبھی سریس ہوسکتے ہو؟“ وہ اس کی حرکتوں سے عاجز بھناکر بولی

 ”قسمے! میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی شادی والے دن میں قاضی کے سامنے ”قبول ہے“ پوری سنجیدگی سے بولوں گا۔“ وہ سرکو خم کۓ نہایت عاجزی سے گویا ہوا ۔ لیکن اس کی لاٸٹ براٶن بڑی بڑی آنکھیں شرارت کے سبب ستاروں کے جیسی ٹمٹمارہی تھیں۔  

اس کی بات سنتی فابیحہ کے گداز لبوں پر مسکان آٸ تھی ۔ اس کی شرارت کے سبب اس نے اس کے چوڑے شانے پر اپنے ہاتھ کی سلامی پیش کی تو ہنس پڑا 

”کہاں سے لاتے ہو یہ اوٹ پٹانگ باتیں؟“ وہ بھی ریلکس سی اپنے کھانے کی سمت متوجہ ہوتی مسکرا پوچھنے لگی 

 ”الحَمْدُ ِلله میں نے کبھی غرور نہیں کیا۔“ اس نے اپنی شہادت کی انگلی اپنی کنپٹی پر مار کر فخریہ انداز میں کہا 

”چلنے کا کیا پروگرام ہے ۔ وہاں بچاری دعاۓ خیر پریشان ہورہی ہوگی ۔ کس قدر خوش اور پرجوش تھی وہ یہاں آنے کیلۓ لیکن بورڈ والوں کی مہربانی کے سبب کیسل ہوۓ پیپرز کا بم اچانک بےچارے اسٹوڈنٹ پر مار دیا ۔ اتنی سی شکل نکل آٸ تھی اس بچاری کی ۔۔۔۔“ وہ تصور میں اس کا اترا چہرہ  یاد کرتی افسردہ ہوٸ ۔ ان دونوں کی دوستی بھی مثالی تھی ۔ عمروں میں فرق کے باوجود وہ دونوں بہترین دوستیں تھیں ۔ دوستی کے ساتھ ساتھ فابیحہ اسے پروٹیکٹ بھی کرتی تھی اور اس کا بےحد خیال بھی رکھتی تھی۔ 

”ویسے اپیا! ایک بات تو بتاٸیں؟“ وہ پرسوچ انداز میں اس سے مخاطب ہوا 

”ہاں بولو!“ وہ کھانے سے مکمل انصافکرتی بولی 

”دعاۓخیر! آپ کو کس اینگل سے آپ کو معصوم لگتی ہے؟“ اس کے معصومانہ سوال پر اس نے اسے گھورکر دیکھا

”بہت بدتمیز ہورہے ہوتم اذلان کے بچے! ابھی جو وہ یہاں ہوتی اور تمہارے یہ ارشاد اپنے بارے میں سنتی تو تمہاری یہ کولڈ ڈرنگ جیسے تم پی رہے ہو۔ اب تک تمہارے سر پر الٹ چکی ہوتی ۔“ وہ اس کے شولڈر پر ہاتھ مارتی ہنس کربولی 

”جیسے میں بہت آرام سے اس کی کارواٸ برداشت کرلیتا؟“ بولتے ہوۓ اس نے ایک آٸبرو اٹھاٸ تو وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی ۔ اس نے اپنی کلر اسماٸل  

پاس کی اور کھانے کی جانب متوجہ ہوگیا 

”وہ تم سے بڑی ہے ۔اس کا ادب کیا کرو۔ اچھا نہیں لگتا کہ تم سب کے سامنے اسے یوں نام لیکر پکارو۔ اگر کوٸ اور سننے گا تو کیا سوچے گا؟“ اب کے اس کا انداز تادیبی تھا

”میری پیاری بھولی بھالی اپیا ! میں کس اینگل سے آپ کو اس سے چھوٹا دیکھتا ہوں؟“ اس نے اپنی روشن آنکھیں اس کی جانب مرکوز کۓ سوال کیا ۔  

فابیحہ نے اپنے خوبرو بھاٸ کو باغور دیکھا ۔ بلیک ٹو پیس میں اونچا لمبا ڈیشنگ پرسنلیٹی کا مالک اذلان وارث! گولڈن براٶن سلکی بال جو اکثر اس کے چوڑے ماتھے پر بکھربکھر جاتے تھے ۔ کلین شیو روشن جگمگاتا چہرہ ، بڑی بڑی لاٸٹ براٶن آنکھیں، کھڑی مغرور ناک ۔ اس کے ہونٹ گلابی تھی ۔ کیونکہ وہ سگریٹ نہیں پیتا تھا ۔ واٸٹ چمکدار دانت ۔ کھلتی گندمی رنگت ، کٸ لڑکیوں کا خواب تھا وہ ۔ اس نے یہاں بھی کٸ لڑکیوں کو اس کی جانب متوجہ ہوتے دیکھا تھا ۔ لیکن وہ سب سے بےنیاز بس خود میں مگن سا تھا ۔ عادت کے لحاظ سے بھی وہ گھر میں خوب ہی رونق لگاتا تھا ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ ٹھیک تھاکہ گھر کی ساری رونق اسی کے دم قدم سے تھی ۔  

”جاٸزہ مکمل ہوگیا ہوتو ماشاءاللہ بھی کہہ دیں۔ نظر لگ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔“ اس کی شرارت بھری آواز ابھری 

”ماشاءاللہ!“ اس کے منہ سے بےساختہ نکلا

”میرے پیارے بچوں ڈنر ہوگیا ؟“ وارث صاحب نے پیچھے سے آکر اپنے بیٹے کے شانے پر دونوں ہاتھ دھرے دونوں کو مخاطب کرتے مسکراکے پوچھا 

”جانب بس اختیتامی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔  

آۓ آپ حضرات بھی ہمیں جواٸن کریں۔“ وہ اذلان ہی کیا جو سیدھا جواب دے دے ۔ اس نے گردن ترچھی کۓ باپ کے ساتھ کھڑے چچاکو بھی مخاطب کیا   

”نہیں بھٸ تم لوگ کھاٶ، ہم تو آپا کے ساتھ کھاچکے ہیں۔“ حارث صاحب مسکراکر گویا ہوۓ 

”ہاں جی! معلوم ہے ۔ آپ دونوں حضرات یہاں آکر ہم معصوموں کے بھول ہی گۓ ہیں ۔ یوں جیسے ہم آپ کی سگی اولاد ہی نا ہوں ۔ مکمل اگنور کیاہوا ہے ۔“ وہ نروٹھے بچے کی طرح شکوہ کناں ہوا تو دونوں بھاٸ قہقہ لگا اٹھے جبکہ اس کے بچکانہ شکوے پر فابیحہ بھی ہنس پڑی  

”میرے بچے کو بچپن سے ہی اگنور ہونا پسند نہیں ہے۔ بچپن میں بھی جب ہم کسی اور پر توجہ دیتے تھے تو یہ رونا شروع ہوجاتا تھا اور ہم سب پریشان ہوتے تھے ۔ وجہ ڈھونڈتے اس کے رونے کی ۔ پھر آہستہ آہستہ سمجھ آیا کہ صاحب بہادر کو اپنا نظرانداز ہونا پسند نہیں۔“ وہ اس کے سر پر پیار سے چپت لگاکر بولے تو وہ بغیر شرمندہ ہوا ہنس پڑا 

”میری ابھی دعاۓ خیر سے بات ہوٸ ہے ۔ وہ وہاں اکیلی بہت پریشان ہورہی ہے ، اور تمہاری چچی کی بھی نجانے کون کون سے ظلم کی داستانیں سنارہی تھی ۔ چولھے کی صفاٸ کے دوران اس کی انگلی پر کٹ بھی لگ گیا ۔ تمہیں پتاہے اس کا خون دیکھ کر برا حال ہوجاتا ہے ۔ تمہاری چچی بھی اکیلی ہیں وہاں پریشان ہورہی ہیں ۔ میں نے باجی سے بات کرلی ہے ۔ تم دونوں اپنی پیکنگ کرلینا ۔ ہم کل دوپہر تک نکل جاٸیں گے ۔“ وارث صاحب سنجیدگی سے بولا تو ان دونوں نے اثبات میں سرہلایا ۔ دونوں ہی اس کی تکلیف کا سن کر پریشان ہوچکے تھے۔ نجانے اسے کتنی چوٹ لگی ہے؟ اضطراب اور تفکر میں گھیرے ان دونوں نے ایک ساتھ ایک ہی بات سوچی تھی 

”ارحم کہاں ہے؟“ حارث صاحب کے پوچھنے پر فابیحہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوٸ ۔ وہ کھانا ختم کرچکی تھی ۔ اس نے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا اور آس پاس نظریں دوڑاٸیں ۔ وہ کچھ دور ٹیبل پر بیٹھا نظر آگیا ۔ اس کا ساٸیڈ پوز ہی نظر آرہا تھا ۔ اس نے سرعت سے نظریں چراٸیں 

”وہ عاقب (کزن)اور اس کے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہے ۔ میں اسے بھی بتاکر آتا ہوں ۔“ وہ سنجیدگی سے بول کر اس کی جانب بڑھ گۓ

”ڈنرکرلیا ہے تو تم دونوں بھی آجاٶ، آپا فیملی فوٹو کے لۓ بول رہی تھیں ۔“ وہ ان دونوں کو اپنے ساتھ آنے کا کہتے واپس چلے گۓ ۔ ان کے جاتے ہی وہ دونوں بھی اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوۓ  

تھے ۔

”شکر ہے میرے پاس زو*گ کمپنی والوں کی مہربانی سے خود کا زاتی ڈیٹا موجود ہے ۔ ورنہ والدہ سے تو بےعزتی ہوٸ سو ہوٸ ، ریڈرز کے سامنے بھی سبکی اٹھانی پڑتی ۔ ویسے میری انگلی کٹ گٸ ہے ۔ لیپ ٹاپ پر تو ویسے بھی ڈھنگ سے لکھا نہیں جاتا ۔ موباٸل پر ہی آرام سے لیٹ کر انگوٹھے کا استعمال کرلیتی ہوں ۔“ خود کلامی کرتی وہ تکیے کو درست کرتی بستر پر نیم دراز ہوگٸ ۔ ایک دفعہ پھر اس نے اپنی شہادت کی انگلی کو دیکھا جو کام کے دوران شہید ہوگٸ تھی ۔ اس وقت انگلی پر سنی پلاسٹ لگا تھا ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کٹ گہرا نہیں تھا ۔ بس انگلی پر تھوڑی گہری خراش تھی ۔ یہ سنی پلاسٹ بھی والدہ صاحبہ نے گھوری ڈال ڈال کر اس کا خون خشک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی انگلی پر لپیٹا تھا ۔ ایک گھنٹے میں اس نے قسط مکمل کرکے پوسٹ کردی اور اب وہ مزے سے یوٹیوب پر اپناپسندیدہ ڈرامہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ کرینکل چپس سے بھی لطف اندوز ہورہی تھی ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ اور کھانے پینے کا ذخیرہ اس کے پاس موجود تھا ۔ وہ واپس آتے ہوۓ یہ سب خود لیکر آٸ تھی ، اور اپنی والدہ حضور کے کمرے میں ہونے کا فاٸدہ اٹھاکر اس نے وہ تمام چیزیں انڈرگراٶنڈ کردیں تھیں ۔ وہ رات اگر جاگ رہی ہوتی تھی تو کچھ نا کچھ اسے کھانے کو چاہیۓ ہوتا تھا۔ جاگتی وہ دوصورتوں میں تھی ۔ یا تو کسی دوسری راٸٹر کے ناول پڑھ رہی ہوتی تھی یا پھر اپنے ناول کی قسط لکھ رہی ہوتی تھی ۔ لیکن زیادہ دیر تک نہیں جاگ پاتی تھی ۔ کیونکہ اس سے جاگا جو نہیں جاتا تھا ۔ آنکھیں بوجھل ہوکر بند ہونے لگتی اور وہ سب کچھ بھاڑ میں جھونک سوجاتی ۔ کمنٹس آنا شروع ہوۓ تو وہ پرجوش سے اٹھ بیٹھی ۔


ٹیگ

نیکسٹ

اسٹیکر

زبردست

اس کمنٹس پر اس کا مزید خون جلا


”یاررر کیا ہوجاۓ گا جو یہ ریڈرز اسطرح کے میسج ناکریں۔ بندہ دو لفظ لکھ دیتا ہے ۔ کسی کردار کو لیکر پسندیدگی یا ناپسندگی کا ظاہر کردیتا ہے ۔ یہ بھی نا تو قسط پر کوٸ تبصرہ ہی کردیتا ہے ۔ مگر ناجی ایسا لگتا ہے کہ اگر انہوں نے کچھ بھی ایسا کہا تو ٹیکس لگ جاۓ گا یا پھر ان کے ڈیٹے نے فوت ہوجانا ہے۔ اوپر سے ان حضرات کو دیکھوں جو نجانے کون سی مخلوق ہیں ۔جوقسط ریڈ کرکے پتلی گلی سے یوں نکل جاتے ہیں جیسے ہمیں علم ہی نہیں ۔ پتا نہیں یہ ریڈرز کنجوس مکھی چوس کے کن قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو لاٸک کو ٹچ کۓ بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ مطلب حد ہی ہے۔ جب یوں گونگے بہروں کی طرح رہنا ہے تو گروپ کیوں جواٸن کیا ہے؟ “ وہ اسکرین دیکھتی جھکی بڑھیا کی طرح بڑبڑانا شروع ہوچکی تھی ۔


زبردست

ناٸس

اسٹیکر


”سجاد نے بلکل اچھا نہیں کیا، کوٸ یوں بھی اپنی بیوی پر شک کرتا ہے ۔“

”مجھے تو سب سے پیاری جوڑی عدیل اور ہما کی لگتی ہے۔ جب وہ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو قسمے دل دھڑک اٹھتا ہے۔“

”آپ کی ہر اسٹوری دوسرے ناول سے الگ ہوتی ہے ۔ ہر دفعہ کچھ الگ کچھ منفرد پڑھ کے مزا آتا ہے۔“


”یہ ناول اختیتامی مراحل میں ہے ۔ لیکن پلیز اس کے ختم ہوتے ہی دوسرا ناول اسٹارٹ کردیجۓ گا ۔

زیادہ گیپ نہیں لیجۓ گا بیچ میں۔“


”آپ کے چار ناولز آچکے ہیں اور چاروں ہی زبردست تھے ۔ پانچواں یہ چل رہا ہے ۔ اس کا ٹاپک بھی کمال کا ہے ۔ آپ ایج ڈیفرنس پر بھی ناول لکھے نا؟ جس میں لڑکا چھوٹا ہو اور لڑکی بڑی ہو ۔“ سب میسجز کو ریڈ کرکے رپلاۓ کرتی وہ اس میسج تک آٸ


”ڈیٸر! یہ ٹاپک مجھے ویسے خاص پسند نہیں ہے لیکن آپ نے کہا ہے تو ضرور سوچوں گی۔“ بظاہر مسکراتے ایموجی کے ساتھ اس نے رپلاٸ کردیا تھا لیکن اصل میں اس کی شکل پر غصیلے تاثرات تھے ۔ اسے اس قسم کے ناولز پڑھنے سے ہی چڑتھی کجاکہ وہ خود اس ٹاپک پر لکھے ۔


”میں تو کبھی نا لکھوں اس ٹاپک پر ، بھلا بتاٶ جس کزن کو گود میں کھلایا ہو ۔ دو چپت لگاٸ ہو اور اس کی چیز چھین کر کھاٸ ہو ، اب ایسے بچے سے بھلا کوٸ نکاح کرسکتا ہے؟ میں تو کبھی ناکروں اپنے سے چھوٹے کزن سے شادی ، اتنا بےجوڑ رشتہ ہوجاتا ہے ۔ اوپر سے چھوٹے کزنز رج کے نان سریس ہوتے ہیں ۔ مجھے تو سیریس رعب دار اور تھوڑے اکڑو مرد اچھے لگتے ہیں ۔ جیسے میرے پیارے ارحم بھیا! میں تو ہیرو کا کردار بھی انہیں کو دیکھ کر لکھتی ہوں ۔ مجھے نہیں پسند یہ ایج ڈیفرنس کاکے کی کہانی۔“ اس نے ناک چڑاکر نخوت سے کہا


وہ ابھی اور اپنے نادرونایاب خیالات کا اظہارکرتی کہ اس کا فون رنگ ہونے لگا ۔ اس نے اسکرین دیکھی ۔ فابیحہ کی پیاری سی نکاح کی پیک کے ساتھ اس کے ساتھ بھابھی لفظ جگمگارہا تھا ۔ دعاۓخیر کے چہرے پر مسکراہٹ کھل اٹھی ۔ اس نے فوراً کال ریسو کی


”اَلسَلامُ عَلَيْكُم!“ اس نے چہک کر سلامتی بھیجی

”وَعَلَيْكُم السَّلَام! میری گڑیا کیسی ہے؟“ اسنے سلامتی کا جواب سلامتی سے دیتے پیار بھرے میٹھے لہجے میں استفسار کیا


”میں بلکل اچھی نہیں ہوں ۔ آپ لوگوں کے بغیر دل بلکل بھی نہیں لگ رہا ۔ اوپر سے والدہ نے آج مجھے اکیلا پاکر بلکل سوتیلی ماں والا سلوک کیا ہے۔ رج کے بےعزتی کی جب اس سے بھی دل نے بھارا تو کچن کی صفاٸ کرواٸ جس کے نتیجے میں میری انگلی شہادت کا رتپہ پاتے پاتے رہ گٸ۔ انگلی پر کٹ دیکھ کر بھی ان کا دل نہیں پگلا بلکہ انہوں نے اس پر بھی یوں مجھے گھورا جیسے نظروں ہی نظروں میں کچاچباجاٸیں گیں ۔مطلب حد ہی ہوگٸ۔“ وہ اپنے جلے دل کے پھاپھوڑے پھوڑنے کے ساتھ اسے آپ بیتی دکھ بھری داستان بھی سنانے لگی ۔ جس پر کبھی تو فابیحہ کے چہرے پر مسکان آٸ تو کبھی افسوس چھلکا ۔ ایک جگہ تو اس نے بڑی مشکل سے اپنا قہقہ کنٹرول کیا تھا ۔


”دادی نے تمہارا نام بلکل غلط رکھا ، دعاۓخیر! نام کا تو بلکل اثر نہیں تم پر، خیر تو نہیں البتہ شر سے تمہارے ہم سب کو اللہ بچاۓ۔“ یہ دل جلاتی نشتر کی طرح چبتی آواز اذلان کی تھی ۔ چینج کرنے کے بعد فابیحہ نے اسپیکر پر کال ڈالی کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں پیروں سے نیل پالش ریمو کررہی تھی ۔ اسے پتا نہیں چلا کب اذلان روم میں آیا اور ساری باتیں سننے کے بعد اب خود بھی بیچ میں کود پڑا تھا ۔ فابیحہ نے تنبیہہ نظروں سے اسے گھورا تو اس نے جھٹ اپنے چمکیلے دانتوں کی نماٸش کی


”تم لنگور! اس وقت اپیا کے روم میں کیا کررہے ہو؟ نکلو ابھی کے ابھی وہاں سے۔“ وہ غصے میں اس پر رعب جھاڑتی گویا ہوٸ


”لنگور نہیں انگور وہ بھی کھٹے ، تمہارے کسی کام کے نہیں۔“ وہ برجستہ بولتے اس کا دل جلاکر خاکستر کرگیا ۔ جانتا جوتھاکہ کٹھی چیزیں اس کی کمزوری ہیں لیکن وہ کھا نہیں سکتی ۔ کیونکہ کھٹا کھانے سے اس کا گلا فوراً خراب ہوجاتا تھا ۔


”اپیا دیکھیں ایسے کس طرح مجھ سے بات کررہا ہے۔ میں نے بڑے ابو سے شکایت لگانی ہے ۔ آنے دیں انہیں واپس ۔“ بولتے بولتے اس کا لہجہ بھیگ گیا ۔ ایک تو پہلے ہی والدہ سے ڈانٹ سنی پھر انگلی پر کٹ لگا ۔ اس پر وہ بھی اس کا معصوم دل جلارہا تھا ۔ ایسے میں اس کا حساس دل دکھا اور لہجے میں نمی گھل گٸ ۔ اذلان اس کا نم لہجہ محسوس کرتے ایک دم بےچین ہوا


”رونا مت دعاۓخیر! اچھا نہیں ہوگا۔“ اذلان کی تنبیہہ آواز پر اس کے روکے آنسو بہنے لگے ۔ اس کے رونے کی آواز صاف آرہی تھی ۔ اذلان کے اعصاب تن گۓ جبکہ وہ خود جھنجھلاساگیا


”اب بھلابتاٶں میں نے کیا اسے وٹا کھینچ مارا ہے۔ جو یہ اس طرح روکر مجھے شرمندہ کررہی ہے۔“ وہ جب بولا تو لہجے میں بےچارگی رچی بسی تھی


”میری گڑیا ! رونا بندکرو ۔ پتا ہے نا تمہاری آنکھ میں آنسو برداشت نہیں ہمیں؟اور خبردار اذلان جو تم نے اب اسے تنگ کیا ، اس نے تو نہیں لیکن میں نے بابا سے تمہارے کان کھینچوانے ہیں ۔“ دعاۓخیر کو پیار سے پچھکارتے آخر میں وہ اذلان کے شانےپر دھپ مارتی اسے گھوری ڈال کے تنبیہہ بارعب لہجے میں بولی


”بس آپ لوگ جلدی سے واپس آجاٸیں ۔ مجھے عادت نہیں یوں اکیلے رہنے کی ۔ میرا بلکل بھی دل نہیں لگ رہا ۔ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے ۔“ وہ ناک چڑاکر سوں سوں کرتی بولی

اس کی درد میں ڈوبی آواز اسے بےچین کرگٸ تھی ۔ جبکہ دوسری جانب وہ تیکھے انداز میں بول رہی تھی


”اور اس اذلان سے بھی بول دیں ، آج کے بعد مجھ سے بات نا کرے ۔ بہت بدتمیز ہوگیا ہے ۔ چھوٹے بڑے کا زرا لحاظ نہیں۔ مجھ سے بات ایسی کرتا ہے جیسے یہ نہیں میں اس سے چھوٹی ہوں ۔ بچپن کی مار بھول گیا ہےنا تبھی اتنے پر پرزے نکل رہے ہیں ۔ اب آجاٶ بچو تمہاری میں خیر بجالاتی ہوں۔“ اب کے اس کے لہجے میں دبا دبا غصے تھا اور ساتھ وہ اسے دھمکا بھی رہی تھی ۔ اس کی بات سنتے اذلان نے دانت کچکا کے ایک شکایتی نظر فابیحہ پر ڈال کے دوسری غصیلی نظر سے فون کو گھورا جیسے سامنے وہ دشمن جاں بیٹھی ہو ۔ جو دھیرے دھیرے اس کے دل کا آزار بنتی جارہی تھی


”تم اپنا خون مت جلاٶ ۔ میں نے تمہیں ایک اچھی خبر کیلۓ فون کیا تھا ۔“ وہ ریمور اور کارٹن ساٸیڈ پر رکھتے ہوۓ مسکراکر بولی ۔ اذلان کے تاثرات اس نے اگنورکردیۓ تھے ۔ جس وجہ سے اس کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہوا تھا ۔


”جلدی بتاٸیں اچھی خبر کیا ہے؟“ وہ پرجوش سے بول اٹھی


”اچھی خبر یہ کہ ہم کل واپس آرہے ہیں۔“ وہ مسکراہٹ دباۓ بولیا


یاہو! دوسری جانب اس نے بیڈ پر کھڑے ہوکر نعرہ مارا اور گول گھوم گٸ ۔ اس بچکانہ انداز پر ان دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ آٸ تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ خوشی کی حالت میں نعرہ مار کر وہ گول گول گھومتی تھی ۔ اس کی یہ عادت اسے بچپن سے تھی ۔


”سچ بول رہی ہیں؟“ وہ دھم سے واپس بیٹھتی منتشرسانسوں کے درمیان بولی


”تم سے بات کرنے کے بعد میں نے پیکنگ کرنی ہے۔ ابو بول چکے ہیں کہ ہم کل کراچی کیلۓ نکل جاٸیں گے۔ وہ چھوڑو یہ بتاٶ پیپرز کیسے ہوۓ تمہارے؟“ وہ مسکراکربولتی آخر میں پیپرز کا پوچھنے لگی ۔


” پیپرز تو ماشاءاللہ بہت اچھے ہوۓ ہیں اور رزلٹ بھی ان شاء اللہ اچھا آۓگا۔ آپ یہ باتیں چھوڑیں آپ پیکنگ کریں ۔ باقی کی گفتگو روبرو مل کر کریں گیں۔ اللہ حافظ!“ وہ اکساٸٹیڈ سی بول کر کال منقطع کرگٸ


”تم اسے تنگ کیوں کرتے ہو جب اس کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کرسکتے؟“ اب وہ کڑے تیوروں سے اس سے استفسار کررہی تھی ۔ فابیحہ کے پوچھنے پر وہ معصومیت سے آنکھیں موندے اپنی آٸبرو سہلانے لگا

”اب کہا تنگ کرتا ہوں ۔ ابھی بھی میں نے کچھ ایسا نہیں بولا ۔ وہ خود ہی رنجور ہوتے روپڑی۔“ وہ اپنی صفاٸ میں شرارتاًمنمناکر میں بولا

”تم نے بہت مشکل رستہ چناہے۔“ اس نے مبہم انداز میں جتایا

”مشکل راستوں پر چلنے میں جو مزا ہےنا اپیا وہ آسان راستوں میں کہاں؟“ اب کے وہ معنی خیزی سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا


”چلیں اب آپ بھی پیکنگ کرلیں میں بھی جارہا ہو

پیکنگ کرنے ۔ دل تو ویسے میرا بھی یہاں نہیں لگ رہا۔“ وہ شرارت سے کہتا ایک آنکھ ونگ کرتے روم سے نکل گیا ۔ پیچھے وہ ہنستے ہوۓ بیڈ کے نیچے سے اپنا بیگ نکلنے لگی تاکہ پیکنگ کرسکے ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


وارث صاحب روم میں داخل ہوۓ تو سلیمہ بیگم بیڈ پر نیم دراز کسی گہری سوچ میں گم تھیں ۔ نا ہی انہوں نے دروازہ کھلنے کا نوٹس لیا اور نا ہی وارث صاحب کے روم میں آنے کا ۔ وہ حیران ہوتے ان کے قریب بیٹھے تو ایک دم چونک گٸیں


”خیریت! کوٸ پریشانی ہے کیا؟ جو آپ اس قدر محو تھیں کہ اپنے مزاجی خدا کے آنے کی بھی خبر نا ہوٸ۔“وہ بولے تو چہرہ سنجیدہ تھا لیکن لہجے میں شرارت کا عنصر شامل تھا ۔ ان کی بات سنتی وہ پریشان سی اٹھ بیٹھیں ۔


”آپ کو علم ہے کہ آج آپا نے مجھ سے کیا بات کی؟“

وہ الجھے ہوۓ لہجے میں بولیں


”آپ بتاٶ گی تو پتا چلےگا نا، مجھے الہام نہیں ہوتے۔“ وہ اپنے سابقہ لہجے میں گویا ہوۓ


”اذلان بلکل آپ کر ہی گیا ہے ۔ کبھی جو کسی بات کو سریس لیں آپ!“ اب کے وہ جھنجھلاکر بولیں


”اچھابابا ! ناراض مت ہو، میں بلکل سریس ہوں۔ صاف صاف بتاٶ! کیا مسٸلہ ہے؟“ اب کے وہ ان کے ہاتھ تھماے سنجیدگی سے گویا ہوۓ


”آپا نے بتایا ہے کہ ان کی چھوٹی نند اپنے بیٹے کیلۓ دعاۓ خیر کا رشتہ چارہی ہیں۔“ وہ پریشانی سے بتانے لگیں


”یہ تو اچھی خبر ہے ۔ ان کے بیٹے کو میں جانتا ہوں ۔ ماشاءاللہ اچھا بچہ ہے ۔ اپنا گھر ہے ۔ جاب بھی اچھی ہے ۔ پھر لوگ بھی دیکھیں بھالے ہیں ۔“ ان کےمطمین لب و لہجے پر سلیمہ بیگم کا اطمینان غارت ہوا

”آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ۔ میں یہ نہیں چاہتی۔“ وہ ایک بار پھرجھنجھلاکر بولیں


”پھر آپ کیا چاہتی ہیں وہ بتادیں؟“ وہ اب کے حیرانگی سے گویا ہوۓ ۔ اتنا اچھا رشتہ ملنے پر تو انہیں خوش ہونا چاہیۓ تھے ۔ وہ جانتے تھےکہ دعاۓخیر ان کی لاڈلی تھی ۔ وہ ایک ماں کی طرح ہی اسے چاہتیں تھیں ۔ اس کی پیداٸش کے بعد ثروت بیگم (دعاۓخیرکی والدہ) کی کافی طبیعت خراب رہی تھی ۔ ایسے میں اس ننھی پری کی ساری ذمہ داری انہوں نے باخوشی اٹھاٸ تھی ۔ وہ بچپن سے ہی بہت پیاری نازک سی گڑیا جیسی تھی ۔ جو بھی اسے دیکھتا اس کا دیوانہ ہوجاتا ۔ اس کے چہرے پر عجیب سے ملاٸمت اور معصومیت تھی ۔ جو دیکھنے والے کو اپنی جانب کھینچتی تھی ۔ وہی ملاٸمت اور معصومیت آج بھی اس کے چہرے پر جوں کی توں موجود تھی ۔ اس سے پہلے بھی کافی رشتے اس کیلۓ آۓ تھے لیکن حارث صاحب نے سختی سے منع کردیا تھاکہ جب تک وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کرلیتی تب تک اسی کوٸ بھی بات ناکی جاۓ ۔ لیکن اب ایسا کوٸ مسٸلہ نہیں تھا ۔ وہ پیپرز دے چکی تھی ۔ آج نہیں تو کل اس کا رشتہ ہوہی جانا تھا ۔ آج جب ان کی نند نے یہ بات ان سے کی تو وہ پریشان ہوگٸیں ۔ انہوں نے سوچ لیا وہ اپنے شوہر سے اپنے دل کی خواہش ضرور بیان کریں گیں ۔ آج موقع تھا سو وہ بول پڑیں


”میں چاہتی ہوں کہ دعاۓ خیر ہماری بہو بن کر آۓ۔ میری اذلان کی دلہن بنے ۔“ وہ پرجوش سی بولیں


”سیلمہ ! آپ اگر بھول گٸ ہو تو یاد کروادوں کہ ہمارا اذلان اس سے چھوٹا ہے ۔“ ان کی سنجیدگی سے کہی بات پر انہوں نے خفگی بھری نظروں سے انہیں دیکھا


”مشکل سے تین سال ہی چھوٹا ہوگا ، اور آپ تو یوں کہہ رہے ہیں جیسے یہ کوٸ عیب ہو۔“ ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے ۔“ وہ برا مناکر بولیں


”چلیں آپ کی بات مان بھی لی جاۓ تو کیا اذلان اس رشتے پر راضی ہوگا؟ حارث اور ثروت مان جاٸیں گے؟ تمہارا لگاٶ اور محبت بےشک دعاۓخیر سے بہت زیادہ ہے لیکن تم ان سب فیکٹ کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتی ہو۔“ وہ سنجیدگی بول رہے تھے لیکن لہجہ نرم اور انداز سمجھانے والا


”پہلے آپ تو راضی ہوجاٸیں ۔ باقیوں کی باری تو بعد میں آۓ گی ۔“ وہ نروٹھے پن سے بولتیں اپنے ہاتھ چھڑواکر ان سے دور ہوکے بیٹھ گٸیں تو وہ ایک دم ہنس پڑے

”تمہاری اداٸیں آج بھی گھاٸل کرنے والی ہیں اور میرا نازک دل اس عمر میں آپ کے تیکھے نین کے تیر برداشت نہیں کرسکے گا۔“ وہ مسکراہٹ دباۓ دل پر ہاتھ رکھے تھوڑا سا جھک کر شرارت سے بولے


”بس رہنے دیں آپ ! نانا بن چکیں ہیں اور حرکتیں آج بھی مجنوٶں والی ہیں۔ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کی بات کررہی ہوں اور آپ جناب کو اٹکیلاں سوجھ رہی ہیں۔“ وہ اپنی شرماہٹ کو غصے کا پرہن پہناتی ہوٸ جھنجھلاہٹ بھرے لہجے میں گویا ہوٸیں


”اچھا ناراض مت ہو۔ تمہارے خواہش مجھے بھی دل وجان سے عزیز ہے ۔ لیکن وراث اور بھابھی سے بات کرنے سے پہلے اپنے بیٹے کی راۓ لازمی لے لینا ۔ اگر وہ اس رشتے پر راضی ہوا تو تبھی ہم بات آگے بڑھاٸیں گے ۔ بصورت دیگر تم اس بات کو لبوں پر نہیں لاٶ گی۔“ وہ انہیں پیار و نرمی سے سمجھارہے تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی شریک سفر کو نا صرف محبت دی تھی بلکہ اس سے بھی پہلے وہ ان کی عزت کرتے تھے ۔ یہ معاملے دوطرفہ تھے تو اسی لۓ ان کے گھر کا ماحول بھی پرسکوں اور خوشحال تھا ۔

”میرا بیٹا مجھے انکار کررہی نہیں سکے گا۔ ویسے بھی اگر وہ چراغ لیکر بھی ڈھونڈے گا تو اسے دعاۓخیر جیسی لڑکی نہیں ملنے کی۔“ ان کے لہجے میں اپنے بیٹے کولیکر مان تھا تو وہی دعاۓخیرکیلۓ محبت بھی رچی بسی تھی ۔ ان کی بات سنتے وہ ہولے سے مسکراۓ


”اس وقت پتا ہے تم مجھے اذلان سے زیادہ دعاۓخیر کی ماں لگ رہی ہو ۔ جسے اپنی بیٹی دنیا کی حسین ترین براٸیوں سے ممبرا اور اچھاٸیوں کا مجموعا لگتی ہے۔“ وہ انہیں چھیڑتے ہوۓ بولے


”آپ کو اس بچی میں کوٸ براٸ دیکھتی ہے جو یوں بول رہے ہیں ۔“ وہ تیکھے چتونوں سے پوچھنےلگیں


”خدانخواستہ مجھے کیوں اپنی بچی میں کوٸ عیب دیکھے گا۔ مجھے وہ میری باقی بچیوں جیسی ہی پیاری اور عزیز ہے ۔ آپ کی خواہش میری خواہش ہے ۔ بس عمروں کو لیکر میں جھجھک کا شکار ہوں ۔ ماشاءاللہ اذلان خوبرو نوجوان ہے ۔ رزلٹ آنے سے پہلے ہی دیکھوں میرے بغیر کہۓ اپنی ذمہ داری سمجھتا آفس آنا شروع ہوگیا ۔ نیک اور فرمابردار ہے ۔ بس تھوڑا غیر سنجیدہ ہے تو کیا ہوا ہم بھی اس کی عمروں میں ایسے ہی تھے۔ دعاۓخیر کیلۓ اذلان بلکل مناسب ہے ۔“ وہ ایمانداری سے اپنے بیٹے کا تجزیہ کرتےبولے


”پھر میں ابھی ہی جاکر اذلان سے بات کرتی ہوں ۔“

وہ ایک دم بیڈ سے اترکر پرجوش سی بولیں


” میری پیاری بیگم ! کوٸ ایمرجنسی نہیں آگٸ ہے جو آپ یوں ہتھیلی پرسرسوں جمارہی ہو ۔ آپا کی نند نے رشتے کا بولا ہے کوٸ بارات نہیں لیکر آگٸیں جو آپ یوں ہڑبڑی مچارہی ہیں ۔ ٹاٸم دیکھو ، ایک والا ہے ، بچہ سوگیا ہوگا ۔ اب تم بھی سوجاٶ ۔ ویسے بھی وہ کوٸ اکیلا نہیں ہوگا کمرے میں ، موقع کی نزاکت تو دیکھو ۔ یہ سب باتیں آرام سے اپنے گھر پرچل کر کرنے والی ہیں۔“ وہ ان کا ہاتھ پکڑکے انہیں واپس بیٹھاتے ہوۓ بولے


”آپ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں ۔ واقعی رات کافی ہورہی ہے ۔ میں گھر جاکر اطمینان سے اس سے بات کروں گی ۔“ وہ ان کی بات سے متفق ہوتے خاموشی سے اپنی جگہ لیٹ گٸیں ۔ وارث صاحب بھی مطمین ہوتے دوسری ساٸیڈ جاکر سونے کے لۓ لیٹ گۓ ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


فجر پڑھ کر وہ تھکن کی وجہ سے دوبارہ سوگٸ ۔ وہ گہری نیند میں تھی جب اسے اپنے چہرے پر کسی کا جلتا ہوا لمس محسوس ہوا ۔ وہ وہ ہلکا سا کسمساٸ ۔ اب کے وہ لمس اسے اپنے ماتھے پر محسوس ہوا ۔ اسے لگا کوٸ فنگر سے اسکا چہرہ ٹریس کررہا ہے ۔ یہ سوچ ذہن میں آتے ہی وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی ۔ بغیر دوپٹے کے بکھرے بال اور منتشر حواص کے ساتھ اس نے یہاں وہاں دیکھا ۔ اپنی جس کزن کے ساتھ وہ روم اور بیڈ شیٸر کررہی تھی وہ اس وقت کمرے میں موجود نہیں تھی ۔ اس نے سامنے دیکھا اور ہڑبڑاکر سرہانے پڑا دوپٹہ اپنے شانوں پر پھیلا کر تیزی سے اپنی مشکبار کالے گیسوٶں کا الٹا سیدھا جوڑا لپٹ کر اس میں کچر لگالیا ۔ جتنی دیر میں اس نے یہ سب کیا ارحم خاموشی سے سینے پر بازو لپٹے اس کی بوکھلاہٹیں سپاٹ تاثرات سے دیکھتا رہا ۔


”آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟“ فابیحہ نے اس کی کالی گہری نظروں سے نظریں چراتے سٹپٹاکر پوچھا ۔ اس کی گہری نظریں اسے اپنی روح کے آرپار ہوتی محسوس ہورہی تھیں ۔ نیند کی وجہ سے اڑے اڑے ہوش و حواص ابھی تک قابو میں نہیں آۓ تھے ۔ اوپر سے سامنے کھڑے شخص نے اس کے طوطے، مینا، کبوتر سب اڑا چھوڑے تھے ۔ جبکہ وہ اپنی مکمل وجاھت کے ساتھ نک سک سے چاکلیٹی براٶن کلر کے شلوار قمیض میں جیل سے بال سیٹ کۓ خوشبوٶں میں بسا اسے اڑے حواص محسوس کرتا اس کا سوال سن خاموشی سے دیکھنے لگا ۔


”کافی عقلمندانہ سوال ہے ۔ میں متاثر ہوا سن کر ہوں ۔“ وہ محفوظ کن انداز میں اس پر طنزکرتا گویا ہوا ۔ فابیحہ کو لگا جملہ ادا کرتے ہوۓ وہ ظالم مسکرایا ہے ۔ لیکن اسے باغور دیکھنے پر اسے اس کے چہرے پر ڈھونڈنے سے بھی ہلکی سی مسکان تک رساٸ نا ملی ۔


”مجھے ہوکیا جاتا ہے ان کے سامنے؟ کیوں حواص گم اور زبان گنگ ہوجاتی ہے؟میرے سارے اعتماد کا بیڑا غرق ہوکر رہ جاتا ہے ، اور خفت الگ اٹھانی پڑتی ہے۔“ وہ جھنجھلاکر خود کلامی کرتی گویا ہوٸ


”زرا اونچا بولو تاکہ میں بھی تمہارے نادرونایاب خیالات سے فیضیاب ہوسکوں؟“ اس کا ہنواز وہی لہجہ تھا ۔ فابیحہ بےچاری کے کھولتے لب بند ہوگۓ اور اسے یوں لگاکہ الفاظ بھی اس کی بےبسی پر جلال میں آکے اس کا ساتھ چھوڑ گۓ ہوں ۔ اسے اپنی مغلوب ہوٸ حالت پر رج کر رحم آیا ۔ لیکن سامنے کھڑے شخص سے اسے زرا رحم کی امید نہیں تھی ۔ وہ تو بحیثت کزن اس کی بارعب شخصیت سے خاٸف رہتی تھی ۔ اسے تو اپنے بابا،چاچو اور اذلان جیسے ہنس مکھ لوگ پسند تھے ۔ لیکن اس کی قسمت اس جلاد سے جڑی تھی ۔ نا خود وہ مسکراکر بات کرتا تھا اور ظلم یہ کہ اس کی موجودگی میں اس کی مسکراہٹ بھی غاٸب ہو جاتی تھی ۔ گھر کے باقی مردوں کی بانسبت اس کی نیچر مختلف تھی ۔ جو ہر دفعہ بےچاری فابیحہ کی مزاج پر بھاری پڑتی ۔ وہ ناچاہتے ہوۓ بھی اس کے سامنے کنفوز ہوجاتی تھی ۔


”ہمیں گھر کے لۓ نکلنا ہے ۔ دس بج رہے ہیں اور تم ابھی تک پڑی سورہی ہو۔ نیچے بڑے بابا وغیرہ سب تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔ جلدی سے ریڈی ہوکر نیچے آٶ۔ آدھے سے زیادہ مہمان تو رخصت بھی ہوچکے ۔“ وہ اسے گھورتے ہوۓ سرد لہجے میں بولا تو اس کی بچی کچی سانسیں بھی بند ہونے لگیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی موجودگی سے اس کا مزید خون خشک کرتا وہ جلدی سے اثبات میں سرہلاگٸ ۔ اس کے سراپے پر ایک سپاٹ نظر ڈالے وہ جانے کیلۓ مڑگیا ۔ اس کے مڑتے ہی وہ تیزی سے بیڈ سے اترکر اس کے قریب سے جانے لگی کہ وہ اچانک ہی گھوم کر اس کے سامنے آگیا ۔ اسے صاف محسوس ہوا کہ اس نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے ۔ دونوں کا تصادم ہوا تو گرنے سے بچنے کو اس کا بازو دبوچ گٸ ۔ جبکہ مقابل اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے اپنی سمت کھینچ چکا تھا ۔ وہ ایک دم سناٹے میں آگٸ۔

وہ اس کے سینے سے لگی کھڑی اپنی منتشر دھڑکنوں میں اس کی تیز پرجوش دھڑکنوں کو مدغم ہوتا محسوس کررہی تھی ۔ اسے لگا وہ ایک دم ٹھنڈی پڑگٸ ہے ۔ رگوں میں دوڑتا گرم لہو اچانک ہی سرد پڑگیا ہے ۔ اس میں اتنی طاقت بھی نہیں بچی کہ وہ ایک دم اسے پیچھے دھکیل سکتی ۔


ہم چھین لیں گے تم سے یہ شان بے نیازی

تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے

کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے

ملنا پڑے گا تم کو ایک دن ضرور ہم سے

دامن بچانے والے یہ بے رخی ہے کیسی

کہہ دو اگر ہوا ہے کوئی قصور ہم سے

ہم چھین لیں گے تم سے یہ شان بے نیازی

تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے

ہم چھوڑ دیں گے تم سے یوں بات چیت کرنا

تم پوچھتے پھرو گے اپنا قصور ہم سے


وہ واقعی پوچھنا چاھتی تھی اس سے اپنا قصور؟ وہ کیوں ہردفعہ کبھی اسے اپنے لہجے کی کبھی اپنی تپش ذدہ قربت کی مار ماررہا تھا ۔ وہ اس کے اس رویے کی بدولت ہلکان ہورہی تھی ۔ جبکہ وہ یوں بےنیاز بن جاتاجیسے کچھ کیا ہی ناہو


”نبیل کیا کہہ رہا تھا تم سے؟“ وہ اسے یونہی اپنے مضبوط پرتپش حصار میں لۓ اس کے کان میں سرگوشانہ گویا ہوا

اس کے سوال و انداز پر فابیحہ کے رگ و پے میں سنسنی دوڑ گٸ ۔ ایک تو اسقدر قربت کہ سینے میں سانسیں ایک دوسرے سے الجھی جارہی تھیں ۔ اوپر سے مقابل کا سوال اس کی جان لبوں پر لے آیا تھا ۔ اس نے ساری ہمت جمع کرکے جواب دینے کی کوشش کی ورنہ اس ظالم نے اسے اپنی جھلساتی قید سے آزاد نہیں کرنا تھا ۔


”نبیل بھاٸ! کہہ رہے تھے کہ ہم ان کے گھر کیوں نہیں آتے ۔ اور خیرخیریت پوچھ رہے تھے ۔“ وہ روانی میں بول کر لمبی لمبی سانس لینے لگی ۔


”تو تم نے کیا جواب دیا اپنے نبیل بھاٸ کو؟“ بھاٸ لفظ پر زور دیتا اس کی حالت کی پروا کۓ بغیر اس نے ایک اور سوال پوچھا ۔ اس نے ٹاٸم لۓ بغیر اپنا جواب جلدی سے بتادیا ۔ وہ اس کا جواب سن کر خاموش رہا تو وہ بےبسی سے بول پڑی


”پلیز! اب تو جانے دیں۔“ اس نے منمناکر بڑی مشکل سے اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا

ارحم نے اسے اپنے حصار سے آزاد کیا تو وہ تیزی سے وہاں سے جانے لگی ۔ لیکن مقابل نے پھرتی سے اسے بازو سے تھام کر اپنے سامنے کیا ۔ وہ افتادہ پر ایک دم لڑکھڑاکر سنبھلی اور اپنی حراساں گرے آنکھیں سے اس کی کالی گہری آنکھوں میں دیکھا ۔ وہ اس کا بازو چھوڑ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامے اس کے چہرے پر تھوڑا جھک آیا تھا ۔ وہ اس کے کاندھے تک آتی تھی اسی لۓ وہ اس کے چہرے پر جھکا ہوا تھا ۔ ارحم کی جھلساتی گرم سانسیں اس کے حراساں چہرے پر پڑرہی تھی ۔ اس کی اس بےباک حرکت پر اس نے سختی سے اپنی آنکھیں مچ کر اپنی سانسیں روک لیں تھی ۔ یہ بلکل ایک غیر اختیاری حرکت تھی ۔


”آج کے بعد اس نبیل سے دور رہنا۔“ اس کے لہجے کی شدت سے وہ کانپ گٸ ۔ وہ سختی سے اسے باور کروا رہا تھا ۔ نکاح کے بعد سے وہ کبھی اس کے اس قدر نزدیک نہیں آیا تھا ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر تھا کہ وہ خود اس کی موجودگی پاکر اس جگہ ٹکتی نہیں تھی ۔ لیکن آج وہ اس کی جان لینے پر تلا پڑا تھا ۔ اپنی لفظوں سے بھی اور اپنی قربت سے بھی۔

وہ کچھ دیر یونہی سن سی بےحس و بےحرکت آنکھیں بندکۓ کھڑی رہی ۔


”فابیحہ آپی! آپ ایسے کیوں کھڑی ہیں؟“ اپنے نزدیک اسی کزن کی پریشان سی آواز سن اس نے پٹ آنکھیں کھولیں ۔ ارحم وہاں موجود نہیں تھا ۔ جبکہ وہ وہی بت بنی کھڑی تھی ۔ جبکہ اس کی کزن اسے پریشان کن نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ اس نے گھبراکر یہاں وہاں دیکھا ۔


”وہ واقعی میرے روم میں آۓ تھے یا میرا وہم تھا ۔“ وہ پریشان ہوکر پرسوچ آواز میں بڑبڑاٸ


”آپی نیچے ماموں آپ کو بلارہے ہیں ۔ آپ کی طبیعت ٹھیک توہےنا؟“ وہ اس کی اڑی رنگت دیکھ متفکر سی اسے دیکھتی اطلاع دے کر پوچھنے لگی

”میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ بس دس منٹ دو میں ریڈی ہوکر آتی ہوں۔“ اسے پریشانی سے خود کو تکتاپاکر اس نے مسکرا کر کہا تاکہ وہ مطمین ہوجاۓ اورپھر بیگ کے اوپر چھوڑے گۓ گرین کلر کے پھولدار لباس کو اٹھاۓ وہ واش روم کی طرف بڑھ گٸ ۔ لیکن اندر سے وہ شدید قسم کے اضطراب کا شکار ہوچکی تھی ۔ اتنا تو اسے یقین تھا کہ وہ سب خواب نہیں حقیقت تھا ۔ لیکن وہ آنکھ کھولنے پر نظر کیوں نہیں آیا ۔ شاید وہ اسے تنبیہہ کرنے کے بعد فوراً ہی روم سے نکل گیا تھا۔ یہی سب سوچتی وہ باتھ روم میں بند ہوچکی تھی۔

وہ سب جس وقت گھر کے اندر داخل ہوۓ دعاۓ خیر نے فلق شگاف چیخ ماری اور دوڑکر سیلمہ بیگم سے لپٹ گٸ ۔


”آپ لوگوں نے آنے کا وقت اسی لۓ نہیں بتایا تھاکہ مجھے سرپراٸز دیں؟“ وہ ان کے گلے لگے لگے پیچھے کھڑے اپنے بابا اور ارحم کو دیکھ کر پرجوش سی بولی

”میری بیٹی کیسی ہے؟“ سلیمہ بیگم نے اس کا ماتھا چوم کر پیارے بھرے لہجے میں پوچھا ۔ ویسے تو ان کی عادت ایسی تھی کہ ہر چھوٹے بڑے سے نرم پرشفقت لہجے میں بولتیں تھیں لیکن اس سے بات کرتے ان کے لہجے میں چاشنی گھل جاتی تھی


”ہمیشہ کی طرح پیاری!“ ان کے پوچھنے پر وہ چہکی


”مجھے تو ابھی بھی پیاری ہی لگ رہی ہے ۔ ویسے اتنے والہانہ پن مجھے تو نہیں دیکھایا موصوفہ نے؟“ اذلان ساتھ کھڑی فابیحہ کے کان میں پھس پھسایا ۔ ساتھ ایک گہری نظر اس کے سراپے پر بھی ڈالی ۔ دھانی رنگ کی فراک پاجامے میں سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے آنکھوں میں دھنک کے سبھی رنگ لۓ وہ بے نیاز سی اس کی آنکھوں کو خیراں کررہی تھی ۔ اس اجلا اجلا روپ سروپ دیکھ اس کا دل باغی سا لپک لپک کر اس کی جانب دوڑنے لگا ۔

جبکہ وہ بےنیاز بنی اس کو اگنور کۓ سب سے ملتی اسے جیلس فیل کروارہی تھیں


”منہ بندکرکے رکھو، کیا اول فول بک رہے ہو۔ تم اس کے لۓ نامحرم ہو۔ وہ کیوں تم سے گلے لگ کر ملنے لگی؟“ وہ آہستہ آواز میں اسے ڈپٹ کربولی تو وہ اوووو کرکے سر اثبات میں ہلاکر رہ گیا


”مطلب محرم بن جانے پر وہ میرا ایسے ہی استقبال کرے گی، اچھی بات ہے۔“ یہ بات وہ صرف سوچ سکا تھا ۔ بولنے کی صورت میں جوتے پڑجانے کا خطرہ تھا ۔ بےشک اسے اس وقت بھوک لگی تھی لیکن اس کا جوتے کھانے کا کوٸ موڈ نہیں تھا ۔


”تایا ابو ! اتنے دن میرے بغیر کیسے رہ لۓ؟“ وہ اب وارث صاحب کے سینے سے سرٹیکاۓ شکوہ کررہی تھی

”بڑی مشکل سے رہا ہوں میرے بچے ! کل ولیمہ ختم ہوا اور ہم نے فلاٸٹ پکڑی اور پہنچ گۓ اپنی بیٹی کے پاس۔“ وہ اس کے سر پر بوسہ دیتے شفقت سے بولے

”مجھ سے بھی مل لو، میں بھی تمہارا اپنا ہی ہوں۔“

حارث صاحب اسے مصنوعی گھوری ڈال کر بولے


”بابا! ایک ایک کرکے سب سے ملوں گی نا؟ ایک ساتھ کیسے ملوں؟“ وہ ان کے کھلے بازٶں میں سماکر پرسکون لہجے میں بولی ۔ بے شک باپ کی مضبوط چھاٶں میں جو سکون ہے وہ کہی نہیں


”میری بچی ! کسی ہے ؟ میری بیگم نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا؟“وہ شرارت سے پوچھنے لگے


”پوچھے ہی مت کتنے ستم ڈھاۓ مجھے اکیلا پاکر ۔یہ دیکھیں میری انگلی شہید ہوتے ہوتے رہ گٸ۔“وہ اپنی ان کے سامنے کرتی بولی جس میں سنی پلاسٹ لگا تھا ۔ باقی سب اس کا لاڈ دیکھتے مسکرارہے تھے


”میں آگیا ہوں نا ، اب تم پر کۓ سارے ظلموں کا بدلا چن چن کر لوں گا ۔ تم بلکل فکر مت کرو۔“ وہ سنجیدگی سے بھڑک مارکر بولے تو سب ایک ساتھ ہنس پڑے


بھیا ! وہ اب ارحم کے شانے پر لٹکی تھی ۔

وہ سب کی لاڈلی تھی تو اب سب کو ہی لاڈ دیکھارہی تھی


”میری پیاری سے اپیا کو زیادہ تنگ تو نہیں کیا؟“

اس کی جانب جھکتی وہ رازداری سے پوچھنے لگی

ایک وہی تھی جو اس سے اسطرح فری ہوکر بات کرسکتی تھی ۔ ورنہ سب اس کی سنجیدہ طبیعت اور الگ تھلگ رہنے والی عادت کے بعث مزاق وغیرہ سے گریز کرتے تھے


”زیادہ نہیں بس تھوڑا کیا تھا۔“ اپنے سرد انداز میں بولتے اس نے ایک گہری نظر فاصلے پر کھڑی فابیحہ پر ڈالی ۔ وہ بھی اتفاق سے انہی دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔ اس کے اسطرح دیکھنے پر وہ سٹپٹاکر نظریں گھماگٸ


”چلیں اب میں اپنی اپیا پلس بھابھی سے بھی مل لوں۔“ وہ اس کے کاندھے کو چھوڑ فابیحہ کی جانب بڑھی

”مجھ سے بھی مل لو مجھ میں کانٹے نہیں لگے جوتمہیں زخمی کرجاٸیں گے ۔“ اس کی زبان بھلا رک سکتی تھی سو پھسل ہی گٸ


”تم میں کانٹے نہیں لگے بلکہ تم پورے کے پورے بابول کا درخت ہو۔ جس سے نا چھاٶں ملتی ہے اور نا پھل۔“ جواباً وہ بھی کڑوے کسیلے لہجے میں حساب برابر کرتی بولی ۔ اس دوران سارے بڑے اندر کی جانب بڑھ گۓ تھے


”اچھا بھٸ بس کرو، آتے ہی مخالفین کی طرح ایک دوسرے پر گولہ باری داغنا شروع کردی ہے۔“ اذلان کو منہ کھولتا دیکھ وہ دونوں ہاتھ فضا میں اٹھاکر ان کے بیچ سیزفاٸر کرواتی ہوٸ بولی تو وہ دونوں ان کے ادب میں خاموش ہوگۓ ۔ اندر کا ماحول خوشگوار تھا ۔ سب خوش گپوں میں لگے تھے ۔ وہ تینوں بھی سب کے ساتھ جابیٹھے


”دعاۓخیر! یہاں کیوں بیٹھ گٸ ۔ سب تھکے ہوۓ آۓ ہیں ۔اچھی سی چاۓ بناٶں۔ ایک تو اس لڑکی کو ہر بات سمجھانی پڑتی ہے ۔ اتنی بڑی ہوگٸ لیکن طریقہ سلیقہ نا آیا۔ میں تو سیکھا سیکھا تھکی۔“ ثروت بیگم اسٹارٹ لیا تو اس نے شکایت بھری نظروں سے سلیمہ بیگم کو دیکھا


”ثروت ڈانٹوں نہیں بچی کو، پیار سے بولو گی تب بھی سن لےگی ۔ ویسے بھی ابھی عمر ہی کیا ہے۔ اس عمر میں لڑکیاں لاابالی ہی ہوتی ہیں۔ تم ٹینشن نالو وقت کے ساتھ سب سیکھ ہی جاۓ گی۔“ وہ بیچ میں مداخلت کرتی انہیں نرمی سے ٹوک گٸیں ۔ بھلا وہ دعاۓخیر کا اترا چہرہ دیکھ سکتی تھیں ۔


”عمر کی بھی آپ نے خوب کہی بھابھی! یہ فابیحہ بھی تو ہے نا ، ماشاءاللہ چھوٹے پن سے ہی ذمہدار رہی ہے۔ میں نے کبھی اس بچی کو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے نہیں دیکھا ۔“ وہ اسے گھور کر بولیں جو معصوم شکل بناۓ سب کی ہمدردی سمیٹ رہی تھی


”سب کی الگ الگ نیچر ہوتی ہے ۔ جس طرح ہاتھ کی پانچھوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی بلکل ویسے ہی سب انسان ایک جیسی فطرت و عادات کے نہیں ہوتے ۔ اب ارحم کو ہی دیکھ لو گھر میں موجود باقی بچوں کی نسبت اس کی عادت بلکل چینج ہے ۔ سنجیدہ اور ریزرو رہتا ہے ۔ رہی دعاۓخیر کی بات تو وقت کے ساتھ سیکھ ہی جاۓ گی۔ ہم اتنے دنوں بعد آۓ ہیں بیگم صاحبہ اسی خوشی میں آج میری بچی کو بخش دو۔“حارث صاحب سنجیدگی سے بولتے آخر میں شرارتاً گویا ہوۓ تو وہ سب کے سامنے ان کے اسطرح بولنے پر جھنپ گٸ


”چلو آٶ ہم چاۓ بناتے ہیں۔“ ارحم کی نظروں کے پرتپش حصار میں خود کو مسلسل پاتی وہ راہ فرار کے طور پر دعاۓ خیر کا ہاتھ تھامے اسے اٹھاتے ہوۓ بولی ۔ اس کے اٹھانے پر وہ اٹھی تو نظر سامنے بیٹھے اذلان پر پڑی ۔ وہ آنکھوں میں شوق کا ایک جہان آباد کۓ اسے دیکھ رہا تھا ۔ اس کے دیکھنے پر اس نے جھٹ ایک آنکھ ونگ کی تو وہ بوکھلاکر اسے گھور بھی نا سکی ۔سب آپس میں باتوں میں مصروف تھے کسی نے بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ اب وہ دل جلاتی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ اسے دیکھ رہا تھا


”چھچھورے پن میں تو ڈپلومہ کررکھا ہے کمینے نے۔“ وہ دانت کچکاکر زیرلب بڑبڑاکر رہ گٸ اور فابیحہ کے ساتھ کچن کی جانب چل دی


رات کا ڈنر فابیحہ نے دعاۓ خیر کے ساتھ مل کر بنوایا تھا ۔ اتنے دنوں کے بعد سب ساتھ تھے ۔ گھر میں رونق لوٹ آٸ تھی ۔ وہ بھی خوش خوش ہر کام انجام دے رہی تھی ۔ ان کی کام والی جو چھٹیوں پر گاٶں گی ہوٸ تھی ۔ وہ بھی آج شام واپس آچکی تھی۔ ڈنر خوشگوار ماحول میں کیا گیا ۔ ڈنر کے بعد تھکن کے سبب سب جلد ہی آرام کرنے کی غرض سے اٹھ گۓ تھے ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اذلان فریش ہوکر بلیک ٹراٶزر شرٹ میں ریلکس سا بیڈ پر بیٹھا ایف بی پر دعاۓ خیر کی پوسٹ کی گٸ قسط پڑھ رہا تھا ۔ جیسے جیسے وہ قسط پڑھ رہا تھا ۔ ویسے ویسے اس کے دلکش چہرے پر مسکراہٹ گہری ہورہی تھی ۔ اس نے فیک آٸ ڈی بناکر اس کا ناول گروپ جواٸن کیا تھا ۔ اس گروپ کا بھی باتوں باتوں میں فابیحہ کے منہ سے نکل گیا تھا پھر کیا تھا ۔ اس نے فیری گل کے نام سے فیک آٸ ڈی بنالی ۔ اس کے اس گروپ پر ہونے کی خبر فابیحہ کو بھی تھی ۔ وہ فیری گل کے نام سے دعاۓ خیر کی گڈ بک میں شامل تھا ۔


”جتنے رومانوی کردار تمہارے ناول کے ہوتے ہیں ۔ اتنا تو تم میں ایک پرسنٹ بھی نہیں دیکھتا ہے ۔اتنے نرم اور لطیف جزبات کہاں سے لاتی ہو؟ اگر کبھی جو تمہیں میرے دل کے حال کا علم ہو جو تمہارے لۓ بے حساب بےچین و بےقرار ہے تو تمہارا ردعمل کیا ہوگا؟ تم خوشی سے جھوم جاٶ گی یا پھر میرے دل میں کھلے محبت کے گلاب کو اپنے پیروں تلے روند دو گی؟ تم میرے دل میں کب اور کیوں آبسی میں خود بھی نہیں جانتا؟ وہ لمحہ کیسا لمحہ تھا جب محبت ایک وحی کی طرح میرے دل کے کورے کاغذ پر اتری تھی ۔ میں ششدر کھڑا رہ گیا اس انکشاف پر جو میں روح تک کو مہکا گیا ۔“ وہ اپنے موباٸل میں دعاۓ خیر کی مسکراتی تصویر سے مخاطب تھا ۔ اس کے ایک گال میں ڈمپل پڑتا ہے ۔ جو مسکراتے ہوۓ اس کے چہرے کی شان بڑھاتا تھا ۔ اس کی شربتی آنکھیں جس میں ہسنے کے سبب ایک چمک سی پیدا ہوتی تھی ۔ اس کی کھڑی خوبصورت پیاری سی ناک جس میں سونے کا تار ڈلا تھا ۔ اس کے خوبصورت کٹاٶ دار بھرے بھرے گلابی ہونٹ ، اس کے شہد رنگ صندل جیسے گیسوں ۔ وہ سراپاِ حسن تھی ۔ وہ اس کی آتی جاتی سانسوں کے امین ۔

اسے آج بھی وہ دن یاد ہے جب اچانک ہی دعاۓ خیر کے طبیعت بگڑ گٸ تھی ۔ سب اسے ھوسپٹل لیکر بھاگے تھے ۔ اسے ھوسپٹل میں ایڈمیٹ کرلیا گیا تھا ۔ ان لوگوں نے پراٸیوٹ روم لیا تھا ۔ رات میں سب گھرالوں کو بھیج کر ارحم اور وہ ھوسپٹل میں رکے تھے ۔ وہ دونوں روم کے ساتھ ہی رکھی کرسیوں پر بیٹھے دھیمی آواز میں باتیں کررہے تھے


”مجھے سستی سی محسوس ہورہی تو میں اپنے لۓ کافی لینے جارہا ہوں ۔ تم پیو گے کافی؟“ وہ اٹھتے ہوۓ اس سے پوچھنے لگا


”نیکی اور پوچھ پوچھ ، واقعی مجھے بھی کافی کی شدید طلب محسوس ہورہی ہے۔“ وہ جماٸ آنے پر منہ پر ہاتھ رکھتے کہنے لگا


”اچھا تو پھر تم دعاۓ خیر کا خیال رکھنا میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔“ ارحم اسے تاکید کرتے آگے بڑھ گیا تو وہ بھی آنکھیں موندتا سر دیوار سے ٹیکاۓ بیٹھ گیا ۔بامشکل دو منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اسے اندر روم سے دعاۓ خیر کی چیخنے کی آواز آٸ ۔وہ تیزی سے اٹھ کر ادکھلے دروازے کے اندر گھس گیا۔ وہ ڈسٹرب نا ہو اس خیال سے وہ روم سے باہر آگۓ تھے ۔ وہ اندر داخل ہوا تو دعاۓخیر آنکھیں موندے گھر کے سبھی لوگوں کو آوازیں دے رہی تھی ۔ وہ تیزی سے اس کے بیڈ کے قریب آیا


دعاۓ خیر! اسنے گھبرا کر اس کا نام پکارہ ۔ وہ شاید خواب میں ڈر رہی تھی ۔ اس کے پکارنے پر بھی اس پر کوٸ خاطرخواہ اثرناہوا ۔وہ اسی طرح تڑپ تڑپ کے سب کو پکار رہی تھی ۔ اذلان نے بوکھلا کر اسے شانوں سے پکڑ کے جھنجھوڑ دیا ۔ اس نے وحشت ذدہ ہوکر آنکھیں کھولیں اور خود پر جھکے اذلان کو دیکھا ۔ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ وہ پیچھے ہوا اور ایک دم ساکت رہ گیا ۔ وہ اس کے سیدھا ہوتے ہی جھٹکے سے اٹھ کر اذلان کے سینے سے جالگی ۔ اس کا نرم گداز بدن ہولے ہولے لرز رہا تھا اور وہ خود اس کے سینے میں پناہ ڈھونڈ رہی تھی ۔ اذلان کی ساکت دھڑکنوں میں بھونچال آگیا۔


اذلان مجھے بچالو پلیز! وہ ، وہ مجھے لے جاٸیں گے۔“ وہ شدت سے اس لپٹی تڑپ تڑپ کرروتے ہچکیوں کے درمیان بولی


”دعاۓخیر دیکھو یہاں کوٸ بھی نہیں ہے ۔ تم نے بس ایک برا خواب دیکھا ہے ۔ پہلے ہی تمہاری اتنی طبیعت خراب ہے ۔ یوں خود کو ہلکان کرو گی تو مزید طبیعت خراب ہوگی ۔“ اپنی عجیب و غریب کیفیت پر قابو پاتاوہ پیار سے اسے پچھکارے ہوۓ بولا


”نہیں وہ مجھے کھینچ رہے تھے بول رہے تھے کے مجھے لے جاٸیں گے ۔ میں نے نہیں جانا پلیز مجھے چھپالو۔“ وہ اس کے کمر کے گرد مضبوط حصار بناۓ اپنا منہ اس کے سینے میں چھپاۓ ہوۓ اس کے ضبط کا امتحان لے رہی تھی ۔ اس کے بدن کی گرماٸش اذلان کے جسم میں منتقل ہوکر اس کے سارے احساس ٹھٹھراۓ دے رہی تھی ۔ اس کا دل جو کہہ رہا تھا ۔ اسے سمجھا رہا تھا وہ بلکل بھی سمجھنا نہیں چاھتا تھا۔ بچپن سے لیکر آج تک اس سے لڑتا آیا تھا ۔ اس کی چیزیں چھپاکر تو کبھی اس کی چیزیں ہڑپ کرکے وہ اس کے ناک میں دم کۓ رکھتا تھا ۔ دونوں کی زرا جو کبھی بنی ہو۔ دعاۓ خیر بڑے ہونے کا فاٸدہ اٹھاکر اس پیٹ بھی دیتی تھی اور اگر جو کبھی وہ کچھ کھارہا ہوتا تو تو بدلے کے طور پروہ اس سے وہ چیز چھین لیتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے وہ بڑے ہوۓ ۔ دعاۓخیر نے اسے مارنا اور چیزیں چھینا چھوڑدیا ۔کیونکہ وہ ڈیل ڈول میں اس سے بڑا دیکھتا تھا ۔ ایسے میں اگر وہ اس سے بدلا لیتی تو وہ اس کی کلاٸیاں زور سے تھام لیتا ۔ پھر وہ لاکھ سر پٹختی وہ نہیں چھوڑتا تھا۔ ان سب کا اس نے یہ حال نکالا کہ وہ اس کی شکایت کبھی تاٸ امی سے لگاکر اسے ڈانٹ پڑواتی یا پھر تایا ابو سے کہہ کر اس کے کان کھینچواتی ۔

لیکن آج وہ جس طرح بےہوش ہوٸ اور وہ لوگ اسے ہوسپٹل لےکر آۓ ۔ اسے یوں خاموش آنکھیں بند کۓ ہر شے سے بیگانہ دیکھ اس کے دل کو دھچکا سالگا۔

اور اس وقت جب وہ اس کے سینے سے لگی بیٹھی تھی تو اس پر ادراک ہوا کہ وہ تو اس کے اندر بہت اندر اپنا بسیرا کرچکی ہے۔ محبت نے اس کی روح میں پنجے گاڑ دیۓ تھے اور وہ پھڑپھڑا بھی نہیں سکا تھا ۔


دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی

اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی

شور برپا ہے خانۂ دل میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا

ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

یاد کے بے نشاں جزیروں سے

تیری آواز آ رہی ہے ابھی

شہر کی بے چراغ گلیوں میں

زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

سو گئے لوگ اس حویلی کے

ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے

شہر میں رات جاگتی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی


دروازہ ناک ہونے پر وہ ایک دم اپنے اپنے مخملیں خیالوں سے باہر نکلا

آجاٸیں ! ایک نظر موباٸل کی اسکرین پر ڈالے اس نے آنے والے کو روم میں آنے کی اجازت دی


”میں نے تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کیا۔“ وہ چہرے پر نرم سی دھیمی مسکان لۓ کمرے میں داخل ہوتی اس سے پوچھنے لگی


”امی آپ خود کیوں آگٸیں ۔ کوٸ ضروری بات کرنی تھی تو مجھے بلالیا ہوتا۔“ وہ موباٸل ساٸیڈ میں رکھتا تیزی سے اٹھ کر ان کے پاس آکر محبت سے ان کا ہاتھ تھامے اپنے بستر پر بیٹھاتے ہوۓ بولا


”میرے بچے کام میرا تھا ، تو آنا بھی مجھے ہی تھا نا؟۔“ وہ پیار سے کہتیں اسے اپنے قریب بیٹھاکر بولیں

”آپ کہیں، میں سن رہا ہوں ۔“ وہ ان کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے ان پر بوسہ دیتے بولا


”تمہاری تعلیم مکمل ہوگٸ ہے ۔ ماشاءاللہ تم اپنے بابا کے ساتھ کاروبار سنبھال رہے ہو۔ یہی سہی وقت ہے ، اب تمہارا بھی گھر بس جانا چاہیۓ ۔ میں اس سلسلے میں تم سے کل ہی بات کرنا چاہتی تھی لیکن تمہارے بابا نے کہا گھر چل کر سکون سے بات کرنا۔ وہ تو ابھی بھی کہہ رہے تھے کہ صبح بات کرلینا لیکن مجھ میں بس اتنا ہی صبر تھا میرے بچے!۔۔۔۔“

وہ سانس لینے کو رکی جبکہ وہ چہرے پر سنجیدہ تاثرات لۓ ان کی بات سمجھنے کی کوشش کررہا تھا


”دعاۓخیر جب دنیا میں آٸ تو بھابھی کے طبیعت ک وجہ سے وہ میری گود میں آگٸ ۔ وہ اتنی پیاری اتنی معصوم تھی کہ میرا دل اس کو ایک نظر دیکھ اس کا اسیر ہوگیا ۔ اللہ نے مجھے اپنی تین بیٹیاں دی تھیں ، لیکن اس کی جانب میرا دل عجیب طرح سے کھینچتا تھا۔ تب سے آج تک وہ میرے دل کے بےحد نزدیک رہی ہے ۔ اس کی خوشی میں نے دل سے محسوس کی ہے اور اس کی تکلیف اس دل نے بڑی مشکل سے برداشت کی ہے ۔ جب بھی اس کی شادی کی بات آٸ ، اس کے دور جانے کے خیال سے میرے دل کی حالت ایسی ہوتی جیسے کسی نے میرے دل کو بند ڈبے میں قید کردیا ہو۔ مجھے سانس بھی بھاری محسوس ہوتی ۔ حالانکہ تمہاری دونوں بہنیں بیاہ کر اس شہر سے کیا ملک سے ہی چلیں گیں ۔ سال دو سال میں دبی سے چکر لگالیتی ہیں ۔ ان کی جداٸ بھی اس دل میں وہ تڑپ نہیں ڈالتی جیسے دعاۓ خیر کی جداٸ کا سوچ کر اس دل میں کھیچ پڑتی ہے ۔ کل جب تمہاری پھوپھو نے اس کے لۓ رشتہ کا بولا تو یوں لگا کوٸ میرا کلیجہ نوچ رہا ہو۔ تب میں نے ایک فیصلہ لیا اور پھر تمہارے بابا سے بات کی تو انہیں بھی یہ فیصلہ مناسب لگا۔ اب سب کچھ تم پر منحصر ہے ۔ اگر جو تم نے ہاں کی تو ہی میرے دل کی خواہش پوری ہوسکے گی ۔ اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ تم اپنی ماں کا مان ضرور رکھو گے۔“ وہ اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالتے مان بھرے لہجے میں بولیں


”امی! آپ کھل کر کہیں میں آپ کے لۓ کیا کرسکتا ہوں ؟ آپ کی یہ مبہم باتیں میری سمجھ میں نہیں آرہی ۔ اور میں جو سمجھ رہا ہوں وہ شاید میرے غلط سمجھ آرہا ہے۔“ وہ کنفوز سا بولا تو وہ مسکرا دیں


”میں چاہتی ہوں کہ میں دعاۓخیر کا رشتہ مانگ لو تمہارےلۓ ۔ اسے تمہاری دلہن بناکر ہمیشہ کےلۓ اپنے پاس رکھ لوں تاکہ اس کے چھین جانا کا خوف باقی نارہے ۔“وہ پرجوش سے بولتی آس بھری نظروں سے اسے دیکھے لگی ۔ جبکہ اس پر تو شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہوچکی تھی ۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی محبت اتنی آسانی سے اس کی دسترس میں آرہی تھی ۔ اسے تو لگا تھا کہ بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گیں ۔ ایک آگ کا دریا عبور کرنا ہوگا اسے لیکن یہاں تو بن کہے اس کی دل کی مراد برآٸ تھی ۔ سچ ہے کہ اگر جزبے خالص اور سچے ہوں تو اللہ خود بخود اسباب پیدا کردیتا ہے۔ اسے نے دل ہی دل میں بےساختہ اپنے رب کا شکرادا کیا ۔ پھر اسے اپنی ماں پر بھی ٹوٹ کر پیار آیا جنہوں نے اپنی اولاد کی چاہ بن کہے پوری کردی ۔ وہ ایک دم ہی ان کے گلے جالگا ۔ وہ جو پریشانی سے اس کے جواب کی مںتظر تھیں ، اس کے اس ردعمل پر ان کے دل کو گوناگوسکون ملا ۔ وہ مطمین ہوتیں دھیمے سے مسکرا دیں ۔ پھر دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامے شفقت سے اس کا ماتھے کو اپنا ممتا بھرا بوسہ دیا


”مجھے علم تھا میرا بچہ میری بات کبھی نہیں رد کرے گا ۔ میں کل ہی حارث اور ثروت سے تمہارے رشتے کی بات کرتی ہوں۔“ وہ فرحت مسرت سے کہتی اٹھ گٸیں ۔ ان کے جانے کے بعد اذلان بھی ریلکس سا اپنے بستر پر کروٹ کے بل لیٹ کر دعاۓخیر کے ری ایکشن کے بارے میں سوچنے لگا۔


”بلی اتنی آسانی سے ماننے گی نہیں۔“ اس کی شربتی چمک دار آنکھیں اس کے ذہن کے پردے پر لہراٸیں تو وہ سنجیدگی سے کہہ اٹھا اور پھر کچھ سوچتا پرسکون سا ہوکر آنکھیں موند گیا ۔ وہ کیوں ٹینشن لیکر خود کو تھکتا ۔ اس کی لو میرج قسمت کی مہربانی سے ارینج ہونے جارہی تھی ۔ اب یہ اس کا نہیں بڑوں کا مسٸلہ تھا ۔ سو وہ جانیں اور ان کا کام جانیں ۔۔۔۔۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


وہ صبح نماز کے بعد دوبارہ نہیں لیٹی تھی بلکہ چہل قدمی کے خیال سے نیچے آگٸ تھی ۔ نرم ٹھنڈی گھاس پر وہ اپنے سلیپر اتارے واک کررہی تھی ۔ وہ مگن سی چلتی چار سو خوشبوں پھیلاتے پھولوں کے پاس آگٸ ۔ یہ گلاب اور موتیا اس نے خاص طور پر مالی بابا سے کہہ کرلگاوایا تھا ۔ وہ آنکھیں بند کۓ اس مسحور کن خوشبو کو محسوس کررہی تھی ۔ تب ہی ساٸیڈ گیٹ کھلا اور ارحم ٹریک سوٹ میں ایک ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے اندر داخل ہوا ۔ اس سے پہلے کہ اس کے قدم اندر کی سمت بڑھتے اس کی نظر باٸیں جانب اٹھی اور ٹہر گٸ ۔ وہ طے نہیں کرپایا کہ یہ منظر زیادہ دلفریب ہے یا وہ لڑکی جو اس منظر کو دلفریب بنارہی ہے ۔اس کے قدم خود بخود اس کی جانب اٹھے تھے ۔ لان میں کین کی کرسیوں کے ساتھ رکھی ٹیبل پر اس نے پانی کی بوتل رکھی اور اس کی سمت چلاآیا ۔

فابیحہ ہر شے سے بےنیاز خاموش کھڑی خود بھی انہی پھولوں کا حصہ لگ رہی تھی ۔

صبح کی ٹھنڈی ہوا اس کی زلفوں سے اٹکلیاں کرتی انہیں اس کے چہرے کے اطراف بکھراچکی تھی ۔ گلابی رنگ کے لباس میں وہ خود بھی کوٸ کھلتا گلاب لگ رہی تھی ۔ دوپٹہ لاپرواہی سے اس کے شانوں پر پڑا تھا ۔ اس کی ایک لٹ بار بار اس کے گلابی لبوں کو چھورہی تھی ۔ اسے یہ منظر سخت ناگوار گزرا ۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کے لٹ کو دو انگلیوں سے پکڑ کر کان کے پیچھے کیا ۔ اپنے کان کی لو پر کسی کا جلتا لمس محسوس کرتے اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔ ارحم چہرے پر سرد تاثرات لۓ اسے دیکھ رہا تھا ۔ اس کے گلے کی گلٹی ڈوب کر ابھری ۔

وہ بچپن سے ہی اس سے بےحد گھبراتی تھی ۔ اس کی نیچرشروع سے ہی بہت سنجیدہ تھا ۔ بچپن میں ایک دفعہ اس کی غلطی سے اس کا پورا پرٹیکل جرنل خراب ہوگیا تھا ۔ اس بات پر ارحم نے اس کے گال پر تھپڑ دے مارا تھا ۔ اس کے ایک ہفتے کی محنت پر اس نے پانی پھیر دیا تھا ۔ وہ اپنا غصہ کنٹرول نہیں کرپایا اور اس کاہاتھ اٹھ گیا ۔ اس کے بعد حارث صاحب نے اچھے سے کلاس لی تھی اور اس نے فابیحہ سے معافی بھی مانگ لی تھی لیکن وہ آج تک اس واقعے کو لیکر اس سے خوف کھاتی تھی ۔ اوپر سے اس کی سرد گہری نظریں اسے ڈرنے پر مجبور کردیتی تھیں ۔ اسے اپنے قریب دیکھ ہمیشہ اس کی ایسی حالت ہوتی تھی جیسے اس نے کوٸ بھوت دیکھ لیا ہو۔ اس وقت بھی اس کے چہرے کا رنگ اڑچکا تھا ۔ کچھ دیر پہلے اس کا چہرہ سات رنگوں سے رنگا تھا ۔ اور اس وقت وہ سارے رنگ پھیکے پڑگۓ تھے


”کس کے تصور میں یوں گم ہوکر خوش ہورہی تھیں؟ کہ مجھے روبرو پاتے ہی تمہارے بہار جیسے چہرے پر خزاں آگٸ۔“ اسنے اچانک ہی اس کا بازو دبوچے اپنی جانب کھینچ کر سرد لہجے میں استفسار کیا ۔ اس کے کھینچنے سے وہ کٹی ڈال جیسے اس کے سینے سے آلگی اور اب تھرتھر اس کے حصار میں کانپ رہی تھی ۔


”میں ، میں کی سے سوچ سکتی ہوں بھلا ؟ میں تو بس پھولوں کو دیکھ رک گٸ تھی ۔“ اس نے پورا جملہ توڑ توڑ کے ادا کیا ۔ اسے لگا شاید وہ اس کے یوں اسطرح لاپرواہی سے کھڑا ہونے پر غصہ ہورہا ہے ۔ اس کے ادا کۓ گۓ جملوں پر تو اس نے غور ہی نہیں کیا ۔ اس کے اوسان خطا ہورہے تھے ۔اس کی جان لوا قربت کو برداشت کرنے کا نا اس میں حوصلہ تھا نا طاقت


”کیا سمجھا ہے تم نے مجھے ہاں؟ جو یوں میرے سامنے آجانے پر تمہاری ہواٸیاں اڑجاتی ہیں ۔ لہجہ لڑکھڑا جاتا ہے ۔ سانسیں ٹوٹنے لگتی ہیں ۔ مجھے سامنے دیکھ یوں کانپ جاتی ہو جیسے میں کوٸ آدم خور ہوں جو تمہیں نگل لوں گا۔“ وہ اس کے دونوں بازو دبوچے، اسے اپنے سامنے کۓ نیچی آواز سے پھنکارہ تو اس کی بچی کچی سانسیں بھی تھمنے لگیں ۔ الفاظ بھلا کہاں منہ سے نکلتے


”ڈیم اٹ کچھ تو بولو، خاموش کیوں ہو؟ جب اس رشتے پر دل سے راضی نہیں تھیں تو اس رشتے پر اقرار کی مہر کیوں لگاٸ ۔ اچھا ہوتا جب میں نے تمہارے منہ سے اس رشتے کے لۓ انکار سنا تھا میں اسی وقت خود بھی اس رشتے سے انکار کردیتا ۔ لیکن میرا دل خوش فہم تھا ۔ جو تمہارے اقرار کا سن کر خوش ہوگیا ۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یہ زبردستی کا بندھن ہے جو تم نے بڑوں کے پریشر میں آکر مجھ سے باندھ لیا ہے ۔ لیکن تم فکر ناکرو میں بہت جلدی تمہیں اس مجبوری کے بندھن سے آزاد کروادوں گا۔“ وہ نیچی آواز میں غراکر شدید تیش میں بول رہا تھا ۔ لیکن آخری جملے پر اس کی آواز دھیمی پڑگٸ تھی ۔


وہ اپنا خوف چھوڑ ہق دہق آنکھیں پھاڑے اس کی کاٹ دار باتیں سمجھنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی ۔ وہ کیا سمجھ رہا تھا ۔ اس کے خوف اور جھجھک کو وہ کس معنیٰ میں لے گیا تھا ۔ وہ اس سے بدگمان تھا۔ بس ایک سوچ اس کے ذہن و دل پر ہاوی ہوٸ ۔ اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرگٸیں اور پھر یہ نمکین پانی آنسو بن کر اس کے رخسار پر بہہ نکلا۔ یہ منظر مبہوت کردینے والا تھا ۔ لیکن سامنے والے کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری ۔ وہ اسے جھٹکے سے خود سے دور کرتا لمبے لمبے ڈک بھرتے اندر کی جانب بڑگیا ۔ جبکہ وہ خود نڈھال سی وہی گھاس پر بیٹھتی چلی گٸ ۔


گر یہ کہہ دو نہیں میرے بن گزارا

تو میں تمہارا

یا اس پہ مبنی کوئی تاثر کوئی اشارہ

تو میں تمہارا

غرور پرور، انا کا مالک

کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے

مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا

تو میں تمہارا

تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو

میں جیسے چاہوں لگاؤں بازی

اگر میں جیتا تو تم ہو میرے

اگر میں ہارا تو میں تمہارا

بکھرے اعصاب اور بہتی آنکھوں سے جس وقت وہ گھرر کے اندر داخل ہوٸ شکر ہوا کہ اس وقت کوٸ بھی سیٹنگ ایٸریا میں موجود نہیں تھا ۔ وہ تیزی سے دوڑتی ہوٸ وہاں سے نکلی ۔ اپنے کمرے میں آکر اس نے روم لاک کیا اور اوندھے میں بیڈ پر گرکر پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔

”وہ کیا سمجھ رہے ہیں ۔ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں؟ او میرے خدا میں کیسے ان کی بدگمانی دور کروں گی؟ میرے انکار کا مقصد کسی اور میں انولوو ہونا نہیں بس وہ ڈر خوف تھا جو مجھے آپ سے محسوس ہوتا تھا ۔ مجھے علم نہیں تھا کہ آپ میرے ڈر کو کسی اور پرہن میں لے جاٸیں گے۔“ وہ تصور میں اس دشمن جاں سے مخاطب تھی۔ جو جانے انجانے میں اسی کی وجہ سے اس سے بدگماں ہوگیا تھا ۔

دوسری جانب ارحم بھی گویا انگاروں پر لوٹ رہا تھا ۔ اس نے شدید تیش میں اپنے بیڈ کی چادر تکیہ کشنز سب زمیں بوس کردیۓ تھے ۔ لیکن اشتعال تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ بچپن میں جب اس نے غصے میں بےقابو ہوکر اس کے چہرے پر تھپڑ دے مارا تھا تو فابیحہ گال پر ہاتھ رکھے آنکھیں پھاڑے شاک میں گہری اسے دیکھ رہی تھی ۔

اسے شاید اس کے اس شدید ردِعمل کی توقع نہیں تھی ۔ وہ کارپیٹ پر اپنا کام پھیلاۓ انہمناک سے ڈاۓگرام بنارہا تھا ۔ یہ اس کے جرنل کی لاسٹ ڈاۓگرام تھی ۔ اس نے اس جرنل پر بہت محنت کی تھی ۔ کل سب بچوں نے اپنے جرنل جمع کروانے تھے ۔ اور اسے پورا یقین تھاکہ اس کے پورے پوے نمبر آٸیں گے ۔ گرمیوں کے دن تھے ۔ کافی دیر سے کام کرتے اس کا گلا خشک ہوا تو اس نے وہی بیٹھے بیٹھے ہانک لگاٸ


”والدہ ! پلیز پانی دےدیں بہت پیاس لگی ہے۔“ اسے علم تھا کہ ثروت بیگم کچن میں موجود رات کے کھانے کی تیاری کروارہی ہیں ۔ فابیحہ جو ملک شیک کے انتظار میں ان کے ساتھ کھڑی تھی ۔ وہ اسی کی فرماٸش پر ملک شیک بنارہی تھی ۔ ملازمہ ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھی سبزی بنارہی تھی ۔


”میری پیاری بیٹی! میں جب تک یہ شیک بنارہی ہوں ۔ آپ جاکر یہ پانی بھاٸ کو دے آٶ۔“ انہوں نے ہاتھ واش کرکے گلاس میں پانی بھر کے بارہ سالہ فابیحہ کی جانب بڑھایا تو وہ خاموشی کے ساتھ گلاس پکڑے باہر آگٸ ۔ ارحم کی غصلی طبیعت کے سبب وہ اس سے دور دور ہی رہتی تھی ۔ لیکن اس وقت وہ بری پھسی تھی ۔ چچی کو انکار بھی نہیں کرسکتی تھی ۔ وہ بھی تو اس کے کہنے پر اسے منگو ملک شیک بناکردے رہی تھیں ۔ اس کی امی تو بابا کے ساتھ دوا لے نے گٸ تھیں ۔ ایسے میں انہیں انکار کرنا اسے اچھا نہیں لگا تھا ۔ وہ ڈرتے ڈرتے اس کے قریب پہنچی ۔ اس نے سوچا کہ جلدی سے گلاس رکھ کر وہ واپس لوٹ آٸ گی ۔ لیکن اس کی بری قسمت کہ جیسے ہی اس نے پانی کا گلاس اس کے نزدیک رکھا ٹھیک اسی وقت ارحم نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا ۔ اس کے ہاتھ میں ہلکی سی لرزش اتری اور پانی کا گلاس قریب کھلے پڑے جرنل پر لڑھک گیا ۔ فابیحہ ایک دم سیدھی ہوکر سن کھڑی رہ گٸ۔

اپنی دن رات کی محنت پر یوں پانی پھیرتا دیکھ اس کے اندر شدید قسم کا اشتعال اٹھا ۔ وہ تیزی سے کھڑا ہوا اور اس کے مقال آکر بےساختہ ہی اس کا ہاتھ اٹھ گیا ۔ وہ گال پر ہاتھ رکھے بےیقین نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی ۔ وہ رو نہیں رہی تھی ۔ وہ ساکت و جامد ہوگٸ تھی ۔


ارحم ! وہ جو اپنی بےساختہ حرکت پر نادم اور اسی نظروں کے تاثرات سے شرمندگی کے گہری کھاٸ میں اتررہا تھا اس دہاڑ نما آواز پر اچھل پڑا


حارث صاحب نے لپک کر فابیحہ کو اپنے سینے سے لگایا ۔ وہ سہارا ملتے ہی شدت سے روپڑی ۔ آج تک کسی نے اسے ڈانٹا تک نہیں تھا ۔ اور اس نے اسے اس قدر زور سے تھپڑ مارا تھا کہ اس کے اعصاب جھنجھنااٹھے تھے ۔ ثروت بیگم بھی کچن سے باہر نکل آٸیں

”کیا ہوا؟“ حارث صاحب کو شدید غصے میں دیکھ وہ گھبرا کر قریب چلیں آٸیں ۔ ارحم سر جھکاۓ کھڑا تھا جبکہ فابیحہ ان کے سینے سے لگی رو رہی تھی

”والدہ ! اس نے میرے اتنی محنت سے بناۓ جرنل پر پانی پھینک دیا ۔ غصے میں اس پر میرا ہاتھ اٹھ گیا۔“ وہ سراٹھاۓ شرمندہ سا اعتراف جرم کرنے لگا

ساتھ ایک نظر فابیحہ پر بھی ڈالی جس کی رونے کی شدت کی وجہ سے ہچکیاں بند گٸ تھیں ۔


”اس نے جان کر کی یہ حرکت؟“ انہوں نے غصے میں استفسار کیا تو اس نے جھٹ نفی میں سرہلایا


”ارحم میری نظروں کے سامنے سے ہٹ جاٶ اس سے پہلے کہ میں مار مار کر تمہارا سارا غصہ تمہاری ناک کے ذریعے باہر نکال دوں۔ آج تو یہ حرکت کردی ہے ۔آج کے بعد اگر کچھ بھی ایسا کیا تو مجھ سے برا کوٸ نہیں گا۔“ وہ اسے غصے میں گھورتے تنبیہہ کرتے بولے تو وہ سر جھکاۓ اپنی چیزیں سمیٹتا چپ چاپ وہاں سے نکل گیا ۔ اس کے بعد اس کی والدہ نے بھی خوب ہی اس کی کلاس لی تھی ۔ اس نے اپنا جرنل سوکھا کر ایسے ہی جمع کروادیا تھا ۔ اس کے نمبر کم آۓتھے لیکن اسے دکھ نہیں ہوا تھا ۔ اسے تو بس اس چیز کا دکھ تھا کہ اسے فابیحہ پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیۓ تھا ۔ اکثر اس کی بےیقین گرے آنکھیں اس کے خیالوں میں آکر اسے بےچین کردیتی تھیں ۔ اس دن کے بعد سے فابیحہ اسے دیکھتی بھی نہیں تھی ۔ حالانکہ وہ اپنے عمل کی سوری کرچکا تھا ۔ لیکن وہ اس سے مزید دور ہوگٸ ۔ اس سے کترانے لگی ۔ وہ دعاۓخیر اور اذلان کے ساتھ ہنستی کھیلتی تھی ۔ لیکن جہاں ارحم کو دیکھتی اس کے چہرے کی مسکراہٹ غاٸب ہوکر چہرے پر سراسمیگی پھیل جاتی ۔ وہ اس جگہ سے نکل جاتی جس جگہ اس کے ہونے کے امکان ہوتا۔ وہ چھٹیوں میں بھی گھر پر نہیں رہتی تھی ۔ اپنے ننھیال بھاگ جاتی ۔ وقت کا کام گزرنا تھا سو تیزی سے گزرتا گیا ۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد گھر میں اس کے رشتے کی باتیں اٹھنے لگیں ۔ ان دونوں اس کی دونوں بہنیں جو ایک ہی گھر میں بیاہ کر گٸیں تھیں ۔ چھٹیاں گزارنے کےلۓ آٸ ہوٸ تھیں ۔ ڈنر کے بعد سب بچہ پارٹی اور دعاۓخیر کو اذلان آٸسکریم کھلانے لےجاچکا تھا ۔ جبکہ باقی گھر والے اس کے دونوں بہنوٸیوں کے ساتھ نیچے سب کے ساتھ بیٹھے تھے۔ فابیحہ اذلان کے ساتھ نہیں کیونکہ سیلمہ بیگم نے اسے روک لۓ تھا ۔ اب وہ اس کی دونوں بڑی بہنوں کے ساتھ فابیحہ کے روم میں موجود تھیں ۔ جب سلیمہ بیگم نے بات کا آغاز کیا


”سب لڑکیوں کو ایک نا ایک دن اپنے قریب ترین رشتوں کو چھوڑ کر جانا ہی پڑتا ہے ۔ تمہاری بہنوں کو بھی میں نے ایک مخصوص عمر میں ان کے گھر کا کردیا تھا ۔ تم نے بھی ماشاءاللہ اپنی پڑھاٸ مکمل کرلی ہے ۔ تم ہم پر بھاری نہیں ہو لیکن یہ نکاح میری نبی کی سنت اور معاشرے کی ریت ہے ۔ ہربیٹی کو ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ کر اپنے ہمسفر کے سنگ رخصت کرنا ہوتا ہے ۔ یہی سہی عمر ہے جب ہم تمہاری شادی کے بارے میں سوچیں ۔۔“وہ اس کواپنےبانہوں کے حلقے میں لۓ شفقت بھرے لہجے سمجھاتے ہوۓ بولیں

وہ خاموش سرجھکاۓ بیٹھی رہی ۔ اس کی دونوں بہنیں بھی سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں ۔


”تمہاری خالا نے زبیر کے لۓ تمہارا ہاتھ مانگا ہے ۔ وہ تمہارا بچپن کا دوست بھی ہے اور تمہیں پسند بھی کرتا ہے ۔“ سلیمہ بیگم کی بات اس نے ہی نہیں باہردروازے کے پاس روکے ارحم نے بھی سنی ۔ اس کے جبڑے ایک دم بھیچ گۓ جبکہ چہرے کے عضلات تن سے گۓ تھے ۔ وہ تایا ابو کے کہنے پر انہیں بلانا آیا تھا ۔ لیکن غیر ارادی طور پر ان کی گفتگو سنتے اس کے قدم باہر ہی ٹہرگۓ ۔ اس نے سنا تاٸ امی بول رہی تھیں


”ایک رشتہ اور بھی ہے ۔“ وہ بول کر خاموش ہوٸیں تو باہرکھڑے ارحم کو بے چینی نے آن گھیرا جبکہ فابیحہ نےان کے یوں چپ ہوجانے پر نظریں اٹھاکر اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا ۔ جو جملا ادھورا چھوڑ تذبذب کا شکار تھیں ۔اور وہ جب بولیں تو سمجھ گٸ کہ وہ کیوں ہچکچارہی تھیں


”تمہارے چچا نے ارحم کے لۓ تمہارا ہاتھ مانگا ہے ۔ تمہاری چچی کی بھی یہی خواہش ۔۔۔۔“


”آپ آنی کو ہاں کردیں ۔۔“ ان کی بات کاٹتی وہ جس تیزی سے بولی تھی ان تینوں حیرت سے اسے دیکھا ۔ باہر کھڑے ارحم کو اس سے زیادہ ناسن پایا ۔ وہ اسے ریجیکٹ کرچکی تھی ، اپنے بچپن کے دوست کے لۓ ۔ اس کا انکار تیر کی طرح اس کے دل میں جاکر پیوست ہوا تھا ۔ وہ تن فن کرتا اپنے شدید اشتعال کو دباۓ وہاں سے نکلا تھا ۔


”زبیر سے تمہاری کوٸ دلی وابستگی ہے؟“ اس کی بڑی بہن لبنیٰ نے پوچھا


”نہیں بجیا ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔“ اس نے تیزی سے ان کے خیال کی نفی کی


”تو پھرارحم کو انکار کیوں کررہی ہو؟ جانتی ہو امی اور بابا اس رشتے پر کس قدر خوش ہیں ۔ زبیر کا رشتہ بھی بےشک بہت اچھا ہے لیکن اس کی جاب اسلام آباد میں ہے ۔ ہم دونوں تو شادی کے بعد اس شہر سے کیا اس ملک سے ہی دور ہوچکے ہیں ۔

کم از کم تم تو ان کے قریب رہو ۔“ اس کی دوسری نمبر والی بڑی بہن سمیرا بھی اسے سمجھاتے ہوۓ بولی


”بیٹا مجھے معلوم ہے کہ تم ارحم کی سنجیدہ طبیعت کی وجہ سے اس سے خاٸف ہو ۔ لیکن بیٹا وہ ہر لحاظ سے تمہارے لۓ بہترین ہمسفر ثابت ہوگا ۔ حارث اور ثروت نے بہت مان سے تمہارا ہاتھ مانگا ہے ۔ بےشک اسی مان سے بڑی آپی نے بھی تمہارا ہاتھ مانگا ہے ۔ لیکن میری اور تمہارے بابا خوشی ارحم کے ساتھ تمہارے رشتے کرنے میں ہے ۔ اس صورت میں تم ہماری نظروں کے سامنے رہی گی۔ میری دو بیٹیاں تو مجھ سے اتنی دور ہے کہ میں چاہ کر بھی ان کو اپنی ممتا بھری آغوش کی گرمی نہیں دے پاتی ۔ بیچ میں فاصلے حاٸل ہیں ۔ یہ خود سال دو سال میں چکر لگالیں تو ملاقات ہوجاتی ہے ۔ ابھی تشنگی مٹتی بھی نہیں ہے کہ یہ لوگ رخصت سفر باندھ لیتے ہیں ۔ میں نے چاہتی میری یہ بیٹی بھی میری نظروں سے دور چلی جاۓ اور کیا تمہیں لگتا ہے ہم تمہارے لۓ کوٸ غلط فیصلہ کریں گیں؟“

آخر میں وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے اس سے پیار سے استفسار کرنے لگیں


”فابیحہ ! تم ریلکس ہوکر فیصلہ کرو ۔ تم پر کوٸ دباٶ نہیں ہے ۔ اگر تم نہیں چاہتی کہ تم ارحم سے شادی کرو تو ہم آنی کو ہاں کردیتے ہیں ۔ ہمارے لۓ تمہاری خوشی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔“ لبنیٰ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ اس کے سر پر ہاتھ رکھتی اسے بولنے کی ڈھارس بندھاتی بولی


اس نے ایک نظر اپنی ماں کا چہرہ دیکھا جن کے چہرے پر اس وقت بھی دھیمی سی مسکان سجی تھی ۔ اس کے ماں باپ اس کے لۓ گھنی چھاٶں جیسے تھے ۔ جنہوں نے ہر گرم سرد سے اسے محفوظ رکھا تھا۔ اور آج بھی اس کی خوشی ان کے لۓ زیادہ اہمیت رکھتی تھی ۔ تو کیا وہ ان کی خوشی کی خاطر اپنے ڈر اور خوف کو پس پشت نہیں ڈال سکتی تھی؟ اس نے خود سے سوال کیا تو دل نے جھٹ ہاں میں جواب دیا ۔


”امی میری خوشی آپ کی اور بابا کی خوشی میں ہے۔ آپ اور بابا جو میرے لۓ سوچیں گیں چاہیں گے ، میرے لۓ وہی سب سے بہترین فیصلہ ہوگا ۔“ وہ ان کے دونوں ہاتھ تھامے محبت سے کہتی ان کے ہاتھ چوم کر اپنی آنکھوں سے لگاتی بولی

اس کی اقرار کرنے پر دونوں بہنوں نے ایک وقت میں اسے کولی بھرلی ۔ ان کے اسطرح جزباتی ہونے پر پہلے تو وہ گھبراگٸ پھر وہ تینوں ایک ساتھ ہنس پڑیں ۔ سلیمہ بیگم نے تشکر بھرے احساس میں گھیرے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور ان کے لۓ خوشیوں کی ڈھیر ساری زیرلب دعاٸیں کیں ۔ اس کے بعد کے مرحلے بہت تیزی سے طے ہوۓ تھے ۔ ان کی بہنوں کو اگلے ہفتے واپس جانا تھا تو بڑوں کی مشاورت سے ان دونوں کا نکاح رکھ دیا گیا ۔ ارحم اس کے اقرار کا سن حیران ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر مطمین ہوگیا کہ یہ سب اس کی مرضی کے بغیر تو ہونے سے رہا ۔اس نے سوچا ”ہوسکتا ہے کہ میرے تھپڑ مارنے کو لیکر وہ مجھ سے ناراض ہو ۔ اسی وجہ سے انکار کررہی ہو ۔ لیکن تاٸ امی کے سمجھانے پر مان گٸ ہو۔“ یہی سب سوچتے اس کے جلتے تڑپتے دل پر پھوار سی پڑی تھی ۔ اس نے سوچا تھا کہ نکاح کے بعد وہ اس سے اپنے اس عمل کی ایک دفعہ پھر معافی مانگ لے گا ۔لیکن ایسا ہونہیں سکا ۔ وہ اول تو اس کے سامنے آتی ہی نہیں تھی اور اگر جو وہ اس سے بات کرنا چاہتا وہ گھبراکر بدحواس سے وہاں سے نکل جاتی ۔ زیادہ وقت اس کا دعاۓخیر کے ساتھ گزرتا تھا ۔ ایسے میں اس کے دل کی بات اس کے دل میں ہی رہ گٸ تھی ۔ دن گزرے تو اسے احساس ہوا کہ وہ سب کے ساتھ نارمل رہتی تھی ۔ بس اس کے سامنے ہی وہ عجیب و غریب حرکات کرتی تھی ۔ وہ اس سے بدگمان نہیں ہونا چاہتا تھا ۔ لیکن اس کا گریز اور کتراٶ اسے بدگمان کررہا تھا ۔ یہی سب سوچتے آج وہ پھٹ پڑا تھا ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مضطرب اور بےکل تھے ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تو تھے لیکن روبرو نہیں تھے ۔ روبرو ہوجاتے تو شاید یہ ساری الجھنیں بھی سلجھ جاتیں ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”اندر بڑوں کی میٹنگ چل رہی ہے ۔ کسی کو کچھ علم ہے کہ کیا معاملہ ہے؟“ دعاۓخیر سے صبر ناہوا تو پوچھ بیٹھی ۔ اندر وارث صاحب کے روم میں گھر کے چاروں بڑے موجود تھے اور سیٹنگ ایریا میں ارحم کو چھوڑ وہ تینوں ہی موجود تھے ۔

دعاۓخیر فابیحہ کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ اس کے بالکل سامنے اذلان بیٹھا تھا ۔ بظاہر تو اسے دیکھنے سے لگ رہاتھا کہ وہ موباٸل میں مصروف ہے

لیکن درپردہ اس کا سارا ذہن بند کمرے میں ہورہی گفتگو کی جانب تھا ۔ ان دونوں بہن بھاٸیوں کو ہی اندر ہونے والے بات چیت کی خبر تھی پر دعاۓخیر کو بتاکر انہیں طوفان تھوڑی لانا تھا ۔


”بھٸ ہمیں کیا معلوم اندر کیا مزاکرات چل رہے ہیں۔

میں اور آپو بھی تمہارے ساتھ ہی بیٹھیں ہیں ۔ ہاں اگر تمہیں کن سوٸیاں لینی ہے تو جاکر بابا کے دروازے سے کان لگالو ۔ کچھ نا کچھ تو پتا چل ہی جاۓگا۔“ وہ چہرے پر دل جلاتی مسکان سجاۓ اسے سلگاہی گیا


”تم ! تمہیں کتنی دفعہ کہوں آپ کرکے بات کیا کروں مجھ سے ، اور کن سوٸیوں کا کیا مطلب ہوا؟“ وہ ایک جھٹکے سے اٹھتی اس کے سرپر جاکھڑی ہوٸ اور اپنے بڑے ہونے کا رعب جھاڑتی دانت کچکچاکر گویا ہوٸ ۔ ویسے ہی اس کی روشن چمک دار آنکھوں کی روشنی سی اسے الجھن سی ہورہی تھی ۔ نجانے وہ کس طرح دیکھتا تھا کہ وہ اس کی نظروں میں زیادہ دیر دیکھ ہی نہیں پاتی تھی ۔ اس وقت بھی جھنجھلاکر اس پر چڑھ دوڑی تھی ۔


”اذلان بعض آجاٶ اب تو اپنی حرکتوں سے ۔“ تنبیہہ انداز میں وہ اب پر زور دیتی اسے سرزنش کرتی بولی

”دعاۓخیر جانو تم میرے پاس آجاٶ ۔ چھوڑو ایسے یہ تو یونہی ہانکتا رہتا ہے۔“ اب کے وہ اسے پچکارتے ہوۓ بولی تو وہ اذلان کو گھورتے ہوۓ واپس اسی کے پاس بیٹھ گٸ


”ہک ہا ! یہ لڑکیاں کس قدر آزاد ہوتی ہیں ۔ جو دل چاہیں بول سکتی ہیں ۔ ساری پابندیاں تو بس ہم لڑکوں کے ساتھ ہیں ۔ ایک میں بےچارہ لڑکا ، اگر ابھی جو میں اس چلی سوس کو جانو بول دوں تو اس نے تو؟“ اس نے خودکلامی کرتے تصور کی آنکھ سے یہ منظر دیکھنا چاہا تو جھرجھری لے کر صوفے کے ساتھ رکھے کورنر کو دیکھنے لگا ۔ جس پر خوبصورت سا گلدان رکھا تھا ۔ جس میں انہی کے گارڈن کے تازہ پھول مہک رہے تھے ۔ وہ پرسکون سا اپنے بالوں سے بھرے سر پر ہاتھ پھیر کررہ گیا


”اَلسَلامُ عَلَيْكُم‎ ! ارحم نے اندر آتے سنجیدگی سے سلام کیا


”وَعَلَيْكُم السَّلَام! تینوں نے ساتھ ہی جواب دیا تھا ۔

اذلان اور دعاۓخیر کی آواز پرجوش سی تھی تو فابیحہ کی ایک دم دھیمی سی

”ارحم بھاٸ ! آج آپ کی فلاٸٹ نے لیٹ لینڈنگ کی،


اتنا وقت کہاں لگاکر آۓ ہیں؟“ وہ اندر آتے ارحم کو دیکھ چہکا اور ساتھ شرارت استفسار کرنے لگا ۔ فابیحہ نے ایک چور نظر اس کے توانا وجود پر ڈالی۔بلیک پینٹ پر اس نے واٸٹ شرٹ پہنی تھی ۔ جو اس وقت کہنیوں تک فولڈ تھی ۔ ٹاٸ کی ناٹ ڈھیلی تھی جبکہ کورٹ اس نے بازو پر ڈالا ہوا تھا ۔ اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں تھکن صاف محسوس کی جاسکتی تھی ۔ دلکش نقوش سے سجے چہرے پر بلاکی سنجیدگی لۓ وہ فابیحہ کی دل کی دھڑکنیں بڑھاگیا تھا ۔صبح کے بعد سے وہ اب دیکھا تھا ۔ وہ اسے خفا اور ناراض سے لگا۔ اس کی خفگی کے خیال سے اس کے اندر بےچینی سی سراعت کرنے لگی ۔ اس نے بےدردی سے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبادیا ۔ ارحم کی نظروں سے اس کی یہ حرکت مخفی نہیں رہ سکی ۔ اس حرکت پر اس نے ایک ناگوار بھری بھرپور نظر فابیحہ پر ڈالی تو وہ سٹپٹاکر اپنا چہرہ جھکاگٸ ۔ دعاۓخیر یہ سب منظر بہت دلچسپی سے ملاحضہ کر رہی تھی ۔ آخر کو قسط میں اس نے یہی منظرکشی کرنی تھی ۔ ارحم کی سردناگوار بھری نظریں اور فابیحہ کا سراسمیگی سے سٹپٹاکر نظریں جھکالینا ۔


”میں بہت تھک گیا ہوں سو آرام کروں گا ۔“ وہ اپنی بھاری گھممبیر آواز میں بولتا اس سب کو شب بخیر کہتا اوپر کی جانب چل دیا ۔ اس نے پھر چور نظروں سے اس کی چوڑی پشت کو نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھا تھا


”بھابھی یار آپ ان سے اتنا خاٸف کیوں رہتی ہیں ۔ اتنے تو رج کے ہنڈسیم ہیں میرے بھیا ، لڑکیاں انہیں دیکھ ٹھنڈی آہیں بھرتی ہیں اور ایک آپ ہیں ۔ سٹپٹانا گھبرانا نظریی چرانا وغیرہ وغیرہ شروع کردیتی ہیں ۔ تھوڑی اپنے اندر ہمت و جرت لاٸیں ۔

بےخوف ہوکر ان کی نظروں میں دیکھا کریں ۔ وہ کوٸ آدم خور تو نہیں ہیں جو آپ کو کھاجاٸیں گے۔“ وہ بڑے بڑوں کی طرح اس کے کان میں گھسی اپنے ارشادت سے اسے فیضیاب کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔ جبکہ لفظ آدم خور پر اس نے گھبراکر اسے دیکھا تھا ۔ اس کے ذہن میں سب سے پہلے یہی خیال آیا کہ اس نے ارحم اور اس کی بات چیت سن تو نہیں لی ۔ اگر جو ایسا ہوتا تو اس کی بہت سبکی ہوتی ۔ لیکن پھر یہ سوچ کر مطمین ہوگٸ کہ اس وقت وہاں ان دونوں کے سوا کوٸ نہیں تھا


”میری بہن کو کیا پٹیاں پڑھا رہی ہو؟“ ارحم نے اسے مسلسل فابیحہ کے کان میں گھسے دیکھ مشکوک انداز میں پوچھا


ّ”کیوں تم سی آٸ ڈی لگے ہو یا میں کوٸ مجرم ہوں جو تمہارے سوال کا جواب دیتی پھیروں ۔ چھوٹے ہو تو چھوٹے بن کر رہو۔“ اسے آنکھیں دیکھاتے وہ تڑخ کر گویا ہوٸ


”آنسہ دعاۓخیر صاحبہ ! وہ وقت بہت قریب ہے جب میں تمہیں اچھے سے سمجھاٶں گا کہ کون چھوٹا ہے اور کون بڑھا ہے۔“ وہ اٹھ کر اس کے سامنے تن کر کھڑے ہوتے معنی خیزی سے گویا ہوا

اس وقت وہ بلیک ٹراٶزر پر واٸٹ ٹی شرٹ پہنے ہوۓ تھا ۔ شرٹ کی آدھی آستینوں سے نظریں آتے اس کے ڈولے والے بازو دیکھ اس کا اچانک ہی اسے جھرجھری چڑی


”تم مجھے اس طرح حراس نہیں کرسکتے ۔۔۔“ وہ اسے خود پر چھایا ہوا محسوس ہوا تو اس کی زبان لڑکھڑاگٸ ۔ اس جملے پر اذلان کی ایک آٸبرو اوپر کی جانب شوٹ کرگٸ ۔ ان کے گھر کے بیک پر ارحم نے باقاعدہ جیم خانہ بنوایا تھا اور ان دونوں کا بشتر وقت وہی گزرتا تھا ۔ آج سے پہلے تو اس نے غور نہیں کیا تھا لیکن آج اور اس وقت وہ اسے خود کے مقابلے میں طاقتور اور توانا محسوس ہوا تھا تبھی وہ اس سے تھوڑا گھبراگٸ تھی ۔ ورنہ جس لڑکے کی بچپن میں اس نے پٹاٸ کی اس کی چیز چھنی اس سے بھلا وہ ڈرسکتی تھی؟ کبھی نہیں ۔۔۔

”لاٸک سریلی ! میں تمہیں خوف ذدہ کررہا ہوں؟“ چہرے پر سنجیدگی اور آنکھوں میں شرارت لۓ وہ مزید اس پر گھنے بادل جیسے سیاہ فگن ہوا تو وہ اب کے پوری طرح فابیحہ سے جاچپکی


”آپو اسے سمجھالیں ۔ ورنہ کارنر پر رکھا گلدان میں نے اس کے سر پر ماردینا ہے ۔“ اپنی خفت مٹانے کو وہ خود پر غصہ طاری کرتی فابیحہ سے بولی


ارحم ! یہ تنبیہہ تھی جس کا مطلب تھاکہ بہت ہوگیا ۔ ارحم نے جھٹ اپنے چہرے پر کلر اسماٸل سجاٸ اور جاکر واپس شرافت سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔ جبکہ وہ خود اندر ہی اندر اپنی مغلوب کیفیت پر خود کو ڈپٹ رہی تھی کہ وہ کیوں اس کمینے کے آگے دبی؟ کاش ابھی بھی وہ چھوٹا دیکھتا تو وہ اس کی گدی بجادیتی جیسے بچپن میں کرتی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”بھاٸ صاحب! آپ کھل کر کہیں میں سمجھ نہیں پارہ کہ آپ مجھ سے میری کون سی قیمتی چیز مانگ رہے ہیں؟“ حارث صاحب اپنے سامنے بیٹھے بھاٸ بھابھی کو دیکھ الجھن آمیز لہجے میں گویا ہوۓ ۔ وہی الجھن ثروت بیگم کہ چہرے پر بھی عیاں تھی جب انہوں نے بات کی شروعات میں کہا کہ وہ ان سے ان کی بہت قیمتی چیز مانگنے آۓ ہیں۔

”ثروت میرے لۓ دعاۓخیر کیا ہے تم اچھے سے جانتی ہو۔ میرے لۓ ہی کیا وہ تو ہم سب کی زندگیوں میں ہی بہت اھمیت رکھتی ہے ۔ اس کی معصومیت اس کا بھولپن اس کی ہر ادا سے محبت ہے مجھے ۔ اس کے یہاں سے جانا کا سوچوں تو دل کی دھڑکن مدھم پڑنے لگتی ہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ یہاں سے کہی نہیں جاۓ ۔ اسی لۓ میں نے اور وارث نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اذلان کے لۓ دعاۓخیر کو مانگ لیں ۔ تاکہ وہ تمام عمر ہماری نظروں کے سامنے رہے ۔“ سلیمہ بیگم ان اپنی خواہش ان کے سامنے رکھتے عاجزانہ گویا ہوٸیں


”بھابھی یوں نا کہیں ، آپ تو حق سے اس کا ہاتھ مانگ سکتی ہیں ۔ ہم سے زیادہ حق اس پر تو آپ کا ہے۔ وہ تو آٸ آپ کی گود میں تھی ۔ اس کا جس طرح اپنے خیال رکھا اسے پیار دیا سنبھلا، ثروت کو تو اپنا ہوش نہیں تھا ۔ آپ کی خواہش ہمیں بھی عزیز ہے کیوں ثروت؟“ محبت و احترام سے کہتے آخر میں انہوں نے اپنی بیگم کی راۓ طلب کی


”حارث بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ لیکن کیا اذلان اس رشتے پر راضی ہوگا؟ ان کی عمروں کا بھی فرق ہے۔ ان میں بنتی بھی زیادہ نہیں ہے۔“ اپنے شوہر کی بات سے متفق ہوتے انہوں نے اپنا خدشہ بھی بیان کردیا۔


”دیکھو بھٸ عمروں کا فرق کوٸ معنیٰ نہیں رکھتا۔ ہمارے دین میں اس کی ممانیت نہیں ہے ۔ رہی اذلان کی بات تو اس کی مثبت راۓ کے بعد ہی ہم سوالی بن کر تمہارے سامنے آۓ ہیں ۔ اب چاہو تو ہمیں خالی ہاتھ لوٹا دو چاہو تو ہمارا دامن خوشیوں سے بھردو ۔“وہ ساری بات ان کے سامنے رکھتے ہوۓ بولے ان کی بات پر ان دونوں میاں بیوی نے مسکراکر ایک دوسرے کو دیکھا


”بھاٸ مجھے اور ثروت کو اس رشتے پر کوٸ اعتراض نہیں بلکہ ہم دونوں دل وجان سے راضی ہیں ۔ اذلان گھر کا بچہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہمیں کون عزیز ہوگا؟ بس ایک دفعہ ہم دعاۓخیر سے اس کی مرضی پوچھ لیں۔“ حارث صاحب کی جانب سے مثبت جواب ملتے ہی وہ خوشی سے اٹھ کھڑے ہوۓ دونوں بھاٸ خوشی میں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوۓ ۔ سلیمہ بیگم تو بے انتہا خوش تھیں ۔ خوشی ان کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔ وہ ان کی لاڈلی کی اولاد تھی ،اور ان کے لۓ سب سے زیادہ لاڈلی تھی ۔ سب کے چہروں پر آسودگی بھری مسکان تھی ۔ اس رشتے پر ثروت بیگم بھی بےپناہ خوش تھیں ۔ اچھا تھا برسوں پرانا راز اس رشتے کے بعد دفن ہوجانا تھا ۔ کسی کو کچھ نہیں پتاچلنا تھا ۔ کہی اور اگر دعاۓخیر کی شادی کرتیں تو دھڑکا ہی لگارہتا ۔ لیکن اب وہ سب ہی مطمین تھے۔


”بس تو جیسے ہی دعاۓخیر ہاں بولیں ہم جلد ہی نکاح کی تقریب رکھ لیں گیں۔“سلیمہ بیگم نے ہتھیلی پر سرسو جماٸ


”اچھا ہے نیک کام مں دیر نہیں کرنی چاہیۓ۔“ ثروت بیگم نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاٸ ۔ اس کمرے میں دعاۓ خیر کی زندگی کا فیصلہ ہورہا تھا اور وہ اپنے کمرے میں اپنی قسط لکھنے میں مگن تھی ۔ جس میں کھڑوس ہیرو ہیروٸن کو اپنا اکڑو اٹیٹیوڈ دیکھا رہا تھا ۔ قسط لکھتے ہوۓ ہنڈفری اس کے کان میں تھی جس پر رومینٹک سونگ چل رہا تھا اور لکھتے ہوۓ اس کے چہرے پر ایک دھیمی مسکان تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”والدہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ میری شادی وہ بھی اس اذلان کے ساتھ؟“ بےیقینی کے سمندر میں خوطہ زن اس کے منہ سے پھسی پھسی آواز برآمد ہوٸ


”تم تو یوں حیران پریشان ہورہی ہو بی بی! جیسے میں نے زمین آسمان کو ایک کردینے کی بات کردی ہو۔“ اس کے ری ایکشن کو خاطر میں نالاتے ہوۓ انہوں نے ناگوار لہجے میں کہا


”آپ اگر زمین آسمان کے ایک ہونے کا بتاتی میں تب بھی اتنی حیران نا ہوتی جتنی آپ کی بات سے مجھے شاک لگا ہے ۔ آپ چاہتی ہیں میں اس کل کے بچے سے شادی کرلوں؟“ وہ پھٹی پھٹی آواز میں بولی


”بی بی ! وہ کل بچہ تھا اب نہیں ۔ ماشاءاللہ پڑھا لکھا فرمابراد ، ہر بری عادت سے ممبرا ہے جو آجکل کے نوجوانوں میں کوٹ کوٹ بھری ہے ، پان ، گٹکا چھالیہ سگریٹ کوٸ براٸ نہیں اس میں۔ بانکا سجیلا نوجوان ہے ۔ لڑکیاں تو ایسے رشتوں کے خواب دیکھتی ہیں ۔ ایک میری اولاد ہے ناشکری۔“ اذلان کے شان میں قصیدے پڑھتی آخر میں وہ اسے لتاڑنا نا بھولی


والدہ ! احتجاجاً اس نے ان کا نام پکارہ


”کیا والدہ والدہ کی رٹ لگاٸ ہوٸ ہے؟ رشتے سے انکار کا کوٸ ٹھوس جواز پیش کرو ۔ تم سے عمر میں کم ہے لیکن عقل میں ہزار گنا بہتر ہے۔“ وہ ایک دفعہ پھر اس کی قصیدہ گوٸ کرتی اور اسے باتیں سناتی ہوٸ بولیں


”مجھے انکار ہے اس رشتے سے ۔۔“ وہ اپنا اشتعال دباۓ دو ٹوک لہجے میں بولی


”وجہ دو انکار کی، وہ بھی معقول ۔ کیونکہ ہم سب کو نا اس رشتے میں کوٸ براٸ نظر آرہی ہے اور نا نقص دیکھ رہا ہے۔“ سوچ لو کل تک کا وقت ہے تمہارے پاس لیکن جواب ہاں میں ہی ہو۔ اب کے تمہارا جواب تمہارا بابا لینے آٸیں گے ۔ مجھے تو تم سوتیلی جلاد ماں کی صفت میں شامل کر چھوڑتی ہو۔“ وہ طوفان کی طرح دعاۓخیر کی پرسکون زندگی کو الٹ پلٹ کرتی جاچکیں تھیں ۔ اپنی بےبسی پر اس کی گھنی خمدار پلکیں بھیگ گٸیں تھیں ۔ پھر اچانک اس کی بےبسی غصے میں ڈھلنے لگی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


وہ تن فن کرتی آتش فشاں بنی ۔ اذلان پر اپنے غصے کا لاوا اگلنے کو تیار جھٹکے سے اس کے روم میں داخل ہوٸ ۔ اندر آکر اس نے غصے میں دروازہ بند کرکے پورے کمرے میں اذلان کو ایسے ڈھونڈا جیسے شیرنی اپنے شکار کو ڈھونڈتی ہے ۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کہیں سے وہ آۓ تو وہ اسے چیر پھاڑ دے ۔ کلک کی آواز سے لاک کھلا اور واش روم کا دروازہ کھول کر اور اذلان ریلکس سا صرف ٹراٶزر میں شرٹ لیس فریش سا باہر نکلا ۔ اسکے گیلے بال اس کے ماتھے پر بکھرے تھے تولیہ سے سررگڑتے اس ہلکی سی نسوانی چیخ سناٸ دی ۔


”تم ، تم میں تھوڑی سی بھی شرم باقی ہے ۔ کوٸ یوں بھی بھلا بغیر کپڑوں کے گھومتا ہے۔“ اسے باتھ روم سے نکلتے دیکھ پہلے تو اس کی بلڈرز جیسی باڈی دیکھ اس کی آنکھیں پوری کھل گٸیں ۔ پھر اس پر شرم کا غلبا چھایا تو ایک ہلکی سی چیخ مار کر وہ گھوم کر اس پر الٹ پڑی

اذلان نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجاٸ اور ٹاول اپنے گلے میں ڈالے اس کی جانب پیش قدمی شروع کی جو رات کے اس پہر حق سے اس کے کمرے میں موجود شرم سے رخ موڑے اس کے دل کے تار چھیڑچکی تھی


”میرا روم، میری مرضی ۔میں کپڑے پہن کر گھوموں یا ایسے ہی ۔ ویسے تم اس وقت میرے کمرے میں کیا کررہی ہو؟“ اس کے قریب رک کر اس نے لاپرواہی سے کہتے آخری جملا سنجیدگی سے پوچھا

بس یہی پوچھنا غضب ہوا ۔ وہ غصے میں پلٹی


”تم اس سب ڈارمے کے بارے میں سب جانتے تھے؟ سچ سچ بتانا ورنہ تمہاری جان اپنے ہاتھوں سے لوں گی میں۔“ اس کے مزید نزدیک ہوتے اس کی مسکراتی نظروں میں اپنی شرربار نظروں کو گاڑے وہ پھنکاری تھی ۔ کون سی شرم کیسی شرم ، شرم گٸ بھاڑ میں، والے محاورے پر عمل کۓ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے کچا چبانے کے در پر تھی وہ بھی بغیر کسی لوازمات کے بغیر۔۔


”اگر تو تمہارا اشارہ ہماری شادی کی جانب ہے تو ہاں مجھ سے امی نے پوچھا کہ وہ میری شادی تم سے کرنا چاہتی ہیں ۔ مجھے اس پر اعتراض تو نہیں؟ میں ٹہرا اپنے والدین کی فرمابردار اولاد ۔ جھٹ اثبات میں سرہلاکر ثبوت پیش کردیا۔“ وہ ایک ایک لفظ سکون سے کہتا اسے بےسکون کرگیا


”تمہاری اتنی ہمت اتنی جرت کہ تم مجھ سے یعنی دعاۓخیر سے شادی کرنے کاسوچو، تمہارا میں حشر بیگاڑ دوں گی ۔“ وہ تیش میں اسے مارنے کو لپکی اگر اذلان بروقت اس کی کلاٸیاں نا تھام لیتا تو وہ اس کا چہرہ زخمی کردیتی


”یار کیا کرتی ہو؟ ایسا کرکے تم مجھے کسی کو بھی منہ دیکھانے لاٸق نہیں چھوڑو گی ۔ میں ٹہرا کنورہ بندہ کس کس کو وضاحت دوں گا کہ مجھ پر کیا واردات گزری ہے۔“ اس کی کلاٸیاں جکڑے اسے بےبس کۓ وہ سنجیدگی سے بول ضرور رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ناچتی شرارت وہ صاف دیکھ سکتی تھی


”اذلان کے بچے اگر تم نے اس رشتے سے انکار نہیں کیا تو میں تمہارا قتل کردوں گی۔“ اب کے وہ دہاڑی تھی ۔ وہ اسے مسلسل زچ کۓ جارہا تھا اور اس کے غصے کا گراف اوپر ہی اوپر جارہا تھا ۔ اسے اپنی کلاٸیوں پر اس کی گرفت کمزور لگی تو اس نے جھٹکے سے اس کی گرفت سے اپنے ہاتھ چھوڑواکر اسے پیچھے دھکیلا لیکن مجال ہے جو وہ ایک انچ بھی ہلاہو ۔نجانے کیا کھاتا تھا پتھر جیسا سخت ہورہا تھا ۔ اب اسے اپنے یہاں آنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہونے لگا ۔ اس کے مزید قریب ہونے پر وہ ڈر کے اس سے دو قدم دور ہوٸ ۔ اب وہ محفوظ کن انداز میں دو قدم آگے ہوا تو وہ پھر دوقدم دور ہوٸ

یوں لگ رہا تھا کہ وہ قدم قدم کھیل رہے ہیں ۔ پیچھے ہوتے ہوتے وہ دیوار سے جالگی ۔ اس نے گھبراکر حراساں نظریں اس پہاڑ جیسے وجود پر ڈالی جو اسے گھیرے کھڑا تھا ۔ اس قربت پر اس کے گلے کی گلٹی ڈوب کر ابھری ۔ ایسے سین لکھنے پر اسے بہت مزا آتا تھا لیکن جب خود پر وہی سب بیت رہا تھا تو اس کی جان ہوا ہورہی تھی ۔ گلاخشک ہونے کا مطلب بھی اسے ابھی سہی سے معلوم پڑا تھا ۔ ناول کی ہیرٶٸن کا ڈر خوف آج سہی معنوں میں اس پر اشکار ہوچکا تھا جبکہ مقابل اس کی ہراساں شربتی آنکھوں میں اپنی مخمور آنکھیں ڈالے کھڑا تھا


”تم چاہتی ہو کہ میں اس رشتے سے انکار کردوں؟“ اس کے داٸیں باٸیں ہاتھ جماۓ وہ اس کی جانب جھکے ایک آٸبرو اٹھاۓ اس کے شرم و خوف سے لال پیلے چہرے کے رنگوں کو دیکھ محفوظ ہوتے سنجیدگی سے استفسار کرنے لگا ۔ ایک تو وہ شرٹ لیس تھا اوپر سے اس کے پاس سے آتی شیمپو اور سوپ کی دلفریب خوشبو اس کے حواسوں پر سوار ہوکر اسے جھنجھلانے پر مجبور کررہی تھی ۔ سونے پہ سوہاگہ اس کے سیکس پیک اس کے ہواس چھین رہے تھے ۔ اس نے دل ہی دل میں خود کو شاہی گالیوں سے نوازہ کہ وہ رات کے اس پہر اس کمینے کے کمرے میں آٸ ہی کیوں ؟ اس کی اس وقت وہ حالت تھی کہ رضیہ پھنس گٸ ٹھرکی غنڈے کے نرغےمیں ۔۔۔


”دیکھو اپنا یہ کمینہ پن ، چھچھورا پن ،لوفر پن اور ٹھرکی پن سنبھال کر رکھو، میں متاثر ہونے والی نہیں ۔“ اس نے تیش میں بھڑک ماری ۔ اس کا چہرہ غصے میں تپ کر سرخ انار جیسا ہوگیا تھا


”ویسے تمہارا تمتما چہرہ دیکھ مجھے تم ریڈچلی سوس لگ رہی ہو۔ اور پتا ہے کہ میرا دل کیا چاہ رہا ہے؟“ اس کی جانب مزید جھکے وہ رازداری سے یوں گویا ہوا جیسےوہ بچپن کے لنگوٹیے یار رہے ہوں ۔ یا پھر یک جان دوقالب جیسا ان کے بیچ دوستانا ہو


بےساختہ ہی اس کے منہ سے” کیا “نکلا


” اس ریڈ چلی سوس کو میں اپنے فیورٹ زنگر برگر پر ڈال کر کھاجاٶں۔“ اس کے ماتھے سے ماتھا جوڑے وہ گھمبیر لہجے میں سرگوشانہ گویا ہوتے اس کپکپانے پر مجبور کرگیا


کچھ سیکنڈ لگے تھے اسے اس کی بات سمجھنے میں ۔ اس کے بعد اس کے اندر سے آتش فشاں پھٹ کر باہر بہہ نکلا ۔ اس نے اپنی پوری طاقت لگا کر اسے خود سے پرے دھکیلا تو وہ خود ہی شرافت سے دور ہوگیا ۔ اس کی خونخوار نظروں کی پروا کۓ بغیر وہ پلٹ کر بیڈ کے پاس آیا اور پر جھک کر اس نے اپنی شرٹ اٹھاٸ ۔ پھروہ تولیہ بستر پر پھینک کر شرٹ پہننے لگا۔ ٹھیک اسی وقت اس کی کمر پر کشن آکر لگا ۔ وہ جھٹکے سے پلٹا


”کمینے ٹہرکی!یہ ٹھرک پن کسی اور پر جھاڑو۔“

وہ پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولی


”کسی اور پر کیوں ؟ تم ہونا ! تم پر ہی جھاڑوں گا۔ ویسے میرے ٹھرک پن اور کمینے پن سے تم ابھی واقف نہیں ہو ۔ ایک بار دسترس میں آجاٶ سہی سے ان کا مطلب تمہیں سیاہ سباق سے سمجھاٶں گا۔“ شرٹ کے بٹن بند کۓ وہ ایک آنکھ ونگ کۓ بےباکی سے بولا


”شکل گم کرو اپنی، اگر مجھے علم ہوتا ہے کہ تم اتنے ٹھرکی ہو تو قسم سے اپنے قدم تک نا رکھتی یہاں ۔۔“ وہ غصے میں ایک دفعہ پھر اسے کشن کھینچ کے مارتی بولی لیکن اسنے ماہر کھلاڑی کی طرح فوراً اسے کیچ کرلیا


”ابھی بات ختم نہیں ہوٸ ۔یاد رکھنا۔۔“ ایک دفعہ پھر بھڑک کر بولتی اسے انگلی دیکھا کر تنبیہہ کرتی تیزی سے وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گٸ ۔


”میری توبہ جو آج کے بعد اس کے کمرے میں جاٶں ۔ بچپن میں تو بڑا بیبا تھا ۔ اب زرا بڑا کیا ہوا پر پرزے ہی نکل آۓ ہیں۔ شادی سے انکار تو تمہارے اچھے بھی کریں گیں بچو! بس تم دیکھتے جاٶ ۔ تمہیں تگنی کا ناچ نا نچوایا تو میرا نام بھی دعاۓ خیر نہیں۔“ وہ حسب عادت بڑبڑکرتی منہ پر ہاتھ پھیرتی وہاں سے جان بچی تو لاکھوں پاۓ سوچتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گٸ تھی ۔

ارحم کو صبح اٹھتے ہی چاۓ چاہیۓ ہوتی تھی ۔ ملازمہ کی ڈیوٹی تھی کہ وہ اسے روم میں چاۓ پہنچاۓ۔ لیکن آج یہ ڈیوٹی فابیحہ نے اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھاٸ تھی ۔ چھوٹی سی ٹرے میں چاۓ کا مگ رکھا تھا ۔ جس سے بھانپ اڑ رہی تھی۔

وہ اس کے دروازے تک آتو گٸ مگر اندر جانے کی ہمت،خود میں مفقود پاتی بند دروازے کے آگے کھڑی ہچکچاہٹ کا شکار تھی ۔ اندر جانا اسے شیر کی کچھار میں جانے جیسا لگ رہا تھا ۔ لیکن اسے اندر جانا ہی تھا ۔ ان دونوں کے بیچ بدگمانی نے جنم لیا تھا ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس بدگمانی کی کونپل بڑھ کے تناور درخت بن جاۓ ۔ اس سے پہلے ہی وہ اس ننھے خطرناک پودے کو جڑ سے ہی اکھاڑ دینا چاہتی تھی ۔اس نے دھڑکتے دل سے ہلکے سے دروازہ ناک کیا

آجاٸیں! اندر سے اس کی بھاری گھمبیر آواز آٸ


”بسمہ اللہ“پڑھ کر اس نے کپکپاتی انگلیوں سے دروازے کی ناٸب گھماٸ تو کلک کی آواز آٸ ۔ اس کی دھڑکنوں میں تلاطم پیدا ہوا ۔ سانسوں میں ایک دم طغیانی آٸ ۔ اس نے دل کڑا کیا اور دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوگٸ ۔ اپنے پیچھے دروازہ بن کرکے اس نے جلدی سے ساٸیڈ پر رکھے صوفے کے قریب رکھی کانچ کی میز پر ٹرے رکھی ۔ ورنہ جس حساب سے اس کا بدن لرز رہا تھا کچھ بعید نہیں تھاکہ چاۓ کا مگ ٹرے سمیت زمین بوس ہوجاتا ۔ اس نے پورے کمرے میں نظریں دوڑاٸیں وہ اسے کہیں نظر نا آیا لیکن ڈریسنگ روم کا دروازہ جو کہ ایک خوبصورت شیشے کی وال تھی جس پر خوبصورتی سے ایک باغ کا منظر پینٹ تھا ۔ ایک طرف کھسکا ہوا تھا ۔ مطلب وہ وہی تھا ۔ وہ چند قدم آگے آٸ تو وہ اسے ایک طرف جھکا ہوا نظر آیا ۔ مہرون پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے وہ شاید کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھا ۔ اس کاروم بھی اسی کی طرح شاندار تھا ۔ پورے روم پر طاٸرانہ نظر ڈال کر اس نے دل ہی دل میں اطراف کیا ۔ فرنیچر سے لیکر کارپٹ تک ۔ کارٹن سے لیکر ڈور پیٹ تک ہر چیز میں مہرون ٹچ آرہا تھا ۔ واٸٹ کے ساتھ مہرون کھل بھی بہت رہا تھا ۔ وہ نجانے کب تک اپنے خیالوں میں گم رہتی جو اس کی آواز نا سناٸ دیتی


”مل گٸ۔“ ارحم کی بھاری آواز پر وہ ایک دم اچھلی

اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرتے وہ جیسے ہی پلٹا ایک پل کو اس کی کشادہ پیشانی پر حیرانگی کے سبب دو بل نمودار ہوۓ ۔ پھر وہ بےنیاز بنا خوشبوٶں کے جھونکے جیسا اس کے قریب سے گزر کر صوفے پر جاکر بیٹھ گیا ۔ اس کے ہاتھ میں میچنگ ٹاٸ تھی جو اس نے ایک طرف رکھی اور ہاتھ بڑھاکر چاۓ کا کپ اٹھاکے ہونٹوں سے لگالیا ۔ ساتھ ایک گہری نظر فابیحہ پر بھی ڈالی ۔ واٸٹ کلر کے شلوار قمیض پر ملٹی کلر کی کوٹی پہنے، واٸٹ ہی دوپٹہ سیلقے سے اوڑھے ۔ بالوں کی چوٹی بناۓ ۔ سرجھکاۓ اپنی گھبراہٹ کو بامشکل قابو کۓ ۔ نروس سی مسلسل اپنے ہاتھوں کو بےدری سے مسل رہی تھی ۔ اس کی گرے قاتل آنکھیں پلکوں کی چلمن تلے چھپ کر وار کرنے کو تیار تھی ۔ گلابی گداز لب کچھ کہنے کی چاہ میں پھول پر بیٹھی تتلی کے پروں جیسے لرز رہے تھے ۔ ناک میں پہنی ہیرے کی لونگ جو سلیمہ بیگم نے اسے گفٹ کی تھی اس کی ناک میں سجی اس کے خوبصورت چہرے کو مزید دو آتشہ بنارہی تھیں ۔ وہ اپنے شعاعیں بکھرتے حسن سے لاپرواہ اور انجان تھی اور اس کی یہی لاپرواہی ارحم کے دل کی دنیا تہہ و بالا کرتی تھی ۔ وہ اس کے دل میں اندر بہت اندر تک اترچکی تھی ۔ لیکن اس کے دل میں وہ کہی نہیں تھا ۔ بس ایک یہی بات اس کے دل کو جلتی بھٹی میں جھونک دیتی تھی ۔ جس سے وہ بسمل کی طرح تڑپ تڑپ اٹھاتاتھا


حسن والوں کے نام ہو جائیں

ہم خود اپنا پیام ہو جائیں

چار ہونے پہ ان کی آنکھوں نے

طے کیا، ہم کلام ہو جائیں

حد تو یہ ہے کہ ان کے جلوے بھی

احتراماً حرام ہو جائیں

خاص لوگوں کے خاص ہونے کی

انتہا ہے کہ عام ہو جائیں

اس کی محنت حلال ہو جائے

جس کی نیندیں حرام ہو جائیں

ان کو سجدے تو کیا کریں، راحیلؔ

تذکرے صبح و شام ہو جائیں


”کیوں آٸ ہو یہاں؟“ کمرے کے سناٹے کو چیرتی اس کی سرد آواز سے زیادہ اس کے الفاظ نے اسے ہرٹ کیا ۔ مطلب اس کی منکوحہ پہلی مرتبہ اس کے کمرے میں آۓ تھی ۔ آداب میزبانی تو یہ تھی کہ وہ اسے بیٹھنے کو کہتا ۔

”تم نے بھی کس کھڑوس سے توقع باندھی ۔“ اس نے من ہی من میں خود اپنے آپ کوڈپٹا


”مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔“ وہ خود کو مضبوط ظاہرکرتی گویا ہوٸ لیکن کمبخت لہجہ نے لڑکھڑا کر غداری کردی


”سن رہا ہوں جلدی بولو؟ میں لیٹ ہورہا ہے۔“وہ چاۓ کا آخری گھونٹ پیتا مگ ٹیبل پر رکھتے سنجیدگی سے اٹھتے ہوۓ بولا اور جاکر ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔ ٹاٸ گلے میں ڈالے اس نے مرر سے ہی اس کے جھکے سر کو دیکھا


”آپ نے جو سمجھا ایسا بلکل نہیں ۔ میں نے ۔۔۔“


”تمہیں ٹاٸ باندھنی آتی ہے؟“ اس کے جملے کو مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ اس کی بات کاٹ گیا ۔ اس کے سوال پر اس نے ہونق پن سے اس کی جانب دیکھا ۔ وہ اس سے اتنی ضروری بات کررہی تھی اور وہ بیچ میں ٹاٸ لے آیا تھا


”ٹاٸ باندھ سکتی ہو؟“ اب کے سوال میں ردوبدل کیا گیا لیکن مفہوم وہی رکھا ۔ اس نے کلاس کے اچھے بچے کی طرح سخت گیر ٹیچر کے آگے اثبات میں سرہلایا


”ادھر آکر باندھو زرا، مجھ سے بندھ نہیں رہی ہے۔“

تحکم بھرے لہجے میں کہتا وہ اس کی جانب متوجہ نہیں تھا ۔ بلکہ جیل سے بال سیٹ کررہا تھا۔

وہ مرےمرے قدموں سے اس کی جانب بڑھی ۔ اس کے قریب آنے پر وہ تھوڑا پیچھے ہوا تو وہ اڑی رنگت لرزتے قدموں سے اس کے سامنے آکھڑی ہوٸ

اس نے اپنے خشک ہوۓ لبوں پر زبان پھیری ۔ اور اسے یوں دیکھا جیسے قربانی سے پہلے بکری قصاٸ کو دیکھتی ہے ۔ لیکن نا قصاٸ رحم کھاتا ہے نا اس کا کھڑوس!

جیسے ہی اس نے اپنے ہاتھ اس کے گلے کی جانب بڑھاۓ ویسے ہی اس نے رستے میں روک لۓ


”گلا دبانے کو نہیں کہا، ٹاٸ باندھنی ہے۔“ اس کے کھلے ہاتھوں کو دیکھ وہ اسے جتاکر بولا اور نرمی سے اس کے ہاتھ چھوڑ دیۓ ۔ اس کے جتانے پر اس کے چہرے پر خفت ذدہ تاثرات ابھرے ۔ بے دھیانی میں واقعی اس کے ہاتھ اس کا گلادبانے کو آگے ہوۓ تھے ۔ شکر تھا اس نے اس کے ہاتھ پکڑلۓ ورنہ اس حرکت کے بعد اس کے پاس چلو بھر پانی بھی ڈوبنے کو میسر نا ہوتا ۔ کپکپاتے ہاتھوں سےاس نے ٹاٸ باندھا شروع کی


”تھوڑا قریب تو آٶ اس طرح سہی نہیں بندھے گی۔“

اس کی کمر میں بازو حماٸل کۓ وہ ایک جھٹکے سے اسے خود سے قریب تر کرگیا ۔ فابیحہ نے بدحواس ہوکر اس کے سینے پر ہاتھ رکھے خود کو اس سے ٹکرانے سے روکا تھا ۔ اس نے حراساں ہوکر چہرہ اٹھایا ۔ اسے لگا کہ وہ اس کی حالت سے محفوظ ہوکر مسکرایا ہے ۔ لیکن اس کے ہونٹ بھینچے ہوۓ تھے اور چہرہ سپاٹ تھا


”کیا ہوا؟“ اسے اس معصومانہ سوال پر اس کا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو چھاہا


اس کی جان نکال کر وہ انجان بن رہا تھا ۔ مطلب حد ہی تھی ۔

”میں آہ کرکے بدنام ٹہری اور یہ حضرت قتل کرکے بھی بے گناہ۔۔“ اس نے کلس کر سوچا


اسے اچھے سے یاد تھاکہ اسے بہت اچھی ٹاٸ باندھنی آتی ہے بچپن میں اسکول جاتے ہوۓ اذلان کی ٹاٸ وہی باندھا کرتی تھی ۔ لیکن یہاں اس وقت اس کے سامنے وہ کند ذہن اسٹوڈنٹ جیسے کھڑی تھی ۔ اسے اپنی بےبسی پر جی بھرکر رونا آیا


”کوٸ بات نہیں کوشش کرو ، کوشش کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔“ وہ اس کے داٸیں کان کی جانب جھکے گھمبیر لہجے میں گویا ہوا ۔ اس کی پرتپش سانسوں نے اس کے کان کی لو سے ٹکراکر اس کے دل کی دھڑکنوں میں انتشار برپاکردیا ۔ وہ بوکھلاکر اس سے دور ہوٸ لیکن بس لڑکھڑاکر رہ گٸ ۔ ارحم کے ایک بازو نے ابھی بھی اس کے گرد گہرا ڈالا رکھا تھا ۔ اسے کے بدن کا سارالہو اس کے چہرے پر پر چھلکنے لگا

”آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کررہے ہیں؟“ پرنم لہجے میں کہتے اس نے اپنی گہنی پلکوں کی چلمن زرا سے اٹھاکر اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے شکوہ کیا

”کیاکررہا ہوں میں؟“ تجاہل عارفانہ سے پوچھا گیا

فابیحہ اس کی گہری بولتی آنکھوں میں زیادہ دیر دیکھ ناسکی تو پلکوں کی چلمن گرادی ۔


“کچھ نہیں۔۔“ دھیمے مگر نروٹھے لہجے میں کہتی وہ دلجمی سے اپنا کام کرنے لگی ۔ جب قاتل کو خبر نہیں کہ وہ کسی کو قتل کررہا ہے تو مقتول کیا شکوہ کرے ۔ وہ تو پہلے ہی مقابل کے وار گھاٸل آخری سانسیں لے رہا تھا ۔


”بندھ گٸ ہے ٹاٸ۔“ ہولے سے کہہ کر وہ اس کی نرم گرفت سے آزاد ہوٸ اور اس سے دور ہوکر یوں سانس لی گویا قغس سے رہاٸ ملی ہو


ہمممم! ہنکارہ بھر کر شیشے میں دیکھتا وہ ٹاٸ پر نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگا


”کورٹ بھی پہنادو۔“ پلٹ کر بیڈ کی جانب اشارہ کرتے ایک اور حکم جاری ہوا


”میں ان سے بات کلیٸر کرنے آٸ ہوں یا خدمتیں کرنے؟“وہ من ہی من جھنجھلاٸ


”شوہر کی خدمت کرنا عین ثواب کا کام ہے۔“ اس کی گھمبیر آواز فابیحہ کی سماعت سے ٹکراکر اسے بوکھلاگٸ ۔ایسے کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ جو بات دل میں سوچ رہی ہے اس کے دل تک پہنچ جاۓ؟

اب ارحم اسے کیا بتاتا کہ اس کے اس کا چہرہ کھلی کتاب ہے ۔ اور وہ ورق ورق اسے پڑھ رہا ہے۔

اس دن بھی اپنے غصے میں اسے وہ چند جملے بول آیا تھا ۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اس سے بدگمان ہورہا تھا ۔ وہ سب کے ساتھ نارمل برتاٶ کرتی تھی ۔ لیکن اسے کے ساتھ اس کا برتاٶ عجیب ہوجاتا تھا ۔ بس یہی چیز اسے غصہ دلانے کا سبب بنتی ۔


”آج میری بہت اہم میٹنگ ہے ۔ سو لیڈی میں لیٹ نہیں ہونا چاہتا۔“ اسے یوں بت کی طرح استادہ دیکھ وہ نرمی سے اسے گزرتے وقت احساس دلانے لگا۔

فابیحہ نے آگے بڑھ کر بیڈ پر رکھے کورٹ کو اٹھایا اور اسے پہننے میں مدد دینے لگی ۔ کورٹ پہن کر اس نے ایک بار پھر خود پر کلون اسپرے کیا گھڑی اٹھا کر پہنتے اس نے تنقیدی نظروں سے اپنا جاٸزہ لیا ۔ جب کہ اس سے فاصلے پر کھڑی فابیحہ کے چہرے پر اسے اس طرح کرتے دیکھ دھیمی سی مسکان چھلکی تھی ۔ وہ خود کو لیکر ہمیشہ یوں ہی کونشیس رہتا تھا ۔ وہ ریڈی ہوکر اس کے قریب آیا تو اس کے دل کی حالت اتھل پتھل ہونے لگی


”میری مدد کرنے کا بہت شکریہ!“ وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے پرحدت ہاتھوں میں تھامے اس کی آنکھوں میں دیکھتے نرمی سے گویا ہو


کبھی یہ نا سوچنا

بدگماں ہو تم سے

میرا لباس ہوتم

میرے لۓ بہت خاص ہوتم

میں روٹھ سکتا ہوں، منالینا

غصہ ہوجاٶں تو سینے سے لگالینا

میرے ماتھے پر بوسہ دو گی تو پگھل جاٶں گا

کتنا بھی خفا ہوں تم سے ،جھٹ مان جاٶں گا

میں مر تو سکتا ہوں

تم سےبدگماں نہیں ہوسکتا


افشاں کنول


اس کے ہاتھ چھوڑ کر نرمی سے اسے اپنے حصار میں لۓ پرفسوں لہجے میں کہتا وہ اس کے دل کا بوجھ اتار گیا ۔ ہلکی پھلکی ہوکر اس نے گہری پرسکون سانس لیکر آنکھیں موندلیں ۔ کتنے ہی لمحے اس حسین منظر کو نظروں میں بساۓ گزرےتھے ۔فابیحہ کے کسمسانے پر اس نے دھیرے سے اسے اپنے حصار سے آزاد کیا ۔ وہ خفت ذدہ گل وگلنار سی اپنے ہونٹ چبانے لگی


”یہ حرکت پلیز میرے سامنے تو نا کیا کریں ۔ میں ہرٹ ہوتا ہوں۔“ شہادت کی انگلی اس کے نچلے لب پر رکھے وہ زومعنی لہجے میں بولتا اس کے چھکے چھڑا گیا وہ جلدی سے اس سے دور ہونے لگی تو اس نے اسکا بازو تھام کر اسے ایساکرنے سے روک دیا ۔ اس نے گھبرا کر بےبسی میں گھیرے اس کے چہرے کی جانب دیکھا ۔ جیسے التجا کررہی ہو اب تو مجھے جانے دو ۔

”تمہاری وجہ سے میں لیٹ ہوگیا تو ناشتہ کرنا مشکل ہے ۔ امی کو بتادینا ۔“ سنجیدگی سے سارا الزام اس پر ڈالے وہ خود معصوم بنا پلٹ گیا اور اپنا لیپ ٹاپ بیگ اٹھاکر واپس اس کی جانب آیا ۔ جو پرشکوہ نظروں سے اسے تک رہی تھی


”اللہ حافظ! شام میں ملتے ہیں۔“ اسے یوں استادہ دیکھ وہ اس کی جانب جھکا اور اپنا پرحدت شدت بھرا لمس اس کے گلابی گالوں پر چھوڑتے پیچھا ہوا

”روٸ کی طرح نرم گال ہیں تمہارے ۔“ بےباکی سے کہتا اس کے گال تھپتھپاکر وہ اسے یوں ہی ساکت چھوڑ جاچکا تھا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”دعاۓ خیر! آرام سے ناشتہ کرو۔ یوں لگ رہا ہے جیسے پیچھے کتے پڑے ہوں۔“ اس تیزی سے منہ چلاتے دیکھ ثروت بیگم نے اسے سختی سے ٹوکا


”کتا تو نہیں ایک عدد ٹھرکی ضرور پیچھے پڑا ہے ۔ کمینہ جب سے بیٹھا ہیں مجھ پر ہی نظریں فٹ کی ہوٸ ہیں ۔“ حسب عادت وہ بڑبڑاٸ تھی ۔ ساتھ ایک عدد سخت قسم کی گھوری بھی اپنے مدمقابل بیٹھے اذلان پر بھی ڈالی تھی ۔مگر وہ تو چکنا گھڑا تھا ۔ وہ گھوری اس کے کام نا آٸ پھسل گٸ


”میں بہت تنگ ہوں تمہاری یہ من من کرنے کی عادت سے۔ ایسے کون سے مفید ارشادت ہیں جو زیرلب ادا کۓ جاتے ہیں ۔ تھوڑا اونچا بولو تو ہم بھی ان نادر ونایاب گفتگو سے فیضیاب ہوجاۓ۔“ بھیگو بھیگو کے مارنا تو کوٸ ان کے والدہ محترمہ سے سیکھتا

اوپر سے سامنے بیٹھے اذلان مسلسل اس کی عزت افزاٸ سے لطف اندوز ہوتا اسے سخ پا کررہا تھا


”بیگم صاحبہ صبح صبح اسے صرف ناشتہ ہی کھانے دو۔ تمہاری ڈانٹ اور میری بچی کہی بھاگی نہیں جارہی ۔ بعد میں اپنا شوق پورا کرلینا ۔“ اس کی اتری صورت دیکھ انہیں برداشت نا ہوا تو بول پڑے


”اچھا بھٸ نہیں کچھ کہتی آپ کی لاڈلی کو ، کل کو اگر اس کے پھوہڑ پنے پر لوگ سوال اٹھاٸیں تو کہہ دینا ماں نے کوٸ طریقہ سلیقہ نہیں سیکھایا۔“ وہ خفگی بھرے لہجے میں بولتی انہیں چاۓ بناکر دینے لگیں ۔ وارث صاحب نے نظروں ہی نظروں میں اسے ڈھارس بندھاٸ تو وہ جھٹ سب کچھ بھول مسکرادی


”تاٸ امی اور تایا ابو صبح صبح کہاں چلے گۓ؟“

ان کی غیر موجودگی شدت سے محسوس کرتی وہ استفسار کرنے لگی


”بابا کے قریبی دوست ھوسپٹل میں ایڈمٹ ہیں تو وہ دونوں وہی گۓ ہیں۔“ یہ جواب اذلان کی جناب سے آیا تھا جو اس نے شرافت کے داٸرے میں رہ کر دیا تھا ۔ اس کے جواب پر وہ منہ بناکر اونہہ کرگٸ تو دلکشی سے مسکراکر بالوں پر ہاتھ پھیر گیا


”بھیا بھی نہیں آۓ؟ وہ آفس نہیں جاٸیں گے کیا؟“ اسے اپنے آس پاس سب چاہیۓ ہوتے تھے سو اسے ہر ایک کی کمی شدت سے ہی محسوس ہورہی تھی


”ان کی آج ضروری میٹنگ ہے ۔ وہ لیٹ ہورہے تھے تو بغیر ناشتے کۓ چلے گۓ ۔ بول رہے تھے کہ آپ کو بتادوں ۔“ چہرے کی لالی سنجیدگی کے پرہن میں چھپاۓ وہ ثروت بیگم کے قریب آتی ہولے سے انہیں بتانے لگی


”آجاٶ میری بچی تم تو ناشتہ کرلو۔“ اس کی بات سنتی وہ مسکراتی گویا ہوٸیں تو وہ اثبات میں سرہلاتی دعاۓ خیر کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گٸ

”میں ریڈی ہونے جارہا ہوں ۔ تم بھی جلدی ریڈی ہوجاٶ ساتھ ہی نکلیں گیں ۔ لنچ ہے فاران ڈیلی گیشن کے ساتھ ۔“ حارث صاحب اٹھتے ہوۓ اسے ہدایت دیتے بولے

”جی چاچو! مجھے یاد ہے۔ بس میرا ناشتہ بھی ہوہی گیا۔“ وہ فوراً فرمابرداری سے کہتا آدھا گلاس جوس ایک ہی سانس میں ختم کرتے اٹھ کھڑا ہوا


”میسنا کہی کا۔“ دعاۓخیر زیرلب بدبداٸ


”اپنی طرح بچوں کو بھی کام کی مشین بنادیا ہے۔ ایک بغیر ناشتے کۓ چلاگیا اور دوسرے کو ڈھنگ سے ناشتہ کرنے نہیں دیا۔“ اذلان کے تیزی سے اٹھنے پر وہ خفا ہوتی بولیں


”ارے چچی آپ ناراض نا ہوں۔ میں نے اچھے سے ناشتہ کیا ہے۔ باقی کی کسر میں آفس جاکر پوری کرلوں گا۔ رہی چاچو کی بات تو وہ قاٸد اعظم کے قول پر عمل پیرا ہیں ۔ کام کام کام۔“ وہ پیچھے سےان کے شانوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے شرارت سے گویا ہوا


”میرا بچہ بہت محنتی ہے ۔ اللہ تمہاری جیسی اولاد سب والدین کے دے۔“ اس کاگال تھپتھپاکر وہ پیار بھرے شفق لہجے میں گویا ہوٸیں ۔ دعاۓخیر کو یہ محبت بھرے مظاہرے ایک آنکھ نہیں بھارہے تھے ۔ اوپر سے اذلان کا جتاتا ہوا انداز اس کو غصے سے کھولاۓ دے رہا تھا ۔ اس سے پہلے کے وہ پریشر کوکر کی طرح زیادہ اسٹیم بن جانے پر پھٹ پڑتی اذلان دل جلاتی مسکان چہرے پر سجاۓ وہاں سے نکل گیا


”والدہ مجھ سے بات کرتے وقت تو منہ میں کریلے چبارہی تھیں اور اس اذلان کی دفعہ ان کے الفاظ چاشنی میں ڈوب ڈوب کر نکل رہے تھے۔“ وہ ساتھ بیٹھی فابیحہ سے شکوہ کناں نروٹھے لہجے میں بولی جو اڑے اڑے اعصاب کے ساتھ بیٹھی تو اس کے ساتھ تھی لیکن حواس اب تک معطل تھے ۔ دعاۓخیر کے شکوے پر اس نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا


”کیا ہوا خیریت تو ہے؟

اڑے اڑے حواس نظر آتےہیں

سجانا سے ملنے کے آثار نظر آتے ہیں۔“


اسے شرارت سے کاندھے مارتے وہ معنی خیزی سے آنکھیں گھماکر گویا ہوتی اسے بوکھلانے پر مجبور کرگٸ

”چپ چاپ ناشتہ کرو، چچی تمہیں ہی دیکھ رہی ہیں۔“ اسے تنبیہہ کرتے اس نے گویا مزید اس کی معنی خیز گفتگو پر بند باندھنا چاہا جو کامیاب رہا وہ فوراً سیدھی ہوکر بیٹھ گٸ تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


رات وہ جس وقت گھر پہنچا ڈنر ٹاٸم نکل چکا تھا۔

وہ ڈنر کرکے آیا تھا تو سیدھا اپنے کمرے میں ہی چلاگیا ۔ چینج کرکے وہ ریلکس سا صوفہ پر بیٹھ کر فون پر دعاۓخیرکی آٸ ڈی کھولنے لگا ۔ بہت دنوں سے اس کی اپنی فیک آٸ ڈی سے دعاۓخیر سے بات نہیں ہوٸ تھی ۔ کل سے ویسے ہی دل الگ ہی دھن پر محورقص تھا ۔ اس کی جان لوا قربت اگر دعاۓ خیر پر بھاری تو ، اس کے لۓ بھی اس قربت کو برداشت کرنا جلتے کوٸلے پر چلنے جیسی تھی۔ وہ اس پر اسحقاق نہیں جتاسکتا تھا ۔ حالانکہ اس گستاخ دل نے اسے اپنے کمرے اور اپنے اتنے قریب دیکھ کیا کیا نا سوچ ڈالا تھا ۔ وہی سب یاد کرتے اس کے چہرے پر دلفریب مسکرہٹ آٸ تو اس نے دانتوں تلے لب دبالیا ۔

اس نے سلام کرنے سے ابتدا کی ۔ وہ جانتا تھا اس وقت وہ فری ہوگی قسط تو اس نے دن میں ہی پوسٹ کردی تھی ۔ میسنجر پر ٹاٸپنگ شو ہونے لگی

”وَعَلَيْكُم السَّلَام کیا حال ہیں؟ آجکل تو تم غاٸب ہی ہو؟

”بس ناز جی کیا بتاٶں ، میرے گھروالوں نے میرا رشتہ طے کردیا ۔“ روتے ایموجی کے ساتھ رپلاٸ آیا


”تو تم خوش نہیں ہو؟“


”خوش تو ہوں لیکن اپنا گھربار چھوڑ کر جانے سے دل اداس ہورہا ہے۔“ اس کے جواب پر وہ لیٹے سے اٹھ بیٹھی

”مطلب تم دور جارہی ہو؟“وہ متجسس ہوٸ


”ہاں نا دوسرے شہر وہ بھی پشاور! آسان نہیں ہےنا اتنی دور جانا۔میں تو اپنی فیملی کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ لیکن قسمت میں شاید یہی لکھا ہے ۔ میرا تو سب گھر والوں کی دوری کے خیال سے دل بیٹھا جارہا ہے ۔“ وہ بامشکل اپنا قہقہ دباۓ ٹاٸپنگ کرنے لگا

”تو تم شادی سے انکار کردو۔“ اس نے جھٹ مشورہ دے ڈالا

”شادی تو کرنی ہی ہےنا۔ پھر انکار کرنے سے کیا فاٸدہ ۔ ویسے بھی میرا انکار کوٸ مانے گا نہیں ۔ کاش میرے گھر میں کوٸ کزن ہی ہوتا تو میں اسی سے شادی کرلیتی تاکہ مجھے اپنے اتنے پیارے رشتوں کو چھوڑ کے جانا نہیں پڑتا


”ویسے آپ کا اگر میرے طرح کوٸ رشتہ آیا اور گھر والے راضی بھی ہوگۓ تو کیا آپ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر چلی جاٸیں گیں؟“ اس سوال پر اس کے اندر سکوت چھاگیا

اسی وقت روم کا دروازہ ناک کرتے حارث صاحب مسکراتے ہوۓ اس کے کمرے میں داخل ہوۓ ۔ انہیں روم میں آتے دیکھ اس نے موباٸل ایک ساٸیڈ پر ڈالا

”میری بیٹی مصروف تو نہیں؟“ وہ شفقت آمیزلہجے میں پوچھنے لگے


”نہیں بابا میں بلکل بھی مصروف نہیں تھی ۔ اور اگر ہوتی بھی تو کچھ بھی آپ سے بڑھ کر نہیں ہے۔“ وہ ان کا ہاتھ تھامتی اس پر عقدت سے بوسہ دیتی بولی ۔ والدہ کی نسبت وہ باپ سے زیادہ اٹیچ تھی ۔ جتنی آسانی سے وہ ان سے ہر بات کرلیتی تھی ۔ اپنی والدہ سے نہیں کرپاتی تھی ۔


”آٸیں آپ بیٹھیں تو۔“ ان کا ہاتھ پکڑ انہیں بیٹھاکر وہ خود بھی ان کے ساتھ ہی بستر پر بیٹھ گٸ تھی


”تمہاری والدہ نے تمہیں تمہارے تایاابو اور تاٸ امی کی خواہش کا بتایا ہوگا ۔“ انہوں نے نرمی سے استفسار کیا تو اس نے اثبات میں سرہلایا


”تمہیں اگر اس رشتے پر اعتراض ہے تو بتا سکتی ہو میں انکارکردوں گا ۔ بھاٸ بھابھی کو بھی سمجھا دوں گا ۔دیکھو ہر ماں باپ کی طرح ہماری بھی یہ خواہش ہے کہ جلدازجلد اپنے فرض سے ادا کردیں۔ وقت کا پتا نہیں کب آنکھیں بند ہوجاٸیں ۔ بس ہم اپنی دونوں اولادوں کی خوشیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ارحم کا تو ماشاءاللہ نکاح ہوچکا ہے ۔ اگر اس رشتے پر اعتراض ہے تو تمہاری پھوپھو کی نند کے بیٹا کا بھی رشتہ آیا ہے ۔ وہ بچہ بھی دیکھا بھلا ہے ۔ تم اس کے بارے میں سوچ لو۔“ ان کی آخری بات پر اس نے گھبراکر انہیں دیکھا ۔ پھوپھو کو ہاں کرنے کا مطلب سب سے دوری تھا جو وہ بلکل برداشت نہیں کرسکتی تھی ۔ اس کی تو وہی مثال تھی آگے کنواں پیچھے کھاٸ


”بابا!اس میں اگر شادی نا کرنا چاہوں تو؟“ اس نے ہچکچاکر پوچھا


”میری پیاری بیٹی! ہم ساری زندگی تو تمہیں یوں ہی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکیں گے ۔ میرے رب نے دنیا میں رہنے والوں کے لۓ ایک نظام بنایا ہے ۔ اور نکاح اس نظام کا لازمی جز ہے۔ نکاح میرے نبیﷺ کی سنت ہی نہیں دنیا کے نظلام کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ بھی ہے ۔ ہر انسان دوسرے انسان کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہ سکتا ۔ اسی طرح رشتے بھی صدا آپ کے ساتھ نہیں رہتے ۔ تمہیں علم ہے انسان کو بنانے کے بعد جو پہلا رشتہ وجود میں آیا وہ میاں بیوی کا ہے۔ مرد بابا آدم اور عورت بی بی حوا کے وجود کی تخلیق کے بعد انہیں نکاح جیسے مقدس بندھن میں باندھ دیا گیا۔ تاکہ ان کا رشتہ پھلے پھولے اور ان کی نسل پروان چڑھے ۔ اگر ایسا نا ہوتا تو دنیا کیسے بڑھتی ؟ اللہ کو اپنا نظام چلانا تھا تو اللہ نے اس مقدس رشتے سے شروعات کی۔“ وہ اس کے شانوں کے گرد بازو پھیلاۓ دھیرے دھیرے اسے سمجھا رہے تھے ۔ ان کا پر تاثیر لہجہ اس کے دل پر اثر کررہا تھا ۔ وہ آنکھیں موندے ان کے شانے پر سر ٹیکاۓ ہوۓ تھی


”اگر تمہیں یہ اعتراض ہے کہ اذلان عمر میں تم سے چھوٹا ہے تو میرے بچے اس کی بھی مثال ہمارے دین میں موجود ہے ۔ میرے نبیﷺ اور حضرت خدیجہؓ کی مثال کے سامنے اور کسی مثال اور دلیل کی ضرورت نہیں ۔ پھر اذلان سے رشتے کی صورت میں تم ہماری نظروں کے سامنے ہی رہو گی تو ہمیں بھی اطمینان رہے گا ۔ دوسرا بھابھی کی بھی شدید خواہش ہے کہ تم ان ہی کی بہو بنو۔ اب بتاٶ تمہارا کیا فیصلہ ہے؟“ ساری بات اس کے سامنے رکھتے اب وہ اس سے اس کا فیصلہ جاننا چاہتے تھے ۔ اس کے سراٹھانے پر انہوں نے اس کے چہرے پر چھایا اضطرب دیکھا تو خود بھی مضطرب ہوگۓ


”جو بات بھی دل میں ہے ، مجھ سے تم کہہ سکتی ہو۔۔“ وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے پیار سے اس کی ڈھارس باندھاتے بولے


”بابا میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ۔ دل و دماغ ایک دم برف کی سیل جیسے جم گۓ ہیں ۔ احسات منجمد سے ہیں ۔ آپ کی ساری باتیں دل کو لگ تو رہی ہیں لیکن، دماغ میں الگ سی جنگ چھڑی ہے۔“

وہ ےبسی میں گھیری ان سے اپنی کیفیت بیان کررہی تھی


”اپنے بابا پر بھروسہ کرتی ہو؟“ اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ ٹہرے ہوۓ لہجے میں پوچھ رہے تھے تو اس نے بچوں جیسی معصومیت سے جھٹ اثبات میں سرہلایا

”بس پھر میرے فیصلے پر مطمین رہنا یہ سوچ کر کہ تمہارے بابا تمہارے لۓ کبھی کوٸ غلط فیصلہ نہیں کریں گے۔“ وہ اس کے بےداغ شفاف ماتھا چومتے اس کو اپنی پر شفقت آغوش کی گرمی دیتے بولے تو اسے کے ٹھٹھرے اعصاب اس حدت سے پگھلنے لگے۔


دوسری جانب

اذلان جو اس کے رپلاۓ کا منتظر تھا ۔ اس کی طرف سے خاموشی پاکر اٹھ کھڑا ہوا ۔ ویسے بھی جو بات وہ اسے سمجھانا چاہتا تھا ،اسے پورا یقین تھاکہ وہ سمجھ چکی تھی کیونکہ وہ کافی عقلمند تھی ۔ آج وہ کافی تھک گیا تھا،اسی لۓ جماٸ روکتے موباٸل ساٸیڈ پر رکھتے وہ جیسے ہی بیڈ پر لیٹا ویسے ہی اسپرنگ کی طرح اچھل کر کھڑا ہوگیا ۔ اس نے پورے گدے پر ہاتھ پھیرا ۔ جو بری طرح پانی سے تر تھا ۔ شدید تیش میں ایک نام دہاڑ کی صورت اس کے منہ سے برآمد ہوا


دعاۓخیر۔۔۔۔!


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹

صبح کا وقت تھا اور سب گھروالے سکون سے بیٹھے ناشتہ کررہے تھے ۔ سواۓ ایک بندے کو چھوڑ کے، وہ سامنے بیٹھا دعاۓخیر کو مسلسل کچاچباجانے والے انداز میں گھور رہا تھا ۔جو ہرشے سے بےنیاز ہوکر یوں ناشتہ کررہی تھی جسے آج اسے اس سے ضروری دوسرا کوٸ کام نہیں۔


”اذلان آج تم سیٹنگ ائیریا میں کیوں سورہے تھے؟“

سلیمہ بیگم کے سوال پوچھنے پر سب کی نظریں اس کی جانب اٹھی تھیں ۔

سلیمہ بیگم صبح کی چاۓ بنانے کے لۓ اپنے کمرے سے باہر نکلیں تو صوفے پر کمبل لۓ کوٸ سو رہا تھا ۔ وہ ٹھٹھک کر رک گٸیں اور پریشانی سے آگے بڑھیں کہ دیکھ سکیں کہ صوفے پر کون سورہا ہے؟ ہاتھ بڑھا کر چہرے سے کمبل ہٹاکر دیکھا تو اذلان کو سوتے پایا ۔ اس وقت تو وہ کچن میں چلیں گٸیں لیکن جب چاۓ لیکر وہ واپس لوٹی تو وہ وہاں موجود نہیں تھا ۔ لیکن ابھی اسے سامنے دیکھ انہیں یاد آیا تو پوچھنے لگیں ۔ دعاۓخیربھی متجسس تھی کہ دیکھے آیا وہ کیا جواب دیتا ہے لیکن بظاہر بےنیاز بنی گھونٹ گھونٹ جوس پیتی رہی۔


”میری پیاری امی حضور! رات میرے کمرے میں کالی بھوتنی گھس آٸی تھی ۔“ اس کےغیر متوقع جواب پر جہاں سب کی آنکھوں کے ساتھ منہ کھلے۔ وہی دعاۓخیر کا جوس اس کے گلے میں پھنس گیا اور اسے زوردار پھندہ لگا ۔ ساتھ بیٹھی سلیمہ بیگم گھبراکر اس کی کمرملنے لگی ۔ باقی سب بھی اب اسے چھوڑ دعاۓخیر کومتفکر نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ جس کا چہرہ کھانس کھانس کر سرخ ہوچکا تھا ۔ جبکہ آنکھوں سے مسلسل پانی بھی بہہ نکلا تھا ۔

”کتنی دفعہ کہا ہے بی بی کہ سکون سے کھایا کرو، لیکن نجانے کیوں اس لڑکی کو جلدی پڑی ہوتی ہے۔ جیسے اسی کو جاکر پوری دنیا کا نظام چلانا ہے۔“ اس کی حالت کے پیش نظر اسے ٹشو باکس سے کٸ ٹشو نکال کر تھامتے وہ غصے میں اس کو ڈپٹنا نہیں بھولیں۔


”ثروت بچی کو پھندہ لگ گیا تم الٹا اسے ہی ڈانٹ رہی ہو۔ کبھی تو ہاتھ ہولا رکھا کرو۔۔۔“ وارث صاحب کے سرزنش کرنے پر وہ باقی کے ڈانٹنے کا پروگرام موخر کر گٸیں ۔جبکہ وہ منہ بسورے اپنا چہرہ صاف کرنے لگی تھی جب ثروت بیگم نے جلے پر نمک چھڑکا۔


”تم کیا بتارہے تھے اذلان کونسی بھوتنی گھس آٸی تمہارے کمرے میں؟“ وہ ایک دفعہ پھر اس کا جی جلانے کو ادھورا ٹاپک چھڑ چکیں تھیں ۔ مطلب اس ٹھرکی کو اور کچھ نا ملا تو لیکر اسے بھوتنی وہ بھی کالی بھوتنی بناڈالا ۔ وہ کس اینگل سی کالی بھوتنی لگتی تھی؟ ہاں جنی بولتا تو وہ پھر بھی برداشت کرلیتی کہ ثمرین شاہ کے جن بیس ناولز کے دونوں سیزن پڑھنے کے بعد وہ جنات کی بہت بڑی فین بن چکی تھی ۔ اسے کالی بھوتنی پر شدید ترین اعتراض کے ساتھ ساتھ اس ٹھرکی پر شدید غصہ بھی تھا ۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بچاکچا جوس اس کے سر پر ہی انڈھیل ڈالے تاکہ جل رہے دل پر تھوڑی ٹھنڈک تو اترے۔


”چچی جان بس کیا بتاٶں؟ اگر آپ کو مزاق لگ رہا ہے تو جاکر میرے روم میں دیکھ لیں ۔ میرا پورا روم بکھرا ہوا ہے اور بستر کا تو پوچھئے ہی مت ۔ پورا میٹرس یوں بھیگا ہے جیسے اس نے بھوتنی نے اس پر پانی ڈال کر سوٸمنگ کا شوق پورا کیا ہو۔۔“ معصومیت کے اگلے پچھلے سارے رکارڈ توڑے وہ سنسنی خیز لہجے میں اسٹوری یوں سنارہا تھا کہ ہر کوٸی آنکھیں بند کۓ یقین کرلے۔

دعاۓخیر بکھرے کمرے کا سن کر حیران ہوٸی۔ اس نے تو صرف بیڈ کا فام بھگویا تھا ۔ اسے یاد تھا ۔ ڈنر کے بعد فابیحہ سے باتوں باتوں میں وہ اذلان کے دیر سے آنے کا پتالگاچکی تھی ۔ تبھی سب کے روم میں جانے کے بعد وہ چپکے سے اپنے کمرے سے نکلی اور بلی کی چال چلتی اس کے کمرے میں جاکر بغیر تاخیر کۓ ساٸیڈ ٹیبل پر پڑا کانچ کا جگ اٹھایا اور اس کے بستر پر پانی کا چھڑکاؤ یوں کیا جیسے وہ بیڈ نہیں بنجر سوکھی زمین ہو۔ پھر وہ واش روم میں گھس گٸی۔ جب تک اس نے اس کے بستر کو پانی سے تربتر ناکریا تب تک وہ رکی نہیں ۔ اپنا کام صفاٸی سے کرکے جگ کو واپس اس کی جگہ پر رکھے وہ واپس پلٹ آٸی ۔ یقیناً کمرے بکھرنے کی تخریب کاری اس کی اپنی کارستانی تھی۔


”کمینہ، زلیل ٹھرکی ، ڈیش ڈیش ڈیش ۔۔“ اسے اس وقت جتنی بھی گالیاں یاد تھیں وہ سب اس کو بے دریغ دے ڈالیں تھیں لیکن دل ہی دل میں۔


”تمہیں کیسے پتا کہ یہ کام بھوتنی ہی کا ہے؟“ سلیمہ بیگم کے سوال پر وہ اندر ہی اندر گڑبڑایا لیکن مجال ہو کہ چہرے پر سنجیدگی پلس پریشانی بھرا تاثر زرا برابر بھی اِدھر اُدھر ہوا ہو۔


”میں جب کمرے میں پہنچا تو مجھے وہاں کالا سایہ نظر آیا ۔ میں نے آواز ماری کون؟ تو وہ پلٹی، اس کے کالے بال کالے چہرے پر بکھرے تھے ۔ لال بڑی بڑی آنکھیں،لمبے سفید دانت،افف میں تو چیخ مار کر باہر کو بھاگا۔ سب سو چکے تھے ۔ اسی لۓ کسی کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ اسٹور سے نیا کمبل نکالا اور سیٹنگ ایریا میں ہی لیٹ کر سورتیں پڑھتے پڑھتے سوگیا۔۔“ وہ سیاہ و سباق سے ایک ایک سین تصور کرکے پوری سنجیدگی سے بتارہا تھا ۔جب وارث صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا۔ وہ اس کی شرارت سمجھ چکے تھے۔ آخر کو وہ انہی کی اولاد تھی۔ اس کی رگ رگ سے واقفت رکھتے تھے وہ ۔۔۔


”اذلان بیٹا دھیان سے یہ نا ہو وہ مستقبل میں وہ بھوتنی تمہیں چمٹ جاۓ۔“ ارحم کے مزاق سے کہنے پر دونوں خواتین نے دہل کر اسے دیکھا جبکہ فق چہرہ لۓ بیٹھی فابیحہ نے اذلان کا ہاتھ زور سے تھاما تھا ۔ جیسےوہ بھوتنی ابھی ہی اسے لۓ جاۓ گی ۔ دوسری طرف دعاۓخیر اپنی ہورہی ان ڈاٸرکٹ بےعزتی پر افف بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اسے کہتے تھے چیک میٹ۔۔۔


”اذلان مزاق بند کرو۔“ سب کی اڑی رنگت دیکھ وارث صاحب اسے گھورتے تنبیہہ لہجے میں بولے۔


”چلیں میں مزاق کررہا ہوں ۔ اب خوش، امی پلیز میرے روم کا میٹرس چینج کروادیجۓ گا۔“ وہ خفگی جتاکر آخر میں سلیمہ بیگم سے مخاطب ہوا اور ناک کی سید میں باہر نکل گیا ۔ باہر آکر اس کے چہرے میں کلر اسماٸل تھی ۔ اس نے اپنا بدلا سود سمیت لیا تھا ۔ اب سارا دن دعاۓخیر عرف بھوتنی ہی ڈسکس ہونی تھی ۔


”آپ بھی حد کرتے ہیں بھاٸ صاحب! ایسی بات بھی کوٸی مزاق میں کرتا ہے بھلا؟ بچہ کہہ رہا ہے تو کچھ تو اس بات میں سچاٸی ہوگی۔“ ثروت بیگم جب بولیں تو لہجے میں ناراضگی رقم تھی جبکہ ان کی بیگم کے چہرے پر بھی کم و بیش ایسے ہی تاثرات تحریر تھے۔ فابیحہ بھی خفگی بھری نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ کسی نے بھی دعاۓ خیر کی جانب توجہ نہیں دی تھی جس کا چہرہ حد سے زیادہ سرخ ہوچکا تھا۔ اب یہ سرخی اپنی ہونے والی بےعزتی پر تھی یا پر غصے کی یہ تو اسے ہی علم تھا۔


”اس بھوتنی کے بارے میں سوچنا بند کریں مسز! ورنہ ایسا نا ہو کہ رات وہ آپ کے پاس ہی چلی آۓ۔“ ارحم جو آفس جانے کے لۓ اٹھا تھا لمحے بھر کو فابیحہ کے قریب ٹہر کر سرگوشانہ اس کا دل دہلاتے تیزی سے وہاں نکل گیا۔


”کسی دن یہ ارحم واقعی میری جان نکال لیں گے۔۔ یا تو اپنی حرکتوں سے یا پھر اپنی باتوں سے۔“ روہانسی ہوکر اس نے بےبسی میں گھیرے دھک دھک کرتے دل پر اپنے دنوں ہاتھ رکھے ہراساں انداز میں سوچا تھا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


سارا دن بھوتنی کی تکرار سن سن دعاۓخیر کی بس ہوکر اس کے صبر کا پیمانا لبریز ہوا تو اس نے فابیحہ سے کہہ کر شاپنگ کا پروگرام بنوالیا ۔ انہیں کچھ ضرورت کی چیزیں لینی تھی اور موسم کے حساب سے ملبوسات بھی ۔ سلیمہ بیگم نے تو ساتھ جانے سے انکار کردیا تھا کیونکہ انہیں شام کے پکانے کی تیاری کرنی تھیں لیکن انہوں نے ثروت بیگم کو ان کے ساتھ کردیا تھا۔

وہ تینوں ڈراٸیور کے ساتھ نکلیں تھیں۔


”والدہ آپ میں اور تاٸی امی میں اتنا مثالی پیار کیسے ہے؟ عموماً دیوارنی جٹھانی میں تو، توتو میں میں کے ساتھ گھریلو سیاست بھی چلتی ہے۔ کبھی ایک بھاری پڑتی ہے تو کبھی دوسری۔۔“ دماغ میں چل رہے سوال کو اس نے جھٹ زبان دے ڈالی۔


”مجھے یقین نہیں آرہا کہ اتنا عقلمندانہ سوال تمہاری طرف سے آیا ہے۔“ ان کے میٹھے طنزیہ لہجے پر وہ منہ بسور کر رہ گٸی۔


”خیر سوال اچھا ہے ۔“وہ ایک پل کو ٹہریں

”ہم دوستانہ طریقے سے اس لۓ رہتے کہ ہمارے بیچ رشتوں میں نا انصافی نہیں بلکہ ایک توازن رہے۔

رشتے اس صورت پروان چڑھتے ہیں جب ان میں پیار ، محبت، خلوص ہو اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے احساسات کا احترام کیا جاۓ۔ ایک دوسرے پر مسلط ہونے کے بجاۓ ایک دوسرے کو اسپیس دیں اور ایک دوسرے کا حق تلف ناکریں۔ میں اور تمہاری تاٸی امی بس یہی کرتے ہیں۔ جس وجہ سے ہماری زندگیاں پرسکون ہیں ۔ ویسے یہ سب چیزیں ہر رشتے پرلاگوں ہوتی ہیں۔“ وہ ان دونوں کو دیکھتی پیار اور نرمی سے سمجھارہی تھیں کہ مستقبل میں ان دونوں کو بھی اپنے اپنے رشتے لیکر چلنے تھے۔


”میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں چچی! اور یقین کریں انشاءاللہ آپ کی باتوں پر میں اور دعاۓخیر ضرور عمل کریں گے۔“ دعاۓ خیر کا ہاتھ تھامے، فابیحہ انہیں یقین دلاتی بولی تودعاۓخیر نے بھی جھٹ فرمابرداری کا ثبوت دیتے مسکراکر اثبات میں سرہلا دیا۔


”مجھے علم ہے، میری دونوں بچیاں بہت سمجھدار ہیں۔“ شفقت آمیز لہجے میں کہتی وہ دھیمے سے مسکرادی۔

اسی طرح ہلکی پھلکی باتوں کے درمیان وہ تینوں مال پہنچ تھیں۔ ویسے بھی ایسی جگہوں پر جانے سے دعاۓخیر کو بڑا فاٸدہ ہوتا تھا ۔ وہ طرح طرح کے لوگوں کو باغور دیکھتی اور ان کا ہر انداز نوٹ کرتی تھی ۔ پھر اپنے کسی ناکسی کردار پر وہ یہی انداز اپلاۓ کرتی ۔ باحثیت ایک راٸٹر ایسی جگہیں اسے دلچسپ لگتی تھیں۔ اب وہ جگہ شادی ہال ہو یا بازار اسے فرق نہیں پڑتا تھا ۔ دعاۓ خیر نے شاپنگ تو کم کی تھی ۔ لوگوں کو زیادہ دیکھا تھا ۔ ہر مرتبہ کی طرح اس کی زیادہ تر شاپنگ فابیحہ نے ہی نمٹاٸی تھی ۔ مال میں ہونے کی وجہ سے اس کی بچت ہوگٸ تھی کہ ثروت بیگم نے صرف گھوری سے کام چلایا تھا ۔ ان تینوں نے اپنی اپنی شاپنگ مکمل کی تو ایک ڈسپلے پر ایک براٸیڈل ڈریس دیکھ دعاۓ خیر کا دل مچل اٹھا ۔ ڈیپ ریڈ کلر میں انتہاٸی دیدہ زیب شرارہ دیکھنے والوں کو پہلے ہی نظر میں مبہوت کرتا ہوا اور وہ بھی مبہوت ہوگٸی تھی۔


”اپیا یار دیکھیں ڈریس کتنا پیارا ہے۔ والدہ ہم ان کی بارات کے لۓ یہی ڈریس لیں گے۔“ وہ پرجوش سی ایک ساتھ ان دونوں سے ہی مخاطب ہوٸی۔ اس کی بات سنتی فابیحہ نے سٹپٹاکر اپنا چہرہ جھکالیا جو شرم کے مارے دہک اٹھا تھا۔


”دعاۓخیر تم یہ اپنی شادی پر لےلینا لیکن ابھی چلو۔۔“ وہ اپنی نیچر سے ہٹ کر اسے رسان سے سمجھانے لگیں۔


” میری شادی کہاں سے بیچ میں آگٸی؟“ وہ ان کی بات سن کر بری یکلخت بدکی۔

”کیوں؟کرو گی نہیں شادی؟ ہر لڑکی کی طرح تمہاری شادی بھی ہوگی۔ تب تم یہ ڈریس لےلینا۔“ اسےگھورتے وہ تحمل سے ایک بار پھر بولیں کہ اتنے لوگوں کے بیچ اسے کچھ کہہ جو نہیں سکتیں تھیں۔


”اچھا صرف قیمت پوچھ آٶں؟“ اس نے ایک آخری کوشش کی۔


”دعاۓخیر! وہ وقت آنے دو پھر جو دل چاہے خرید لینا۔“ اسے گھورتے دانت پر دانت جمائے بظاہر وہ مسکراٸیں تھیں۔ ابھی وہ کچھ اور بھی اسے کہتی کہ پیچھے سےانہیں کسی نے پکارا۔


”ثروت یہ تم ہو؟“ وہ تینوں ایک ساتھ پلٹیں اور اپنے سامنے کھڑی سوبر سی خاتون کو دیکھنے

لگیں جو چہرے پر سارے جہاں کا اشتیاق لۓ ان سے سوال کررہی تھیں۔ ان خاتوں کو پہنچاتے ہی ثروت بیگم کے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔


”دیکھیں میں آپ کو نہیں جانتی۔“ وہ جلدی سے پیچھا چھڑوانے والے انداز میں بولیں

جبکہ وہ دونوں خاموش کھڑیں آنے والی سوبر سی آنٹی کو باغور دیکھ رہی تھیں۔ جو دیکھنے میں ہی کسی خوشحال گھرانے سے لگ رہی تھیں ۔


”میں عالیہ ہوں تم نے پہچانا نہیں؟ میں تو تمہیں دیکھتے ہی پہچان گٸی۔“ اب کے ان کے لہجے میں جوش ولولے کی جگہ مایوسی چھلکی۔


”جب کہہ رہی ہوں کہ میں آپ کو نہیں جانتی تو کس لۓ آپ باضد ہیں اپنی پہچان کروانے کو؟“ اب کے وہ سخت لہجے میں بولیں۔


”یہ تو مانتی ہونا کہ تم ثروت ہو؟“ وہ خاتون بھی ہار نہیں مان رہی تھیں۔

ان دونوں کی تکرار میں وہ دونوں ہونق سی انہیں دیکھنے لگیں۔


” یہ بچیاں تمہاری ہیں؟ ماشاءاللہ دونوں ہی بچیاں پیاری ہیں لیکن یہ بچی تو بنی بناٸی۔“


”تم لوگ چلو میری طبیعت خراب ہورہی ہے۔“ اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملا مکمل کرتیں ثروت بیگم ان خاتون کی بات کاٹتی نقاہت ذدہ لہجے میں بولیں۔


”کیا ہوا والدہ؟“ ان کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ دعاۓخیر کے ہاتھ پاٶں پھولے تو اس نے گھبرا کر پوچھا۔


”مجھے لگتا ہے کہ چچی کا بی پی لو ہورہا ہے۔ تم یہ بیگز پکڑو میں چچی کو پکڑ لیتی ہوں ۔“ ہاتھ میں موجود اپنے بیگز دعاۓخیر کو پکڑاتی وہ عجلت میں بولی تو اس نے جلدی سے بیگز تھام لئے۔


”آنٹی ہمیں اجازت دیں ہم چلتے ہیں۔ چچی کی طبیعت خراب ہورہی ہے۔“ انہیں خدا حافظ کہتی وہ دونوں ثروت بیگم کو احتیاط سےتھامے باہر کی سمت بڑھ گٸیں۔ پیچھے رہ جانے والی خاتون حیران پریشان سی یہ سوچ کر رہ گئیں کہ ”آخر ثروت نے مجھے پہچانا کیوں نہیں؟“

ان دونوں نے راستے میں ان کو جوس پلوایا تاکہ ان کی تھوڑی طبیعت بحال ہو لیکن انہوں نے دو گھونٹ کے بعد جوس کو دوبارہ منہ تک نہیں لگایا تھا۔


”والدہ پلیز ضد ناکریں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں نا۔“ تھوڑی دیر پہلے کا کہا گیا جملہ وہ پھر دوہرارہی تھی۔


”تمہیں ایک بات سمجھ نہیں آرہی مجھے گھر جانا ہیں بس۔“ اب کے وہ ہاٸپر ہوٸیں۔


”چچی پلیز ریلکس رہیں ہم گھر پر ہی جارہے ہیں ۔

غصہ ہونے سے آپ کی طبیعت بگڑے گی اور کچھ نہیں ہوگا۔“ دعاۓخیر کو چپ رہنے کا اشارہ کرتی وہ ان کا ہاتھ تھامے فکرمندانہ لہجے میں بولی۔

کچھ دیر بعد وہ لوگ گھر پہنچیں تو سب مرد حضرات آفس سے آچکے تھے اور سیٹنگ ایٸریا میں چاۓ پیتے ہلکی پھلکی گپ شپ کررہے تھے۔ ثروت بیگم کو یوں نڈھال ان کے سہارے آتا دیکھ سب سے پہلے ارحم ان تک پہنچا تھا


”کیا ہوا والدہ کو؟“ اس کے پریشانی سے پوچھا۔


”بھیا بی پی لو ہوگیا ہے۔“ دعاۓخیرگھبراتے ہوۓ بولی ۔ ثروت بیگم کی ہمت بس یہی تک تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ بےہوش ہوکر گرتیں ارحم انہیں اپنی بانہوں میں اٹھاچکا تھا ۔ سارے ہی ان کے بےہوش ہوجانے سے گھبراگۓ تھے۔ اذلان نے اپنی فیملی ڈاکٹر کو فوراًکال ملاٸی تھی ۔

رات ان کی پریشانی میں کسی نے بھی ڈھنگ سے کھانا نہیں کھایا۔ فابیحہ اپنی امی کو بتاچکی تھی کہ مال میں ایک خاتون سے ملنے کے بعد اچانک ہی ان کی طبیعت بگڑگٸ تھی ۔ اس کی بات سن کر وہ خود بھی بےحد پریشان ہوچکیں تھیں ۔


”ایسا کون مل گیا جس کو یوں اپنے سامنے دیکھ وہ بےحال ہوگٸ۔ ماضی سے جڑا کوٸی فرد؟“ اس سے آگے ان سے سوچا نہیں گیا تھا ۔ وہ بستر کروٹیں بدل رہی تھیں لیکن نیند تھی کہ کسی بچے کی طرح ان کی آنکھوں سے روٹھ گٸ تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


حارث صاحب نے ایک نظر کروٹ کے بل سورہی ثروت بیگم کو دیکھا ۔ وہ پرسکون سی سورہی تھیں۔ آج ان کی طبیعت کے سبب ان سمیت سب ہی پریشان ہوچکے تھے۔ انہیں نیند اتنی جلدی آتی نہیں تھی تو وہ حسب معمول کتاب لیکر اس کے مطالعے میں مصروف ہوچکے تھے۔ کچھ دیر گزری تھی کہ وہ چونک کر ثروت بیگم کی جانب متوجہ ہوۓ۔ وہ شاید خواب کے زیرِ اثر تھیں ۔ جس وجہ سے ان کے ماتھے پر پیسنے کی ننھی بوندیں پھوٹ پڑیں تھیں۔ وہ کچھ بڑبڑارہی تھیں۔ حارث صاحب نے کتاب ساٸیڈ پر رکھی اور جھک کر انہیں سننے لگے۔


”دعاۓخیر مت جاٶ۔۔“ وہ یہی بات بار بار دوہرا رہی تھیں۔ ّ

”ثروت پلیز آنکھیں کھولیں۔ دعاۓخیر کہیں نہیں جارہی، یہی ہے۔“ انہیں خواب سے بیدار کرنے کو وہ ان کے بازو کو نرمی سے ہلاکر گویا ہوئے لیکن وہ ہنواز اسی کیفیت میں تھیں ۔ ایک گھنا جنگل تھا اور دعاۓخیر تیزی سے اس جنگل کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ وہ اسے چیخ چیخ کر آوازیں دے رہی تھیں لیکن وہ ان سنی کۓ آگے سے آگے بڑھتی ہی جارہی تھی ۔ ایک دم ہی انہیں ٹھوکر لگی تو وہ لڑکھڑاٸیں۔ان کے پیر کے انگوٹھے سے تیزی سے خون بہہ رہا تھا۔ انہوں نے بدحواسی میں دعاۓخیر کی جانب دیکھا تو وہ سناٹے میں رہ گٸیں ۔ دور دور تک صرف اندھیرا تھا کالی سیاہی جیسا اندھیرا ۔ جس نے ہرشے کو اپنی لپٹ میں لےلیا تھا ۔ وہ ہیجان خیزی سے چیخ اٹھی تھیں،

دعائے خیر!

پیسنے میں تربتر وہ اٹھ بیٹھیں ۔ وارث صاحب تشویش ذدہ نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔


”دعاۓخیر کہاں ہے؟“ انہوں نے سرسراتے لہجے میں پوچھا۔

”ثروت بس کرو سنبھالو خود کو تم بس ایک خواب دیکھ رہی تھیں ۔ دعاۓخیر بلکل ٹھیک ہے۔ اس کی کی فکر ناکرو۔“ وہ انہیں خود سے لگاکر تسلی دینے لگے۔

”نہیں نہیں وہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ نفرت کرتی ہے مجھ سے۔ میں نے اسے اتنی آوازیں دیں وہ رکی ہی نہیں، مجھے تنہا چھوڑکر چلی گٸی۔ وہ جنگل میں گم ہوگٸی۔ پلیز! اسے ڈھونڈ لاٸیں۔ وہاں بہت جنگلی جانور ہونگے۔ اسے تنہا دیکھ اسے چیرپھاڑ دیں گے۔ آواز دیں اسے، آپ کو میری قسم۔“ وہ ان کا بازو تھامے روتی ہوٸی گڑگڑاٸیں تھیں۔


”ثروت نہیں کرو اسطرح کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو۔“ وہ ان کے ہاتھ تھامے التجاٸی پرنم لہجے میں گویا ہوۓ ۔ برسوں بعد پھر ان کی وہی کیفیت تھی جو انہیں تکلیف سے دوچار کررہی تھی۔


”دعاۓخیر مجھ سے ناراض ہوگٸی۔ وہ مجھے قصور وار سمجھ رہی ہے۔ وہ سب جان جاۓ گی۔ وہ مجھ سے نفرت کرے گی۔“ وہ انہیں سنبھال رہے تھے لیکن وہ کسی طوفان کی طرح بپھری جارہی تھیں۔ اگر ان کی یہ باتیں کوٸی سن لیتا تو بڑی تباہی آجانی تھی۔

”ثروت بس کردو جو کچھ بھی ہوا اس میں تمہاری کوٸی غلطی نہیں تھی تو خود کو مجرم تصور کرنا بندکرو۔۔“ غصے میں وہ ان کے دونوں بازو جھنجھوڑتے ہوۓ دبے دبے لہجے میں دہاڑے تھے ۔


”سب میری غلطی ہے ۔ میں قصوروار ہوں ۔ سب میری وجہ سے ہوا۔“ وہ ایک دم چیخنے لگیں تو حارث صاحب نے ان کا منہ دباکر انہیں خاموش کروادیا اور اپنی بانہوں میں بھیچ کر انہیں ریلکس کرنے لگے ۔ وہ ان کے شانے سے لگیں پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھیں ۔


”ثروت نہیں کرو ایسا، بند کردو خود کو یوں اذیت دینا ۔ نہیں ہو تم قصوروار تو بند کر یہ خودازیتی کا سلسلہ! بہت ہوگیا ہے ۔ وہ سب یوں ہی ہونا لکھا تھا اور ہونی کو کوٸ نہیں ٹال سکتا ۔ تم یوں کرو گی تو بچے سوال کریں گے۔ دے سکو گی ان کے سوالوں کے جواب ؟ پہلے تو وہ چھوٹے تھے ناسمجھ تھے لیکن اب نا وہ چھوٹے ہیں اور نا ہی ناسمجھ ۔ وہ پل میں بات کی تہہ تک پہنچ جاٸیں گے ۔ تم چاہتی ہو جو راز برسوں سے مدفن ہے ۔ وہ کھل جاۓ؟ مجھے کسی کی نہیں دعاۓخیر کی پروا ہے۔ وہ یہ سب برداشت نہیں کرسکے گی ۔ معلوم ہےنا کتنی حساس ہے وہ؟ پلیز اسی کے لۓ خود کو سنبھال لو جیسے برسوں پہلے اسے اپنی ممتا بھری آغوش میں لیتے ہوۓ تم اپنی ساری تکلیفیں اور اذیتیں بھول گٸیں تھیں۔ اب بھی پلیز اس کی خاطر خود کو سنبھالو۔۔۔“ وہ ان کی سر پر بوسہ دیتے نرمی سے انہیں سمجھارہے تھے ۔ آہستہ آہستہ وہ ریلکس ہونے لگیں تھیں ۔ ان کا رونا تو بند ہوچکا تھا لیکن کافی زیادہ رونے کے سبب تھوڑی تھوڑی دیر میں سسکی بھر رہی تھیں ۔ حارث صاحب نے ان کا سر آرام سے تکیہ پر رکھا اور انہیں کمبل اڑاکر خود بھی بستر پر دراز ہوگۓ ۔ ان کا ذہن بھی تھک چکا تھا لیکن یہ تھکن برسوں پرانی تھی۔ تھوڑی ہی دیر لگی تھی اور وہ گہری نیند میں جاچکے تھے ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اذلان اپنے روم کی کھڑکیاں بندکررہا تھا جب اس کی نظر لان کے جھولے پر پڑی۔ اس جھولے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ تھی ۔ ایک دن زوروں کی بارش ہورہی تھی ۔ دعاۓ خیر فینٹسی کی دیوانی بھیگتے ہوۓ اسے احساس ہوا کہ اتنے دلفریب منظر میں کچھ میسنگ ہے ۔ ہوا ہے، بادل ہیں، بارش ہے، پھول پودیں ہیں ۔ سب ہے بس ایک کمی ہے پر کیا؟ کتنی دیر وہ غور کرتی رہی پھر ایک دم ہی اس کے ذہن میں کلک ہوا


جھولا! وہ پرجوش سی چیخی تھی ۔


“ اذلان پلیز رسی لاٶ نا ہم جھولا ڈالے گے۔“ وہ اس کے بازو کھینچتی لجاحت سے بولی۔


”دماغ خراب ہے تمہارا، رسی ڈالو گی کہاں؟ میرے گلے میں۔۔“ اس کی فرماٸش پر وہ تنکا تھا ۔ کیونکہ لان میں پھولوں کی بہتات تھی درخت تھے تو وہ باہر کی جانب تھے ۔ اب ایسا تو ہونہیں سکتا تھا کہ گھر سے باہر جاکر جھولا ڈالا جاتا ۔ تبھی وہ غصے ہورہا تھا

”تم ہو ہی بیکار انسان، ایک جھولا تک نہیں ڈال سکتے ۔“ اس کی گدی پر تھپڑ مار کر وہ یوں بولی جیسے ساری غلطی اسی کی ہو ۔ جیسے درخت اسی کے کہنے پر باہر کی طرف لگاۓ گۓ ہوں ۔ اپنا غصہ اس پر اتر کر وہ تن فن کرتی اندر چلی گٸ تھی ۔ اس سے اگلے دن ہی لان میں جھولے کا انتظام ہوگیا تھا ۔ تب سے آج تک یہ جھولا اپنے مقام پر فٹ تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ تبدلیاں کی جاتی رہی تھیں لیکن اس جھولے پر زیادہ قبضہ دعاۓخیر کا ہی تھا ۔ اس وقت بھی وہ جھولے پر دونوں پاٶں اوپر کۓ ٹانگوں کے گرد بازو لپٹے گھٹنے پر اپنا گال ٹیکاۓ آسمان میں مدھم دیکھتے تاروں کو باغوردیکھ رہی تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ۔ اس کی زلفوں سے اٹکلیاں کرتی انہیں بکھرا گٸیں تھیں لیکن وہ ہرشے سے بےنیاز کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ جب ہی اپنے قریب آہٹ محسوس کرتے وہ ادھر متوجہ ہوٸی۔


”پھر کچھ دیکھ لیا جو کمرے سے یوں دربدر ہو؟“ میٹھے سے لہجے میں طنز کا تیر پھینکا گیا۔


”میرے کمرے میں صرف کالی بھوتنی کو آنے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ نو اینٹری۔“ وہ شرارتاً کہتا اس سے فاصلہ بناۓ جھولے پر اس کے برابر میں بیٹھ گیا ۔ لیکن وہ خاموش ہی رہی تو اسے تشویش لاحق ہوٸی۔ اس نے جوابی وار نہیں کیا تھا۔

”پریشان ہو؟“

”ہاں!“

”کیوں؟“

”والدہ کی وجہ سے۔۔“

”اب تو وہ ٹھیک ہیں نا تو کیسی پریشانی؟“

”والدہ! سارے راستے ٹھیک رہیں۔ مجھے دور چار باتیں بھی سناٸیں پھر مجھے ڈسپلے پر ایک شرارہ بہت پسند آیا ۔ میں نے کہا کہ اپیا کےلۓ پوچھتے ہیں لیکن وہ مجھے ڈانٹنے لگیں کہ اپنی شادی پرلے لینا۔ ہم اسی پر بحث کررہے تھا کہ اچانک وہاں ایک آنٹی آگٸیں ۔ وہ باضد تھیں کہ وہ والدہ کو جانتی ہے لیکن انہیں دیکھ والدہ گھبراگٸیں، میں نے خود نوٹ کیا تھا۔ پھر اچانک ہی ان کی طبیعت بگڑنے لگی تو ہم انہیں واپس گھرلےآۓ۔۔“ وہ دھیرے دھیرے سارا واقعہ اس کے گوش گزار کررہی تھی یوں جیسے وہ بچپن کی پکی سہلیاں ہوں ۔ اگلا بھی اس کی باتیں اتنی انہمناک سے سن رہا تھا جیسے سچا غم گسار ہو۔


”تم جانتی ہو ان آنٹی کو؟“ اس کی ساری باتیں سننے کے بعد اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔


"آج سے پہلے تو میں نے انہیں دیکھا نہیں۔ لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ وہ والدہ کو اور والدہ انہیں اچھے سے جانتی تھیں لیکن جو بات مجھے پریشان کررہی ہے وہ یہ ہے کہ والدہ ان کو دیکھ اس قدر گھبراگٸیں اور ان کی حالت سب کے سامنے ہی ہے ۔ تم جانتے ہوکہ میں رشتوں کو لیکر کس قدر حساس ہوں ۔ کسی کی بھی فرد کی پریشانی مجھے پہروں پریشان رکھتی ہے اور یہاں تو معاملہ میری والدہ کا ہے ۔ ان کے اس طرح ری ایکٹ کرنے سے میں متفکر ہوچکیں ہوں۔“ ٹہرے ہوۓ لہجے میں کہتے وہ اپنے دل کا بوجھ اپنے ازلی دشمن کے سامنے اتار رہی تھی۔


”زیادہ مت سوچو، ہوسکتا ہے کہ وہ ان کی ایسی دوست ہوں جن سے کبھی ان کا جھگڑا ہو اور وہ ان سے ملنا نہیں جاہتی ہوں ۔ اسی لۓ انہیں پہچانے سے انکار کردیا ہو اور رہی ان کے بی پی لو ہوجانے کی بات تو کافی دیر سے تم لوگ مال میں شاپنگ کررہے تھے تو ہوسکتا ہے تھکن کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہوگٸ ہو ۔ تم نجانے کیا کیا اپنی طرف سے کہانیاں گھڑکر پریشان ہورہی ہو ساتھ مجھے بھی کررہی ہو۔۔“ دوستانہ لہجے میں سمجھاتے آخر میں وہ پٹہری سے اترا۔


”تمہیں میں نے دعوت نہیں دی کہ تم آٶ اور میری پریشانی میں برابر کے شریک ہوجاٶ۔ تم خود اپنا سڑا ہوا بوتھا اٹھاۓ میرے پاس آۓ تھے۔“ وہ بھی اپنی جون میں واپس لوٹی اور تڑخ کر گویا ہوتی اسے نۓ خطاب سے نوازتی ہوٸی بولی۔


”او ہیلو! سڑا بوتھا کسے بول رہی ہو؟ لاکھوں مرتی ہیں اس چہرے پر۔“ وہ تو جیسے تڑپ ہی گیا اس خطاب پر۔


”سہی کہہ رہے ہو، لاکھوں ہی مرتی ہوں گی۔ جیسے ہی تمہاری یہ بھوت جیسی بھوتھی دیکھتی ہوں گی۔“ ایک ایک لفظ پر زور دیتی اس نے صبح والی بات کا حساب بےباک کیا۔


”ہاں تو کالی بھوتنی کیلۓ بھوت جیسی بھوتھی ہی چلے گی نا؟ اب کوٸ شہزادہ گلفام تو اس بھوتنی کو بیاہانے آنے سے رہا ۔“ مسکرا کر اس کا وار اسی پر لوٹاتے وہ اسے آگ ہی لگاگیا ۔ ساتھ چہرے پر دل جلاتی مسکراہٹ بھی سجالی مزید اسے پتنگے لگانے کے لۓ۔


”تم! تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟“ وہ پوری اس کی جانب گھوم کر اس کچا چبانے کے در پر اپنے سفید چھوٹے چھوٹے دانت کچکچاکر بول رہی تھی جبکہ مقابل اس کے لال پیلے چہرے کے رنگوں سے لطف اندوز ہورہا تھا۔


”مستقبل کا دلہا! وہ بھی کالی بھوتنی کا۔“ اس کی بات کے جواب میں وہ اس کی جانب ہلکا سا جھکے گمبیر فسوں خیز لہجے میں گویا ہوا۔

اس کے اس جملے نے دعاۓخیر کو جلتی بھٹی میں جھونکا۔ اس نے غصے میں ایک دفعہ پھر اس کا منہ نوچنا چاہا لیکن ایک دفعہ پھر اس کی مرمریں کلاٸیاں اس کے فولادی گرفت میں تھیں۔


”یار ہونے والی بھوتنی! تھوڑا ادب ہی سیکھ لو۔ تمہارا ہونے والا مجازی خدا ہوں۔ ابھی ہوا نہیں ہوں جو تم یوں اپنامال سمجھ کر مجھ پر بات بات میں ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتی ہو۔۔“ وہ مصنوعی تاسف سے بولا۔


”ٹھرکی انسان! تم اتنے بھیگنے کے بعد بھی نہیں سدھرے۔“ وہ بھرپور مزاحمت کرتی پھاڑ کھانے کو آٸی۔

”میں تو تمہاری پیار کی بارش میں بھیگنے کے بعد بھی نہیں سدھرنے والا۔“ وہ کہاں باز آنے والا تھا ۔ اپنی کلر اسماٸل چہرے پر سجاۓ وہ ایک آنکھ ونگ کۓ بےباکی سے بولا۔


”چھچھورے،لوفر،لفنگے سالے، ٹھرکی ایک دفعہ میرے ہاتھ چھوڑو پھر دیکھنا میں تمہیں کسی کو منہ دیکھنے لاٸق نہیں چھوڑوں گی۔“ وہ شدید تیش میں کیا بول گٸ تھی خود اسے بھی خبر نہیں ہوسکی۔

”میں تو تمہیں بڑی شریف النفس لڑکی سمجھتا، مجھے علم نہیں تھاکہ تم اس قسم کی لڑکی ہو۔۔“ چہرے پر مصنوعی خوف طاری کۓ وہ افسوس ذدہ لہجے میں کہنے لگا ۔ وہ دنوں جھولے پر آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔ دعاۓخیر کی تو دونوں ٹانگیں اوپر تھیں لیکن اذلان کے دونوں پیر زمین پر ٹکے تھے اور وہ آہستہ آہستہ پاٶں کا دباٶ ڈالے جھولا ہلارہا تھا ۔


”کیا مطلب ہے تمہارا اس بات سے؟ہاں! میں شریف نہیں ہوں؟“ اس کی آواز میں تندہی شامل ہوٸی۔


”عزت پر حملہ کرنے والا شریف ہوتا ہے؟“ وہ الٹا اس سے سوال کرتا آنکھیں پٹپٹاۓ کر معصومیت کی اعلیٰ مثال قاٸم کرتے گویا ہوا۔


”میں نے کب تمہاری عزت پر حملہ کیا؟“ وہ پھٹی بھٹی آواز میں بوکھلاکر بولی۔


”ابھی تو تم نے کہا کہ مجھے کسی کو منہ دیکھانے لاٸق نہیں چھوڑوگی۔“ اس کی کلاٸیاں آزاد کۓ وہ جتاکر بولا تو خفت و شرمندگی کے مارے اس کا چہرہ قندھاری انار جیسا ہوگیا لیکن پھر وہ خونخوار شیرنی جیسی اسے مارنے کو جھپٹی۔ اذلان جو اس افتادہ سے انجان ریلکس سا بیٹھا تھا اس کے گلا پکڑنے پر دھکے سے پیچھے کی طرف گرا ساتھ دعاۓخیر جس نے اپنا پورا وزن اس کا گلادبانے پر ڈالا تھا ۔ پوری کی پوری اس پر جاگری۔ اذلان جھولے پر تقریباً لیٹا ہوا تھا اور دعاۓخیر اس کے اوپر پڑی تھی ۔ دونوں ہی کے لۓ یہ سچوٸشن غیر متوقع تھی ۔ دعاۓخیر کا نرم و نازک خوشبوٶں میں بسا وجود اس کے وجود کا حصہ بن کر اسے عجیب سے روپیلے احساسات سے دوچار کرگیا۔ کچھ سیکنڈ وہ سن اعصاب کے ساتھ یوں ہی پڑے رہے۔ پھر ایک دم دعاۓخیر ہوش میں آتی جھٹکے سے اس کے اوپر سے اٹھی تھی ۔ بغیر ادھر ادھر دیکھے وہ خفتذدہ سی وہاں سے دوڑتی ہوٸی نکلی لیکن کچھ دور جاکر وہ ٹہری اور پلٹی۔


”ٹھرکی انسان! اگر تم نے اس رشتہ سے انکار نہیں کیا تو میں تمہاری زندگی اجیرن کردوں گی۔۔“ لہجے میں غصے سموۓ وہ تنبیہہ لہجے میں اسے انگلی دیکھا کر گویا ہوٸی اور واپس پلٹ کر دوڑتی ہوٸی اندر کی جانب غاٸب ہوگٸ۔ جبکہ وہ گزرے حسین لمحے میں گھیرا سر کے نیچے دونوں ہاتھ رکھے ۔ فسوں خیز لمحے کی حشرسامانیوں میں گم ہورہا تھا ۔


تم زندگی میں آٶ تو

زندگی گلوگزار بن جاۓ

نکھرجاۓ ہم تیری قربت میں

چاہت کی بارش میں بھیگ جاٸیں

تمہارے چہرے پر سبھی رنگ بھلے لگتے ہیں

میری سنگت میں وہ رنگ یکجا ہوں

حیا بن جاٸیں ۔۔۔۔۔

"گڈمارننگ! دعاۓخیرچہکی۔

”کسی طبیعت ہے اب والدہ! آدھ کھلے دروازے سے وہ ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھامے روم میں داخل ہوکر مسکراتے ہوۓ پوچھنے لگی۔


”بیٹا جی تمہاری والدہ جو ہیں نا بہت چالاک خاتون ہیں۔ ہماری خدمتیں کرتے کرتے انہوں نے سوچا کہ اب میں بھی ان سب سے اپنی خدمتیں کرواٶں اور دیکھ لو کل سے بیمار ہوکر سب کو اپنے آگے پیچھے لگایا ہوا ہے۔“ حارث صاحب ان کے نزدیک بیٹھے شرارتاً گویا ہوۓ تو ثروت بیگم انہیں گھورنے لگیں۔


”میں اور میرا دل تو پہلے ہی گھاٸل ہیں ۔ پھر کیوں نظروں کے تیر چلارہی ہیں بیگم صاحبہ؟ کچھ تو رحم کھاٸیں اپنے دیوانے پر۔۔“ دعاۓخیر کے ہاتھ سےناشتے کی ٹرے تھام کر وہ ان کے نزدیک بیٹھے دلبرانہ انداز سے بولے ۔ دعاۓخیر کی موجودگی میں وہ ان کے انداز گفتگو دیکھ بری طرح جھنپی ۔ ان کے چہرے پر خفف سے سرخی چھاگٸ تو دعاۓخیر کو یہ سچوٸشن مزا دے گٸی۔


”بابا ! آپ تو کافی رومینٹک ہیں ۔ دیکھیں زرا والدہ بلش کررہی ہیں۔۔“ وہ ان کے بازو سے لگی سرگوشانہ بولی کہ اگر والدہ نے سن لیا تو صبح صبح کلاس ہوجانی تھی اور اس کا کوٸ موڈ نہیں تھا ڈانٹ کھانے کا ۔۔


ہم انہیں چاہتے ہیں ایسے

مرنے والا کوٸ زندگی چاہتا ہو جیسے ۔۔۔۔

وہ ترنگ میں گنگنائے۔


”حارث صاحب بس کردیں ۔ جوان بچی کے سامنے ایسی حرکتیں معیوب لگتی ہیں ۔ میری اور اپنی عمر کا ہی لحاظ کرلیں۔ سامنے بیٹی بیٹھی ہے اور موصوف کو اٹکلیاں سوجھ رہی ہیں۔۔“ اب کے وہ بولیں تو لہجے میں جھنجھنلاہٹ کے ساتھ دبا دبا غصہ بھی شامل تھا ۔ دعاۓخیر کے چہرے پر سجی شرارتی مسکراہٹ پل میں غاٸب ہوٸی۔


”اچھا آپ غصہ نا ہوں، ناشتہ ٹھنڈا ہورہا پلیز ناشتہ کریں۔“ وہ ان کی توجہ ناشتہ کی ٹرے کی جانب مبذول کرواتی بولی۔


”آجاٶ تم بھی ناشتہ کرو۔۔“ حارث صاحب نے اسے بھی آفردی۔


”آپ دونوں ناشتہ کریں، میں بھاٸ کے ساتھ کرچکیں ہوں۔“ وہ مسکرا کر انکار کرگٸی۔ ان دونوں کو ساتھ بیٹھے ناشتہ کرتے دیکھ وہ خوش ہورہی تھی ۔ جس طرح اس کے بابا ایک ایک چیز انہیں زور دے کر کھلارہے تھے اسے ان کا کیٸرنگ انداز دیکھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔


”والدہ پلیز آپ اسٹریس مت لیا کریں ۔ اپنا بہت خیال رکھیں ۔ ہم سب کیلۓ ۔“ وہ ان کی جانب محبت سے دیکھتی نرمی سے گویا ہوئی۔


”تم چاہتی ہو میں خوش رہوں؟“ وہ جوس کا خالی گلاس واپس ٹرے میں رکھتی ٹہرے ہوۓ لہجے میں پوچھنے لگیں تواس نے جھٹ اثبات میں سرہلایا۔


”میری خوشی تو اپنی اولاد کو ان کی لاٸف میں خوشحال دیکھنے میں ہے ۔ ارحم کی طرف سے تو میں بےفکر ہوں لیکن تمہاری طرف سے مجھے بےفکری اس وقت نصیب ہوگی جب تم اپنے گھر کی ہوجاٶ گی۔ میں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد تمہیں تمہارے گھر کا کردوں تاکہ موت بھی آۓ تو میں سکون سے مرسکوں۔۔“ثروت بیگم کی آخری بات پر اس نے تڑپ کر ان کی جانب دیکھا۔


”ثروت! کس طرح کی باتیں کررہی ہو؟ بچی پریشان ہورہی ہے“ وہ انہیں غصے میں ٹوک گۓ اور ساتھ بیٹھی دعاۓخیر کے شانوں کے گرد بازو پھیلالیا ۔ اس نے رنگ اڑے چہرے کے ساتھ ان کے شانے پر سرٹکا دیا۔


”بابا! والدہ سے کہیں وہ جب بھی جہاں بھی کہیں گی میں شادی کرنے کو تیار ہوں لیکن پلیز وہ اس طرح کی باتیں ناکیا کریں۔“ وہ گلوگیر لہجے میں کہتی آخر میں روپڑی۔


”تم نے میری اتنی پیاری بیٹی کو رولادیا ۔“ وہ ان پر خفگی جتاکر بولے۔


”ادھر آٶ دعاۓخیر!“ حلاوت بھرے لہجے میں ناشتہ کی ٹرے ایک طرف کرتی انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا تو وہ تیزی سے ان کی کھلے بازوٶں میں سماگٸی ۔


”مجھے علم ہے کہ میں تم پر سختی کرجاتی ہوں ۔ تمہیں ڈانٹ دیتی ہوں ۔ بعض دفعہ کچھ زیادہ ہی سخت رویہ اپنالیتی ہوں لیکن میرے بچی یہ سب میں صرف تمہاری لاابالی طبیعت کے سبب کرتی ہوں۔ لڑکیوں کو اس طرح غیرسنجیدہ نہیں ہونا چاہیۓ ۔ یہ جو زندگی ہےنا! پھولوں بھرا رستہ بلکل نہیں ہوتی ۔ ان کے بیچ زہریلے کانٹے ، نوکیلے پتھر ، اونچے نیچے راستے اور کہیں کہیں گہری کھاٸیاں بھی ہوتی ہیں ۔ جو انسانی وجود کو نگلنے کو ہردم تیار ہوتی ہیں۔ جوانسان سنبھل کر سمجھداری سے یہ رستہ عبور کرتا ہے کامیابی اسی کو ملتی ہے۔ تم جو ہر چیز میں فینٹسی ڈھونڈتی ہو ۔ ایسا ہوتا نہیں ہے میرے بچی! تم صرف پھولوں سے لدھی پھندی راہگزار دیکھ رہی ہو باقی کے خطروں پر تمہاری نظر ہی نہیں ہے ۔جو کہ ایک خطرناک بات ہے ۔ اگر تم یوں ہی دوڑتی رہی تو مجھے ڈر ہے تم خود کو نقصان نا پہنچالو ۔ بس ایسی وجہ سے میں روک ٹوک بھی کرتی ہوں اور بعض جگہ سختی بھی کرجاتی ہوں۔ تم کبھی یہ مت سوچنا کہ مجھے تم سے پیار نہیں ہے ۔ بہت پیار کرتی ہوں تم سے تمہاری معصومیت سے لیکن ڈرتی بھی ہوں۔ شاید ماں ہوں اس لئے۔“ وہ شفقت آمیز لہجے میں اس کے بال سہلاتی اپنے اندر کے ڈر کو اس پر کسی حد تک واضح کرگٸیں تھیں۔


”والدہ مجھے آپ کا ڈانٹنا کبھی برا نہیں لگا۔ مجھے پتا ہے آپ میری بھلاٸی کے لۓ ہی ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں ۔ جس طرح آپ مجھے چاہتی ہو ویسے ہی میں بھی آپ کو بہت چاہتی ہوں ۔“ وہ ان سے الگ ہوتی ان کے دونوں ہاتھ تھامے پیار سے ان پر بوسہ دیتی بولی۔

”اب تم ماں بیٹی مل کر مجھے جیلس فیل کروارہی ہو۔۔“ حارث صاحب منہ بسورے بولے تو دعاۓخیر کھلکھلاکر ہنس نے لگی تو ثروت بیگم نے بھی اس کا ساتھ دیا۔


”بابا میں آپ کو بھی بہت چاہتی ہوں۔“ وہ جھٹ ان کا ہاتھ تھام کر چمکتی آنکھوں اور مسکراتے لبوں سے بولی تو انہوں نے آگے جھک کر اس کی روشن بےداغ شفاف پیشانی پر شفقت بھرا بوسہ دیا۔


”میری بیٹی ہمیشہ یونہی کھلکھلاتی رہے۔“ وہ پیار سے اسے دعا دیتے بولے تو ثروت بیگم نے شدت سے امین کہا۔

”ماشاءاللہ! بھٸی کافی رونق لگی یہاں تو۔۔“ وارث صاحب سلیمہ بیگم اور فابیحہ کے ساتھ ان کے روم میں داخل ہوتے خوشدلی سے بولے تھے۔


”بھاٸ صاحب فکر نا کریں ابھی اور رونق لگے گی۔۔“ثروت بیگم کی مبہم سی بات پر وہ اچنبے سے انہیں دیکھنے لگے۔


”کیا مطلب؟ کھل کر کہو؟“ سلیمہ بیگم متجس سی استفسار کرنے لگیں۔

”مطلب یہ کہ آج سے دعاۓخیر آپ کی ہوٸی۔ جب دل چاہے آپ اپنی امانت لے جاسکتی ہیں۔“ وہ کھنکتے ہوۓ لہجے میں گویا ہوٸی تو گویا اس خبر پر سبھی کے چہروں پر رونق دوڑ گئی جبکہ دعاخیر نے خاموشی سے سرجھکالیا تھا۔


”بہت بہت شکریہ ثروت! تم نے میری دیرینہ خواہش پوری کردی۔۔“ وہ پرجوش سی دعاۓخیر کو چٹاچٹ پیار کرتی ثروت بیگم کی شکرگزار ہوٸیں۔ وہ سب ہی بےانتہا خوش تھے۔ خوشی میں ان کاچہرہ تمتما رہا تھا ۔

”ارے اتنی اچھی خبر دے ڈالی ۔ بیٹھے کیوں ہو اٹھ کر گلے ملو۔۔“ وارث صاحب اپنے بھائی کو مسکراتے دیکھ مصنوعی رعب سے بولے تو وہ ہنستے ہوۓ اٹھے اور اپنے بھاٸی سے بغلگیر ہوگۓ۔


”بہت مبارک ہو۔۔“ وہ خوشی کے اظہار پر انہیں بھینچتے ہوۓ بولے۔


”آپ کو بھی بہت مبارک ہو، بلکہ سب ہی کو مبارک ہو۔ اللہ یہ رشتہ مبارک کرے۔۔“ حارث صاحب بھی مسرور سے کہتے آخر میں دعاگو ہوۓ تو سب نے ایک ساتھ "امین“ کہا۔


”دعاۓخیر مجھے بھابھی کہا کرتی تھی ۔ اب تو تم بھی میری بھابھی بننے والی ہو، چھوٹی ہوٸیں تو کیا ہوا۔۔“ اسے سلیمہ بیگم کے حصار میں گھیرے دیکھ فابیحہ نے اسے چھیڑا لیکن وہ خاموش سی سرجھکاۓ بیٹھی رہی۔ اس نے ہاں کرتو دی تھی لیکن یہ سب اتنی جلدی قبول کرنا اس کے لۓ آسان نہیں تھا۔


”آج کی صبح تو گڈ ہوگٸ۔ اتنی اچھی خبر پر میٹھاتو بنتا ہے۔“ وارث صاحب اپنے بھاٸی کے شانے پر ہاتھ دھیرے پرجوش سے بولے۔


”بابا فکرناکریں میں ابھی فریج سے میٹھاٸی برآمد کرکے لاتی ہوں۔“ فابیحہ چہکتی ہوٸی روم سے باہر نکل گئی۔

”منہ میٹھاکرلوں تو پھر آفس کے لۓ نکلتا ہوں ۔ اذلان اور ارحم تو جاچکے ہیں ۔ تم آج گھر پر ہی رکنا۔۔“ وہ باتیں کرتے ان کے ساتھ جاکر صوفے پر بیٹھ گۓ تھے ۔ وہ آفس جانے کے لۓ تیار ہوکر ثروت بیگم کی طبیعت ہی پوچھنے آۓ تھے کہ ایک دم ماحول بدل گیا ۔ اب سب مزے سے بیٹھے خوش گپوں میں مشغول تھے ۔ ارحم اور اذلان بھی آفس جانے سے پہلے ان کی طبیعت پوچھ گۓ تھے ۔ فابیحہ مٹھاٸی لے آٸی تو سب نے خوشی خوشی ایک دوسرے کا منہ میٹھاکروایا تھا ۔ فابیحہ نے تو دعاۓخیر کے انکار کرنے کے باوجود اس کے منہ میں پورا گلاب جامن ٹھوس دیا تھا ۔ جواباً دعاۓخیر نے بھی یہی عمل دھرایا تو پورا کمرہ زعفران بن گیا ۔ دونوں کے منہ بچوں کی طرح شیرے سے لتھڑے ہوۓ تھے اور وہ خود بھی سب کے ساتھ ہنسی میں شامل ہوچکیں تھیں ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


آفس میں تو وارث صاحب نے ان دونوں کو کچھ نہیں بتایا تھا ۔ لیکن گھر آتے ہی انہیں بھی یہ خوش خبری مل چکی تھی ۔ اذلان تو خوشی کے مارے مزید چوڑا ہوگیا تھا ۔ ارحم نے دعاۓ خیر کو اپنے سینے سے لگاکر ڈھیروں دعاٸیں دی تھیں ۔ ساتھ اذلان سمت سب کو مبارک باد بھی دی ۔ شام کی چاۓ لان میں بڑے اچھے ماحول میں پی جارہی تھی ۔ ثروت بیگم بھی ان کے ساتھ ہی ہشاش بشاش بیٹھیں تھیں ۔ اذلان نے مسلسل دعاۓخیر اپنی نظروں کے نرم گرم حصار میں لیا ہوا تھا ۔ جس وجہ سے وہ مستقل جھنجھلارہی تھی۔


”کمینہ ٹھرکی! تھوڑا بھی لحاظ شرم نہیں ہے کہ سب کے ساتھ بیٹھا ہے۔“ وہ منہ ہی منہ بدبداٸی۔

اذلان اس کے ہونٹ ہلنے پر سمجھ گیا تھا کہ اسے شاہی القابات سے نوازہ گیا ہے ۔ اس کے باوجود بھی اس نے اپنی روشن چمکدار آنکھیں اس کے دلکش گلابی پاکیزگی رچے چہرے سے ہٹاٸیں نہیں تھیں ۔ یہ وہ حسین چہرہ تھا جیسے وہ صبح شام بھی دیکھے تو تھک نہیں سکتا تھا۔


اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپاٸیں کیسے

تیری مرضی کے مطابق نظر آٸیں کیسے


وہ اپنے منہ زور جزبوں سے گھبراکر نظریں پھیرتا حسب عادت اپنی گدی سہلارہا تھا ۔ جب زبیر سلام کرتا ان لوگوں کے قریب آیا تھا ۔ بلیو جینز پر واٸٹ شرٹ پہنے آستنوں کو فولڈ کۓ وہ چھاجانے والی شخصیت میں شمار ہوتا تھا ۔ سب نے خوش دلی سے اس کے پرجوش سلام کا جواب دیا تھا ۔ بس ایک شخص تھا جس کا چہرہ اسے دیکھ سرد وسپاٹ ہوچکا تھا ۔ فابیحہ اسے دیکھ پرجوش سی اپنی جگہ سے اٹھتی اس کے ہاتھ میں پکڑا شاپر جھپٹ چکی تھی ۔ اس پر اس کی فیورٹ بیکری کا لوگو تھا مطلب شاپر میں موجود کھانے پینے کی چیزیں وہ اسی کے لۓ ہی لیکرآیا تھا ۔ جہاں سب اس کی اس حرکت پر مسکرادئے تھے وہی ارحم کی آنکھوں میں اس منظر کو ناگواری اتری۔


”فابیحہ کیا بدتمیزی ہے۔ بچے کو آرام سے بیٹھنے تو دو۔“ سلیمہ بیگم نے اسے سرزنش آمیز انداز میں اسے ٹوکا۔

”خالہ جانی اسے کچھ نا کہیں یہ ہمارے آپس کا معاملہ ہے۔۔“ زبیر کے نرمی سے کہنے پر وہ مسکراکر خاموش ہوگٸیں جبکہ ارحم نے شدید تیش میں اپنی مٹھیاں بھینچیں تھیں ۔ ان دونوں کے بیچ کی بےتکلفی اسے بری طرح کھلی تھی ۔


”ویسے آپ نے اچھا سرپراٸز دیا ۔ کب آۓ مجھے بتایا بھی نہیں ۔ کل ہی تو میری نادیہ سے بات ہوٸی تھی اس نے بھی مجھے کچھ نہیں بتایا۔“ وہ خوشی اور خفگی کے ملے جلے تاثرات سے بول رہی تھی لیکن اس کے لہجے میں اس کے لۓ ایک لاڈ تھا ۔ ارحم نے تنے اعصاب کے ساتھ پہلو بدلا۔


”گھر میں کسی کو پتا نہیں تھا ۔ میں اچانک ہی رات کو پہنچا تھا ۔ دوپہر میں جاگ کر سب کے ساتھ لنچ کیا ۔ پھر ریڈی ہوکر تمہاری فیورٹ بیکری سے تمہیں فیورٹ چاکلیٹس اور پیسٹریز لی اور حاضر ہوگیا تمہارے دربار میں سلامی دینے۔“ اسے وضاحت دیتا وہ جھک کر اس کے سامنے کورنش بجالیا تو سب ہی ہنس پڑے جبکہ ارحم کے اندر بھڑبھڑ آگ جل اٹھی تھی۔


”اپیا بس بھی کردیں ۔ آتے ہی ان کی کلاس لگالی ہے۔ بچارے دربار میں حاضری پر پچھتارہے ہوں گے۔۔“ اذلان کے مزاقاً کہنے پر وہ جھنپ گٸ جبکہ زبیر نے محفوظ ہوتے قہقہہ لگایا تھا ۔ باقی سب دلچسپی سے ان کو دیکھ اور سن رہے تھے ۔ سواۓ ارحم کے اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس زبیر نامی شخص کو اپنی منکوحہ سے دو سو کلومیٹر دور پھینک آۓ ۔ یا پھر مریخ پر چھوڑ آۓ جہاں سے اس شخص کی واپسی ہی نا ہو۔


”آپ یہاں آرام سے بیٹھیں میں ابھی آپ کے لۓ اچھی سی چاۓ بناکر لاتی ہوں۔“ وہ اسی اپنی چھوڑی ہوٸی کرسی کی جانب بیٹھنے کا بولتی شاپر تھامے اندر کی سمت بڑھ گٸ تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


وہ کچن میں کھڑی مگن سی چاۓ بنارہی تھی ساتھ گنگنابھی رہی تھی ۔ جب ارحم سرد تاثرات لۓ کچن میں داخل ہوا ۔ ملازمہ نے اس کے غصلے چہرے کی جانب دیکھا تو اس نے اسے کچن سے باہر جانے کا اشارہ دیا ۔ وہ واحد ملازمہ تھی جو اپنی فیملی کے ساتھ سرونٹ کواٹر میں رہتی تھی ۔ باقی جو کام والیاں آتی تھیں صفاٸی ستھراٸی اور لانڈری کےلۓ وہ شام تک واپس لوٹ جاتی تھیں ۔ ان کے ہاں روز کے کپڑے دھلتے تھے ۔ سلیمہ بیگم کو پسند نہیں تھا کہ گندے کپڑوں کو رکھ دیا جاۓ ۔ اسی لۓ وہ روز اپنی نگرانی میں یہ کام کرواتی تھیں ۔


”وہ کھولتے پانی میں پتی ڈال رہی تھی جب اسے اسے اپنی گردن پر پرتپش سانسوں کی گرماہٹ محسوس ہوٸی۔


”بہت خوش ہو؟“ ٹھنڈے لہجے میں پوچھا گیا سرد سوال اسے منجمند کرگیا ۔ ایک دھڑکن ہی تھی جس کا شور اسے کانوں تک سناٸی دے رہا تھا۔ باقی تو وہ برف جیسی جم چکی تھی ۔ اس کے لب کچھ کہنے کی چاہ میں پھڑپھڑاکر رہ گۓ ۔ اپنے سوال کے جواب میں اس کو خاموش پاکر اس نے ہاتھ بڑھاکر چولھا بند کیا اور اس اپنے ساتھ لگاۓ چولھے سے دور لے آیا ۔ اس دوران وہ بےجان سی اس کی گرفت میں رہی ۔ پھر اس نے جھٹکے سے اس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔ اس کے چہرے سنگلاخ چٹانوں جیسی سختی تھی جبکہ انداز بھی جارحانہ تھا ۔


”میری طرف تو مسکرا کر دیکھنے سے بھی گرزاں ہو۔ حالانکہ تم پر سب سے زیادہ حق میرا ہے ۔ تمہاری ان حسین آنکھوں پر جس میں مجھ چھوڑ سب کے لۓ محبت چھلکتی ہے۔“ اس نے اپنے پرتپش دہکتے لب اس کی خوف سے پھیلی آنکھوں پر رکھے جو اس کے جھکنے پر سختی سے مچ لی گٸ تھیں۔


”ان گالوں پر جس پر میرے نام کی لالی نہیں دہکتی۔“ اب نے وہی شدت اس کے گالوں پر دیکھاٸی تو اس کے شیو کی چبن اسے شدت سے محسوس ہوٸ تو اس کی جسم و جاں میں سرد ترین لہریں اٹھنے لگیں۔


”ان لبوں پر جو کبھی میرے استقبال پر مسکراۓ نہیں بلکہ ان پر کھلی مسکراہٹ مجھے دیکھ ہمیشہ سےسمٹی ہے۔“ اس سے پہلے کہ وہ حد سے تجاوز کرتے وہی شدت ان کے کپکپاتے لبوں پر دیکھاتا بال بھر کے فاصلے پر اس کی سسکی سے رکا۔


وہ اس کے شدت بھرے حصار میں تھرتھر کانپ رہی تھی ۔ اس کے گلابی روٸی جیسے گال آنسوٶں سے تر دلفریب نظارہ پیش کررہے تھے یوں جیسے گلاب کے پھول پر شبنم کے قطرے ۔ اس کی لمبی گھنیری پلکیں عارضوں پر جھکی ہوٸیں تھرتھرا رہی تھیں۔

گلابی پنکھڑیوں جیسے نازک لب شدت سے ایک دوسرے میں پیوست تھے ۔


”کیسے بتاٶں کتنا چاہتا ہوں آپ کو؟“ اس کے ماتھے سے ماتھا جوڑے وہ شدت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔

”آپ جب مجھ کو چھوڑ ہرشے میں دلچسپی لیتی ہیں نا میرا دل چاہتا ہے ہر اس شے کو آگ لگادوں۔۔“ اس کے شدت بھرے جنونی انداز پر وہ دہل کر رہ گٸ ۔ اس نے گھبرا کر اپنی نظریں اٹھاٸیں تو اس کی گرے آنکھیں مقابل کی کالی گہری وحشت بھری نظروں سے ٹکراکر قیامت ہی برپا کرگئیں۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے بےحد قریب تھے ۔ ارحم کی پرتپش سانسیں اگر اس کا چہرہ جلسارہی تھیں تو فابیحہ کی نرم خوشبودار سانسیں اس کے چہرے پر پڑتی اسے سکوں پہنچارہی تھی ۔


”کیوں کرتی ہے ایسا میرے ساتھ؟ کیوں؟ مانگ تو لی تھی معافی، پھر بھی مجھے معاف نہیں کرتی ہیں آپ؟ مانتا ہوں غلطی کی تھی لیکن میری نادانی سمجھ کر بھول نہیں سکتی ہیں؟ میں نادان تھا کرگیا حماقت، لیکن آپ تو نادان نہیں ہے نا تو کیوں نظر نہیں آتی آپ کو وہ محبت جو میں آپ سے کرتا ہوں؟ میرا غصہ دل میں سنبھال رکھا ہے اور میری محبت کا کیا؟ کب میری محبت کو معتبر کرکےاپنے دل کی مسند پر براجمان کریں گی؟ کب؟“ وہ بےبس سا اپنے جزبوں کو زباں دے رہا تھا جبک وہ شل اعصاب کے ساتھ بےجان سی اس کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔

اس سے پہلے کے وہ اپنے دفاع میں لب کھول پاتی کچن کے قریب قدموں کی چاپ ابھری ۔ وہ دونوں تیزی سے ایک دوسرے فاصلہ بناگئے۔


”یار اپیا آپ چاۓ بنانے آٸی تھی یا پاۓ گلانے؟“ اسے چولھے کے آگے کھڑا دیکھ وہ شرارت سے بولا پھر اس کی نظریں گھوم کر فریج کے قریب کھڑے ارحم پرپڑی جس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔


”اووو تبھی میں کہوں ایک کپ چاۓ بنانے میں اتنا وقت تو نہیں لگتا ۔ باہر زبیر بھاٸی بھی پک گۓ لیکن یہاں ایک کپ چاۓ نہیں پک سکی۔۔“ وہ آنکھیں گھماۓ مبالغہ آراٸی کی حد کرتا چہکا۔


”منہ بند کرکے باہر چلو ، وہ چاۓ بناکر لا رہی ہیں۔۔“ ارحم پانی کی بوتل پکڑے اس کے قریب رک کر پررعب سرد لہجے میں کہتا اس کے پاس سے گزرگیا۔


”ہروقت آٸس مین بننے رہتے ہیں ۔“ وہ زیرلب کہتا اس کے پیچھے ہی ہولیا ۔ اس کے جانے کے بعد فابیحہ نے اپنی حالت درست کی اور چاۓ تیار کرتی باہر نکل آٸی۔ باہر آکر چاۓ زبیر کو پکڑاۓ وہ اس سے فاصلے پر جابیٹھی ۔ اتنا تو وہ سمجھ گٸ تھی کہ اس کی زبیر کے ساتھ بےتکلفی اسے پسند نہیں آٸی تھی ۔ اس لۓ اس وقت وہ سنبھل کر بیٹھی تھی کیونکہ اس وقت بھی وہ خود کو ارحم کی پرحدت نظروں کے حصار میں محسوس کررہی تھی۔


”چاۓ کافی مزےدار ہے۔ تبھی اتنا وقت لگ گیا۔۔“ اس کے شرارت سے کہنے پر وہ دھیمے سے زبردستی مسکراٸی تھی۔


”خالہ! آج سب مل کر ڈنر پر جارہے ہیں تو میں فابیحہ اور اذلان کو لینے آیا تھا ۔ تانیہ بھی کہہ رہی تھی کہ اذلان نے کافی ٹاٸم سے چکر نہیں لگایا ۔ سب تمہیں مس کررہے ہیں ۔۔“ زبیر کی بات پر اذلان نے جتاتی نظروں سے دعاۓخیر کو دیکھا کہ دیکھ لو ایک تمہیں ہی میری قدر نہیں جبکہ دعاۓخیر کی سوٸی تو تانیہ اور مس کرنے پر اٹک گٸ تھی ۔ وہ زبیر کے چاچو کی بیٹی تھی ۔ جو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ۔ بقول دعاۓخیر رج کے چھچھوری تھی ۔

”زبیر بھاٸی آج رہنے دیں ۔ ہم پھر کبھی ڈنر پر چلے جاٸیں گے۔ ہاں اگر اذلان جانا چاہے تو جاسکتا ہے۔ میرا تو جانا مشکل ہوگا۔ میری تھوڑی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ اس سے پہلے کہ سیلمہ بیگم کچھ بولتیں وہ تیزی سے بول اٹھی ساتھ چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ بھی سجالی لیکن پھر بھی اس کے چہرے کا پھیکا پن مخفی نا رہ سکا۔


”چلو ٹھیک ہے ۔ اس بار ناسہی اگلی دفعہ ضرور چلنا ہے تمہیں۔۔“ وہ مصنوعی غصے دیکھاتے بولا تو وہ مسکرا بھی ناسکی۔


”تم تو چل رہے ہونا؟“ اس نے چاۓ کا خالی کپ کین کی ٹیبل پر رکھتے ہوۓ اذلان سے پوچھا۔


”میں تو دوڑ رہا ہوں۔“ وہ کہتا اپنی جگہ اسے اٹھا اوراندر کی جانب بھاگ پڑا لیکن آگے سے ہانک لگانا نہیں بھولا ”دس منٹ ویٹ کریں ۔۔“ سب اس کی بےتکی حرکت پر ہنس پڑے تھے۔

”پورا باپ پر پڑا ہے۔۔“ وارث صاحب جل کر بولے تو ساتھ بیٹھے حارث صاحب نے قہقہہ لگایا۔


سلیمہ بیگم اور ثروت بیگم بھی ان کی بات سن کر ہولے سے مسکرادیں تھیں ۔ فابیحہ سر جھکاۓ اپنے ہاتھوں کے دیکھ رہی تھی جبکہ ارحم بظاہر موباٸل میں مگن اس کا مرجھایا انداز نوٹ کررہا تھا۔

وہ تیار ہو کر واپس لوٹا ۔ اس نے بلیک جینز پر مہرون شرٹ پہنی تھی ساتھ اس کے اوپر بلیک جینز کی اسٹاٸلش جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ نک سک ساتیار پیروں میں واٸٹ اسنیکرز پہنے خوشبوٶں میں بسا گوگلز بالوں میں اٹکاۓ کسی بھی لڑکی کا دل دھڑکانے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ ایک پل کو تو دعاۓخیر بھی مبہوت رہ گٸ تھی ۔ اس بےاختیاری پر اذلان کے چہرے پر کلر اسماٸل نے جھلک دیکھلاٸی تو سمجھوں چراغوں میں روشنی نا رہی ۔ وہ یہ سوچ کر ہی جل بھن گٸ کہ اس چھچھوری کے لۓ وہ فل چھچھورا بن کر جارہا تھا ۔


”کمینہ ٹھرکی!“ دعائے خیر نے اس ازلی خطاب سے اسے دل ہی دل میں نوازہ تھا۔


”اچھا بھٸ اللہ حافظ ۔ میرے لۓ دعاکرنا کسی دل جلے کی نظر نالگے۔۔“ سب کو ہاتھ ہلاتے وہ آخر میں اس کا دل جلانا نہیں بھولا تھا ۔ جبکہ پیچھے وہ جل بھن کر کوٸلوں کو مات دے رہی تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


وہ رات گۓ خوب انجواۓ کرکے لوٹا تو کچن کی لاٸٹ جلے دیکھ اس طرف نکل آیا ۔ دعاۓخیر اپنے ناول کی قسط لکھ رہی تھی لیکن دو گھنٹے کی مسلسل جدوجہد ہے بعد بھی وہ بامشکل ایک ہی پیراگراف لکھ پاٸی تھی ۔ تھک ہار کر وہ دماغ فریش کرنے کے لۓ کچن میں کافی بنانے چلی آٸی کہ اس کے دھیان کے سارے ڈورے تو جاتے ہوۓ اذلان اپنے ساتھ باندھ لے گیا تھا تو بھلا قسط اس نے خاک لکھنی تھی۔ اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرتی وہ پلٹی تو ٹھٹھک گٸ ۔ آنکھوں میں ڈھیروں چمک لۓ وہ کچن کے دروازے سے ٹیک لگاۓ سینے پر بازو لپٹے اس نظروں کے حصار میں مقید کۓ کھڑا تھا ۔


شاہ من!

میری آنکھوں میں دیکھو!

یہاں تک کہ محبت کے صحیفے

حرف حرف کر کے میرے جسم و جاں

میں پیوست ہو جائیں

میری پیشانی سے بال ہٹاؤ، بوسہ دو اس پہ

یہاں تک کہ میں خوش بختی کی

مجسم تصویر بن جاؤں!⁦❣️


پرفسوں لہجے میں چاہت کی گرمی پیار کی نرمی اور جزبوں کی آنچ لۓ وہ سراپا محبت بنا چاہت کا کشکول لۓ اس سے الفت و توجہ کے انمول سکوں کا طلب گار تھا۔


”لگتا ہے کھانے کے ساتھ پی کر بھی آۓ ہو؟“ وہ پی کر پر زوردیتی طنزیہ بولی۔ ساتھ ہاتھ سے اشارہ بھی دیا۔


تیرا نشہ سر چڑ کے بولتا ہے

اس کو پینے کے بعد

اب کسی اور شے کی

تمنا ہی نہیں رہی


افشاں کنول


مخمور لہجے میں اس الزام کو مسترد کیا گیا ۔ وہ "اونہہ“ کرتی مگ میں ابلتا پانی ڈال کر کافی مکس کرنے لگی۔


کون لَوٹا ہے ، یہاں عِشق میں غازی بن کر

میں اُسے پا نہ سکا،،،پکّا نمازی بن کر


اس کے اگنور کرنے پر دل مسوس کے بولا۔


”تمہاری شاعری کا شوق پورا ہوگیا تو کیا اب میں جاسکتی ہوں؟“ وہ اس کے سامنے مگ تھامے کھڑی سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔

اس کو یوں اس پہر اپنے قریب دیکھ اس کی آنکھوں میں خماری اتری ۔ پنک کلر کے ناٸٹ ڈریس میں بالوں کا جوڑا لپٹے سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے اپنا مہکتا سراپہ ڈھانپے وہ خود بھی گلابی سی اس کی نظروں کو خیراں کررہی تھی۔


”نفرت کا پرچار کرتے کرتے کہیں الفت تو نہیں ہوگٸ مجھ سے؟کل تک انکار تھا ۔ آج لبوں پر اقرار ہے۔ وجہ جان سکتا ہوں؟“اس کی جانب جھکے وہ خوش گماں ہوا۔ اس کی چمکدار آنکھیں اس کی شھد رنگ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔ وہ زیادہ دیر ان نظروں کی تاب نالاسکی تو نظریں جھکالیں۔

اس کے یوں نظریں چرانے پر وہ دھیمے سے ہنس دیا۔


”جواب نہیں دیا۔“ گھمبیر لہجے میں کہتے وہ مزید اس کے نزدیک ہوا تو اس کی دہکتی سانسیں دعائے خیر کے چہرے سے ٹکراٸیں۔ وہ بوکھلاکر پیچھے ہوٸی تو مقابل نے اپنے دونوں ہاتھوں کا دباٶ اس کے شانوں پر ڈالے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔

”کیا بدتمیزی ہے؟“ وہ ایک دم بھڑک اٹھی ۔


”وہ تو میں نے ابھی کی ہی نہیں۔ خیر بس میرے سوال کا جواب دو اور چلی جاٶ۔“ مخمور لہجے میں قطعیت بھری تھی۔


”والدہ کی طبیعت کو دیکھتے ہوۓ مجھے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے ۔ بس اب خوش مل گیا جواب؟“ اب کے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ سرد لہجے میں جتا گئی۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے ۔ دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کا عکس تھا لیکن جزے جدا تھے ۔ ایک کی آنکھوں میں جزبوں کا سمندر موجزن تھا تو دوسرے کی نظروں میں بےزاری رقم تھی ۔ وہ دونوں آمنے سامنے تو تھے لیکن روبرو نہیں تھے ۔


”کیا اب میں جاسکتی ہوں؟“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ایک ایک لفظ پر زور دیتی اجازت طلب کررہی تھی۔


”بلکل جاسکتی ہو۔۔“ وہ اس کے سامنے سے ہٹتا واپس پلٹتے ہوۓ بولا لیکن جاتے ہوۓ وہ اس کے ہاتھ سے کافی کا مگ لینا نہیں بھولا تھا ۔


”ندیدہ کہیں کا۔۔“ اس نے جل کر باآواز بلند اسے نیا خطاب دیا۔

”کہیں کا نہیں یہی کا۔۔“ برجستہ جوابی وار کرتا وہ نودوگیارہ ہوچکا تھا ۔ رکنے کی صورت میں جان کو خطرہ بھی لاحق ہوسکتا اور وہ بھری جوانی میں ہرکز مرنا نہیں چاہتا تھا ۔

وارث صاحب نے دونوں دامادوں کے مشورے سے اگلے ماہ کی شادی کی ڈیٹ فکس کردی تھی ۔ ان کو دور سے آنا تھا تو چھٹیوں وغیرہ کا کوٸی ایشو نا ہو اسی لئے ان پہلے پوچھ لیا گیا تھا۔ ارحم کی دونوں بہنیں بہت پرجوش تھیں ۔ بچے الگ بے چین ہورہےتھے ۔ ان کا تو بس نہیں چل رہا تھا وہاں اڑکر پہنچ جاٸیں ۔ وہ دونوں روز ہی ویڈیوکال کررہی تھیں ۔ وہی سے بیٹھے بیٹھے صلامشورے ہورہے تھے۔ گھر میں خوشگوار سی رونق لگی تھی ۔ کچھ دن سے دعاۓخیر نے ناول کی قسط نہیں دی تھی اس وجہ سے ریڈرز نے میسج کرکرکے اس کا دماغ کھالیا تھا۔ اب وہ بےچاری انہیں کیسے بتاتی کہ اس کا دماغ ان دنوں کام نہیں کررہا تو قسط کیسے لکھے ۔ ابھی تو اس کی اپنی اسٹوری چل رہی تھی وہ بھی سیڈ قسم کی ۔ والدہ کی محبت میں فیصلہ لے تو لیا تھا لیکن اندر سے وہ اپنے اس فیصلے کو قبول نہیں کرپارہی تھی ۔ عجیب بےچینی لاحق تھی ۔ کتنی دیر وہ ہاتھوں میں موباٸل تھامے بیٹھی رہتی لیکن لگتا تھاکہ لفظوں کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے ۔ وہ اس وقت بھی ہاتھ میں موباٸل پکڑے الفاظ ترتیب دےرہی تھی کہ اس کے میسنجر پر میسج شو ہوا


”کیسی ہیں؟“ دوسری جانب اذلان میسج بھیج کر شدت سے جواب کا منتظر تھا ۔ وہ ڈسٹرب تھی وہ جانتا تھا ۔ کچھ دنوں سے وہ اپنے گروپ سے بھی غاٸب تھی ۔ ناول کی کوٸ قسط پوسٹ نہیں کی تھی بلکہ کسی کو رپلاٸ بھی نہیں دےرہی تھی ۔ کچھ ریڈرز ناراض تھے تو کچھ اسے برا بھلا بول رہے تھے ۔ کچھ بے حس تھے تو کچھ احساس بھی تھے جو اسے ڈھیروں دعاٸیں دے رہے تھے، اور کچھ ریڈرز ایسے بھی تھے جو اس کے پکے والے فین تھے ۔ جو اس کی جگہ باقیوں کو رپلاۓ کررہے تھے ۔ ریڈرز صرف ناول کی قسط پڑھ کر خوش ہوجاتا ہے اور قسط نادو تو خفا ۔۔ پچھے کی کہانی سے اسے کوٸی سروکار نہیں ہوتا۔ راٸٹر کی بھی فیملی ہوتی ہے ۔ انہیں بھی دس مسٸلے مساٸل کا سامنا ہوتا ہے ۔ بعض دفعہ تو لکھاری راٸٹر بلاک کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اس سے کچھ بھی لکھا نہیں جاتا ایک لفظ بھی، ریڈرز لکھاری کا مسٸلہ سمجھنے کے بجاۓ اسے برابھلا کہنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن سب نہیں، کچھ ریڈرز اس راٸٹر کی فکر میں گھلتے بھی ہیں ۔ جواب ملے نا ملے مسلسل اپنی ہونے کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ۔ وہی آپ کے سچے فین ہوتے ہیں ۔اسی میں سے ایک فین اذلان بھی تھا ۔ فیک آٸ ڈی سے تھا تو کیا ہوا۔ وہ بھی مسلسل اسے میسجز کررہا تھا ۔ جس کا اس نے ایک بھی رپلاۓ نہیں دیا تھا ۔ میسنجر پر میسج ٹاٸپنگ شو ہوٸی تو وہ سیدھا ہوکر بیٹھا ٹڑنگ کی آواز ابھری اور میسج شو ہوگیا

”ٹھیک ہوں بس؟؟“

”بس کا کیا مطلب ہوا؟ طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟“ کی پیڈ پر اس کی انگلیاں تیزی سے حرکت میں آٸیں

”طبیعت کچھ بوجھل سی ہے کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا۔ نالکھنے کا دل کررہا ہے اور نا پڑھنے کا۔“ وہ جزبات کی رو میں لکھ گٸ۔


”یہ تو ساری وہی فیلنگز ہیں جو رشتہ ہونے پر مجھے محسوس ہورہی تھیں۔ آپ کا بھی رشتہ طےہوگیا کیا؟“

”میرا رشتہ طے ہونے کے ساتھ ہی شادی کی ڈیٹ بھی فکس ہوگٸ ہے ۔ اگلے ماہ میری شادی ہے۔“ سیڈ والے ایم جی کے ساتھ اس نے میسج ٹاٸپ کرکے سینڈ کیا ۔ اسوقت اسے جزباتی سہارے کی اشد ضرورت تھی اور اذلان اسے وہی فراہم کررہا تھا ۔ گھر میں وہ کسی سے بھی اپنے جزبات کا کھل کراظہار نہیں کرسکتی تھی ۔ فابیحہ سے بھی نہیں۔


”مبارک ہو ، یہ تو اچھی خبر ہے ۔کہاں ہورہی ہے آپ کی شادی؟؟“

خوشی والے ایموجی کے ساتھ کافی سارے مبارک باد کے اسٹیکرز بھی اس کی اسکرین پر شو ہوۓ۔


”میرے کزن سے، تایا ابو کا بیٹا ہے ۔“

”کہیں دور جارہی ہیں؟“

”نہیں ہم ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ جواٸنٹ فیملی ہے۔“


”ارے یہ تو خوشی کی بات ہے۔ اور آپ اداس ہورہی ہیں ۔ شادی کرکے آپ کو کہیں دور نہیں جانا ہے بلکہ یہی اپنے ماں باپ اپنی فیملی کے ساتھ رہنا ہے ۔ مجھے دیکھیں اتنی دور جارہی ہوں ۔ آپ تو لکی ہیں، شادی کے بعد بھی آپ کی فیملی ساتھ ہی ہوگی ۔ مجھے دیکھیں ایک بار گٸ تو نجانے کتنے کتنے دنوں میں ملنے آنا ہوگا ۔ ویسے تایا کی فیملی اچھی نہیں ہے کیا جو آپ اس رشتے پر خوش نہیں ہو؟“ سنجیدگی سے دوبارہ بیڈ کراٶن سے ٹیک لگاۓ وہ ریلکس سے اس کی الجھنیں سلجھانے کی تک ودیگ میں لگا تھا ۔


”میرے تایا ابو کی فیملی ورلڈ کی بیسٹ فیملی ہے۔

تاٸی امی مجھے والدہ سے زیادہ چاہتی ہیں۔ میرے والدہ مزاج کی تھوڑی سخت ہیں ۔ اگر کبھی جو میں والدہ حضور کی عدالت میں مجرم بن کر آٶں تو ایک وہی ہیں جو مجھے باعزت بری کرواتی ہیں۔ میرے لاڈ اٹھاتی ہیں ۔ مجھے بےانتہا پیار کرتی ہیں وہ ہی نہیں تایا ابو بھی بہت چاہتے ہیں مجھے ، بابا سے زیادہ تو وہ میری فرماٸشیں پوری کرتے ہیں ۔ پھر ان کی دو بیٹیاں لبنیٰ باجی اور سمیراآپی ہیں ۔وہ شادی کے بعد ملک سے باہر ہوتی ہیں ۔ اور مزے کی بات بتاٶں کہ وہ دونوں ہی کیا ان کے کیوٹ سے بچے تک مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جب بھی چھٹیوں پر آتے ہیں ہم سب مل کر خوب انجواۓکرتے ہیں ۔ وہ دن ہماری فیملی کے بہترین دن ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد آتی ہیں میری پیاری سی اپیا پلس بھابھی ، وہ تو اتنی سویٹ ہیں کہ میں بتانہیں سکتی ۔ میرے حصے کے کام بھی خود کرلیتی ہیں۔دراصل مجھے گھر کے کاموں سے خاص کر کچن کے کام کرنے سے جان جاتی ہے۔ ایسے میں ایک وہی میری مددگار ہوتی ہیں ۔ میں جتنا ان سے پیار کرتی ہوں اس سے ڈبل وہ لوگ مجھے چاہتے ہیں ۔“ وہ پرجوش سی سب کے بارے میں فرداًفرداً تفصیل سے بتارہی تھی ۔ دوسرے جانب اذلان چہرے پر دھیمی سے مسکان سجاۓ اس کا میسج ریڈ کررہا تھا ۔ اس وقت اگر دعاۓخیر اس کے جزبوں سے گندے خوش کن تاثرات سے سجے چہرے کو دیکھ لیتی تو اس پر فدا ہی ہوجاتی ۔۔ وہ اتنا پیارا لگ رہا تھا ۔ بلیک ٹراٶزرشرٹ میں اس کے ماتھے پر بال بکھرے سے تھے ۔ اس کی روشن چمکتی آنکھوں میں اس قدر چاہت کے رنگ سجے تھے کہ کھڑی سے جھانکتا چاند اور پھولوں کو چھوکر آتی مہکی ہوا تک مبہوت رہ گٸ تھی ۔


”سب کے بارے میں تو آپ نے بتادیا لیکن ایک اہم شخصیت کو تو آپ بھول ہی گٸیں۔۔“


”کون؟ کس کی بات کررہی ہو؟“ اچنبے سے کہتے اس کے ماتھے پر دوبل آۓ۔

”جن حضرت سے آپ کی شادی ہونے جارہی ہے۔ ان ذات شریف کی بات کررہی ہوں۔۔“


”جن تو تم نے اسے سہی کہا ہے، لیکن اس کی ذات ہرکز بھی شریف کہنے کے قابل نہیں رج کے بےشریف ہےوہ۔۔“ اذلان کے ذکر پر وہ ایک دم تپ کر جو دل میں آیا وہی ٹاٸپ کرتی چلی گٸ جبکہ دوسری جانب وہ اپنے بارے میں اس کے ارشادات سے فیضیاب ہوتے جناتی قہقہہ لگاگیا۔


”ھممممم! تو تمہیں میں جن لگتاہوں ۔ اچھی بات ہے اب اس جن نے تمہاری جان چھوڑنی بھی نہیں ہے۔ شریف بھی واقعی میں بہت ہوں لیکن ابھی تم نے میرے جلوے دیکھیں نہیں ہیں مگر فکر ناکرو ایسا بےشریف بن کر دیکھاٶں گا کہ تمہارے چودہ کے چودہ طبق روشن ہوجاٸیں گے۔۔“ وہ چہرے پر شرارتی مسکان لۓ مستقبل کو تصور کی آنکھ سے دیکھتا معنیٰ خیزی سے زیرلب گویا ہوا۔


”ویسے وہ آپ کے ہونے والے شوہر ہیں ۔ ان کی عزت کرنا توبنتا ہے۔“ اس نے جھٹ ٹاٸپ کرکے سینڈکیا۔


”جسے ساری عمر عزت نہیں دی ۔ اب اسے عزت دینا ایسا ہے جیسے اپنی ناپسندیدہ کریلے کی سبزی زبردستی کھانا تو مجھ سے یہ بلکل بھی نہیں ہوگا۔“ میسج کے ساتھ وومٹ والے تین چار ایموجی بھی آۓ جو اسے غصہ دلاگۓ۔


”عزت تو تمہارے اچھے بھی کریں گے ایک دفعہ میری دسترس میں تو آٶ، سارے سبق سیکھاٶں گا بھی اور اگلے پچھلے سارے حساب بھی بےباک کروں گا۔۔“ اس کی کھلکھلاتی تصویر اپنے موباٸل کے وال پر دیکھتے وہ اپنے خطرناک عزاٸم کا اظہار کررہا تھا۔


”اور ویسے بھی وہ مجھ سے چھوٹا ہے ۔ اسے میری عزت کرنی چاہیۓ ، ناکے مجھے اسے عزت کے ٹوکروں سے نوازنا چاہیۓ ۔“ اس نے مزید ٹاٸپ کرکے بھیجا اور وہ مزید بھی ٹاٸپ کرتی شوہورہی تھی ۔


”سارا بچپن جس بچے پر رعب جمایا۔ اسے بے دریغ شاہی القابات سے نوازہ، چلتے پھیرتے بات بےبات جس کی گدی سیخی، اس کی چیزیں چھین کے کھاٸیں تایا ابو سے کٹ لگواٸی اور تاٸ امی سے سلواتیں سنواٸیں ۔ تم ہی بتاٶ اب کس طرح میں اس لفنٹر کی عزت کرسکتی ہوں؟“ اپنی دکھ بھری داستان وہ جس جن کو سنارہی تھی بلکہ قبول کررہی تھی کہ اس معصوم پر بربریت کی انتہاکردی تھی اس نے اسے ناسمجھ بچہ سمجھ کر لیکن اب وہ بلکل بچہ نہیں رہا تھا بلکہ جن کا بچہ بن چکا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ مستقبل میں وہ اس کے سارے کھولے کھاتو کا حساب کلٸر کرنے والا تھا ۔


”تمہارا بہت شکریہ میری پیاری سی دوست ،جو تم نے میری دل کے جلے پھاپھولے سنے اور میرا غم بانٹا ۔ اب میں سونے چلتی ہوں ۔ نیند بہت آرہی ہے ۔ شب بخیر ،اللہ حافظ۔۔“ سونے والے ایموجی کے ساتھ وہ آفلاٸن ہوچکی تھی ۔


”چلیں محترمہ دعاۓخیر صاحبہ! تم خواب دیکھو اور میں تمہارے خواب میں آنے کی تیاری کرتا ہوں۔۔“ موباٸل ساٸیڈ پر رکھتے ۔ ٹیبل لیمپ آف کرتا وہ سکون سے کروٹ کے بل لیٹتے آنکھیں موند گیا ۔۔۔

🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


لنچ کے بعد وہ اپنی ڈریسنگ میں گھسی کبرڈ درست کررہی تھی ۔ ساتھ ساتھ پریس کۓ کپڑے بھی ترتیب سے لگارہی تھی جب سلیمہ بیگم اس کے روم میں داخل ہوٸیں۔


”فابیحہ کہاں ہو بیٹی؟“ کمرے میں اسے نا پاکر انہوں نے اسے آواز دی۔


”امی میں یہاں ہوں ۔ پلیز آپ بیٹھیں میں ابھی آٸی۔۔“ ڈریسنگ سے سرباہر نکالے انہیں اپنا مسکراتا چہرہ دیکھاتی وہ پھر سے اندر غاٸب ہوگٸ ۔ سیلمہ بیگم بیٹھنے کے بجاۓ اس کے پاس چلی آٸیں۔


”یہ سب چھوڑو اور جاکر جلدی سے ریڈی ہوجاٶ۔“ سلیمہ بیگم نے کہنے کے ساتھ ہی ایک سوٹ نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔


”ہم کہیں جارہے ہیں؟“ اس نے حیرت سے استفسار

کیا کیونکہ لنچ تک تو ایسا کوٸ پوگرام نہیں تھا ۔


”ہم نہیں تم جارہی ہو ۔ ارحم کی کال آٸی تھی ۔ وہ تمہیں شاپنگ کے لۓ اپنے ساتھ لےکر جارہا ہے۔“ سلیمہ بیگم کے اطمینان سے کہنے پر اس کا اطمینان غارت ہوا تھا۔

”چچی کرتو رہی ہیں شاپنگ اور اگر وہ جارہے ہیں تو خود ہی چلیں جاٸیں ،میرا جانا ضروری تو نہیں ہے۔“ اس کے ساتھ اکیلے جانے کے خیال سے ہی اس کی روح فنا ہورہی تھی ۔تبھی جب حلق سے آواز جملوں کی صورت برآمد ہوٸی تو منمناٸ سی تھی۔


”فابیحہ! تم کیوں اسطرح کا رویہ اختیار کرتی ہو؟وہ کوٸ غیر نہیں تمہارا شوہر ہے۔ کچھ دنوں میں تمہاری رخصتی ہونے والی ہے ۔ تمہارا رویہ سامنے والے کے دل میں شکوک ڈال سکتا ہے ۔ ہمیشہ یاد رکھنا وہ ایک مرد ہے ۔ ایک مرد کو اگر یہ لگے کہ اس کی بیوی اس سے کترارہی ہے یا اس کے ساتھ خوش نہیں تو تم سوچ سکتی ہو کیا ہوسکتا ہے؟ سمجھدار ہو کوٸی ننھی بچی تھوڑی ہو جو ہر بات میں ہی سمجھاٶں ۔ میری بچی اپنے رویے میں تبدیلی لاٶ۔ بےشک تم اس کی سنجیدہ طبیعت کے سبب اس سے خاٸف رہتی ہو لیکن وہ کوٸی جلاد صفت مرد نہیں ہے جس کے ساتھ جانے کا ساتھ کر تمہارے چہرے کا رنگ ہی اڑجاۓ ۔ بچپن گزرگیا تو بچپن میں گزرے واقعات بھی بھول جاٶ ۔“ ان کے سمجھانے میں نرمی بھی تھی اور سرزنش بھی ۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کی اس کے اس رویے کی وجہ سے ارحم کے دل میں اس کو لیکر کوٸی بھی شک جنم لے ۔ تبھی وہ اسے سمجھارہی تھیں۔


”امی میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ ان کے ساتھ بھی نارمل رہوں لیکن ان کے سامنے آتے ہی میری ساری خود اعتمادی کسی ٹہنی پر بیٹھی چڑیا کے جیسی پھررر ہوجاتی ہے ۔“ وہ بےبسی میں گھری بولی تو سلیمہ بیگم اس کی پتلی ہوئی حالت پر مسکرا اٹھیں۔


”تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا فابیحہ! ایسی حرکتیں تو دعاۓخیر بھی نہیں کرتی ،جیسی بچکانا حرکتیں تم کررہی ہو۔۔“وہ اسے مصنوعی گھوری دیتی بولیں۔


”امی پلیز انہیں منع کردیں نا۔“ وہ گھگھیاکر بولی۔


”فابیحہ جلدی سے ریڈی ہوجاٶ۔۔“ اب کے وہ لہجہ سخت کرتی بولیں تو وہ بچوں کی طرح منہ بسورے ڈریسنگ روم سے باہر نکل گٸ ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود

حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں


پرپل پنک امتزاج کے خوبصورت لباس میں سلیقے سے دوپٹہ لۓ ۔ وہ کسی شاعر کی حسین رباعی جیسی لگ رہی تھی ۔ اس سے جھجھکی خود میں سمیٹی، بار بار اپنے بالوں کی لٹ کو ہاتھ کی مدد سے کان کے پیچھے کرتی وہ نروس سی اس کے پہلو میں بیٹھی تھی ۔ اس کی خمدار لرزتی پلکوں کا رقص اسے اس قدر دلفریب لگ رہا تھا کہ اس کا ایک بار تو دل کیا گاڑی روک کر اسے فرصت سے دیکھے لیکن ایسا کرنے سے شاید وہ بہوش بھی ہوسکتی تھی ۔ سلام کرنے کے علاوہ اس نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا تھا ۔ سلام بھی اس نے اتنی دھیمی آواز میں کیا تھا کہ اگر وہ اسے باغور نا دیکھ رہا ہوتا تو سن بھی نا پاتا ۔

ایک تو مقابل کی جان لیوا قربت تھی ۔ اوپر سے اس کی کلون کی اسٹرونگ خوشبو باقی کی کسر اس پر اٹھتی اس کی باربار پرتپش نظروں نے پوری کردی تھی ۔ اس کا دل اتنی رفتار سے دھڑک رہا تھا مانو ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آۓ گا ۔ اس کی ہتھلیوں نمی سے بھرچکیں تھیں ۔ اس نے ڈیش بورٹ پر رکھے ٹشو باکس سےٹشو نکالے اور اپنی ہتھلیوں کی نمی صاف کرنے لگی ۔ ہلکا سا جھکنے پر اس کی کان کے پیچھے گٸ بالوں کی وہ شریر لٹ ایک دفعہ پھر اس کے گلابی گال کو چومنے لگی۔ اب کے ارحم نے خود کو روکا نہیں ہاتھ بڑھاکر اس نے وہ لٹ اس کے کان کے پیچھے کردی ۔ اپنے گال اور کان کی لو پر اس کا پرتپش لمس محسوس کرتے فابیحہ کی سانس سینے میں اٹکی اور جان تب لبوں پر آٸی جب اس نے دو انگلیوں سے اس کے گال کو چھوا۔ اس نے گھبراکر اس بےرحم کی جانب دیکھا جو اس کی جان نکلانے کے بعد بےنیاز بنا یوں ڈراٸیو کررہا تھا جیسے آس پاس سے اسے کوٸ سروکار نا ہو ۔ گرے کورٹ پینٹ کے ساتھ واٸٹ شرٹ پہنے اس نے مہرون ٹاٸی لگاٸ ہوٸ تھی۔ بالوں کو جیل سے سیٹ کۓ ۔ گہنی تراشی بیرڈ میں اپنی پوری وجاہت کےساتھ چہرے پر سرد تاثرات لۓ ڈراٸیو کررہا تھا ۔ اس کے عنابی لب ایک دوسرے میں یوں پیوست تھے جیسے ان لبوں سے کبھی کو حرف ادا ہی نا ہوا ہو ۔ اس کے مغرور نقوش اس کو کسی ریاست کا شیزادہ بناتے تھے ۔ اور وہ تھا بھی شہزادو جیسی آن بان والا ۔اسٹیرنگ ویل پر رکھے اس کے مردانہ ہاتھ اور کلاٸی میں پہنی برانڈ کی گھڑی۔


ایک شخص اس طرح مرے دل میں اتر گیا

جیسے جانتا تھا وہ میرے دل کے راستے


اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرتے اس نے ترچھی نظر اس پر ڈالی تو اس نے سٹپٹاکر نگاہوں کے ساتھ ساتھ ہلکا سا رخ بھی موڑلیا ۔ اس طرح کرنے سے اس کی شفاف گردن کی ہری شہ رگ نمایاں ہوکر اس کے پرسکوں دل میں طغیانی برپا کرگٸ ۔ اس شہ رگ کو اپنے لبوں سے چھونے کی چھاہ کو اس نے بہت شدت سے دل میں دبایا تھا ۔ اس کے بعد جب تک مال نہیں آگیا اس نے دوبارہ اس پر نظر تک نہیں ڈالی تھی ۔ جبکہ فابیحہ اس دوران تھوڑا پرسکون رہی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


بلیک لینڈ کروزر پراڈو پارک کرکے وہ اس کا ہاتھ تھامے مال کے اندر داخل ہوچکا تھا ۔ وہ اس شہر کا مہنگاترین مال تھا ۔ وہ اس کا مخملیں ہاتھ تھامے آنکھوں پر بلیک گلاسس چڑھاۓ ایک شان سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ وہاں موجود جتنے بھی لوگ تھے ان سب نے ایک نظر ٹہر کر اسے ضرور دیکھا تھا اور دیکھ کر ٹھٹھکے تھے ۔ جبکہ اس کے پہلو میں ساتھ ساتھ چلتی فابیحہ ہرشے سے بےنیاز تھی ۔ اس کی ساری حساسیت تو اس کے مضبوط مردانہ ہاتھ میں دبے اپنے نازک سے ہاتھ پر مرکوز تھی ۔ کافی لوگوں کی نظروں میں ان دونوں کے ایک ساتھ دیکھ ستاٸش اتری تھی ۔وہ اسے لۓ شہر کے مشہور ڈریس ڈیزاٸنر کی بوتیک آیا تھا ۔ جو پہلے سے ہی اس کا ویٹ کررہا تھا ۔ اسے آتا دیکھ وہ اس نے خوشدلی سے اس سے مصافہ کیا اور انہیں اپنے ساتھ لۓ آگے بڑھ گیا ۔ ارحم نے گلاسس فولڈ کرکے پاکٹ میں رکھ لۓ اور اس کی جانب متوجہ ہوا


”آپ کی مسز ماشاءاللہ بہت پریٹی ہیں ۔ یہ کلر ان پر بہت سوٹ کرے گا۔“ ایک ڈریس اٹھاۓ وہ جیسے ہی فابیحہ کے قریب آیا وہ بدک کر ارحم کے پیچھے ہوٸی۔

”آپ پلیز رہنے دیں ہم خود دیکھ لیں گے۔۔“ سرد لہجے میں کہتے اس نے اس کے ہاتھ سے ڈریس لے لیا تو وہ پروفیشنل انداز میں مسکراکر ایک طرف ہوگیا ۔ کافی دیر کی مغز ماری کے بعد بلآخیر ارحم کو ایک ڈریس اس کے شایان شان لگ ہی گیا ۔ فابیحہ نے بھی سکون کا سانس لیا کیونکہ وہ اب تھکنے لگی تھی۔ ریڈ کلر کا شرارہ جس پر فل دیدہ زیب کام بنا ہوا تھا ۔ ایک پل کو تو اس کی آنکھیں اس کی چمک دمک دیکھ خیراں ہوگٸیں تھیں ۔ وہ شرارہ اور شرٹ ساتھ کھڑی سیل گرل کو تھاما کر بھاری دوپٹہ تھامے اس کی طرف بڑھا ۔ اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ پاتی وہ بھاری دوپٹہ اس کے سر کی زینت بن چکا تھا۔ دوپٹہ کے ہالے میں اس کا دلکش چہرہ کھل گیا ۔

دوپٹے اور چہرے کا رنگ ایک ہوچکا تھا ۔ ارحم مبہوت سا ہرشے سے بےنیاز ہوکر اسے ٹکٹی باندھے دیکھنے لگا ۔ سب کی موجودگی میں اس کی یہ بےخودی اس کی ہتھلیوں کا نم جبکہ دل کی دھڑکنوں کو بڑھا گٸ تھی ۔


”یہ میری محبت کا رنگ ہے جسے آپ اوڑھے کھڑی ہیں ۔ میں چاہوں گا کہ آپ تاعمر میری محبت کے رنگ میں رنگی رہیں۔۔“ اس نے محبت سے محبت کو دعا دی تو فابیحہ کی آنکھوں میں اس کی حد درجہ محبت نے نمی سی بھردی ۔

وہ شخص اسے کس قدر چاہتا تھا ۔ ہر دفعہ معتبر کرتا تھا اپنے لفظوں سے بھی اور عمل سے بھی ۔ اس کا جنوں اس کی دیوانگی اس کی شدتیں وہ برداشت کرنے کی خود میں ہمت نہیں پاتی تھی ۔ وہ کیوں اسے اسقدر چاہتا تھا؟ یہ سوال شدت سے اس کے اندر اٹھا تھا ۔ ارحم نے بےخودی میں آگے جھک کر اس کی پرنم آنکھوں کو اپنے حدت بھرے لمس سے مہکادیا ۔ سیلزگرل کی موجودگی میں اس کی بےباک حرکت اسے خفت سے دوچارکر گٸ ۔ برات کے بعد اس نے ولیمہ کےلۓ نیوی بلیوکلر کی ٹیل میکسی مننتخب کی تھی ۔ جس پر سلور پنک کمبینشن کا انتہاٸی عمدہ کام بنا ہوا تھا ۔ دونوں ڈریس منتخب کۓ وہ ڈریس سمیت سیلزگرل کے ساتھ اندر جاچکی تھی تاکہ فٹنگ وغیرہ دیکھ سکے ۔ ڈریس کے ساتھ کے باقی کے لوازمات بھی اسے دے دیا گۓ تھے ۔ شاپنگ سے فارغ ہوکر وہ اسے ساحلے سمندر پر بننے خوبصورت سے اوپن ریسٹورنٹ میں لے آیا تھا ۔ ارحم نے کرسی آگے کرکے اسے بیٹھنے میں مدد دی اور خود گھوم کر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اس کا کورٹ اور ٹاٸی اترچکے تھے ۔ سلیوز کہنیوں تک فولڈ کۓ وہ اپنی چھاجانی والی شخصیت کی بدولت یہاں بھی کٸ نظروں کا مرکز بناہوا تھا ۔ ویٹر کو آرڈر لکھواتے ہوۓ اس نے اس کی پسند کو بھی مدنظر رکھا تھا ۔


”ہم گھر چل کر کھانا کھالتے، سب ہمارا انتظار کررہے ہوں گے ۔۔۔“ وہ جھجھک کر بولی۔


”گھر اور گھروالوں کی فکر چھوڑ کر گھروالے پر توجہ دیں تو نوازش ہوگی ۔۔“ وہ لطیف سا طنزکرتا اسے جھنپنے پر مجبور کرگیا۔


”فکرناکریں میں تایا ابو کو اس ڈیٹ کا بتاچکا ہوں۔“ اس کے ڈیٹ بولنے پر اس نے بوکھلاکر اس کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں مزاق کی ہلکی سی بھی رمق موجود نہیں تھی ۔ وہ جھنجھلاکر رہ گٸ۔ وہ کیوں تھا ایسا؟ ہر بار اس کی جان مشکل میں ڈال کربےنیاز بن جاتا تھا ۔


”اب بھلابتاٶ بابا کو یہ بات بولنے کی کیا ضرورت تھی ۔ یہ ڈیٹ کہاں سے ہوٸی؟؟“ وہ دل ہی دل میں خود مخاطب ہوٸی ۔ منہ پر بولنے کی ظاہر ہے جرت جو نہیں تھی۔

”یہ ڈیٹ ہی ہے میری معصوم واٸفی۔۔“ وہ معصوم پر زور دیتا سنجیدگی سے بول کر جھکا اور اس کے گال کو چھورہی لٹ کو انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے ہلکا سا کھینچا تو وہ اس کی جانب جھک آٸی ۔

اس نے گھبراکر اس کی کالی سیاہ آنکھوں میں دیکھا۔

”آپ کی ان سے کوٸی خاص دشمنی ہے؟“ نچلا لب اس کے دانتوں کی بیچ سے چھڑاتے وہ سرد لہجے میں استفسار کرنے لگا۔ وہ کافی دیر سے اس کا یہ عمل ناپسندیدگی سے دیکھ رہا تھا ۔ لیکن جب اس کی برداشت سے باہر ہوا تو اس نے اپنے طریقے سے اسے سمجھانا چاہا ۔ اس کے نظروں کا مرکز دیکھ وہ بوکھلاگٸ۔


”آپ میری امانت ہیں ۔ سو خود کو میرے لۓ سنبھال کررکھے ۔ میں آپ کو بھی ہرکز یہ اجازت نہیں دوں گا کہ آپ میری امانت میں خیانت کریں۔“

اسے سرد گھمبیر لہجے میں باور کرواتے وہ ویٹر کو آتے دیکھ پیچھے ہوکر بیٹھ گیا ۔ ویٹر کھانا لگاگیا تو وہ نارمل گفتگو کرتا خود بھی کھارہا تھا اور اس کی پلیٹ میں بھی کچھ ناکچھ ڈال کر اسے کھانے کا اشارہ کردیتا ۔ کھانے کے بعد وہ اسے لیکر ساحل پر آگیا تھا ۔ کھلا سمندر ٹھنڈی ہواٸیں آسمان پر ٹمٹماتے ستارے اور کجھور کی ٹہنی جتنا آسمان پر چمکتا چاند ۔ سب کچھ ہی فسوں خیز تھا ۔ بلکل دعاۓخیر کے ناول جیسا سین ۔ وہ سوچ کر زیرلب مسکراٸ تھی ۔ ارحم جو اس کا ایک ایک انداز نوٹ کررہا تھا ۔ اس کا مسکرانا کیسے اس کی نظروں سے مخفی رہتا؟ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی کمر کے گرد حصار تنگ کرکے اس خود سے لگایا تو جھٹکا لگنے سے اس کا سر ارحم کے شانے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا ۔

”اب مجھے ڈیٹ جیسی فیلنگ آٸی ہے۔۔“ وہ اس کے گرد حصار مضبوط کرتا متبسم گھمبیر لہجے میں گویا ہوتا اس کا دل دھڑکا گیا ۔اس نے جھک کر اس کی کنپٹی چومی تو وہ اسپرنگ کی طرح اچھل پڑی ۔

”آپ میں ایک اچھی گرل فرینڈ جیسے تھوڑے سے بھی گٹس نہیں ہیں۔۔“اس کے سرخ سیب جیسے گالوں کو دیکھ وہ افسوس میں سر داٸیں باٸیں ہلاتے مصنوعی تبسف جتا گیا۔


”جب ایک گرل فرینڈ کو اس طرح پیار کیا جاۓتو وہ پلٹ کر اپنے بواۓ فرینڈ کے گلے میں بازو ڈال دیتی ہے ۔۔۔“ اس نے بولنے کے ساتھ ہی اسے گھماکر اپنے سامنے کیا اور پلک جھپکتے اس کے دونوں بازو پکڑ کر اپنے گلے میں ڈال گیا۔ وہ حیران پریشان سی اسے دیکھتی رہ گٸ ۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ ارحم کے دونوں ہاتھ اس کی نازک کمر کا احاطہ کۓ ہوۓ تھے جبکہ فابیحہ کے دونوں ہاتھ اس کے گلے میں تھے ۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے بےحد قریب تھے ۔ ٹھنڈی ہواٸیں انہیں چھوکر گزررہی تھیں ۔ خاموشی بور معنیٰ خیز تنہاٸی سب مل کر ماحول میں ایک گھمبریتا پیدا کررہے تھے ۔ فابیحہ کی دھڑکنیں تیز تھی بہت تیز۔ اس کا دوپٹہ ہوا کے دوش پر پھڑپھڑارہا تھا ۔ اس کے بال بکھر کر اس کے چہرے پر آرہے تھے ۔ ارحم نے ایک نظر اس کی مچیں آنکھوں اور بھیچیں لبوں کو دیکھا اور دل میں شدت اختیار کرتی خواہش پر لبیک کہتے اس کی شہ رگ پر اپنا دہکتا لمس چھوڑا۔

فابیحہ کی بند ہوٸیں آنکھیں اس کی بےباکی پر پوری واں ہوگٸیں ۔ وہ جھٹکے سے اس سے دور ہوتی رخ موڑگٸ ۔ اس کی سانسیں دھنکی کی طرح چل رہی تھیں جبکہ اس نے لرزتے ہاتھ دھڑکتے دل پر رکھے ہوۓ تھے ۔ وہ پوری کی پوری کانپ رہی تھی ۔ ارحم نے اس کی کیفیت کے سبب اس کے شانوں کے گرد بازو پھلاکر اسے سہارا دیا۔


”آٶ گھر چلتے ہیں ۔۔“ نرمی سے کہتے وہ اس کے سر پر بوسہ دیتا اسے اپنے حصار میں لۓ آگے بڑھ گیا تھا ۔ پیچھے ان دونوں کے پیروں کے نشانات ریت پر بنتے جارہے تھے ۔

گھر پہنچتے پہنچتے انہیں گیارہ کا ٹاٸم ہوگیا تھا ۔

سب اپنے کمروں میں جاچکے تھے ۔ ارحم نے سارا سامان ہاتھوں میں اٹھاکر اسے چلنے کا اشارہ دیا۔ جو ابھی تک نروس کبھی ہونٹ چبارہی تھی کبھی انگلیاں پر ستم ڈھارہی تھی ۔ اس کی پرکیف سنگت میں قدم سے قدم ملاۓ وہ زمین پر نہیں ہوا کے پروں پر محوصفر تھی ۔ آج کے دن کا گزرا ایک ایک لمحہ اس کے ذین کی اسکرین پر کسی فلم طرح چل

رہا تھا ۔ اس نے آج اس کا ایک الگ ہی روپ دیکھا تھا ،لونگ،کیٸرنگ اورحد سے زیادہ رومینٹک بھی ۔ اس کی سنگت میں وہ خود کو محفوظ تصور کررہی تھی ۔ وہ اپنی چھاجانے والی شخصیت کے ساتھ ہرجگہ اسے اپنے محافظ جیسا لگا تھا۔ آج کا دن اس نےایک حسین خواب کے جیسے گزارا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ یہ حسین خواب کبھی نا ٹوٹے اور نا وہ کبھی اس خواب سے بیدار ہو۔ جو اس قدر دلفریب تھا جس نے اس کی آنکھوں میں جگنو اور لبوں پر الوہی مسکان سجادی تھی لیکن وہ یہ بھول رہی تھی کہ خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور ہر خواب کی حقیقت خوبصورت نہیں ہوتی ۔ کچھ خواب ناٸٹ میٸر بن جاتے ہیں ۔ اپنی تمام خوبصورتی سمیت ۔ اپنے کمرے تک آتے اس کے چہرے پر اس ملاقات کی دلفریب پرچھایاں تھیں ۔ جو اس کے حسن کو مزید تابناکی بخش رہی تھیں ۔ ارحم کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز کی وجہ سے اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کی ناٸب گھماکر دروازہ آنلاک کیا اور روم میں داخل ہوگٸ ۔ اس کے پیچھے ہی ارحم بھی اندر آیا اور سارے بیگز صوفے پر رکھ دیۓ ۔ بیگ رکھنے کے بعد اس نے پلٹ کر فابیحہ کو دیکھا جوسرجھکاۓ شاید اس کے جانے کا انتظار کررہی تھی ۔ وہ اپنی بھاری قدموں کی چھاپ چھوڑتا اس کے نزدیک آیا ۔


”تم میری محبت ہو ۔ لیکن اس سے بھی پہلے میری عزت ہو۔ میں تمہارے یوں قریب آیا تو پلیز اسے غلط مت سمجھنا ، یہ میری طلب نہیں محبت تھی جو محب کی چاہ اور الفت بن کر اپنے محبوب کو چھوکر معتبر کرتی ہے ۔ تمہیں چھونا میری طلب نہیں میری محبت ہے جو میں تم سے کرتا ہوں ۔ میں تم سے اپنی محبت کا اظہار بھی بار بار کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا ۔ میں محبت کرکے جتانے کا قاٸل ہوں چھپانے کا نہیں اور میں تم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ تم مجھ سے کبھی بھی کچھ بھی نہیں چھپاٶ گی ۔ ہم ایک دوسرے کا لباس ہیں ۔ اگر ہم میں عیب بھی ہوۓ تو ہم اپنی چاھت، فاداری اور خلوص نیت سے وہ عیب ڈھانپ لیں گے۔ میرا غصہ ہو یا پیار میں جتادیتا ہوں اور تم سے بھی یہی امید رکھتا ہوں ۔ آنے والی زندگی میں ہم ایک دوسرے کے ہمسفر ہوں گے ۔ ایک ساتھ رہنے سے ہم دونوں کی خامیاں خوبیاں ایک دوسرے پر زیادہ اچھے سے واضح ہوں گی ۔ سمجھ رہی ہو نا میری بات؟“ وہ اس کے دونوں شانوں پر اپنے دونوں ہاتھوں کا ہلکا سا دباٶ ڈالے اس کی جانب جھکے اپنے بھاری لب و لہجے میں اسے سمجھارہا تھا ۔ اس کی ساری باتیں سننے کے بعد اس کے سوال پر اس نے فرمابرداری سے اثبات میں سرہلایا تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ آگٸ ۔ اس نے ایک ہاتھ بڑھا کر اس کاچہرہ اونچا کیا تو گرے جھکی آنکھیں سیاہ گہری آنکھوں سے ٹکراٸیں ۔ اس کی پرتپش نظروں میں دیکھنا آسان امر نہیں تھا ۔ مقابل کی نظروں سے پزل ہوتے اس نے پلکوں کی چلمن گرادی۔ اس کی اس ادا پر ارحم کا دل اس کے سینے میں مچل اٹھا ۔

اس نے آگے بڑھ کر اپنے حصار میں لیا تو وہ سٹپٹاکر کسمساٸ اس نے دھیرے سے جھک کر اس ماتھے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی ۔


”میرے لۓ آپ بہت قیمتی ہیں ۔۔“ وہ اس کی جانب جھکے دھیمے پرفسوں گھمبیر لہجے میں بولتا اسے اپنے حصار سے آزاد کۓ وہ واپس پلٹ گیا ۔ جبکہ وہ اب تک اس کی چاہت کے حصار میں خود کو گھیرا پارہی تھی ۔ اس نے دوڑ کر دروازہ لاک کیا اور اسی تیزی سے واپس آکر بیڈ پر گرکر اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ لۓ ۔ وہ محبت کے سفر میں اسے اپنے ہمقدم لے آیا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ بھی اسی رستے پر چلے اور اب تو فابیحہ بھی باخوشی رضا اس کے ساتھ اس محبت کی راہگزر پر چلتے رہنا چاہتی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


میرا عشق ہو…

تیری ذات ہو…-

پھر حُسْن عشق کی بات ہو…-

کبھی میں ملوں…-

کبھی تو ملے…-

کبھی ہم ملیں ملاقات ہو…-

کبھی تو ہو چُپ…-

کبھی میں ہوں چُپ…-

کبھی دونوں ہم چُپ چاپ ہوں…-

کبھی گفتگو..-

کبھی تذکرے…-

کوئی ذکر ہو…-

کوئی بات ہو…-

کبھی حجر ہو تو دن کو ہو…-

کبھی وصل ہو تو وہ رات ہو…-

کبھی میں تیری کبھی تو میرا …-

کبھی اک دوجے کے ہم رہیں…-

کبھی ساتھ میں….-

کبھی ساتھ تو…-

کبھی اک دوجے کے ساتھ ہوں…-

کبھی صعوبتیں…-

کبھی رنجشیں…-

کبھی دوریاں…-

کبھی قربتیں…-

کبھی الفتیں….-

کبھی نفرتیں…-

کبھی جیت ہو…-

کبھی ہار ہو…-

کبھی پھول ہو…-

کبھی دھول ہو…-

کبھی یاد ہو…-

کبھی بھول ہو…-

نا نشیب ہوں…-

نا " اداس " ہوں….-

صرف تیرا عشق ہو……-

میری ذات ہو………….


دعاۓخیر ہواور اذلان کی زندگی میں خیر ہو ایسا کبھی ہوسکتا تھا؟ کبھی بھی نہیں ۔ وہ غصے سے کھلا سانڈ بنا یہاں سے وہاں پھوں پھاں کرتے گھوم رہا تھا اور بےبسی کا یہ علم تھا کہ وہ کسی کو ٹکر بھی نہیں مارسکتا تھا ۔ معاملہ کچھ یوں ہوا کہ دعاۓخیر نے اذلان کے ساتھ اکیلے شاپنگ پر جانے سے صفاچٹ جواب دے دیا ۔ تب سے اسے کے غصہ کا گراف اوپر ہی اوپر جارہا تھا ۔ اب بھی وہ سیٹنگ ایریا میں موجود اسی پر بحث کررہے تھے ۔ دعاۓخیر بےنیاز بنی اس کا تلملایا روپ دیکھ محفوظ ہورہی تھی ۔


”مگر تم کیوں میرے ساتھ جانے سے منع کررہی ہو؟ اپیا اور ارحم بھاٸ بھی تو ساتھ شاپنگ پرگۓتھے ۔“

اپنی امی اور چچی امی کی موجودگی میں وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے لہجے میں نرمی سموۓ اس سے استفسار کررہا تھا۔ ورنہ اس کے حسین ارمانوں پر اس نے اوس گردی تھی اپنے انکار کی صورت تو اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جن بن کر اسے سبق سکھادے۔


”وہ دونوں جاسکتے ہیں ہے ، مگر ہم نہیں ۔۔“اس نے ٹکا سا جواب دیا ۔ وہ اس جواب پر اندر ہی اندر تلملایا مگر بظاہر ضبط سے گویا ہوا

”کیوں؟“

”یوں کہ وہ دونوں ہسبنڈ واٸف ہیں، ہم نہیں ۔۔۔“ اطمینان اب بھی قابل دید تھا جبکہ دونوں خواتین خاموشی سے ان کی بحث سن رہی تھیں ۔ ثروت بیگم کے ماتھے پر البتہ بل نمایا ہورہے تھے ،کتر کتر قینچی کی طرح چلتی اس کی زبان کی دیکھ کر ۔


”دعاۓخیر! وہ تمہارا بے شک شوہر نہیں ہے مگر کزن تو ہے نا؟ اتنی بحث کیوں کررہی ہو؟ اور شوہر بھی ان شاء اللہ بن ہی جانا ہے ۔ آجکل تو لڑکیوں کو بڑا شوق ہوتا ہے منگتر کے ساتھ شاپنگ پر جانے کا اور ایک تم ہو دنیا سے نرالی لڑکی! زرا جو دلچسپی دیکھارہی ہوتم ۔۔“ ثروت بیگم کا صبر جواب دےگیا تو اسے گھوری ڈال کے سرزنش کرنے لگیں ۔ ان کی حمایت پر اذلان نے ایک پیار بھری نظر ثروت بیگم پر ڈالی ۔ چلو کسی کو تو اس کے احساسات کی پروا تھی۔


”ان لڑکیوں کو شادی میں دلچسپی ہوتی ہے تو لازمی شاپنگ میں بھی دلچسپی دیکھاتی ہیں۔ مجھے نا شادی میں دلچسپی ہے نا اور نا اس شخص میں جس کے سنگ رخصت ہونا ہے ۔ تو میں بھلا کس خوشی میں شادی کی شاپنگ میں دلچسپی لوں؟“

حسب عادت وہ زیرلب بڑبڑاٸی تھی ۔ اذلان نے اس کے گلابی پنکھڑیوں جیسے ہلتے لب تو دیکھے لیکن سمجھ ناسکا کہ پھول جھڑیں کہ کانٹے ۔۔


”یہ جو تم میسنوں کی طرح منہ ہی منہ میں بدبداتی ہونا، مجھے سخت زہرلگتا ہے ۔ معمر خواتین کرتی ایسا! اللہ بخشے تمہاری دادی کرجاتی تھی اکثر لیکن وہ ان کی عمر کا تقاضہ تھا۔۔“ وہ اسے بری طرح لتاڑتے ہوۓ بولیں تو وہ منہ بسورنے لگی ۔


”یہاں بھی یہی لگتا ہے۔۔“ اذلان سے تپ کر کہا لیکن آواز کا والیوم نیچے ہی رکھا ۔ جو دعاۓخیر ہی سن سکی کہ وہی اس کے قریب تھی ۔ جبکہ دونوں خواتین سامنے صوفے پر بیٹھیں تھیں ۔

اس کی بات دعاۓخیر کو تیر کی طرح لگی ۔ مطلب وہ اسے بڑی عمر کا طعنہ دےرہا تھا ۔وہ خونخوار نظروں سے اسے گھورنے لگی جبکہ وہ تیلی لگانے کے بعد چہرے پر زچ کرتی مسکراہٹ لۓ اس کے سرخ ہوۓ چہرے کو دیکھ رہا تھا اور اس کے یوں دیکھنے پروہ آنکھ ونگ کرنا نہیں بھولا۔


”ٹھرکی!“ دانت پر دانت رکھے وہ یوں بولی جیسے دانتوں تلے وہ ٹھرکی میرا مطلب ہے اذلان وارث ہو۔اگر اس وقت وہ ہوتا تو اس نے دانتوں تلے لےکر اسے چیر پھاڑدینا تھا ۔ اپنی تشدت بھری سںوچ پر اس نے خود ہی جھرجھری لی ۔


”اچھا بھٸ میں نے اس مسٸلے کا ایک حل نکلا ہے۔“مستقل بحث سنتی سلیمہ بیگم کے کہنے پر وہ تینوں ہی ان کی جانب متوجہ ہوۓ ۔ سامنے سے فابیحہ بھی آرہی تھی ۔وہ ملازمہ کے ساتھ مل کر لنچ کی تیاری کروارہی تھی تبھی وہ اس بحث میں شامل نہیں تھی ۔ اذلان آج شاپنگ کی وجہ سے آفس نہیں گیا تھا لیکن جیسےساتھ لیکر جانا تھا وہ مان نہیں رہی تھی ۔ اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ دعاۓخیر کے ساتھ جاکر اپنی بارات کا ڈریس منتخب کرے۔ جبکہ دعاۓخیر اس کے ساتھ کہیں بھی اکیلے جانے سے صاف انکار کرچکی تھی۔


”ہاں بھٸ پھرکیا فیصلہ ہوا؟؟“فابیحہ اذلان کے ساتھ بیٹھتی سب کے سنجیدہ چہرے دیکھ استفسار کرنے لگی۔


”دعاۓخیر تم اگر اذلان کے ساتھ اکیلی نہیں جانا چاہتی تو ٹھیک ہے ۔ میں اور ثروت تم دونوں کے ساتھ چلتے ہیں ۔ اس طرح ہماری شاپنگ بھی نمٹ جاۓ گی اور تم بھی اپنی شاپنگ کرلینا ۔“ انہوں نے حل دیا تو سب کو معقول لگا سواۓ دعاۓخیر کے ۔ وہ تو سرے سے جانا ہی نہیں چاہ رہی تھی لیکن اب تاٸی امی کے کہنے کے بعد انکار کا جواز نہیں بنتا تھا ۔ اسے انکار اقرار میں بدلنا پڑا کہ ثروت بیگم ماتھے پر تیوری چڑھاۓ اسے نظروں میں لۓ بیٹھیں تھیں۔


”والدہ اب تو گھورنا بند کردیں ۔ یوں لگ رہا ہے میں مجرم ہوں اور میں نے نجانےکتنے قتل کۓ ہیں جو آپ مجھے پولیس والوں کی طرح گھورے جارہی ہیں۔“ وہ نرٹھے پن سے بولی۔


”قاتل تو تم ہو، وہ بھی میرے معصوم ارمانوں کی ۔۔“ وہ زیر لب بڑبڑایا تو ساتھ بیٹھی فابیحہ نے اسے کے پاٶں پر اپنا پاٶں مارا ۔ وہ ایک شکایتی نظر اپنی بہن پر ڈال گیا ۔ اس نے ایک دفعہ بھی اس کی حمایت میں لفظ بھی نہیں بولا تھا ۔ وہ بولتی بھی کیوں ایک طرف اس کا بھاٸی تھا تو دوسری طرف دعاۓخیر جو اسے بہت عزیز تھی ۔ وہ جس کے لۓ بھی بولتی برا دوسرے کو لازمی لگتا ۔ سو وہ ایک چپ سوسکھ محاورے پر عمل پیرا تھی ۔ لنچ کے بعد وہ سب شاپنگ کے لۓ جاچکے تھے ۔ فابیحہ نے البتہ معزرت کرلی تھی وہ گھر پر ہی رکی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


براٸڈل ڈریس چوز کرنا جویا اونٹ کو رکشے میں بیٹھانے جیسا بن گیا تھا۔ جو کلر اذلان کو پسند آتا وہ دعاۓخیر مسترد کردیتی اور جو اسے پسند آتا وہ اذلان مسترد کردیتا ۔


”دلہن میں نے بننا ہے تو ڈریس میری پسند کا ہوگا۔“

وہ اسے غصے میں باور کراتی بولی


”تمہیں میری دلہن بننا ہے تو ڈریس کا کلر میری پسند کا ہوگا۔۔“ اس نے بھی برجستہ جتایا


”تم دونوں نے ایسے ہی سارا وقت نکال دینا ہے۔“ سلیمہ بیگم ان دونوں کی مسلسل ہوتی بحث پر انہیں ڈپٹ کر بولیں۔


”بارات کا ڈریس اذلان کی پسند کا ہوگا اور ولیمہ کے لۓ دعاۓخیر اپنی پسند کا ڈریس لے لے بات ختم ۔“ ثروت بیگم کے دو ٹوک انداز پر اذلان تو مطمین ہوگیا لیکن دعاۓخیر نے ناک بھوں چڑھاٸی لیکن خاموش ہی رہی کہ دوسری صورت میں ثروت بیگم کے تیور اسے خطرناک سے لگ رہے تھے ۔ اذلان نے اپنی پسند سے ڈل گولڈن کلر کا لہنگا منتخب کیا تھا جس پر کام بھی فل گولڈن ہی بناہوا تھا ۔اس کا دوپٹہ البتہ ریڈ تھا ۔ جبکہ دعاۓخیر نے سلور گرین کمبینشن کی فل کام والی میکسی چوز کی تھی ۔ جس پر کہیں کہیں لاٸٹ پنک کلر بھی نمایاں ہورہا تھا ۔ دعاۓخیر نے دوپٹے کو پھیلا کر سر پرلیا تو اذلان مبہوت سا ساکت کھڑا رہ گیا ۔ چاندنی سا چمک رہا شفاف چہرہ دوپٹے کے حالے میں دمک اٹھاتھا ۔ اس کے چہرے پر چھاۓ خوشی کے رنگ اسے مزید دو آتشہ بنارہے تھے ۔ اذلان کے دل میں اس چہرے کو چھوکر دیکھنے کی چاہ شدت اختیار کرنے لگی ۔ اس کی نظروں میں نجانے کون سے جزبے بول رہے تھے کہ دعاۓخیر جو اپنی پسند پر نازاں اس دوپٹے کو خود سے لگاۓ خوش ہورہی تھی نظروں کی حدت پر اس نے اپنی نظروں گھماٸیں تو دل دھک سے رہ گیا ۔ اذلان نے بےخودی میں اس کی جانب پیش قدمی کی تو اس کی جان ہوا ہوٸی ۔ وہ تو صدا کا بےباک تھا اگر یہاں سب کے سامنے اس نے اپنا ٹھرک پن دیکھایا تو اس نے مارے شرم کے مایوں سے پہلےہی پردے میں بیٹھ جانا تھا۔


وہ اس کے بلکل سامنے آکر رکا ۔ دعاۓ خیر کا دل اچھل کر حلق میں آیا جب اس نےاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ اس نے خشک گلے کے ساتھ اپنی آنکھیں سختی سے میچیں۔


”چواٸس اچھی ہے ۔۔“ اس کی متبسم آواز پر دعاۓخیر نے پٹ سے آنکھیں کھولیں ۔ وہ دوپٹے کا دامن پکڑے سنجیدگی سے ان دونوں خواتین سے مخاطب تھا ۔ جو مسکرا کر اثبات میں سرہلاتی اس کی بات کی تاٸید کررہی تھیں ۔ ان سے نظر ہٹاکر اس نے ایک معصوم لیکن شرارت سے پر جگمگ کرتی نظر اس پر ڈالی تو اس کا بس نہیں چلا کہ بلی کی طرح پنجے جھاڑ اس پر اٹیک کردے مگر واۓ رے بےبسی وہ بس غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے گھور ہی سکی جو اسے خفت سے دوچار کرگیا تھا۔

دونوں جوڑے ہی اپنی مثال آپ تھے ۔ اس کے بعد کی شاپنگ میں زیادہ عمل داخل دونوں خواتین کا رہا کیونکہ ایک ڈریس کے بعد وہ جو ڈریس منتخب کررہی تھی ۔ وہ نٸ نویلی دلہن کے حساب سے تو بلکل بھی نہیں تھے ۔ تبھی اس کو ایک طرف کۓ وہ خود ہی اس کی شاپنگ کررہی تھیں ۔ اس کا دکھ یہ بھی تھا کہ سیلمہ بیگم نے اس کی نہیں اس کی والدہ کی حمایت کی اور اس کے مخالف ہوگٸیں اوپر سے اذلان کی نظریں کبھی پرتپش ہوجاتی تو کبھی شرارتی ۔ اس گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے اذلان سے اسے جھنجھلاہٹ ہورہی تھی ۔ خدا خدا کرکے ان کی شاپنگ مکمل ہوٸی تو ان لوگوں نے گھر کی راہ لی ۔ گھر پر الگ ہی رونق لگی تھی ۔ لبنی اور سمیرا اپنی فیملی کے ساتھ بغیر بتاۓ انہیں سرپراٸز دیتے اچانک ہی آگۓ تھے ۔ ان لوگوں نے اگلے ہفتے کا بتایا تھا لیکن انہوں نے ایک ہفتے پہلے ہی پہنچ کر ان کی خوشیوں کو دوبالا کردیا تھا۔


”دلہن مامی آگٸیں۔“ تینوں بچوں نے اسے دیکھتے ہی نعرہ بلند کیا اور بھاگ کر اس سے لپٹ گۓ ۔ وہ اس افتادہ کے لۓ تیار نہیں تھی ایک دم دھکا لگنے سے لڑکھڑاٸی۔ وہ تو اچھا ہوا اذلان بلکل اس کے پیچھے ہی موجود تھا ۔ اس نے فوراً ہی اسے شانوں سے تھام کر گرنے سے بچایا تھا۔


”ارے بچوں سنبھل کر! مامی کو شادی سے پہلے توڑنے پھوڑنے کا ارادہ ہے ۔ پھر بےچارے ماموں کیا کریں گے۔“ فراز لبنی کے شوہر نے شرارتاً شوشا چھوڑا تو سارے ہی قہقہہ لگا کر ہنس پڑےجبکہ وہ سب کی موجودگی میں خجل سی ہوتی تیزی سے اذلان سے دور ہوٸی

بچے شرمندہ سے اسے سوری بولتے اپنی دونوں نانیوں سے مل رہے تھے ۔


”فراز! خبردار جو آپ نے میری اتنی پیاری بھابھی کو تنگ کیا تو اچھی بات نہیں ہوگی ۔۔“وہ مصنوعی غصے سے بولتی اب وہ پرجوش طریقے سے دعاۓ خیر کو جھپی دیتی دونوں گالوں کی پپی لےرہی تھی ۔ سمیرا نے بھی یہی عمل دہرایا تو وہ بوکھلاگٸ ۔

”لو بھٸ تمہاری ابھی سے یہ حالت ہے آگے کیا کرو گی؟“ اس کے بوکھلاۓ انداز کو نوٹ کرتی سمیرا نے اس کی جانب جھکے معنی خیزی سے کہتے اس کے چھکے چھڑوادیۓ ۔ اس کے کانوں سے دھواں سے نکلنے لگا ۔ اسے یقین تھا کہ اس کے گال کان تک سرخ ہوچکے ہونگے ۔ اس نے ساتھ ہی گھبرا کر سب کی طرف دیکھا شکر تھا کوٸی بھی ان کی جانب متوجہ نہیں تھا ۔ وہ سارے ہی بہن بھاٸی بےباک تھے ایک فابیحہ کو چھوڑ کے ۔ آج اسے اس بات کا پکا یقین ہوچلا تھا ۔

اذلان سب سے ملتا ملاتا اب مزے سے دعاۓخیر کی پتلی ہوٸی حالت انجواۓ کررہا تھا جو اس کی بہن کے نرغے میں پھنسی تھی ۔ سلیمہ بیگم اور ثروت بچوں کے واری صدقے جارہی تھیں ۔ ارحم ،وارث اور حارث صاحب ابھی تک آفس سے نہیں لوٹے تھے ۔

”بس بھی کردو ۔ کب سے ظالم نندیں بن کر بچی کو گھیرے کھڑی ہو، دیکھوں زرا بچی ڈر کے مارے گھبرارہی ہے ۔۔“ عاقب سمیرا کے شوہرکے شوخی سے کہنے پر اس بےچاری کا رنگ ہی اڑگیا۔


”اب بھی حد کرتے ہیں ۔ہم کوٸ ٹیپکل چڑیل ٹاٸپ نندیں تھوڑی ہیں جو دعاۓخیر ہم سے گھبراۓ گی۔“ سمیرا اپنے میاں کو دیکھتی نروٹھے لہجے میں بولی اور ساتھ ہی اس کے گال پر ایک دفعہ پھر زوردار بوسہ لیا۔


”یعنی آپ مان رہی ہوں نندیں چڑیلیں ہوتی ہیں؟“

اذلان نے بیچ میں اپنی بہن کی بات اچک کر شرارت سے کہا تو محفل زعفران بن گٸ جبکہ مستقبل کی تمام نندوں نے اسے ایک ساتھ گھوری ڈالی تھی ۔


”تم لوگ آنے سے پہلے اگر بتادیتے تو کچھ اہتمام ہی کرلیتے ہم۔“ لبنی ان کے گلے ملی تو وہ پیار سے اس کا ماتھا چومتی بولیں۔


”ارے امی چھوڑیں کن تکلفات میں پڑھ رہی ہیں۔ جو بھی بناہے ہم خوشی خوشی کھالیں گیں۔ ویسے بھی اگر بتادیتے تو سب کے چہروں پر یہ خوشی کیسے دیکھ پاتے ۔“ سمیرا ان کا گال چوم کر بولی تو وہ مسکرا کر شفقت سے اس کا ماتھا چومنے لگیں۔


”چچی آپ کیسی ہیں ؟سچی میں تو سب سے زیادہ آپ کے کھانے مس کرتی ہوں وہاں۔۔“ سمیرا ان کے گلے لگی پرجوش سی بولی۔


”میری بچی اب آگٸ ہو تو روز تمہیں تمہاری پسند کا کچھ نا کچھ بناکر لازمی دوں گی ۔“ وہ اس کا ماتھے چوم کر پرشفقت لہجے میں گویا ہوٸیں۔


”جب سے آٸیں ہیں کھانے کی ہی باتیں کررہی ہیں۔ اب سمجھ آیا کہ آپ دن بدن اتنی بھاری بھرکم کیسےہورہی ہیں ۔ عاقب بھاٸی کا سارا مال متاع تو کچن کی گروسری میں نکلتا ہوگا۔۔“ اذلان کے ایک دفعہ پھر چھڑنے پر وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی ۔ جبکہ عاقب نے اس کی بات سے لطف اندوز ہوتے جناتی قہقہہ لگایا تھا۔


”دیکھ لیں اس چھوٹے کو، کسی طرح بول رہاہے۔“

وہ منہ بسورے ماں سے شکوہ کناں ہوٸی


”یار اب تو چھوٹا نابولیں ، کچھ دنوں میں گھوڑی چھڑنے والا ہوں۔۔“ وہ مصنوعی خفگی جتاۓ بولا تو سب نے اوووو کا شور ڈال دیا ۔ اتنے میں فابیحہ ملازمہ کے ساتھ لوازمات سے بھری ٹرالی لۓ حاضر ہوٸی تھی۔


”جیو سالی صاحبہ! اس کی اشد ضرورت تھی ۔“ فراز کے شوخی بھری سنجیدگی سے کہنے پر وہ ہنس پڑی ۔ بچے مسلسل دعاۓخیر کے ساتھ لگے تھے ۔ لبنی کی بیٹی فجر دس سال کی تھی جبکہ بیٹا احمر سات سال کا تھا ۔ سمیرا کی پانچ سالہ بیٹی فلق تھی ۔ دعاۓ خیر کو بچے بہت پسند تھے تبھی وہ انہیں کے ساتھ لگی تھی ۔ اذلان تھوڑی تھوڑی دیر میں ایک میٹھی سی نظر اس دشمن جاں پر بھی ڈال لیتا تھا ۔ جو اسے مکمل اگنور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی


”فابیحہ شاپنگ مکمل ہوگٸ؟“ لبنیٰ نے اس کےہاتھ سے چاۓ کا کپ تھامتی سنجیدگی سے پوچھنے لگی

”ارحم بھاٸی کے ساتھ ایک دن شاپنگ گٸ تو تھیں۔“

دعاۓخیر کے شرارت سے کہنے پر اس نے دعاۓخیر کو آنکھیں دیکھاٸیں تو اس نے جھٹ کان کی لو کو ہاتھ لگاکر زبان دانتوں تلے داب لی تو وہ سر جھٹک کررہ گٸ ۔ باقی سارے مسکرادیۓ تھے ۔


”سب تیاری مکمل ہے بس فرنیچر رہتا ہے ۔ ایک دو دن میں وہ بھی آجاۓ گا ۔۔“ حیا کے سبب وہ دھیمے سے بولی


”دراصل دونوں کمرے نۓ سرے سے ڈیکوریٹ کرواٸیں ہیں ۔ اب تو یہی ہو ریلکس ہوکر سب دیکھنا۔۔“ ثروت بیگم مسکرا کر بولیں تو انہوں نے خوش ہوکر اثبات میں سرہلایا ۔ رات کو ڈنر پر خوب ہی رونق لگی تھی ۔ ارحم بھی اپنی سنجیدگی کے خول سے نکل کر ان کے ساتھ ہنس بول رہا تھا ۔کافی ساری کھانے پینے کی چیزیں ان لوگوں نے باہر سے آرڈر کرلیں تھی ۔ رات گۓ خوب ہنگامہ برپا رہا تھا ۔ وارث صاحب نے زبردستی ڈپٹ کر دوسرا پہر لگنے پر سب کو سونے کے لۓ ان کے رومز کی طرف بھیجا تھا ۔

دعاۓخیر کی آنکھ کسی کے نرم ملاٸم لمس پر کھلی۔اس نے مندی مندی آنکھوں سے دیکھا تو فلق اس پر جھکی ہوٸی اپنے ننھے ہاتھ اس کے گال پر رکھے اسے اٹھارہی تھی۔


”مامی اٹھ جاٸیں، بھوک لگی ہے۔“ اس کو آنکھ کھولتے دیکھ وہ منہ بسورے بولی تو وہ فوراً ہی اٹھ بیٹھی ۔ فلق کے ساتھ ہی احمر بھی اٹھا ہوا تھا۔ فجر البتہ بیڈ پر نہیں تھی ۔


”ارے میرے بچے کو بھوک لگ رہی ہے۔ ابھی آپ کی آنی آپ کے لۓ بریک فاسٹ کا انتظام کرتی ہے۔“ وہ اس کے پھولے گالوں پر بوسہ دیتی اٹھ بیٹھی ۔ رات تینوں بچے ضد کرکے اس کے ساتھ سوۓ تھے ۔ ان کی فیورٹ دعاۓخیر ان کی مامی بن رہی تھی اس بات کو لیکر وہ بہت تینوں کافی پرجوش تھے۔ وہ ان کی فرینڈ تو تھی ہی اب اکلوتے ماموں کی اکلوتی مامی بھی بننے جارہی تھی ۔


”مامی مجھے بھی بھوک لگی ہے۔“ احمر نے بھی گال پھولاۓ منہ بسورا تو دعاۓخیر نے چٹاچٹ اس کے لڈو جیسے گالوں پر بوسے لۓ۔


”فجر آپی کہاں ہیں؟“ وہ کھلے بالوں کا جوڑا لپٹے مصروف لہجے میں پوچھنے لگی ۔ اسی وقت واش روم کا دروازہ کھول کر فجر فرش سی باہر نکلی۔


گڈمارننگ ! وہ خوشی سے چہکی۔


”گڈمارننگ ڈیٸر! میں پانچ منٹ میں ریڈی ہوکر آٸی پھر نیچے چلتے ہیں۔“ وہ بیڈ سے اٹھتی لباس درست کرتی مسکراکر بولی۔


”مامی آپ آرام سے فریش ہوں ۔ ان دونوں کاتو میں منہ دھلواچکی ہوں۔۔“ فجر بردباری سے گویا ہوٸی۔

دعاۓخیر نے آگے بڑھ کر اس کا گال چوما تو وہ بلش کرنے لگی۔


”بےشرم ماموں کی شرم والی بھانجی ۔۔۔“ حسب عادت بدبداکر وہ اپنالباس نکال کے واش روم میں بند ہوگٸ ۔

تینوں بچوں کے ساتھ وہ نیچے اتر کر ڈاٸنگ حال میں آٸی تو وہاں الگ ہی رونق لگی تھی ۔ سب مرد حضرات فریش سے ٹیبل پر بیٹھے تھے ۔ ان لوگوں کو دھیمے سے سلام کرتی وہ اندر کچن کی جانب چل دی ۔ بچے بھاگ کر اپنے ماموں کے پاس پہنچے۔


”نیند کیسی آٸی؟“ احمر کو گود میں بیٹھاۓ وہ ساتھ بیٹھی فجر سے پوچھنے لگا ۔ تب تک فلق ثاقب کی گود میں چڑگٸ جو اذلان کے ساتھ ہی بیٹھا تھا ۔

”مزے کی نیند آٸی ۔ سونے سے پہلے مامی نے کہانی بھی سناٸی اور پھر گال پر پیار بھی دیا بلکہ صبح بھی پیار دیا۔“ سوال کا فوری جواب احمر کی جانب سے آیا جو آنکھیں پٹپٹاکر اپنے گال پر ہاتھ رکھے تیز تیز بول رہا تھا ۔ اس کی باتیں سن کر اذلان دلکشی سے مسکرایا اور جھک کر اس نے بھی اس کے دونوں گال چوم لۓ۔


”ماموں انہوں نے فلق اور آپی کے بھی گال چومے تھے ۔“ اس کی جانب جھکے وہ رازداری سے بتانے لگا۔ اس کی بات پر اذلان نے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دباکر بامشکل اپنا قہقہہ روکا ۔ وہ صرف دیکھنے میں ہی چھوٹا تھا گن پورے تھے اس میں ۔۔


”یہ ماموں بھانجے میں کیا رازونیاز چل رہے ہیں؟“ وارث صاحب کی نظر اپنے نواسے پر پڑی تو وہ اذلان کے کان میں کچھ بول رہا تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے اذلان کو قہقہہ دباتے دیکھا تو متجسس انداز میں پوچھنے لگے۔


”کچھ نہیں نانو! ہماری آپس کی بات ہے ۔“ اس کے سنجیدگی سے جواب دینے پر وہ ہنس پڑے۔


”وہاں بھٸ جناب آپس کی بات ماموں کے ساتھ۔۔“

فراز نے شرارت بھری سنجیدگی سے اذلان کو دیکھتے ہوۓ احمر سےکہا۔


”بابا مین ٹو مین ٹاک ہورہی ہو تو کسی دوسرے مین کو بیچ میں مداخلت نہیں کرنی چاہی۔۔“ بولتے وقت احمر کی سنجیدگی اور بردباری قابل دید تھی ۔ اس کا انداز ایسا تھا کہ محفل زعفران بن گٸ۔


”بڑے قہقے لگ رہے ہیں باہر، دیکھو ذرا کون چٹکلے چھوڑ رہا ہے؟“ لبنیٰ تجسس میں گھیری بول اٹھی۔


”ماشاءاللہ سے کتنے دنوں کے بعد تو اس قدر رونق لگی ہے۔ اللہ میرے تمام بچوں کو یونہی خوش و خرم اور آباد رکھے ۔“ سلیمہ بیگم کے کہنے پر سب نے زوروشور سے امین کہا ساتھ ہی انہوں نےسوجی کےحلوےکے نیچے چولھا دھیما کرکے فابیچہ اشارہ کیا تاکہ وہ حلوہ ڈیش میں نکال لے۔


دعاۓخیر پوری کےلۓچھوٹے چھوٹے پیڑے بناکر رکھ رہی تھی۔ ثروت بیگم نے ماربل کو گریسی کیا اور اس پر پوری بیل کر چولھے پر چڑھی تیل کی کڑھاٸی میں پوری ڈالی۔


”بچیوں اب سالن اور حلوے کی ڈشیں میز پر لے جاٶ ، میں پوریاں تلنا شروع کرچکی ہوں۔“ ثروت بیگم نے مصروف انداز میں تیل میں ڈلی پوری پر کفگیر سے ہلکا سا دباٶ ڈالے کہا تو پوری ایک دم پھول گٸ۔

سلیمہ بیگم نے چنے کا سالن،آلو کی ترکاری ڈیش میں نکالی اچار اور راٸتہ پہلے ہی پیالیوں میں نکلا ہوا تھا ۔ لبنیٰ،سمیرا اور فابیحہ نے سب چیزیں اٹھاٸیں اور باہر نکل آٸیں۔


”جیو خواتین و خواتین آج تو مزا ہی آجاۓ گا۔“ انہیں سب ڈشیں ٹیبل پر رکھتا دیکھ ثاقب چہکا۔

”دیکھ لیں آپ سب، کھانے کا شوقین یہاں کون ہے؟ نام تو بس میرا بدنام ہے ۔۔“ وہ اذلان اور اپنے میاں جی پر ایک جتاتی نظر ڈال کر کل کا بدلا چکاتی بولی۔

”بھٸ لزیزحلوہ پوری کے ساتھ کریلے کی سبزی نہیں چاہیۓ۔۔“ ثاقب کے برجستہ کہنے پر سمیرا کا منہ کھل گیا ۔ باقی سارے ان کی نوک جھوک سے لطف اندوز ہورہے تھے۔


”ثاقب بہت بری بات ہے ۔ میری اتنی پیاری بہن کو یوں تنگ کررہے ہو۔۔“ لبنیٰ جھٹ اپنی بہن کی حمایت میں بولی۔


”فابیحہ پلیز مجھے آپ چاۓ لادیں ۔ میں اتنا ہیوی ناشتہ کھانہیں سکوں گا ۔ صرف چکھ لوں گا۔۔“ موباٸل سے نظر ہٹاکر ارحم سنجیدگی سے فابیحہ سے مخاطب ہوا ۔ وہ لوگ آج آفس نہیں جارہے تھے۔ اسی وجہ سے کچھ ضروری میلز تھیں جو ارحم چیک کررہا تھا۔


”چاۓ کے ساتھ سینڈوچ لےآٶں؟“ نرم سی جھجھکی آواز پر ارحم پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوا ۔گرین کلر کے شلوار قمیض میں سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے وہ اجلی صبح کا حصہ ہی معلوم ہورہی تھی ۔ آنکھوں میں نظر آتی جانی پہچانی لپک پر اس نے بوکھلاکر نظریں جھکالیں تو ایک دھیمی سی مسکان نے ارحم کے لبوں کو چھوا۔


”جو آپ خوشی سے کھلاٸیں گی میں کھالوں گا۔۔“ سب کی خود پر پڑتی نظروں کی بدولت وہ سنجیدگی سے کہتے واپس موباٸل کی جانب نگاہیں پھیرگیا تو وہ خاموشی سے پلٹ گٸ۔


”خوش نصیب ہو ارحم جو اتنی فرمابردار بیوی ملی ہے ۔ اگر میں یہ بات لبنیٰ سے کہتا تو آگے سے صفاچٹ جواب ملتا ۔ یہ اتنا ناشتہ بنایا تو ہے جو وہ کون کھاۓگا۔ جرح الگ شروع ہوچکی ہوتی۔۔“ فراز کے حسرت آمیز لہجے میں کہنے پر لبنیٰ کو پتنگے لگ گۓ

”شوہر ہوتی ہی ناشکری مخلوق ہے۔ اپنی ساری جوانی ان محترم کی خدمت میں گزاردی۔ جو کہا وہی کیا پھر بھی طعنہ سننے کو مل رہا ہے۔ حد ہوتی ہے۔

اب بولیں نا مجھ سے کہ لبنیٰ کڑی چاول بنادو، لبنیٰ پاۓ کا موڈ ہورہا ہے۔ اچھے سے بناکردوں گی۔۔“ وہ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑیں تو بےچارہ فراز بوکھلاگیا۔


”لبنیٰ بہت بری بات ہے۔ اگر خدمت کر بھی رہی ہوتو اس میں تمہارا کوٸی احسان نہیں ہے فرض ہے ۔ دوسرا سب شوہروں کو ناشکرا کہہ رہی ہو سب میں تو میں اور تمہارے چاچو بھی شامل ہورہے ہیں۔ آٸندہ نا سنو میں تمہارے منہ سے ایسی بات۔۔“ وارث صاحب کے سنجیدگی سے سرزنش کرنے پر لبنیٰ کا منہ لٹک گیا ۔ وارث صاحب اپنی اولادیں سے جتنی میں محبت کرلیتے لیکن غلط حرکت پر سرزنش بھی سختی سے کرتے تھے۔

سوری! وہ منہ بسورے بولی تو فراز نے سب سے نظر بچاکر اسے فلاٸنگ کس پاس کردی توسب کی موجودگی میں اس کی اس حرکت پر شرم سے لبنیٰ کے گال دہک اٹھے۔

”وہ دیکھیں ماموں بابا چپکے سے ماما کو فلاٸنگ کس پاس کررہے ہیں۔۔“ احمر ایک دفعہ پھر اس کے کان میں گھسا تو اتنے سے بچے کے منہ سے ایسی بات سن کر اسے دہسکا لگا.

ساتھ بیٹھے ثاقب نے جلدی سے اسے پانی کا گلاس پکڑیا ۔ اذلان نے سوچ لیا تھا کہ اس آفت کی پڑیاں سے زرا ہوشیار ہی رہنا ہوگا ۔ ورنہ وہ اس کا بھانڈا بھی بیچ چوہراۓ میں پھوڑ سکتا تھا۔ وہ پانی کا گلاس لبوں سے لگاۓ یہ بات سوچ رہا تھا ۔ اتنے میں فابیحہ ارحم کا ناشتہ لۓ واپس آٸی اس کے ساتھ ہی

دعاۓخیر بھی ہاتھ میں درمیانے ساٸز کی تھال پکڑے چلی آٸی جس میں گرم گرم بھانپ اڑاتی پوریاں رکھیں تھیں۔


”میری بچی نے اچھا کام کیا۔۔“ حارث صاحب اس کی جانب دیکھتے مسکرا کر بولے تو وہ ان کی حوصلہ آفزاٸی پر دھیمے سے مسکرادی ۔ اس کی مسکراہٹ کو اذلان نے نرم گرم نظروں سے دیکھا ۔ اب وہ سب کی پلٹیوں میں گرم گرم پوریاں رکھ رہی تھی ۔ اپنے اوپر مستقل اذلان کی گڑی نظریں اسے غصہ دلارہی تھیں ۔ وہ جیسے ہی اس کے قریب آٸی اس کی باچھیں کھل گٸیں ۔ اس نے ایک تنبیہہ کرتی گھوری اس پر ڈال کر دو پوریاں اس کی پلیٹ میں ڈالیں اور زیرلب "ٹھرکی“ کہتی آگے بڑھ گٸ۔


”ماموں یہ ٹھرکی کیا ہوتا ہے؟“ احمر نے جھٹ پوچھا تو وہ بری گڑبڑاگیا۔ شکر تھا کوٸی بھی ان کی جانب متوجہ نہیں تھا۔


”میرے پیارے بھانجے ٹھرکی بہت ہنڈسم بندے کو کہتے ہیں۔۔“ اس کے حساب سے اذلان نے سمجھاکر گویا بات ختم کی تھی۔

”یعنی آپ ہنڈسم ہیں تو اس لۓ مامی آپ کو ٹھرکی بول رہی ہیں؟“ اس نے آنکھیں پٹپٹاکر استفسار کیا تو اس نے جھٹ اثبات میں سرہلایا ۔ احمر اس جواب پر مطمین ہوتا اس کی گود سے اتر کر لبنیٰ کے پاس چلاگیا تھا جو اسے ناشتہ کروانے کےلۓ اپنے پاس بلارہی تھی ۔

🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹

دن پر لگاکر گزرے تھے ۔ پھپھو کے علاوہ بھی کافی رشتہ دار روکنے کے لۓ آچکے تھے ۔ رات کو خوب ہی رونق لگتی تھی ۔ پھپھو نے آتے ہی فابیحہ اور دعاۓخیر کو ارحم اور اذلان سےپردہ کروادیا تھا ۔

وہ پرانے خیالات کی خاتون تھیں انہیں شادی سے پہلے یوں لڑکی لڑکے کا آمنےسامنے آنا کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا ۔ ارحم نے تو اس بات پر خاموشی اختیار کرلی تھی لیکن اذلان کافی پھڑپھڑایا تھا۔


”یار اپیا اتنے دن اس سے لڑے بغیر کیسے گزاروں گا؟“ فابیحہ کے سامنے وہ اپنا گھمبیر مسٸلہ لۓ بیٹھا۔

”اس کا دماغ کیوں کھارہے ہو ، جاکر پھپھو کو بولو ۔ یہ قدغن انہوں نے لگاٸی ہے۔ جیسا تمہارا پردہ ہے ویسے ہی ارحم کا بھی پردہ ہے ۔ وہ پرسکون ہے لیکن تمہیں نجانے کیوں اتنی بےچینی لگی ہے؟“ سمیرا اس کے لتے لیتی بولی تو اس نے منہ بسورا۔


”اکلوتے بھاٸی کی تھوڑی جو قدر ہو آپ بہنوں کو۔“ وہ تڑخ کربولا۔

”قدر کی بھی خوب کہی چھوٹے ، تمہاری من پسند لڑکی سے تمہاری شادی کروارہے ہیں اور کیا کریں؟“

لبنیٰ صدمے میں گھیری بول اٹھی۔


”میری من پسند کیوں؟ امی کی من پسند کہیں ۔ میں تو فرمابرداری میں قربانی کا بکرا بن رہا ہوں ۔۔“

وہ صاف اپنا دامن بچاگیا۔


”بس بس رہنے بھی دو۔ جیسے ہم تمہیں جانتے نہیں۔ جو لڑکا جوتے تک اپنی پسند کےپہنتا ہو وہ شادی کیسے دوسرے کی پسند سے کرے گا بھلا؟ تو ہمیں بےوقوف بنانا بند کرو۔ سب پتا ہے ہمیں ۔ فابیحہ کی طرح ہم بھی تمہاری بہنیں ہیں ۔ دور ہوۓ تو کیا ہوا ، اڑتی چڑیا کے پر ہم بھی گن سکتے ہیں ۔۔“ سمیرا اس کے چوڑے شانے ہاتھ مارتی جتاکر بولی۔

”اپیا آپ نے بتایا ان دونوں کو؟؟“ وہ فابیحہ کو دیکھ شکوہ کناں لہجے میں گویا ہوا۔فابیحہ بےچاری اس الزام پر بوکھلاٸی۔


” ہمیں فابیحہ نے نہیں ، تمہاری ان آنکھوں سے چھلکتےجزبوں نے بتایا ۔ اس چہرے نے بتایا جو اسے اپنے سامنے دیکھ کھل سا جاتا ہے ۔ اس تبسم نے بتایا جو اسے نظروں میں رکھے مسلسل تمہارے ہونٹوں پر ٹہرا رہتا ہے ۔“ لبنیٰ پیار سے اس کے بال بکھرا کر شاعرانہ لہجے میں گویا ہوٸی تو وہ اپنا آپ یوں آشکار ہوجانے پر جھنپ گیا۔


”اووو! میرا پیار بھیا شرماتا بھی ہے۔۔“ فابیحہ شرارت سے شہادت کی انگلی اس کے بلش کرتے گال پر رکھ کربولی۔


”میں کیوں شرماٶں گا؟ میں کوٸی دعاۓخیر تھوڑی ہوں۔“ وہ جھٹ بال سنوارے آنکھیں گھماۓ بولا۔


”میرے بھاٸی! شرماتی تو وہ تم سے تھوڑا سا بھی نہیں ہے ۔ پورا رعب جھاڑتی ہے اپنے بڑے ہونے کا۔“ فابیحہ کے چھڑھانے والے انداز پر وہ گہرا مسکرایا۔


”کوٸی بات نہیں میں سیکھا دوں گا ۔ آپ فکرناکریں۔۔“ وہ گردن اکڑاکر ایک آنکھ ونگ کرتے گویا ہوا۔

”بہت بے شرم ہو۔۔“ دونوں بڑی بہنوں نے اس کے شانے پر ایک ساتھ ہاتھ مارا تو وہ قہقہہ لگاکر ہنس پڑا ۔

فابیحہ کا فون رنگ کررہا تو وہ اس جانب متوجہ ہوگٸ ۔ اسکرین پر زبیر کا نام جگمگارہا تھا ۔ ان سب کو باتوں میں مشغول چھوڑ وہ کال سننے باہر نکلی ۔ اس کا رخ چھت کی جانب تھا ۔ وہ اوپر جاکر آرام سے اس سے بات کرسکتی تھی ۔ اس نے تیزی سے سیڑھیاں طے کیں اور اوپر پہنچ گٸ ۔ کال اوکےکرکے وہ ایک طرف آگٸ ۔ سلام دعا اور خیرخیریت کے بعد وہ دوسری طرف کی بات پوری سنجیدگی سے سن رہی تھی۔


”زبیر دل برداشتہ نا ہوں ۔ یہ تو قسمت کے کھیل ہیں ۔ آپ یہ سمجھیں جس لڑکی کو آپ نے چاہا وہ آپ کی قسمت میں ہی نہیں تھی ۔ اگر ہوتی تو وہ ضرور آپ کو مل جاتی ۔ بعض جگہ لڑکی مجبور ہوجاتی ہے ۔ اس کے رشتے ہی اس کے پیروں کی زنجیر بن جاتے ہیں اور وہ ان زنجیروں کے سبب آگے نہیں بڑھ پاتی ہے ۔ محبت اور رشتوں میں سے ہم لڑکیاں رشتے چنتی ہیں ۔ اب چاہے اس کے لۓ کتنا ہی کیوں نا دل پر جبرکرنا پڑے ۔۔“ وہ اور بھی کچھ بول رہی تھی لیکن ان لفظوں کے بعد ارحم چٹختے اعصاب کے ساتھ ساکت سا کھڑا رہ گیا ۔ اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمایاں تھے ۔ چہرہ ایک دم سفید پڑگیا تھا اس کا۔

بڑا دشوار ہوتا ہے کسی کو یوں بھلا دینا

کہ جب وہ جذب ہو جائے رگوں میں خون کی مانند

”کاش میں فابیحہ کو اوپر آتے دیکھ یوں ان کے پیچھے نا آتا ، کم از کم ایک بھرم میں تو زندہ رہتا۔ وہ بھرم ٹوٹ گیا تو اب پیچھے باقی بچاہی کیاہے؟

آپ نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ نا اپنے ساتھ۔۔“ وہ شکستہ دل سے سوچتا ایک جھٹکے سے پلٹا اور تیزی سے سڑھیاں عبور کرتے نیچے اترگیا ۔ اس وقت اس کے چہرے پر چٹانوں جیسی سختی در آٸی تھی۔

وہ اپنے اندر اٹھ رہے شدید اشتعال کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے گاڑی میں بیٹھ چوکیدار کو گیٹ کھولنے کا اشارہ کرتے گیٹ کھلنے پر گاڑی زن سے گھر سے باہر نکال لے گیا تھا ۔ پورا گھر اور گارڈن برقی قمقموں سے سجا تھا ۔ کل اذلان اور فابیحہ کے نکاح کے ساتھ ان چاروں کی کمباٸن مایوں بھی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


بال بال موتی چمکائے

روم روم مہکار

مانگ سیندور کی سندرتا سے

چمکے چندن وار

جوڑے میں جوہی کی بینی

بانہہ میں ہار سنگھار

کان میں جگ مگ بالی پتّہ

گلے میں جگنو ، ہار

صندل ایسی پیشانی پر

بندیا لائی بہار

سبز کٹارا سی آنکھوں میں

کجرے کی دو دھار

گالوں کی سُرخی میں جھلکے

ہر دے کا اقرار

ہونٹ پہ کچھ پُھولوں کی لالی

کُچھ ساجن کے کار

کَساہوا کیسری شلوکا

چُنری دھاری دار

ہاتھوں کی اِک اِک چُوڑی میں

موہن کی جھنکار

سہج چلے ، پھر بھی پائل میں

بولے پی کا پیار

اپنا آپ درپن میں دیکھے

اور شرمائے نار

نار کے رُوپ کو انگ لگائے

دھڑک رہا سنسار


نکاح کا انتظام باہر ہی لان میں لگے اسٹیج پر کیا گیا تھا ۔ اسٹیج کے بیچ لال رنگ کا جالی دار پردہ حاٸل تھا ۔ جس کے اس طرف دعاۓخیر مایوں کے مخصوص لباس میں پھولوں کے زیوارت سے سجی چہرے کو لال دوپٹے سے سے چھپاۓ بیٹھی خاموشی سے قاضی صاحب کے الفاظ سن رہی تھی ۔ وارث اور حارث صاحب اس کے داٸیں باٸیں بیٹھیں تھے ۔

”بیٹا ہاں بولو ۔۔“ وہ کھوٸی کھوٸی سی بیٹھی تھی جب اپنے قریب حارث صاحب کی پرشفقت دھیمی آواز سناٸی دی ۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے تین دفعہ قبول ہے کہا اور لرزتے ہاتھوں سے جہاں جہاں اس کے پھوپھا بولتے گۓ وہ ساٸن کرتی گٸ ۔ ساٸن کرتے وقت اس کے کپکپاتے ہاتھ پر حارث صاحب نے اپنا دست شقت رکھا تھا ۔ نکاح کا مرحلہ اذلان کی طرف سے بھی مکمل ہوا تو مبارک سلامت کا شور اٹھا ۔ وہ خوشی خوشی سب سے مبارک باد وصول کررہا تھا ۔ ارحم نے بھی اسے گلے لگاکر مبارک باد دی۔


”ارحم بھاٸی اتنے اداس اور رنجیدہ کیوں ہیں؟ آپ کا نکاح تو پہلے سے ہوچکا اور آج ہم دونوں کی بیگمات کی ہم سمیت رسم مایوں ہے۔ ایسے میں یوں اداس ہونا کچھ بنتا نہیں ہے۔۔“ وہ اس کے سنجیدہ تاثرات سے سجے چہرے کو مسکراتی نظروں سے دیکھتا شرارتی لہجے میں گویا ہوا۔


”ابھی تمہارا نکاح ہوا ہے۔“ ارحم کے سرد انداز سے کہنے پر چونکا۔

”ہاں تو؟“

”مار کھاتے اچھے نہیں لگوگے۔۔“ سنجیدگی سے کہتا

وہ اس کا شانہ تھپتھپائے اسے ہکا بکا چھوڑ دعا خیر کی جانب آگیا۔ دعائے خیر کو گلے لگاکر اسے ڈھیر دعاٸیں دیتا وہ نیچے اتر کر باقی کے انتظامات دیکھنے میں لگ گیا ۔ ویسے تو اس کے کزنز وغیرہ سب انتظامات دیکھ رہے تھے ۔ ویٹرزوغیرہ بھی الرٹ تھے لیکن وہ پھر بھی ہر چیز خود بھی دیکھ رہا تھا ۔ ،ذہن بٹانے کو بھی تو کچھ نا کچھ کرنا تھا ۔ ورنہ دل تو کررہا تھا کہ سب چھوڑ چھاڑ کہیں بھاگ جاۓ ۔ اندر کے شور کو وہ باہر کے شور سے دبا رہا تھا ۔ اندر کا شور ختم کرنے کے لئے اس کے کہنے پر ڈےجے نے فل والیم میں سانگ لگادیۓ تھے ۔

🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹

دونوں دلہنوں کو ایک ساتھ بیٹھایا گیا تھا۔ دونوں کے لباس ایک جیسے تھے ۔ لیمن کلر کے لانگ کامدار فراک پر سر پر گرین دوپٹہ لۓ وہ پھولوں کےزیوارت کا سنگھار کۓ سادگی میں بھی غضب ڈھارہی تھیں۔

ارحم واٸٹ کلر کے شلوار قمیض پر بلیک مردانہ شال لۓ اپنی چھاجانی والی شخصیت کے ساتھ ہر شے میں چھایا ہوا تھا ۔ دوسری طرف اذلان نے بھی سیم کلر میں ڈریسنگ کی تھی بس اس کی شال براٶن تھی ۔ اپنے لمبے چوڑے سراپے کے ساتھ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ کافی نظروں کا مرکز بناہوا تھا ۔ بیچ میں سے جالی دار پردہ ہٹ چکا تھا۔

دونوں دلہنوں کے چہروں پر لال جالی دار دوپٹے کا گھونگھٹ دیا گیا تھا ۔ یہ ہدایت بھی پھوپھو کی تھی ۔ رسم کا آغاز بھی انہی کی طرف سے شروع ہوا تھا ۔ اس کے بعد سب بڑوں نے باری باری رسم ادا کی تھی ۔

”ناٸلہ یہ زبیر نہیں آیا نا؟ میں نے کہا بھی تھا کہ چھٹی لیکر لازمی آۓ۔ بھلا بتاٶ بچپن کے دوست کی شادی ہے اور وہ غاٸب ہے ۔ بتادینا اسے میں اس سے سخت خفاہوں ۔“ اپنی بہن کو دیکھتےوہ خفگی جتاکر بولیں۔


”آپا اس نے کافی کوشش کی لیکن اسے چھٹی نہیں

مل سکی ۔ آپ کو معلوم ہے نوکری کے معمالات ۔۔“ وہ ان کا ہاتھ تھامے پیار سے سمجھاتے ہوۓ بولیں یہ جانے بغیر کے ان دونوں کی گفتگو ارحم پر کس بری طرح اثراندز ہورہی تھی ۔

اگر اسے اپنے ماں باپ اور بڑوں کا لحاظ نا ہوتا تو وہ سب کچھ بھاڑ میں جھونک کر خود کہیں نکل جاتا ۔ اپنا پہلو اسے جلتا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔

بس نہیں چل رہا تھاکہ اس دھوکے باز کو یہاں اپنے پہلو سے اٹھا دے اور جھنجھوڑ کر پوچھے کے اس کے ساتھ یہ سب کیوں کیا ۔ اس کے جزبے تو خالص تھے ۔ تو پھر اس نے ان میں ملاوٹ کیوں کردی۔ اس کے اندر آگ دہک رہی تھی ۔ وہ مجبور تھا ورنہ اپنے اندر کی آگ سے ہر شے جلا ڈالنا چاہتا تھا ۔ اس کے پہلو میں بیٹھی وہ مضطرب سی تھی ۔ وہ تو جب بھی اس کے قریب ہوتا تھا تو اپنی محبت کی خوشبو سے اسے بھی مہکا دیتا تھا ۔ اس کی سرگوشی، اس کا جان لیوا لمس وہ ہر انداز سے اپنے ہونے کا پتا دیتا تھا ۔ احساس دلاتا تھا کہ وہ اس کی اور اس پر صرف اسی کا حق ہے لیکن اب اس وقت جب وہ اس کے پہلو سے لگی بیٹھی تھی تو وہ اس پر ایک نظر ڈالنے تک کا روادار نہیں تھا ۔ اس کی محبت کی خوشبو اسے اپنے آس پاس محسوس نا ہوکر اسے گھٹن میں مبتلاکررہی تھی ۔ سب بزرگ خواتین کے بعد اس کے دونوں بہنوٸی اور بہنیں بھی اسٹیج پر موجود رسم کررہے تھے ۔ انہیں دیکھ بچے بھی مچل اٹھے کہ ہم بھی رسم کریں گے ۔ سب سے پہلے فجر نے ابٹن لگاکر منہ میٹھا کروایا تھا ۔ اس کے بعد احمر کی باری آٸی ۔ اس نے چھوٹی سی انگلی میں ابٹن لےکر دعاۓخیر کے ہاتھ پر ملا پھر یہی عمل اذلان کے ساتھ بھی کیا پھر اسی طرح ان کا منہ بھی میٹھاکروایا ۔ پھر ارحم اور فابیحہ کے ساتھ بھی یہی عمل دھرایا ۔ سب بڑے اس کی معصومانہ حرکت پر مسکرارہے تھے ۔


”آج میرے دنوں ماموں ٹھرکی لگ رہے ہیں بلکہ بہت زیادہ ٹھرکی لگ رہی ہیں۔۔“اس کے معصومانہ انداز میں کہا گیا جملہ سب کو سٹپٹانے پر مجبور کرگیا خاص طور پر اذلان کو ۔۔

”احمر میرے بچے بری بات ہے ایسے نہیں بولتے۔“ فراز نے اسے نرمی سے سمجھایا۔


”مگر کیوں بابا؟ میں تو ماموں کو ہنڈسم بول رہا ہوں۔“ اس نے مزید گوہر افشانی کی تو اذلان کا دم خشک ہوا سب کے سامنے اس کی عزت سے بےعزتی ہونے والی تھی ۔ اب وہ پچھتارہا تھا کہ اس نے بچہ کو غلط مطلب کیوں سمجھایا ۔ بچہ من کا سچا بنا سچ اگلنے والا تھا ۔ اس نے بےچینی سے پہلو بدلا ۔ دعاۓخیر بھی گھونگھٹ کے پیچھے اسے منہ اٹھاۓ دیکھ رہی تھی۔


”کس نے کہا کہ اس لفظ کا مطلب ہنڈسم ہے؟“ لبنیٰ نے پچکار کے پوچھا۔

”اذلان ماموں نے۔۔“ اس کےبولنے کی دیر تھی کہ سب کی خونخوار نظریں اس کی جانب اٹھیں ۔ وہ مسکینت سے مسکراتا گدی پر ہاتھ پھیرکر رہ گیا۔

”بیٹا ماموں مزاق کررہے تھے ۔ اب آپ آٸندہ یہ لفظ منہ سے نہیں نکالیں گے۔“ لبنیٰ اسے سمجھاتے ہوۓ بولی۔

”اگر یہ لفظ اچھا نہیں تو مامی ماموں کو کیوں بول رہی تھیں ۔۔“ اب کے احمر برہم سا ہوا۔ اب کہ

بم سیدھا دعاۓخیر پر گرا تھا ۔ اس وقت دعاۓخیر کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجاۓ یا پھر اسے کوٸی منتر مارکر یہاں سے غاٸب کردے۔ اس کی منہ پھٹ عادت نے آج رج کے اسے سب کے سامنے شرمندہ کروایا تھا۔ احمر کی گوہرافشانی کے بعد سارے میں ایک دم سناٹا چھاگیا تھا۔ کچھ سیکنڈ بعد فراز کا بامشکل رکا قہقہہ برآمد ہوا

اس کے ساتھ ہی اسٹیج پر قہقہوں کا طوفان امنڈ آیا ۔ ارحم کے لبوں پر بھی دھیمی سی مسکان نے جھلک دیکھاٸی تھی جبکہ وہ بےچاری سرجھکاۓ خفت و شرمندہ سی بیٹھی تھی ۔


”اذلان تم نے بچی کو ایسا کیا بولا کہ تمہیں اس ےچاری نے ٹھرکی کا خطاب ہی دےڈالا۔۔“ ثاقب شرارتاًگویا ہوا تو سارے ایک دفعہ پھر ہنس پڑے۔


”بھٸ جو مجھے ٹھرکی بول رہی ہے ۔ اسی سے رابطے کریں ۔ وہی اس پر سہی سے روشنی ڈال سکتی ہے۔۔“ وہ اپنا دامن جھڑتا مزے سے ساراملبہ اس پر ڈال گیا ۔ جانتا تھاکہ وہ کبھی اس حوالے کا خلاصہ نہیں کرنے والی تھی ۔ سب کی توجہ اپنی جانب دیکھ وہ مزید سر نیچاکرگٸ ۔


”میری بہن کو تنگ کرنا بند کریں ۔ بچی ہے منہ سے نکل گیا ہوگا۔۔“ ارحم کے سنجیدگی سے کہنے پر سب مسکراہٹ دباگۓ ۔ اذلان البتہ بےنیاز بنا چوڑا ہوا اس کے پہلو میں بیٹھا تھا ۔ اس نے نا محسوس انداز میں اپنا بازو اس کے شانے پر پھیلا دیا تو وہ اس لمس پر مزید سمٹی۔ رسم کے بعد سب کزنز نے مل کر اسٹیج پر دھاواں بول دیا تھا۔ ناچ ،گانے، ہنگامے میں سارا وقت گزرا تھا ۔ ارحم رسم کے بعد اسٹیج پررکا نہیں تھا۔ دوسری طرف نیچے حارث صاحب کے ساتھ بیٹھیں ثروت بیگم کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔

”ثروت خوشی کا موقع ہے ۔ اب بھی آنکھیں نم کررہی ہو؟“ سلیمہ بیگم ان کے قریب آتی انہیں سرزنش کرتی بولیں۔

” میں خوش آپا بہت خوش، بس اس دن ڈر گٸ تھی ۔ لیکن آج میں پرسکون ہوں ۔ اللہ میری بچی کو ہمیشہ خوش و آباد رکھے ۔ کوٸ غم اسے چھوکر ناگزرے۔۔“ انہوں نے ممتابھرے دل سے دعاۓخیر کو دعا دی تو سلیمہ بیگم نے شدت سے امین کہا تھا۔

لیکن کون جانتا تھا کہ یہ دعاقبولیت کی سند پاتی بھی ہے یا نہیں ۔۔۔

رسم کے بعد لبنیٰ اور سمیرا ان دونوں کو گھر کے اندر لے آٸیں تھیں ۔ فابیحہ کے روم میں جاکر انہوں نے ان دونوں کے سر پردیا ایکسٹرا جالی دار دوپٹہ ہٹادیا تھا ۔

”قسم سے دلہن بنناکتنا مشکل کام ہے ۔“ اپنی اکڑی کمر کوتکیہ کا سہارا دیتی وہ تقریباً کراہ کر بولی۔

اس کی بات سن کر بےساختہ ہی ان تینوں کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔


”آج کہاں! تھکن تو تمہیں کل ہوگی جب مہندی کے لۓ مجسمہ بنی بیٹھو گی ۔ اس کےبعدکٸ گھنٹے پالر میں بیٹھو گی پھر اسٹیج پر پھر سیج پر ، اس کے بعد کہیں جاکر تھکن کا اصل مفہوم پتاچلے گا تمہیں۔۔“ سمیرا شرارت بھرے زومعنیٰ لہجے میں بولی۔


”بیچاری دلہن کو اتنا ٹارچر کیوں کرتے ہیں یہ لوگ؟

مجھے نہیں بننا دلہن۔۔“ دعاۓ خیر دوٹوک لہجے میں منہ بسورے بولی ۔ اس کی تو یہی سن کر جان ہوا ہورہی تھی کہ اتنا لمبا بیٹھنا پڑے گا ۔ ابھی ہی اس کی کمر تختہ ہوگٸ تھی تو دلہن بن کر تو تختہ کمر لے کر اس نے تخت پر ہی پڑجانا تھا ۔ اپنے اس خوفناک خیال پر اس نے خود ہی ڈر کر جھرجھری لی۔


”اب تو بہت دیر ہوچکی ۔ چڑیا چک گٸ کھیت۔۔“ سمیرا ترنگ میں بولی۔

”مطلب؟“ اس نے آٸبرو سکیڑیں۔

”مطلب یہ کہ مین چیز نکاح ہوتا ہے۔ وہ تو ہوچکا۔ اب تو صرف رخصتی باقی ہے وہ بھی ہوجانی ہے۔ اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ تمہیں اس ٹارچر سے گزرنا پڑے گا۔۔“ سمیرا یوں بولی جیسے اس پر کوٸ ظلم کے پہاڑ ٹوٹنے والے ہوں ۔ دعاۓخیر کی شکل یوں ہوگٸ جیسے اب مری کے تب۔


”سمیرا بس بھی کرو، کیوں اسے ڈرارہی ہو۔۔“لبنیٰ ںے تنبیہہ لہجہ اپنایا۔

”نند بن گٸیں نا تو نندیوں والی حرکتیں کررہی ہیں۔۔“ وہ منہ پھلاکر ناراض لہجے میں بولی تو سمیرا نے جھک کر چٹاچٹ اس کے گال چوم لۓ۔


”آپ لوگ میرے گال کیوں چومتے رہتے ہیں؟“وہ جھنجھلاکر بولی اور اپنا گال صاف کیا۔


”تم ہو ہی اتنی کیوٹ ۔ دیکھتے ہی پیار آجاتا ہے۔۔“

لبنیٰ کی دی گٸ لوجک پر وہ اش اش کراٹھی جبکہ

سمیرا نے زوروں شور سے اس کی بات کی حمایت اثبات میں سرہلاکردی ۔اتنی دیر میں ملازمہ کھانا لے آٸی تھی۔


”اپیا آپ اتنا چپ چپ کیوں ہیں؟“ فابیحہ کو مسلسل خاموش دیکھ اسے تشویش لاحق ہوٸی ۔ کب سے وہ تینوں ہی بولے جارہے تھیں ۔ جبکہ وہ گم صم خاموش سی تھی۔ دعاۓخیر کے سوال کرنے پر اس کی دونوں بہنیں بھی اس کی جانب متوجہ ہوٸیں تو وہ گڑبڑاگٸ۔


”اب ہر کوٸی تمہاری طرح تھوڑی ہوتا ہے۔ تھکن کے باوجود نان اسٹاپ اسٹارٹ ہو۔۔“ اپنی منتشر کیفیت پر قابو پاتی وہ اسے چھیڑنے کے انداز میں مسکراکر بولی تو دعاۓخیر نے نروٹھے پن سے منہ پھولالیا۔


”تنگ کرنے کو آپ کا بھاٸی کافی نہیں؟جو آپ بہنیں بھی اس میں حصہ دار بن رہی ہیں۔۔“ خفا سے لہجے میں بولتی وہ بسمہ اللہ! کہتی کھانا شروع کرچکی تھی ۔فابیحہ اسکے پھولے گال دیکھ مسکراتی اس کے قریب ہوٸی اور زوردار طریقے سے اس کے گال پر بوسہ لیا

”یار! آپ پر بھی اپنی دونوں بڑی بہنوں کا اثر پڑھ گیا؟ اتنی زور سے کون چومتا ہے؟“ وہ اپنا گال اپنے ہاتھ سے رگڑتی خفگی جتاکر بولی تو وہ تینوں بہنیں کھلکھلاکر ہنس پڑیں


”بھٸ ہمارا پیارجتانے کا انداز اتنا ہی پرجوش ہے ۔

خفاہونے سے اچھا ہے تم عادت ڈال لو،مستقبل میں کام آۓ گی۔۔“ وہ ایک آنکھ ونگ کرتی بولیں ۔ دعاۓخیر نے ان کی بات کی گہراٸ میں اتری تواس کے گال دہک اٹھے ۔ یہ تصور ہی سوہان روح تھا کہ وہ ٹھرکی بھی اپنی بہنوں کی طرح یہی عمل دہراۓ گا ۔ اس کے حلق میں نوالہ پھنسا اور اسے زوردار پھندا لگا ۔ فابیحہ نے تیزی سے اس کی کمر رب کی اور لبنیٰ نے سرعت سے پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا ۔ سمیرا اس کے پھندے کی وجہ سے سرخ ہوا چہرہ پریشانی سے دیکھ رہی تھی۔


”اب ٹھیک ہو تم؟“ فابیحہ نے اسے پانی کا گلاس اپنے منہ سے ہٹاتے دیکھ فکرمندی سے پوچھا۔


”میں ٹھیک ہوں۔۔“ ان تینوں کے چہروں پر اپنے لۓ پریشانی دیکھ وہ مسکراکر گویا ہوئی۔


”اب آپ بھی ریلکس ہوکر کھانا کھاٸیں ۔۔“ نوالہ بناکر وہ فابیحہ کے منہ میں ڈالتی لاڈ سے بولی۔


”تم دونوں آرام سے کھانا کھاٶ، ہم نیچے سے ہوکر آتے ہیں۔ اپنے بچوں اور میاں جی کا بھی حال احوال لے لیں ورنہ دونوں بھاٸیوں نے شکوے کرنے ہیں کہ میکے آکر بقول ان کہ بےبچارے شوہر کو نولفٹ کا بورڈ تھما دیتے ہیں ۔۔“ لبنیٰ ہنس کر کہتی باہر کی طرف بڑھ گٸ تو سمیرا نے بھی مسکرا کر اس کی پیروی کی۔


”اپیا! سچ سچ بتانا بھیا نے کچھ کہا ہے کیا؟ چہرہ مرجھاۓ گلاب جیسا کیوں ہورہا ہے؟حالانکہ کافی ٹاٸم سے آپ کھلاگلاب لگ رہی تھی ۔ خود بھی مہک رہی تھیں اور آس پاس کے ماحول کو بھی معطر کیا ہوا تھا۔ اب ایک دم مرجھاکیوں گٸیں؟“ وہ کھانے سے ہاتھ روک کر اس کا ہاتھ تھامے متفکر سی استفسار کرنے لگی۔


”مسٸلہ سارا یہی ہے کہ وہ کچھ بول ہی نہیں رہے۔

بلکل چپ ہیں ،اکھڑے ہوۓ سے ۔ ایسا لگتا ہے طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے ۔ دعاۓخیر نجانے کیوں میرا دل وہم اور وسوسوں کی لپٹ میں آرہا ہے۔ دل کسی انہونی کی جانب اشارہ کررہا ہے میرا۔“ وہ پرنم لہجے میں اپنے دل میں پل رہے خدشات اس سے شیٸر کررہی تھی۔


”اپیا آپ زیادہ احساس ہورہی ہو اور کوٸی وجہ نہیں ہے ۔ بھیا تو شروع دن سے ہی کم ہنستے کم بولتے ہیں ۔ ان کو لیکر اپنے دل میں خدشات نا رکھیں ۔ میرے بھاٸی ہیں میں انہیں اچھے سے جانتی ہوں ۔ بہت چاہتے ہیں آپ کو۔۔“ وہ نرمی سے اس کا ہاتھ دباکر پیار سے اسے ریلکس کرنے لگی۔


”وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔اس بات کا مجھے اچھے سےعلم ہے ۔ وہ کٸ دفعہ باورکرواچکے ہیں ۔ جتاچکے ہیں کہ وہ مجھے کتنا چاہتے ہیں ۔ انہیں کی جانب سے محبت کے اظہار پر میں کھل اٹھی تھی ۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ وہ اظہار پر یقین رکھتے ہیں ۔ لیکن آج ان کی خاموشی اور تنے اعصاب نے مجھے ہراساں کردیا ہے ۔ جس شخص کی زبان نہیں آنکھیں بولتی ہوں ۔ وہ اچانک بےپرواہ ہوکر نظر انداز کرے تو وہم تو پھرے آتے ہی ہیں ۔ میں تو ان کے سامنے آٶں تو وہ لفظوں سے زیادہ نظروں سے سرہاتے ہیں لیکن آج میں ان کے پہلو میں تھی اور وہ یوں اجنبی بنے بیٹھے تھے جیسے مجھے جانتے نا ہوں۔ ان کی اتنی مہربانیوں کے بعد ان کی کج اداٸی برداشت نہیں ہورہی مجھے سے۔۔“ وہ بولتی بولتی ایک دم پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تو دعاۓخیر کو اسے سنبھلنا مشکل ہوگیا۔


”اپیا قسم سے کہہ رہی ہوں اگر آپ یونہی روتی رہی تو میں جاکر بھیا کو یہاں لےآٶں گی اور پھر آپ کے سامنے ہی ان کے لتےلینے ہیں میں نے۔۔“ وہ تنبیہہ انداز میں مصنوعی غصے سے بولی۔

اس کی بات کا خاطر خواہ اثر ہوا اور وہ سوں سوں کرتی خاموش ہوگٸ۔


”آپ بلکل پریشان نا ہوں ، میں بھیا سے بات کروں گی۔“ وہ اسے پانی کا گلاس پکڑاتی تسلی آمیز لہجے میں بولی۔


”نہیں پلیز! ایسا نہیں کرنا ۔ ہوسکتا ہے جو میں سوچ رہی ہوں ۔ وہ سب میرا وہم ہو۔ گھر میں دودو شادیاں ہیں۔ہوسکتا ہے کام کے برڈن کی وجہ سے ان کا برتاٶ تھوڑا الگ رہا۔“ وہ خاٸف لہجے میں بولتی اس کی ایک طرح وکالت کرگٸ ۔ہوش میں تو تب آٸی جب دعاۓخیر کا بےساختہ قہقہہ سنا۔


آپ سے ہے گلا آپ سے ہی پیار

آگ برابر لگی ہوٸ ہے یار!۔۔

وہ نظریں گھماٸی معنی خیزی سے بولی تو فابیحہ جھنپ گٸ۔

”چپ چاپ کھانا کھاٶ اگر مار نہیں کھانی تو ۔۔“ اس سے پہلے وہ مزید پھیلتی فابیحہ نے بڑے ہونے کا رعب جھاڑا تو وہ ہنسی دباۓ چپ چاپ کھانے کی جانب متوجہ ہوگٸ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”آپ دونوں بہنیں میکے آکر ہم بھاٸیوں کو یوں بھول گٸیں جیسے گھر میں رکھا کوٸ فالتو سامان ۔۔“ دونوں بہنیں کمرے میں داخل ہوٸیں تو فراز کی پرشکوہ آواز پر ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گٸیں ۔ بچے چینج کرکے بیڈ پر سورہے تھے ۔ جبکہ دونوں بھاٸی ان کے داٸیں باۓ بیٹھے اپنی بیگمات کو ناراضگی بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے


”یہ شکوہ آپ کے منہ پر جچتا نہیں ہے ۔ سارا سال آپ کو تو دیکھتے ہیں ۔ آپ کو ہی توجہ دیتے ہیں۔آپ کا ہی خیال کرتے ہیں ۔ ابھی کچھ دن کے لۓ میکے آکر ان کو دیکھ لیا تو آپ کو اگنور ہونا لگ رہا ہے ۔۔“ لبنیٰ کمر پر ہاتھ رکھے غصلے لہجے میں ان دونوں بھاٸیوں کو گھورتے ہوۓ بولی۔


”بھابھی قسم لے لیں میں نے کچھ نہیں کہا ۔ یہ سارے ارشادات بھاٸی کے اپنے ہیں ۔۔“ ثاقب نے فوراً دامن جھاڑا۔


”بہت طوطاچشم ہو تم ۔ کبھی تو بھاٸی کا ساتھ دیا کرو ۔ فوراً بھابھی کی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہو۔“

فراز نے کڑے تیوروں سے اس کی کلاس لی۔


”فراز بھاٸ وہ ویمن پاور سے اچھی طرح واقف ہیں تبھی ہماری پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں ۔۔“ سمیرا مسکراہٹ دباۓ شرارت سے بولی تو ثاقب نے جھٹ زورو شور سے اثبات میں ہلایا۔


”آپ لوگوں نے کھانا کھالیا؟“ اب کے لہجے میں فکرمندی شامل تھی۔

”بڑی جلدی خیال نہیں آگیا؟“ فراز نے طنز کا تیر پھینکا۔


”آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ سب کچھ ہم دونوں ہی دیکھ رہے ہیں تو شکوہ کرنا بیکار ہے۔ ویسے کرہی دیتے ہیں آپ بھی دامادوں والی حرکتیں ۔۔“اس نے بھی طنز کا حساب برابر کیا تو اس الزام پر تڑپ اٹھا۔


”لبنیٰ یار اب تو یہ الزام ہے مجھ معصوم پر ، میں نے کب دامادوں والے نخرے دیکھا کر پروٹوکول لیا ہے؟“ اسے صدمہ ہی تو لگ گیا۔


”اچھا زیادہ سینٹی نا ہوں، میں مزاق کررہی تھی ۔“

اس نے فوراً سیزفاٸر کیا۔


”آج آپ دونوں یہی بچوں کے ساتھ سوجاٸیں۔ ہم دونوں پھپھو کے کمرے میں ہیں سب کا دیر تک جاگنے کا پروگرام ہے۔۔“ لبنیٰ ان دونوں کو کہتی اپنا ڈریس لۓ سنجیدگی سے سمیرا کے ساتھ روم سے باہر نکل گٸ تو وہ دونوں بھاٸی بےچارے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ کر رہ گۓ ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اک یہی آس ہی کافی ہے مرے جینے میں

دل نہیں آپ دھڑکتے ہیں مرے سینے میں

تجھ سے گھاؤ ملے دل سے لگا لیتے ہیں

کتنی لذت ہے تری ذات کے غم پینے میں


دعاۓخیر ابھی روم میں آٸی تھی ۔ چینج کرنے کے خیال سے اس نے دوپٹے کو پنوں سے آزاد کرکے ایک طرف رکھا ہی تھا کہ مخمور بھری آواز پر وہ کرنٹ کھاکر پلٹی اورجھپٹ کر دوپٹہ اٹھاکر اپنے گرد لپیٹا کر اسے خونخوار نظروں گھورنے لگی جو سینے پر بازو لپٹے آنکھوں میں شوق کا جہان آباد کۓ بےخودی کے عالم میں اس کے دلکش حسین سراپے کو آنکھوں کے ذریعے دل میں جذب کررہا تھا ۔ وہ کمرے میں آکر کمرہ لاک کرنا بھول گٸ اور اس نے اس بھول کا خوب ہی فاٸدہ اٹھایا تھا۔


”یہاں کیا کررہے ہو؟“ اس کی آنکھوں سے لپکتے نرم گرم جزبات پر وہ اندر ہی اندر جزبز ہوتی بظاہر کڑے تیوروں سے بولی تھی لیکن اس کی پلکوں کی لرزش اس کے اندر کا حال صاف بیان کرگٸ ۔ تبھی مقابل کے چہرے پر گہری مسکراہٹ نے اپنی چھاپ دیکھلاٸ ۔


”نکاح کی مبارک باد لینے اور دینے آیا ہوں۔۔“ اس کی گھمبیرسرگوشی پر اس کے ہاتھوں کی ہتھلیوں میں سنسناہٹ اتری ۔ گہنی پلکوں نے عارض پر سلامی دی ۔ اذلان نے جیسے ہی اس کی جانب پیش قدمی کی اس کی دھڑکنیں مدھم پڑنے لگیں ۔ وہ تو صدا کا بےباک تھا ۔ جب کوٸ مضبوط رشتہ نہیں تھا وہ تو تب بھی اس پر پورا حق جتاتا تھا ۔ اب تو وہ دونوں نکاح کے پاک اور مضبوط رشتے میں بندھ گۓ تھے۔

اب تو اسے مکمل اختیار حاصل تھا ۔ وہ اپنے لمبے چوڑے سراپے کے ساتھ اس کے سامنے آکر ٹہرا تو ایک پل کو دعاۓخیر کی سانسیں تھم سی گٸیں۔ وہ کسی گھنے سائے کی طرح اس پر چھایا ہوا تھا ۔ رشتہ بدلا تھا اور اس کی نظریں بھی۔ یہی بات دعاۓخیر کو نروس کرنے کا سبب بنی تھی اور اس کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوا تھا۔


”نکاح کی مبارک باد نہیں دو گی؟“ اس کی جانب جھکا وہ سرگوشانہ بولا تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔

”بہت مبارک ہو! اب جاٶ جان چھوڑو۔۔“ جان چھوڑوانے والے انداز میں وہ ایک دم بول کر اس کے سامنے سے ہٹی لیکن مقابل نے اسے شانوں سے تھام کر واپس اپنے سامنے گے آیا ۔ اپنے شانوں پر اذلان کا دہکتا لمس اسے شدت سے محسوس ہوا تو پورے بدن میں ایک پھریری سی دوڑ گٸ ۔ وہ اس حرکت کی توقع نہیں کررہی تھی تبھی بوکھلاکر اس کی پرشوخ نگاہوں میں دیکھا ۔ جہاں الفت کا ایک الگ جہاں آباد تھا۔


”تم بہت اناڑی ہو۔ لیکن کوٸ بات نہیں مجھ جیسے کھلاڑی کے ساتھ رہ کر سب سیکھ جاٶ گی ۔ میں سیکھا دوں گا۔۔“ اب کے لہجے میں شرارت کی رمق بھی موجود تھی۔


”کیا مطلب ہوا اس بات کا؟“ اب کے وہ تنکی تھی۔

”ابھی سے سارے مطلب بتادیۓ تو بعد میں کیا کروں گا۔۔“ زومعنیٰ لہجہ کھنکتا ہوا تھا ۔ دعاۓخیر ایک پل کو بوکھلاٸ تو مقابل نے بات پلٹ دی۔


”میری زندگی میں شامل ہونے کا بہت بہت شکریہ!

نکاح بہت مبارک ہو شریک حیات!“ دھیمے فسوں خیز لہجے میں کہتے، وہ اس کی جانب جھکا اور عقدت سے اس کی شفاف پیشانی پر حق سے پہلا بوسہ دیا ۔ دعاۓخیر اس دہکتے لمس پر بوکھلاکر اس سے دور ہوٸی۔


”کیا بدتمیزی ہے یہ؟“ وہ پھاڑ کھانے والے لہجے میں نیچی آواز سے غراٸی۔


"محبت ہے تم سے۔۔“ وہ برجستہ بولا۔


”اپنی محبت اپنے پاس رکھو، اور ابھی کے ابھی میرے روم سے نکلو ورنہ اچھا نہیں ہوگاتمہارے لۓ۔۔“ وہ انگلی دیکھاۓ تنبیہہ انداز میں غصے سے بکھری سانسوں کے درمیان بولی۔


”یار اب تو عزت سے پیش آٶ، تمہارا مجازی خدا بن گیا ہوں ۔۔“ وہ زچ کرتی مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اسے باورکروانے لگا تو اسے پتنگے ہی لگ گۓ۔


”تم مجھ سے چھوٹے تھے ،چھوٹے ہو اور چھوٹے ہی رہوگے، سمجھے ! اس رشتے میں بندھ کر خود کو توپ چیز نا سمجھو۔ وہ اسے کچا چبا جان والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔“


”اب تم اپنی پسپاٸی کو مان لو دعاۓخیر! میں تم سے چھوٹا ہوں لیکن رتبہ بڑھ گیا ہے۔ چھوٹا ہوکر بھی میں تمہارا شوہر ہی رہوں گا اور تم بڑی ہوکر بھی میری بیوی ہی رہوگی ۔۔“ وہ جتاتے لہجے میں اسے بہت کچھ باور کرواگیا تھا۔


”تم کچھ بھی کہہ لو ، میری نظر میں تم کیا ہو یہ زیادہ معنیٰ رکھتا ہے اور میری نظروں میں تم کچھ نہیں ۔۔“ وہ اب کے اس کے سامنے کھڑے ہوکر اس کی آنکھوں میں دیکھتی چباچباکر بولی اور جھٹکے سے واپس پلٹ کر جانے لگی تو اذلان نے سرعت سے اس کی کلاٸ تھام کر اسےاپنے قریب کیا تواس نے کھا جانی والی نظروں سے اسے گھورا۔


تم میری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے

ان کہی بات کو سمجھو گے تو یاد آؤں گا

ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے

صفحہء زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا

میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح

تم اگر خود سے نا بولو گے تو یاد آؤں گا

آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت

جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آوں گا

شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں

بارشوں میں‌کبھی بھیگو گے تو یاد آوں گا

حادثے آیئں گے جیون میں تو تم ہو کے نڈھال

کسی دیوار کو تھامو گے تو یاد آؤں گا

اس میں شامل ہے میرے بخت کی تاریکی بھی

تم سیاہ رنگ جو پہنو گے تو یاد آؤں گا


”میں تمہاری رگوں میں اتر کر تمہارے دل پر قابض ہوجاٶں گا اتنا کہ میرے بغیر تمہیں سانس لینا بھی مشکل امر لگے گا۔۔“

گھمبیر لب و لہجے میں وہ کوٸی سحر طاری کررہا تھا ۔ وہ ساکت و جامد اس کے خوشبو بھرے حصار میں کھڑی تھی ۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے اتنے نزدیک تھے کے وہ ایک دوسرا کا عکس ایک دوسرے کی آنکھوں میں آسانی سے دیکھ سکتے تھے ۔ اس یوں ہی جماکھڑا دیکھ اذلان کے لبوں پر معنیٰ خیز مسکراہٹ آٸی ۔ نکاح کے بعد محبت وحی کی طرح بڑی شان سے دل کی سرزمین پر اترتی ہےاور دعاۓخیر ابھی اس بات سے انجان تھی لیکن وہ وقت دور نہیں تھا جب یہ محبت اپنی پوری شدت کے ساتھ اس پر اشکار ہونی تھی ۔


”شب بخیر! اس سے پہلے کےمیرا ارادہ بدلے۔۔“ اس کا ہاتھ تھامے خوبصورت چھلے کو اس کی انگلی کی ذینت بنتا جھک کر اس کے ہاتھ کی پشت پر اپنا دہکتا لمس چھوڑتا وہ زومعنیٰ لہجے میں کہتا اس سے دور ہوا پھر نرمی اس کی ناک کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی دبایا تو وہ ہڑبڑاکر ہوش میں آٸی

اور اس دھکا دے کر خود سے دور دھکیلا۔


”ہر وقت بس ٹھرک پن جھاڑتے ہو۔۔“ وہ غصے میں آگ بگولا ہوٸی ۔ غصہ دیکھا کر درپردہ اس نے اپنی خفت چھپانے کی کوشش کی تھی۔


”نہیں محبت بھی جھاڑ سکتا ہوں ، تم موقع تو دو۔۔“ شرارت سے کہتا وہ آنکھ ونگ کرتے اسے فلاٸنگ کس پاس کرتا جھاپک سے لاک کھولتے روم سے باہر جاچکا تھا ۔ پیچھے دعاۓخیر اسے شاہی القابات سے نواز رہی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


کتنی معصوم ہو نازک ہو حماقت نہ کرو

بار ہا تم سے کہا تھا کہ محبت نہ کرو


لبنیٰ کو بلانے وہ اس کو روم میں آیا تو ایک پل کو سامنے بیٹھے وجود نے اسے اپنے ساتھ باندھ ہی لیا۔

وہ جو کہنے آیا تھا وہ بھولنے لگا۔ فابیحہ ڈھیلی سی شرٹ میں جس کی سیلوز ہاف سے بھی ہاف تھیں پہنے ہوۓ تھی ۔ اس کا ٹراٶزر بھی پنڈلیوں تک فولڈ تھا ۔ سڈول گورے بازو اور شفاف نازک پاٶں پر خوبصورتی سے مہندی سے نقش و نگار بناۓ گۓ تھے ۔ مہندی ابھی پوری طرح سوکھی نہیں تھی ۔ تبھی لبنیٰ اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلارہی تھی ۔ شفاف چہرہ پر الوہی سے چمک تھی ۔ بڑی بڑی خواب ناک آنکھیں اٹھتی جھکتی بڑا ہی دلفریب منظر پیش کررہی تھیں ۔ بالوں کا اونچا سا جوڑا بندھا تھا جس میں سے کٸ آوارہ لٹیں اس کے گردن کے اطراف ڈیرہ ڈالے ہوۓ تھیں ۔ اونچے جوڑے کے سبب اس کی صراحی دار گردن نمایاں ہوکر ارحم کے دل میں ہلچل مچاگٸ تھی ۔ اپنے اوپر کسی کی پرتپش نظروں کا ارتکاز محسوس کرتے فابیحہ نے جیسے ہی چہرہ گھمایا ارحم کو دروازے کی چوکھٹ پر بےخودی میں خود کو تکتا پاکر بوکھلا اٹھی ۔

” میرا دوپٹہ ۔۔“ اس کے منہ سے بامشکل نکلا


”دوپٹہ کیوں؟ پاگل ہو کیا ساری مہندی خراب ہوجاۓ گی۔۔“ لبنیٰ اس کی بات پر اسے ڈپٹتے ہوۓ بولی تو اس نے بےبسی میں گھیرے ارحم کی جانب اشارہ دیا ۔ اس نے جوں ہی گردن پھیری وہ خود بھی بوکھلا گٸ اور جلدی سے اسے دوپٹہ اس طرح پہنایا کہ مہندی نا خراب ہو۔


”کوٸی کام تھا ارحم؟“ وہ جو اب سنبھل چکا تھا لبنیٰ کے سوال پر سنجیدگی بھری نظر اس دشمن جاں کے شرم سے سرخ جھکے چہرے پر ڈالی جو بری طرح سے نروس ہوتی اپنے لب کچل رہی تھی ۔ اس کے تو وہم و گماں بھی نہیں تھا کہ وہ یوں سامنے آجاۓ گا ۔ جبکہ مقابل کو ہمیشہ کی طرح اس کا یہ عمل ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔


”فراز بھاٸی بلارہے ہیں۔ انہیں آپ سے کوٸی ضروری کام ہے ۔ سامنے کوٸ لڑکی موجود نہیں تھی تو مجبوراً مجھے ہی آپ کو بلانے آنا پڑا۔۔“ اپنے یہاں ہونے کی سنجیدگی سے وضاحت دیتا وہ لبنیٰ کو مسکرانے پر مجبور کرگیا۔

ہاں سب لڑکیاں مہندی لگوانے میں مصروف ہیں۔ ویسےارحم تم یہ بات مسکرا کر بھی کہہ سکتے تھے ۔ ہر وقت کھڑوس کیوں بننے رہتے ہو؟“ لبنیٰ کے شرارت سے کہنے پر فابیحہ نے بوکھلا کر اپنی بہن کو دیکھا اور پھر اسے جس کا سرد اجنبی رویہ آج کل اس کی جان کا آزار بنا ہوا تھا۔


”سنجیدگی سے کہنے میں بھی کوٸی حرج نہیں ۔ ویسے مجھے کھڑوس لفظ پر اعتراض ہے ۔ آپ مجھے سنجیدہ مزاج بول سکتی ہیں ۔کھڑوس لفظ مجھ پر سوٹ نہیں کرتا۔۔“ وہ اپنے ازلی دوٹوک انداز میں بولا تو لبنیٰ قہقہہ لگاکر ہنس پڑی۔


”چلو میں اپنے میاں جی کا ضروری کام سن لوں ۔ تم تب تک اپنی بیگم کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاٶ۔

سارا دن سے صرف جوس کا ایک گلاس پیایا ہے جنابہ نے ، اچھے سے اسے کھانا کھلانا۔۔“ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے وہ شرارت سے کہتی دروازہ بند کرکے جاچکی تھی ۔ ارحم نے ایک نظر فابیحہ کو دیکھا اور پھر اپنے مضبوط قدموں کی دھمک پیدا کرتا اس کے مقابل بیٹھ گیا ۔ پلیٹ میں سے اسپون اٹھاکر اس نے چاولوں سے چمچہ بھرا اور اس کی جانب بڑھایا۔


”منہ کھولیں فابیحہ!“ گھمبیر لہجے میں ابھرتی اس کی بھاری آواز پر فابیحہ نے چہرہ اٹھاکر منہ کھولا تو اس نے احتیاط سے اسے کھلانا شروع کیا ۔ وہ خاموشی سے کھلارہا تھا اور وہ اسی خاموشی سے کھارہی تھی ۔ جب وہ کھاچکی تو ارحم نے اسے پانی پلاکر گلاس ٹرے میں رکھ کر ٹرےساٸیڈ میں رکھی اور گلاکھنکھار کر بات کا آغاز کیا ۔ وہ بات جو اس کے دل میں آنی کی طرح گڑی تھی ۔ وہ چاہتا تھا کہ ناسور بننے سے پہلے وہ بات دل سے نکال باہر پھینک دے۔


”فابیحہ پرسو میں نے آپ کو اوپر جاتے دیکھا تھا ۔ شاید آپ کے ہاتھ میں فون بھی تھا۔ کہیں آپ فرینڈ ثانیہ کی کال تو نہیں تھی ۔ جو شادی کے بعد انگلینڈ شفٹ ہوگٸ ہے؟“ لہجے کو سرسری بناتے وہ نرم لہجے میں استفسار کررہا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھاکہ اس کا اتنا خوبصورت رشتہ کسی غلط فہمی کی نظر ہوکر اپنا روپ گہنا دے ۔ سو اس نے پوچھ لینا بہتر سمجھا تھا لیکن اس طرح کی کہ اسے یہ نالگے کہ وہ اس پر شک کررہا ہے ۔ ثانیہ اس کی کالج کے زمانے سے اس کی بیسٹ فرینڈ تھی اور گھروالوں کے ساتھ ساتھ ارحم بھی اس سے اچھے سے واقف تھا ۔

”جی ! جی ہاں اسی کی کال تھی ۔ نیچے دراصل نیٹ ورک ایشو ہورہا تھا تو اسی لۓ میں اوپر چلی گٸ تھی تاکہ آرام سے بات کرلوں۔ اپنی طبیعت کی وجہ سے وہ یہاں آنہیں سکتی تو کال پر ہی مبارک باد دے رہی تھی ۔۔“ اس کے سوال پر پہلے تو اس کا رنگ اڑا لیکن ارحم کے چہرے کے نارمل تاثرات دیکھ وہ جھکی نظروں اور دھیمے لہجے میں اسے بتانے لگی ۔ ظاہر سی بات تھی جھوٹ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تو بول نہیں سکتی تھی ۔ اس کے یوں جھوٹ بولنے پر ارحم کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا ۔ اچانک ہی اس کے دل سے اٹھاتا درد پورے جسم میں زہر کی طرح پھیل کر اسے نیلونیل کرگیا ۔ اس کے خالص جزبے بےمول ہوگۓ ۔ وہ جتنا ماتم کرتا کم تھا ۔

”وہ اسے نہیں چاہتی ، اس کی چاہت زبیر تھا ۔بڑوں نے زبردستی اسے اس ان چاہے رشتے میں باندھ دیا ۔“ اس کا دل کرلایا


تیرا میرا رشتہ کچھ ایسا الجھا ہے

اس کو سلجھاتے سلجھاتے

اپنے دل کی پوریں زخمی کر بیٹھا ہوں

رشتہ شائد سلجھ نہ پاۓ

لیکن اس کو سلجھانے کی دھن میں جاناں

سارے خواب بھلا بیٹھا ہوں

اپنا آپ گنوا بیٹھا ہوں


اس سے پہلے کہ وہ غصے میں اپنے اوپر سے کنٹرول کھودیتا لبنیٰ روم میں داخل ہوٸی ۔


”چلیں بھٸ ملاقات کا وقت ختم ہوا۔۔“ اس کے شرارت سے کہنے پر ارحم نے ایک سرد چلچلاتی نظر فابیحہ کے جھکے سرپر ڈالی اور خاموشی سے روم سے باہر نکل گیا ۔ اسی خاموشی جس میں کٸ طوفان چھپے ہوۓ تھے اور یہ طوفان نجانے کیا تباہی لانے والا تھا۔

فراز نے دونوں دلہنوں کے ساتھ لبنیٰ سمیراکو بھی پارلر چھوڑا تھا ۔ وہ دونوں تو ریڈی ہوکر جلدی چلی گٸ تھی کہ وہاں گھر کا سارا کچھ انہیں ہی دیکھنا تھا لیکن دلہنیں ابھی تیار ہورہی تھیں ۔ انہیں لینے بھی فراز اور لبنیٰ نے ہی آنا تھا ۔ سب سے پہلے دعاۓخیر ریڈی ہوٸی تھی ۔ فابیحہ کے تیاری میں کچھ ٹاٸم تھا ۔ وہ لبنیٰ کو میسج کرنے کے بعد اپنے فینز کے میسجز ریڈ کرکے انہیں رپلاۓ دے رہی تھی۔ کل ہی تو اس نے اپنے ناول کی لاسٹ ایپی پوسٹ کی تھی ۔ دلہن بن کر وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ اوپر سے اس کے چہرے کا بھولپن اسے اور دلنشین بنارہا ہے ۔ پارلر میں موجود تقریباً سبھی کی آنکھوں میں اس کے لۓ ستاٸش تھی ۔ لیکن وہ اتنے ہیوی ڈریس میک اپ اور جیولری سے لدھی سخت کوفت کا شکار تھی ۔ اسی لۓسارا دھیان موباٸل میں دے رکھا تھا۔ تبھی اس کے نزدیک کوٸ آکر بیٹھا تھا لیکن اس نے توجہ نہیں دی


”ماشاءاللہ! بہت پیاری لگ رہی ہو۔ اللہ نصیب بھی بلند کرے۔۔“ نرم سی آواز میں خلوص سے دی گٸ دعا پر اس نے چہرہ اٹھا کر داٸیں طرف دیکھا تو وہ ٹھٹھک گٸ ۔ وہ اس دن مال والی خاتون تھیں جن کو دیکھ کر اس کی والدہ کی طبیعت بگڑی تھی ۔


”آنٹی آپ ثروت حارث کو کیسے جانتی ہیں؟“ اس نے فطری تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر سیدھا پوچھ لیا ۔ اس کے سوال پوچھنے پر انہوں نے باغور اسے دیکھا۔

”ارے تم تو وہی بچی ہو جو اس دن ثروت کے ساتھ تھی ۔ اب کیسی طبیعت ہے ثروت کی؟ پہلے بھی اکثر اس کا بی پی کافی لو ہوجاتا تھا۔۔“ وہ اسے پہچان کر فکرمندی سے ثروت کے بارے میں پوچھنے لگیں۔

”الحَمْدُ ِلله وہ ٹھیک ہیں۔ آپ ان کی ڈاکٹر رہ چکی ہیں کیا؟“ اس نے پھر پوچھا ۔ اسے نجانے کیوں اندر ہی اندر بےچینی ہورہی تھی ۔ وہ جاننا چاہ رہی تھی وہ وجہ جس وجہ سے اس کی والدہ کی طبیعت اتنی بگڑی۔ وہ کچھ نا کچھ تو جانتی ہی ہوگی ۔ یہی سوچ کر وہ پوچھنے کی غطی کر بیٹھی ۔ اگر وہ جان لیتی کے کچھ راز راز ہی رہیں تو اچھا ہوتے ہیں تو وہ کبھی ان سے مخاطب نا ہوتی ۔ جس تکلیف سے ثروت بیگم نے اسے بچانا چاہا تھا وہ آج اس تکلیف سے آشنا ہونے والی تھی۔

اس لمحے کے بعد سب بدل جانا تھا یہاں تک کے دعاۓخیر کی پوری ہستی ہی ۔۔۔


”میں سمجھو ان کی فیملی ڈاکٹر ہی تھی ۔ میں ایک گاٸنی ڈاکٹر ہوں ۔ سلیمہ کی تینوں بیٹیاں اور ثروت کے بیٹے کا کیس میں نے ہی کیا تھا لیکن بیٹی کی دفعہ تو اس کی حالت بہت خراب تھی ۔ پھر ایک دن وہ بہت بری حالت میں آٸی تھی ۔ سڑھیوں سے گرگٸ تھی ۔ بہت برا حال تھا سب گھر والوں کا ۔ اسے آپریٹ کیا گیا لیکن ہم ان کی بیٹی کونہیں بچاسکے ۔ اندرونی چوٹوں کی وجہ سے وہ دوبارہ ماں بھی نہیں بن سکتی تھی ۔ وہ سب بچارے دوہرے غم میں مبتلا تھے ۔ پورے دو دن بعد ثروت کو ہوش آیا تھا ۔ رو رو کر اس نے اپنی حالت بگاڑ لی تھی ۔ بہت مشکل سے سنبھلا تھا اسے ۔ ڈسچارج ہونے کے بعد وہ دبارہ نہیں آٸی ۔ میرے شوہر کی پوسٹنگ بھی اسلام آباد ہوگٸ تو مجھے کلینک بند کرکے جانا پڑا ۔ اب ہم وہی رہتے ہیں ۔ میری بھتیجی کی شادی تھی تو بس وہی اٹینڈ کرنے میں کراچی آٸی ہوٸی ہوں۔۔“ وہ ابھی کچھ اور بھی بولتی کہ پارلر والی لڑکی انہیں بلانے آگٸ کہ ان کی بھتیجی انہیں بلارہی تھی ۔ وہ جلدی میں اسے خدا حافظ کۓ بغیر اٹھ گٸیں ۔ انہوں نے دیکھا نہیں کہ اس انکشاف کے بعد وہ سانس لیتا وجود ایک دم ساکت ہوگیا تھا۔ دعاۓخیر کے اعصاب شل تھے ۔ صرف ایک جملہ اس کے ذہن کی سلیٹ پر باربار ڈوب کے ابھررہا تھا ” بیٹی کو نہیں بچاسکے۔۔“

اگر وہ ان بیٹی کو نہیں بچا سکیں تو جو زندہ سلامت سانسیں لے رہا وجود ہےوہ کون ہے؟جسے ساری دنیا حارث سرور کی بیٹی کے نام سے جانتی ہے ۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ اس نے اتنا عرصہ جو زندگی گزاری وہ جھوٹ تھی؟ وہ رشتے جھوٹے تھے؟ یا اس کا وجود جھوٹا ہے؟دعاۓخیرکون ہے؟

یہ سوالات شدت سے اس کے اندر کسی سانپ کی طرح رینگنے لگے تو اس کی دھڑکنیں سست پڑنے لگیں ۔ ٹھنڈا پڑتا جسم اچانک ہی آگ کی بھٹی میں جلنے لگا۔ کب لبنیٰ آٸی ۔کب وہ لوگ پارلر سے ہال کے لۓ نکلے ۔ اسے کچھ ہوش نہیں تھا ۔ اتنے سالوں سے وہ جو زندگی جی رہی تھی وہ سوالیہ نشان بن گٸ۔ وہ نا زمین پر تھی نا آسمان پر ۔ اس کے اندر شدت سے اکھاڑ پھاڑ شروع ہوچکی تھی ۔ اس کی ذات کی عمارت آہستہ آہستہ ڈھے رہی تھی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی، چلانا چاہتی تھی لیکن آواز تھی کہ سینے میں ہی کہی دب چکی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


دونوں دلہا ہاف واٸٹ گولڈن کومبینشن شیروانی کے ساتھ شانے کے پیچھے سے سیدھے ہاتھ پر کاٸ کلر کی دیدہ ذیب ویلویٹ کی شال لۓ ہوۓ تھے ۔ گلے میں ڈل گولڈن موتیوں کی مالا جس کے ساٸیڈ میں بڑا سا لاکٹ نما بنچ لگا تھا جس میں گرین ہی بڑا سا نگ جڑا تھا ۔ وہ انتہاٸی خوبصورت مالا تھی ۔ دونوں کے بال جیل سے سیٹ تھے ۔ ارحم کی بیرڈ

گھنی تھی جبکہ اذلان کی بیرڈ ہلکی تھی لیکن خوبصورتی سے تراشی ہوٸی تھی۔ دیکھنے میں دونوں دولہا کسی ریاست کے شہزادے لگ رہے تھے۔ ہر آنکھ میں ان کے لۓ ستاٸش تھی ۔دونوں ہی مردانہ وجاہت میں اپنی مثال آپ تھے۔ تھوڑی دیر میں دلہنوں کے آنے کا شور اٹھا تو اذلان بےچین سا اپنے دل کے چین کا انتظارکرنے لگا کہ دیکھ سکے ریڈ چیلی آج اس کے دل پر کیا قیامت ڈھانے والی ہے؟ جزبات میں اچانک ہی ہلچل مچی تھی۔ اس کے برعکس ارحم سپاٹ تاثرات کے ساتھ دل میں ہزاروں طوفان لۓ بیٹھا تھا ۔ گھر والے سارے ہی ہال کے گیٹ پر پہنچ چکے تھے۔

دونوں دلہنوں کو دونوں اطراف سے آرام سے اتارا گیا۔انہیں دیکھ کر سب کے منہ سے بےساختہ "ماشاءاللہ“ نکلا تھا ۔وارث صاحب نے فابیحہ کو اپنے شفقت بھرے حلقے میں لیکر اس کا ہاتھ تھاما تو دوسری طرف حارث صاحب نے بھی دعاۓخیر کے گرد حصار قاٸم کرکے جیسے ہی اس کا ہاتھ پکڑا بری طرح چونک گۓ ۔ وہ ٹھنڈی تھی بلکل ٹھنڈی ۔ انہوں نے گھبراکر اس کا چہرہ دیکھا جس پر کٸ رنگوں کے بعد بھی پھیکا پن نمایاں تھا ۔ ان کے چہرے کی پریشانی ثروت بیگم کی نظروں سے مخفی نہیں رہ سکی ان کے چہرے کی آسودہ مسکراہٹ سمٹی۔


”کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک ہےنا؟آپ پریشان کیوں لگ رہے ہیں؟“ وہ متفکر سی گھبرا کر پےدرپے سوالات پوچھنے لگیں۔


”مجھے لگتا ہے دعاۓخیر کا بی پی لو ہورہا ہے ۔ چل کر اسے جلدی سے اسٹیج پر بیٹھاتے ہیں۔۔“ وہ دھیمے سے پریشان کن لہجے میں بولے تو وہ فکرمندی سے اس کا اتراہوا چہرہ دیکھ اثبات میں سرہلاگٸیں ۔

دونوں دلہنیں اپنے باپ کی پرشفقت ساۓ تلے ان کے تحفظ بھرے حصار میں اسٹیج تک آٸیں تھیں ۔ فابیحہ کے چہرے پر شرم وحیا کی لالی کے ساتھ گھبراہٹ نمایاں تھی۔ جو اسے مزید نکھار بخش رہی تھی ۔ جبکہ دعاۓ خیر کے تاثرات سپاٹ تھے ۔ وہ اندر باہر سے اپنے احساسات سمیت منجمند ہوچکی تھی ۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ یہ سوال پہاڑ بن کر اس کے وجود کے اوپر آن گرا تھا اور وہ اس وزن کے نیچے دبی بامشکل سانس لےپارہی تھی ۔ ان دونوں دلہنوں کو نزدیک آتے دیکھ اذلان اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔


”ارحم اٹھ جایار! بھابی کو دیکھ کیا ہوش گنوادیۓ۔“ اس کے کزن نے شوشا چھوڑا تو محفل زعفران بن گٸ ۔ ارحم بامشکل اپنے چٹختے اعصاحب کے ساتھ اٹھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جس طرح اس کی محبت کا تماشا بنا اسی طرح اس کا بھی تماشا بنے ۔ اس نے خاموشی سے اس کے آگے ہلکے سے جھک کر اپنا ہاتھ پھیلایا ۔ فابیحہ نے گھبراکر اپنے باپ کی جانب دیکھا ۔ اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ وہ خود کو کمپوز کرتے دھیمے سے مسکراۓ ۔ آج سے بیٹی پراٸی ہورہی تھی ۔ اب اس پر ان سے زیادہ کسی اور کا حق تھا ۔ انہوں نے بھاری دل اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھاما اپنی بیٹی کا ہاتھ ارحم کے ہاتھ میں تھاما دیا ۔ اس منظر پر ان سب کی نظریں پرنم ہوٸیں ۔ سلیمہ بیگم کے آنکھوں سے کٸ آنسو ٹوٹ کر گرے تو لبنیٰ سمیرا نے سوں سوں کرتےانہیں اپنے حصار میں لیا ۔ دوسری طرف حارث صاحب نے جب دعاۓخیر کا سرد ہاتھ اذلان کے ہاتھ میں دیا تو اس کے چہرے پر کھلی مسکراہٹ مدھم پڑی ۔


”اذلان اسے آرام سے بیٹھاٶ ، میں تب تک اس کے لۓ جوس منگواتا ہوں۔۔“ وہ عجلت میں بولتے پلٹ گۓ۔


”چچی کیا ہوا اسے؟ اتنی ٹھنڈی ہورہی ہے ۔ میرے خیال میں ڈاکٹر کو دیکھا دیتے ہیں۔۔“ وہ اس کے سپاٹ تاثرات اور ویران آنکھ کو دیکھ فکرمندی میں گھیرے بول اٹھا۔


”بیٹا فکرنا کرو، اکثر ایسے موقعوں پر لڑکیاں ایسا ری ایکٹ کرجاتی ہیں ۔ پھر شادی کی تھکن بھی ہوتی ہے ۔ نیند بھی ٹھیک سے پوری نہیں ہورہی تو بس بی پی لو ہوگیا ہے ۔“ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی وہ اس سے زیادہ خود کو تسلی دے رہی تھیں ۔ انہیں اس کی بکھری حالت اضطراب میں مبتلاکررہی تھی ۔ دل کو جیسے پنکھے سے لگ گۓ تھے۔

اتنے میں ویٹر جوس لے آیا تھا ۔ اذلان نے اسے اپنے ہاتھوں سے جوس پلایا جو اس نے بامشکل تھوڑا سا ہی پیا تھا ۔ اب سارے ہی دعاۓ خیر کی جانب متوجہ ہوۓ اور اس کی طبیعت کا سن کر سب ہی متفکر ہوچکے تھے ۔

”ماشاءاللہ بچی لگ بھی تو کتنی پیاری رہی ہے ۔ نظر لگ گٸ ہوگی ۔۔“ وہ فکرمندی سے گویا ہوٸیں ۔پھر انہوں نے فوراً ہی ان چاروں کی نظر اترواکر ان کا صدقہ بھی دلوایا ۔ ان کی دونوں چاند سورج کی جوڑی تھی ۔ کچھ خوش ہوکر دعا دے رہے تھے تو کچھ حسد جلن کا شکار بھی تھے ۔ اس کی طبیعت کی وجہ سے جلدی کھانا کھلوادیا گیا ۔ وارث صاحب اور ان کے دونوں داماد سب کچھ دیکھ رہے تھے ۔ دلہن دلہا کے آگے بھی کھانا لگوایا گیا تھا ۔


”ریڈ چلی مجھے تو لگا تھا کہ آج کی رات شاید میری آخری رات ہوگی اور تم مجھ نوچ کھسوٹ کر کچاچبا جاٶگی لیکن یہاں تو تم نے میرے ڈر سے اپنی طبیعت خراب کرلی۔“ وہ اس کی جانب جھکے دل جلانے والے انداز میں شوخی سے گویا ہوا تاکہ وہ ری ایکٹ کرے لیکن اسکی اتنی بات پر بھی اس کے ساکت تاثرات میں زرا بھی ہلچل نہیں مچی۔


”اچھا چلو کھانا تو کھالو۔۔“ اس نے اس کے سامنے پلیٹ میں بریانی نکال کر رکھی ۔ کیونکہ وہ اس کی فیورٹ تھی ۔ اتنے میں ثروت بیگم ان کے قریب آٸیں تھیں ۔”تم لوگوں نے کھانا شروع نہیں کیا؟ ٹھنڈا ہوجاۓ گا۔“


”چچی آپ دعاۓخیر کو کھلاٸیں میں کھارہا ہوں۔۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا تو وہ پلیٹ پکڑے اس کے ساتھ بیٹھ گٸیں۔

”میری بچی منہ کھولو۔۔“ ممتا بھرے چاشنی میں ڈوے جملے پر دعاۓخیر نے میکانی انداز میں چہرہ ان کی جانب موڑا ۔ ان کے مسکراتے پرشفق چہرے کو دیکھ اس کا دل چاہا کہ وہ دہاڑے مار مار کر روۓ بین کرے ۔ وہ ان کی ٹھنڈی میٹھی چھاٶں میں کتنی پرسکون تھی لیکن حقیقت نے اسے آٸینہ دیکھا دیا ۔ اب وہ تپتے صحرا میں سورج کی تپش تلے ننگے پاٶں جلتی ریت پر کھڑی تھی ۔ اس کے پاٶں کے چھالے اس کی روح تک اترگۓ تھے ۔ وہ تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی لیکن بلکل خاموش تھی ۔ تلخ حقیقت نے اس کے لبوں پر قفل ڈال دیۓ تھے۔ اس نے بامشکل چند لقمے کھاۓ وہ بھی یوں لگ رہا تھا کہ اگل دے گی ۔ اس کی ویران آنکھیں ثروت بیگم کو انہونی کا احساس کروارہی تھی لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ غلط سوچنا نہیں چاہتی تھیں۔ وہ کبوتر کے جیسے آنکھیں بند کۓ آنے والے خطرےسے بھاگ رہی تھیں ۔

سمیرا اور ثاقب ان کے ساتھ بیٹھے تھے جبکہ لبنیٰ اور فراز ارحم اور فابیحہ کے ساتھ تھے ۔ اذلان نے دعاۓخیر کی طبیعت کی وجہ سے فوٹو شوٹ بھی مختصر کروادیا تھا جبکہ ارحم نے سنجیدگی کے ساتھ فوٹو شوٹ مکمل کروایا تھا ۔ بےچارہ فوٹو گرافر بولتا رہا لیکن اس نے تھوڑا سا بھی مسکراکر نہیں دیا ۔ فابیحہ الگ اس کے سرد تاثرات دیکھ ہراساں تھی ۔ اس کی ورفتگی تو نجانے کہاں چلی گٸ تھی ۔ وہ بےنیاز بےرحم انجان بنا اس کے پہلو میں بیٹھا تھا ۔ جلد ہی رخصتی کی رسم نبھادی گٸ ۔ کافی لوگ تو ہال سے ہی لوٹ گۓ تھے ۔ بس جو ان کے ہاں رکے تھے بس وہی رشتہ دار ان کے ساتھ گاڑیوں میں بیٹھ کر نکلے تھے ۔۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


خوبصورتی سے سجاۓ گۓ روم میں وہ ارحم کی سیج پر بیٹھی مسلسل گھبراہٹ میں مبتلا تھا ۔ ڈیم لاٸٹ کینڈلز اور فریش فلاورز کی مسحورکن خوشبو سب مل کر اس کے اعصاب کو بوجھل کررہے تھے ۔ باہر سے مسلسل آوازیں آرہی تھیں ۔ ان لوگوں نے ارحم کو دروازے پر روکا ہوا تھا۔


”یار یہ کیا بات ہوٸی کہ اپنے ہی کمرےمیں جانے کے لۓ میں آپ لوگوں کو پیسے دوں؟“ وہ جسمانی اور دماغی تھکن کے بعث جھنجھلا کر بولا۔


”میرے پیارے بھاٸی یہ ایک رسم ہے جس میں دولہا کمرے میں جانے سے پہلے اپنی بہنوں کو نیگ دیتا ہے۔۔“ لبنیٰ نے کسی ماہر استاد کی طرح اس نک چڑھے کو سمجھانا چاہا جس کے چہرے پر مکمل بےزاری اور جھنجھلاہٹ نمایاں تھی۔


”رسم بہنیں کرتی ہیں تو آپ کس خوشی میں یہاں موجود ہیں ۔ آپ تو سالی ہیں نا؟“ اس نے ماتھے پر تیوری چڑھاۓ سنجیدگی سے کہا تو اس کی بات پر زوردار قہقہہ پڑھا۔


”میرے بھاٸی پیسوں کے لۓ یہ عورتیں کچھ بھی کرسکتی ہیں کچھ بھی کا مطلب سمجھتے ہو نا۔“

فراز مسکراہٹ دباۓ ارحم کے شانے پر ہاتھ رکھتا شرارت بھری سنجیدگی سے بولا۔


ّ”فراز بھاٸی یہ غلط بات ہے ۔۔۔“ سمیرا نے منہ پھلاۓ احتجاجاً کہا جبکہ لبنیٰ اپنے میاں جی کو گھورنے کا فریضہ انجام دے رہی تھی جو اسے شرارتی مسکراہٹ سے دیکھ رہا تھا۔


”اچھا بھٸ بحث بند کریں۔ میری بہنوں کی خوشی اگر اسی میں ہے تو وہ خوش رہیں۔۔“ سنجدگی سے کہتے وہ آخر میں مسکرایا اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر کٸ نوٹ نکال کر لبنیٰ کو تھما دیۓ توسب نے یاہو کا شور ڈال دیا ۔


”یار اتنی جلدی ہار مان لی۔۔“ ثاقب نے مصنوعی تاسف جتایا ۔ساتھ کھڑی سمیرا نے اس کی پسلی میں اپنی کہنی ماری تو وہ اچھل پڑا۔


انہیں نمٹاکر وہ روم میں داخل ہوا ۔ کمرہ لاک کرنے کی آواز پر فابیحہ کا دل اچھل کر حلق میں آیا ۔ وہ ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی جو چہرے پر سردترین تاثرات لۓ اس کی جانب دیکھے بغیر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا تھا ۔ اس کا یہ اجنبی رویہ اب اسے ہرٹ کررہا تھا ۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو شب خوابی کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا ۔

”اٹھیں جاکر چینج کریں، مجھے سونا ہے ۔۔“ اس کی بھاری سنجیدگی سے پر آواز پر اس نے جھٹکےسے سر اٹھایا تھا ۔ وہ تو کسی پیار بھری سرگوشی کی متمنی تھی لیکن یہاں تو مقابل کا لہجہ سرد ترین تھا ۔ اسے حیریت ہوٸ ۔وہ اسے دیکھ نہیں رہا تھا ۔ نظریں وال پر لگی پیٹنگ کی جانب تھیں جس میں صبح کا منظر بہت خوبصورتی سے پینٹ کیا گیا تھا ۔ ہر ایک نے کہا تھا کہ وہ کس قدر خوبصورت لگ رہی ہے اور جیسے یہ کہنا تھا وہ منہ پھیرے کھڑا تھا ۔جس کے لۓ یہ سولہ سنگھار کیا اس نے تو نظر اٹھاکر تک نہیں دیکھا تھا ۔ ہال میں بھی وہ اسے دیکھنے سے کترارتارہا تھا اور اب یہاں روم میں بھی اس کا یہی حال تھا ۔ وہ پیامن بھاٸ تھی تو اب کیا ہوا تھا کہ پیانے دھتکار دیا تھا ؟ اس کا دل کرلایا مگر لبوں پر قفل ڈالے وہ بیڈ سے اترگٸ ۔ اس کے اترتے ہی کمرے کی خاموشی میں زیوارت اور چوڑیوں کی مخصوص آواز نے ارتعاش پیدا کیا ۔ ارحم نے بامشکل خود کو اس حسن کے پیکر کو دیکھنے سے روکا تھا ۔ دل نے دہاٸی دی تڑپا کہ ایک نظر دیکھ تو لو، اسے چھوکر محسوس تو کرو کہ اب تو وہ تمہاری دسترس میں ہے ۔ دماغ نے کہا نہیں وہ تمہاری نہیں ہے ۔ اس کے دل پر کسی اور کی حکمرانی ہے تو تم وجود لےکر کیا کرو گے؟وہ اپنے اندر ہورہی سرد جنگ لڑرہا تھا اور فابیحہ ایک نظر اسے دیکھ کر ڈریسنگ میں غاٸب ہوچکی تھی ۔ اس نے غصے میں ہاتھ مار کر سارے کشنز اور تکیے نیچے پھینک دیۓ پھر شدید تیش میں آگے بڑھ کر پھولوں سی بھری چادر پوری قوت سے جھاڑی تو پتیاں ہوا میں اچھل کر ہر طرف پھیل گٸیں ۔ کچھ پتیاں اس کے اوپر بھی گریں تھیں لیکن وہ بےحس بنا واپس چادر بچاکر ترتیب سے کشن اور تکیہ رکھنے لگا ۔ اس کام سے فارغ ہوکر وہ آگے بڑھا تو پھولوں کی پتیاں اس کے ارمان بھرے دل کی طرح پیروں تلے آکر رند گٸیں تھیں ۔ اس نے پھونک مار تمام کنڈلز بجھادی اور ہاتھ مار کے تمام لاٸٹس بھی آف کردیں ۔ واپس آکر وہ کروٹ کے بل اپنی جگہ پر لیٹ کر کروٹ بدل گیا۔ سمپل شلوار قمیض میں وہ فریش ہوکر روم میں داخل ہوتی ٹھٹھکی ۔ پورے روم میں مدھم سی روشنی پھیلی ہوٸی تھی ۔

وہ دھڑکتے دل اور سنسناتے ہاتھ پیروں کے ساتھ جہازی ساٸز بیڈ کے سرے پر جھجھکتی بیٹھ چکی تھی ۔ اس نے ایک نظر ارحم پر ڈالی ۔ اس کے اکھڑ تاثرات دیکھ اس میں ہمت نا ہوٸی کہ اسے پکار لے جو پاس ہوکر بھی روبرو نہیں تھا۔ وہ سارے دن کی تھکی ہوٸی تھی ۔ اسی لۓ خاموشی سے ٹانگیں سمیٹ کر اس کے مخالف سمیت کروٹ کے بل لیٹ کر آنکھیں موند گٸ


کوئی وعدہ نہیں ہم میں

نہ آپس میں بہت باتیں

نہ ملنے میں بہت شوخی

نہ آخرِ شب کوئی مناجاتیں

مگر ایک ان کہی سی ہے

جو ہم دونوں سمجھتے ہیں

عجب ایک سرگوشی سی ہے

جو ہم دونوں سمجھتے ہیں

یہ سارے دلرُوبا منظر

طلسمی چاندنی راتیں

سنہری دُھوپ کے موسم

یہ ہلکے سُکھ کی برساتیں

سبھی ایک ضد میں رہتے ہیں

مجھے پہم یہ کہتے ہیں

محبت یوں نہیں اچھی

محبت یوں نہیں اچھی ۔۔​


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


سلیمہ بیگم نے دعاۓخیر کو سیدھا روم میں پہنچایا تھا ۔ ہال سے لیکر یہاں تک آتے آتے وہ اندر چل رہی اکھاڑ پچھاڑ سے نڈھال ہوچکی تھی ۔ بیڈ کراٶن سے ٹیک لگاۓ منتشر ذہن اور تپتے بدن کے ساتھ وہ تقریباً نیم بےہوش تھی ۔ اذلان نے روم کا لاک لگایا اور متفکر سا اس کی جانب بڑھا ۔ اس کا سر ہلکا سا ڈھلکا ہوا تھا ۔ ماتھے کی بندیاں اپنے مقام سے ہٹ گٸ تھی ۔ نیم واں سرخ لب ہلکے سے کھلے ہوۓ تھے ۔ جس پر ناک کی نتھلی پوری آب و تاب سے برجمان اس کے دل میں چھپے جزبات جگارہی تھی لیکن اس کے لۓ اپنے جزبات سے زیادہ اپنی محبت اہم تھی ۔ تبھی سرجھٹک کر اپنی پرفسوں سوچوں سے جان چھڑاٸی۔


دعاۓخیر! شال ساٸیڈ پر ڈالتے، شیروانی کے اوپری بٹن کھولتےوہ اس کی پاس بیٹھا پریشان سا اسے پکارنے لگا ۔ اس کی پکار پر اس نے بامشکل اپنی سرخ انگارہ ہوٸی آنکھیں واں کی تو اذلان کو اپنے لۓ فکرمند پایا ۔

”یار ریڈ چلی تم یوں بےبس اچھی نہیں لگ رہی ۔ پلیز اٹھ جاٶ بات کرو لڑو مجھ سے ۔ آج تو میں پوری تیاری سے ہوں تمہارا مقابلا دوبدو کروں گا۔۔“ لہجہ کو ہلکا پھلکا رکھتے وہ مزاحیہ انداز میں بولا تو وہ مسکرا بھی نا سکی۔


”دعاۓخیر پلیز بتاٶں نا؟ ایسی کیا بات ہے؟ جو تمہیں یوں بےحال کررہی ہے؟“ وہ اس کا چوڑی مہندی سے سجا گداز ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لۓ نرمی سے استفسار کررہا تھا ۔ اس کہ نرمی سے بولنا ہی غضب ہوگیا وہ کٹی ڈال جیسی اس کے سینے سے آلگی

اذلان! اس کا نام شدت سے پکارتے وہ بری طرح سے پھپھک پھپھک کر روپڑی ۔ اسے یوں گھوٹ گھوٹ کے روتا دیکھ وہ پریشان ہواٹھا۔


”دعاۓخیر میری جان کیا ہوگیا ؟ بس کرو یوں رونا اب تم مجھے پریشان کررہی ہو یار!“ اس کے گرد مضبوط حصار بناۓ وہ اس کا سر چومتا اس کے لۓ بےحد متفکر ہوچکا تھا ۔ اس نے آج تک اسے یوں ٹوٹا بکھرا نہیں دیکھا تھا ۔ وہ خود تو ہلکان ہو ہی رہی تھی ۔ ساتھ اس کی بھی جان ہلکان کررہی تھی ۔

”میری جان اپنا حال تو دیکھو کیوں خود کو اور مجھ کو اذیت دے رہی ہو؟ تمہاری سانسوں سے میری سانسیں جڑی ہیں ۔ تمہاری اذیت میرے دل میں اتر کر میری روح کو اذیت پہنچارہی ہے۔ ادھر مجھے دیکھو ۔“ وہ اسے خود سے الگ کرتا اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لۓ پیار بھرے لہجے میں بولا لیکن وہ تب بھی بس خاموش رہی۔ شدت گریہ سے اس کا بدن ہولے ہولے لرز رہا تھا ۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کے بدن سے آگ نکل رہی ہو ۔ وہ بری طرح اپنا حشر بیگاڑ چکی تھی ۔ اس نے جھک کر اپنے لبوں کا لمس اس کی رونے سے سوج رہی سرخ سوجی آنکھوں پر مرہم بطور رکھا تو اس نے سسکی بھری ۔ اذلان نے دھیرےسے اس کے سر سے پینے نکال کر اس کا دوپٹہ الگ کر ساٸیڈ پر رکھا پھر اس نے آہستہ آہستہ اس کی ساری جیولری اتر کر ساٸیڈ دراز میں ڈال دی ۔ اب وہ آرام آرام سے اسکی چوڑیاں اتار رہا تھا ۔ اس کے بعد وہ اسے لۓ اٹھ کھڑا ہوا ۔ وہ بامشکل اس کے ساتھ چل رہی تھی ۔

”لو یہ لباس بدلو میں باہر ہی کھڑا ہوں ۔۔“ الماری سے ایک سادہ سا سوٹ اسے پکڑاتے وہ وہاں سےباہر نکل آیا تھا ۔ دعاۓخیر نے بند ہوتی آنکھوں سے بامشکل لباس تبدیل کیا ۔ وہ لباس بدل کر جیسے ہی باہر نکلی اذلان لپک کر اس کے قریب آیا ۔ اسے تھام وہ واش روم تک لایا ۔ اس کا منہ ہاتھ دھلاکر وہ اسے بیڈ پر بیٹھاکے اس کے لۓ ٹیبلٹ نکالنے لگا۔ وہ اس کا خیال بلکل بچوں کی طرح رکھ رہا تھا ۔ دو گولیاں اس کے منہ میں ڈال کر اس نے پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا ۔ دوا کھلا کر اس نے آرام سے اسے بیڈ لٹایا ۔ اس کے سر کے نیچے تکیہ درست کرتا،اسے اچھے سے بلینک کیٹ اڑاتا وہ خود بھی چنج کرنے جاچکا تھا ۔ ناٸٹ ڈریس میں بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ خود بھی اس کے قریب ہی نیم دراز ہوگیا ۔ وہ نیند میں بھی سسک رہی تھی ۔ اذلان نے آرام سے اسکا سر اپنے بازو پر رکھا اور اسے قریب کرتا اپنے حصار میں لے لیا ۔ جھک کر اس کی شفاف پیشانی چومی اور پریشانی میں گھیرے دھیرے دھیرے اس کے بال سہلانے لگا۔ ۔


”ایسی کیا بات ہوسکتی ہے جس وجہ سے اس کی یہ حالت ہوٸی؟ اس شادی پر وہ چڑی ہوٸی تھی اور لڑجھگڑ کر اپنا غصہ بھی دیکھا رہی تھی لیکن اس طرح ٹوٹی بکھری تو نہیں تھی ۔ کچھ گھنٹوں میں کچھ تو ایسا ہوا تھا کہ ہنستی کھلکھلاتی دعاۓخیر بین کرتی نظر آرہی تھی ۔ کچھ بہت قیمتی گم ہوا تھا اسکا جو وہ یوں بری طرح سسک رہی ہے لیکن کیا؟؟ اس کا یوں ضبط کھودینا،

تڑپ تڑپ کے رونا تو اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیکن اس کا کھویا کیا ہے؟؟“ یہ سب سوچتے اس نے دعاۓخیر کو دیکھا جو آنکھیں موندیں اس کے ساتھ لگی ہر شے سے خفا محسوس ہورہی تھی ۔ اس رات کے لۓ اذلان نے کتنے خواب سجاۓ تھے ۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ دعاۓخیر کو اپنی محبت سے آشنا کرواۓ گا ۔ اپنا والہانہ پن اپنے جزبات محسوسات جو وہ اسے لےکر محسوس کرتا ہے ۔ وہ سب دل کی باتیں اس پر کھول دے گا ۔ پھر اپنی شدتوں سے اسے نہال کرکے اپنی محبت کو معتبر کردے گا لیکن ایسا کچھ بھی نا ہوا۔ اس کے برعکس وہ دعاۓ خیر کو لےکر ازحد فکرمند ہوچکا تھا ۔ تازہ پھولوں کی مہک اور نرم گداز وجود اس کے اعصاب پر بری طرح حاوی ہورہا تھا لیکن وہ خود پر اچھے سے کنٹرول کرنا جانتا تھا ۔فسوں خیز ماحول میں دعاۓخیر کی کراہ کر سسکی ابھری تو وہ اپنے خیالوں سے چونک کر باہر نکلا۔ اس کا بخار شاید بڑھ رہا تھا ۔ اسے آرام سے تکیہ پر منتقل کرکے اس پر بلینک کیٹ درست کرتا وہ روم سے باہر نکل گیا ۔ پورے گھر میں ہوکا عالم تھا۔ سب سو چکے تھے ۔ اس نے کچن کی لاٸٹ جلاکر کیبنٹ سے ایک گہرا پیالہ لیا اور واپس لاٸٹ بند کرتا باہر نکل گیا ۔ روم میں آکر اس نے واش روم سے پیالے میں پانی بھرا ۔ پھر وہ ڈریسنگ روم میں گھس کر باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں دوچار کپڑے کی پٹیاں تھیں جو وہ اندر سے کاٹ کر لایا تھا ۔ پیالہ ساٸیڈ میں رکھ کر اس نے پٹیاں پانی میں ڈالی پھر اسے نچوڑ کر اس کے ماتھے پر رکھی ۔ وہ بھٹی کے جیسے سلگ رہی تھی ۔ چہرہ بخار کی شدت سے سرخ پڑھ گیا تھا۔ اذلان نے اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔


”اٹھ جاٶ نا ریڈچلی! دیکھوں تمہارا ٹھرکی تمہیں چھوکر ٹھرک پن دیکھا رہا ہے ۔پلیز لڑو مجھ سے کچھ کڑوا کسیلا کچھ برا بھلاکہو ۔یوں چپ تو نارہو۔“اس کی بےسود حالت اس کی آنکھوں میں نمی لے آٸ تھی ۔ وہ بےبسی میں گھیرا اسے پکار رہا تھا لیکن وہ سن کہا رہی تھی ۔ وہ ایک دفعہ پھر کراہی اور زور زور سے اپنا سر پٹخنے لگی۔ اذلان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور زور زور سے اس کا سردبانے لگا تو وہ تھوڑا پرسکون ہوٸی ۔ وہ کافی دیر تک اس کے سرہانے بیٹھا کبھی اس کے ماتھے پر پٹیاں رکھ رہا تھا تو کبھی نرمی سے اس کا سر دبا رہا تھا ۔ جب اسے محسوس ہوا کہ بخار کا زور کم ہوگیا تو اس نے سب چیزیں اٹھاکر ٹیبل پر رکھیں اور اس کے نزدیک لیٹ کر اسے اپنے قریب تر کرلیا ۔ اس کے مرجھاۓ زرد نقوش کو اس نے نرمی سے سے چھوا اور اس کے گرد حصار مضبوط کرتا وہ خود بھی آنکھیں موند گیا ۔

فابیحہ کی آنکھ کھلی تو کچھ دیر وہ کسلمندی سے پڑی رہی ۔ خود پر پڑتی کسی کی نظروں کی تپش پر اس نے داٸیں طرف چہرہ گھمایا تو اسی آنکھیں پوری کی پوری واں ہوگٸیں ۔ اس کا ذہن اب تک بیدار نہیں ہوا تھا ۔ وہ خود کو اپنے کمرے میں اپنے بیڈ پر لیٹا سمجھ رہی تھی لیکن مقابل کو خود کو گھورتا پاکر وہ ہڑبڑا کر اٹھی ۔ اس کی آنکھوں سے ایسی آگ کی لپٹے اٹھ رہی تھیں جیسے وہ اس کو جلاکر بھسم کردینا چاہتا ہو ۔ اس کے سرد تاثرات دیکھ اس کی گلے کی گلٹی ڈوب کر ابھری ۔ ڈرتے ڈرتے اس نے ارحم پر ایک چور نظر ڈالی تو اسے شاک لگا ۔ وہ اسموکنگ کررہا تھا ۔ اس کے ناک منہ سے دھواں یوں نکل رہا تھا جیسے اس کے اندر کہی آگ لگی ہو ۔ آگ تو لگی تھی اس کے اندر اور وہ اس آگ میں پور پور جل رہا تھا بس یہ تھا کہ وہ آگ فابیحہ کی نظروں سے مخفی تھی لیکن اس کی تپش ضرور وہ بھی محسوس کرنے والی تھی ۔


”آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟“ اسے وہاں سے اٹھنے کو پرتولتا دیکھ وہ اچانک بول اٹھا۔ ارحم کے لہجے کا برفیلا پن اس اپنی جگہ ساکت کرگیا ۔ اس کے لہجے کی ٹھنڈک سے فابیحہ کے بدن کا رواں تک کھڑا ہوگیا تھا ۔


”مم میں نے کیا کیا؟ خود پر گڑی اس کی سرد وسپاٹ نظریں اسے ہکلانے پر مجبور کر گٸیں ۔ اس کے سوال پر مقابل کے چہرے پر تمسخر پھیلا تھا۔


ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا


ارحم کے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی سی چبن تھی ۔

فابیحہ حیران پریشان سی اسے دیکھنے لگی۔ جو آج اس سے پہلیاں بوجھ رہا تھا


”ارحم پلیز صاف صاف کہیں نا کیا ہوا ہے؟آپ کیوں ناراض ہیں مجھ سے؟ کتنے دن سے آپ کا یہ ناقابل فہم رویہ دیکھ رہی ہوں۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہورہا یا تو میرا قصور بتاٸیں یا پھر اپنے اس اجنبی سرد رویے کی وضاحت دیں۔۔“ اب کے وہ ہمت کرتی ہموار مستحکم لہجے میں بولتی ارحم کے غصے کو ہوا دے گٸ تھی۔ اس نے غصے میں سیگریٹ پھینکی اور اس کے سمجھنے سے پہلے اس کے دونوں بازو جھپٹ کر اسے تکیہ پر ڈال گیا ۔ فابیحہ کی سانسیں اس کے جارحانہ رویے پر رک سی گٸ ۔ وہ سہم کر اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے کوٸی ہرنی سامنے کھڑے شکاری کو دیکھتی ہے ترحم بھری نظروں سے ۔ وہ اس کے اوپر پورا چھایا ہوا تھا ۔ ارحم کی دہکتی سانسیں فابیحہ کے چہرے پر پڑتیں اسے جھلسارہی تھیں ۔ جتنی سختی اس کی پکڑ میں تھی اس سے کٸ گنا سختی اس کے چہرے پر چھلک رہی تھی ۔ اس کے چہرے کے سخت پتھریلے تاثرات اس کا دم خشک کررہے تھے ۔ ایک تو اس کی قربت نے جان ہلکان کررکھی تھی تو دوسری طرف اس کے سرد تاثرات اسے ہولائے دے رہے تھے۔


”مجھے تکلیف ہورہی ہے۔۔“ اس کے منہ سے بامشکل گھٹی گھٹی آواز نکلی۔

”تکلیف ہورہی ہے؟تکلیف سمجھتی ہیں، کہتے کیسے ہیں؟“ وہ اس کے چہرے پر مزید جھکے غرایا تو خوف سے آنکھیں مچیں اس کے حلق سے دبی دبی چیخ برآمد ہوٸی۔


”میں نے کہا تھا ۔ مجھے اظہار پسند ہے ۔ اس کا مطلب تھا کہ پھر چاہے محبت کا ہو یا نفرت کا۔ میں نے کہا تھا مجھ سے کچھ چھپانا نہیں مطلب تھا کہ پھر چاہے وہ جھوٹ ہو یا سچ!“ وہ کرخت انداز میں اپنے ہر لفظ پر زور دیتے دہکتے لہجے میں بول رہا تھا ۔ فابیحہ نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھول کر اس کی سرد گہری سیاہ آنکھوں میں دیکھا جہاں برہمی کے ساتھ کچھ الگ بھی تھی جیسے کوٸی دکھ اس برہمی کے پیچھے سے جھانک رہا ہو۔


”کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا؟ میں ہر جزبہ خالص رکھتا ہوں تو پھر میرے حصے میں محبت خالص کیوں نہیں آٸی؟ میرا قصور بس اتناتھا کہ میں نے اپنے جزبے اس لڑکی پر لٹاۓ جو اس کے لاٸق نہیں تھی؟ کتنا درد ناک تصور ہےکہ جھوٹ سے شروع ہوٸی زندگی کی ابتدا۶ جھوٹ پر اختیتام پزیر ہوگی۔ نہیں تھی محبت تو منع کردیتیں مگر یوں دھوکہ تو نا دیتیں۔ میں ساری زندگی کیسے اس شرمندگی کی آگ میں جھلستا رہوں گا کہ میری زندگی میں ایک ایسی لڑکی شامل ہوگٸ ۔ جس کا وجود تو میرے پاس ہے لیکن روح کسی اور سے جڑی ہے۔ میں بغیر روح کے وجود کا کیاکروں گا؟ کچھ دن میں یہ گل سڑجاۓ گا۔ کہاں پھینکوں گا کاندھے پر اٹھاٸی ارمانوں کی لاش؟ آپ نے اچھا نہیں کیا، نا میرے ساتھ نا خود اپنے ساتھ۔ ایک جھوٹ جیٸیں گے ہم ایک جھوٹ۔“ وہ بول نہیں رہا تھا پھنکار رہا تھا ۔ اس کے ایک ایک لفظ میں آگ کی لپٹیوں کے ساتھ دکھ اور آہوں کی آمیزش بھی شامل تھی ۔


فابیحہ ہق دہق دم سادھے ساکت سی اس کے سخت پکڑمیں پڑی تھی لیکن خوف کے سبب اس کے آنسو لگاتار اس کی بند آنکھوں سے بہتے اس کی کنپٹوں سے ہوتے تکیہ میں جزب ہورہے تھے ۔ اس کی سمجھ نہیں آرہا تھاکہ ایسا کیا ہوا ہے کہ اس کا مہربان رویہ سختی کا روپ دہارے مسلسل اسے ہرٹ کررہا ہے ۔وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ اس کے وجود کے ساتھ اس کا دل اور روح بھی اس سے جڑ چکے ہیں۔وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ اس کا دل بھی اس کیجانب ماٸل ہونے لگا ہے۔ وہ بتانا چاہتی تھی کہ کسی کی زورزبردستی سے ان کا رشتہ نہیں جڑا بلکہ اس نے اپنی رضا سے یہ رشتہ جوڑا ہے۔ وہ بتانا چاہتی تھی کہ ان کا رشتہ جھوٹ نہیں ایک خوبصورت حقیقت ہے لیکن وہ ایک لفظ بھی نہیں بول پاٸی ۔ اس کے جارحانہ تیور اسے سہماۓ دے رہے تھے ۔ الفاظ منجمند ہوگۓ تھے ۔ ویسے بھی جتنا وہ غصے میں تھا اگر وہ اس کوٸی بھی وضاحت دیتی یا کچھ بھی سمجھاتی تو وہ نا سمجھتا ۔ اسے مسلسل خاموشی سے آنسوبہاتے دیکھ وہ شدید مشتعل ہوتے جھٹکے اسے خود سے دور کرتا اٹھ کھڑا ہوا ۔ خود کو ریلکس کرنے کے لۓ اس نے اپنے گہنے بالوں میں تیزی سے ہاتھ چلایا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا ۔ جیسے اندر کی آگ کو کم کرنا چاہتا ہو ۔ اس کی مٹھیاں سختی سے بند تھیں اتنی کہ اس کی ہاتھوں کی رگیں ابھر آٸیں تھیں۔ وہ تیزی سے ڈریسنگ روم میں گھسا ۔ کچھ دیر بعد وہ وہاں سے چینج کرکے باہر آیا اور اس پر ایک نگاہ غلط ڈالے بغیر تیزی سے روم سے نکل گیا۔ اس کا رخ ایکسرساٸز روم کی جانب تھا ۔ وہ اپنا سارا غصہ اور اشتعال ان بے جان چیزوں پر نکال دینا چاہتاتھا ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


دعاۓخیر نے کسمساکر آنکھ کھولی تو خود کو ایک مضبوط حصار میں پایا ۔ بلیک ٹراٶزر میں بلیک بنیان پہنے وہ ہر چیز سے بےنیاز گہری نیند میں تھا۔

اذلان کا چہرہ اس کے بےحد قریب تھا اتنا کہ سوتے ہوۓ اس دہکتی سانسیں اس کے چہرے پر پڑرہی تھیں ۔ وہ کس قدر وجہہ تھا کہ ایک پل کو تو دعاۓخیر کا دل زور سے دھڑکا تھا ۔ اس کی شہد رنگ آنکھیں اس وقت بند تھیں جس میں ہر دم شوخی ناچ رہی ہوتی تھی ۔ اس کا مسکراتا چہرہ سوتے ہوۓ سنجیدہ تاثرات سے پرتھا جیسے وہ سوتے میں کسی مسٸلے میں الجھا اسے سلجھا رہا ہو۔ اس کے چہرے کو باغور دیکھتی دعاۓخیر غاٸب دماغی سے اس کے حصار میں پڑی تھی ۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا ذہن بیدار ہوا تو رات کا ہر گزرا لمحہ پوری جزیات کے ساتھ اس کی ذہن کی سلیٹ پر ڈوب کے ابھرا تھا ۔ وہ کیسے رات بری طرح اس سے لپٹی ہوٸی تھی ۔ وہ سب سوچتے اس نے جھٹکے سے اس کے بازو خود سے ہٹاۓ اور اٹھ بیٹھی ۔


”ظلم لڑکی ساری رات انہیں بانہوں نے تمہیں سنبھلا تھا جیسے بےدردی سے تم نے صبح جھٹک دیا

۔“ نیند کے خمار میں ڈوبی پرشکوہ آواز پر اس نے اپنا چہرہ گھمایا تو سرخ آنکھوں سے اسے خود کو باغور تکتا پایا ۔ رات کے مقابلے میں اس کی طبیعت اذلان کو کافی بہتر لگ رہی تھی ۔ یا پھر وہ خود کو سنبھال چکی تھی ۔ تبھی تیکھی نظروں سے اسے گھور رہی تھی ۔

”اب کیسا ہے تمہارا بخار؟“ زرا اچک کر اذلان نے ہاتھ بڑھاۓ اس کا ماتھا چھوا جو رات کی نسبت بہت معمولی سا گرم تھا ۔


”میں ٹھیک ہوں تو اب اپنی مہربانیاں مجھ سے دور ہی رکھو۔۔“وہ تنبیہہ لہجے میں بولتی بیڈ سے اٹھنے لگی لیکن اذلان نے جھپٹ کر اس کی مرمریں کلاٸی پکڑ کر اسے اٹھنے سے روک دیا۔


”ابھی کہاں میں مہربان ہوا ہوں؟جب ہوا تو تم یوں تیکھی نظروں کے تیر نہیں چلاٶ گی بلکہ مجھ سے نظریں ملانے تک سے کتراٶ گی ۔۔“ اس ہلکے سے اپنے جانب جھکاۓ آنکھوں میں خماری اور لہجے میں معنیٰ خیزی گھمبیرتا لۓ وہ اسے سٹپٹانے پر مجبور کرگیا

”زیادہ ٹھرکی پن جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔دور رہو مجھ سے۔۔“ وہ لہجے کو بارعب بناتی جھڑکنے والے انداز میں بولی تو وہ دلکش انداز سے ہنس پڑا۔


”ساری رات تم پر ٹھرک پن جھاڑا،تب تو تمہیں اعتراض نہیں تھا؟ اور دور رہنے کی بھی کیا خوب کہی، پہلے تم خود مجھ معصوم کے قریب تر آٸیں تھیں۔ وہ تو میں بےچارہ شریف مرد تھا جو بہکا نہیں ورنہ تم نے مجھ معصوم کو بھٹکانے کی کافی کوششیں کی تھیں۔۔“ چہرے پر سارے جہاں کی مظلومیت لۓ وہ جس طرح اسے چڑھانے والے انداز میں بولا تھا۔ اس کا یہ انداز دعاۓخیر کو پتنگے لگاگیا ۔ اس پر جلتی پر تیل کا کام اس کی شوخی بھری نظریں کررہی تھیں۔

اس نے زور لگاکر اپنی کلاٸ اس کی گرفت سے آزادکرواٸی۔

”تم کتنے ۔۔۔“

”معصوم ہو۔۔“ اذلان نے اس کا تیش بھرا جملا بیچ میں اچکا۔

”نہیں ۔۔“

”ہنڈسم ہوں ۔۔“

”منہ دھورکھو۔۔“

”روز دھوتا ہوں۔۔“

”پھر بھی کوٸی فرق نہیں۔۔“

”ظاہر سی بات ہے جب حسن مکمل ہوتو فرق کیوں پڑے گا۔۔“ ایک آنکھ ونگ کرتے وہ اسے جلانے کو بولا۔


”لوگ خوش فہم بنیں بد فہم نہیں۔۔“وہ دوبدو بولی۔

”خوش فہمی پالنے سے بہتر ہے تم اپنی طرح کا کوٸی گدھا پال لو۔۔“ وہ مزید تنک کر بولی تو وہ اس کے تپنے پر قہقہہ لگا اٹھا ۔ پھر اچانک ہی اس نے دعاۓ خیر کی کمر میں ہاتھ ڈالا تو وہ سیدھی اس کے سینے پر آن گری۔ اس نے بوکھلاکر اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اٹھنے چاہا تو اس نے دونوں ہاتھوں کی گرفت اس کی کمر پر مضبوط کردی۔


”اب تم کچھ بھی کہہ لو، اس گدھے سے تمہاری قسمت پھوٹ چکی ہے اور اسی گدھے نے تمام عمر تمہارا بوجھ ڈھونا ہے۔۔“ وہ اپنا چہرہ اس کے قریب لاتا اس کی ناک سے ناک ٹکراتے گھمبیر لہجے میں گویا ہوا ۔ دعاۓخیر نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا تو وہ بےباکی سے ایک آنکھ ونگ کرگیا۔


”کیا کھاتے ہو جو بدن پتھر کی طرح سخت ہے؟“

اس کے بازو پر مکا مارتے وقت اس کے اپنے ہاتھ پر لگی تو وہ جھنجھنلاکر گویا ہوٸی۔


”ایک پری پیکر کا دماغ۔۔“ اس کے شفاف ماتھےپر پیار کی مہر ثبت کرتا وہ شرارت سے گویا ہوا تو وہ جھٹپٹااٹھی۔


”اذلان شرافت سے دور ہوجاٶ ورنہ میں تمہارا حشر بیگاڑدوں گی۔“ وہ اپنا پورا زور لگاکر بھی اسکی گرفت سے خود کو آزاد نا کرواسکی تو غصے بھری جھنجھلاہٹ سے چیخ پڑی۔


”چھوڑ دوں گا لیکن پہلے آرام سے میری بات کا جواب دو۔۔“

اس کے چہرے پر لہراتی بالوں کی لٹ کو پھونک مار کر اڑاتے وہ سنجیدگی سی بولا۔


”کیا بات ہے؟جلدی سے پوچھو؟“ وہ اس کی جان لیوا قربت سے آزادی حاصل کرنے کو اب کے تھوڑا تحمل سے بولی تھی ۔ جانتی تھی جب تک وہ اپنی بات کا جواب جان نہیں لیتا اسے چھوڑے گا نہیں۔


”کل میں نے تمہیں مالا میں پروۓ ٹوٹے موتیوں جیسے بکھرتے دیکھاہے۔ ایسی کیا وجہ ہوٸی جو تم اپنے آپے میں نہیں رہیں؟کل میں نے جس حال میں تمہیں دیکھا، یقین جانو میں نہیں چاہوں گا کہ کل کے بعد کبھی بھی تمہیں اتنابےحال دیکھوں۔ تم میری شریک حیات ہو! تمہارے سارے غم میرے ہیں اور میری ساری خوشیاں تمہاری ہیں۔ ہم دونوں ایک دوجے کا لباس ہیں۔ ہمارےبیچ کچھ بھی مخفی نہیں ہونا چاہیۓ نا؟ سو پلیز بتاٶ وہ بات جو تمہیں مستقل ہرٹ کررہی ہے؟“ وہ اس کی بھیگی گھنی پلکوں کو دھیرے سے چھوتا پیار بھرے لہجے میں استفسار کررہا تھا۔


”اذلان پلیز!! یہ بات میری ذات سے جڑی ہے ۔ میں تمہیں نہیں بتاسکتی۔“ اس نے بامشکل اپنی بات مکمل کرتے نچلا ہونٹ دباۓ اپنی سسکی روکی تھی۔ اذلان کا حصار نرم پڑا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گٸ۔ اذلان نے ایک نظر اس کے زرد چہرے پر ڈالی اور خود بھی اٹھ کر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔ کل سے اب تک وہ کتنا بدل گٸ تھی ۔ نجانے کس لمحے نے اسے یوں بدل ڈالا تھا ۔ آنکھوں میں مستقل ایک ویرانی تھی ۔ اس نے دھیرے سے اس کا مہندی سے سجا گداز ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھاما۔


”میری ذات تمہاری ذات سے جڑچکی ہے تو ہم الگ الگ نہیں ایک ہی ہیں۔“ نرمی سے اس کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیتے اس نے دعاۓخیر کو بولنے پر اکسایا۔

”مجھے میری عزت نفس بہت عزیز ہے ۔“ وہ اب کہ بےبسی میں گھیری بولی تھی۔


”تمہاری عزت نفس مجھے تم سے بھی زیادہ عزیز ہے۔“ وہ نرمی سے اس کے گرد خصار بناگیا ۔ اس نے چہرہ گھماکر اس کی روشن آنکھوں میں دیکھا ۔ اذلان نے جھک کر نرمی سے اس کی سوجی سرخ آنکھوں کو جھک کر باری باری چوم لیا۔ پھر وہ تھوڑا اور جھکا اور اس کی چھوٹی سی سرخ ناک پر اپنے لب رکھے ۔ اس سے پہلے کے وہ مزید پیش قدمی کرتا دروازے پر ہوتی دستک نے اس فسوں خیز لمحے سے ان دونوں کو باہر کھینچ نکلا ۔ اذلان بدمزا ہوا جبکہ دعاۓخیر بوکھلاکر اس سے دور ہوٸ تھی۔


”تم ٹھرکی ہو پورے! کیسے میری طبیعت کا فاٸدہ اٹھاکر میرے قریب آگۓ۔۔“ وہ اپنی خفت مٹانے کو الٹا اس پر چڑھ دوڑی اور ساتھ ایک تھپڑ بھی اس کے شولڈر پردے مارا۔


”ابھی فاٸدہ کہاں اٹھایاہے ۔ پیش قدمی کی ہی تھی کہ کسی ظالم نے کۓکراۓ پر پانی پھیردیا۔۔“ افسردگی بھرے لہجے میں چھپی بےباکی پر دعاۓخیر نے بھناکر بیٹھ پر پڑا تکیہ اسے کھینچ مارا اور تن فن کرتی ڈریسنگ میں گھس گٸ۔ اپنا لباس لیکر وہ جس وقت واش روم جارہی تھی تو اذلان دروازہ کھول رہا تھا ۔


”اَلسَلامُ عَلَيْكُم! اس نے سستی سے جماٸی روکتے سلیمہ بیگم کوسلام کیا اور ان کے شانے پر سرڈال دیا۔

”وَعَلَيْكُم السَّلَام! دعاۓخیر کہاں ہے؟ طبیعت کسی ہے اب اس کی؟“پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے انہوں نے خالی کمرے پر نظریں دوڑا کر فکرمندی سے پوچھا۔

”بس آتے ہی بہو کی پڑگٸ۔ مجھ بچارے کا حال بھی دریافت کرلیں۔ ساری رات جاگ کر آپ کی لاڈلی بہو کی خدمتیں کی ہیں۔۔“ نروٹھے لہجے میں کہتا وہ ان سے الگ ہوا۔


”اگر بیوی کی خدمت کردی تو ہاتھ پیر نہیں گھس گۓ۔ تمہاری بیوی بیمار ہے تو اس کی تیماداری کرنا تمہارا ہی فرض بنتا ہے۔“ وہ ڈپنے والے انداز میں بولیں تو اذلان کا منہ کھل گیا۔


”مجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے کہ شادی کے بعد آپ کا مجھ سے رشتہ بدل گیا ہے ۔ آپ کی باتیں سن کر مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے آپ دعاۓخیر کی ماں اور میری ساس بن گٸ ہیں۔ تبھی صبح صبح بیٹی کے چکر میں داماد کی کلاس ہو رہی ہے۔۔“ وہ کڑوا س منہ بناۓ نروٹھے لہجے میں بولا ۔ سلیمہ بیگم کو علم تھا کہ وہ اپنی بےسروپا باتوں سے باز آنے والا نہیں تبھی ہنس کر اس کے بال بکھیرگٸیں۔


”تمہاری باتوں کا مقابلہ میں تو ہرکز بھی نہیں کرسکتی ۔ تم دونوں ریڈی ہوکر نیچے آجاٶ۔ پھر اکھٹے ناشتہ کریں گے ۔“ وہ مسکراکر کہتی پلٹ گٸیں تو وہ بھی گنگناتے ہوۓ دروازہ بند کرتا واش روم کی سمت آیا

”اجی سنتی ہو؟ریڈ چلی! تمہاری ساس صاحبہ آٸیں تھیں۔ سوجلدی سے باہر آجاٶ ناشتے پر سب انتظار کررہے ہیں۔۔“ واش روم کے دروازہ پر طبلا بجاکر وہ اعلان کرتے انداز میں گویا ہوا ۔ اسے معلوم تھا اندر وہ تلملارہی ہوگی ۔ تبھی مسکراتا ہوا ڈریسنگ روم میں گھس گیا تاکہ پہنےکو کوٸی ڈھنگ کا لباس نکال سکے ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


ارحم کے جانے کے بعد فابیحہ آنسو صاف کرتی اٹھ بیٹھی اور پورے روم پر ایک طاٸرانہ نظر ڈالی ۔ ارمانوں سے سجا کمرہ بین کررہا تھا ۔ مرادوں بھری رات بے مراد ہوکر اپنے پر پھیلاۓ سمٹ گٸ تھی ۔ کوٸی کلی نہیں چٹکی تھی اور نا ہی کوٸ شگوفہ کھلا تھا ۔ ان دروں دیواروں نے کوٸی پیار بھری سرگوشی نہیں سنی تھی ۔ بس کسی کا تڑپنا دیکھا تھا اور کسی کا سسکنا سنا تھا۔ فابیحہ نے اپنے بکھرے بال سمٹ کر کچر میں قید کۓ اور ہمت کرتی اٹھ کھڑی ہوٸی ۔ گھڑی پر نظر ڈالی جو ساڑھے ساتھ بجارہی تھی ۔ اس نے جلدی جلدی ہاتھ چلاکر کمرہ سمیٹا ۔ گلاس ونڈو ایک طرف کرتی وہ کھلے ٹیرس پر نکل آٸی صبح کی تازہ ہوا اس کے صبیح چہرے سے ٹکراٸی تو اسے اپنی بوجھل طبیعت کچھ بہتر محسوس ہوٸی۔ اس نے گہری سانس کھینچ کر ایک طرف رکھی اپنے کام کی چیزیں اٹھاٸیں اور اندر آکر تمام پھول پتیاں اٹھاکر ڈسٹ بین میں ڈال دیں۔ کمرے پر ایک مطمین نظر ڈال کر وہ ڈریسنگ روم میں گھس گٸ ۔ اپنی ساٸیڈ کا پٹ کھولے اس نے ریڈ کلر کی ایک ہیوی فراک منتخب کی ۔ سب مہمان گھر میں موجود تھے ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بند کمرے کی کوٸی بھی بات باہر نکلے۔ لباس لےکر وہ واش روم میں گھس گٸی ۔ باتھ لےکر اس نے لباس تبدیل کیا اور گیلے بالوں کو تولیے سے لپٹے باہر نکلی ۔ تولیے میں بالوں کی نمی جذب کرکے اس نے تولیہ ٹیرس پر رکھے اسٹینڈ پر ڈالا ۔ اب وہ ڈریسنگ کے آگے کھڑی تھی ۔ اس نے سب پہلے اپنے بال ڈراۓ کۓ ۔ پھر ہلکا پھلکا میک اپ کرتی وہ آٸینہ میں خود کو دیکھنے لگی ۔ ایٸر باکس سے اس نے جھمکے نکالے اور کانوں میں ڈال لۓ ۔ اس کے بعد اس نے اپنی لپ اسٹک ڈارک کی اور بالوں میں برش کرکے اب وہ بالوں کی چوٹی گوند رہی تھی جب کلک کی آواز سے روم کا دروازہ کھلا اور پھر بند ہوا ۔ اس نے ڈریسنگ کے شیشے سے دیکھا ۔ ارحم سرخ چہرے اور پھولے تنفس کے ساتھ گلے میں ٹاول ڈالے روم میں داخل ہوا تھا۔اس کے سیاہ بال اس کے ماتھے سے چپکے ہوۓ تھے لیکن وہ اس حلیے میں بھی بلا کا ہنڈسم لگ رہا تھا ۔ فابیحہ کا دل ایک دم سینے میں پھڑپھڑایا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کی مخصوص بوتل تھی ۔ تولیہ اور بوتل ٹیبل پر رکھتا وہ جیسے ہی پلٹا ساکت رہ گیا ۔ کل سارا وقت جس حسین وجود سے نظریں چراٸیں تھیں ۔ آج اس دلکش سراپے پر نظر ٹہر سی گٸیں تھی۔ سرخ لباس میں اپنے وجود کی ساری رعنائیوں سمیت وہ اس کے دل پر حشربرپا کررہی تھی ۔ مقابل کی نظروں کی مقناطسی لپک سے اس کے بدن میں پھریری سی دوڑ گٸ ۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے چوٹی کے سرے پر پونی لپٹی۔ چوٹی کمر پر ڈالے اس نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا تو اس کی جان ہوا ہوٸی۔ وہ اپنے قدموں کی دھمک پیدا کرتا اس کی جانب آرہا تھا ۔ اس نے ہاتھ کی لرزش پر قابو پانے کے لۓ دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں پیوست کرلۓ ۔ارحم اس کے پہلو میں آکر ٹہرا تو اس نے اپنی سانس تک روک لی ۔ اس نے ہلکا سا جھک کر ڈریسنگ کی دراز کھول کر اس میں سے ایک خوبصورت لکڑی سے بنا لمبا سا کیس نکالا۔ وہ دم سادھے اس کی کارواٸی دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا۔ فابیحہ نے ڈرتے ڈرتے سامنے شیشے میں دیکھا تو وہ کیس کھول کر اس میں سے چین نکال رہا تھا ۔ ایک ہاتھ میں چین پکڑے دوسرے ہاتھ اس کی موٹی چوٹی کو اس نے نرمی سے اس کے شولڈر پر آگے کی طرف ڈال دیا ۔ جتنے غصے میں وہ کمرے سے نکلا تھا اس کے برعکس اس کا چہرہ اس وقت بلکل سپاٹ تھا ۔ بس نظریں تھیں جو بولتی ہوٸی محسوس ہورہیں تھیں ورنہ اس کے لب تو ایک دوسرے میں سختی سے پیوست تھے جیسے نا بولنے کی قسم کھاٸی ہو ۔ اس کی انگلیوں کے پورٶں کا لمس فابیحہ کو اپنی گردن پر محسوس ہوا تو اس کے بدن میں کرنٹ سا دوڑ گیا ۔ وہ ہلکا سا جھکا اس کی چین کا ہک بند کررہا تھا ۔ ارحم کی گرم دہکتی سانسیں پچھلی گردن پر شدت سے محسوس کرتے اس کی اپنی سانسیں سینے میں الجھ رہیں تھیں ۔ چین پہناتے ہوۓ اس کی شفاف صراحی دار گردن ارحم کے سامنے تھی ۔ دل میں کیا کیا نا طوفان اٹھے لیکن وہ بےنیاز بنا اپنا کام کرکے پلٹ گیا ۔ وہ جو دم سدھے کھڑی تھی ۔ اسے یوں ہی پلٹتے دیکھ اس کی آنکھیں نم ہوٸیں ۔ اس کی نظروں کی ورفتگی، انداز کا والہانہ پن نجانے کہاں جاسویا تھا ۔ وہ بےحس بن گیا تھا ۔ اپنی اوپر پڑتی اس کی شکایتی نظروں پروہ اس کی جانب پلٹا۔


”جھوٹ کو اپنایا ہے تو جھوٹ کو نبھانا بھی تو پڑے گا۔ کوٸی پوچھے کہ منہ دیکھاٸی میں کیا ملا تو اپنے گلے میں پڑی زنجیر دیکھا دیجۓ گا۔ جو درپردہ آپ کے پیروں میں بیڑیوں کی صورت پڑکر آپ کو اس ناپسندیدہ رشتے سے باندھ گٸ ہے۔“ سرد لہجے میں کہے گۓ تلخ جملوں پر وہ شکوہ کناہ پرنم نظروں سے اسے دیکھنے لگی لیکن وہ بےنیاز بنا ڈریسنگ روم میں گھس گیا تھا۔۔


وہ اجنبی تو نہیں لیکن

جب اجنبی لہجے میں بولتا ہے تو

روح تک ٹھٹھرجاتی ہے


🍃افشاں کنول🍃


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


سب کی توجہ دعاۓخیر کی جناب دیکھ فابیحہ نے شکر کا سانس لیا تھا ۔ اگر کوٸی اس کی آنکھوں میں چھپا خالی پن دیکھ لیتا تو وہ کیا جواب دیتی۔


”میری بچی کو کسی حاسد کی نظر لگ گٸ تبھی تو دیکھو بلکل مرجھاکر رہ گٸ ہے ۔“ پھپھو نے گلابی کام والے سوٹ میں مرجھاٸی سے دعاۓخیر کی پیشانی چوم کر فکرمندی سے کہا۔


”اذلان! ڈاکٹر کو کال کی تم نے؟“ وارث صاحب نے اخبار ایک طرف رکھتے اس سے سنجیدگی سے پوچھا جو دعاۓخیر کو نظروں میں بساۓ چاۓ کی چسکیاں لے رہا تھا ۔ ان کے پوچھنے پر اس کا ارتکاز ٹوٹا۔


”تایا ابو آپ فکر ناکریں میں نے کال کردی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب کچھ دیر تک پہنچ جاٸیں گے۔۔“ ارحم کے سنجیدگی سے جواب دینے انہوں نے اذلان کو گھورا۔

”بابا میرا قصور نہیں ہے ۔ میں کال کرنے لگا تھا لیکن ارحم بھاٸی نے مجھے روک دیا ۔ ساری رات جاگ کر آپ کی بہو کی دیکھ بھال کی اس کی کوٸی قدر نہیں اور ایک کال ناکرنے پر اتنی بڑی گھوری سے نواز رہے ہیں۔“ وہ منہ پھولاۓ نروٹھے لہجے میں بولا تو سب کےچہروں پر دبی دبی مسکراہٹ آٸی جبکہ دعاۓخیر کا بس نہیں چلا اپنے سامنے رکھا چاۓ کا گرم کپ اس کے سر پر انڈھیل دے ۔ رات اس کی طبیعت کے پیش نظر اگر اس کی دیکھ بھال کر ہی لی تھی تو کیا ضرورت تھی سب میں اعلان کرنے کی؟؟

”انکل اذلان کی اب شادی ہوگٸ ہے سو ہاتھ ہولا رکھے۔ کزن کے سامنے بے عزتی پر کچھ نہیں ہوتا لیکن بیوی کے سامنے بے عزتی پر بہت کچھ فیل ہوتا ہے۔۔“ فراز شرارت سے کہتے بہت کچھ پر زور دیتے بولا تو محفل زعفران بن گٸ۔


”فراز آپ تو چپ ہی کریں ۔ ضروری ہے اپنا تجربہ ہر ایک سے یوں شیٸر کریں۔۔“ لبنیٰ کے پھلجھڑی چھوڑنے پر زبردست قہقہہ پڑا۔ ارحم بھی سب بھلاۓ انجواۓ کررہا تھا ۔ دعاۓخیر بظاہر تو مسکرا رہی تھی لیکن اس کا مرجھایا چہرہ اور ویران آنکھیں ثروت بیگم کو بےچین کۓ ہوۓ تھیں۔


”حارث مجھے دعاۓخیر ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ضرور کچھ ہوا ہے جو ہم نہیں جانتے۔ دیکھیں اس کی آنکھوں، ان میں کس قدر ویرانی رچی بسی ہے۔۔“ وہ دھیمے پریشان کن لہجے میں ساتھ بیٹھے وارث صاحب سے اپنا خدشہ بیان کررہی تھیں ۔


”تم وہم نا پالو، اسے بخار ہورہا ہے ۔ طبیعت خرابی کی وجہ سے وہ یوں نڈھال ہے۔۔“ وہ ان کا ہاتھ تھتھپاکر تسلی آمیز لہجے میں بولے تو وہ خاموش ہوگٸیں لیکن دل کو ایک دھڑکا سا لگ گیا تھا ۔


”خالہ آپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔۔“ فجر اس کا گال چوم کر پرجوش سی بولی۔

”کل تک تو دلہن مامی کے گن گارہی تھیں اور آج خالہ پر مسکا پالش۔۔“ فابیحہ مسکرا سے اس کا گال کھینچ کے اسے چھیڑتے ہوۓ کہنے لگی تو وہ فابیحہ کی بات سن کر جھنپ سی گئی۔


”خالہ میں نے آپ کی بھی تعریف کی تھی۔“ وہ منہ پھلاۓ بولی تو فابیحہ نے جھک کر اس کے گال چوم لیا۔

”میری جان میں مزاق کررہی ہوں۔۔“ اس کے پیار سے بولنے پر وہ ریلکس ہوکر ہنس پڑی ۔ اتنے میں فلق ثاقب کی گود سے اترکر اس کی گود میں چڑھ بیٹھی تو وہ اسے بھی پیار کرنے لگی ساتھ ہاتھ میں کٹے سیب کا ٹکڑا پکڑا دیا۔


”سمیرا آپی سب کچھ خود ہی کھارہی ہیں ۔ بچارے ثاقب بھاٸی کا بھی خیال کرلیں، ان سے بھی کھانے کو کچھ پوچھ لیں۔۔“ چپ رہنا اذلان نے سیکھا ہی کب تک جو اب چپ رہتا ۔ اس کی بات پر سمیرا کو صدمہ لگا۔


”تم بھاٸی ہو کہ دشمن؟جب دیکھو میرے نوالے گنتے رہتے ہو؟“ سمیرا رقت آمیز لہجے میں بولی۔


”یار وہ مزاق کررہا ہے تم فوراً ہی جزپاتی ہوجاتی ہو۔۔“ ثاقب نے اس کا ہاتھ دباۓ نرمی سے سرزنش کی تو وہ سوں سوں کرتی پھر ناشتہ کرنے پر مصروف ہوگٸ۔ اس کی بچوں جیسی حرکت پر سبھی کے لبوں پر مسکان کھلی۔


”ماموں آپ نے مامی کو مارا ہے؟ ان کی آنکھیں اس قدر ریڈ کیوں ہورہی ہیں؟“ احمر اس کی گود میں چڑا رازداری سے پوچھ رہا تھا۔


”پیارے بھانجے یہ الزام ناقابل قبول ہے۔ مجھے تو خود بڑی زور کی پڑی ہے۔۔“ وہ آہ بھرتے اس کے کان کے قریب جھکے جھکے بولا تھا۔


”آپ کو کس نے مارا؟“ اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرانی لۓ وہ محوحیرت تھا۔


”قسمت نے مارا ہے۔ میں تو کنواں کے پاس رہ کر بھی پیاسا ہی رہ گیا ہوں۔۔“ وہ افسردگی میں گھیرا ٹھنڈی سانس بھرکے بولا ۔ احمربےچارہ ہونق سا اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔


”یار بھانجے خاموشی سے ناشتہ کرو۔ ان باتوں کو سمجھنے کے لۓ تمہیں طویل عرصہ درکار ہوگا۔“ وہ پیار سے اس کے پھولے گال چوم کر مسکرایا۔

تو وہ بھی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے اثبات میں سرہلاکر ناشتہ کے جانب متوجہ ہوگیا۔


”یہ چین تو کافی خوبصورت اور بھاری ہے ۔ ارحم بھاٸی کی چواٸس بہت اعلیٰ ہے۔۔“ پھپھو کی بڑی بیٹی ناز نے اس کے گلے میں موجود چین کی تعریف کی تو سب نے ہی اس کی بات کی تاٸید کی۔


”تمہیں کیا منہ دیکھاٸی ملی دعاۓخیر؟“ ان کی منجھلی بیٹی نے اشتیاق سے پوچھا۔


”اذلان نے منہ دیکھاٸی کے لۓ بہت پیارا کڑا بنوایا ہے۔ شاید دعاۓخیر کی طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے وہ اسے دے نہیں پایا۔۔“ فابیحہ نے دھیمے سے وضاحت دی۔

”کوٸی بات نہیں اپیا! میں بھی یہی ہوں اور وہ بھی۔ میں اپنا حق اچھے سے لینا جانتی ہوں۔ آپ بےفکر ہوجاٸیں۔۔“ وہ شرارت بھرے انداز میں بولی تو سب ہی مسکرادیۓ۔


”اکبر بیٹا کل کی ٹکٹس کنفرم کروالیں تھی نا!“ انہوں نے اپنے داماد سے پوچھا۔


”جی امی آپ بےفکر رہیں۔ کل ان شاء اللہ ہم اپنے شہر کے لۓ نکل جاٸیں گے۔“ وہ مودب سا بولا۔


”آپا ایک دو دن اور ٹہرجاتیں۔ اتنے وقت بعد تو آپ آٸیں تھیں اب ولیمے کےفوراً بعد ہی چلی جاٸیں گی۔“ وارث صاحب لاڈ سےبولے۔


”آپا! بھاٸ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ دوچار دن اور ٹہر جاتیں تو اچھا ہوتا۔“ حارث صاحب نے بھی اسرار کیا۔

”میرے پیارے بھاٸیوں میں ٹہر نہیں سکتی۔ تمہیں علم ہے کہ میرا اپنے گھر کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ پھر جو بچے سپارہ پڑھنے آتے ہیں ان کا بھی کافی حرج ہورہا ہے۔ ان شاء اللہ پھر کبھی آٶں گی۔ ابھی کے لۓ اسرار ناکرو۔۔“ وہ نرمی سے پرشفقت لہجے میں انہیں سمجھاتے ہوۓ بولیں۔ وہ اپنے گھر میں کافی بڑا مدرسہ چلاتی تھیں ۔ جہاں ہر عمر کی بچیاں بچے اور خواتین قرآن پڑھنے آیا کرتی تھیں ۔ اس کےعلاہ ہر جمعہ ان کے کا درودہ پاک کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا ۔

”چلیں جس میں آپ کی خوشی ہم بھی اسی میں خوش ہیں۔“ وارث صاحب مسکرا کر بولے

اتنے میں ڈاکٹر بھی آگیا تھا ۔ لبنیٰ فابیحہ کے ساتھ دعاۓخیر کوروم میں لے گٸ تھی۔ مگر جاتے ہوۓ ارحم کو دیکھنا نہیں بھولی تھی ۔ جو اس سے انجان بنا سب سے نارمل گفتگو کررہا تھا ۔ ارحم جانتا تھا وہ اسے دیکھ رہی ہے لیکن وہ بےنیاز بنا بیٹھارہا ۔ حالانکہ دل اڑیل گھوڑا بناہوا تھا لیکن دماغ نے سختی سے اس کی لگامیں تھامی ہوٸیں تھیں۔

ولیمہ کی شاندار تقریب ہوٹل میں منقید کی گٸ تھی رشتہ دار اور احباب کے علاوہ وہاں ان کے بزنس کیمونٹی کے بھی کافی دوست مدعو تھے ۔ دونوں کپلز کا فوٹو شوٹ ہورہا تھا ۔

کاٸی کلر کے ٹیکسیڈو میں اذلان اپنے لمبے چوڑے سراپے کے ساتھ بلا کا ہنڈسم لگ رہا تھا۔ اوپر سے اس کی آنکھوں کی وہ شرارتی چمک کٸ لڑکیوں کے دل دھڑکا گٸ تھی ۔ اپنی دلہن کو پہلو میں لۓ بھی وہ کٸی نگاہوں کا مرکز تھا ۔ دوسری طرف پارلر والی کے ماہرانہ ہاتھوں نے دعاۓخیرکے حسن میں چار چاند لگادیۓ تھے ۔میکسی پر اونچی ہیل کے ساتھ وہ اس کے شولڈر تک آرہی تھی۔ اس کا قد چھوٹا تو نہیں لیکن درمیانہ تھا۔


”یار یہ پارلر والےجادو گر ہوتے ہیں کیا؟ لڑکیاں اندر جاتی ہیں تو مری شکل ہوتی ہیں اور بہار سج دھج کے جو آتیں ہیں وہ پری شکل ہوتی ہیں۔“ فوٹو گرافر کے کہنے پر وہ اس کے کمر پر دونوں ہاتھ رکھے ماتھے سے ماتھا جوڑے دعاۓخیر کی مسلسل خاموشی پر اسے چھیڑتے ہوۓ بولنے پر اکسانے کو بظاہر سنجیدگی سے بولا تھا ۔


”تم یہ کہنا چارہے ہو کہ میں جو اتنی اچھی لگ رہی ہوں اس میں سارا کمال پارلر والوں کا ہے؟“ ماتھے پر تیوریاں چڑھاۓ وہ دانت کچکچاکر بولی تھی ۔ یہ بندہ کبھی بعض نہیں آتا تھا اسے زچ کرنے سے۔


”نہیں کچھ قدرت کا بھی کمال ہے لیکن تم یہ جملہ خود پر کیوں لےرہی ہو؟ میں توجرنلی بات کررہا ہوں۔۔“ کیمرہ مین کے اوکے کہنے پر وہ دور ہوتا بےنیازی سے شانے اچکاتے بولا۔


”ان جرنلی میں میرا بھی شمار ہوتا ہے ۔ کیونکہ میں خود بھی پارلر سے تیار ہوکر آٸی ہوں۔ ان لوگوں نے میک اپ سے میری لک چینج ضرور کی ہے لیکن میں خوبصورت ہوں تبھی خوبصورت نظرآرہی ہوں۔۔“ اسے جتاتی وہ اسے آنکھیں دیکھاکر بولی تھی۔ دنیا کی کوٸی بھی لڑکی کسی بھی حال میں خود کی خوبصورتی پر کوٸی بات نہیں آنے دیتی تھی تو پھر وہ کیسے برداشت کرتی کہ اس کی خوبصورتی کا وہ سارا کریڈیٹ پارلر والی کو دے۔ آج وہ پارلر نہیں گٸ تھی ۔اس کی طبیعت کے پیش نظر پارلر والی کو گھر پر ہی بلوالیا گیا تھا ۔


”اذلان بس بند کرواٶ فوشوٹ مجھ سے اور نہیں کھڑا ہوا جارہا ہے۔۔“ کچھ اور پوز بنواکر وہ ایک دم ہی ہرشے سے بےزار ہوٸی۔کچھ اسے ہلکے ہلکے سے چکر بھی محسوس ہورہے تھے۔


”طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔“ وہ فوراً ہی فکرمند ہوا اور اس کا ماتھا چھوکر دیکھنے جو ہلکا ہلکا گرم محسوس ہورہا تھا۔


”تمہیں پھر بخار ہورہا ہے ۔ دوا لی تھی تم نے؟“ فوٹو گرافر کو منع کرتا وہ اس کا ہاتھ تھامے فکرمندی سے پوچھتا اسے اپنے ساتھ لۓ بیٹھ چکا تھا۔


”والدہ نے دوا دی تھی لیکن میں کھانا بھول گٸ ۔ کلچ میں ڈال لی تھی شاید!“ وہ نقاہت ذدہ لہجے میں کہتی صوفے سے کمر ٹکاۓ آنکھ موند گٸی۔ وہ اوپر ہی اوپر خود کو مضبوط ظاہر کررہی تھی لیکن اندر ہی اندر وہ بھربھری ریت کی طرح ڈھے رہی تھی ۔

”ریڈ چلی تمہیں علم کہ تم دنیا کی پھوہڑترین لڑکی ہو؟ دوا کلچ میں نہیں منہ میں ڈالتے ہیں ۔ اتنا بھی تمہیں معلوم نہیں!“ اس کی طبیعت کو لےکر ازحد فکرمند ہوتا وہ ڈپٹتے لہجہ میں گویا ہوا ۔


”کیا ہوا ہے؟طبیعت پھر خراب ہورہی ہے کیا؟“ ثروت بیگم اسے یوں نڈھال بیٹھا دیکھ فوراً ہی لپک کر آٸیں تھیں۔

”جی چچی! موصوفہ نے دوا جو نہیں لی۔۔“ اس نے شکایتی انداز میں بتایا۔


”دعاۓخیر کب ذمہدار بنو گی تم؟ اب تو شادی بھی ہوگٸی ہے۔ کچھ تو عقل کے ناخن لو۔ ہر وقت کی لاپرواہی نقصان ذدہ ثابت ہوسکتی ہے۔۔“ وہ اپنے ازلی جلالی موڈ میں اس کو ڈپٹ رہی تھیں جبکہ دوسری طرف وہ بامشکل رونے کی خواہش کو دباۓ بیٹھی ان کی ڈانٹ سن رہی تھی ۔ دل میں ایک ہوک سی بھی اٹھ رہی تھی کہ کاش وہ ساری عمر یوں ہی لاپرواہ بنی بنیازی میں گزار دیتی ۔ لاعلمی بھی بڑی نعمت ہے ۔ یہ بات اسے آج سمجھ آٸی تھی ۔ جس ماں کی جھڑکیں بڑی شان سے تمغے کی طرح سینے پر سجاتی تھی۔ ان پر تو شاید اس کا حق ہی نہیں بنتا تھا اورجس کا بنتا تھا وہ تو دنیا سے جاچکی تھی۔ تو پھر جو حق رکھتی تھی اس کی ذات پر، جو اسے اس دنیا میں لانے کا سبب بنی وہ ہستی کہاں تھی؟ یہی سب سوالات پےدرپے اس کی ذات کی مضبوط عمارت سےٹکراٹکرا کر اس میں دراڑیں ڈال رہے تھے ۔ اسے مسلسل خاموش دیکھ ثروت بیگم نے پریشانی سے اس کا گال تھتھپاکر اسے پکارہ ”دعاۓخیر!“ ان کی آواز پر اسے یوں لگا کہ کوٸی بہت دور سے اسے پکار رہا ہو ۔ اس نے اپنی آنکھیں پٹ سے کھلی تو ثروت بیگم کو متفکرسا اپنے اوپر جھکا پایا۔


”والدہ میں ٹھیک ہوں! بس تھکان سی محسوس ہورہی ہے۔۔“ وہ انہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اسی لۓ خود کو سنبھالتی بظاہر مسکراکر بولی تھی لیکن آنکھوں کی ویرانی نے اس مسکراہٹ کا ساتھ بلکل بھی نہیں دیا تھا ۔ اس دوران اذلان نیچے اتر کر اپنے ساتھ ویٹر کو لے آیا تھا جس کے ہاتھ میں کھانے پینے کا سامان موجود تھا ۔ اس کے ساتھ سمیرا اور سلیمہ بیگم بھی تھیں ۔ لبنیٰ اور دوسری کزنز آگے کی طرف بنے ایک اور اسٹیج پر فابیحہ کے ساتھ موجود تھیں ۔


”امی آپ پلیز اسے کچھ کھالا کر دوا دیں ۔ آفس اسٹاف آیا ہے تو میں زرا ان سے مل لوں ۔ ارحم بھاٸی بھی وہی ہیں ۔ بابا بلارہے ہیں مجھے ۔“ عجلت میں بولتا وہ ایک فکر سے بھرپور پیار بھری نظر اپنی ریڈچلی پر ڈالتا واپس پلٹ گیا۔

"میری اکلوتی بھابھی کچھ اپناخیال کرو، فٹ رکھو خود کو تاکہ ہم نندوں سے لڑنے کی طاقت آۓ تم میں۔۔“ سمیرا شرارت سے کہتی اس کے قریب ہی بیٹھ گٸ۔

”آپی آپ نند بن کر لڑنے کی تیاری پکڑیں پھر دیکھیں بھابھی بن کر میری زبان کے جوہر۔۔“ وہ بھی بظاہر لہجے کو بشاش بناتی شرارت سے بولتی سب کو مسکرانے پر مجبور کرگٸ۔


”اللہ میرے بچوں کی آپس کی محبت یوں ہی قاٸم داٸم رکھیں۔۔“ سلیمہ بیگم انہیں پیار بھری نظروں سے دیکھتی دعاگو ہوٸیں تو ساتھ کھڑی ثروت بیگم نے امین کہا۔


”چلو میری بچی کچھ کھالو پھر دوا بھی لینی ہے۔ دوا کھالو گی تو کچھ طبیعت سنبھل جاۓ گی۔ کافی مہمان تم سے ملنا چارہے ہیں ۔۔“ سلیمہ بیگم کے شفقت سے کہنے پر وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاگٸ تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


فوٹو شوٹ کے بعد کھانا اسٹارٹ ہوچکا تھا ۔ فابیحہ نے کھانے سے انکار کردیا تو لبنیٰ اسرار کرنے لگی۔


”سارا دن بھی کچھ ڈھنگ سے نہیں کھایا اور اب بھی کھانے سے انکار کررہی ہو۔ لڑکیاں تو شادی سے پہلے ڈاٸٹنگ کرتی ہیں تم انوکھی لڑکی ہوجسے شادی کے بعد یہ خیال آیا ہے۔۔“ وہ اسے آنکھیں دیکھاتیں بولی تو اس نے منہ بسورا۔


”لبنیٰ باجی اب تومیری دوست کی جان چھوڑ دیں۔ بےچاری گھربار والی ہوچکی ہے۔۔“ زبیر کی شوخی میں ڈوبی سنجیدہ آواز پر لبنیٰ تیزی سے پلٹی تھی۔

فابیحہ کا چہرہ بھی اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کھل اٹھا تھا۔ بلیک ڈنر سوٹ میں وہ کھلا کھلا سا کافی خوش لگ رہا تھا۔


”تم بدتمیز لڑکے! اب یاد آگٸ دوست تمہیں، جب سے کیا سورہے تھے؟“ اب اس کی توپوں کا رخ زبیر کی جانب ہوا تو وہ قہقہہ لگاکر ہنس پڑا۔


”خالا تو کب کی آٸی ہوٸیں ہیں۔ تم اتنے لیٹ کیوں ہو؟“ کمرے پر ہاتھ رکھے وہ کڑے تیوروں سے استفسار کررہی تھی۔


”میں کچھ دیر پہلے ہی پہنچا ہوں۔ امی لوگوں کو بھی نہیں بتایا ۔ بس فریش ہوکر چینج کیا اور سیدھا یہاں آگیا۔“ مسکرا کر کہتے وہ دیر سے آنے کی وضاحت دینے لگا

”اچھا چلو تم اپنی دوست سے مل لو، میں تب تک اپنی میاں جی کی خبر لوں جو کب سے مجھے اشارے کررہے ہیں۔۔“ وہ عجلت میں بولتی نیچے اتر گٸ تو وہ بھی مسکراتا ہوا فابیحہ کے قریب رکھے صوفے پر ٹک گیا۔


”دلہن بن کرپیاری لگ رہی ہو۔۔“ اسے باغور دیکھتے وہ شرارت سے بولا۔

”بول تو یوں رہے ہو جسے اس سے پہلے میں پیاری نہیں تھی؟“ وہ اس کا مسکراتا چہرہ دیکھتی اسے گھورتے ہوۓ بولی۔

”اتنا چہک کس خوشی میں رہے ہو؟“ اسے یوں خوش باش ریلکس دیکھ وہ تفتشی انداز میں گویا ہوٸی۔ کچھ دن پہلے تھے وہ بلکل مایوسی جیسی باتیں کررہا تھا تو پھر یہ اچانک کیا ہوگیا تھا کہ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔


”بوجو تو جانیں!“ اس نے بےنیازی سے ہری جھنڈی دیکھاٸی۔

”زبیر شرافت سے پھوٹ دو کہ آخر معاملہ ہے کیا؟ ورنہ میں نے دلہناپہ کا خیال کۓ بغیر تمہاری کٹ لگادینی ہے۔۔“ وہ انگلی اٹھاۓ اسے تنبیہہ کرتی بولی۔


”اچھا بھٸ بتارہا ہوں۔ پرسوں رمشا کی شادی تھی؟“

ہاں تم نے بتایا تھا پھر؟

”اس کے شادی والے دن دلہا کی پہلی بیوی نے آکر دھاوا بول دیا اور خوب ہی دلہا کی حجامت ہوٸی۔“

وہ خوشی میں چہک کے بتانے لگا۔


”اوگاڈ!وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔ اس کی بیوی کو کس نے بتایا کہ وہ دوسری شادی کررہا ہے؟“ وہ استہفامیہ لہجے میں بولی تو وہ بےبنیاز بنا یہاں وہاں دیکھنے لگا۔


”گھنے میسنے ہو پورے۔۔“ وہ اس کے شانے پر زودار تھپڑ مارتی بولی ۔ اس عزاز بھرے جملےپر زبیر مسکراتے ہوۓ سینے پر ہاتھ رکھے ہلکا سا جھکا تو فابیحہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ زپیر اپنی کولیگ سے محبت کرتا تھا اور وہ بھی زبیر کو چاہتی تھی لیکن جب اس نے اپنے گھر میں بات کی تو ان لوگوں نے سختی سے منع کردیا کہ وہ اس کا رشتہ اپنے بھاٸی کے بیٹے سے ہی کریں گے ۔ ادھر اس کی خالہ کو بھی تھوڑا اعتراض تھا لیکن زبیر کے منانے پر مان گٸیں تھیں۔ لیکن لڑکی والے مان کر ہی نہیں دیۓ ۔ زبیر نے کافی کوششیں کی لیکن اس کے والد ضد کے پکے اپنی ضد پر اڑگۓ۔ انہوں نے ایک مہینے کے اندر اندر شادی کی تاریخ طے کردی ۔ زبیر ان دنوں کافی اسٹریس فل تھا ۔ اس کی امی نے جب فابیحہ کا رشتہ مانگا تھا تو وہ انجان تھا لیکن جب اسے اس رشتے والی بات کا علم ہوا تو اس نے سختی سے انکار کردیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی ارحم کو رشتہ کو ہاں ہوچکی تھی۔ رمشا شروع دن سے اسے اچھی لگتی تھی ۔ گھر کی ذمہ داروں کے سبب وہ جاب کرتی تھی ۔ بہت اچھی اور مخلص لڑکی تھی ۔ وہ چاہتا تھا کہ کوٸی ایسی ہی لڑکی اس کی زندگی میں شامل ہو۔


”سب چھوڑو مجھے جلدی سے پوری تفصیل بتاٶ؟“ وہ پرجوش سی دبے دبے لہجے میں بولی۔


”رمشا کے کزن سے ایک بار میں آفس میں مل چکا تھا۔ وہ مجھے پہلی ہی نظر میں لالچی لگا۔اس کی نوکری فیصل آباد میں تھی تو وہ فیملی سے دور وہی رہتا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں ساری معلومات اکھٹی کی تو پتاچلا وہ پہلے سے شادی شدہ ایک بچے کا باپ ہے۔ میں سیدھا اس کے گھر پہنچ گیا اور ساری بات اس کی بیوی کے گوش گزار کردی ۔ پھر کیا تھا وہ بم بن کر اس کے برات والے دن پھٹ گٸ یوں اس کے کزن کا پول سب کے سامنے کھل گیا ۔ سب کے سامنے اس کی سبکی کے ساتھ پھیٹیں بھی ہوٸی ۔ رمشا کے والد یہ انکشاف برداشت نہیں کرسکے ان کی طبیعت بگڑ گٸ ۔ لڑکی کی بارات واپس جاتی تو جگ ہنساٸی کا مقام تھا۔ میں وہی تھا اس کے والد نے خود مجھے رمشا سے نکاح کا بولا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ میں جھٹ رضی ہوگیا ۔ یوں رمشا فضل رمشا زبیر بن گٸی۔۔“ وہ مزےسے ساری بات اس کے گوش گزار کرتے مسکرا کر اس کے حیرانی سے کھلے منہ کو دیکھنے لگا

”تم نے نکاح کرلیا؟“

”ہاں!“

”خالہ کو پتا ہے؟“

”انہی سے بات کرنے آیا ہوں اتنا ارجنٹ ، بڑی مشکل سے چھٹی ملی ہے۔۔“ اس کے بتانے پر فابیحہ نے اسے گھور کر دیکھا۔

”یار تمہارا ولیمہ بھی اٹینڈ کرنا تھا ۔ ایک تیر سے دوشکار۔۔“ وہ مسکین شکل بنتا ایک ہاتھ سے کان پکڑے اسے زبان دیکھاتا بولا تو وہ ایک دفعہ پھر کھلکھلاٸی تھی۔ارحم بلیو ٹیکیسڈو میں اپنے شاندار بارعب وجہہ سراپے کے میں اپنے اسٹاف اور بزنس فرینڈز کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھا تھا ۔ اس کی نظر جب فابیحہ اور اس کے ساتھ بیٹھے زبیر پر پڑی تو انہیں یوں ایک ساتھ خوش دیکھ کر اسے یہ منظر دہکتی آگ میں دھکیل گیا ۔جب سے شادی اسٹارٹ ہوٸی تھی جب سے اس کے چہرے پر مستقل اداسی نے ڈیرا ڈال رکھا تھا لیکن آج وہ اس زبیر کے ساتھ بیٹھی نا صرف خوش لگ رہی تھی بلکہ کھلکھلا بھی رہی تھی ۔ اس نے دانت پر دانت جماۓ اور زور سے مٹھیاں بھنچیں۔


”میں ابھی آیا!“ وہ ان سب سے معزرت کرتا اسٹیج کی جانب بڑھ گیا۔


”خالا نکاح کا سن کر خوب خفا ہونگی۔۔“ اب کے وہ بولی تو لہجے اور چہرے دونوں سنجیدگی سے پر تھے۔


”یار فکر ناکرو! انہیں میں منالوں گا۔ وہ اس وقت کی نزاکت کو سمجھ جاٸیں گی۔ بس شروع میں تھوڑا غصہ ہوں گی بس!“ وہ ریلکس سا کہتا آخر میں سر کھجاتے بولا۔


”فکر ناکرو ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجاۓگا۔۔“ تسلی آمیز لہجے میں کہتی اس نے جوں ہی نظریں سامنے کی ارحم کو سرد نظروں سے خود کو گھورتا پاکر اس کی جان ہوا ہوٸی۔ زبیر نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو ایک دم اٹھ کر ارحم سے بغلگیر ہوا۔


”شادی کی بہت بہت مبارک ہو۔ میں تمام فنکشں میں شامل نہیں ہوسکا اس کے لۓ معزرت!“ وہ اس سے الگ ہوتے پر جوش سا کہنے لگا ۔ ارحم نے اس کے خوش باش انداز کو باغور دیکھا۔


”کوٸی بات نہیں۔ اب تو آگۓ نا! میری بیگم اداس تھیں لیکن دیکھو تمہارے آتے ہی کسی کھل گٸیں ہیں۔۔“ فابیحہ کے جھکےسر کو دیکھ وہ چبتے لہجہ میں بولتا مسکرایا تو فابیحہ نے ایک جھٹکےسے سر اٹھاکر اس کی سیاہ گہری آنکھوں میں دیکھا ۔ جہاں اس کے لۓ ہزاروں شکوے تھے۔


”بھٸ ایک اچھے دوست کی کمی دنیا کی کوٸ شے پوری نہیں کرسکتی ہے۔۔“ وہ شرارت سے برجستہ بولا تو ارحم کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ نے جھلک دیکھاٸی۔


”سہی کہہ رہے ہو۔“ وہ سنجیدگی سے کہتا فابیحہ کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ اس کے یوں لگ کر ساتھ بیٹھنے سے اس کا سانس اٹکا تھا ۔


”آجاٶ ہمارے ساتھ یادگار پیک بنوالو، جب بھی دیکھو گے یاد رہے گا کہ اپنی بیسٹ فرینڈ کے ولیمہ میں تم شامل تھے۔۔“ ہلکا پھلکا لہجہ جتاتا ہوا تھا ۔

زبیر مسکراتے ہوۓ واپس بیٹھ گیا تو ارحم نے فوٹو گرافر کو اشارہ دیا جو ان کی پیکس لینے لگا تھا ۔

ارحم کے تاثرات دیکھ وہ جان چکی تھی کہ اس کا مزید موڈ خراب ہوچکا ہے۔ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ وہ اس کے معاملے میں کافی پوزیسو تھا۔ اسے یقیناً اس کا یوں بےتکلفی سے زبیر سے بات کرنا پسند نہیں آیا تھا ۔ اسے علم تھا کہ وہ سمجھتا ہے کہ زبیر اسے پسند کرتا ہے صرف اسی بات کو لیکر وہ زبیر سے بیر باندھے ہوۓ تھا لیکن فابیحہ نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ ہر حال میں اس کی ساری غلط فہمی دور کردے گی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


کمرے میں آکر دعاۓخیر ریلکس سی لیٹ گٸ تھی ۔

اس نے ابھی چینج بھی نہیں کیا تھا ۔ وہاں مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے اسے کافی تھکن محسوس ہورہی تھی ۔ اسے لیٹے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس کی آنکھ لگ گٸ ۔ اذلان جس وقت کمرے میں آیا تو ٹھٹھک کر رک گیا ۔ وہ توسمجھ رہا تھا کہ دعاۓخیر چینج کرکے سوچکی ہوگی لیکن اسے یوں ہی لیٹا دیکھ وہ دلکشی سے مسکراتا چینج کرنے چل دیا۔ یہ احساس ہی کتنا پرلطف روح میں اترجانے والا تھا کہ جیسے چاہا اسے پالیا ۔ وہ فریش ہوکر ٹراٶزر شرٹ زیب تن کئے گیلے بالوں میں تیزی سے ہاتھ چلاتا بیڈ کے قریب آیا ۔ وہ ایک ہاتھ گال پر رکھے کروٹ کے بل لیٹی تھی ۔ سوتے وقت وہ اس قدر معصوم لگ رہی تھی کہ اذلان کو بےساختہ ہی اس پر پیار آیا۔

اس کی نظر بھٹکی اور ناک کی نتھلی سے اسے شدید قسم کی جلن محسوس ہوٸی جو بڑی شان سے اس کے گداز شگرافی لبوں پر محو استراحت تھی۔ اس کے پھولے پھولے سے گلابی گالوں کی لالی اسے چھوکر محسوس کرنے پر اسے اکسارہی تھی ۔ وہ خود کو اس وقت بہت بےبس محسوس کررہا تھا لیکن اس بےبسی میں بھی ایک سرور سا تھا ۔ وہ اس کے چہرے پر جھکا اور اپنے بےقرار دل کو قرار دینے کے لۓ اپنے سلگتے لبوں سے اس کے گالوں پر استحقاق سے بھرپور بوسہ دیا۔


جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا

مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں

وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے

اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو

تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں


شدت بھرے لمس اور موچھوں کی ہلکی سے چبن پر اس نے بھاری پلکیں اٹھاٸیں تو اذلان کو اپنے اوپر کسی گہنے پیڑ کی طرح چھاۓ دیکھا ۔ دعاۓخیر کی نیند کے خمار میں ڈوبی کانچ سی آنکھیں اس کی شہد رنگ آنکھوں سے ٹکراٸیں تو ایک شعلہ سا لپکا تھا ۔ اذلان کے آنکھوں میں نجانے کسی لپک تھی کہ وہ بوکھلا کر اپنی سیاہ پلکوں کی چلمن گراگٸی ۔ اس کا بوکھلانا اذلان کو مزا دے گیا تبھی اس کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نے جھلک دیکھلاٸی۔


”تم اپنے ٹھرکی سے شرمارہی ہو ریڈچلی؟“ اس کی لمبی خمدار پلکوں کو انگلی کے پوروں سے چھوتا وہ خمار ذدہ لہجے میں بولا تو دعاۓخیر کا دماغ بھک سے اڑا۔


”تم میں تھوڑی سی بھی شرم باقی ہے کہ نہیں؟ ایک بیمار بندی کا تم یوں فاٸدہ اٹھاٶ گے؟“ اپنی مغلوب حالت چھپاتے وہ اسے شرم دلاتی غصے سے بھڑکی تھی۔


”شریک حیات! اسے فاٸدہ اٹھانا نہیں محبت جتانا کہتے ہیں۔۔“ وہ گھمبیر لہجے میں کہتا اس کے لبوں کو چھوتے موتی کو اپنی انگلی کے پور سے چھوتے ہوۓ بولا تو وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی۔


کیا کررہے ہو؟ دور رہومجھ سے۔۔“


”کیاکررہا ہوں؟تفصیل سے روشنی ڈالوں یا خلاصہ بہتر رہےگا؟ اور دور رہنے کی بھی تم نے خوب کہی، قریب آنے کا پکا اجازت نامہ ہے میرے پاس ۔ تم یا کوٸی بھی مجھے تم سے نا دور کرسکتا ہے نا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مجھے یہ کہے کہ میں تم سے دور رہوں۔۔“ وہ ٹہرے ہوۓ مستحکم لہجے میں بولتا اس کا چہرہ نظروں میں رکھے اس پر جھکنے لگا تو وہ اس سے دور ہونے کے چکر میں واپس بیڈ پر گرسی گٸی۔

”اذلان پلیز دور رہو۔۔“ تڑپ کر سہمے ہوۓ انداز میں کی گٸ التجا میں دکھ کی آمیزش شامل تھی۔ وہ جو شرارت پہ ماٸل تھا اس کا ایسا انداز دیکھ اس کے چہرے کی مسکراہٹ پل میں سمٹی۔


”ریڈچلی! ادھر میری طرف دیکھو ان آنکھوں میں۔۔ میں صرف مزاق کررہا تھا۔ یار یوں ری ایکٹ کرکے مجھے شرمندہ تو مت کرو۔۔“ اس کا چہرہ دنوں ہاتھوں میں تھامے وہ دکھ سے بوجھل ہوۓ لہجہ میں کہہ رہا تھا ۔ اسے برداشت نہیں ہوا تھا کہ اس کی محبت اس کے ہونے سے یوں سہمے۔


”تمہارا وقار تمہاری عزت مجھے میری جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ یقین رکھو، میں جان تو دے دوں گا لیکن کبھی بھی اس پندار کو ٹھیس نہیں پہنچاٶں گا۔“ اپنے لفظوں سے اسے معتبر کرتا وہ اس کے ماتھے پر عقدت بھرا بوسہ دیتا پیچھے ہٹ گیا۔

اس نے اپنی پرنم بھاری پلکیں اٹھاکر اس کی جانب دیکھا۔

”وہ کیوں بار باراتنی رنجور ہورہی ہے؟ بات بات پر لڑنے والی بات بے بات ہتھیار پھینک کر کیوں کمزوری پڑرہی ہے؟“ اذلان نے یہ بات اس کی بھیگی خمدار پلکوں کو پریشان کن مخفی تاثرات سے دیکھ کر سوچی ضرور تھی لیکن جب بولا تو لہجہ مختلف تھا۔


”اٹھو شاباش اٹھ کر چینج کرلو یا پھر آج بھی مجھ معصوم سے ہی اپنی خدمتیں کروانی ہیں؟ کیا زمانہ آگیا ہے،ایک وقت تھا جب بیویاں شوہروں کی خدمت کیا کرتی تھیں اور اب تو خدمتیں کرواتیں ہیں ۔ عنقریب میں بیوی کے تھلے لگا ہونگا اور لوگ مجھے زن مرید کہہ رہے ہوں گے۔۔“ وہ پٹہری سے اترتا آسمان کی جانب دیکھتے دہاٸیاں دے رہا تھا۔ اس دوران دعاۓخیر خود کو سنبھالتی اٹھ کھڑی۔


”اوور ایکٹنگ بند کرو۔۔“ اسے پیچھے کی جانب دھکیلتی وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا شرارہ سنبھالتی

ڈریسنگ میں بند ہوگٸ تھی ۔ بلیک سادہ شلوار قمیض پہنے وہ باہر نکلی تو پورے روم میں ملگجا سا اندھیرا پھیلا دیکھ وہ اپنی جگہ رک گٸی۔


دعاۓخیر! سناٹے کو چیرتی اذلان کی پیار بھری پکار پر اس کا دل سکڑ کر پھیلا تھا ۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیڈ کے قریب پہنچی ۔اس کے ملیحی چہرے پر اضطرابی کیفیت اذلان بھانپ چکا تھا۔


”آجاٶ سونا نہیں ہے کیا؟“ وہ اب کہ بولا تو لہجہ نارمل تھا۔ دعاۓخیر چپ چاپ سی اس کی جانب کروٹ لۓ ایک ہاتھ گال کے نیچے رکھے کروٹ کے بل لیٹ گٸی۔


”اذلان ایک سوال پوچھوں؟“ اس کے لہجے میں جھجھک تھی۔


”پوچھو!“ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ مسکرا کرگویا ہوا


”کیا ایک ماں جو کٸ تکالیف برداشت کرکے اپنی اولاد کو دنیا میں لاتی ہے، وہ یوں ہی کسی کو بھی اپنی اولاد سونپ سکتی ہے؟“ لہجے کی لرزش کو قابو کرتی وہ بامشکل لہجے اور لفظوں کو رواں رکھ سکی تھی۔


”ایک ماں سے زیادہ اپنی اولاد کو کوٸ نہیں چاہ سکتا ہے ۔ اگر وہ کوٸی ایسا عمل کرتی بھی تو ضرور اس کے پیچھے کوٸی ٹھوس وجہ رہی ہوگی ورنہ تم خود سوچو جو ماں نو ماہ کرب اور تکلیف میں گزارتی ہے ۔ پھر موت اور زندگی کے بیچ درد برداشت کرتی اپنی اولاد کو دنیا میں لاتی ہے۔ وہ کیسے اپنے جگر کے ٹکڑے کو کسی کو یوں ہی سونپ سکتی ہے؟ ایک ماں کی تکلیف اور حکمت صرف ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے ۔اس کا اندازہ تو تم جب ماں بنو کی تب ہوگا۔۔۔“ وہ چہرے پر نرم مسکراہٹ لۓ سنجیدگی بول رہا تھا لیکن آخری جملے پر اس کی آنکھوں کی چمک دوگنی ہوچکی تھی۔

دعاۓخیر جو کہ خاموشی اور توجہ سے اس کی ساری بات سن رہی تھی آخری بات پر سٹپٹاکر اس کی روشن آنکھوں سے نظر چراچکی تھی ۔ جس وجہ سے ایک دلکش مسکراہٹ نے اذلان کے ہونٹوں کا احاطہ کیا۔ یہ تصور ہی کتنا خوش کن تھا کہ ان دونوں کی اولاد اس دنیا میں آنکھ کھولے گی اور وہ اپنی محبت کی جیتی جاگتی نشانی کو اپنی گود میں لے سکے گا۔


”اگر کوٸی ماں اپنی اولاد کسی اور کو دے دیتی ہے تو کیا اس بچے پر یہ ظلم نہیں ہے؟ ایک بچہ اپنی ساری زندگی جن رشتوں کے ساتھ گزارے اور ایک دن اسے پتاچلے کہ وہ رشتے جن سے حق سمجھ کر وہ پیار وصول کرتا رہا اس پیار پر تو اس کا کوٸی حق تھا ہی نہیں تو سوچو زرا اس بچے پر کیا گزرے گی؟ اس کی شخصیت کی عمارت تو اس سچ کے جھٹکے سے ٹوٹ پھوٹ جاۓ گی ۔ اس کے پاس باقی بچے گا ہی کیا؟ وہ کیسے سانس لے پاۓ گا اس گھٹن میں کہ اس کی ماں نے اسے پیدا کرتے ہی کسی ناسور کی طرح اپنے آپ سے الگ کردیا۔۔“ وہ بولتے بولتے ہانپ سی گٸ۔


”شریک حیات! کس نے کہا کہ تم حارث چاچو کی اولاد نہیں ہو؟“ اب کے وہ بولا تو لہجہ کڑا جبکہ الفاظ سرد تھے۔

دعاۓخیر کو اس سے اس سوال کی توقیع ہرکزنہیں تھی تبھی ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔


”تمہیں کیسے؟“ وہ جملہ ادھورا چھوڑ بےیقین سی اسے دیکھ رہی تھی۔

”میں نے پوچھا کہ کس نے تمہارے ذہن میں یہ بات ڈالی ہے؟“ وہ اپنی جگہ سے اٹھتا بلکل اس کے قریب آکر اس کا ہاتھ تھامے اپنے لفظوں پرزور دیتا ہاتھ پر دباٶ بڑھاتے گویا ہوا۔


”اس دن جن آنٹی کو دیکھ والدہ کی طبیعت بگڑی تھی ۔ وہ آنٹی پارلر میں مجھے ملی تھیں۔ میں نے انہیں پہچان کر ان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ان کی فیملی ڈاکٹر ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ والدہ کی ۔۔“ بولتے بولتے اس کے گلے میں نمکین پانی کا گولا پھنسا تو اسے پھندا لگا لیکن وہ خاموش نہیں ہوٸ سنبھل کر پھر بولنے لگی۔


”والدہ کی بیٹی پیدا ہوٸی لیکن وہ مردہ پیدا ہوٸی۔ زینے پر سے گرنے کے بعد ان کو چوٹ لگی تھی جس وجہ سے وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکتی تھیں۔ اذلان اگر ان کی بیٹی مرچکی ہے تو پھر میں جو زندہ وجود لۓ تمہارے سامنے بیٹھی ہوں۔۔ کون ہوں؟ میری حقیقت کیا ہے؟ میں ایک جیتا جاگتا وجود ہوں تو اس وجود کو لانے والی کہاں ہے؟ کیوں مجھے پیدا کرکے کسی اور کے حوالے کردیا گیا؟ اسی کیا مجبوری رہی انہیں کہ انہوں نے اپنا ہی کلیجا نوچ لیا؟ اذلان جواب دو میرے سوالوں کا ورنہ یہ سوال میری ذات کے گنبد سے ٹکرا ٹکرا کر مجھے لہولہان کرتے رہیں گے۔“ رقت آمیز لہجے میں بولتی آخر میں وہ اپنا آپا کھوتی ہیجان خیزی سے بولتی بپھر سی گٸ تبھی اس کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑ گٸ۔ اذلان خاموش تھا بلکل خاموش ۔ جو کچھ دعاۓخیر نےبتایا تھا اگر تو وہ سچ تھا تو بہت بھیانک تھا ۔ کسی ڈراٶنے خواب کے جیسا لیکن دعاۓ خیر کو اس خواب سے جاگنے میں شاید صدیاں لگنے والی تھیں ۔ اس نے شدت سے بپھری اپنی محبت کو اپنے حصار میں لیا ۔ وہ اس کے سینے میں منہ چھپاۓ ہچکیوں سے رو رہی تھی اور وہ اسے ریلکس کرنے کو کبھی اس کی کمر رب کررہا تھا تو کبھی اس اس کے سر پر بوسہ دے رہا تھا ۔بعض دفعہ تسلی بھرے جملے ضروری نہیں ہوتے بلکہ آپ کا ساتھ اور محبت بھرا لمس ہی مقابل کی سب سے بڑی ڈھارس ہوتا ہے۔ کافی دیر بعد اذلان کو جب محسوس ہوا کہ اس نے اپنا بدن ڈھیلا چھوڑا ہےتو وہ اسے یوں ہی اپنے حصار میں لۓ تکیہ پر سر ڈال گیا ۔ وہ اس کے لۓ شدت سے فکرمند ہوچکا تھا۔ اس کے لۓ اگر یہ دھچکا ناقابل یقین تھا تو دعاۓخیر کے لۓ یہ دھچکا بہت بڑا طوفان لایاتھا ۔ نجانے قیامت آچکی تھی کہ آنے والی تھی؟؟

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی

کہ روح گرمیٔ انفاس سے پگھل جائے

محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا

کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے

زہے وہ دل جو تمنائے تازہ تر میں رہے

خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے

میں وہ چراغ سر رہ گزار دنیا ہوں

جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے


”مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔“ ارحم کے روم میں آتے ہی فابیحہ جو مضطرب سی ٹہل رہی تھی اسے دیکھ جھجھکتے ہوۓ جملہ مکمل کیا۔


”بولیں سن رہا ہوں۔۔“ آگے بڑھتے قدم رک گۓ تھے ۔ وہ سرد لہجے میں کہتا اس کی جانب پلٹا وہ شش و پنج میں مبتلا اپنی انگلیاں چٹخارہی تھی ۔ لب دانتوں میں دبانے کی غلطی ہرکز نہیں کی تھی ۔ ورنہ اس نے مزید بھڑک جانا تھا ۔ ارحم نے ایک بار بھی اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا لیکن اب دیکھا تو نظریں ہٹنے سے انکاری ہوٸیں ۔ نیوی بلیو میکسی میں چاندنی سے دمکتا حسن آنکھوں کو خیراں کررہا تھا ۔ دل میں نرم گرم جزباتوں نے انگڑاٸ لی ۔ اس سے پہلے کے وہ جزبات کی رو میں بہکتا فابیحہ کی مترنم آواز اسے مدہوشی سے عالم ہوش میں لاٸی۔


”ہم بیٹھ کر بات کریں؟ کھڑے ہوکر بات نہیں ہوسکے گی۔۔“ اپنی کپکپاتی ٹانگوں کے سبب اس کے الفاظ بھی لرزے سے تھے۔


”آپ تو بیٹھ ہی جاٸیں، اس سے پہلے کہ فرش کو سلامی دے دیں۔۔“ اس کی حالت کے پیش نظر وہ لطیف سا طنز کرگیا ۔ ارحم کے بولنے کی دیر تھی وہ جلدی سے بیڈ پر بیٹھ گٸی ۔ بیٹھنے کے بعد اس نے ارحم کو چور نظر سے دیکھا ۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ کیا چاہ رہی ہے تبھی خود بھی قدم بڑھاتا اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا تھا ۔ اس کے مخصوص کلون کی خوشبو نے فابیحہ کو اپنے حصار میں لیا تو اس نے گہرا سانس کھینچ کر اس خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا ۔


”اگر انہیں پتاچلے کہ مجھے ان کے کلون کی خوشبو کس قدر لبھاتی ہے تو وہ میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟“ چہرہ جھکاۓ بیڈ پر ٹانگیں لٹکاۓ ایک دم ہی اس کے دل میں خیال آیا۔


”میں انتظار کررہا ہوں، اگر اپنے اپنا مشغلا مکمل کرلیا ہوتو ہم بات کرسکتے ہیں۔۔” ارحم کی سنجیدگی سے پربھاری آواز پروہ بڑبڑاکر سیدھی ہوٸی۔ وہ جانتا تھا کہ فابیحہ کیا سوچ رہی ہے لیکن اس نے جتاکر اسے شرمندہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔


”ارحم آپ کو لگتا کہ اگر میں کسی اور کو پسند کرتی تو آپ کے رشتے کے لۓ یوں حامی بھرتی؟“ ٹہرے ہوۓ ہموار لہجے میں اس نے سنجیدگی سے اپنے مہندی سے سجے ہاتھوں کو دیکھ کر اس سے سوال کیا تھا کیونکہ یہ سوال وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ہرکز نہیں کرسکتی تھی۔


”یہ سوال مجھ سے زیادہ آپ کو خود سے کرنا چاہیۓ۔“ وہ سپاٹ لب و لہجے میں بول کر اسے دیکھنے لگا جو اب مضطرب سے اپنی چوڑیوں کو انگلیوں سے آگے پیچھے کررہی تھی ۔ ارحم کے سپاٹ انداز پر فابیحہ نے چہرہ گھماکر اس کی جانب دیکھا تو اسے باغور خود کو تکتا پاکر اس نے سرعت سے نظریں چراٸیں ۔ وہ ان نظروں کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتی تھی ۔ کچھ سیکنڈ کی خاموشی کے بعد وہ پھر بولنا شروع ہوٸی۔۔


”میں منافق نہیں ہو کہ دل میں کسی اور کو بساٶں اور زندگی میں کسی اور کے بس جاٶں۔ مجھ پر کوٸی زور زبردستی نہیں تھی۔ میں اگر زبیر سے شادی کرنا چاہتی تو کون روک سکتا تھا مجھے؟سب ہی تو تیار تھے کہ میں بس ہاں بول دوں یا آپ کے لۓ یا پھر زبیر کے لۓ! میں اور زبیر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں لیکن جسٹ لاٸک فرینڈ! بچپن سے بہت کلوز رہے ہیں ہم۔ ایسے ہی کلوز جیسے میں یہاں دعاۓخیر سے کلوز ہوں۔ نا ہی زبیر اور نا ہی میں! ہم دونوں ہی اس طرح نہیں سوچتے جس طرح میری خالہ نے سوچ کر رشتہ ڈالا۔ آپ کی طرح سب کو بھی یہی لگتا تھا کہ شاید ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنی کولیگ رمشا سے محبت کرتے ہیں اور یہ بات پورے گھر میں صرف میں جانتی ہوں۔ بلکہ اب تو اس لڑکی سے ان کا نکاح بھی ہوچکا ہے۔“ سنجیدگی سے کہتے اس نے ساری تفصیل اس کے گوش گزار کردی اور وہ سب بھی بتادیا جو زبیر نے اسے بتایا تھا۔ وہ جوں جوں بول رہی تھی کوٸ پہاڑ تھا جو ارحم کے سینے پر سے سرکتا جارہا تھا ۔ یوں لگتا تھا کہ وہ کسی بوجھ سے آزاد ہوا ہو اور کتنے برسوں کے بعد کھل کر سانس لی ہو۔ لیکن نارضگی اب بھی قاٸم تھی۔ تبھی جب وہ بولا تو لہجہ پر شکوہ تھا۔

”اگر ایسی کوٸی بات نہیں تھی تو آپ نے اس دن جھوٹ کیوں بولا؟“ اس کے شکوہ کرنے پر فابیحہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔


”کب کی بات کررہے ہیں؟“ وہ بڑی بڑی گرے آنکھیں پوری واں کۓ سوال کرتی اس کے جزباتوں میں ہلچل مچارہی تھی لیکن وہ ہر حال میں آج تمام بات کلیٸر کرلینا چاہتا تھا ۔ تبھی اس نے نظریں پھیریں۔


”اس دن جب آپ چھت پر گٸیں تھیں تو میں پیچھے آیا تھا۔ آپ زبیر سے بات کررہی تھیں ۔ آپ کے لفظوں سے میں غلط رخ سوچنے لگا تھا لیکن میں پھر بھی آپ کے پاس آیا بات صاف کرنے لیکن آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ مجھ سے بات چھپاکر مجھے شک میں مبتلا کیا۔ آپ نہیں جانتی ایک مرد فطرتاً شکی ہوتا ہے! وہ اعتبار صرف اور صرف خود پر کرتا ہے ۔ ورنہ اس کی نظر میں سب ہی بےاعتبار ہوتے ہیں خاص کر بیوی! اور اگر ایسی بیوی جس سے وہ مرد پیار بھی کرتا ہو تو ساری عمر یہی شک کرتے گزار دیتا ہےکہ وہ اس سے اتنی محبت کرتی بھی ہے جتنی میں کرتا ہوں؟ بعض مرد اپنا شک ظاہر کردیتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس آگ کو اپنے اندر دبالیتے ہیں۔ آپ جانتی ہیں آپ کی بات چھپانے کی وجہ سے میرے شک کو ہوا ملی؟ میں خود بھی ذہنی اذیت میں مبتلا رہا اور آپ کو بھی اسی کیفیت سے دوچار کیا۔ بتاٸیں ایسا کیوں کیا آپ نے؟“ پرشکوہ لہجے میں اچانک غصہ جھلکا تو اس نے فابیحہ کے دونوں شانوں کو تھام کر اس کا رخ اپنی جانب موڑ لیا ۔ اس کی برہم آنکھوں میں دکھ کی آمیزش بھی تھی۔ شاید وہ اس کے یوں بات چھپانے سے ہرٹ ہوا تھا۔ فابیحہ نے شرمندگی میں گھرکر نظریں چرالیں۔


”آپ جانتی ہیں اس جھوٹ نے مجھے اذیت پہنچاکر ہمارے خوبصورت رشتے کو بدصورتی میں بدلنا چاہا؟اگر آپ مجھ سے نا چھپاتی اور مجھے سچ بتادیتی تو نا آپ ذہنی کوفت سے دوچار ہوتی اور نا میں خود اذیتی میں مبتلا ہوتا۔۔“ وہ سرد شکایتی لہجے میں گلا کررہا تھا ۔ اچانک ہی فابیحہ کے آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا پھر دوسرا تیسرا اور ایک کے بعد ایک شفاف موتی اس کے گالوں پر بکھرنے لگے ۔ ارحم ان آنسوؤں کی برسات دیکھ بری طرح بھوکھلایا۔


”فابی میری جان!رو کیوں رہی ہیں؟“ پیار بھرے لہجے میں استفسار کرتے وہ ایک ہاتھ سے اس کی تھوڑی پکڑکر چہرہ اونچا کۓ دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں سے ان قیمتی موتیوں کو چننے لگا۔

”میں نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ سچ میں زبیر سے بات کرنے کے فوراً بعد ہی ثانی کی کال آگٸ تھی۔ جب آپ پوچھنے آۓ تو میں نے آدھا سچ بتادیا۔ آپ کومیرا زبیر سے بات کرنا پسند نہیں تھا ۔ میں نے سوچا کہیں زبیر کا نام سن کر آپ بھڑک نا اٹھیں ۔ویسے بھی اچھا دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کے راز کو راز رکھے اور میں بہت اچھی دوست ہوں۔“

وہ سوں سوں کرتی اپنی ناک رگڑتی ارحم کو اتنی پیاری لگی کہ اس نے جھک کر اس کی سرخ ناک کو چوم لیا ۔ اس کے دہکتے لمس پر وہ بھوکھلا کر پیچھے کھسکی ۔ دل نے دوسو چالس کی رفتار پکڑی تھی اور چہرہ ایک دم گلوگلنار ہوگیا تھا۔ اس کے یوں پھرتی سے دور ہونے پر ارحم کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ آٸی۔ جسے اس نے بامشکل دبایا۔


”آپ ایک اچھی رازدار ہیں تو اب کیوں اپنے بےچارے دوست کا راز کا فاش کردیا؟“ بول وہ بےشک سنجیدگی سے رہا تھا لیکن اس کا لہجہ صاف چھیڑتا ہوا محسوس ہوا تو فابیحہ نے ایک تیکھی نظر اس پر ڈالی

”میں اب بھی اچھی راز دار ہوں لیکن اب یہ راز،راز نہیں رہے گا۔ کیونکہ زبیر بھاٸی خالہ کو اپنے نکاح کا بتاچکےہونگے اور وہ کل یہاں امی کے پاس پہنچ جاٸیں گی۔ اس طرح یہ بات سب کے علم میں آجاۓ گی۔“ وہ اپنی دوستی پر الزام آتے دیکھ سخت برا مناتی بولی تھی ۔ ارحم نے اسے ہمیشہ اپنے سامنے بوکھلاتے گھبراتے سٹپٹاتےدیکھا تھا ۔ اس کا یہ والا روپ اسے سچ میں لطف دے گیا تھا۔


”مجھے آپ پر غصہ تو بہت تھا لیکن آپ نے میرا سارا غصہ مجھے یوں مناکر ختم کردیا یعنی میں آپ کی زندگی کافی اہمیت رکھتا ہوں اور ایک بات تو میں آج تسلیم کرتا ہوں کہ آپ ایک اچھی دوست اور رازدار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی بیوی بھی ہیں۔ جو یہ اچھے سے جانتی ہے کہ شوہر کو کیسے رازی کیا جاتا ہے۔۔“ شرارت بھری سنجیدگی سے بولتے اس نے اچانک ہی فابیحہ کو اپنی جانب کھینچا تو وہ سیدھی اس کے چوڑے سینے سے آلگی ۔ اس کے ٹکرانے سے ارحم یوں لگا جیسے خوشبو سے بھری لچک دار ٹہنی اس سے ٹکراٸی ہو۔ ارحم نے سختی سے اس کے گرد حصار قاٸم کیا تو وہ اس مضبوط گھیرے میں کسمساکر رہ گٸی۔


”کل تو بچت ہوگٸ تھی آپ کی لیکن آج میں سارے حساب بےباک کرنے والا ہوں۔ میری ایک گولڈن ناٸٹ تو ناٸٹ میر بن کر گزرگٸ لیکن آج کی رات میں ہرکز اسے ناٸٹ میر بننے نہیں دوں گا۔ بہت گریز برداشت کیا میں نے لیکن اب آپ کی باری ہے میری شدت بھری محبتیں اور جسارتیں برادشت کرنے کی۔۔“ اسے اپنے مضبوط حصار میں قید کۓ وہ اس کی دلفریب مہک کو سانسوں میں اتارتے گھمبیر معنیٰ خیز لہجے میں بولتا اس کا دم خشک کرگیا۔

ارحم! اس نے روہانسی لہجے میں اس کا نام پکارا تو ارحم نے نرمی سے اسے خود سے الگ کرتے اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا ۔ شرم و حیا کے سبھی رنگ اس کے چہرے کو تابناکی بخش رہے تھے ۔


”میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں ۔ یہ بات کبھی نہیں بھولۓ گا۔۔“ مخمور حدت بھرے لہجے میں کہتے اس نے شدت سے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھے تو وہ گھبرا کر واپس اس کے سینے میں خود کو چھپاگٸ ۔

”میں بہت خوش نصیب ہوں۔۔“ گھمبیر لہجے کی سرگوشی اسے مزید خود میں سمیٹ گٸ تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اذلان کی آنکھ دروازہ بجنے کی آواز پر کھلی۔

اس نے گھڑی کی سمت نظر ڈالی جو ساتھ بجارہی تھی ۔ پھر اس نے اپنے سینے میں منہ دیۓ سورہی دعاۓخیر کو دیکھا ۔ آرام سے اس کا سر تکیۓ پر رکھتے وہ اٹھنے لگا تو وہ ہلکا سا کسمساکر دوبارہ سوگٸی۔ اس نے جلدی جلدی بالوں میں ہاتھ چلاکر سلیپر پہنے اور لاک گھماکر ڈور کھول دیا تو سامنے سلیمہ بیگم کی پریشان صورت نظر آٸی۔


”امی خیریت ہے؟“ وہ فوراً ان کے شانوں پر بازو پھیلاۓ متفکر ہوا۔


”کہاں خیرت ہے۔ تھوڑی دیر پہلے ہی فراز کی بہن کی کال آٸی تھی ۔ اس کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ۔ بہت پریشان تھی رورہی تھی ۔ فراز اور ثاقب کے نمبر بند تھے تو اس بچی نے لینڈ لاٸن پر کال کی ۔ میری بات ہوٸی ہے ۔ تمہاری بابا بھی مسجد سے ابھی تک نہیں لوٹے ۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا پریشانی میں تمہارا دروازہ ہی کھٹکھٹا دیا۔۔“ وہ ازحد فکرمندی میں گھیریں ساری بات اس کے گوش گزار کرتی ہولیں۔


”امی اچھا کیا نا کہ میرے پاس آگٸیں۔ ورنہ اکیلی پریشان ہوتیں۔“ ماں کو یوں فکرمند دیکھ وہ ان کے سر پر پیار دیتا نرمی سے ان کا ہاتھ تھامے تسلی آمیز لہجے میں بولا۔


”ماں باپ تو پہلے ہی پاس نہیں اللہ کو پیارے ہوگۓ اور اس پریشانی کی گھڑی میں دونوں بھاٸی بھی موجود نہیں تو سوچو وہ اکیلی کتنا پریشان ہورہی ہوگی؟ تم ایساکرو جاکر انہیں بتاٶ میری تو ہمت نہیں ہے۔“ وہ پریشانی سے اس کا چہرہ دیکھتی بولیں

”اچھا آپ ریلکس رہیں ۔ زیادہ مت سوچیں اپنی طبیعت خراب کرلیں گی۔ آپ کی بہو کی خدمتیں کرکے کے تھک گیا ہوں اب آپ کی بھی کرنی پڑیں تو خود بھی بیمار پڑجاٶں گا پھر میری خدمتیں کون کرےگا؟“ وہ شرارت سے کہتا انہیں چھڑنے لگا

تاکہ وہ تھوڑا ریلکس فیل کریں۔


اذلان مار کھاٶ گے؟“

”نہیں ناشتہ!“ ان کے گھور کر کہنے پر وہ برجستہ بولا توانہوں نے اس کے مضبوط شانے پر ایک ہاتھ مارا۔

”اچھا آپ پریشان نا ہوں میں فراز بھاٸی کے پاس انہیں اطلاع کرنے جارہا ہوں۔۔“ اپنے پیچھے آہستگی سے دروازہ بند کۓ وہ سلیمہ بیگم کو نیچے بھیج کر آگے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔ جہاں مزید کمروں میں سے دو کمروں میں اس کی دونوں بہنیں قاٸم پزیر تھیں ۔ اس نے دروازے پر دو سے تین دفعہ ناک کیا تو لبنی مندی مندی آنکھوں سے دروازہ کھلے حیرت سے صبح ہی صبح اذلان کو اپنے دروازے پر کھڑا دیکھ رہی تھی۔

”کیا ہوا؟“ جماٸی کو روکنے کےلۓ وہ منہ پر ہاتھ رکھتی بولی تھی۔

”اقرا باجی کے شوہر کا اکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔“ اس کی نیند کو بھگانے کے لۓ اذلان نے شاکنگ نیوز دی تو ان کی نیند واقعی رفوچکر ہوگٸ۔


”کیا کہہ رہے ہو؟ کب ہوا یہ؟ ہمیں تو کوٸی کال نہیں آٸی؟“ وہ بوکھلاکر کر پہ در پہ سوالات پوچھنے لگیں۔

”آپ لوگوں کے فون یا تو ساٸلنٹ ہیں یاپھر آف ہیں۔

تبھی انہوں نے لینڈلاٸن پر کال کی تھی ۔ آپ فراز بھاٸی کو اٹھاٸیں میں ٹریول ایجنسی کال کرکے ٹکٹس کنفرام کرتا ہوں۔دیکھتے ہیں کب تک کے ٹکٹس ملتے ہیں؟“ اس کے پریشان کن تاثرات دیکھتا وہ سنجیدگی سے بولا۔


”یہ اچھا ہوجاۓگا میرے بھاٸی! تم جلد سے جلد ٹکٹس کا کرادو کیونکہ ہمیں وہاں جلد از جلد پہچنا ہوگا۔ میں انہیں جب تک اٹھاتی ہوں۔“ وہ عجلت میں کہتی واپس پلٹ گٸ ۔ اذلان واپس روم میں آیا اور ٹریول ایجنسی کال کرکے بڑی مشکل سے چار گھنٹے بعد کی فلاٸٹ کنفرم کرواٸی ۔ لبنیٰ کو میسج کرکے وہ واش روم فریش ہونے چل دیا۔ دعاۓخیر سکون سے سورہی تھی تو اس نے اسے سونے ہی دیا تھا ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


ارحم کی آنکھ کھلی تو اپنے پہلو میں بےخبر سوۓ وجود کو دیکھ اس کے لبوں نے مسکراہٹ کو چھوا تھا ۔ وہ اس کی محبت اس کے چاہت کے خوشنما رنگوں میں رنگی اور بھی حسین لگ رہی تھی ۔ اس کے کالے لمبے بالے کچھ تکیے پر کچھ اس کے اطراف پھیلے ہوۓ تھے۔ کھلا کھلا چہرہ اسے پھر کسی حسین جسارت پر اکسارہا تھا ۔ اس کے گلابی نازک لب ارحم کو پھر شرارت پر ماٸل کررہے تھے ۔ وہ مسلسل اس پر نظریں جماۓ ہوۓ تھا اور اس کا پاگل دل اسے اس منظر سے نظر ہٹانے کی بلکل اجازت نہیں دے رہا تھا۔


باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو

جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو

پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں

کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو

جیسے بالوں میں کوئی پھول چنا کرتا ہے

گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو

کیا عجب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں

کر کے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو

اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے

اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو

کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو

کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو

ہے تمہارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں

اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو

جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو

ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو

جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور

اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو

اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم

ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو


اس کی نظروں کی حدت تھی کہ وہ نیند میں کسمساٸی اور ایک دم ہی اس کے جانب سے کروٹ بدل لی ۔ اس کے بال سارے اس کے چہرے کو ڈھانپ گۓ تو ارحم کے ماتھے پر تیوریاں چڑھیں۔ وہ چاند چہرہ بادلوں میں چھپ گیا تھا جو اسے ہرکز گوارا نا ہوا۔ وہ آگے کو جھکا اور ہاتھ بڑھاکر سارے بال سمیٹ دیۓ ۔ اس کے رشمی ملاٸم بال اپنی مٹھی میں بھر کر اس نے چہرہ قریب کرکے ایک لمبی سانس بھری اور پیار سے ان خوبصورت گیسوٶں کو چوم لیا۔


”اٹھ جاٸیں میری معصوم زندگی! زندگی کی نٸی خوبصورت صبح آب وتاب سے روشن ہوچکی ہے اور آپ جنابہ ابھی تک نیند کی بانہوں میں محو استراحت ہیں ۔ اٹھ جاٸیں کہ اس سے پہلے میں پھر بہک جاٶں۔ پھر آپ کو ہی مجھ سے شکایت ہوگی۔“

اس کے کان کی جانب جھکے مخمور بوجھل لہجے میں کہتے اس نے دھیرے سے اس کے کان کی لو کو چوما تھا ۔فابیحہ جو گہری نیند میں تھی گھمبیر سرگوشی اور حدت بھرے لمس پر اس کی آنکھیں پٹ سے کھلیں تھیں ۔ ارحم کو اپنے اوپر جھکا دیکھ اس کا چہرہ گلابی سے سرخ ہوا اور اسی تیزی سے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا ۔ اس کی اس جان لیوا ادا پر ارحم نے دلکش قہقہہ لگایا ۔


”ارحم آپ مجھے تنگ نہیں کریں پلیز! مجھے اٹھنا ہے۔۔“ وہ یوں ہی چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ ملتجی لہجے میں گویا ہوئی۔

”یہ بات آپ رات کو کہتی تو میں مان بھی لیتا۔ اسوقت میں یہ الزام قطعی اپنےسر نہیں لوں گا۔۔“ وہ اپنے ازلی سرد انداز میں بول رہا تھا لیکن لہجے کی زومعنیت و بےباکی صاف عیاں ہوکر اسے بوکھلاۓ دے رہی تھی۔


”اور اٹھنے کی بھی خوب کہی۔ میں نے کونسا آپ کو اپنے بانہوں کے حصار میں قید کیا ہوا ہے۔“ وہ اب بھی شرارت پر ماٸل تھا ۔ اس کے بدلے ہوۓ انداز فابیحہ کو رات سے بوکھلاۓ سٹپٹاۓ دے رہے تھے ۔


”بانہوں میں نہیں لیکن آپ نے مجھے نظروں میں ضرور قید کیا ہوا ہے۔ اگر آپ یوں ہی مجھے تنگ کرتے رہے تو میں رودوں گی۔۔“ اب کے لرزتے لہجے میں دھمکی کی آمیزش بھی شامل تھی۔ جس سے وہ کافی متاثر ہوا۔


”اگر آپ کا ایک آنسو بھی گرا تو یاد رکھیۓ گا وہ آنسو پھر میں اپنے محبت بھرے لمس سے چنوں گا۔۔“ وہ بھی ارحم تھا جوابی دھمکی کے ساتھ اسے

تنبیہہ بھی کردی تو اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹاکر اسے شکایتی نظروں سے دیکھا۔


”یوں نظروں کے تیر نا چلاٸیں ۔ دل پہلے ہی گھاٸل ہے۔ اب کیا جگر بھی چھلنی کرنے کا ارادہ ہے!“ مسکراہٹ دباۓ وہ سنجیدگی سے کہتا اس کے چہرے پر جھکا اور محبت سے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا ۔ محبت کے اس اعلیٰ اظہار پرفابیحہ کی نظریں جھک گٸیں تھیں۔


”اٹھ جاٸیں جاکر فریش ہوں۔۔“ سنجیدگی سے اس کا گال تھپتھپاکر وہ پیچھے ہوگیا تو فابیحہ بجلی کی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر ڈریسنگ روم میں غاٸب ہوگٸ ۔ اس کی پھرتی کو ارحم نےسرہاتی نظروں سے دیکھا اور مسکرادیا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”بیٹا پریشان مت ہو ان شاء اللہ بہتر ہوگا۔ وہاں پہنچ کر مجھے فوراً کال کرنا۔۔“ وارث صاحب نے فراز کو گلے لگاکر تسلی کے ساتھ ہدایت بھی کی۔


”انکل بس آپ سب دعا کریں بھاٸی صاحب کا آپریشن کامیاب رہے ۔ ان کے سر میں چوٹ آٸی ہے جس وجہ سے ہم زیادہ فکر مند ہیں۔ وہ ہمارے باپ کی جگہ ہیں ان کا ہونا ہمارے لۓ گھنے سایہ جیسا ہے۔“ بولتے ہوۓ اس کی آواز بھراگٸ تو حارث صاحب نے تسلی اور حوصلے کے لۓ اس کے شانے تھپتھپاۓ ۔ ثاقب کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال تھا ۔ لبنیٰ سمیرا بھی کافی متفکر تھیں بچے الگ پریشان تھے ۔ وہ سب سامان پیک کۓ جانے کے لۓ تیار تھے ملازم گاڑی میں سامان رکھوارہے تھے۔ اس وقت سبھی سیٹنگ ایریا میں موجود تھے ۔ اذلان اور وارث صاحب انہیں چھوڑنے جارہے تھے ۔ ارحم اور حارث کووارث صاحب نے ساتھ جانے سے روک دیا تھا۔

”میری پیاری بچیوں پریشان مت ہونا بس دعاکرو ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔“ ثروت بیگم باری باری ان دونوں کو گلے لگاکر ماتھے پر پیار دیتی تسلی آمیز لہجے میں بولیں ۔ سلیمہ بیگم نے بھی بیٹیوں اور بچوں کو گلے لگا کر پیار دیا دامادوں کے سر پر ہاتھ رکھے ۔ وہ سب لوگ ارحم اور حارث صاحب وغیرہ سے مل کر ایٸرپورٹ کے لۓ نکل گۓ تھے ۔ حارث صاحب ان کے جاتے ہی آفس کے لۓ نکل گۓ تھے جبکہ وارث صاحب کا وہی سے آفس جانے کا پروگرام تھا اور اذلان نے سیدھا گھر آجانا تھا۔ ارحم اور اذلان کو کچھ دنوں کے لۓ وارث صاحب نے آفس سے دور رہنے کو کہا تھا ۔ابھی انہیں بیٹھے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ سلیمہ بیگم کی چھوٹی بہن طلعت چلی آٸیں ۔ وہ کافی غصے میں تھیں جبکہ ان کے پیچھے زبیر بھی پریشان چہرہ لۓ چلاآرہا تھا۔ ارحم نے ان دونوں کو دیکھ فابیحہ کو ایک نظر دیکھا جس کے اپنے چہرے پر پریشانی چھلکنے لگی تھی ۔


”طلعت کیا ہوگیا؟ اتنے غصے میں کیوں لگ رہی ہو؟“سلام دعا کے بعد وہ ان ماں بیٹے کا چہرہ دیکھتیں فکرمندی سے پوچھنے لگیں۔


”باجی مجھ سے نہیں اپنے بھانجے سے پوچھیں کہ یہ اسلام آباد میں کیا چاند چڑھاکر آیا ہے۔“ وہ غصے میں پھٹ پڑیں۔


”امی کیا بول رہی ہیں؟سب کچھ تو آپ کو بتایا ہے اور آپ پھر بھی ایسی باتیں کررہی ہیں؟“ اب کے وہ بھی جھنجھلایا تھا ۔ رات کو جب اس نے اپنے نکاح کا بتایا تو پہلے وہ شاک رہ گٸیں پھر خوب ہی رو رو کر واویلا مچایا ۔ صبح ہوتے ہی بات بات پر غصے بھرے جملوں کے ساتھ طعنے بھی مارے جارہی تھیں ۔ تایا چچا الگ خفا ہورہے تھے ۔ وہ تو کچھ گھنٹوں میں ہی گھن چکر بن کر رہ گیا تھا ۔


”باپ تو سر پر رہا نہیں ہے اور ماں کو آجکل کی اولاد کسی گنتی میں شمار نہیں کرتی۔۔“ وہ اس دفعہ رقت آمیز لہجے میں بولیں تو زبیر نے جزبز ہوتے پہلو بدلا۔


”کوٸی مجھے بتاۓ گا کہ آخر ہوا کیاہے؟اس طرح تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہاہے۔۔“ سلیمہ بیگم ان دونوں کو دیکھتی نرمی سے استفسار کرنے لگیں ۔ ثروت بیگم بھی پریشان سی بیٹھیں تھیں ۔ دعاۓخیر نے ارحم اور فابیحہ کو دیکھا جو کافی ریلکس لگ رہے تھے ۔ جسے انہیں سب باتوں کا علم ہو

”آپ کو علم ہے کہ یہ گرج چمک کیوں ہورہی ہے؟“

دعاۓخیر اس کے کان میں گھسی پھسپھساٸی۔


”سن لو زبیر بتاہی رہا ہے۔۔“ فابیحہ نے بولتے ہوۓ سامنے کی جانب اشارہ کیا ۔ جو ساری بات تفصیل سے سلیمہ بیگم کو بتارہا تھا۔ اس کی ساری باتیں سن کر انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری اور ایک نظر سوں سوں کرتی ثروت کے ساتھ بیٹھی اپنی بہن کو دیکھا۔

”ہم کون ہیں طلعت؟“ ان کے غیر متوقع بات پر سب نے حیرانگی سے ان کی جانب دیکھا۔


”مسلمان ہیں۔۔“ وہ رونا بھول کر حیران سی بولیں تھیں۔

”تو باحثیت ایک مسلمان ہمارا ایمان یہ کہ جب تک اللہ نا چاہے کوٸی کام عمل میں نہیں آسکتا اور یہ کہ اللہ کے ہر کام میں حکمت پوشیدہ ہے؟“ سنجیدگی سے پوچھی گٸ بات پر انہوں نے جھٹ اثبات میں سر ہلایا

”تو پھر تم اتنا واویلا کیوں مچارہی ہو؟ یہ سوچ کر صبر کیوں نہیں کررہی کہ اس میں میرے رب کی کوٸی حکمت پوشیدہ ہوگی؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیۓ کہ تمہاری اولاد نے ایک لڑکی کی زندگی برباد ہونے سے بچالی۔ تمہیں تو اس پر فخر ہونا چاہیۓ۔ الٹا تم نے رات سے اس کی جان کو سولی پر لٹکایا ہے۔ ماں ہوکر تم اگر اس کا ساتھ نہیں دوگی تو اور کون اس کے ساتھ کھڑاہوگا؟“ دھیمے انداز میں انہیں سمجھاتے آخر میں ان کے لہجے سے ناراضگی جھلکی تو طلعت بیگم شرمندہ سی نظریں جھکاگٸیں۔


”آپا آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں کچھ زیادہ ہی جزباتی ہوگٸ۔ میں بھی کیا کرتی اس کے چچا تایا اتنے ناراض ہورہے تھے ۔ مجھے بھی کچھ سمجھ نہیں آیا۔ لیکن اب چاہے کوٸی کچھ بھی کہے میں اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑی ہوں ۔“ اب کے وہ بولیں تو لہجہ مستحکم اور دو ٹوک تھا ۔


”کھل کر سانس لے لو، رضا مندی مل گٸ ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی گھوڑی بھی چڑجاٶں گے۔۔“ کب سے پریشان بیٹھے زبیر کو دیکھتے ارحم نے سنجیدگی سے شوشا چھوڑا تو وہ حیران ہوکر اسے دیکھنے لگا ۔ جو بندہ اسے دیکھ کر تیوری چڑھا لیتا تھا اور بولتے یوں تھا کہ پتھر مار رہا ہو۔ وہ اس سے نا صرف نارمل بات کررہا تھا بلکہ درپردہ اسے چھڑ بھی رہا تھا۔ اس کایہ پلٹ پر اس کا حیران ہونا تو بنتا ہی تھا ۔ جبکہ فابیحہ مسکرا کر اسے وکٹری کا نشان بنا کر وش کررہی تھی ۔ دعاۓخیر کو بھی اسے مبارک باد دے رہی تھی ۔ طلعت بیگم کے بچیوں کے بارے میں پوچھنے پر سلیمہ بیگم انہیں ان کے جلدی جانے کی وجہ بتارہی تھیں۔ فابیحہ چاۓ کا بولنے اٹھ گٸ تھی ۔ ارحم اور زبیر ہلکی پھلکی گفتگو کررہے تھے جبکہ وہ تینوں خواتین آگے کے معاملات کے بارے میں باتیں کررہی تھیں۔ دعاۓخیر کے لۓ یہ منظر اپنا ہوکر اجنبی سا لگ رہا تھا ۔ وہ وہاں ہوکر ان سب کے ساتھ بیٹھے ہوۓ بھی خود کو سب سے الگ تصور کررہی تھی ۔ وہ کون تھی؟اس سوال کا جواب جب تک نہیں ملتا اسے یوں ہی ہلکان رہنا تھا۔

رات کا حسیں پہر اور ہر جانب پرسکوں سماں تھا ۔ گارڈن سے آتی دلفریب پھولوں کی خوشبو نے ماحول معطر کیا ہوا تھا۔ ٹھنڈی نرم ہوا چل رہی تھی جو اسے چھوکر دل و دماغ کو سکوں مہیا کررہی تھی۔ ایسے پرفسوں ماحول میں دعاۓخیر ٹیرس کی وال سے کمر ٹکاۓ سینے پر دونوں بازو لپٹے ستاروں کے جھرمٹ میں نجانے کیا ڈھونڈنے کی کوشش کررہی تھی۔


”ریڈ چلی اتنی خاموش کیوں ہو کچھ سنا ہی دو۔۔“

اذلان ٹیرس پر آتے شرارتی انداز میں کہتا اس کے ساتھ شانے سے شانا جوڑے لگ کے کھڑا ہوگیا۔


”گالیاں سنادوں؟“ وہ تپے تپے انداز میں کہہ کر اس سے دور ہوکے اپنے اور اس کے بیچ تھوڑا فاصلہ بناگٸی۔


جس میں میرے یار کی خوشی

دل حاضر،جگر حاضر، نظر حاضر

تم تیر چلاٶ یا تلوار

سب تمہارا ہے!


افشاں کنول*


وہ ترنگ میں گنگنایا۔


”ٹھرک پن کم جھاڑا کرو۔“ وہ کڑوا سا منہ بناکر واپس اپنے مشغلے میں محو ہوچکی تھی۔


”تمہاری قسمت کا ستارہ تمہارے سامنے ہے تو وہاں آسمان پر کسے ڈھونڈ رہی ہو؟“ گھمبیر لہجے میں کہتا وہ اس کے سامنے آکر اس کے اوپر کسی گھنے شجر کے سایے کی طرح جھکا تو وہ بوکھلاکر سیدھی ہوٸی۔


”کوٸ ادب لحاظ ہی کرلیا کرو۔“ وہ غصے میں تنک کر بولی۔

”کیوں تم قومی ترانہ ہو جو میں تمہارا احترام کروں؟ بیوی ہو یار اور بیوی کا احترام نہیں اس سے پیار کیا جاتا ہے۔“ برجستہ کہتے آخر جملے پر اس کا لہجہ خود بخود بوجھل ہوگیا ساتھ ہی اس نے ہوا کے جھونکے سے اس کے چہرے پر آتی بالوں کی لٹ کو اس کے کان کے پیچھے اڑسا۔ کان کی لو پر اس کی انگلیوں کے پرتپش لمس سے دعاۓخیر کا دل زور سے دھڑکا اور پلکوں پر لرزش اتر آٸی ۔ وہ جو غصے میں اپنی شہد رنگوں آنکھوں سے اسےگھور رہی تھی اچانک ہی اس کی آنکھوں میں نظر آتے شوق تقاضوں سے گھبرا اٹھی تھی۔


”اذلان اب مار کھاٶ گے تم! اپنی حد میں رہو۔“ وہ اپنی مغلوب ہوتی حالت کا سارا غصہ اس پر اتراتی بارعب لہجہ اپناتی بولی۔


”کیا بات کردی میری حیات! آپ کے شریک حیات کی حدیں لامحدو ہیں۔ مانپنے سے مانپ نہیں سکیں گی۔حدیں نا باندھیں ۔ ہم تو وہ تیزآندھی ہیں جو اپنے ساتھ ہرشے اڑالے جاتی ہے ۔ پھر چاہے وہ کسی کا غصہ ہو یا پھر گریز۔۔“ اس کو شانوں سے تھامے اپنی شریر آنکھیں اس کی گھورتی آنکھوں میں ڈالے وہ اسے باورکروا رہا تھاکہ وہ اس پر ہر طرح کا حق رکھتا ہے اور جب چاہے وہ یہ حق استعمال بھی کرسکتا ہے۔

”تم مجھے دھمکارہے ہو؟“ اس کی آواز صدمے میں ڈھلی۔

”نہیں میری ریڈچلی! میری اتنی مجال! صرف بتارہا ہوں۔“ اس کی ناک کو انگلی سے دباتے وہ متبسم لہجے میں گویا ہوا۔


”تم مجھ سے چھوٹے ہوکر یوں مجھ پر نا حکم چلاسکتے ہواور نا دھمکاسکتے ہو سمجھے!“ وہ بھڑک کراپنے شانوں سے اس کے ہاتھ جھٹکتی چٹخی تھی۔


”کیا چھوٹا چھوٹا لگا رکھا ہے؟ یوں لگتا ہے جیسے تم کوٸی بڑی عمر کی خاتون ہو اور میں تمہارا لےپالک! کچھ تو مجھ معصوم کے معصوم ارمانوں کا خیال کرو۔ شادی شدہ ہوکر بھی راتوں کو ٹھنڈی آہیں بھرتا ہوں۔ مجھ سے زیادہ بدنصیب بھی کوٸی ہوگا؟ میرا تو وہ حال ہے کہ کنواں پاس ہے پھربھی پیاسا ہوں۔ بہت ہی بےرحم،سنگدل اور۔۔۔۔“مصنوعی آہ و بقا کا گلا دعاۓخیر کے ہاتھ نے گھوٹا تھا جو اس نے سختی سے اذلان کے منہ پر رکھ دیا تھا۔

نرم و گداز ہتھیلی کا لمس اذلان کی روح تک میں تراوہٹ بن کر اترا تو لب خودبخود مسکرا اٹھے۔ آنکھوں کی چمک دگنی ہوگٸی ۔ اس کے مسکرانے سے دعاۓخیر کی ہتھیلی پر چبن کا احساس اجاگر ہوا تو اس نے بوکھلا کر سرعت سے اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا تھا۔ وہ اپنی اس بےاختیاری پر خفت کا شکار ہوتی چہرہ جھکاگٸی۔


”تم میری آواز یوں نہیں دباسکتیں۔اس معاشرے میں میرے بھی کچھ حقوق ہیں اور میں اپنا حق ہر حال میں لےکر رہوں گا۔۔“ کسی سیاسی لیڈر کی طرح میں ہاتھ نچانچاکر بولتا دعاۓخیر کو اچھا خاصہ زچ کرچکا تھا۔


”کاش بچپن ہوتا تو میں نے دو ہاتھ لگاکر اس کی گدی بجادیتی۔ اب تو یہ کام مشکل ترین ہے۔ ایک تو نجانے کھاتا کیا ہے کہ دن بادن اس کا حدودو اربعہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ دن رات جم میں گزار کر نجانے کیا سے کیا بنتا جارہا ہے۔۔ روک کا جانشین!“ اس نے جلے دل سے کڑکر سوچا تھا لیکن جب بولی تو الفاظ مختلف تھے۔


”میں پہلے ہی ڈسٹرب ہوں مجھے اور پریشان نا کرو۔ سکون کے لۓ یہاں کھڑی ہوٸی تھی اور تم کسی شیطان کی طرح آٹپکے۔“ اس نے بےزار لہجے میں ناک چڑائی۔


”یہ جو سکون حاصل کرنے کے لۓ تم کسی آتما کی طرح یہاں وہاں بھٹک رہی ہو اس سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوپاۓ۔ سکون تو تمہیں بس ایک ہی جگہ مل سکتا ہے۔۔“ کسی عالم مفکر کی طرح انتہاٸی سنجیدگی سے گویا ہوتا وہ دعاۓخیر کو اپنی جانب متوجہ کرگیا۔


”کہاں ملے گا مجھے سکون؟“ وہ بےساختہ ہی اضطراب میں گھری اس سے پوچھ بیٹھی ۔ جو سینے پر بازو لپٹے اس اپنی نظروں کے نرم گرم حصار میں رکھے ہوۓ تھا۔ وہ لگ بھی تو پیاری رہی تھی ۔ گلابی رنگ کی شارٹ فراک کے ساتھ واٸٹ پاجامہ پہنے شانوں پرواٸٹ ہی دوپٹہ لۓ، چہرے میں چھاۓ حزن وملال اور بھیگی شہد رنگ آنکھوں پر بھیگی خمدار پلکیں وہ اپنے زاہد شکن سراپے کے ساتھ اس کے دل و جاں میں اتری جارہی تھی ۔ اسے پری پیکر کو دیکھ دل کیا کیا نا خواہشیں کررہا تھا ۔ وہ جو نظروں سے اسے دل میں اتار رہا تھا اس کے سوال کرنے پر وہ دو قدم کا فاصلہ بھی سمیٹ گیا۔


”میری چاہت کی پناہ میں تمہارا سکون پوشیدہ ہے؟“گھمبیر بھاری لہجے کی سرگوشی بہت جان لیوا تھی ۔ دعاۓخیر کی ہتھیلی میں نمی اتر آٸی اوپر سے متضاد اس کی چمک دار آنکھوں کی چمک دوگنی ہوکر اسے آن کہے جزباتوں سے روشناس کروارہی تھی ۔ اس پل وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ ایک کی آنکھوں میں چاہت کا ٹھاٹھے مارتا سمندر تھا تو دوسرے کی آنکھوں میں گریز کی دیوار کھڑی تھی لیکن یہ دیوار بپھرے سمندر کی شوریدہ لہروں کے آگے زیادہ ٹیکنے والی نہیں تھی ۔ اس کی نظروں کی حدت کا کمال تھا کہ دعاۓخیر کا چہرہ تپش چھوڑنے لگا۔ پلکیں تو پہلے ہی اس قدر قربت پر اٹھنے سے انکاری تھی گلابی لبوں نے بھی کپکپاکر گویا دل کی بکھری حالت کی نشاندہی کردی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کے عقب سے نکل جاتی اس کا ارادہ بھانپتے اذلان نےدھیرے سےہاتھ بڑھایا اور اسے اپنی حدت بھری پناہوں میں لےلیا ۔ ایک پل کو دعاۓخیر کی دھڑکنیں ساخت ہوٸیں پھر سرپٹ دوڑی تھیں ۔ وہ پرسکون سا آنکھیں موندے اسے اپنے حصار میں لۓ کھڑا تھا۔ اس کے لب دعاۓخیر کے بالوں سے مس ہورہے تھے۔ وہ ساکت سی اس کے وسیع سینے میں سمائی تھی۔ اس نے سہی کہا تھا کہ واقعی اس کی حصار میں اسے کے مضطرب دل کو قرار آۓ تھا۔


”میاں بیوی کی قربت میں اللہ نے اتنی برکت رکھی ہے کہ انسان مضطرب ہو، دکھی ہو، پریشان ہو، غم سے دل و دماغ بوجھل ہوں، ان کی آپس کی قربت اس سب کیفیات کو زاٸل کردیتی ہے۔ میاں بیوی اسی لۓ تو شریک حیات کھلاتے ہیں۔ دونوں کی زندگی جڑ کر ایک ہوجاتی ہے اور دنیا کے ہر احساسات اس رشتے میں مدغم ہوجاتے ہیں۔“ پیار کی چاشنی میں ڈوبے اس کے جادوٸی الفاظ واقعی اثر رکھتے تھے۔ دعاۓخیر کے سلگتے اعصاب اور تڑپتا دل حالت سکوں میں آرہا تھا۔ کتنے ہی لمحے ان خوبصورت پلوں کی نظر ہوگۓ تھے ۔ وہ پرسکون سی آنکھیں موندے اذلان کے مضبوط حصار میں چپ چاپ کھڑی تھی ۔ تمام احساسات پر صرف ایک احساس غالب تھاکہ وہ اکیلی نہیں ہے اور یہی احساس اسے تقویت پہنچارہا تھا۔ اعصاب پرسکون ہوۓ تو دماغ بیدار ہوا۔ وہ اس کے کس قدر نزدیک تھی۔ اس سے پہلے کہ اس کی قربت میں وہ ہوش گنواتی دعائے خیر نے کسمساکر اس کی گرفت سے نکلنا چاہا تو اذلان نے شدت سے اس کے سرکا بوسہ لے کر نرمی سے اسے خود سے الگ کردیا۔


”مجھے نیند آرہی ہے۔ میں سونے جارہی ہوں۔“ خفت سے سرخ پڑتے چہرے کو جھکاکر دھیرے سے کہتی وہ پلٹ کر اندر کمرے کی طرف بڑھ گٸی۔


”آرہا ہوں میں بھی! مجھے بھی سونا ہی ہے۔ کونسا رات بھر جاگ کر قوالیاں گانی ہیں۔“ اپنی پشت پر اس کا شرارتی دہاٸی دیتا لہجہ سناٸ دیا تو دعاۓخیر کے لبوں پر نہایت خوبصورت مسکراہٹ سج گٸ لیکن وہ رکی نہیں، تیزی سے آگے بڑھ گٸ تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”یہ لیں بھابھی آگٸی گرما گرم چاۓ۔“ ثروت بیگم خوبصورت سی ٹرے میں دو بھانپ اڑاتے چاۓ کے کپ لۓ روم میں داخل ہوتی مسکرا کر بولیں۔


”بہت شکریہ ثروت واقعی اس کی بڑی طلب ہورہی تھی اور ویسے بھی تمہارے ہاتھ کی چاۓ تو ساری تھکن اتار دیتی ہے۔ یاد ہے اماں جی کو تمہارے ہاتھ کی چاۓ کس قدر پسند تھی۔ فرماٸش کرکے بنواتی تھیں۔“ ان کے ہاتھ سے چاۓ کا کپ تھماتی وہ گزرے زمانے کی خوشگوار یادوں میں کھوتی ہوٸیں بولیں۔


”جی بلکل! کیا حسین دن ہوا کرتے تھے۔ اماں جی کی شفقت بھری چھاٶں جب تک میسر رہی کوٸی غم پریشانی ان کی دعاٶں کی بدولت پاس تک نہیں پھٹکا لیکن ان کے جانے کے بعد تو جیسے سب کچھ بکھرسا گیا۔ نظر لگ گٸی گھر کے آنگن کو! جہاں ہر پل قہقہے گونجا کرتے تھے ۔ ان کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لےلی۔“ بولتے بولتے ثروت بیگم کی ذہنی رو بھٹکی اور انہیں پتا بھی نہیں چلا کہ وہ کیا بول رہی ہیں۔ تبھی سلیمہ بیگم نے ان کا ہاتھ دباکر انہیں ہوش دلایا۔

”چاۓ پیو ٹھنڈی ہورہی ہے۔“ انہوں نے ان کے ہاتھ میں تھامے کپ کی جانب اشارہ کیا تو وہ اثبات میں سرہلاکر چاۓ کا کپ ہونٹوں سے لگاگٸیں۔


”لبنی کی کال آٸی تھی؟ کیا حال ہیں وہاں کے؟“ ثروت بیگم نے خود کو سنبھال کر سر جھٹکتے سنجیدگی سے پوچھا۔


”ماشاءاللہ اس کے نندوٸی نے کافی ریکور کرلیا ہے۔ ایک دو دن تک چھٹی بھی مل جاۓ گی۔“ سرخوشی کے انڈاز سے سلیمہ بیگم بتانے پر ثروت بیگم نے بھی ماشاءاللہ کہا جبکہ سلیمہ بیگم نے چاۓ کا گھونٹ بھر کر سلسلہ کلام پھر سے جوڑا۔


”دونوں بھاٸی بزنس پارٹی کے نام پر خوب ہی انجواۓ کررہے ہوں گے ۔ آج تو نظر رکھنے کو بیویاں بھی موجود نہیں۔۔“ بیوٶں والے مخصوص لہجے میں بولتیں وہ ثروت بیگم کو ہنسنے پر مجبور کرگٸیں۔

”بھابھی بیگم آپ تو نظر رکھنا چھوڑ دیں۔ ہم بوڑھے ہوچکے ہیں۔ جو پہلے کہی نہیں گۓ وہ اب کیا جاٸیں گے؟“ گرم گرم چاۓ کی چسکی لےکر وہ لاپرواہی سے گویا ہوٸیں۔

”تم نہیں جانتی ثروت یہ مرد ذات جوانی سے زیادہ بڑھاپے میں رنگین مزاج ہوجاتی ہے۔ دیکھا نہیں کیسے بلیک تھری پیس سوٹ میں نک سک سے تیار ہوکر گۓ ہیں۔ اوپر سے وارث نے تو کلون کا بھی بےدریغ استعمال کیا تھا۔ بال بھی خوب جماجما کر بناۓ تھے ۔ میں نے خود ٹاٸم نوٹ کیا، پورا ایک گھنٹہ وہ شیشے کے سامنے کھڑے رہے۔۔“ وہ دل کی جلن اپنی دیورانی کے سامنے ظاہر کرتی بولیں۔


”بھابھی بیگم اب میں کیا بولوں!“ وہ دھیرے سے مسکرادیں۔


”اچھا خاصہ ارحم ساتھ جارہا تھاتو تم جانے دیتیں۔داماد کی موجودگی میں نظر باندھ کررکھتے اب تو انہیں مکمل آزادی ہوگی۔“ وہ کف افسوس ملتی دوبارہ شروع ہوٸیں۔


”اچھا نہیں لگتا کہ وہ نٸی نویلی دلہن کو اکیلا چھوڑ کر خود پارٹی میں جاتا۔ مجھےمناسب نہیں لگا تو میں نے روک دیا۔ اذلان نے بھی تو دعاۓخیر کی وجہ سے جانے سے انکار کردیا تھا۔ ماشاءاللہ بہت سمجھدار ہے۔ کلنڈر طبیعت کا لگتا ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو اٹھانا اچھے سے جانتا ہے۔ مجھے دعاۓخیر کی طرف سے کم از کم اس طرف سے تو اطمینان ہے۔“

وہ دھیرے دھیرے کپ کے کناروں پر اگلی پھیرتی پھر کسی گہری سوچ میں چلی گٸیں تھیں۔


”کوٸ پریشانی ہے دعاۓخیر کو لیکر؟“ وہ اب فکر بھری سنجیدگی سے پوچھ رہی تھیں ۔ وہ کافی دیر سے نوٹ کررہیں تھیں کہ وہ کچھ پریشان سی ہیں اور ان کا انداز بھی کچھ کھویا کھویا سا تھا۔


”آپ نے نوٹ نہیں کیا؟لیکن میں دیکھ سکتی ہوں۔

اس کی آنکھوں میں ان گنت سوالات ہیں۔ وہ ہر دفعہ مجھے یوں دیکھتی ہے جیسے کچھ پوچھنا چارہی ہو لیکن ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ جن آنکھوں میں ہمعہ وقت ایک شوخی سی رچی بسی ہوتی تھی ۔ اب وہاں ایک گہرا سکوت ہے اور یہ سکوت کسی آنے والے بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگ رہاہے۔

مجھے دھڑکا ہے کہ یہ طوفان اپنے ساتھ ساتھ اس گھر کی خوشیاں نا بہالے جاۓ۔“ اتنےدنوں سے دماغ میں چل رہے خدشات کو زبان ملی تو وہ اپنے پریشانی بغیر روکے ان سے بیاں کرتی چلی گئیں۔


”محسوس تو میں نے بھی کیا ہے کہ طبیعت خرابی کے بعد سے وہ کچھ چپ چپ سی ہوگٸ ہے۔ لہجے کی کھنک اور باتوں کی شوخی! لاڈ دیکھانا، سب نا ہونے کے برابر ہے لیکن اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟ بیماری کے بعد انسان تھوڑا چینج ہوجاتا ہے کچھ دن دو ان شاء اللہ دیکھنا وہ پہلے جیسی ہوجاۓ گی۔ اذلان اس کا بہت خیال رکھ رہا ہے۔ وہ زیادہ دن اسے یوں چپ چپ رہنے نہیں دےگا۔ اس کے ساتھ رہ کر تو پتھر بھی بول پڑتے ہیں وہ تو پھر دعاۓخیر ہے۔“ ہنس کر کہتی وہ انہیں تسلی دینے لگیں۔

”مجھے یقین ہے کہ اذلان اس کا بہت خیال رکھ رہا ہے۔ لیکن پھر بھی میں جو کہنا چارہی ہوں وہ آپ سمجھ نہیں رہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اسے کچھ نا کچھ سن گن مل گٸ ہے۔ یاد نہیں اس دن مال میں ڈاکٹر کنول ملیں تھیں۔ وہ تب بھی متجسس تھی لیکن میری طبیعت کے سبب زیادہ بات کریدی نہیں تھی۔ میں تو انہیں دیکھتے ہی پریشان ہوچکی تھی کہ کہیں وہ اس کے سامنے کچھ بول نا دیں ۔ ایک وہی تو جانتی تھیں کہ میری گود ہری ہوکر بھی سوکھ گٸ تھی۔ جسے دعاۓخیر نے پھر سے ہرا بھرا کردیا۔ میں نے اپنے سینے کی گرمی اس کے اندر اتاری ہے۔ وہ مجھے اتنی ہی عزیز ہے جتنا کہ ارحم! ۔“ وہ بےربط سی پریشانی میں بولتی خاموش ہوگٸیں ۔سلیمہ بیگم نے چاۓ کا خالی کپ ایک طرف رکھی ٹرے میں رکھا اور ان کے ہاتھ سے بھی کپ لیکر وہی رکھ دیا ۔

”ثروت راز ایک نا ایک دن عیاں ہونے کے لۓ ہی ہوتےہیں لیکن یہ وقت طے کرتا ہے کہ راز کب اور کہاں عیاں ہوگا۔ ہم کسی چیز کو نا زیادہ دیر تک چھپا سکتے ہیں اور نا ہی دباسکتے ہیں۔ یہ جو راز ہوتے ہیں نا وہ سورج کی روشنی کی طرح ہوتے ہیں۔ ہم جتنے دروازے کھڑکیاں بند کرلیں ان پر دبیز پردے پھیلادیں، کسی نا کسی کونے کھدرے یا ایک ہلکا سا سوراخ اس روشنی کو عیاں کردیتا ہے۔“ ان کی کہی گہری باتوں کو سنجیدگی سے سرجھکاۓ سنتی ثروت بیگم نے ٹھنڈی سانس بھری۔


”آپ کی سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن میں باحثیت ماں کے اس بات کو لیکر سخت متوحش اور پریشان ہوں کہ میری بیٹی اس راز کے بوجھ کو برداشت نہیں کرسکے گی ۔ سو مجھ سے جہاں تک بن پڑا میں اسے اس روشنی سے بچاکر رکھوں گی ۔ بعض مرتبہ روشنی سے زیادہ اندھیرے میں رہنا بہتر ہوتا ہے۔“ وہ رواں مستحکم لہجے میں کہتی اٹھ کھڑی ہوٸیں ۔

”میں یہ رکھ کر آتی ہوں آپ تب تک بھاٸی صاحب کو کال کرکے پوچھیں کہ وہ کب تک آٸیں گے۔“ دھیمے لہجے میں کہتی وہ وہ بات بدل کر ٹرے اٹھاکے کمرے سے باہر نکل گٸیں ۔ ان کے جانے کے بعد وہ بھی سرجھٹکتیں خود کو سوچ کے بہتے دھارے سے نکال لاٸیں اور ہاتھ بڑھا کر بستر پر رکھا موباٸل اٹھایا اور وارث صاحب کو کال ملا دی۔۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


فابیحہ اس وقت شدید بوریت کا شکار ہورہی تھی۔

بوریت دور کرنے کے لۓ وہ اسٹیڈی سے بک لے تو آٸی لیکن وقت پھر بھی نہیں گزر رہا تھا۔ اس نے سامنے دیکھا تو جلبلا اٹھی ۔ ارحم پوری طرح اپنے کام میں مصروف تھا۔ اس کی نظریی لیپ ٹاپ پر مرکوز تھیں جبکہ اس کی انگلیوں کی مسلسل حرکت سے ٹھک ٹھک کی آواز سکوت ماحول میں ارتعاش پیدا کررہی تھی ۔


”اس سے بہتر تھا کہ بابا کے ساتھ پارٹی پر ہی چلے جاتے کم ازکم یہ تسلی تو ہوتی کہ یہاں موجود نہیں ہیں۔ ڈنر کے بعد سے جو اس کی جان سے چمٹے ہیں ۔ یہ تک بھول گۓ کہ کمرے میں ایک عدد بیوی بھی موجود ہے ۔“ وہ جلے دل سے آڑے تیڑے منہ بناتی کتاب کے اوپر سے ہلکاسا جھانکی مار کر ارحم کو دیکھ رہی تھی ۔ بلیک ٹراٶزر پر واٸٹ ٹی شرٹ پہنے سلیقے سے جمے بالوں اور گہنی بیٸرڈ کے ساتھ وہ مصروف سا اسے اپنے دل میں اترتے محسوس ہورہا تھا ۔ وہ کبھی بھی اس طرح دیدہ دلیری سے اسے دیکھ نہیں سکتی تھی تبھی کتاب کی اڑ لۓ ہوۓ تھی ۔ ارحم جانتا تھا کہ وہ چوری چوری اسے دیکھ رہی تبھی اس کی طرف دیکھنے سے گریز کررہا تھا۔ آخر اس کی پیاری واٸفی کو بھی یہ حق حاصل تھاکہ وہ اس کو پیار سے نہار سکے۔ اس کی طرح پورے حق سے ناسہی چوری چھپے ہی سہی ۔ابھی وہ اپنا مشغلہ اور جاری رکھتی کہ اس کا فون زوردار طریقےسے رنگنگ ہوا۔

اس کی ساری توجہ سامنے ارحم کی جانب تھی تبھی وہ بری طرح اچھلی اور اس کے ہاتھ میں پکڑی کتاب اس کی ناک پر لگتی اس کے ہاتھ سے چھوٹی اور اس کے گود میں جاگری ۔ ارحم کی ساری توجہ اسی کی طرف تھی جبھی ساری کارواٸی دیکھ کر اس کا قہقہہ چھوٹتے چھوٹتے بچا ۔اس نے بامشکل ہونٹوں کو داتتوں تلے دباکر چہرہ مزید اسکرین کی طرف جھکالیا تاکہ وہ اس کا قہقہہ ضبط کرنے کی وجہ سے سرخ ہوا چہرہ نا دیکھ سکے ۔ فابیحہ جھنجھلاکر کر ناک سہلاتی اسکرین پر نظر آتے ثانیہ کا نمبر دیکھ فون ریسو کرچکی تھی ۔ ساتھ ایک برہم نظر ارحم پر بھی ڈالی جو مزید سر جھکاۓ لیپ ٹاپ میں منہ دے چکا تھا

”کسی ہو ثانی!“ دعا سلام کے بات وہ پرجوش سی پوچھ رہی تھی۔

”میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ بس تمہیں ایک خوش خبری دینی تھیں۔“ جواباً اس کی بھی پرجوش سی آواز ایٸرپیس سے برآمدہوٸی۔

”کیسی خوش خبری؟ جلدی بولو!“ وہ متجسس سی بول اٹھی۔

”تم خالہ بن چکی ہو وہ بھی پیاری سی بھانجی کی۔“ وہ نیوز بریک کرتی بولی۔


”کیا؟“ وہ ایک دم چیخی تو ارحم نے گھبرا کر اس کی جانب دیکھا جو اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوٸی تھی لیکن بیڈ پر ہی۔


”!سچ بتاٶ“

"تمہاری قسم!“

”بہت بہت مبارک ہو۔ اب جلدی سے مجھے میری بھانجی کو دیکھا دو۔“ اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتی وہ بےتابی سے گویا ہوٸی۔


”ابھی تو میں نے بھی نہیں دیکھا ہے۔ وہ جیسے ہی روم میں آتی ہے ۔ میں تمہیں اس کی اچھی اچھی پیک سینڈ کرتی ہوں۔۔“ وہ ہنستے ہوۓ بولی۔


”چلو ٹھیک ہے لیکن یاد سے پیک سینڈ کرنا۔۔“ اس نے جھٹ تاکید کی۔


”فکر ناکرو بھیج دوں گی! اچھا اب مجھے اجازت دو میرے سسرال والے آگۓ ہیں۔“ وہ عجلت میں کہتی کال بند کرگٸ تب تک ارحم بھی اپنا کام مکمل کرتا ۔ اس کے قریب آگیا تھا ۔ وہ مسرور سی اب بھی بیڈ پر کھڑی موباٸل کو تھوڑی تلے مار رہی تھی۔


”خوشی کی خبر میں مجھے شامل نہیں کریں گی۔“ اس کی مرمریں گداز کلاٸ تھامے اس نے گھمبیر لہجے میں پوچھا۔


”ارے کیوں شامل نہیں کروں گی؟ آپ کو پتا ہے ثانی ایک ڈول کی مما بن گٸی ہے۔“ وہ پرجوشی سے کہتی واپس بیٹھ چکی تھی۔


”ماشاءاللہ! بہت بہت مبارک ہو۔ اسے میری طرف سے بھی مبارک باد دینا۔“ اسے بھی سن کر خوشی ہوٸی جس کے برملا اظہار کے طور پر وہ مسکرا کر بولا تھا تو وہ اثبات میں سرہلاگٸ۔


”ویسے میں کتنی خوش ہوں کہ میں خالہ بن گٸ ۔ اب بس اس ننھی پری کی پیکس کا انتظار ہے۔“ ایک دفعہ پھر وہ کھنکتے لہجے میں بولی۔


”آپ کو بچے پسند ہیں؟“ اس کے چہرے سے

چھلکتی سرخوشی کے تاثرات دیکھ وہ نرمی سے استفسار کرتے اسے پیچھے سے اپنے حصار لۓ اس کے سر پر تھوڑی رکھ گیا۔ اچانک ہی اس قربت پر اس کا دل ایک سو اسی کی اسپیڈ سے دوڑا۔ اس کی دہکتی قربت میں وہ یوں ہی گنگ ہوجاتی تھی۔اس وقت بھی اس کے منہ سے الفاظ برآمد نہیں ہوۓ تھے۔

”میری فابی نے جواب نہیں دیا؟“ اس کے بالوں پر بوسہ دیتے وہ اس کے جواب کا شدت سےمنتظر تھا۔


”بچے تو سب ہی کوپسند ہوتے ہیں۔ مجھے بھی بہت پسند ہیں۔“ بڑی مشکلوں سے منمناتے ہوۓ اس نے اپنی بات پوری کرکے لمبی سی سانس اندر کو کھینچی۔


”لڑکیاں پسند ہے کہ لڑکے؟“ ایک اور سوال آیا ساتھ ہی اس نے اس کے ہاتھ کو نرمی سے تھام کر ہاتھ کی پشت کو انگوٹھے سے سہلایا تو اس کی جان پر بن آئی، جواب کیا خاک دیتی لیکن جواب دینا بھی ضروری تھا ورنہ وہ اس کی جان یوں ہی ہلکان رکھتا اسی لۓ دل مضبوط کرتی بولی۔


”مجھےلڑکیاں پسند ہیں۔ نرم و نازک احساسات سی گندھی بلکل ڈول جیسی ۔کیوٹ،پیاری،معصوم فرمابردار! ان ہی کے دم سے تو گھر رونق ہوتی ہے۔ لڑکے تو بدمعاش ہوتے ہیں۔تنگ زیادہ کرتے ہیں۔ اپنی چلاتے ہیں۔ غصہ ہوتے ہیں جلد روٹھ جاتے ہیں۔“


”بلکل میری طرح!“ اس کی بات اچکتے ارحم کے بےساختہ شرارت بھرے متبسم لہجے پر اس کی زبان کو بریک لگا۔


”میں نے ایسا تو بلکل نہیں کہا!“ روانی سے کہتے اس نے دانتوں تلے لب دباۓ۔


”فابی کتنی دفعہ کہنا پڑے گا کہ مجھے یہ حرکت بلکل پسند نہیں۔“ برہم سے لہجے پر اس نے سٹپٹاکر

دانتوں کے بیچ سے نچلا لب آزاد کیا ۔ یہ تو میرےپیچھے ہیں انہوں نے کہاں سے دیکھا؟ یہ سوچتے ہی اس کی نظر سامنے لگے مرر پر پڑی ۔ وہ وہی سے اسے گھور رہا تھا ۔ فابیحہ نے بوکھلاکر نظریں جھکالیں۔

”میری پرانی عادت ہے ۔ آہستہ آہستہ ہی چھوٹے گی۔“ نروٹھے لہجے میں کہتے اس نے بچوں کی طرح منہ پھولا لیا۔


”میری بیوی چاہتیں ہیں کہ میں پیار سے انہیں مناٶں؟ تبھی مجھ سے روٹھی ہیں تو اب میرا بھی فرض بنتا ہے ایک اچھے شوہر کے فراٸض نبھاکر انہیں مناؤں۔“ اس کے کان کے قریب منہ لاکر وہ گھمبیر سرگوشانہ لہجہ میں بولا تو فابیحہ ایک دم گھبراگٸی۔


”آپ سے کس نے کہا کہ میں خفا ہوں؟ میں بلکل بھی خفا نہیں ہوں۔“وہ ایک دم ہی بوکھلا کر کہتی اس کا حصار توڑ کر فاصلہ بناتی بولی۔


”چلیں یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔ میں ابھی فریش ہوکر آتا ہوں پھر ہم آپ کے پسندیدہ ٹاپک بچوں پر سیرحاصل گفتگو کرکے آٸندہ کا لاحے عمل طے کریں گے۔۔“ زومعنیٰ بےباکی سے کہتا ارحم نے ہلکا سا جھک کر اس کے گال کو چوما اور اسے ہراساں چھوڑ آگے بڑھ گیا۔ جبکہ فابیحہ نے گھبرا کر تکیہ میں منہ دےلیا تھا لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بن کرلینے سے بلی مطلب بلے نے پیچھے نہیں ہٹنا تھا بلکہ شکار کرکے رہنا تھا۔ یہی سب سوچتے اس کی دھڑکنیں سینے میں منتشر ہورہی تھیں۔ وہ اس سے بچ نہیں سکتی تھی یا یوں کہنا چاہے کہ وہ بچنا نہیں چارہی تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”شادی کے بعد تو تم بدل ہی گٸیں ۔ کتنے دن ہوگۓ ہیں، نا کوٸی لاڈ نا کوٸی فرماٸش! بھٸ بےشک تم میری بہو بن گٸ ہو لیکن میں اب بھی تمہارا تایا ابو ہوں اور تم میری وہی پیاری نٹ کھٹ سی بیٹی دعاۓخیر ہو۔“ناشتے کی میز پر سب ہی موجود تھے جب وارث صاحب اس سے پیار بھرا گلا کیا۔


”بابا ایسی کوٸی بات نہیں ہے۔ بس دعاۓخیر کچھ سست الوجود ہوگٸ ہے اسی لۓ لاڈ اور فرماٸشی پروگرام کچھ عرصے کے لۓ موخر کردیا ہے لیکن آپ فکر نے کریں ۔ عنقریب یہ فرماٸشی لسٹ آپ کو پکڑانے والی ہے ۔“ دعاۓخیر کی جگہ جواب اذلان نے دیا تھا وہ بھی اپنے شرارتی انداز میں جس وجہ سے سب ہنس پڑے تھے ۔ اتنی دیر میں دعاۓخیر کو وقت مل گیا تھا خود کو کمپوز کرنے کا ۔ میز کے نیچے اس کی گود میں رکھے ہاتھ پر اذلان کے ہاتھ کا دباٶ تھا جو اسے ڈھارس بندھا رہا تھا کہ وہ مضبوط رہے ۔ ورنہ وارث صاحب کے پوچھنے پر اس کے گلے میں نمکین پانی کا گولا پھنس گیا تھا۔ اگر اذلان نہیں بول پڑتا تو وہ لازمی پھوٹ پھوٹ کر رودیتی۔ وہ آجکل اتنی ہے رنجور ہورہی تھی ۔ بات بے بات آنکھیں بھیگ جاتی تھیں اس کی ۔


”تایا ابو اذلان ٹھیک کہہ رہا ہے۔ بس طبیعت میں کچھ سستی سی ہے۔۔ جس وجہ سے کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔“ چہرے پر زبردستی کی مسکان سجا کر وہ لہجے کو بشاش کرتی بولی۔


”میری گڑیا تم چہکتی بلبل جیسی ہی اچھی لگتی ہو۔ یہ خاموشی تم پر کچھ جچ نہیں رہی۔ میری جان اگر کوٸی پریشانی ہے یا پھر یہ اذلان تمہیں ڈرا دھکا رہا ہے تو مجھے صاف صاف بتاٶ میں سالے ہونے کا پورا پورا فرض نبھاٶں گا۔“ اذلان کو دیکھ کر ہاتھ کی کلاٸی گھماتے ارحم نے سنجیدگی بھری شرارت سے پوچھا تو دعاۓخیر بری طرح سٹپٹاگٸ جبکہ سب کے چہروں پر دبی دبی مسکان تھی۔ بس ایک فابیحہ ہی تھی جو ارحم کو گھور رہی تھی کہ وہ کیوں صبح صبح اس بچارے بھاٸی کے پیچھے پڑھ گیا۔


”پیاری بیوی! کیا کرتی ہویار! سویرے ہی سویرے ناشتے میں انڈے پراٹھے کی جگہ مار کھلوانے کا پلان ہے۔ ان کا تو ہاتھ بھی ماشاءاللہ کافی وزنی ہے ۔کبھی غصے میں میز پر ہاتھ ماریں تو بےچاری سامان سمیت لرز جاتی ہے۔ وہ تو بےجان ہے لیکن میں تو جاندار ہوں نا!“ وہ بھی مصنوعی آہ و بقا کرتے بولا تو سارے ہی اس نوٹنکی پر کھلاکھلاکر ہنس دئے ۔ جس میں دعاۓخیر کی ہنسی بھی شامل تھی۔ کتنے دنوں کے بعد اسے یوں ہنستے دیکھا تو اذلان مبہوت سا اسے دیکھے ہی گیا۔ دعاۓخیر نے جوں ہی نظروں کی تپش پر چہرہ گھمایا تو بوکھلاکر رہ گٸی۔ اس کی نظروں میں کس قدر ورفتگی تھی۔ وہ ہرکز بھی ان نظروں کی تاب نہیں لاسکتی تھی جبھی پلکیں لرزکر عارضوں پر سجدہ ریز ہوٸیں۔ ”ٹھرکی“ دعاۓخیر نے اس کے ہاتھ پر چٹکی کاٹ کر مشہور زمانہ اس کے لقب سے اسے نوازہ تو وہ ہوش میں آیا ۔ سب کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی جبکہ وارث صاحب اپنے بیٹے کو شرارتی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ وہ خجل ہوتا کدی پر ہاتھ پھیر گیا۔


”ارحم تمہارے آسلام آباد والے پروجیکٹ کا کیا بنا؟ کل تمہیں میٹنگ کےلۓ نکلنا ہے۔“ حارث صاحب کے یاد دہانی کروانے پر ثروت بیگم نے ان کی طرف ناراضگی سے دیکھا

”بھٸ تمہاری ماں مجھ سے ناراض ہورہی ہے کہ میں تمہیں کیوں بھیج رہا ہوں۔ زرا بتاٶں انہیں تم اکیلے نہیں جارہے فابیحہ بھی تمہارے ساتھ جارہی ہے۔“ اپنی بیوی کو شرارتی نظروں سے دیکھتے وہ ارحم سے بولے


”والدہ! بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں وہاں اکیلے نہیں جارہا بلکہ آپ کی بہو صاحبہ بھی میرے ساتھ چل رہی ہیں ۔ یہ فابیحہ کے لۓ بھی سرپراٸز تھا۔میں ناشتے کے بعد انہیں بتانے والا تھا۔ بابا نے پہلے ہی بتادیا خیر کوٸی بات نہیں۔ کل ہماری فلاٸٹ ہے تو فابیحہ تم پیکنگ کرلینا لیکن گرم کپڑے رکھنا وہاں ٹھنڈ ہوگی۔ ہوسکتا ہے ہم وہاں سے کہیں اور بھی گھومنے نکل جاٸیں۔ دس دن کے حساب

سے کپڑے رکھ لینا باقی جو کمی بیشی ہوگی ہم وہاں سے خریداری کرلیں گے۔ میرا دو دن کاکام ہوگا اس کے بعد میں فری ہوجاٶں گا۔“ ارحم کے بتانے پر ثروت بیگم مطمین ہوٸیں وہی فابیحہ نے پرجوشی سے اثبات میں سرہلایا تھا۔ اسے ناردان ایریاز دیکھنے کا حد سے زیادہ شوق تھا۔ جو اب پورا ہونے جارہا تھا۔


اذلان بیٹا تم بھی کوٸی پرگرام بنالو گھومنے پھیرنے کا، یہی دن تو ہیں جب تم انجواۓ کرسکتے ہو۔“سلیمہ بیگم ان دونوں کو دیکھتی اذلان سے مخاطب ہوٸیں۔

”میں ارحم فابیحہ کے ساتھ تم دونوں کی ٹکٹس بھی کنفرم کروادیتا ہوں۔“سلیمہ بیگم کے کہنے پر وارث صاحب بھی اتفاق کرتے جھٹ سے بولے۔


”نہیں بابا ہم بعد میں چلے جاٸیں گے ۔ ابھی تو دعاۓخیر کی طبیعت ٹھیک ہوٸی ہے۔ ویسے بھی وہاں کافی ٹھنڈ ہوگی یہ ناہو یہ پھر سے بیمار پڑجاۓ۔“ اس کی مشکل اذلان نے حل کی تو اس نے تشکر بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھا ۔ اذلان نے مسکراتے ہوۓ اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی تھی ۔ وہ جب تک سچ پتا نہیں لگالیتی وہ یہاں سے کہی نہیں جاسکتی تھی۔


”اذلان ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ابھی ارحم اور فابیحہ چلے جاتے ہیں ۔ یہ دونوں پھر کبھی چلے جاٸیں گے۔“ثروت بیگم کے کہنے پر سب متفق نظر آۓ تو دعاۓخیر کی اٹکی سانس بحال ہوٸی۔ اسے اذلان کے ساتھ مل کراس ڈاکٹر کنول کو ڈھونڈنا تھا. بقول ان کہ وہ صرف شادی اٹینڈ کرنے آٸی تھیں۔ اسے ڈھونڈنے کے لۓ ان دنوں کا یہاں رہنا بہت ضروری تھا ۔ اذلان نے ابھی تک اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا ۔دعاۓخیر نے نم پلکوں سے اذلان کی جانب دیکھا تو یوں لگا جیسے اس کی نظریں اس سے کچھ کہہ رہی ہوں۔ وہ خاموشی اور توجہ سے اس تحریر کو پڑھ رہی تھی ۔


تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو

تمہیں غم کی قسم اس دل کی

ویرانی مجھے دے دو

یہ مانا میں کسی قابل نہیں ہوں ان نگاہوں میں

برا کیا ہے اگر یہ دکھ یہ حیرانی مجھے دے دو

میں دیکھوں تو سہی دنیا تمہیں کیسے ستاتی ہے

کوئی دن کے لئے اپنی نگہبانی مجھے دے دو

اذلان ہم سہی ایڈریس پر تو آۓ ہے نا؟“یہ کوٸی پانچویں بار تھا کہ دعاۓخیر نے اس کا بازو ہلاکے سیم سوال پوچھا تھا۔

”دعاۓخیر میں تم سے چھوٹا ضرور ہوں ننھاکاکا نہیں ہوں جو رستہ بھٹک جاٶں گا۔ یار حد کرتی ہوتم بھی!“ ہر مرتبہ تحمل سے جواب دیتا اذلان اس مرتبہ بری طرح بھنایا۔


”غصہ کیوں ہورہے ہو؟ جسٹ سوال ہی کیا ہے۔ کونسا تمہارے جواب دینے پر ٹیکس لگے گا جو یوں ریل کے انجن کی طرح دھواں چھوڑ رہے ہو۔“ جواباً وہ بھی چڑکر بولی ۔ ایک تو ویسے ہی دل و دماغ عجیب قسم کے سوالات کی آماجگاہ بنا ہوا تو اوپر سے صاحب بہادر ایٹیوڈ دیکھارے تھے ۔ وہ ٹھیک ٹھاک تپی تھی۔


”یہ دیکھوں ایڈریس اور سیم یہی ایڈریس سامنے نیم پلیٹ پر لکھا بھی ہے۔“ اب کے اس نے

جیب سے ایک سلیپ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھماٸی تو وہ سلیپ پر نظر ڈالنے کے بعد سامنے لگی بنگلے کی نیم پلیٹ دیکھنے لگی ۔دل کو اب تھوڑا اطمینان ہوا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اسے اذلان پر اعتبار نہیں تھا مسٸلہ یہ تھاکہ وہ کچھ بھی کرلے اپنے اندر سے بڑے پن کا رعب ختم نہیں کرسکتی تھی۔ اسی لئے وہ ہر چیز پہلےخود دیکھ کر اطمینان کرلینا چاہتی تھی۔ یہ بات اذلان اچھے سے جانتا تھا اور اسی بات کے سبب اسے جھنجھل سوار ہورہی تھی۔


”پارلر والوں نے تمہیں اتنی آسانی سے اندر کی معلومات کیسے دے دیں؟ یہ بات میری سمجھ نہیں آٸی! انہوں نے نا صرف اس دن کی ویڈیو دیکھائی بلکہ میری نشاندہی پر ان کا ایڈریس بھی تمہیں تھمادیا؟ پھر وہاں کی اونر جس طرح مٹک جھٹک کرکے تم سے باتیں کررہی تھی یوں لگتا ہے کہ کافی پرانی جان پہچان تھی تمہاری اس میک اپ کی دکان سے؟“ بیوی والے اسٹائل میں اسے گھورتی نظروں سے دیکھتے وہ چبتے لہجے میں اس سے استفسار کرتی اذلان کو اپنے دل میں اترتی محسوس ہوٸی ۔ بلیک کلر کے لباس میں سر پر اوڑھے دوپٹے کے حالے میں اس کا حسین چہرہ کندن کی طرح دمک رہا تھا۔


”تمہارے شوہر کی ماشاءاللہ شخصیت ہی ایسی شاندار ہےکہ ہر کوٸی دیکھتے ہی فدا ہوجاتا ہے۔“وہ ایک ادا سے کہتا بالوں پر ہاتھ پھیر کے بولا تو دعاۓخیرنے اسے خونخوار نظروں سے دیکھا۔


”بس کرو بچے کی جان لوگی کیا۔۔ بتارہاہوں!“ وہ اس کی قاتل نگاہوں کے وار کو دیکھتا مصنوعی خوفذدہ ہوکر بولا۔


”دراصل وہ لڑکی ردا اور میں یونی میں ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ وہ پارلر اسی کی مما کا ہے ۔ اس نے مجھے دیکھا اور وہ فوراً ہی پہچان کر مدد کو تیار ہوگٸی۔ ہم دوست رہ چکے ہیں تو انسان دوستی میں اتنی فیور تو دے ہی سکتا ہے۔“ دلکش مسکان کے ساتھ وہ اپنی چمکتی آنکھیں اس کے چہرے پر مرکوز کۓ شرافت سے ساری بات اس کے گوش گزار کرگیا۔ ورنہ دعائے خیر نے بس یہی سوچ سوچ کے جلنا کڑنا تھا کہ وہ کون تھی؟


”مجھے تو دوستی سے کچھ آگے ہی لگ رہا ہے۔“ اس کی تشفی نا ہوئی بلکہ وہ مشکوک نظروں سے اسے گھورتے ہوۓ بولی تو اذلان قہقہہ لگاکر ہنس پڑا۔ اسے دعائے خیر کا یہ جیلسی بھرا نیا روپ مزا دے گیا تھا۔


”میری حیات! مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہےکہ تم جیلس ہورہی ہو؟ مانا ایک زمانے میں میں اس کا کرش تھا لیکن وہ بھولی بسری یادیں ہیں ۔یاد تو ماضی ہے اس کا حال سے کچھ لینا دینا نہیں۔“ سنجیدگی سے کہتے وہ اسے تنگ کرنے کو آخر میں وہ ایک آنکھ ونگ کرگیا۔


”وہ یاد نہیں حسین یاد ہے۔ تبھی تو تمہارا کام منٹوں میں نمٹادیا۔ ویسے تم نے میرا تعارف جسٹ کزن کی حیثیت سے کیوں کروایا؟“ حسین لفظ کو کھینچ کر بولتی وہ پھر جرح کررہی تھی ۔ اس کا یہ خالص بیوی والا روپ اذلان کو بہت بھارہا تھا ۔ دل میں خواہشیں انگڑایاں لے رہی تھیں اس کی سرخ ناک اور پھولے گال دیکھ کر۔ اس کے نظروں میں اچانک ہی شوخ تقاضے لہراۓ تو وہ دعاۓخیر نے سٹپٹاکر نظروں کے ساتھ چہرہ بھی اس کی جانب سے موڑلیا۔ اب وہ ونڈو کے شیشے سے بظاہر باہر دیکھ رہی تھی لیکن ساری حساسیات ساتھ بیٹھے شخص کی جانب ہی تھی۔ وہ اس وقت ایک خوبصورت بنگلو کے آگے گاڑی کھڑی کۓ دلچسپ و دلپزیر مزاکرات میں مصروف تھے۔ اچانک ہی دعا خیر کو اپنے گال پر دہکتا لمس محسوس ہوا تھا وہ ساکت رہ گٸی۔


”چلو اندر چلتے ہیں سارا دن یوں ہی میرے سنگت میں بتانا کا ارادہ ہے کیا؟“ اپنے کارواٸی نمٹاکر وہ سیدھا ہوتا گاڑی کا ڈور کھول کے باہر نکلا۔ بلڈ وہ اپنی اس واردات سے پہلے ہی کھول چکا تھا کہ اگر وہ پلٹ کر حملہ کرتی بھی ہے تو وہ کم ازکم جلدی سے گاڑی سے اترکر اپنی جان بچاسکتا تھا لیکن اس کی سوچ کے برعکس وہ پتھر کا مجسمہ بن گٸ تھی۔

”اب آبھی جاٶ! کیا سوگٸی ہو؟“ چوکیدار کو مسز شاہ کو انفارم کرنے کا بول کر وہ عجلت میں گاڑی کا فرنٹ پیسنجر ڈور کھلے دعاۓخیر سے عجلت میں بولا تو اس نے مشہور زمانہ لقب "ٹھرکی“ سے اسے نوازہ اور اپنا غصہ کنڑول کرتی خاموشی سے نیچے اترگٸی۔

”اگر جو یہ بےہودہ حرکت تم نے گھر پر کی ہوتی تو

اس وقت تمہارا سر سلامت نہیں ہوتا۔“ وہ اس کے ساتھ کھڑی ہوکر دبے دبے لہجے میں غراٸی۔


”اسی لۓ میں نے یہ پیاری بھری حرکت گھر سے باہر کی ہے۔“ برجستہ بولتے وہ اس کا ہاتھ تھامے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگیا تھا۔ وہ غصے میں دانت کچکاتی اپنے ناخن اس کے ہاتھ پر گڑاچکی تھی جس سے مقابل کو چندا بھی فرق نہیں پڑا

بلکہ وہ الٹا اس بچکانہ حرکت پر دلکشی سے مسکرا دیا تھا۔

”ویسے میں نے ہمارےرشتے کے بارے میں اس لۓ بھی نہیں بتایا کہ وہ تمہارا جان کر کبھی ہماری مدد نہیں کرتی کیونکہ ایک زمانے میں میں اس کا کرش رہ چکا ہوں تو پکا اس نے یہ جان کر کہ تم میری بیوی ہو بھڑک جانا تھا۔“ وہ مزے سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے زچ کرتی مسکراہٹ سے بولا تو وہ تلملاکر خون کے گھونٹ پی کر رہ گٸی ورنہ تو دل کر رہا تھا کہ اس کے سلیقے سے جمے بال بری طرح بگاڑ دے۔

"جیسے خود ٹھرکی ہے ویسے ہی دوست بھی اپنے جیسے ٹھرکی ہی بنائے ہیں۔“ وہ ہولے سے بڑبڑا کر رہ گئی لیکن اذلان سن چکا تھا تبھی اس کے چہرے پر ایک شرارتی مسکان نے جھلک دیکھلائی۔ اس نے دعائے خیر کو دیکھا جس کی ساری توجہ گھر کی جانب ہی تھی۔ وہ تیزی سے جھکا اور اس کے دوسرے گال پر بھی اپنی محبت کی چھاپ چھوڑی۔

"یہ گال رہ گیا تھا۔“ واہ رے معصومیت کے علمبردار کی توجہہ۔۔ اس سے پہلے کہ دعائے خیر اس کی اس حرکت پر اس کا گلا دباتی ملازمہ خوبصورت سا لکڑی کا دروازہ کھولے باہر نکلی تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اسلام آباد پہنچ کر وہ سیدھا ہوٹل پہنچے تھے۔ وہ روم پہلے سے ہی بک کرواچکا تھا۔ فابیحہ کی تو اتنی سردی میں حالت بری ہوچکی تھی سو وہ آتے ہی بستر میں گھسی اور نرم گرم بستر پاتے ہی سوگٸی۔ رات ڈنر بھی اس نے بامشکل ارحم کے اٹھانے پر کیا تھا۔ اتنے رومینٹک موسم میں اپنی بیوی کو سلپنگ بیوٹی بننے دیکھ وہ دل مسوس کر خود بھی سونے کے لۓ لیٹ چکا تھا۔ ویسے بھی صبح گیارہ بجے اس کی مینٹگ تھی۔

صبح اس کی آنکھ فابیحہ کے بازو ہلانے پر کھلی۔ اس نے اپنی مندی مندی نیند سے بوجھل آنکھیں کھولیں تو وہ آنکھوں میں آنسو لۓ اسے دیکھ رہی تھی ۔


”کیا ہوا فابیحہ؟“ اس کے آنکھوں میں آنسو دیکھ وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا اور متفکر نرم لہجے میں استفسار کرنے لگا۔

”مجھے واش روم جانا ہیں لیکن سردی بھی لگ رہی ہے اور میری شال بھی میرے پاس نہیں اب میں کیا کروں؟“ سوں سوں کرتی وہ ہونٹ نکالے اپنی پریشانی شیٸر کرتی ارحم کو کوٸی چھوٹی بچی لگی ۔

”میری جان کی جان کو اتنے مسٸلے درپیش ہیں۔ آپ فکر ناکرو۔ آپ کا شوہر نامدار کس مرض کی دوا ہے۔ سارے مسٸلے وہ منٹوں میں حل کردے گا۔“ اس کے شانوں کے گرد حصار بنتا وہ اسے پچکارتے ہوۓ بولا جو اچھے سے اپنے گرد کمبل لپٹے ہوئے تھی۔

اسے معلوم تھا کہ بچپن سے ہی فابیحہ کو سردی زیادہ فیل ہوتی ہے لیکن اسے پسند بھی یہی موسم تھا۔ اس کی کنپٹی کو چومتے وہ سلیپر پیروں میں ڈالے فابیحہ کی بیگ کی طرف بڑھا۔


”ایک چھوٹا لیدر بیگ بھی ہوگا وہ بھی نکال لیجۓ گا۔“ اسے بیگ کی زیپ کھولتے دیکھ وہ سواٸٹر کی پاکٹ میں ہاتھ گھساۓ بولی تو وہ اثبات میں سرہلاگیا۔ اس بیگ میں فیس واش ٹوتھ برش کے علاوہ اور دوسری ضرورت کا سامان کوسمٹکس وغیرہ موجود تھی۔ارحم نے اسے چادر پکڑاٸی تو وہ چادر کو خود کے گرد اچھے سے لپٹ کر اٹھ کھڑی ہوٸی اور سلیپر پاٶں میں ڈالے ۔ ارحم کے ہاتھ سے بیگ لیکر اسے تھنکس بولتی اس نے واش روم کا رخ کیا ۔ فریش ہوکر اس نے کپکپاتے بدن کے ساتھ گرم پانی سے منہ ہاتھ دھویا دانتوں کو اچھے سے برش کیا کیونکہ رات کو برش کرنہیں پاٸی تھی۔ ٹاول سے ہاتھ منہ صاف کرکے وہ باہر نکلی ۔ ارحم ہاتھ میں ڈریس تھامے کھڑا تھا اسے دیکھ نرمی سے مسکرایا ۔


”نو تو بج رہے ہیں گیارہ بجے میری مینٹنگ ہے تو میں ریڈی ہونے جارہا ہوں۔ میں نے ناشتہ آرڈر کردیا ہے ۔جب تک میں فریش ہوکر چینج کرکے آٶں گا ناشتہ آجاۓ گا۔ ڈور ناک ہو تو پلیز دیکھ لیجۓ گا۔۔“ پیار سے کہتاوہ اس کا گال تھپتھپاکر خود بھی فریش ہونے چل دیا تھا۔ وہ چینج کرکے باہر نکلا ۔ کاٸی کلر کے تھری پیس میں لاٸٹ گرین شرٹ پہنے میچنگ ٹاٸی لگاۓ وہ بالوں کو جیل سے سیٹ کۓ تراشی ہوٸی بیٸرڈ میں اپنی وجاھت کے ساتھ اسے مبہوت کرگیا تھا۔ اس کے روم میں آتے ہی پورے روم میں اس کے کلون کی مخصوص اسٹرونگ خوشبو پھیل چکی تھی ۔ فابیحہ نے ایک گہرا سانس بھر کر اس دلفریب خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا۔ ارحم دیکھ چکا تھا فابیحہ کا خود کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا تبھی ایک دلکش مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا ۔ وہ بلیک جینز پر بلیک ویلوٹ کی شرٹ کے اوپر بلیک ہی لانگ سوٸٹر کے ساتھ بلیک ہی گرم شال اوڑھے سر پر اونی ٹوپی پہنے پوری بلیک بیوٹی بنی کافی کیوٹ لگ رہی تھی۔


”کیسا لگ رہا ہوں؟“ وہ مسکراہٹ دباۓ سنجیدگی سے پوچھتا اس کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ گرم گرم ناشتہ ٹیبل پر سیٹ تھا جوشاید کچھ سیکنڈ پہلے ہی آیا تھا ۔

”اچھے لگ رہے ہیں۔“ اپنے چوری پکڑے جانے پر وہ خفتذدہ لہجے میں بولی۔


”اچھا لگ رہا ہوں یا بہت اچھا؟ کھل کر اظہار کرو یار! جیسے میں کرتا ہوں بغیر جھجھکے۔“ اس کے شانے سا شانے جوڑے اس کی جانب جھکا وہ گھمبیر بھاری لہجے میں کہتا اسے ٹھیک ٹھاک نروس کرچکا تھا ۔


”مرد کو اظہار کے لۓ الفاظ درکار ہوتے ہیں لیکن عورت کی شرم سے جھکتی نظریں ہی اس کا مکمل اظہار ہوتی ہیں۔۔“ دھیمے پرفسوں رواں لہجے میں وہ نظریں اپنے ہاتھ پر جماۓ بولی تھی۔

اس خوبصورت اظہار پر ارحم خوشی سے نہال ہوتے اس کی جانب جھکا اور پیار اور عقدت سے اس کے ماتھا کا بوسہ لیا تو اس کی روح تک میں سکوں لی لہر سراعت کرگٸی۔ مرد کی محبت نہال کرے یہ کافی نہیں ۔ مرد کی محبت معتبر کرے یہ محبت کی معراج ہوتی ہے ۔ عورت محبت سے زیادہ عزت کی طلبگار ہوتی ہے اور اگر اسے وہ مل جاۓ تو وہ تمام عمر وفاکا پیکر بنے اس چوکھٹ پر گزار دیتی ہے ۔


”ویسے بزنس میٹنگ کے لۓ اتنی تیاری کچھ زیادہ نہیں ہےکیا؟“ وہ کہے بنا نا رہ سکی ۔ اس کی چھاجانے والی شخصیت کی بدولت ہر کسی کی نظر اسی پر ٹہرے گی ۔ یہ بات اسے اچھے سے معلوم تھی ۔ تبھی لہجے میں خود بخود احساس ملکیت کا عنصر شامل ہوگیا تھا کہ وہاں صنف نازک بھی ہوں گی جن کے دلوں پر وہ بجلیاں گرانے والا تھا ۔


”ساٶنڈ اسٹرسٹنگ لیڈی!“ وہ ایک آٸبرو اٹھاۓ متاثر کن لہجے میں بولا۔


”اب لگ رہا ہے کہ آپ ارحم حارث سرور کی بیوی ہو۔ میری طرف کی آگ نے آپ کو بھی اپنی لپٹ میں لے لیا۔ اب میں کہہ سکتا ہوں کہ دونوں طرف آگ ہے برابر لگی ہوٸی! سچ کہوں تو واٸفی آپ نے میری مارننگ گڈ کردی ہے۔۔“ نرمی سے اس کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیتا وہ پیار سے اس کا گال چھوکر بولا تو فابیحہ جھنپ کر مسکرادی۔


”چلیں ناشتہ کریں ٹھنڈا ہورہا ہے ۔ میں شام تک آٶں

گا آپ ریڈی رہنا ڈنر ہم باہر کریں گے۔ زبیر نے انواٸٹ کیا ہے۔۔“ اس کی پلیٹ میں فراٸی انڈا ڈالتے وہ سنجیدگی سے بولتا اسے کھانے کا اشارہ کرتے بولا۔

”زبیر کو کس نے بتایا کہ ہم یہاں پر آۓ ہیں؟“ وہ حیران ہی تو رہ گٸ جبھی تجسس سے استفسار کرنے لگی

”میں نے اور کس نے!“ مکھن لگا توس دانتوں سے چباتے ہوۓ وہ لاپرواہی سے کہنے لگا تو فابیحہ کا پورا منہ ہی کھل گیا اس کایا پلٹ پر! کہاں وہ اس سے اس قدر کھار کھاتا تھا، بس نہیں چلتا تھاکہ اسے اٹھاکر کوہ ہمالیہ میں پھینک آۓ اور اب اتنی دوستی کہ اپنے یہاں ہونے کی ناصرف اسے اطلاع دی بلکہ ڈنر بھی فکس تھا۔ ارحم اس کی حالت پر زیرِ لب مسکرایا اور پراٹھے کا ٹکڑا توڑ کر انڈے کے ساتھ لقمہ بناکر اس کے منہ میں ڈال گیا تو وہ ہوش میں آتی اس لقمے کو چبانے لگی ۔ ساتھ اس نے ارحم کو بھی دیکھا جو سکون سے ناشتہ کرتا بیچ بیچ میں چاۓ کی چسکیاں بھی لے رہا تھا۔ وہ بھی خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی ۔ ورنہ ناشتے نے ٹھنڈا ہوکر بدمزا ہوجانا تھا۔ اس نے ناشتہ آرڈر کرتے وقت فابیحہ کی پسند کو بھی مدنظر رکھا تھا۔ ارحم ناشتہ مکمل کرتا ٹشو سے منہ صاف کرتے اٹھ کھڑا ہوا تو فابیحہ بھی چاۓ کا کپ ٹیبل پر رکھتی اس کے ساتھ ہی کھڑی ہوگٸی۔


”آپ سکون سے ناشتہ ختم کرو۔ جہاں تک زبیر کی بات ہے تو اپنا رقیب کیسے اچھا لگتا ہے بھلا! لیکن جب سے تم نے بتایا اس کی محبت کے بارے تو اب وہ رقیب نہیں میری پیاری واٸفی کا چاٸلڈ ہوڈ فرینڈ ہے۔ آپ کا دوست میرا بھی دوست ہے اور دوست سے دوستی کی جاتی ہے۔ میں نے بھی کرلی۔“ اس کا گال تھپتھپاتا وہ نرمی سے کہتے ہلکا سا جھکا اور اس کے سردی کی شدت سے سرخ پڑتے گالوں پر اپنی محبت کے پھول کھلتا پیچھے ہوا۔


”کوٸ بھی پریشانی ہو فوراًکال کرلینا اور کچھ بھی کھانے یا چاۓ کافی کا آرڈر دینا ہوتو انٹرکام کردینا اوکے! اب چلتا ہوں اللہ حافظ!“ عجلت میں کہتے وہ پلٹا اور اپنا بیگ اٹھاکر اسے مسکراکر دیکھتے روم سے باہر نکل گیا۔ پیچھے فابیحہ اس کے خوشبو بھرے حصار کی قید میں جسے مقید ہوگئی تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اذلان کی آنکھ مسلسل بجتے موباٸل کی وجہ سے کھلی ۔ اس نے ایک نظر سوتے میں کسمساتی دعاۓخیر پر ڈالی اور عجلت میں کال ریسو کرتا اٹھ کھڑا ہوا

”سر ٹھیک ایک گھنٹے بعد آج آپ کی میٹنگ ہے ۔“ اس کے پی اے نے سلام کے بعد چھوٹے ہی اطلاعی انداز میں بتایا۔


”آج کی میٹنگ کینسل کردو ۔ کل کی رکھ لو ۔ میں آج آفس نہیں آسکوں گا ۔ کوٸی بھی ضروری ڈیٹیل ہو تو مجھےمیل کردینا ۔ اللہ حافظ!“ مختصر اسے ہدایت دیتا اپنے پی اے کی بات سننے بغیر وہ کال کٹ کرچکا تھا ۔ فون کو چارج پر لگاکر وہ واپس آکر اپنی جگہ دراز ہوگیا اورچہرہ دعاۓخیر کی جانب موڑلیا۔ کل سے اب تک اس کا چہرہ بلکل مرجھاچکا تھا ۔ کل اذلان نے پانی میں مکس کرکے اسے نیند کی گولی دی تھی تاکہ وہ کوئی بھی ٹینشن لئے بغیر سکون سے سوجاۓ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ دعائے خیر مزید ذہن پر کوٸی دباٶ ڈالے ۔ کل جو تفصیل انہیں ملی تھی وہ بلکل بھی اچھی نہیں تھی ۔ وہ کس ڈالی کا پھول تھی اسے جاننا تھا مگر ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔ الٹا وہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگٸ تھی ۔ کل گھر کے اندر ہوا کیا تھا وہ پھر سے سوچنے لگا۔


ملازمہ ان دونوں کو ڈراٸنگ روم میں بیٹھا کر جاچکی تھیں ۔ دعاۓخیر شدت سے ڈاکٹر کنول جو کہ مسزشاہ تھی کی منتظر تھی ۔ وہ بھاری دبیز پردہ تھوڑا سا ساٸیڈ پر کرتی چہرے پر نرم مسکراہٹ لۓ اندر داخل ہوٸیں


”اَلسَلامُ عَلَيْكُم!“ دونوں نے ساتھ کھڑے ہوکر ایک ساتھ ہی سلام کیا۔


”وَعَلَيْكُم السَّلَام! بیٹھو بچوں اٹھ کیوں گۓ۔“ گرم جوشی سے جواب دیتی وہ انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتیں خود بھی ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ چکی تھیں ۔

”آنٹی میرا نام اذلان وارث ہے اور سلیمہ بیگم کا بیٹا ہوں۔“ دعاۓخیر کو خاموش دیکھ اس نے خود ہی اپنا تعارف کروایا

”ماشاءاللہ بھٸ کافی ہنڈسم ہو۔ ایک تم ہی ہو جس کی پیداٸش میرے کلینک پر نہیں ہوٸی کیونکہ میں جاچکی تھی ورنہ ماشاءاللہ تمہارے خاندان کے سبھی بچوں کو دنیا میں لانے کا وسیلہ میں ہی بنی تھی۔“ مسکراتے ہوۓ وہ خوش دلی سے بتانے لگیں ۔ وہ ایک ہنس مکھ خاتون تھیں جو اذلان کو پہلی نظر میں پسند آٸیں تبھی ان کی بات سن کر وہ ہولے سے مسکرا دیا تھا۔


”یہ پیاری سی بچی کون ہے؟ ثروت کے ساتھ بھی مال میں دیکھا تھا اور کچھ دنوں پہلے پارلر میں ملاقات ہوٸی تھی۔“ اب کے وہ سرجھکاۓ خاموش بیٹھی دعاۓخیر کو دیکھ کر اشتیاق بھرے لہجے میں گویا ہوٸیں۔


”آنٹی یہ میری بیوی ہے دعاۓخیر! ابھی کچھ دن پہلے ہی ہماری شادی ہوٸی ہے۔“ وہ ساتھ بیٹھی دعاۓخیر کو دیکھتے اس کا تعارف کروانے لگاجو وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھانے سلجھانے کا کھیل کھیل رہی تھی ۔


”بہت مبارک ہو! صدا خوش و آباد رہو۔ اللہ جلد ہی تمہارا دامن خوشیوں سے بھردے۔“ وہ یہ جان کر فوراً ہی ان دونوں کو خلوص دل سے دعاٸیں دینے لگیں تو اذلان نے زوروشور سے جواباً امین کہا جبکہ دعائے خیر اب بھی خاموشی سے اپنا شغل جاری رکھے ہوۓ تھی یوں جیسے وہ اسی کام کے لۓ یہاں آٸی ہو۔


”بیٹا میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ دونوں کس مقصد سے مجھ سے ملنا چاہتے تھے؟“ اپنے ذہن میں ابھرتے سوال کو انہوں نے زبان دی۔ ملازمہ نے جب بتایا کہ ایک لڑکا لڑکی آپ سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ کافی حیران ہوٸیں تھیں کہ ایسا کون ان سے ملنے آگیا؟ تمام رشتہ داروں سے تو وہ شادی کے دوران مل چکیں تھیں لیکن اندر آکر دعاۓخیر کو دیکھ وہ ٹھٹھکی ضرور تھیں لیکن انہوں نے ظاہر نہیں کیا۔ دعائے خیر کا گم صوم انداز اور اذلان کی جھجھک دیکھ اب یہ سوال کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ تبھی وہ سنجیدگی سے پوچھ بیٹھیں۔


”آنٹی آپ ہماری فیملی کو کب سے جانتی ہیں؟ آپ جتنا بھی جانتی ہیں پلیز ہمیں بتادیں۔ ہم ایک پہلی حل کرنا چارہے ہیں جس کا پہلا سرا آپ سے ملتا ہے۔“ اذلان کی مبہم گفتگو اور سنجیدگی سے سوال کرنے پر انہیں اچنبا ہوا لیکن وہ اپنی حیرت پس پشت ڈال گٸیں ۔ اب وہ اتنی دور سے ان کے پاس آۓ تھے تو ضرور کوٸی اہم بات ہی ہوگی۔ یہی سوچ کر انہوں نے بات کا آغاز کیا۔


”سلیمہ بیگم پہلی بار اپنی ساس کے ساتھ میرے کلینک آٸیں تھیں ۔ ان کی پہلی اولاد ہونے والی تھی۔ تمہاری دادی اللہ بخشے بہت اچھی خاتون تھیں ۔ وہ اکثر بی پی وغیر چیک کرانے بھی آجاتی تھیں ۔ میری ان سے اچھی سلام دعا ہوگٸ تھی۔ پھر تمہاری والدہ کے ہاں پہلی اولاد بیٹی پیدا ہوٸی۔ تمہاری دادی نے تب بھی بہت خوشی کا اظہار کیا ورنہ عموما پہلے بیٹے کی پہلی اولاد سب کو بیٹا ہی چاہیۓ ہوتی تھی۔ اب تو خیر لوگ اور حالات کافی بدل گۓ ہیں ورنہ تب ایسا ہی تھا۔ بیٹا نا ہونے کی پاداش میں میں نے سسرال والوں کا بہت برا رویہ بھی دیکھاہے۔خیر چھوڑو اس بات کو! کچھ ماہ بعد تمہارے چچا حارث کی شادی پر انہوں نے مجھے انواٸٹ بھی کیا تھا اور میں گٸی بھی تھی ۔ ثروت ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ سلیمہ بیگم کی دوسری بیٹی کی پیداٸش پر تمہاری دادی کافی بیمار تھیں تو ان کی جگہ ثروت ہی آٸی تھی ۔ میری ثروت سے بہت اچھی دوستی ہوچکی تھی۔ پھر اللہ نے اسے بھی صاحب اولاد کردیا۔ بیٹا پیدا ہوا تھا اس کا اور اس نے بڑے شوق سے اسی وقت اس کا نام ارحم رکھا تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی تمہاری دادی کا انتقال ہوگیا ۔ میں ان دونوں بھی وہاں جاتی رہی ہوں۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب ثروت کی اچانک طبیعت بگڑی اور تمہارے چچا اسے ہوسپٹل لےکر آۓ ۔ وہ دوسری مرتبہ ماں بن رہی تھی۔ ہم نے بہت مشکل سے اسے کے بچے کو بچایا تھا ۔ اس کے بعد اکثر ہی اس کی طبیعت بگڑ جاتی اور وہ اسے میرے کلینک پر لے آتے تھے۔ ان دنوں وہ کافی اسٹریس میں رہتی تھی۔“

”آپ نے پوچھا نہیں کہ انہیں کس چیز کا اسٹریس ہے؟“ ان کی بات بیچ سے کاٹ کر یہ اچانک سوال دعاۓخیر کی جانب سے آیا تھا۔ اذلان نے اس کے چہرہ کو دیکھا جو بلکل سپاٹ تھا لیکن آنکھوں میں عجیب طرح کی وحشت رقم تھی ۔ اس کا سوال سننے کے بعد انہوں نے سلسلہ کلام پھر سے جوڑا۔


”بچے میں نے کافی پوچھا تھا لیکن وہ بتاتی نہیں تھی یا تو خاموش ہوجاتی یا پھر رونے لگتی۔ دن بدن اس کی صحت گررہی تھی جیسے اندر ہی اندر اسے کوٸی غم کھایا جارہا ہو۔ پھر ایک دن اسے خون میں لت پت کلینک لایا گیا ۔ اس کی حالت بہت نازک تھی ۔ میں نے اور میری ساتھی ڈاکٹر نے کافی کوشش کی تھی کہ بچی بچ جاۓ لیکن شاید اس کی زندگی اللہ نے بس اتنی ہی رکھی تھی ۔ بچی تو نا بچ سکی لیکن ہم نے بڑی مشکلوں سے ثروت کو بچایا تھا ۔ اندرونی چوٹوں کے سبب وہ دوبارہ ماں بھی نہیں بن سکتی تھی ۔ یہ جان کر تمہارے چچا بہت روۓ تھے ۔ اس کے بعد وہ بامشکل دو بار مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ چیک اپ کے لۓ آٸی ہے۔ میرے میاں ایک سرکاری آفیسر ہیں تو ان کی پوسٹنگ کے آرڈر آگۓ تھے ۔ میں بس اس سے ملنے کے لۓ کچھ دیر کو گٸ تھی اور مجھے یہ دیکھ کر کافی خوشی ہوٸی تھی کہ وہ کافی حد تک سنبھل چکی تھی ۔ صحت بھی اس کی پہلے سے بہتر تھی۔ اس دن کے بعد سے ہمارا کوٸی رابطہ نہیں تھا ۔ اس کا نمبر مجھ سے مس ہوگیا تھا اور گھر وہ لوگ چینج کرچکے تھے۔ لاسٹ ٹاٸم بس مال میں ملاقات ہوٸی تھی وہ بھی مختصر! میں حیران تھی کہ اس نے مجھے پہچانا کیوں نہیں؟ لیکن پھر اس کی اچانک ہی طبیعت بگڑی تو ملاقات بھی ادھوری رہ گٸی ۔ ورنہ فون نمبر تو میں لے ہی لیتی ۔ خیر اب تو میں جارہی ہوں۔ کل صبح کی میری فلاٸٹ ہے۔ ان شاء اللہ اگلی دفعہ آٶں گی تو ضرور ثروت سے ملوں گی تم اپنا نمبر دے دینا بیٹی!“ وہ سنجیدگی سے ساری باتیں ان کے سامنے کھول چکیں تھیں لیکن ان دونوں کو بت کی مانند ساخت دیکھ وہ دعاۓخیر کو پریشان کن نظروں سے دیکھنے لگیں جو سفید پڑتے فق چہرے کے ساتھ اذلان کا بازو تھامے بیٹھی تھی ۔

”مجھے لگتا ہے اس بچی کی طبیعت خراب ہورہی ہے۔“وہ متفکر سی بولتی اٹھ کھڑی ہوٸیں۔


”جی بس ہم چلتے ہیں ۔ یہ میرا کارڈ ہے آپ رکھ لیں۔“ وہ ہوش میں آتا عجلت بھری پریشانی میں کہتے انہیں جیپ سے کارڈ نکال کر دیتا دعاۓخیر کے بےجان ہورہے وجود کو احتیاط سے شانوں سے تھامے ڈاکٹر کنول کو متفکر چھوڑ کر باہر نکل چکا تھا۔ راستے میں اس نے ایک جگہ رک کر اسے فریش جوس زبردستی پلایا تھا۔ جب اس کی طبیعت تھوڑی بحال ہوٸی تو وہ اسے ساحلِ سمندر پر لے آیا۔ وہ خاموشی سے اس کے حصار میں پانیوں پر قدم جماۓ چل رہی تھی ۔ وہ خاموش تھی بلکل خاموش ساکت و جامد! اذلان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے یہاں سے دور بہت دور لے جاۓ ۔ ایک ایسی جگہ جہاں کوٸ غم کوٸی تکلیف اسے ہرٹ نا کرسکے ۔ وہ بار بار ہوا کی تیزی کی وجہ سے اس کے بکھرے بال سمٹ کر اس کی کنپٹی چومتا کبھی ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیتا درپردہ وہ اسے اپنے ساتھ کا یقین دلا رہا تھا۔ اس نے گھر فون کردیا تھا ۔ کم ازکم وہ اس حالت میں اسے گھر لیکر نہیں جانا چاہتا تھا۔ بامشکل خود بھی ڈنر کرتا اور اسے بھی ڈنر کرواکر وہ رات گۓ گھر پہنچا تھا ۔ دعاۓخیر کو اوپر بھیج کر وہ کچن میں گھس گیا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پانی کا آدھا بھرا گلاس اور بوتل تھی۔کمرے میں جاکر بوتل ساٸیڈ ٹیبل پر رکھی اور وہ پانی کا گلاس دعاۓخیر کو پلایا دیا۔ وہ خاموشی سے چینج کرکے اپنی جگہ پر لیٹ گٸ تو اذلان بھی چینج کرتا اس کے قریب ہی لیٹ گیا ۔ اس کی جانب کروٹ لۓ اذلان نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھاما تو وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔ اذلان تھوڑا سا اچکا اور اپنے لبوں کو بطور مرہم اس کی دونوں آنکھوں پر رکھا تو وہ خاموشی سے آنکھیں موند گٸی ۔ وہ پیچھے ہوکر اس کا چہرہ باغور دیکھنے لگا۔ اس کا شوق چنچل پن لاپرواہ انداز اس کی تیکھی ترش باتیں سب قصہ ماضی سے لگنے لگے تھے۔ اسے دیکھ کر کسی زلزلہ شدہ عمارت کا سا احساس جاگ رہا تھا۔ لیکن ابھی تو آفٹر شاکس آنے باقی تھے ۔ وہ ڈر رہا تھا کہ نجانے وہ آگے کے حالات کو کیسے فیس کرپاۓ گی کیونکہ صرف آدھا سچ جان کر ہی وہ اپنی جان ہلکان کرچکی تھی۔ کچھ دیر بعد اذلان کو لگا کہ وہ سوچکی ہے تو اس نے اسکا ہاتھ اپنے لبوں سے چھوکر اپنے سینے پر رکھ کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تاکہ سینے میں سرپٹختے اس کے غم میں ہلکان ہوتے دل کو تھوڑا تو قرار ملے ۔ اسے یونہی دیکھتے دیکھتے وہ خود بھی نیند کی وادیوں میں اترچکا تھا۔

”میری بچی کی طبیعت اب کیسی ہے؟ تمہاری والدہ بتارہی تھیں کہ ہلکہ ہلکہ پھر سے بخار ہورہا ہے تمہیں، اپنا خیال رکھو میری بچی! اتنی لاپرواہی ٹھیک نہیں۔۔“ وہ اذلان کے ساتھ ہی سیٹنگ ایریا میں آکر بیٹھی تھی جہاں اس وقت سب ہی موجود شام کی چاۓ سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ تبھی اس کی اتری صورت دیکھ حارث صاحب شفقت سے پر فکرمندانہ لہجے میں بولے تھے ان کے بولنے میں ایک پیار بھری سرزنش بھی شامل تھی ۔ کیونکہ ان دنوں وہ بہت لاپرواہی برت رہی تھی ۔ ڈھنگ سے کھانا پینا چھوڑ رکھا تھا۔ گھر میں تقریباً سب ہی اس کو لیکر متفکر ہوچکے تھے ۔ اس وقت بھی سب کے چہروں پر اس کے لۓ پیار محبت کے ساتھ فکرمندی بھی دیکھی جاسکتی تھی۔ ذرد رنگ کے لباس میں وہ خود بھی سرسوں کے پھول جیسی لگ رہی تھی ۔


”بابا میں کون ہوں؟“ اچانک ہی سپاٹ لہجے میں پوچھے گۓ اس سوال پر ثروت بیگم چہرے پر پریشانی کے ساتھ ان کے ہاتھ میں لرزش بھی اتری تھی ۔ وارث صاحب اور سلیمہ بیگم نے پریشانی میں گھیر کر ایک دوسرے کو دیکھا ۔ اذلان خاموشی سے دعاۓخیر کے ساتھ ہی بیٹھا تھا جبکہ حارث صاحب کے چہرے پر سب کے برعکس ایک دھیمی پرشفیق سی مسکراہٹ آٸی تھی ۔


”میری پیاری سی بیٹی اور ہم سب کی لاڈلی دعاۓخیر ہو۔۔“ پرسکون انداز اور نرم لہجے میں جواب آیا۔


”اس معاشرے میں میری پہچان کیا ہے؟“ سوال بڑھے تو سب کے چہروں پر پریشانی بھی بڑھی تھی۔


”حارث سرور کی بیٹی کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہو اور اب تو ماشاءاللہ تمہارا عہدہ بڑھ گیا ہے تو شوہر کے نام سے جڑ کر اور معتبر رشتے سے پہچانے جانے لگی ہو۔۔۔“ انہوں نے اسی ٹہراٶ بھرے لہجے میں اسے جواب دیا۔


”سنا ہے روزمحشر اولاد اپنے باپ کے نام سے پکاری جاۓ گی؟ یہ بات درست ہے؟“ اس سوال پر ثروت بیگم متوحش سی روپڑیں ۔ ان کا ڈر ان کا خوف ان کے سامنے آگیا تھا۔ جسے وہ اپنا وہم سمجھ کر ٹال رہی تھیں وہ حقیقت قیامت بن کر ان کے سروں پر ٹوٹنے والی تھی۔


”ہاں یہ بات درست ہے لیکن صرف تمہیں آج اس سوال کو پوچھنے کی کیوں ضرورت پڑھ گٸی؟“ حارث صاحب پریشان کن تاثرات کے ساتھ اس کا سپاٹ چہرہ دیکھتے استفسار کرنے لگے۔ سلیمہ بیگم اپنی جگہ سے اٹھ کر ثروت بیگم کے پاس جابیٹھیں اور ان کے ہاتھ تسلی آمیز انداز میں دباۓ ۔ وہ دونوں بھاٸی بھی سمجھ چکے تھے کہ دعاۓخیر کو کچھ نا کچھ

پتا چل چکا ہے جس وجہ سے وہ ان سے اس قسم کے سوالات کررہی تھی ۔


”کیا جاننا ہے تمہیں میری بچی؟ تمہارے لۓ یہ کافی نہیں ہےکہ اس معاشرے میں تم حارث سرور کے نام

سے جاننی پہچانی جاتی ہو۔“ سنجیدگی سے پر لہجے میں وہ اس کے چہرے کو باغور دیکھتے بول رہے تھے جس کی شادابی کچھ دنوں سےنجانے کہاں جا سوٸی تھی ۔


”بےشک بابا اس دنیا میں میں آپ کے نام سے پکاری گٸ ہوں لیکن روزمحشر میں جس کے نام سے پکاری جاٶں گی مجھے اس کا نام جاننا ہے،تاکہ جب مجھے روز محشر اپنے باپ کے نام سے پکارہ جاۓ تو میں انجان نارہوں۔۔“ اس کے لہجے کی بےبسی ان کی آنکھوں کو پرنم کرگٸ تھی ۔ ثروت بیگم تو بس خاموشی سے آنسو بہارہی تھیں جبکہ باقی اہل خانہ دکھ بھری خاموشی میں گھیرے تھے ۔


”ہمارا ہونا تمہارے لۓ کافی نہیں ہے دعاۓخیر!!“

ٹوٹے لہجے کا سوال اسے مزید توڑ گیا تو ایک آنسو اس کی پلکوں کی باڑ سے لڑک کر اس کے گال پر پھسلا اور اس کی گود میں رکھے ہاتھ پر آگرا۔


”آپ سب کا ہونا میرے زندہ رہنے کی وجہ ہے بابا! لیکن میں جاننا چاہتی ہوں کہ میں جس کے وجود کا حصہ ہوں جس نے مجھے اپنے خون سے سینچا اپنی دھڑکنوں میں میری دھڑکنیں شمار کیں اس نے میری پیداٸش کے بعد کیوں مجھ سے منہ موڑ لیا؟

میں ان کے لۓ ناسور تھی جسے انہوں نے جسم سے کاٹ پھینکا یا کوٸی گناہ جسے چھپانے کو انہوں نے مجھے خود سے دور کردیا؟ایک پھول کو بھی علم ہوتا ہے کہ وہ کس ڈالی سے ٹوٹ کر بکھرا ہے لیکن میں کس ڈالی سے ٹوٹ کر بکھری ہوں مجھے علم نہیں۔ کونسا پھول ہوں میں؟ کانٹوں میں گھیرا گلاب یا پھر خوشبو بھرا موتیا یا پھر کچڑ کا کنول؟ کون ہوں آخر میں بابا! اتنا جاننا تو میرا حق بنتا ہے نا؟“ وہ اب ان کے دونوں ہاتھ تھامے ان پر اپنا ماتھے ٹکاۓ ضبط میں گھیری کہہ رہی تھی۔اس کا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا تھا۔


”میری بچی! بعض سچ جھوٹ سے زیادہ زہرآلود ہوتےہیں اور ان کا تریاق بھی نہیں ہوتا۔ جس سچ پر پردہ پڑا ہے اسے بےپردہ کرنے سے تم تکلیف میں مبتلا ہوکر خود بھی تڑپو گی اور ہمیں بھی تڑپاٶ گی تو اس سے اچھا یہ نہیں کہ تم سب بھول جاٶ کچھ یاد نا رکھو سواۓ اس بات کے کہ تم حارث اور ثروت کی بیٹی ہو۔ ماں تو وہ تمہاری ہی ہے۔ اپنے سینے کی گرمی دی ہے تمہیں اس نے دو سال۔ تمہیں لاڈوں سے پالا ہے چاہا ہے سنوارا ہے۔ ناز نخرے اٹھانے کے ساتھ ڈانٹ اور جھڑکیاں بھی دیں ہیں ۔ اس کی ممتا میں کوٸ کمی لگی ہے جو تم حقیقت سے روشناہی چاہتی ہو؟“ اس کے سر پر ہاتھ رکھے وہ دھیمے سنجیدہ لہجے میں استفسارکر رہے تھے جبکہ ان کی آخری بات سن کروہ تڑپ کر سیدھی ہوٸی۔


”مجھے والدہ اور آپ سب کی محبت پر کوٸی شک و شبہات نہیں لیکن میرے سینے میں ایک پھانس چبھ گٸ ہے اور اس تکلیف کے سبب میں کھل کر سانس بھی نہیں لے پارہی۔“ وہ بےبسی میں گھیری آخر کار روپڑی۔


”چاچو آپ بتادیں ایسے جو بھی سچ ہے۔ وہ اس زہر کے ساتھ تو شاید پھر بھی جی لے لیکن اس پھانس کے سبب گھٹ گھٹ کر مرجاۓ گی۔“ اسے مسلسل تکلیف میں مبتلا دیکھ اذلان خود بھی اذیت میں گھیرےسنجیدگی سے بول اٹھا ۔ اس کی بات سن کر حارث صاحب نے ایک بےبس نگاہ سب پر ڈالی تو وارث صاحب نے انہیں بولنے کا اشارہ دیاجبکہ ثروت بیگم کے رونے میں شدت آگٸ تو سلیمہ بیگم نے انہیں شانوں سے تھام کر اپنے ساتھ لگالیا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


بلیک کلر کے ویلویٹ کے فراک پاچامے میں جس کے گھیر گلے اور آستینوں پر نازک سے کام بنا ہوا تھا پہنے ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ بالوں کی چوٹی بناۓ وہ کانوں میں نازک سے آوزے پہن رہی تھی ۔ وہ ریڈی ہوچکی تھی لیکن ارحم کی ابھی تک کوٸی خیر خبر نہیں تھی۔ وہ سارا دن کمرے میں اکیلی بند رہ رہ کر اکتاگٸ تھی ۔ یہاں کچھ سگنل ایشو بھی تھا ۔ اس نے کتنی دفعہ گھر کالز کی لیکن لاٸن ڈسکنیکٹ ہوجاتی تھی ۔ چینل سرچنگ کے دوران وحید مراد اور رانی کی پرانی مووی دیکھ وہ بوریت سے بچنے کے لۓ وہی دیکھنے لگی ۔ ساڑھے چار بجے فلم ختم ہوٸی تو اس نے اپنے لۓ سینڈوچ اور کافی کا آرڈر دیا اور فرش ہونے چل دی۔ ایک تو اتنی سردی اس پر تنہاٸی کا عالم اور سونےپر سہاگہ گھروالوں سے دوری اس سچوٸشن پر اسے خود بخود رونا آۓ جارہا تھا۔ اس نے بامشکل سینڈوچ ختم کرکے کافی کے کڑوے گھونٹ بھرے ۔اس کے بعد اس نے ڈریس چینج کیا اور تیار ہوگٸی ۔ دل نجانے کیوں بار بار دعاۓخیر کو یاد کررہا تھا؟ عجیب سی بےچینی تھی جو اسے گھیرے ہوۓ تھی ۔سردی سے بچنے کےلۓ ڈریس کے اوپر اس نے لانگ جرسی پہن رکھی تھی ۔ فابیحہ نے گھڑی کی سمت نگاہ کی جو چھ بجارہی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی روم کے لاک کھلنے کی آواز آٸی۔ اس نے سر نہیں اٹھایا یونہی بیٹھی رہی۔ ارحم سلام کرتا روم میں داخل ہوا اور دروازہ لاک کرتا پلٹ کر بیگ ساٸیڈ ٹیبل پر رکھتا ایک ہاتھ سے ٹاٸی ڈھیلی کرتے وہ فابیحہ کے قریب چلا آیا۔


”ڈیٸر واٸفی جب شوہر تھک کرہار کر کام سے لوٹے تو اسے مسکرا کر ویلکم کرتے ہیں اور ایک آپ ہیں کہ منہ پھولاۓ چہرہ جھکاۓ نو لفٹ کا بورڈ تھامے سلام کا جواب تک نہیں دےرہیں۔“ آنکھوں میں چمک اور لہجے میں سنجیدگی سمیٹے اس نے فابیحہ کو شانوں سے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کرکے ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ اونچا کیا تو ٹھٹھک گیا ۔ آنسو ضبط کرنے کی کوشش میں اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔ گلابی گلوس سے سجے کٹاٶں دار ہونٹ تھرتھرارہے تھے ۔


”مجھے دیکھیں فابیحہ!“ اس کا نرم فکرمند انداز میں کہنا غضب ہوگیا وہ ایک دم ہی اس کے وسیع سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ ارحم اس سچوٸشن میں بوکھلا اٹھا۔


”کیا ہوا ہے فابیحہ؟ روکیوں رہی ہیں؟پلیز کچھ تو بولیں؟کوٸی بات ہوٸی ہے؟ کسی نے کچھ کہا ہے یا میرے پیچھے کوٸی آیا تھا؟“ سوالات بڑھنے کے ساتھ ہی اس کا لہجہ خطرناک حد تک سرد و سنجیدہ ہوچکا تھا لیکن سب سوالوں کے جواب میں اس کا سر نا کے انداز میں ہلا تھا۔


”پھر روکیوں رہی ہیں؟“ اپنے اندیشے غلط ہوجانے پر وہ ریلکس ہوتا اس کے سر پر بوسہ دیتے اس کی کمر سہلاکر پچکار کے پوچھا۔


”آپ کی وجہ سے“ سسکی کے درمیان میں جواب موصول ہوا۔

”واٹ؟ میری وجہ سے لیکن میں نے کیا کیا؟“ حیرت میں گھیرے ایک دم ہی اس کی آواز اونچی ہوٸی تو وہ غصہ میں اس سے الگ ہوکر دور ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔


”کوٸ اپنی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے بھلا!

سب اپنوں سے دور یہاں اجنبیوں کےبیچ تنہا چھوڑ

کر چلے گۓ اوپر سے کوٸی حال احوال کا بھی علم نہیں ۔صبح کے گۓ شام میں لوٹے ہیں ۔اکیلے کمرے میں رہ رہ کر میرا دم خشک ہوگیا اور پوچھ رہے ہیں واٹ میں نے کیا کیا ہے؟“ غصے میں بھڑک کر وہ نروٹھے لہجے میں بولتی آخر میں اسکی نقل بھی اتار گٸ تو ارحم اس کی بچوں والی حرکت پر ایک دم ہی قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔ اس کے یوں ہنسنےپر اس نےایک غصیلی تیکھی نظر اس کے وجیہہ چہرے پر ڈالی اور ناراضگی کے طور پر سینے پر ہاتھ لپٹےاس کی جانب سے رخ موڑ گٸ۔


جب سے ان کی مہربانی ہو گئی

زندگی اب رات رانی ہو گئی

اس نے مانگی زندگی سوغات میں

نام اس کے زندگانی ہو گئی

ابتدائے زندگی کی صبح سے

شام تک پوری کہانی ہو گئی

روٹھنا ہنسنا منانا پیار میں

زندگی کتنی سہانی ہو گئی

کھو گئے مصروفیت کی بھیڑ میں

ختم اس میں زندگانی ہو گئی

میں بھی ان کا ہوں دوانہ اس طرح

جس طرح میراؔ دیوانی ہو گئی

اس نے مانگی زندگی سوغات میں

نام اس کے زندگانی ہو گئی


پرفسوں لہجہ کی گھمبیرتا پر فابیحہ کا دل سرپٹ دوڑا تو ہاتھ پیروں میں سنسناہٹ اترآٸی۔ ارحم دوقدم کا فاصلا ختم کۓ اس کی پشت پر آن کھڑا ہوا تو فابیحہ نے اپنی سانس تک روک لی۔


روٹھے ہوتم تم کو کیسے مناٶں پیا

بولو نا ۔۔۔۔۔ بولو نا ۔۔۔۔۔۔۔


اسے پیچھے سے اپنے پیار کے حصار میں قید کۓ وہ اس کی کان کی جانب جھکے جھکے دھیرے سے گنگنایا تو فابیحہ نے بےساختہ اپنی نچلالب دانتوں تلے دبالیا۔ سینے میں دھڑکنیں اور باہر ان دھڑکنوں پر حکومت کرتا دل کا مالک شہنشاہ جو اس کے جسم و جاں کی سلطنت کا واحد حکمراں تھا، نے اس کی جان ہلکان کررکھی چھوڑی تھی ۔ وہ جاتی بھی تو کہاں جاتی؟


”ارحم تنگ کریں گے تو میں مزید خفا ہوجاٶں گی۔۔“وہ روہانسی لہجے میں تنبیہہ کرتی بولی۔ یہ ایک طرح کی احتیاطی تدابیر تھی اس کی جانب سے تاکہ وہ اس کی کسی بھی پیش قدمی کو روک سکے۔


”میں منالوں گا۔“ بوجھل لہجے کی سرگوشی نے اس کی جان ہوا کی،اس پر اس ظالم کی گرم دیکھتی سانسوں کا لمس اپنی کان کی لو پر محسوس کرنے کے بعد وہی لمس گردن کی پچھلی جانب آیا تو اس کی سانسوں میں طغیانی برپا ہوٸی تھی۔ وہ اس کی مہکتی قربت میں بہک رہا تھا۔


”ارحم ہم لیٹ ہورہے ہیں۔“ اس سے پہلے کہ وہ فسوں خیز لمحوں کو اپنی دسترس میں لیتا فابیحہ کسمساکر اس کے نرم حصار سے آزاد ہوتی اس کی پرشوق گہری کالی بولتی نظروں سے نظریں چراتیں منمناٸی تھی۔


”کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں۔ ہم واقعی لیٹ ہورہے ہیں۔ میں چنج نہیں کرتا صرف فرش ہوکر آتا ہوں پھر ہم چلتے ہیں۔ تب تک آپ بھی اپنا حلیہ درست کرلیں ۔ رو رو کر اچھی خاصی شکل کا ناس مار لیا ہے ۔“ گھڑی میں وقت دیکھتے وہ ایک دم سنجیدگی سے بولتا پلٹا تھا۔ وہ اس کے ایک دم بدلے انداز کو دیکھتی ہکا بکا رہ گٸ ۔ کہاں وہ اس پر ورفتہ ہورہا تھا اور اب کہاں اسے جانے کی پڑگٸ تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”اَلسَلامُ عَلَيْكُم ہم لیٹ تو نہیں ہوگۓ؟“ خوشدلی سے کہتے وہ فابیحہ کا ہاتھ تھامے کھانے کی میز پر آیا تھا جہاں زبیر اور رمشا پہلے سے ہی ان کا ویٹ کررہےتھے۔

”وَعَلَيْكُم السَّلَام! بلکل بھی نہیں ہم بھی بس کچھ دیر پہلے ہی پہنچے ہیں۔“ انہیں دیکھ کر اکھٹے کھڑے ہوتے ہی ایک ساتھ سلام کا جواب دینے کے بعد جواب زبیر کی جانب سے آیا تھا جو خود بھی پرجوش سا ارحم سے مصافحہ کررہا تھا۔ رمشا ایک پرکشش نقوش کی حامل تھی۔ فابیحہ کو وہ بہت پسند آٸی تھی ۔ زبیر جیسے مخلص انسان کے لۓ رمشا جیسی مخلص لڑکی ہی بہتر تھی ۔ ملنے ملانے کے بعدوہ ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے۔


”آپ کو علم ہے فابیحہ مجھے آپ سے ملنے کا کتنا اشتیاق تھا؟ زبیر سے آپ کے بارے میں سن سن کر مجھے توسچ میں آپ سے محبت سی ہوچلی تھی۔ آپ کی تعریفیں سننے کے بعد میں نے سوچا کوٸی اتنا اچھا کیسے ہوسکتا ہے؟ ویسے سننے سے زیادہ آپ دیکھنے میں پیاری ہیں۔“رمشا کے بےساختہ تعریف کرنے پر وہ جھنپ کر مسکرادی ۔


”میری بیوی ہیں ہی اتنی پیاری کہ جو بھی انہیں دیکھتا ہے گرویدہ ہوجاتا ہے۔ مجھے دیکھیں میں تو بچپن سے ہی ان کا مرید ہوں۔“ ارحم نے پیاربھرے شرارتی لہجے میں کہا تو رمشا اور زبیر تو ہنس دیۓ لیکن فابیحہ کا چہرہ اس اظہار پر شرم سرخ ہوگیا۔ جناب مسلسل گہری نظروں سے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لۓ ہوۓ تھے۔ سارے رستے بھی اس نے فابیحہ کو اپنے پیار کی حدت بھری نظروں میں ہی رکھا تھا ۔ گاڑی سے اترنے کے بعد اس کا ہاتھ بھی اپنے حدت بھری گرفت میں تھام رکھا تھا۔وہ جب ساتھ انٹر ہوۓ تو کتنے لوگوں کی نظریں اس خوبصورت کپل پر ٹہریں تھیں۔


”میرے اپنے کافی کزنز ہیں لیکن ان سے میری بات چیت سلام دعا سے کبھی آگے نہیں گٸی لیکن آپ دونوں کی دوستی دیکھ کر میرا بڑا دل کرتا ہے کہ کاش میرا بھی کوٸی آپ دونوں جیسا کزن ہوتا۔۔“

ویٹر کو کھانے کا آرڈر دینے کے بعد وہ ہلکی پھلکی گفتگو کررہے تھے جب رمشا لہجے میں حسرت سموۓ کہنے لگی۔

”ضروری نہیں کہ سب کزنز سے آپ کی دوستی اچھی ہو، کچھ کزن ایسے بھی ہوتے ہیں جو جن ہوتے ہیں اور ان سے دور بھاگا جاتا ہے۔ جیسے میں بھاگ جاتی تھی۔۔۔“ فابیحہ کو موقعہ مل گیا تو وہ ارحم کی جانب دیکھتی تیوری پر بل لائے بولی جو اب بھی اس کے نرم و ناک ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں تھامے ہوۓ تھا ۔ اس نے کٸی بار کوشش کرکے اپنے ہاتھ چھوڑانا چاہا مگر وہ گرفت اور مضبوط کرلیتا تھا تبھی وہ اپنی بھڑاس نکالتی بولی تھی ۔ اس کی بات سن کر زبیر کا جناتی قہقہہ برآمد ہوا۔


”اور پتا ہے اس جن کو بڑا غصہ آتا تھا جب وہ پیاری سے شہزادی اس کی قید سے بھاگ کر اپنے دوست کے پاس چلی آتی۔ اس پیاری شہزادی کے پیارے سے دوست کا جب بھی اس جن سے سامنا ہوتا اس جن کا بس نہیں چلتا تھاکہ اسے کچاچبا جاۓ یا پھر دنیا کے اس پار چھوڑ آۓ۔ وہ جب بھی ملتا اپنی بھسم کردینے والی سیاہ نظروں سے اسے گھورتا ہی رہتا تھا۔“ زبیر نے سلسلہ کلام جوڑا تھا۔ارحم چہرے پر مسکراہٹ لۓ یہ گفتگو انجواۓ کررہا تھا ۔ فابیحہ بھی مسکرارہی تھی ۔ بس ایک رمشا ہی تھی جس کےیہ ساری بات سرکے اوپر سے گزر رہی تھی ۔

”پھر ایک دن اس جن کو غصہ آیا۔ وہ شہزادی اس جن کی دل کی بات ہی نہیں سمجھتی تھی تبھی اس جن نے فیصلہ کیا کہ اس پیاری سی شہزادی کو اپنے پیار کی قید میں مقید کرلے گا اور کہیں نہیں جانے دے گا۔ اس نے یہی کیا اور اسے دنیا سے چرا کر اپنا بنالیا ۔ اب وہ اسی جن کی قید میں خوش رہتی ہے کیونکہ وہ شہزادی بھی اسے اسی جن کی طرح چاہتی ہے۔۔“ ارحم نے خوبصورتی سے کہانی کا اختیتام کرکے محبت سے اس کی ہاتھ کی پشت کا بوسہ لیا تو وہ اس بےباکی پر شرم سے دہری ہوگٸ اورجلدی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکال کر اپنی گود میں رکھ لیا۔

”واٶ یار کتنی پیاری اسٹوری تھی ۔ یہ یقیناً آپ دونوں کی ہی لو اسٹوری تھی ہے ناں!“ رمشا پر جوش سی مسکرا کر پوچھنے لگی۔


”پیاری بیوی ماشاءاللہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہن بھی ہے۔ ایسے ہی تو ہم آپ پر فدا نہیں۔۔“

زبیر نے فداوانہ انداز میں کہہ کر اس کا ہاتھ تھاما تو اس نے بوکھلاکر اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔


”یار بیوی میں ارحم جتنا بےباک نہیں ہوں۔“زبیر اس کی بوکھلاہٹ کا پس منظر سمجھتا مسکرا کر ارحم کو دیکھتے ہوۓ شرارت سے بولا۔


”بلکل مجھ سے بھی چار ہاتھ آگے ہو۔ پورے فلمی انداز میں اپنی محبت حاصل کی ہے۔“ ارحم کے برجستہ بولنے پر وہ تینوں ہی کھلکھلاکر ہنسے تھے اس کی ہنسی میں ارحم کی ہنسی بھی شامل ہوچکی تھی ۔ اسی دوران ویٹر نے کھانا لگایا تو وہ گرم گرم کھانے سے انصاف کرنے لگے ۔


”رخصتی کی ڈیٹھ فاٸنل ہوٸی؟“ فابیحہ نے گرم گرم فش فراٸی کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوۓ زبیر کی جانب دیکھتے ہوۓ پوچھا۔


”آج ہی فاٸنل ہوٸی ہے۔ پندرہ دن بعد یہ لوگ کراچی آرہے ہیں ۔ دراصل رمشا کا پورا ننھیال کراچی میں ہوتا ہے تو انکل نے فیصلہ کیا ہے کہ رمشا کی رخصتی وہی سے کریں ۔ امی سے ساری بات چیت ہوچکی ہے ۔ وہ بھی کافی مطمین ہیں اس فیصلے پر۔۔“


”اور تم مطمین ہو؟“ ارحم نے اس کی بات اچکی تو وہ ہنس پڑا۔

”میں مطمین ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی بہت ہوں۔ اپنی محبت کو اپنی زندگی میں عزت کےساتھ شامل کرنے کا شرف جو حاصل ہورہا ہے۔ جب رمشا کی شادی کا سنا تھا تو دل ٹوٹ گیا تھا لیکن امید باقی تھی ۔اسی امید نے مجھے گرنے نہیں دیا۔ ان حالات سے میں نے ایک چیز سیکھی کہ یہ جو امید ہوتی ہےنا یہ ہمیں ہمارے رب سے جوڑتی ہے اور جب ہم اپنے رب سے جڑجاتے ہیں تو رب ہمیں تنہا نہیں کرتا۔ وہ ہماری امیدیں ہم سے پہلے تھام لیتا ہےاور ان امیدوں کو حقیقت کا روپ دے کر ہمیں انعام کے طور پر لوٹا دیتا ہے۔ امید اور صبر ایک ہی سکے کے دو روپ ہیں ۔ صبر بھی وقت طلب ہوتا ہے اور امید بھی صبر طلب ہوتی ہے۔۔“ زبیر کی پراثر باتیں وہ تینوں ہی کھانا کھانے کے دوران خاموشی سے سن رہے تھے۔

”مجھے افسوس رہے گا کہ ہم پہلے سے کیوں دوست نہیں رہے۔ تمہاری ان باتوں نے مجھے کافی متاثر کیا ہے۔“ارحم کے پرستاٸش انداز میں کہنے پر زبیر دھیرے سے مسکرایا

”دراصل تم پہلے مجھے جس نظر سے دیکھتے اس میں میری اچھاٸی بھی تمہیں زہر کے مترادف لگتی تھی۔۔“ زبیر کے لطف سے طنز کرنے پر ارحم نے قہقہہ لگایا تو فابیحہ نے بھی اسے جتاتی نظروں سے دیکھا ۔

”ویسے آپ کن نظروں سے انہیں دیکھتے تھے؟“ رمشا نے پرتجسس لہجے میں پوچھا۔


”جس نظر سے دیکھتا تھا وہ ماضی ہوا اور ماضی کو یاد رکھنا بےوقوفوں کا شیوا ہے اور میں الحَمْدُ ِلله کافی عقلمند ہوں لیکن اب جس نظر سے دیکھتا وہ دوستانہ ہے اور میں حال میں جینے والا بندہ ہوں۔“ نفاست چکن کا پیس کٹ کرتے وہ سنجیدگی سے بولا تو وہ بات سمجھتی دھیمے سے مسکرادی۔

کافی خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا تھا۔ بہت اچھا وقت گزارکر وہ لوگ ساتھ ہی باہر نکلے تھے ۔


”چلو یار اب ہم چلتیں ہیں۔ سسرصاحب سے دوگھنٹے کی پرمیشن لیکر اپنی بیگم کو لایا تھا۔ وہ دو گھنٹے تمام ہوۓ۔ یہ نا ہو غصے میں مجھ معصوم پر کوٸی دفعہ ہی لگادیں ویسےہی بڑی مشکل سے ان کی گڈ بک میں شامل ہوا ہوں۔“ ارحم سے مصافحہ کرتے وہ ازراہِ مزاق بولا تو رمشا اسے گھورنے لگی۔


”اس کی باتوں پر دھیان مت دو ۔ خوشی دماغ پر چڑھ گٸ ہے۔“ زبیر کو لتاڑتی وہ اس کے ہاتھ تھامے پیار سے بولی

”تم اس کی دوست ہو یا میری؟“ اس نےمصنوعی آنکھیں دیکھا کر پوچھا۔


”آج سے ہم دونوں ایک دوسرے کی دوست ہیں۔ مطلب پکی سہلیاں! کیوں رمشا؟“ زبیر کو جتاکر اس نے رمشا سے تاٸید چاہی تو اس نے بھی زور و شور سے اثبات میں سرہلاکر اس کا ساتھ دیا۔


”چلیں بھٸ اب ہم چلتے ہیں اس سے پہلے کہ ان کا اتحاد ہماری حکومت کا تختہ ہی نا الٹ دے۔۔“ ارحم کے سنجیدگی سے کہنے پر ارحم نے زوردار قہقہہ لگایا ۔ جب کے ان دونوں نے ہی اپنے اپنے شوہروں کو تیکھی نظروں سے گھورا تھا ۔ ایک دفعہ پھر الوادعی کلمات کہہ کر وہ چاروں گاڑی میں جابیٹھے تھے ۔ یہ گاڑی ارحم نے اپنی سہولت کے لۓ رینٹ پر لی تھی ۔ گاڑی اسٹارٹ کرتے وہ لوگ اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوۓ تھے۔ تھوڑی دور آکر فابیحہ کو کچھ عجیب سا احساس ہوا تو اس نے پلٹ کر دیکھا ۔

”کیا ہوا؟“ ارحم نے اس کے چہرے پر چھاۓ پریشانی کے بادل دیکھے تو سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔

”ارحم مجھے لگ رہا ہے کہ وہ لڑکے ہماری گاڑی کا پیچھا کررہے ہیں۔“ وہ بول ہی رہی تھی کے اچانک ہی ان لڑکوں نے ان کی گاڑی کے کے سامنے لاکر باٸیک روکی ۔ ارحم نے ایک دم ہی بریک مارا ورنہ وہ ہٹ ہوجاتے۔ اچانک بریک لگنے پر فابیحہ کا سر ڈیش بورڈ پر لگتے لگتے بچا ۔ اس کے منہ سے زوردار چیخ نکلی تھی ۔


”تم ٹھیک ہو؟“ وہ فوراً ہی اس کی جانب متوجہ ہوا اور متفکر سا اسے ٹاٹول کر دیکھنے لگا۔


”میں ٹھیک ہوں وہ سامنے دیکھیں۔“ وہ پریشان سی اٹک اٹک کر بولی جہاں ان دونوں لڑکوں کے ہاتھوں میں گن تھی اور وہ انہیں باہر آنے کا اشارہ کررہے تھے ۔

”ارحم اب کیا ہوگا؟“ وہ ایک دم ہی متوحش ہوکر اس کا بازو دبوچے لرزتی آواز میں بولی۔


”کچھ نہیں ہوتا میری جان تم بس پرسکون رہو۔۔“ وہ اس کا گال تھپتھپاکر گاڑی کا ڈور کھولنے لگا۔


”نہیں نہیں ارحم باہر مت نکلیں۔۔“ وہ بےساختہ ہی اس سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگی۔


”فابیحہ بہادر بنو۔ یوں گاڑی میں بیٹھے رہے تو وہ فاٸر بھی کرسکتے ہیں۔“ وہ اب لہجہ کو تھوڑا سخت کۓ بولا ۔ اسے اپنی پرواہ نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ فابیحہ تھی جس کی ہرحال میں اسے حفاظت کرنی تھی ۔ وہ اسے نرمی سے خود سے علیحدہ کرتے گاڑی سے باہر نکلا تو فابیحہ بھی تیزی سے باہر نکل کر دوڑ کر اس کے بازو سے لپٹ کر کھڑی ہوگٸ ۔ سردی دھند سناٹا یہ سب مل کر ماحول پر عجیب وحشت طاری کررہے تھے ۔ سردی سے زیادہ خوف سے فابیحہ پر لرزا طاری تھا۔


”تمہیں جو بھی چاہیۓ وہ لےلو لیکن بدتمیزی کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔“ ارحم سرد لہجے میں انہیں گھورتے ہوۓ بولا اور کانپتی فابیحہ کو مزید اپنے حصار میں بھینچا۔


”او ہیرو نا بن زیادہ جو ہمیں لینا ہوگا ہم خود ہی لے لیں گے۔“ ان میں سے ایک بندہ بھڑک کر بولا تو ارحم ضبط سے لب بھینچ کر رہ گیا۔ وہ اکیلا ہوتا تو انہیں دھول چٹادیتا لیکن مسٸلہ فابیحہ کا تھا جو خوف سے پیلی پڑتی جارہی تھی ۔ ان دونوں کے چہروں پر رومال بندھا تھا۔ صرف سرخ آنکھیں ہی نظر آرہی تھیں جس سے فابیحہ خوفزدہ ہورہی تھی ۔ اس نے آج تک ان حادثات کے بارے میں خبروں میں سنا تھا اور سن کر وہ افسوس بھی کرتی تھی لیکن آج جب وہی سب اس پر بیت رہا تھا تو وہ خوف سے تھرتھر کانپ رہی تھی ۔


”اپنے موباٸل پیسے اور جو بھی قیمتی چیز ہے فوراً نکال کر گاڑی کی بونٹ پر رکھو۔۔“ پہلے والا پھر چیخ کے بولا۔

ارحم نے والٹ سے پیسے ہاتھ سے گھڑی اتاری اور پلٹ کر وہ چیزیں گاڑی کے بونٹ پر رکھ دیں۔


”ہمارے فون گاڑی میں پڑے ہیں۔۔“ ارحم کے بولنے پر دوسرا لڑکا فوراً گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دو موباٸل موجود تھے۔


”یہ رنگ بھی اتاروں جلدی سے اور گلا ہاتھ کان بھی خالی کرو۔“ پہلا والا پھر تحکم بھرے لہجے میں چیخا۔

”ویسے کیا اتنے پیسوں میں تمہارا کام بن جاۓگا؟“ ارحم کے سنجیدگی سے پوچھنے پر وہ دونوں ہی ٹھٹھکے تھے ۔

”کیا مطلب ہوا اس بات کا؟“ دوسرے والا جب بولا تو اس کا لہجہ لڑکھڑایا تھا۔


”مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنی پریشانی مجھے بتادوتو شاید میں کچھ تمہاری مدد کرسکوں۔“ ارحم کے اطمینان سے کہنے پر وہ دونوں ہی ساکت رہ گۓ۔

”تمہیں کیسے پتا کہ ہم پریشان ہیں؟“ ایک دم ہی پہلے والے کے منہ سے نکلا تھا۔


”یہ جو تم دونوں کی آنکھیں سرخ ہورہی ہیں نا وہ رونے کی وجہ سے ہیں اور روتا انسان جب ہے تب اسے کوٸی غم یا پریشانی لاحق ہو۔ دوسرا تم دونوں پروفیشنل چور نہیں ہو ورنہ کبھی یوں مرنے کے لۓ گاڑی کے سامنے نہیں آتے اور یہ جو تم دونوں کے پاس گن ہے وہ بھی نقلی ہے۔“ ارحم کے کہنے کی دیر تھی کہ دونوں نے اپنے چہرے سے رومال ہٹادیۓ۔

وہ دونوں ہی اچھی شکلوں کے پڑھے لکھے لڑکے لگ رہے تھے ۔ فابیحہ بھی اب ڈر بھلاۓ حیرانی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی جو اپنے حلیے سے کسی اچھی ماں کے چشم و چراغ دیکھ رہے تھے۔


”ہم دونوں بےروزگار ہیں ۔ ماں باپ نے بڑی مشکلوں سے تعلیم دلواٸی۔ ایک سال ہوگیا ہے لیکن اچھی تعلیم کے باوجود نوکری نہیں ملتی ۔ میری ماں شدید بیمار ہوسپٹل میں ایڈمیٹ ہے ۔ میرے سوا کوٸی سہارا نہیں ہے ان کا۔۔ دو بہنیں ہیں۔ امی کا آنت کا مسٸلہ ہے ان کا آپریشن ہونا ہے ۔چھوٹی موٹی ٹیوشن پڑھاکر گزربسر ہورہا تھا وہ بھی بامشکل لیکن اب آپریشن کے لۓ ہزاروں روپوں کی ضرورت ہے اور یہ میرے دوست ہے ان کا کرایے کا گھر ہے ۔ اس کے پاس بھی نوکری نہیں ہے ایک ٹاٸم سے یہ ویٹر کی جاب کررہا تھا لیکن ایک ماہ پہلے کسی امیر ذادے کی خواہ مخواہ کی شکایت پر اسے نوکری سے نکال دیاگیا ۔ والد معزور ہیں۔ دو ماہ سے کرایہ نہیں دیا تو مالک مکان نے کل تک کی مہلت دی ہے کہ پیسوں دو ورنہ گھر خالی کردو۔اب ایسے حالت میں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوٸی آپشن نہیں بچا تھا۔ سو مجبوری میں حرام کو ہم نے حلال کرنا چاہا۔“ پہلے والا غم وہ غصے کی کیفیت میں بولا تو دوسرا والا بھی دکھی اور شرمندہ سا سر جھکاۓ اس کے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔


”تمہیں اگر نوکری چاہیۓ تو یہ کارڈ رکھ لو اس ایڈریس پر آجانا یہ میرے دوست کی کمپنی ہے۔ یہاں پران شاء اللہ تمہاری دوسری پریشانیاں بھی دور کردی جاٸیں گے۔“ ارحم نے والٹ سے ایک کارڈ نکال کر ان کی جانب بڑھایا تو پہلے والے لڑکے نے جلدی سے آگے بڑھ کر تھام لیا۔


”ہم شرمندہ ہیں کہ ہماری وجہ سے بہن ڈرگٸیں۔ ہمیں معاف کردیں۔ یقین کریں ہم بہت مجبور تھے۔۔“

پہلے والے نے شرمندگی سے ہاتھ جوڑے کہا تو دوسرے والے نے بھی ہاتھ جوڑ دیۓ اور پاکٹ سے موباٸل نکال کر ان کی جانب بڑھا دیۓ اور آگے بڑھ کر پیسے اور گھڑی بھی اسے دی تو ارحم نے صرف گھڑی پکڑی

”یہ پیسے تم دونوں ہی رکھ لو۔ مجھے خوشی ہوٸ کہ میری وجہ سے دو نوجوان گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچ گۓ۔ اگر تم دونوں آج اس واردات کو کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو ہوسکتا ہے مستقبل میں تم بڑے چور ڈاکو بن جاتے یا پھر کسی کے ہتھے لگ کر مارے جاتے ۔ اس کے بعد سوچا ہے کہ تمہارے گھر والوں کا کیا حال ہوتا؟ تمہارے بعد وہ کیاکرتے؟

یہ سب کرنے سے پہلے ان کے بارے میں تو سوچ لیتے۔ برحال شکرادا کرو کہ کچھ غلط ہونے سے پہلے سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔۔“ وہ پہلے والے بندہ کا کندھا

تھپتھپاکر بولا

”بہت شکریہ سر!!“ ان دونوں نے عاجزانہ لہجے میں کہا اور اسے دعاٸیں دیتے باٸیک پر بیٹھ کر چلے گۓ۔ ان کے جانے کے بعد ارحم اور فابیحہ بھی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گۓ تھے۔


”مجھے آج بہت افسوس ہوا ارحم! ہم کیسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں ایک انسان اتنا مجبور ہوگیا ہے کہ دوسرے انسان کو نقصان پہنچا کر اپنا فاٸدہ کررہا ہے یا پھر مایوس ہوکر خودکشی جیسا حرام فیل انجام دے رہا ہے۔اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟کس کے سر ہے اس سب کا گناہ؟“ فابیحہ بولتے بولتے آبدیدہ ہوگٸی۔


” میں نے ایک جگہ پڑھا تھاکہ چور اگر عادتاًچوری کرے تو اس کے ہاتھ کاٹ دو لیکن اگر وہ یہ چوری کسی مجبوری کے تحت کرے تو حاکمِ وقت کے ہاتھ کاٹ دینے چاہیۓ۔ اب تم خود سوچ لو قصوروار کون ہے؟اور گناہ کس کے سر جارہا ہے؟“ وہ سنجیدگی سے اتنی بات کرتاخاموش ہوگیا۔ اس کی پوری توجہ ڈراٸیونگ پر تھی ۔ دونوں ہی خاموش میں گھیرے اپنی اپنی سوچ میں گم تھے اور گاڑی اپنے منزل کی جانب رواں دواں تھی ۔

ماضی💥💥


”اتنی بڑی ہوگٸی ہے لیکن عقل پھر بھی نہیں آتی تجھے! مجال ہو جو ٹک کر بیٹھ جاۓ ۔ زرا شرم لحاظ چھوکر نہیں گزرا۔ اگلے سال ویاہ ہوجانا ہے اور جب سسرال میں یہ حرکتیں کرے گی تو تیری ساس نے دو چھتر لگاکر واپس تجھے گھر چھوڑجانا ہے۔“ ہاجراں کی کڑک دار آواز لاٶنج میں داخل ہوتی سلیمہ بیگم نے سنی تو مسکرا کر رہ گٸیں۔


”آج پھر بچی کو ڈانٹ رہی ہو ۔ کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ اس کے پیچھے نالگا کرو۔ اللہ نے اتنی پیاری بیٹی دی ہے قدر کرو اس کی، کچھ وقت کی مہمان ہوتی ہیں یہ ہمارے گھر ان کی تربیت کرو لیکن شفقت اور نرمی کے ساتھ،یوں ڈانٹ ڈپٹ کر چیخ چلاکر کچھ حاصل نہیں ہونا۔“ وہ صوفے پر بیٹھتی ہاجراں کو ہمیشہ کی طرح سمجھاتے ہوۓ بولیں۔


”بڑی بیگم! تنگ کرتی ہے تو غصہ آجاتا ہے۔“ وہ شکایتی انداز میں بولی جبکہ جس کے بارے میں بات کی جارہی تھی وہ مزے سے ہری بھری کیری دانتوں سے کترنے میں مصروف تھی۔


”اب کیا کردیا لاڈلی نے؟“ ان کے پوچھنے کی دیر تھی کہ لاڈلی صاحبہ نے اپنی شہدرنگ نظریں اٹھاکر انہیں دیکھا۔


”قسم لے لیں بڑی بھابھی! میرا صرف نام لاڈلی ہے لیکن ہوں میں ان کی پکی سوتیلی اولاد! زرا جو لاڈ کرتی ہوں۔ ہر وقت بس ڈانٹتی ہی رہتی ہیں۔ ایک تو کل رات بنابتاۓ میری منگنی کردی اوپر سے جب میں فیض سے لڑنے لگی اس بات پر میں بیچ میں آکر دو ہتڑ جھڑے اور کان پکڑے یہاں لے آٸیں۔“ وہ منہ بسورے اپنی اماں کی شکایت لگارہی تھی جبکہ منگنی والی بات پر سلیمہ بیگم نے استہفامیہ بھری نظروں سے ہاجراں کو دیکھا تھا۔


”بڑی بیگم رات اچانک ہی اس کے تایا تاٸی آگۓ تھے۔

رشتے کا تو بہت وقت سے بول رہے تھے لیکن میں ٹال رہی تھی لیکن کل اس کے ابا نے ہاں کردی اور اس کی تاٸی نے چاندی کی انگوٹھی پہناکر ساتھ لاٸی مٹھاٸی کا ٹوکرا کھلواکر سب کا منہ میٹھا کروادیا ہوگٸ منگنی۔۔ تب سے اس نے واویلا مچایا ہوا ہے۔ مانا سب جھٹ پٹ اچانک ہوا ہے لیکن فیض اچھا لڑکا ہے۔ گیارہ جماعتیں پاس ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر اس جھلی کو پسند کرتا ہے۔ اپنی اتنی وڈی جی کریانہ کی دکان ہے۔ اس کےباپ جیسا نہیں ہے نشٸ ٹھیلا چلانے والا! بات بے بات چیخ چلاکر بےعزت کرنے والا۔“ اپنے ہونے والے داماد کو لے کر ان کے لہجے میں ہی نہیں انداز میں بھی ستائش تھی۔


”اگر وہ عادت اخلاق کا اچھا ہے۔ تمہیں پسند کرتا ہے۔ پڑھا لکھا ہے تو پھر تمہیں کیا اعتراض ہے؟“ سلیمہ بیگم نے اس کے غبارے کی طرح پھولے منہ کو دیکھتے ہوۓ ہنسی ضبط کرتے بڑی سنجیدگی سے پوچھا ۔ وہ سانولی رنگت کی پرکشش نقوش کی حامل تھی لیکن اس کےچہرے کا بھولا پن دیکھنے والے کو اس کی جانب کھینچتا تھا۔ سرور منزل میں اس کا الگ مقام تھا۔ سب اسے چاہتے تھے۔ بچے اس کے دیوانے تھے ۔ ہاجراں جوانی کے زمانے سے ان کی ساس کا ہاں ماسی کا کام انجام دیتی تھی۔ اس کے تین لڑکے بھی تھے لیکن وہ اپنے ساتھ لاڈلی کو ہی لیکر آتی تھی کیونکہ لڑکی ہونے کے سبب وہ اسے اکیلی گھر نہیں چھوڑتی تھی ۔ پچھلے محلے میں جٹھانی کا بھی گھر تھا لیکن ان کے بھی گھر میں دو دو لڑکے تھے ۔ وہ بیٹی کی ماں ہونے کی وجہ سے محتاط رہتی تھی۔ یہاں سب ہی اس سے کافی لگاٶ رکھتے تھے ۔ جب سلیمہ بیگم اس گھر میں بیاہ کر آٸیں تو لاڈلی نے اپنی شرارتوں اور باتوں سے خوب ہی ان کا دل بھلایا تھا۔ وہ اسے بہت پسند کرتی تھیں۔ انہی کے کہنے پر اس کا روکا گیا پڑھاٸی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔ ثروت بیگم کے آنے کے بعد وہ ان کی بھی گڈ بک میں شامل ہوچکی تھی ۔ ثروت بیگم کی عادت بھی کم و بیش اسی کی طرح شوق و چنچل تھی تو ان کی گاڑی بھی خوب ہی چھنتی تھی ۔ پیپرز کے دنوں میں اس کا زیادہ وقت سرور منزل میں گزرتا تھا کیونکہ وہ دونوں ہاری باری اسے پڑھاتیں تھیں ۔ سلیمہ بیگم بچوں کی وجہ سے مصروف ہوتی تھیں تو پڑھانے کی زیادہ ذمہ داری انہی کے شانوں پر آتی جو وہ باخوشی نبھاتی تھیں۔ پھر ثروت بیگم کے ہاں ارحم کی ولادت کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رکا تھا اور حال ہی میں اس نے میٹرک اچھے نبروں سے پاس کیا تھا۔ وہ جلدی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ایسی وجہ سے اور چڑی ہوٸی تھی تبھی ان کے پوچھنے پر شروع ہوگٸی۔۔۔


”اچھا ہوگا تو اپنے لۓ ہوگا۔ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ جب دیکھوں مجنوں بنا پیار محبت کی باتیں کرتا ہے۔ میں نے منع بھی کیا تھا کہ نا لاۓ رشتہ مگر مانا نہیں ۔ بس وہی حساب اس سے کلٸر کررہی تھی کہ اماں آگٸی اور باتیں صلاوتیں اور لاتیں سب سے میری درگت بناتی مجھے یہاں پر لےآٸیں اس مٹھاٸی کے ساتھ۔“ وہ تیکھے مگر نروٹھے لہجے میں ہاتھ ہلاہلا کر بولی تو ہاجراں نے رکھ کر ایک ہاتھ اس کےہلتے ہاتھوں پر مارا۔

ہاجراں باجی! سیلمہ بیگم نے سرزنش کی۔


”کم بخت! پیار کرتا ہے تجھے تبھی اتنی باتیں تیری برداشت کرلیتا ہے۔ ہوتا نا تیرے ابا جیسا تو رکھ کر ایک دو لگادیتا۔ یہ جو کتر کتر کیری چبارہی ہے اس میں سے ایک کیری اس بےچارے کو دےمار آٸی ہے۔ وہ جھلا بھی اس کی حرکت کا برا مناۓ بغیرہنس رہا تھا۔ اسے سمجھاٸیں کچھ عقل دیں کہ سدھر جاۓ۔اگر ابھی نہیں سیکھی توپھر وقت بڑا استاد ہے جب وہ سیکھتا ہے تو لگ پتاچل جاتا ہے۔۔“ وہ اسے ڈاپٹ کرجھنجھلا کر کہتی بولی تھیں لیکن ان کے آخری جملے میں اس کے لۓ ممتا بھری فکرمندی جھلک رہی تھی۔

”اچھا تم فکر ناکرو میں اسے سمجھادوں گی۔ تم میرا منہ تو میٹھاکرواٶ۔“ وہ اس پر سے توجہ ہٹواتی بات بدل گٸیں۔


”چھوٹی بیگم نظر نہیں آرہیں؟“ مٹھاٸ کا ڈبا کھول کر ان کے سامنے رکھتے وہ اِدھر اُدھر نگاہ دوڑاتی بولی تھی۔ بچے تو خیر سارے اس وقت اسکول ہوتے تھے لیکن وہ دونوں صبح یہی بیٹھی ملتی تھیں۔

”ثروت کی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو آرام کررہی ہے۔ تم ناشتہ بنادو تو پھر اسے اٹھادینا۔۔“ سلیمہ بیگم مٹھاٸی کا ٹکڑا توڑ کر منہ میں رکھتی بولیں اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے والٹ سے چند ہزار کے نوٹ نکال کر لاڈلی کے ہاتھ میں رکھے تو وہ خوشی سے کھل اٹھی

”آپ کتنی اچھی ہو بڑی بھابھی! اب میں اپنی دوست کی شادی میں پہننے کے لۓ نیا جوڑا لوں گی ۔ دو ہزار کل تاٸی بھی دے کر گٸیں ہیں۔“ وہ چہک کر اٹھی اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان کا گال چوم لیا تو وہ ہنس کر اس کے سر پرہاتھ پھیر گٸیں۔


”چھوٹی بیگم کے پھر خوشخبری ہےکیا؟“ ہاجراں کے پوچھنے پر انہوں نے اثبات میں سرہلادیا۔ان کی بات سنتی لاڈلی بھی خوش ہوگٸ کہ ایک اور گڈا یا گڑیا آنے والا تھا۔ اسے تو ویسے بھی بچے بہت پسند تھے۔ہاجراں بھی اس خبر پر خوش کا اظہار کررہی تھی۔


”بہت بہت مبارک ہو بڑی بیگم میں اب جلدی سے ان کے لۓ ناشتہ بناکر انہیں اٹھاتی ہوں۔۔“وہ انہیں مبارک باد دیتی خوشی خوشی اٹھ کر کچن کی جانب چل دیں۔


”لاڈلی ادھر میرے پاس آکر بیٹھو۔“ وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے اپنے پاس بیٹھاتی بولیں تو وہ چپ چاپ ان کے قریب آکر بیٹھ گٸی۔


”کیوں تنگ کرتی ہو اپنی اماں کو! دیکھو اگر لڑکا اچھا نہیں ہے یا اس میں کوٸی براٸی ہے تو مجھے بتاٶ میں وارث سے بول کر تمہارے ابا سے بات کرلیتی ہوں۔“ وہ اس کا ہاتھ تھامے پیار سے پچکارتے ہوۓ بولیں۔


”نہیں اب ایسا بھی نہیں ہے ۔ اچھا ہے! بس جب آنکھوں میں شوخی لۓ دیکھتا ہے تو زہرلگتاہے۔۔“ وہ دھیمے سے منمناکر بولی تو سلیمہ بیگم نے ہنس کر اسے اپنے ساتھ لگاکر اس کا ماتھا چوما۔


”کیا ہورہا ہے بھٸ؟ اور یہ مٹھاٸی کس خوشی میں ہے؟“ فریش سی ثروت وہاں آتی مٹھاٸی کا ڈبا دیکھتی تجسس سے پوچھنے لگی۔


”مبارک باد دو اپنی لاڈلی صاحبہ کو! منگنی ہوگٸ ہے۔۔“ سلیمہ بیگم اسے چھڑنے کے انداز میں ثروت سے بولیں تو وہ شرما کر جھنپ گٸی۔


”ماشاءاللہ ہماری لاڈلی اتنی بڑی ہوگٸ کہ منگنی بھی کروالی واہ بھٸ بہت مبارک ہو۔۔“ ثروت بھی ان کے قریب بیٹھتیں مٹھاٸی کے ڈبے سے ایک ٹکڑا اٹھاکر اس کے منہ میں ڈالتی خوشی سے لبریز لہجےمیں بولیں تو وہ مٹھاٸی کھاتے شرماکر چہرہ جھکاگٸ۔


”ارے آپ اٹھ گٸیں اچھا ہوا میں گرم گرم ناشتہ لاٸی ہوں آپ کےلۓ۔“ہاجراں ناشتے کی ٹرے اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتی مسکراکر بولی۔


”ناشتہ بھی میں کرلوں گی پہلے مبارک باد تو لے لو۔۔“ ثروت کے کہنے پر ہاجراں خوش ہوگٸی۔


”خیر مبارک ہو چھوٹی بیگم ویسے مبارک باد تو آپ کو بھی دینا بنتی ہے ۔ماشاءاللہ سے ایک دفعہ پھر خوشخبری دےرہی ہیں۔۔“ اس کے چہک کر کہنے پر ثروت بیگم کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا ۔ ناشتے دینے کے بعد وہ تو صفاٸی میں لگ گٸی جبکہ ثروت ناشتہ کرنے لگی۔ سلیمہ بیگم لاڈلی کی اوٹ پٹانگ باتوں پر ہنس رہی تھیں ساتھ ثروت کی بھی ہنسی شامل تھی مگر کون جانتا تھاکہ یہ ہنسی بہت جلد آنسوٶں میں بدلنے والی تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


یہ ایک ہفتے بعد کی بات تھی ۔ ہاجراں صفاٸی ستھراٸی کرکے جلد ہی گھر چلی گٸی تھی۔ اس کے چھوٹے بیٹے کی کافی طبیعت خراب تھی ۔ لاڈلی جو کھانا وغیرہ اور کچن کے کام میں اپنی اماں کی مدد کردیا کرتی تھی وہ رک گٸی تھی ۔ ثروت بیگم کی خود کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی اور سلیمہ بیگم اکیلی سب نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ دونوں مرد حضرات تو کام پر گۓ ہوۓ تھے ۔ بچے اسکول میں تھے۔ اس وقت گھر میں وہ تینوں ہی موجود تھیں۔ لاڈلی تو کچن میں آگٸ تھی لنچ کی تیاری کرنے کے لۓ جبکہ سلیمہ بیگم اندر تھیں دھوبی کے دیۓ گۓ کپڑے الماری میں سیٹ کررہی تھیں۔

”لاڈلی مجھے تو تم فریج سے جوس نکال کردے دو۔ ایک تو بھوک لگی ہی اوپر سے گرمی۔“ ثروت اپنی حالت کے پیش نظر بےزار سی کچن کے باہر سے ہی بولی ۔ اتنے میں مین گیٹ کی بیل بجی۔


”لو ایک تو چوکیدار کو بھی آج ہی چھٹی کرنی تھی۔“ وہ بجتی بیل پر بےزار سی بولیں۔


”چھوٹی بھابھی آپ رہنے دو میں جاکر دیکھتی ہوں۔۔“ انہیں باہر کی جانب بڑھتے دیکھ وہ جلدی سے بولی۔


”تم اپنا کام کرو میں دیکھ رہی ہوں۔ ویسے بھی ڈاکٹر نے واک کا مشورہ دیا ہے اور میں لیٹے بیٹھے خود بھی تنگ آگٸی ہوں۔ پتانہیں اسوقت کون آیا ہوگا؟“ وہ بےزار سی کہتی گھڑی پر نظر ڈالیں بولیں جو دوپہر کے بارہ بجارہی تھی ۔ گرمیوں کے دن تھے تو اس وقت اس اسٹریٹ پر سناٹا بھی ہوتا تھا۔ انہوں نے گیٹ ہول سے دیکھا تو ایک ایجڈ عورت نظر آٸی جو شال کے پلو سے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کررہی تھی۔


”کون ہے؟“ انہوں نے اونچی آواز میں پوچھا


”بہن یہاں کسی رشتہ دار سے ملنے آٸی تھی ۔ ایڈریس گم ہوگیا ۔ اب بڑی دیر سے گرمی میں یہاں وہاں بھٹک رہی ہوں۔ بڑی مہربانی ہوگی جو ٹھنڈا پانی پلادو گی۔“ وہ نقاہت ذدہ لہجے میں بولی ۔ وارث صاحب اور حارث صاحب نے انہیں سمجھایا تھاکہ چوریوں کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں تو احتیاط کریں۔یہ چوکیدار بھی ایک ماہ پہلے ہی حفاظت کے طور پر رکھاگیا تھا لیکن ان کی ہمدرد طبیعت کی بدولت یہ بات ان کے ذہن سے محو ہوگٸی اور انہوں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھولتے ہی وہ عورت اندر آٸی اور اس کے ساتھ ہی دو لمبے تڑنگے مرد بھی اندر داخل ہوگۓ۔ دونوں کے ہاتھوں میں گن دیکھ ثروت کا سانس روک گیا۔


”دیکھ کیا رہی ہے اندر چل!“ وہ عورت نیچی آواز میں غراٸی اور ساتھ ان کا بازو دبوچے اندر کی طرف بڑھی۔ دوسرے بندے نے جلدی سے دروازہ لاک کیا اور اب وہ دونوں بھی ان کے پیچھے اندر آۓ تھے

”کون آیا ہے ثروت؟“ سلیمہ بیگم لاٶنج میں آتی بولیں لیکن سامنے کا منظر دیکھ ان کی روح فنا ہوٸی ۔ تین انجان لوگ گن تانے کھڑے تھے جبکہ ثروت اور لاڈلی سامنے صوفے پر ہراساں سے ایک دوسرے سے لپٹ کر بیٹھی ہوٸیں تھیں۔


”چل بھٸ ایک اور بندی آگٸی اور کون کون ہے اس وقت گھر میں؟“ ان میں سے ایک بندے نے انہیں گھور کر بھاری آواز میں پوچھا جبکہ دوسرا آنکھیں جھپک جھپک کر ان تینوں کو عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جس سے ان کی اور جان ہوا ہورہی تھی ۔

”اس وقت ہم تینوں کے سوا اس گھر میں اور کوٸی نہیں ہے۔ تم نے جو کچھ لے کر جانا ہے پلیز لےجاٶ ہم مزاحمت نہیں کریں گے۔ بس کوٸی نقصان نہیں پہچانا۔“ سلیمہ بیگم معاملہ فہمی سے بولیں۔


”چل بہت باتیں نا بنا میرے ساتھ چل اندر اور جو بھی کچھ ہے شرافت سے نکال کر اس بیگ میں رکھتی جا۔“ وہ عورت کرخت لہجے میں بولی اور ساتھ کھڑے بندے کے ہاتھ سے بڑا سا کالا بیگ لیکر اس کے ساتھ اندر بڑگٸی۔ اب وہ دونوں ہی ان دونوں کے سروں پر کھڑے تھے ۔ جس میں سے ایک بندہ انہیں جس طرح ہوس بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا دونوں کو اپنے جسم پر خوف کے مارے چونٹیاں رنگتی محسوس ہورہی تھیں۔

”تجھے کہا بھی تھا کہ واردات کے دوران مت پیاکر لیکن تو بعض نہیں آتا۔“ پہلے والا اسے جھڑک کر بولا۔

”اچھا نا غصہ نا ہو۔اب تو پی لی ہے اور دماغ پر سرور بن کر وہ چڑبھی رہی ہے ۔ سامنے شباب بھی موجود ہے ۔ کیوں نا اپنا دل بھی خوش کرلیاجاۓ۔۔“

دوسرا بندہ اپنی غلیظ نظریں ثروت بیگم کے جسم پر گاڑے خباثت سے بولا تو پہلے والے نے قہقہہ لگایا۔


”تو بڑا کمینہ ہے ۔ چل جب تک وہ دونوں باہر آتی ہیں تب تک تو اپنا دل بہلالے۔۔“ وہ لطف لیتا اسے اجازت دیتے ایک آنکھ دباۓ زلالت سے بولا تو ان دونوں کی روح فنا ہوٸی جبکہ وہ ایک دم ہی ان کی جانب بڑھا تو دونوں کے منہ سے دلخراش چیخ برآمد ہوٸی۔

”اے آواز نہیں نکالنا ورنہ یہاں گولی ماروں گا۔۔“ گن کی نال کو وہ باری باری ان دونوں کی کنپٹی پر مار کے بولا تو وہ مزید سہم گٸیں ۔پھر اس بندے نے جھپٹ کر ثروت کی کلاٸی پکڑی تو اس نے اسے تھپڑ مارنے شروع کردیۓ وہ سمجھ چکیں تھی اس کی بری نیت کو لیکن لاڈلی انجان تھی اسی لۓ بس سہمی ہوٸی تھی۔

”پلیز بھابھی کو چھوڑ دو وہ ماں بننے والی ہیں۔“ لاڈلی ہاتھ جوڑے اس کے سامنے گڑگڑاٸی تو اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھوڑ دیا۔ ثروت نے جلدی سے لاڈلی کو اپنے حصار میں لیا جیسے مرغی چیل کے خوف سے اپنے چوزوں کو پروں میں چھپاتی ہے۔ اس کی اس حرکت پر وہ دونوں ہی خباثت سے قہقہہ لگاگۓ ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اشارہ دیا اور پلک جھپکتے ہی وہ بھیڑیا لاڈلی کو دبوچے سامنے بنے روم میں لے جاچکا تھا۔ ثروت صدمے سے نڈھال کچھ بھی نہیں کرپاٸی۔ وہ صوفے پر یوں ڈھیر ہوگٸ جیسے جسم میں جان تک نا بچی ہو۔ اندر بند کمرے سے لاڈلی کی ہلکی ہلکی چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں لیکن اب وہاں مکمل خاموشی تھی

”یہ بلّا کہاں ہے؟“ بیگ میں جیولری پیسا اور دوسری قیمتی چیزیں سمیٹے وہ عورت سلیمہ بیگم کے ساتھ وہاں آتی پوچھنے لگی۔


”اپنا شکار کرنے گیا ہے۔“ وہ معنیٰ خیزی سے بولا سلیمہ بیگم کا دل اس کی بکواس سن کر سناٹے میں رہ گیا ۔ انہوں نے اب غور کیا ثروت نڈھال سی صوفے پر پڑی تھی جبکہ لاڈلی غاٸب تھی ۔ وہ دوڑ کراس کے پاس پہنچیں اور اسے پکڑکر بیٹھایا۔


”ہماری بچی کہاں ہے؟ زلیل انسان! اللہ کا قہر نازل ہوگا تم پر۔۔ میں نے کہا بھی تھا کہ کسی کو نقصان نا پہنچے میں سب کچھ دے دوں گی لیکن تم لوگ گھٹیا نکلے۔“ سلیمہ بیگم غصے سے چیخ چیخ کر بولیں تو اس عورت نے آگے بڑھ کر ان کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ مارا۔


”بکواس بند کر اپنی اور تو جاکر اس کو لیکر آ ہمیں نکلنا ہے۔۔“ وہ غرا کر بےوقت دونوں سے مخاطب ہوٸی تو وہ فوراً آگے بڑھ گیا جبکہ سلیمہ بیگم بری طرح سسک رہی تھیں ۔ تبھی اسے وہ بندے سامنے سے آتے نظر آۓ سلیمہ بیگم جھٹکے سے اس شیطان کو مارنے اٹھیں ۔ لیکن وہ انہیں دھکا مارکر گرا گیا اور خود وہ تینوں ہی تیزی سے باہر کی طرف نکل گۓ ۔ سلیمہ بیگم ہمت کرتی اٹھیں ۔ یہ رونے کا وقت نہیں تھا ۔ وہ دوڑ کر اس کمرے میں گٸیں لیکن وہاں کا حال دیکھ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔ انہوں نے جلدی سے جاکر پہلے مین گیٹ کو لاک لگایا اور پھر کپکپاتے ہاتھوں سے لینڈ لاٸن سے وارث صاحب کا نمبر ملایا

”ھیلو وارث!“ان کےکال ریسو کرتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔


”سلیمہ کیا ہوگیا؟گھر میں سب ٹھیک ہیں؟“ وہ بوکھلاکر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ بولے تو سامنے بیٹھے حارث صاحب ان کی بات سن کر پریشانی سے خود بی اٹھ کھڑے ہوگئے۔


”کچھ ٹھیک نہیں ہے وارث! آپ بس حارث کولیکر جلدی سے گھر پہنچیں۔“ وہ سسکتے ہوۓ بولیں اور فون رکھ کر واپس کمرے کی جانب بڑھ گٸیں ۔ ان دونوں کے آنے سے پہلے انہیں لاڈلی کا تار تار ہوا لباس بدلنا تھا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اس المناک واقعے کو گزرے چار ماہ ہوچکے تھے لیکن کوٸی بھی اس صدمے سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس دلدوز حادثے میں جو چیز گٸ تھی وہ ساری دنیا کی دولت دےکر بھی حاصل نہیں کی جاسکتی تھی۔ سب سے بری حالت ثروت کی تھی جو اس واقعے کی ذمہدار خود کو سمجھتی تھی۔ ہر وقت خود کو کوستی کہ ناوہ دروازہ کھولتی اور نا وہ زلیل لوگ اندر آتے۔ لاڈلی کے ساتھ جو بھی ہوا سب اس کا قصور تھا۔ اس حالت میں اس کا اسٹریس اس کی حالت خراب کردیتا تھا۔ وہ بلک بلک کر روتی اور خود کو مارتی تھی ۔ اس حادثے نے ان پر بہت برے اثرات مراتب کۓ تھے ۔ دوسری طرف لاڈلی کا بھی بہت برا حال تھا۔ پہلے تو وہ صدمے کی وجہ سے بلکل خاموش ہوکر رہ گٸ تھی لیکن آہستہ آہستہ اس کی حالت بگڑنے لگی تھی ۔ اس واقعے کی شام ہاجراں فیض کے ساتھ ہی اسے لینے آٸی تھی۔ چھوٹے کو دوا دلوانے بھی وہ اسی کے ساتھ گٸیں تھیں اور جب انہوں نے لاڈلی کو لینے جانا کا بولا تو وہ اپنی باٸیک پر انہیں خود ہی لےآیا تھا لیکن وہاں آکر جو کچھ دیکھا اور سنا ان کے پیروں تلے سے زمین کسک گٸ ۔ ہاجراں نے اسے ہوسپٹل لےجانے سے بھی منع کردیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس بات کا ڈھونڈورا پیٹا جاۓ۔ جو بچی کچی عزت تھی کم از کم وہ تورہ ہی جاتی ۔ فیض بےچارہ بھی اس خبر کے بعد گم صم ہوگیا تھا۔ گھر لےجاکر اس دن تو ہاجراں نے بہانا کردیا کہ وہ باٸیک سے گرگٸی لیکن کچھ وقت بعد ہی اس کی حالت بگڑنے لگی۔ وہ سوتے سوتے چیخنے چلانے لگتی ۔ کبھی بیٹھے بیٹھے زور زور سے رونے لگتی ۔ سب کو لگنے لگا تھاکہ اس پر سایہ ہوگیا ہے۔ ہاجراں سخت متوحش تھی کیونکہ چار ماہ گزرجانے پر اسے لاڈلی کے جسامت میں تبدیلی محسوس ہورہی تھی ۔ وہ فوراً اسے ایک بہت دور انجان جگہ پر بنے کلینک پر لیکر آٸی ۔ جہاں کوٸی اسے پہچان نا سکے ۔ ڈاکٹر کو دیکھایا اور بتایا کہ داماد بچہ نہیں چاہتا اگر وہ کچھ کرسکیں تو؟ ڈاکٹرنی سے صاف انکار کردیا ایک تو وہ بامشکل اٹھارہ سال کی کمزور لڑکی تھی اوپر سے ٹاٸم بھی کافی اوپر ہوچکا تھا ۔ لاڈلی کو گھر چھوڑ کروہ بھاگم بھاگ سلیمہ بیگم کے پاس پہنچی اور ایک ایک بات ان کے گوش گزار کردی۔ وہ اب کام کرنے تو نہیں آتی تھی کیونکہ لاڈلی کے ابا اور فیض نے اسے لاڈلی کا خیال رکھنے کو بولا تھا۔ وہ جیسا بھی تھا لیکن اپنی بیٹی کو بہت چاہتا تھا۔ اس حادثے کا ابھی تک کسی کو علم نہیں تھا سواۓ فیض کے اور وہ فیض کو ہی اس کے پاس گھر چھوڑ کر آٸی تھیں۔


”میں نے پہلے ہی کہا تھاکہ اسے ہوسپٹل لےچلتے ہیں لیکن آپ نے انکار کردیا ۔ اگر اس وقت ہوسپٹل چلے جاتے تو یہ مسٸلہ نا ہوتا۔“ وہ پریشانی میں گھیری مضطرب سی بولیں تو ہاجراں کے چہرے کا رنگ اڑگیا۔

”اب کیا ہوگا؟ میری بچی تو کسی کو منہ دیکھانے لاٸق نہیں رہے گی۔ ہم تو جیتے جی مرجاٸیں گے۔“ وہ سینے پر دو ہتڑمارتیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

”ہاجراں باجی پریشان نا ہوں ۔ میں کچھ سوچتی ہوں ۔ آپ پلیز مضبوط رہیں ۔ ثروت کی بہت بری حالت ہے اس حادثے کے بعد سے۔ اس کے بچے کو بھی بڑی مشکل سے بچایا ہے۔ اگر اس نے یہ سب سن لیا تھا بہت برا ہوگا۔ وہ تو برداشت نہیں کرسکے گی۔“ سلیمہ بیگم سر ہاتھوں میں گراۓ بےحد متفکر سی بولیں

”اس کا کچھ حل تو ہوگا؟؟“ وہ فکرمندی سے پوچھنے لگیں۔


”اس بات کو چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے ۔ مطلب اب ہم اس کی جان پر رسک نہیں لے سکتے ہیں۔ اس بچے کو دنیا میں آنا ہوگا۔آپ ایسا کریں میری ایک جاننے والی حیررآباد میں رہتی ہیں ۔آپ لاڈلی کو لےکر وہاں چلی جاٸیں جب تک یہ بچہ دنیا میں نہیں آجاتا۔“ وہ بہت سوچ بچار کے بات بولیں۔


”ہاں یہی بہتر رہے گا۔میں سب کو کہہ دوں گی کے اسے علاج کےلۓ لیکر جارہی ہوں۔ کسی کو کوٸی اعتراض نہیں ہوگا جب آپ کا نام لوں گی تو!“ ہاجراں کو بھی ان کا آٸڈیا بہتر لگا تو وہ رضامندی دیتی بولیں۔

”بس پھر تم جانے کی تیاری کرو۔ میں وارث سے کہہ کر سارا بندوبست کرادیتی ہوں فکر نا کرنا ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔۔“ وہ ان کا ہاتھ دباکر تسلی آمیز لہجے میں بولیں تو وہ بھیگی آنکھوں سے اثبات میں سر ہلاگٸیں۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


آج پھر گردش تقدیر پہ رونا آیا

دل کی بگڑی ہوئی تصویر پہ رونا آیا

عشق کی قید میں اب تک تو امیدوں پہ جئے

مٹ گئی آس تو زنجیر پہ رونا آیا

کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں

کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا

پہلے قاصد کی نظر دیکھ کے دل سہم گیا

پھر تری سرخئ تحریر پہ رونا آیا

دل گنوا کر بھی محبت کے مزے مل نہ سکے

اپنی کھوئی ہوئی تقدیر پہ رونا آیا

کتنے مسرور تھے جینے کی دعاؤں پہ شکیلؔ

جب ملے رنج تو تاثیر پہ رونا آیا


وہ دیوار سے ٹیک لگاۓ گھٹنے موڑکر اس کے گرد دونوں بازو لپٹے گھٹنے پر گال ٹیکاکر دور افق پر پھوٹ رہی لالی کو دیکھ رہی تھی ۔ آنکھوں میں ویرانی لۓ اس کی نظریں اپنے گھروں کو لوٹتے پرندوں کی جانب تھیں۔ جب فیض اس کے سامنے چوکڑی مار کر بیٹھا تھا ۔ وہ اونچالمبا سانولی رنگت کا پرکشش نوجوان تھا۔لاڈلی کے تینوں بھاٸی نیچےگلی میں بیٹ بال کھیل رہے تھے ۔ وہ اپنی چچی کے کہنے پر دوکان پر دوست کو بیٹھاکر یہاں آیا تو اس کے چھوٹے بھاٸی نے بتایا کہ وہ چھت پر بیٹھی ہوٸی ہے۔ وہ بھی خاموشی سے اوپر چلا آیا اور اب اس کے سامنے بیٹھا اسے پیار بھری نظروں سے نہار رہا تھا۔ وہ پہلے کی نسبت کافی کمزور ہوچکی تھی لیکن اس کی نظر میں وہ آج بھی اتنی ہی حسین اور خوبصورت تھی۔ اس کی محبت نجانے کیسی تھی کہ وہ اس واقعے کے بعد نا ہی اس کے رویے کی بدولت بےزار ہوا تھا اور نا ہی اس کی محبت میں کمی آٸی تھی۔


”تمہیں مجھ سے، میرے وجود سے گھن نہیں محسوس ہوتی؟“ اتنے وقت کے بعد وہ اس سے بولی بھی تھی تو کیا؟ اس کے لفظوں نے فیض کے دل کو چھلنی سا کردیا۔


”تم مانو یا نا مانو تم میرے ہی وجود کا حصہ ہو، تو اب خود بتاٶ بھلاکوٸی اپنے وجود کے حصے سے گھن کھاسکتاہے؟“ محبت کی چاشنی میں ڈوبے یہ الفاظ اس کے لۓ آب حیات سے کم نہیں تھے۔


”تم مجھ سے اتنی محبت کرتے ہو۔۔ مگرکیوں؟“ وہ صدماتی کیفیت جھنجھلاکر چٹخی تھی۔ وہ بھلا اس قابل تھی کہ اسے چاہا جاۓ وہ تو ناسور بنتی جارہی تھی جسے کاٹ کر پھینک دینا چاہیۓ اور وہ اس کے برعکس کہہ رہا تھا، کررہا تھا۔ اس کا جھنجھلانا تو پھر بنتا ہی تھا ۔


”مجھے نہیں پتا کہ میں تمہیں کب سے اور کیوں اس قدر چاہتا ہوں۔ جب سے ہوش سنبھلا تمہاری اداٸیں تمہاری باتیں، شراتیں مجھے بہت اچھی لگتی تھیں۔پھر بڑے ہونے پر ادراک ہوا کہ یہ تو محبت ہے یا پھر عشق! محبت میں محبوب کی ہر خطا ادا ہوتی ہے اور براٸی اچھاٸی میں بدل جاتی ہے ۔ تو پھر خود بتاٶ میں کیونکر تم سے نفرت کرسکتا ہوں یا پھرگھن کھاسکتا ہوں؟ مجھے تو تم میں کوٸی عیب کوٸی کھوٹ نظر نہیں آتا کیونکہ میری محبت میں کھوٹ نہیں وہ ایک دم خالص ہے۔ بس تم ایک بار مجھ پر میری محبت پر بھروسہ کرکے تو دیکھو۔ قسم کھاتا ہوں جان دےدوں گا لیکن تمہارا بھروسہ نہیں توڑوں گا۔۔“وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے اس کے سامنے سراپاِ محبت بنا التجاکررہا تھا۔ اسے چچی بتاچکی تھیں کہ لاڈلی اس رشتے سے انکار کررہی ہے۔ مسلسل زور ڈال رہی ہے کہ وہ انگوٹھی واپس کرآٸیں لیکن فیض مرتو سکتا تھا لیکن اس سے دور نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ آج اسی لۓ بھی آیا تھا کہ اس کے روبرو ہوکر کھل کر بات کرسکے ۔ لاڈلی نے اپنی سپاٹ نظروں سے اس کے روشن چہرے کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں محبت اور چہرے پر سچاٸی رقم تھی ۔ وہ کٹی ڈال جیسی اس کے شانے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ فیض نے نرمی سے اسے اپنے بازوٶں کے حصار میں لےلیا اور اسے کھل کر رونے دیا۔ وہ شوخ و چنچل سی لڑکی تھی جس نے اپنی ہنسی کا خراج آنسوٶں سے دیا تھا لیکن فیض نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے سنبھال لے گا جوڑ لے گا۔ اپنی محبت کے رنگ میں رنگ دے گا۔ وہ اسے سمیٹ لےگا۔ وہ یہ بات جانتا تھا۔

زندگی کے وہ حسین پل

خواب تھے یا سراب تھے

دل باغ و بہار رہتا تھا

جگنو سیاہ رات میں ٹمٹماتے تھے

تتیلیاں جو خوابوں خیالوں کے

خوش رنگ پھولوں پر منڈلاتی تھیں

اب وہاں آگ تو نہیں لیکن

حسرتوں کا دھواں سا اٹھتا ہے


🍃افشاں کنول🍃


وقت کبھی کسی کے لۓ رکتا نہیں ہے۔ بادشاہ ہو یا پھر فقیر، یہ کسی کے لۓ نہیں ٹہرتا۔ سیکنڈ منٹ بنتے ہیں، منٹ گھنٹے، گھنٹے دنوں میں بدلتے ہیں، دن ہفتوں میں، ہفتیں مہینوں میں، مہینے سالوں میں اور سال صدیوں میں بدل جاتے ہیں۔ وقت بھی کیا چیز ہے کہ آگ کو راکھ بنادیتا ہے اور برف کو پانی۔ وقت گزر رہا تھا اور لاڈلی وقت کے ساتھ گھسٹ رہی تھی ۔ فیض ہفتے میں ایک چکر ضرور وہاں کا لگاتا تھا۔ اس کے آنے سے ہاجراں کو بڑی ڈھارس ملتی تھی۔ وہ گھنٹوں لاڈلی کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا اس کا دل بہلاتا لیکن وہ بس خاموش ہی رہتی بالکل کسی بت کی طرح۔ سلیمہ بیگم وارث صاحب کے ساتھ اکثر وہاں کا چکر لگاتی رہتی تھیں۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھا جارہا تھا۔ وہ لوگ جس گھر میں رہ رہے تھے ۔ وہ سلیمہ بیگم کی دور کی پھوپھی کا گھر تھا۔ وہ ایک زمانے میں داٸی رہ چکی تھیں۔ اب بھی اگر کوٸی کیس آجاتا تھا تو وہ منٹوں میں اسے حال کردیتی تھیں ۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی۔

سلیمہ بیگم نے ان کو تمام حالات سے آگاہ کیاہوا تھا۔ وہ ایک بیوہ خاتون تھیں لیکن اکیلی نہیں تھیں ان کے ساتھ ایک ملازمہ ہوتی تھی جو وارث صاحب نے ہی رکھواٸی تھی۔ دوسری طرف ثروت سب کے سمجھانے پر کافی حد تک سنبھل گٸی تھی لیکن اب وہ اس گھر میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ انہیں یہاں لاڈلی کی چیخیں اور سسکیاں سناٸی دیتیں تھیں۔ ان کی حالت کی وجہ سے بچے بھی اکثر پریشان ہوجاتے تھے ۔ اسی وجہ سے سب کے مشورے پر اس گھر کو بیچنے کا فیصلہ لیا گیا۔

آج بھی روز ہی کی طرح کا دن تھا ۔فون کی بیل ایک تواتر سے بج رہی تھی۔ بچے ٹیوشن کے لۓ گۓ ہوۓ تھے اور ثروت کمرے میں آرام کررہی تھی۔ سلیمہ بیگم نے جلدی سے چولھے کی آنچ دھیمی کی اور تقریباً دوڑکر فون اسٹینڈ تک پہنچیں۔ ویسے ہی نجانے کیوں صبح سے ہی ان کا دل گھبراسا رہا تھا۔

”اَلسَلامُ عَلَيْكُم ! انہوں نے ریسور کان سے لگایا


”بڑی بیگم لاڈلی کی بہت حالت خراب ہورہی ہے۔“

ہاجراں کی روتی ہوٸی آواز پر ان کا دل دہق سے رہ گیا۔

”ابھی سے کیوں؟ابھی تو بہت ٹاٸم ہے نا؟“ بولتے بولتے ہوۓ ان کا لہجہ لڑکھڑا سا گیا۔


”پھوپھی کہاں ہیں؟“ اس مرتبہ وہ تھوڑی سنبھل کے بولیں۔

”وہ اسی نمانی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ میں آپ کو بتادوں۔“ وہ روتے ہوۓ بتانے لگیں۔


”یہ وقت ہمت ہارنے کا نہیں ہے ۔ اس کے لۓدعاکرو۔ ثروت کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے کسی بھی وقت اسے ہوسپٹل لےکر جانا پڑسکتا ہے۔ ایسے میں میں اسے اکیلا چھوڑکر لاڈلی کے پاس نہیں آسکتی۔

میری جان تو دوہری تکلیف میں مبتلا ہے۔ ایک طرف ثروت ہے تو ایک طرف لاڈلی میں کروں تو کیا کروں؟“ وہ بےبسی میں گھیری بول رہی تھیں کہ اچانک انہیں عجیب سا احساس ہوا ۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا ثروت زینے پر کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔

”یا میرے اللہ!“ ان کے منہ سے بےساختہ تھرا کے یہ الفاظ ادا ہوۓ۔


”کیا ہوا بڑی بیگم؟“ ہاجراں کی پریشانی میں ڈوبی آواز ابھری۔

”ثروت نے سب سن لیا۔“ وہ سرسراتے لہجے میں بولیں اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بھی کہتی دل دہلادینے والے منظر نے ان کی جان نکال دی ۔ ثروت جو زینے کے آخر کے اوپر والے چوتھے اسٹیپ پر کھڑی تھی تیوراکرگری۔ ان کی دلدوز چیخ کے ساتھ سلیمہ بیگم کی دلخراش چیخوں سے پورا گھر گونج اٹھا تھا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”کنول پلیز کچھ بھی کرو ثروت اور اس کے بچے کو بچالو۔“ سلیمہ ان کے ہاتھ تھامے شدت سے روپڑیں حارث صاحب کا بھی بہت برا حال تھا وارث صاحب انہیں سنبھال رہے تھے ۔ سارے بچوں کو وہ اپنے سسرال چھوڑ آۓ تھے۔ ثروت بیگم تو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں۔ والد کا انتقال ہوگیا تھا تو وہ اپنی ماں کے ساتھ اپنے ماموں کے گھر رہتی تھی۔ ثروت کی شادی کے کچھ ٹاٸم بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا ۔ اب اس کے میکے میں ایک ماموں ہی بچے تھے جن سے ملنا نا ہونے کے برابر تھا۔


”سلیمہ پلیز حوصلہ کرو۔ سنبھالو خود کو، ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں ۔ باقی جو اللہ کی مرضی۔“

وہ انہیں تسلی دیتی اندر کی سمت بڑھ چکیں تھیں۔ انتظار کے لمحے طویل اور جان لیوا تھے ۔ سب کی جان سولی پر لٹکی تھی۔ ایک طرف لاڈلی تھی تو دوسری طرف ثروت!!

آپریشن تھیڑ کا دروازہ دھکیل کر ڈاکٹر کنول روم سے باہر نکلی اور چہرے سے ماسک ہٹایا۔


”بچی کو ہم بچا نہیں سکے۔“ وہ افسوس ذدہ لہجے میں بتانے لگیں۔

”اور میری بیوی کسی ہے؟“ حارث صاحب نے لڑکھڑاتے لہجے سے عجلت میں پوچھا۔


”وہ پہلے سے تو بہتر ہیں لیکن ان کا بی پی کافی ہاٸی ہے تو ہم اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ سب بھی دعاکریں۔ ایک بری خبر اور بھی ہے لیکن آپ سب کو حوصلہ سے سننا ہوگا خاص کر آپ کو حارث صاحب!“ انہیں حوصلہ دیتی آخر میں وہ ہچکچاکر خاموش ہوٸیں۔


”آپ جو بھی بات ہے صاف صاف بتادیں۔ اپنی اولاد کو کھونے کے غم سے بڑا بھی کوٸی غم ہوگا بھلا!“ حارث گلوگیر لہجے میں بولا تو وارث نے اس کے شانوں پربازو پھیلا کر انہیں خود میں بھینچ لیا۔


”گرنے کی وجہ سے ان کو اندرونی چوٹیں لگیں جس وجہ سے ہمیں انہیں آپریٹ کرنا پڑا ورنہ ان کی جان کو خدشہ لاحق ہوسکتا تھا۔ مجھے یہ بتاتے ہوۓ نہایت افسوس ہورہا ہے کہ اس وجہ سے اب وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔“ وہ سنجیدگی سے انہیں بتاکر خاموش ہوٸیں تو سلیمہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ وارث کی آنکھوں میں بھی اپنے بھاٸی کا غم دیکھ آنسو بھرآۓ۔ وہ ان کے شانے سے لگے رو رہاتھا۔

”میں ابھی آتی ہوں۔“ سلیمہ بیگم بھاری لہجے میں بولتی ریسپشن کی جانب بڑھ گٸیں ۔ انہیں حیدرآباد کال کرنی تھی ۔

”ھیلو بڑی بیگم! کیا ہوا؟ سب ٹھیک تو ہے؟“ ہاجراں شاید فون کے قریب ہی بیٹھی تھی تبھی پہلی بیل پر کا ریسو کرکے بےتابانہ انداز میں پوچھا۔


”ثروت کی بیٹی بچ نہیں سکی۔ اس کا بی پی بھی نارمل نہیں ہورہا اور سب سے بڑی جو قیامت ٹوٹی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اب کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔“ سلیمہ بیگم انہیں بتاتے ہوۓ ایک دفعہ پھر پھوٹ پھوٹ کررودی تھیں ۔ دوسری جانب ہاجراں بھی رو رہی تھی۔

”اللہ آپ سب کو صبر عطاکرے۔ چھوٹی بیگم کو بھی جلد صحتیاب کرے۔ امین!“ ہاجراں دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھتی بھراۓ ہوۓ لہجے میں بولی تو سلیمہ نے شدت سے امین! کہا۔


”لاڈلی کی طبیعت اب کیسی ہے؟“ وہ کسی حد تک خود کو سنبھالتی ہوٸی پوچھنے لگی۔


”بیٹی ہوٸی ہے لیکن لاڈلی مسلسل چیخ پکار مچارہی ہے کہ اس بچی کو اس سے دور کردیا جاۓ۔ وہ اسے اپنے سامنے دیکھنا نہیں چاہتی۔“وہ پریشانی میں گھیری انہیں بتارہی تھی۔


” پریشان مت ہو ۔اس کا یہ ردعمل فطری ہے۔ میں وہاں آرہی ہوں ۔ اگر وہ اسے رکھنا نہیں چاہتی تو ٹھیک ہے ۔ میں اسے اپنے ساتھ لےآٶں گی۔ اس سب میں اس بچی کا کوئی قصور نہیں تو وہ کیوں اپنی ماں کی نفرت سہئے۔“سلیمہ بیگم تسلی آمیز مستحکم لہجے میں بولتی کال کٹ کرگٸیں تھیں۔اب انہیں وارث اور حارث سے بات کرکے فوراً ہی حیدرآباد کےلۓ نکلنا تھا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”کیسی ہے میری لاڈلی؟“ وہ نقاہت ذدہ سی بیڈ پر آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹی تھی جب سلیمہ کی پرشفقت نرم پکار پر اس نے جھٹ آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا۔

”بڑی بھابھی!! انہیں اپنے سامنے دیکھ اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں پھر سے آنسو جمع ہونے شروع ہوگۓ ۔

”نا میری جان رونا نہیں ہے۔ میری لاڈلی تو بہت بہادر ہے۔“ وہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھیں پیار سے جھک کر اس کا ماتھا چوم کے بولیں۔


”میں بہادر نہیں ہوں۔“ وہ جھٹ غصہ میں ان کی بات کی نفی کرگٸی۔ پھر سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔۔

”آپ کو اماں نے بلایا ہے؟“


”بےشک مجھے انہوں نے ہی بلایا ہے لیکن میں یہاں صرف تمہارے لۓ آئیں ہوں تاکہ تمہارا فیصلہ جان سکوں۔“ وہ اس کا ہاتھ تھام کر پیار سے پچکارتے ہوۓ بولیں۔


”میں اس کو اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتی آپ لے جاٸیں یا پھر کسی یتیم خانے میں جمع کرادیں۔“ وہ سرد وسپاٹ لہجے میں بولی۔


”تم ایک نظر اسے دیکھ تو لو ہوسکتا ہے کہ تمہارا فیصلہ بدل جاۓ۔۔“ انہوں نے اسے پیار سے سمجھانا چاہا۔


”اسے دیکھ کر مجھے یہ یاد آۓ گا کہ میں اس وحشی کے آگے کتنی بےبس تھی ۔ اس نے میری، میری عزت نفس کی، میری نسوانیت کی، میری حرمت کی، وقار کی دھجیاں بکھیردیں اور میں کچھ نہیں کرسکی۔ اس دیکھ کر مجھے یاد آگیا کہ اس شخص نے مجھے اپنے وحشی قدموں تلے روندھ دیا۔ صرف مجھے ہی نہیں میری روح کو بھی اس کے وحشت بھرے لمس نے تار تار کردیا۔ میں اسے دیکھ کر روز زلت محسوس کرنا نہیں چاہتی۔ وہ کسی جاٸز رشتے کے محبت بھرے لمحوں کی نشانی نہیں بلکہ ایک جبر کا بدنما داغ ہے ۔ اس چوٹ کا زخم تو بھرچکا لیکن اس کا وہ بدنماداغ مجھے ساری عمر تل تل مارے گا۔ مجھے نہیں چاہیۓ وہ! اس کا وجود میرے وجود کے پامال ہونے کی داستان سناتا ہے۔ میں یہ سب برداشت نہیں کرسکتی ۔ میں مار جاٶں گی۔“ وہ ہیجان خیزی سے چیخ چیخ کر بولتے بےحال ہونے لگی۔ سلیمہ نے اسے سنبھلنا چاہا لیکن وہ خود کو نوچنے کھسوٹنے لگی تھی ۔ فیض دوڑ کر اندر آیا اور بہت مشکل سے خود میں بھینچ کر اسے قابو کیا۔ اتنی دیر میں پھوپھی بھی اندر آچکی تھیں۔ اس کی ذہنی حالت کے پیش نظر انہوں نے اسے سکون آور انجکشن لگایا تو کچھ سیکنڈ میں ہی اس کی مزاحمت دم توڑ گٸ۔ فیض نے بہت آرام سے اسے واپس لٹادیا اور اس کے اوپر کمبل درست کرنے لگا۔

”مجھے تم سے یہ کہنے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ تم اس کا بہت خیال رکھنا۔“ وہ سنجیدگی سے اس کا شانا تھتھپاکر کہتی روم سے باہر نکل گٸیں تو وہ وہی اس کے قریب اس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


وہ باہر آٸی تو ہاجراں بچی کو تھامے افسردہ سی کھڑی تھی ۔ کمبل میں لپٹی اس خوبصورت نازک سی گڑیا کو انہوں نے اس سے لیکر اپنی بانہوں میں بھرا۔ وہ اتنی پیاری تھی کہ دیکھنے والے کو مبہوت کرکے اس کو خود سے پیار کرنے پر مجبور کردے۔ انہوں نے بھی بےساختہ جھک کر اس کی روشن پیشانی کا بوسہ لیا۔


”دنیا کے لۓ بےشک یہ ایک جبر کی نشانی ہے لیکن یہ ایک جیتا جاگتا سانس لیتا وجود ہے۔ جس کی سوچ اور روح دونوں پاک ہیں۔ میں لاڈلی کو غلط نہیں کہتی کیونکہ اس کی تکلیف کوٸی بھی نہیں سمجھ سکتا۔ وہ اپنی جگہ حق بجانب ہے ۔ وہ اسے رکھنا نہیں چاہتی تو ٹھیک ہے ۔ میں اسے اپنے ساتھ لےکر جارہی ہوں۔ اللہ کی مصلحت اللہ ہی جانے۔ ثروت کی گود خالی کرکے اس رب کریم نے اس پھول سے پھر اس کی گود مہکانے کا انتظام کردیا۔ اب میں چلتی ہوں۔ وارث گاڑی میں باہر انتظار کررہے ہیں۔ بچے بھی ننھی پری سے ملنے کو بےتاب ہے ۔ تو میں اسے لےکر سیدھاگھر ہی جاٶں گی۔“ ان کے سنجیدگی سے کہنے پر ہاجراں پھیکا سا مسکرادی تو وہ بچی کو مضبوطی سے تھامے کھلے دروازے سے باہر نکلتی چلیں گٸیں۔

وہاں سے وہ وارث کے سیدھا گھر آٸیں تھیں ۔ بچے اس ننھی پری کو دیکھ بہت ہی خوش ہوۓ تھے۔ ارحم اسے گود میں لینے کو مچلا تو باقی بھی لاٸن میں لگ گۓ۔ انہوں نے باری باری اسے سب کی گودوں کی سیر کرواٸی۔ اتنے میں وہ رونے لگی تو انہوں نے ساتھ لاۓ بیگ سے اس کا فیڈرتیار کرکے اس کے منہ سے لگادیا۔ وہ پرسکون ہوتی اپنا پیٹ بھرنے لگی ۔ ان کی بہن سب بچوں کو وہاں سے لےگٸی تو وارث ان کی جانب متوجہ ہوۓ۔


”بچی کا نام کیا رکھنا ہے؟“ انہوں نے اس کے ننھے سے گلابی ہاتھ کی انگلیوں کو چھوکر پوچھا۔


”دعاۓخیر! وہ اس کے چہرے کے دلکش نقوش کو مجت سے دیکھتی بےساختہ بولیں۔


”ماشاءاللہ! اللہ مبارک کرے۔ یہ نام بہت پیارا ہے۔ اگر اس کا پیٹ بھرگیا ہے تو آٶ ہم ہوسپٹل چلتے ہیں۔ اس کا تفصیلی چیک اپ بھی کرالیں گے اور ثروت کی امانت اسے لوٹا بھی دیں گے۔“ وہ مسکرا کر بولے تو وہ خود بھی اثبات میں سر ہلاتی مسکرادی تھیں ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


ثروت ! حارث نے انہیں پیار سے پکارہ تو انہیں نے اپنی موندی آنکھیں آہستہ سے کھول دیں۔ اس کی نظریں ان کے مسکراتے چہرے پر پڑی تو آنکھیں پوری کھل گٸیں گلابی کمبل میں کوٸ ننھا وجود لپٹا ہوا غوں غاں کررہا تھا۔ انہیں بس اس کے ننھے منھے ہاتھ نظر آرہا تھے جو مٹھی کی صورت بندھ تھے۔


”یہ! یہ کون؟ کون ہے یہ؟“ وہ اتنے میں ہی ہانپ گٸی۔

”ہماری بیٹی ہے۔“ وہ خوشی سے لبریز لہجے میں انہیں بتانے لگے۔

”لیکن وہ تو۔۔“

”یہ دعاۓخیر ہے! تمہاری بیٹی! اللہ نے لاڈلی کے وسیلے سے تمہیں لوٹادی ہے۔۔“ وہ ثروت کی بات کاٹتے ہوئے بولے اور اس کا ننھا وجود ان کے قریب لاکر ان کے پہلو میں لٹادیا۔


”یہ لاڈلی کی بیٹی ہے!“ یہ کہتے ہوۓ ان کے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

”ہاں! لیکن آج سے تم دونوں کی بیٹی ہے۔۔“ سلیمہ جو ایک طرف کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی ان کے قریب آکر پیار سے بولی تو

ثروت نے ہاتھ بڑھا کر اس کے نرم ملاٸم گال کو چھوا اور دھیرے سے اس بچی کا نام لیا دعاۓخیر!!

وہ ایک ہفتہ ہوسپٹل میں رہی تھی۔ اس بیچ بچی کی زیادہ دیکھ بھال سلیمہ ہی کررہی تھیں۔ سیالکوٹ سے ان کی نند بھی آکر ان سے مل کرگٸیں تھیں اور جس جس رشتہ دار کو پتاچلتا رہا وہ آکر ان سےملتا رہا۔ دن میں تو ثروت خود ہی اسے فیڈ کراتی تھی لیکن رات میں وہ سلیمہ بیگم کے پاس ہوتی تھی گھر پر تو وہ اسے فیڈر دیتیں تھیں۔ وہ چھٹی ہوکر گھرآٸیں تو ایک گھر میں دو ملازماٶں کا انتظام ہوچکا تھا ۔ دن پر لگا کر گزرنے لگے ۔ ثروت کے چھلہ نہانے کے بعد گھر شفٹنگ کی تیاریاں ہونا شروع ہوگٸیں ۔ اس بیچ ہاجراں دو دفعہ وہاں آٸی تھی ۔ ایک دفعہ ثروت کی طبیعت پوچھنے اور دوسری دفعہ لاڈلی کے نکاح کی دعوت دینے ۔ ثروت تو نہیں لیکن سلیمہ وارث کے ساتھ وہاں گئی تھی اور آکر وہاں کا سارا احوال بھی بتایا تھا کہ وہ دونوں ماشاءاللہ بہت ہی خوش نظر آرہے تھے ۔ فیض نے اپنی محبت کو رسوا ہونے نہیں دیا تھا۔ وہ راز سب کے سینوں میں مدفن ہوچکا تھا۔ ان لوگوں نے بھی وہ جگہ چھوڑی تو پلٹ کر پھر خبر نہیں لی۔ وقت نے اس راز پر گرد جمادی تھی ۔ ہم سب بھول کر اپنی زندگیوں میں مگن ہوچکے تھے ۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اس راز کو ایک دن منکشف ہونا ہوگا؟ لیکن ہونی کو کوٸی نہیں ٹال سکتا دعاۓخیر! اس جہان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے لیکن اس دنیا میں تم میری بیٹی تھیں میری بیٹی ہو اور میری ہی بیٹی رہو گی۔۔ دعاۓخیر حارث سرور!“ وہ اسے خود سے لگاۓ بولتے بولتے روپڑے جبکہ وہ ایک دم ساکت بےحس و حرکت ان سے لگی بیٹھی تھی ۔ وہاں سب ہی کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ سب ہی اس کے دکھ پر رو رہے تھے لیکن اذلان کو اس کی چپ ہولارہی تھی ۔ یہ سچ جھلسادینے والا تھا ۔ اس کے پیچھے کی کہانی بہت بدصورت تھی۔ اسے اب شدت سے دعاۓخیر کی فکر ستانے لگی۔

وہ نا رو رہی تھی اور نا ہی کوٸی ردعمل ظاہر کررہی تھی۔

”دعاۓخیر میرے بچے کچھ تو بولو؟“ وارث صاحب اس کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ متفکر سے بولے تو اب سب کو ہی اس کی فکر ستانی لگی ۔

دعاۓخیر! سلیمہ بیگم نے بھی اسے پیار سے پکارہ تو وہ حارث صاحب سے الگ ہوتی خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھنے لگی ۔ اس کے آنکھوں میں رچی ویرانی دیکھ اذلان دہل گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا دعاۓخیر ایک جھٹکے سے اٹھی اور وہاں سے بھاگنے کے انداز میں نکل گٸی۔


”اذلان پلیز اس کے پیچھےجاٶ فوراً!“ ثروت بیگم بھوکھلاکر چیخی تو وہ پریشان سا اس کے پیچھے

دوڑا۔

دھڑکتے دل تنے اعصاب کے ساتھ وہ روم میں داخل ہوا ۔ اپنا دل اسےکنپٹیوں میں دھڑکتے محسوس ہورہا تھا ۔ حقیقت کا آٸینہ پوری قوت سے چکناچور ہوا تھا ۔ سچ کی کرچیوں نے سب کو درد سے روشناس کرایا تھا لیکن دعاۓخیر تو ان کرچیوں سے پور پور لہولہان ہوٸی تھی ۔ وہ کرچیاں اس کی روح تک میں پیوست ہوکر اسے چھلنی چھلنی کرگٸیں۔ رونے سے سب کے آنسو بہتے ہیں لیکن اس کی آنکھوں سے لہو چھلک رہا تھا ۔ اذلان کمرے میں اسے ناپاکر وحشت ذدہ سا آگے بڑھا تو اسے باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آنے لگی ۔ اس نے گھبرا کر لاک کھولا تو لاک کھل گیا ۔ اس نے شکرادا کرکے دروازہ کھولا تو وہ پورا ہل گیا ۔ دعاۓخیر کپڑوں سمیت شاور کے نیچے کھڑی سر پر شیمپو کی پوری بوتل انڈھلے جالی سے خود کو بری طرح رگڑرہی تھی ۔ شیمپو کی خالی بوتل کچھ دور ہی فرش پر پڑی تھی ۔ اذلان نے آگے بڑھ کر لپک کے اس کے ہاتھ سے جالی لیکر پھینکی ۔ اس کے ہاتھ،گلا، چہرہ ، گردن ہرچیز سرخ ہورہی تھی ۔ اس نے جلدی سے آگے ہوکر شاور بند کیا تو دعاۓخیر نے اس کا بازو دبوچ لیا۔


”اذلان دیکھو ممم مجھے۔۔ دیکھو نا اذلان ۔۔“ وہ لڑکھڑاتی آواز میں اس کے چہرے کا رخ اپنی جانب موڑتی ہوٸی کرلاٸ تو وہ بےبس سا اسے دیکھنے لگا۔


”میں تمہیں عزت نہیں دیتی تھی نا تو دیکھو قدرت نے کیسا مجھ سے انتقام لیا ۔ میری عزت میری ہی نظروں میں گرادی ۔ میں سب کی ہی نہیں اپنی نظروں میں گرگٸی ۔ کچھ نہیں بچا میرے پاس اذلان! کچھ بھی تو نہیں بچا میرے پاس! نا مان نا فخر!“وہ اس کے بازو تھامے سسکی۔

”ایسا نہیں ہے ریڈچلی۔۔ میری بات سنو!“ اسنے اسے پچکارتے ہوۓ اپنے حصار میں لینا چاہا


”ایسا ہی ہے!“ وہ اس کے ہاتھ بری طرح جھٹکتی پوری شدت سے دہاڑی تو اس کے گلے میں خراشیں پڑگٸیں۔

”میں خراب ہوں، میں گندی ہوں، میں ناپاک ہوں۔۔“ وہ بری طرح خود کو نوچتی ہیجان خیزی سے گویا ہوٸی۔ اذلان نے تڑپ کر اسے تھامنا چاہا لیکن وہ تو کسی طوفان کی طرح بپھری خود کو ہی نقصان پہنچارہی تھی ۔ اس کے مسلسل ہاتھ چلنے سے کچھ خارشیں اذلان کی گردن پر بھی پڑیں تھیں ۔ وہ جب کسی بھی طرح قابو میں نہیں آٸی تو مجبوراً اذلان نے اس کے منہ پر زوردار تھپڑمارا ۔ گال پر پڑنے والے تھپڑ سے وہ ایک دم ساکت ہوٸی اور بےیقین نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔


”ریڈچلی! اسنے شدت سے اسے سے خود میں بھینچا تھا۔

وہ ایک دم اس کی بانہوں میں جھول گٸ تو وہ اسے لۓ وہی نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی بری طرح بھیک چکا تھا ۔


اذلان ! وہ شدت سے اسے پکارتی اس کے کشادہ سینے میں منہ دیۓ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی ۔ اس کی عزت نفس کیا اس کی تو پوری ذات ہی کچلی گٸی تھی ۔ وہ اپنی ماں کے لۓ بدنما داغ تھی اس کے پامال ہونے کی نشانی تھی ۔ ایک دھتکاری ہوٸی جبری اولاد ۔ اسے تو مر جانا چاہیۓ تھا لیکن وہ پھر بھی سانس لے رہی تھی ۔وہ اپنے کس کس غم پر آنسو بہاتی ۔ وہ تو دکھوں کی عمارت تلے دبی آخری سانسیں لے رہی تھی ۔ اندر باہر اس قدر گھٹن اس قدر درد تھاکہ اس نے اپنی دھڑکنیں ساکت ہوجانے کی دعا کی تھی ۔

اپنی محبت کو یوں تکلیف میں مبتلا دیکھ اذلان کے آنکھوں سے بھی آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے اس کے بالوں میں جذب ہورہے تھے ۔ کوٸی لفظ کوٸی جملہ کوٸی تسلی اس کے درد کا مدوا نہیں کرسکتا تھا۔ اس کی سسکیاں اذلان کے سینے میں آگ لگارہی تھیں لیکن وہ کتنا بےبس تھا کہ اپنی محبت کو یوں ٹوٹتے بکھرتے دیکھ رہا تھا مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا ۔ اس نے ضبط کے مارے جبڑے بھینچ رکھے تھے ۔ آنکھیں لہو رنگ ہورہی تھیں۔ دماغ کی رگیں تنی ہوٸی تھیں۔ وہ اس کے حصار میں تڑپ رہی تھی اور وہ اس کے لۓ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کافی دیر تک یوں ہی بیٹھے رہے ۔ جب وہ روتے روتے تھک گٸ تو بےجان ہوکر اس کے بازوٶں میں ہی جھول گٸی۔ اذلان نے نرمی سے اس کے ماتھا پر اپنا لمس چھوڑا اور اپنی متاع حیات کو بہت احتیاط سے اپنے بازوٶں میں اٹھا کر وہاں سے باہر نکل آیا ۔

”فابیحہ! یار بیوی جب دیکھو سلپنگ بیوٹی بنی سوتی رہتی ہو۔۔۔ ہم یہاں اپنا ہنی مون انجواۓ کرنے، گھومنے پھیرنے آۓ ہیں اور آپ جناب ہے کہ سونے سےہی فرصت نہیں۔۔“ وہ اس کے سرہانے بیٹھا اس کے بکھرے بال کان کے پیچھے کرتا پیار بھری ناراضگی جتاکر بولا تو اس نے مندی مندی آنکھیں واں کی جن میں نیند کی خماری سرخی بن کر دوڑ رہی تھی۔ گرے آنکھوں میں لال ڈورے ارحم کے دل پر گویا قیامت ہی برپا کرگۓ۔


خدا بچائے تری مست مست آنکھوں سے

فرشتہ ہو تو بہک جائے آدمی کیا ہے


ارحم نےترنگ میں شعر پڑھ کر اس کی خمدار پلکوں کو چھوا تو وہ لرز کر عارض پر جھک گٸیں۔اس کی آنکھوں میں چھپے شوخ تقاضے اس کا دل دھڑکا گۓ ۔ چہرہ دہک کر سرخ قندھاری انار جیسا ہوگیا۔


”آپ کچھ کہہ رہے تھے؟“ وہ اس کا دھیان خود سے ہٹانے کو لہجے میں لاپرواہی سموۓ بولی۔


”میں تو کہتا ہی رہتا ہوں لیکن یہ تو آپ جناب ہیں جو نا مجھ پر اور نا میری باتوں پر توجہ دیتی ہیں۔“ گھمبیر سرگوشی نما لہجے میں کہتے وہ دونوں اطراف اپنے ہاتھوں کا سہارا لۓ اس پر جھک آیا ۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ اس کی دہکتی قربت پر گھبرارہی ہے تبھی دل اسے تنگ کرنے پر اکسانے لگا۔


”میری توجہ کا مرکز بھی تو صرف آپ ہی کی ذات ہے۔ میرے کونسے دس بارہ بچے ہیں جن میں مشغول ہوکر میں آپ کو بھلا بیٹھی ہوں۔“ اس الزم پر وہ تڑپ ہی تو گٸی تبھی بےسوچے سمجھے تیکھے لہجے میں بول پڑی ۔ ہر دم تو وہ اسے خود میں مصروف رکھتا تھا گھر پر بھی اور اب یہاں بھی اور پھر بھی جناب کے شکوے ہی ختم نہیں ہورہے تھے۔ یہی بات سوچ کر وہ اس کی شرارت سمجھے بغیر پھٹ پڑی جبکہ مقابل کی آنکھیں ان بے ساختہ کہے جملوں پر چمک اٹھیں تھیں۔


”ہمممم! یعنی دس بارہ بچوں میں تم مجھے بھول جاٶ گی؟“ وہ ہنکارہ بھرتے سنجیدگی سے پر لہجے میں بولا تو فابیحہ کے چودہ کے چودہ طبق روشن ہوگۓ۔ اسے اب جاکر احساس ہوا کہ وہ کس بےشرمی اور بےباکی کا اظہار کرچکی ہے ۔ تبھی اپنی بےساختگی پر خجل ہوتی کیفیت کے سبب چہرہ جھکاگٸ اور دل ہی دل میں خود کو ڈپٹا بھی کہ کیا ضرورت تھی اس قسم کی بکواس کرنے کی جس نے اسے ارحم کے سامنے جی بھرکر شرمندہ کروایا تھا۔


”ویسے آج کل کے زمانے کے حساب سے اتنے بچے کچھ زیادہ نہیں ہوگۓ؟“ ماتھے پر بل ڈالے سوچ بچار کے انداز میں وہ اسی سنجیدگی سے اس کی راۓ طلب کررہا تھا جبکہ فابیحہ شرم اور خفت کے مارے کوٸی ایسا کونا تلاش کررہی تھی جو اسے اس کی گہری خود میں اترتی پرشوخ نظروں سے چھپا جاسکے۔


”ارحم پلیز!!“وہ خفتذدہ سی سرخ چہرہ لۓ منمناٸی تھی۔


”یار میرے حساب سے چار بچے کافی ہیں۔ دو پیاری سی بیٹیاں بلکل تمہاری جیسی اور دو بدمعاش بیٹے بلکل میرے جیسے۔“ وہ گھمبیر سرگوشی کرتا اس کی جان نکال گیا تو وہ شرم سے دوہری ہوتی بےساختہ ہی اس کے کشادہ سینے میں پناہ لے گٸی۔


”تم دنیا کی پہلی شکار ہو جو خود چل کر شکاری کی کچھار میں آیا ہے۔“ وہ شرارت سے کہتا اس کے گرد حصار تنگ کرگیا۔


”ارحم!! تنگ مت کریں۔“ اب کے وہ اپنے ہاتھ کی مٹھی بناۓ اس کے سینے پر مارتی نروٹھے لہجے میں بولی تو اس نے وہ مٹھی تھام کر نرمی سے اس پر بوسہ دیا ۔


”سیلپنگ بیوٹی! اس پھولوں سے گداز ہاتھ کی مار سے میرا کچھ نہیں جاۓ گا لیکن تمہارے نازک ہاتھ اس فولادی سینے سے ٹکراکر تکلیف ضرور اٹھالیں گے اور میں ہرکز بھی اپنی وجہ سے تمہیں تکلیف نہیں دےسکتا۔“ وہ اب بھی اسے چھیڑنےسے بعض نہیں آیا تو وہ غصے سے اس کی گرفت سے آزاد ہوتی اٹھ کھڑی ہوٸی اور جھٹکے سے سرہانے پڑی شال اپنے گرد لپٹ لی ۔ پیروں میں سلپر اڑسے وہ ایک خفا سی نظر اس پر ڈالتی آگے بڑھ گٸی۔


”یار روٹھی بیوی! اب آپ جناب جلدی سے ریڈی ہوجاٶ میں ناشتہ آرڈر کرتا ہوں۔ اس کے بعد ہم مری کے لۓ نکل جاٸیں گے۔“ اس نے پیچھے سے ہانک لگائی

تو وہ غصے میں بغیر کچھ بولے ہی واش روم میں گھس گٸی۔

”یار یہ لڑکیاں شادی سے پہلے ہمارے سامنے معصوم ہرنی بنی سہمی ہوتی ہیں اور شادی کے بعد اچانک بدل کر شیرنی کیسے بن جاتی ہیں؟“ وہ باآواز بلند بڑبڑایا تھا۔

”آپ کو کتنی لڑکیوں کا تجربہ ہے جو یوں اپنے زری خیالات کا اظہار کررہے ہیں؟“ وہ جو اپنے کپڑے لینا بھول گٸی تھی واپس باہر آٸی تو اس کی بات سنتی تیکھے چتونوں سے پوچھنے لگی دونوں ہاتھ بھی کمر پر رکھے تھے بالکل کسی لڑاکا بیوی کی طرح! ارحم کو ایک دم ہی ہنسی آٸی لیکن وہ ضبط کرگیا کیونکہ سامنے وہ بھوکی شیرنی بنی اسے کھانے کے در پر تھی ۔

”مجھے کیا ضرورت ہے اتنے تجربات کرنے کی، میرے لۓ تو بس ایک ہی تجربہ کافی ہے۔“ چہرے پر سنجیدگی اور آنکھوں میں شرارت لۓ وہ لاپرواہی سے کہہ کر خاموش ہوا تو وہ اونہہ“ کرکے اپنے کپڑے نکالنے لگی۔"


”اب یہی دیکھ لوکہ آپ جنابہ شادی سے پہلے کیسے میرے سامنے بھیگی بلی بنی رہتی تھیں ۔من من کرکے لفظوں کا قتل عام کرتی تھیں ۔۔اور شادی کے بعد پوری ٹرانس فارم ہوگٸیں ۔ بلی سے سیدھی شیرنی۔“ وہ اب بھی اسے تنگ کرنے سے بعض نہیں آیا کیونکہ اسے اچھا لگ رہا تھا اس کی تیکھی نظریں اور سردی اور غصے کے سبب لال ہوٸی ناک! لیکن وہ غصے میں اب بھی کچھ نہیں بولی خاموشی سے اپنا کام کرکے واش روم کی طرف بڑھ گٸ

”ویسے غصے کی تپش کی وجہ سے اب آپ کو ٹھنڈ کم ہی لگے گی۔ اسی لۓ میں نے سوچ لیا ہےکہ ہم جب تک ہم یہاں ہیں میں آپ کو یونہی غصہ دلاتے رہوں گا اور آپ یونہی سلگ سلگ کر خود کو گرم کرتے رہنا۔“ وہ ہنس کر ایک دفعہ پھر اسے چھیڑ بیٹھا تو وہ مزید تپ کر باتھ روم میں گھسی اور دھڑکرکے دروازہ بندکردیا۔


”توبہ! لگتا ہے خواب میں اذلان کو دیکھا ہے انہوں نے یا یہاں آنے سے پہلے اس کا جھوٹا کھایا تھا۔ آج تو بالکل اسی کی طرح ایکٹ کررہے ہیں۔ یہ تو اینگری برڈ ہی بنے رہیں تو اچھا ہے ۔ اس روپ میں، میں تو انہیں برداشت نہیں کرسکتی۔“ اس نے باتھ روم کے بند دروازہ سے کمر ٹیکاۓ جھرجھری لےکر خود کلامی کی تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اذلان کی آنکھ کھلی تو اس نے سب سے پہلے اپنے پہلو میں دیکھا اور ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا ۔ دعاۓخیر اپنی جگہ پر نہیں تھی ۔ وہ جلدی سے بستر چھوڑ کے اٹھ کھڑا ہوا ۔ عجلت میں سلیپر پیروں میں پھنساۓ اور واش روم کی طرف دوڑا۔


دعاۓخیر!“اس نے آواز ماری۔ کچھ دیر انتظار کیا لیکن

جواب نا آنے پر اس نے لاک گھما کر اندر جھانکا تو پورا باتھ روم بھاٸیں بھاٸیں کررہا تھا۔ اس نے باری باری ڈریسنگ روم اور ٹیرس بھی دیکھ لیا وہ کہی نہیں تھی۔ اذلان پریشانی سے بالوں ہاتھ پھیرتا روم سے باہر نکلا ۔ نیچے اترکر وہ سیدھا ڈاٸنگ ٹیبل پر آیا

”امی! آپ نے دعاۓخیر کو دیکھا ہے؟ صبح کاوقت تھا تو سب ہی ڈاٸنگ ہال میں موجود تھے لیکن سب کے ہی چہروں پر واضح پریشانی دیکھی جاسکتی تھی ۔ ان سب پر ایک طاٸرانہ نظر ڈالتے اذلان نے سیدھا سلیمہ بیگم سے متفکر لہجے میں پوچھا تھا۔


”اس بات کا کیا مطلب ہوا؟ کہاں ہے دعاۓخیر؟“ سب سے پہلے ثروت بیگم اپنی جگہ سے اٹھ کر ہراساں ہوکر پوچھنے لگیں جبکہ باقی سب بھی فکرمند سے اٹھ کھڑے ہوۓ اب سب کی ہی سوالیہ نظریں اسی پر تھیں۔


”میں سوکر اٹھا تو وہ اپنی جگہ پر نہیں تھی میں نے پورا روم دیکھ لیا ہے لیکن وہ کہیں نہیں ہے۔“ اذلان خود بھی پریشانی سے کہتا دو انگلیوں سے ماتھا مسلنے لگا۔

”تم ایساکرو اسے کال کرو۔“وارث صاحب بولے تو وہ واپس اوپر کی طرف دوڑا۔ روم میں آکر اس نے جلدی سے فون اٹھاکر دعاۓخیر کو کال ملاٸی۔ کمرے میں ایک دم ہی دعاۓخیر کے موباٸل کی مخصوص رنگ ٹون بجنے لگی۔ اس نے گردن گھماٸی اور جلدی سے دعاۓخیر کی سرہانے پڑے موباٸل کو ہاتھ میں اٹھالیا۔


”ریڈچلی! کہاں چلی گٸ ہو؟ پلیز واپس آجاٶ ورنہ یہ سانسیں تھم جاٸیں گی۔“ اذلان کے دل نے شدت سے اسے پکارہ تھا۔


”یہ وقت ہمت ہارنا کا نہیں ہے اذلان! حوصلہ کرو اور اپنی محبت کو ڈھونڈلاٶ۔ محبت میں شدت ہوتو پوشیدہ چیز بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔“ اس کے دل سے ایکدم آواز آٸی تو وہ ہڑبڑا کر اپنی منجمند ہوٸی حساسیت بھری کیفیت سے نکلا اور جلدی سے کیز اسٹینڈ سے گاڑی کی کی لیتا واپس اپنے روم سے نکل گیا۔

”کیا ہوا؟ کال ریسو کی اس نے؟کہاں ہے وہ؟“اسے گھبرایا ہوا سا واپس آتے دیکھ حارث صاحب مضطرب سے اس کے نزدیک آکر پوچھنے لگے۔


”اس کا موباٸل گھر پر ہی ہے مگر آپ فکرناکریں میں اسے ڈھونڈ لاٶں گا۔ اب بس دعاکریں وہ جہاں بھی ہو محفوظ ہو۔“ دماغ میں چل رہی پرگنداہ سوچوں کو جھٹکتا وہ انہیں حوصلہ دیتے بولا تو وہ اس کا کندھا تھپتھپاگۓ مقصد اسے حوصلہ دینا تھا

”بھاٸی صاحب گارڈ سے پوچھنے گۓ ہیں؟ وہ اسے بتاکر موباٸل میں کوٸی نمبر تلاشنے لگے۔


” امی اور چچی کہاں ہیں؟“ اس نے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوۓ اچانک ہی رک کر پوچھا۔


”ثروت کی طبیعت خراب ہورہی تھی تو بھابی بیگم اسے کمرے میں لےگٸیں ہیں۔ میں بھی بس ڈاکٹر کو کال کرکے بھاٸی صاحب کے ساتھ اسے تلاش کرنے نکلتا ہوں ۔ رب کی ذات بہت بڑی ہے ۔ میرا کامل یقین ہے کہ میری بچی جہاں بھی ہوگی محفوظ ہوگی۔“وہ پریقین مضبوط لب و لہجے میں کہتے حوصلہ دیتی مسکراہٹ سے بولے تو وہ اثبات پر سر ہلاتا ان شاء اللہ! بولتے تیزی سے باہر نکل گیا ۔ باہر وارث صاحب گارڈ پر غصہ ہورہے تھے جو سر جھکاۓ شرمندہ ساکھڑا تھا۔


”سر میم نے کہا دروازہ کھولو میں نے کھول دیا۔ وہ اکثر ہی صبح کی سیر کو نکل جاتی ہیں ۔ مجھے علم ہوتا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تو انہیں کبھی بھی نہیں جانے دیتا۔“ وہ اپنی صفاٸی میں بولا تو وارث صاحب بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گۓ۔ بول تو وہ بھی ٹھیک ہی رہا تھا۔ اس بیچارے کی بھی کوٸ غلطی نہیں تھی۔


”بابا آپ پریشان نا ہوں میں جارہا ہوں اور اپنی ریڈ چلی کو لےکر ہی واپس آٶں گا ۔ وہ پریشان تھی تو ہوسکتا ہے کچھ دیر کھلی فضا میں فریش ہونے نکل گٸی ہو۔“ اذلان انہیں مطمین کرنے کو لہجہ بشاش کرتے بولا حالانکہ اس کے دل کو پنکھے سے لگے تھے ۔ دعاۓخیر کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اکیلی یوں نکل جاتی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


بے قراری سی بے قراری ہے

وصل ہے اور فراق طاری ہے

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر

اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے

بن تمہارے کبھی نہیں آئی

کیا مری نیند بھی تمہاری ہے

آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن

سانس جو چل رہی ہے آری ہے

اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں

رات دن تیری انتظاری ہے

ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو

ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے

اک مہک سمت دل سے آئی تھی

میں یہ سمجھا تری سواری ہے

حادثوں کا حساب ہے اپنا

ورنہ ہر آن سب کی باری ہے

خوش رہے تو کہ زندگی اپنی

عمر بھر کی امیدواری ہے


(جون ایلیا)


وہ بناسمت بنارستے کا تعین کئے بس چلی جارہی تھی ۔ صبح کا وقت تو ہر جگہ گہما گہمی بھی خوب ہی تھی لیکن وہ مکمل غاٸب دماغ سی چل رہی تھی ۔ تبھی اس کے قریب گاڑی کےٹاٸر چرچراۓ۔۔


”کیا ہوگیا اصغر؟ گاڑی آرام سے چلاٶ!““ گاڑی میں بیٹھی ایک خوش شکل خاتون نے جھٹکے سے گاڑی رکنے پر اپنے ڈراٸیور کو سرزنش کی۔


”میڈم جی! سامنے کوٸی لڑکی آگٸ ہے۔“ وہ گھبرا کر پیچھے چہرہ گھماکے بتانے لگا تو وہ خاتون ہراساں ہوتیں گاڑی کا پچھلا ڈور کھولتیں گاڑی سے بار نکل آٸیں۔

”بیٹی تم ٹھیک ہو؟“ وہ جو تھوڑا سہم کر آنکھیں میچ گٸی تھی اس تشویش بھرے استفسار پر اس نے آنکھیں کھول کر باٸیں جانب گردن گھماٸی۔


”بیٹی میں تم سے مخاطب ہوں! کہی چوٹ تو نہیں لگی؟ سب ٹھیک ہےناں!“ وہ اسےخود کو خالی خالی نظروں سے تکتاپاکر اس کے شانے کو ہلکا سا چھوکر فکرمند سی پوچھنے لگیں۔


”میں ٹھیک ہوں!“ وہ غاٸب دماغی سے کھوۓ کھوۓ انداز میں بولی تو وہ سمجھ نہیں پاٸیں کہ وہ پوچھ رہی ہے یابتارہی ہے۔


”تمہارا گھر کہاں ہے؟ چلو آٶ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑدوں۔ تمہاری ماں تمہارے لۓ پریشان ہورہی ہوگی۔“ وہ اس کی حالت کے پیش نظر نرم شفیق لہجے میں بولیں ۔اس لڑکی کا انداز انہیں بہت ٹوٹا بکھرا سا لگا تھا۔ انہیں اچانک ہی اس میں کسی کا عکس نظر آیا تو وہ اسے باغور دیکھنے لگیں۔


”آپ جاٸیں میں خود چلی جاٶں گی۔“ ماں کے زکر پر اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا اور آنکھوں میں ایک درد سا ابھرا تو وہ سرد وسپاٹ لہجے میں کہتی ایک ساٸیڈ سے ہوتی سامنے بنے پارک میں جاگھسی۔


”میڈم جی! صاحب کی کال آرہی ہے ۔ وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔“ ڈراٸیور جو ان کے ساتھ ہی باہر نکلا تھا۔ اپنے فون کو بار بار واٸبریٹ ہوتا دیکھ ایک طرف جاکر بات کرنے لگا اور واپس ان کے پاس آکر مودب سا بولا۔ ان کی ساس کی حالت کافی خراب تھی اور وہ رات سے ہی ہوسپٹل میں ایڈمٹ تھیں۔ وہ انہی کو دیکھنے ہوسپٹل جارہی تھیں ۔ ان کا شوہر اور بیٹا تو رات سے ہی وہی تھے ۔


”ہاں چلو ہم لیٹ ہورہے ہیں۔“ وہ اپنے خیال سے چونک کر باہر نکلیں اور ایک نظر پلٹ کر پھر سے دعائے خیر کو دیکھنے کی کوشش کی جو پارک کے گیٹ کے اندر غاٸب ہوگٸی تھی لیکن نظریں مایوس ہوکر واپس لوٹ آٸیں تو وہ افسردہ سی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گٸیں۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”واٶ! ارحم!! یہ منظر میں نے صرف ڈارموں فلموں یا گوگل بابا پر دیکھیں ہیں ۔ اب اصل میں ان منظر کو دیکھ کر میں تو مبہوت رہ گٸ ہوں۔ ہر طرف قدرت کا شہکار نظر آرہا ہے۔ ہمارا ملک کس قدر خوبصورت ہے نا!“ وہ ایک دم اس کا بازو تھامے پرجوش سی اس سے جڑ کر بیٹھی بول اٹھی۔ یہ گاڑی ارحم نے ڈراٸیور سمت ہاٸر کی تھی ۔ اور جب وہ فابیحہ کے ساتھ پیچھے آکر بیٹھا تو وہ اس سے ناراضگی جتاتی فاصلہ بناگٸ تھی لیکن وہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے وہ خوبصورت نظاروں میں گم ہوتی خود ہی اس کے قریب چلی آٸی تھی۔


”آپ میں اور ان نظاروں میں ایک چیز مشابہت رکھتی ہے۔“وہ غیر محسوس طریقے سے اس کے گرد حصار بناتا سنجیدگی سے گویا ہوا۔ نظریں اس کی بھی باہر کے حسین نظاروں میں گم تھیں ۔ ہر جانب برف نے ہرشے کو لپٹ میں لےلیا تھا برف سے ڈھکے سبزہ زار پہاڑ ہر شے پر سفیدی کی چادر تنی سی تھی ۔ راستے کے اطراف میں بھی برف تھی ۔ ڈراٸیور کافی احتیاط سے ڈراٸیو کررہا تھا۔


”اور وہ کیا ہے؟“ اس کے بازو سے چہرہ ٹیکاۓ فابیحہ نے فورا ہی اپنا چہرہ اس کی جانب کئے پرتجسس لہجے میں پوچھا تو اس کی نظریں ارحم کی سیاہ آنکھوں سے ٹکراکر اس کے اندر برقی رو سی دوڑاگٸیں ۔ وہ ہر بار اسے نٸی شدتوں سے روشناس کرواتا تھا اور وہ ہر بار ان شدتوں سے گھبرا جاتی تھی ۔ اب بھی وہ ان نظروں کی تپش سے موم کی طرح پگھلی تھی ۔ فابیحہ نے کسمساکر اس کی گرفت سے نکلنا چاہا لیکن ایسا ممکن نا ہوسکا

”آپ دونوں ہی میری جان لینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ قدرت جتنی حسین ہے آپ کی طرح لیکن اتنی ہی خطرناک بھی ہے۔“ پرتپش لہجے میں کہۓ گۓ جملے اس کی جان نکالنے کا سبب بنے تو اس نے تڑپ کر ارحم کو دیکھا جو اپنی بات کرکے اس کے یوں پرشکوہ انداز سے دیکھنے پر ہولے سے مسکراکر جھکااور دھیرے سے اس کی بےداغ پیشانی کو چوم لیا۔


”اللہ نا کرے کہ ہم آپ کی جان کے در پر ہوں ۔بہت ظالم ہیں آپ! ہمیشہ ہی ایسی بات کرتے ہیں جو مجھے ہرٹ کرے۔“ وہ بھراۓ ہوۓ لہجے میں خفگی جتاۓ بولی۔


”آپ سے کم!“ وہ جھک کر اس کی ناک کوچوم کر برجستہ بولا تو وہ بوکھلاکر اس سے دور ہونے لگی لیکن ارحم نے گرفت اور مضبوط کرلی۔


”پلیز ارحم! کچھ تو خیال کریں۔“ وہ زچ ہوکر ڈراٸیور کی جانب اشارہ دیتی دانت کچاکر سرگوشی نماآواز میں بولی تھی۔


”فکر مت کرو اس کی آنکھیں باہری راستے پر مرکوز ہیں۔“ وہ فابیحہ کے شرم سے سرخ ہوتے گالوں پر انگوٹھا پھیرتے بےنیازی جتائے بولا۔


”نظریں بےشک باہری رستے پر ہیں لیکن سماعت تو یہی اندر کی طرف لگی ہے۔“ وہ دبے سے لہجہ میں چڑکر بولی تھی۔


”تو ہونے دو! بیوی ہو میری کوٸی گرل فرینڈ نہیں۔۔ جو یوں لوگوں کی فکریں ستارہی ہیں ۔ جو دیکھتا ہے دیکھے جو سنتا ہے سنے ۔ تم میری بیوی ہو اور میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں باقی مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔“ وہ بولا تو تیش میں تھا لیکن آخری جملے پر اس کا لہجہ خود بخود بوجھل سا ہوگیا۔ وہ بےچاری کہاں اس کے جلاد پن اور بےباکی کا مقابلہ کرسکتی تھی اسی لۓ عافیت ایسی میں جانی کہ آنکھیں مونند کر سر واپس اس کے بازو پر ٹیکادیا۔ وہ کچھ بھی کرلیتی کرنی اس نے اپنی ہی من مانی تھی ۔ اسی لۓ وہ خاموشی اختیار کرگٸی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


اذلان نے اپنی گاڑی پارک کی پارکنگ میں روکی تھی۔ یہ پارک گھر سے دس منٹ کی واک پر تھا اور دعاۓخیر اکثر بیشتر اس پارک میں واک کرنے اس وقت جاتی تھی جب اسے لگتا کہ اس کا وزن بڑھ رہا ہے۔ سیٹ بیلڈ کھولتے اذلان گاڑی عجلت میں باہر نکلا۔ پلٹ کرگاڑی کو لاک کرتے وہ تیزتیز قدم اٹھاتا اندر کی سمت بڑھ گیا۔ یہ اچھا خاصہ وسیع پارک تھا۔ کافی لوگ واک کررہے تھے تو کچھ لوگ بیٹھے ہوۓ صبح کی کھلی فضا کو انجواۓ کرتے تھک کر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ وہ مزید آگے بڑھا۔ خود پر پڑتی نظروں سے بےنیاز وہ اس کی نظریں دعاۓخیر کو ہرجگہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ اچانک ہی ایک جگہ اس کی نظریں ٹہریں تھیں۔ ایک کونے میں لگے گھنے درخت کی آڑ میں وہ پارک کی مخصوص بینچ پر بیٹھی اپنی ہاتھوں کی لکیروں کو گھور رہی تھی۔ اذلان کو اسے وہاں دیکھ کر جہاں سکون ملا وہی ایک اشتعال کی لہر بھی اس کے اندر اٹھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ اس سے ہرکز بھی نرمی نہیں برتنے والا تھا۔

”تم یہاں کیا کررہی ہو؟ فون گھر پر چھوڑ کر بغیر کسی سے کچھ کہے یوں منہ اٹھاکر نکل آٸیں۔ پتا بھی ہے پیچھے ہم کتنا پریشان ہوۓ؟ لیکن تمہیں کیا احساس ہوگا؟ تم تو بس احساس کمتری کے داٸرے میں مقید ہوکر خود بھی ہلکان رہو اور دوسروں کی جان بھی سولی پر لٹکاکر رکھو۔ کتنی خود غرض ہوتم!“ وہ جارحانہ تیور لۓ دعائے خیر کے بازو کو دبوچے اسے اپنے روبرو کرتا سختی سے ملامت کررہا تھا۔ وہ اس کے یوں جھٹکے سے کھڑا کرنے پر لڑکھڑا کر اس سے آ ٹکراٸی اور شاک میں گھیرے اسے حیرانگی بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔


”میں خودغرض ہوں؟“ وہ سناٹے میں گھیری بول اٹھی۔

”ہاں ہو تم خودغرض! بلکہ اس کے ساتھ ناشکری بھی ہو۔۔۔ جو چھین گیا اس پر اتنا سوگ اور واویلا مچارہی ہو اور اس کے بدلے جو کچھ تمہیں دیا گیا اس کا کیا؟ اس کےلۓ شکرگزاری کیوں نہیں؟ ماں کے چھوڑ جانے کا غم منارہی ہو اور اس کے بدلے دو دو ماٶں کا پیار ملا وہ کچھ نہیں؟ بےشک دنیا میں بےنام آٸی تم لیکن میرے رب نے تمہارا پردہ رکھ کر تمہیں چاچو کے نام سے معتبر کیا ۔اس کا کیا؟ یہ معاشرہ یہ نہیں جانتا کہ تم ایک جبر کی نشانی ہو بلکہ یہ معاشرہ یہ جانتا ہے کہ تم حارث سرور کی بیٹی ہو۔ اس پر شکر نہیں بنتا تمہارا؟ جو چیز میرے رب نے مخفی رکھی ہے اس پر شکرادا کرنے کے بجاۓ جو چھپی ہوٸی حقیقت ہے۔۔ تم اس بات پر آنسو بہارہی ہو!“ وہ نیچی آواز میں اس پر بری طرح برس رہا تھا۔ شکر تھا کہ وہ ایکطرف کھڑے تھے سب سے الگ تھلگ اس جگہ کوٸی اور نہیں تھا جبکہ دعائے خیر سرجھکاۓ آنسو بہاتی اس کے گرفت میں بےجان سی کھڑی تھی ۔اذلان کا غصہ تھوڑا کم ہوا تو اس نے دعاۓخیر کو واپس بیٹھا دیا اور وہ خود گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام گیا۔


”مانا یہ غم بڑا غم ہی لیکن تمہارے پاس خوشی منانے کی وجہ زیادہ ہیں ۔ چاچو چچی امی بابا ارحم آپو باجیاں ہم سب کا پیار تمہیں کم لگا جو تم اپنی ماں کے پیار نا ملنے پر یوں ہلکان ہورہی ہو؟ چاچو کا نام تمہارے عزت کی علامت ہے اور کسی بات کی یہاں گنجاٸش بچتی ہے؟ بولو چپ کیوں ہو؟ جواب دو مجھے!“ وہ اس کے ہاتھوں پر نرمی سی دباٶ بڑھاۓ پیار بھری سرگوشی سے استفسار کررہا تھا۔


”تم نے اپنا نام نہیں لیا ان سب میں؟“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی دھیرے سے بولی بھی تو کیا بولی۔

”تمہیں فرق پڑتا ہے میرے نام سے؟“ اس نے بھی ان گہری جھیل سی آنکھوں میں دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔


”تمہیں فرق پڑتا ہے میری سچاٸی سے؟“

”کیا ہےتمہاری سچاٸی؟ اس نے الٹا سوال پوچھ کر اسے لاجواب کیا۔

”کون ہو تم؟“

دعاۓخیر!“

”والد کانام؟“

”حارث سرور!“

”والدہ کانام؟”

”ثروت ابراھیم!“

”بھاٸی کانام؟“

”ارحم حارث!“

”بہنیں ہیں؟“

”بلکل تین ہیں؟“

”محبت میں کمی لگی ہے کسی کی؟“

”نہیں سب مجھے بہت چاہتے ہیں۔ تاٸ امی، تایا ابو

سب کی لاڈلی ہوں میں!“ فوراً جواب موصول ہوا۔

”ان سب میں تم نے ان کے بیٹے کانام نہیں لیا؟“ دعاۓخیر کو پھر اعتراض ہوا۔


”ان کے بیٹے کی اور اس کی محبت پر ہم پھر کبھی تفصیل سے روشنی ڈالیں گے فلحال تو اتنا بتاٶ کہ اس فیملی اسٹیٹس کے بعد تمہیں اور کسی حوالے کی ضرورت ہے؟“ اس کے چہرے پر ہوا کے جھونکے سے آٸی لٹ کو وہ اپنی انگلیوں کی مدد سے کان کے پیچھے کرتے ہوۓ پیار بھری نرمی سے پوچھنے لگا تو اس نے جھٹ نفی میں سرہلایا دیا۔


”تمہاری سب باتیں میں مانتی ہوں اذلان! ان باتوں میں کوٸی دوراۓ نہیں لیکن یہ جو سچ ہے نا اس کی کڑواہٹ اتنی جلدی نہیں جاۓ گی۔ اس کی کڑواہٹ میری روح میں اترگٸی ہے۔“ وہ بھیگے لہجے میں کہتی ایک مرتبہ پھر رو پڑی تھی۔

”میں اذلان وارث سرور! تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی محبت تمہاری روح میں اتارکر اس کڑواہٹ کو تمہارے اندر سے نکال پھنکوں گا۔ تمہارے دل ودماغ پر یوں چھاجاٶں گا کہ تمہیں کچھ اور سوچنے سمجھانے کا موقعہ تک نہیں دوں گا۔ تم بس مجھے اور میرے پیار کو سوچو گی۔“ وہ اچانک ہی اپنی ٹون بدلتا ایک جھٹکے سے اسے اپنی جانب جھکاکر اس کے دونوں گالوں کو باری باری چوم کر اسے بوکھلانے پر مجبور کر گیا۔


”اذلان ٹھرکی کہیں کے زرا جو تم میں شرم باقی ہو۔ ہر جگہ شروع ہوجاتے ہو!“ وہ اس حملے پر بدک کر اسے پرے دھکیلتی بھناکر بولی۔


اذلان اس کے یوں دھکلنے پر پیچھےگرنے کے بجاۓ ہاتھوں پر زور دےکر قہقہہ لگاۓ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا۔ دعاۓخیر جس خول میں اپنے آپ کو قید کررہی تھی وہ اس خول کو توڑکر اسے باہر نکال لایا تھا۔ اسے معلوم تھاکہ آگے کئی مراحل ابھی باقی تھے لیکن وہ کم ازکم اس جمود سے باہرآگٸی تھی۔ اس کے لئے فلحال یہی کافی تھا۔


”چلو اب گھر چلتے ہیں۔ سب پریشان ہورہے تھے تمہارے لۓ! ویسے بیڈروم میں تو سب کچھ الاٶ ہےنا؟“ سنجیدگی سے کہتے آخر میں زومعنیٰ انداز اپنائے اذلان نے اسے حصار میں لیا اور آگے کی سمت بڑھ گیا تو وہ اس خشمگیں نظروں سے دیکھنے لگی۔


”پتا ہے پیارا لگ رہا ہوں لیکن یار کیا نظر لگاٶگی!“

وہ اب بھی اسے زچ کرنے سے بعض نہیں آیا تو دعاۓخیر نے زور سے اس کی پسلی میں کہنی ماری تو وہ اچھل پڑا۔


”ظالم ریڈچلی! جب کرنا وار ہی کرنا کبھی پیار نا کرنا۔“ وہ مصنوعی دہاٸی دیتے چیخا تو کٸی لوگوں نے مڑ مڑ کر ان دونوں کو دیکھا تھا۔ اس سچوئشن میں دعاۓخیر بےچاری خفتذدہ سی ہوکر اپنا چہرہ ہی جھکاگٸی۔ پھر جب تک گھر نہیں آیا اس نے اپنا چہرہ نہیں اٹھایا تھا۔

”دعاۓخیر! میری بچی!! کہاں چلی گٸیں تھیں تم؟“

وہ جیسے ہی اذلان کی معیت میں گھر کے اندر داخل ہوٸی سلیمہ بیگم لپک کر اس کی جانب آتی اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لیتی متفکر سی استفسار کرنے لگیں۔ ان کی پریشان حالت دیکھ دعاۓخیر بری طرح خجالت کا شکار ہوتی ان کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ گٸی۔


”تاٸ امی میں سخت شرمندہ ہوں۔ میری وجہ سے آپ سب کو اس قدر پریشانی اٹھانی پڑی۔“

وہ ندامت سے چور لہجے میں آنکھوں میں نمی لۓ بولی تو سلیمہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے اپنے پرشفقت حصار میں لے لیا۔


”میری بچی شرمندہ مت ہو۔ تم جس تکلیف سے گزر رہی ہو ہمیں اس کا اچھے سے اندازہ ہے۔ بس اپنا خیال رکھو۔ ہمارے لئے تمہاری سلامتی سے زیادہ کچھ بھی عزیز نہیں۔“وہ اس کی کمر تھپتھپاکر اس سے الگ ہوتیں اس کا ماتھا چوم کرپرشفیق لہجے میں گویا ہوٸیں تو وہ ان کی اس حددرجہ محبت دیکھ کر پرنم آنکھوں سے مسکرادی۔


”امی یار کیسی ساس ہیں آپ؟ ساسیں تو بہو کی غلطی پر اسے پیٹ ڈالتی ہیں اور ایک آپ ہیں کہ الٹا اس پر پیار لٹا رہی ہیں۔ اتنا ناسر پر چڑھاٸیں اسے ورنہ یہ ریڈچلی ہم سب کی آنکھوں میں مرچیں جھونک کر ہمیں آٹھ آٹھ آنسو رولاۓ گی۔“اذلان اس کے شانوں پر بازو پھیلاۓ مصنوعی تاسف ذدہ لہجے میں بولتا دعا خیر کو بری طرح بھڑکا گیا۔


”تم تو اپنا منہ بند ہی رکھو۔ زیادہ پھپھا کٹنی بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔“وہ دونوں کی مدد سے اسے پیچھے کی طرف دھکیلتی تپ کر غصے میں بولی ۔ سلیمہ بیگم اسے پرانی جون میں واپس آتے دیکھ بےپناہ خوش ہوٸیں جبکہ اذلان اسے مصنوعی غصے سے گھورنے لگا۔


”ویسے بڑے افسوس کی بات ہے۔ آپ کے سامنے آپ کی بہوصاحبہ! آپ کے اکلوتے بیٹے پر تشدد کررہی ہے اور آپ ہیں کہ اسے کچھ کہنے کے بجاۓ الٹا خوش ہورہی ہیں!“ وہ ستر دہائی کی ہیروئن کی طرح آہ و بقا کرنے لگا تو سلیمہ بیگم نے اس کے شانے پر ایک دھپ رسید کی۔ اذلان کی چلتی زبان کو بریک لگا اور وہ اچھل کر اپنا کندھا سہلانے لگا جبکہ دعاۓخیر اس کی ڈرامہ بازی پر سرجھٹک کر رہ گٸی۔


”والدہ کہاں ہیں؟“وہ سلیمہ بیگم کا بازو تھام کر انہیں اپنی جانب متوجہ کرتی فکرمندی سے پوچھنے لگی۔


”ثروت اپنے کمرے میں ہے۔ جاکر مل لو! وہ تمہیں لےکر بہت فکرمند ہے۔ ساری رات بھی بےچین رہی اور صبح بھی تمہاری غیرموجودگی نے اسے ہراساں کردیا۔ جس وجہ سے اس کا بی پی کافی لو ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر آکے چیک اپ کرگیا ہے ۔ تم مل لو گی تو اس کی طبیعت پر اچھا اثر پڑے گا۔ جو کچھ ہوچکا ہم اسے بدل نہیں سکتے لیکن آنے والے وقت کو بہتر بنانے کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں۔۔“

نرمی سے اس کا چہرہ چھو کر وہ پیار سے اسے سمجھاتے ہوۓ بولیں تو وہ دھیمے سے افسردہ انداز میں مسکرا کہ اندر کی جانب بڑھ گٸی۔


”اپنے بابا کو کال کرکے بتادو تاکہ وہ واپس آجاٸیں۔“

وہ خود بھی اندر کی جانب بڑھتی ساتھ چلتے اذلان سے بولیں تو وہ پاکٹ سے موباٸل نکال کر وارث صاحب کو کال کرنے لگا۔۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


”والدہ!“کمرے میں داخل ہوتی وہ ان کے سرہانے بیٹھ کر انہیں محبت سے پکارنے لگی۔ ثروت بیگم جو آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹی تھیں اس کی آواز سن کر ان کے اندر ممتا بھرا سکون سراعت کرگیا لیکن وہ یوں ہی انجان بنی لیٹی رہی ہیں۔


”مجھے علم ہےکہ آپ مجھے سن رہی ہیں۔۔۔“ وہ ان کا بازو چھوکر سنجیدگی سے بولی مگر وہاں سے رسپانس اب بھی جوں کا توں تھا۔ پیچھے سے سلیمہ بیگم اور اذلان بھی روم میں آچکے تھے۔


”ناراض ہیں نا مجھ سے! مانتی ہوں میری غلطی ہے۔

مجھے یوں ری ایکٹ نہیں کرنا چاہیۓ تھا۔ جانے انجانے میں میں سب کی پریشانی کی وجہ بن گٸی۔“ ندامت سے پرلہجے میں کہتے کہتے اس کی آواز بھراگٸی اور دو شفاف موتی پھسل کر اس کے گلابی گالوں پر بہہ گۓ۔ وہ تب بھی خاموشی رہیں تو دعاۓخیر نے پلٹ کر بےبسی بھری نظریں ان دونوں پر ڈالی۔

”ثروت بچی تم سے کچھ کہہ رہی ہے!“ سلیمہ بیگم آگے ہوکر انہیں پیار سے پچکارتے ہوۓ بولیں تو اب کے وہ اپنی سسکی نا روک سکیں۔


”چچی رورہی ہیں!“ اذلان بیڈ کے قریب آتا پرتشویش لہجے میں بول اٹھا۔


”والدہ پلیز! مجھے دیکھیں۔۔۔ سوری نا ہرٹ کردیا آپ کو۔۔ میں بلکل بھی اچھی بیٹی نہیں ہوں۔“ وہ ان کا بازو تھامے رقت آمیز لہجے میں بولی تو ثروت بیگم تڑپ کر اٹھ بیٹھیں اور اسے اپنی ممتا بھری آغوش میں سمیٹ لیا

”میری بچی! مجھے معاف کردو۔ مجھ سے کبھی نفرت نہیں کرنا۔ میں جرم ناکرکے بھی مجرم بن گٸی۔ میں نے بہت چاہا تھا اسے اور اس کی نشانی کو بھی اسی چاہت کی گرمی سے پروان چڑھایا لیکن شاید کوٸی کمی رہ گٸی۔ بےشک میں نے تمہیں جنم نہیں دیا لیکن ماں ہونےکا حق نبھایا ہے۔ اگر پھر بھی کمی رہ گٸ تو مجھے معاف کردینا لیکن یہ جان کر کہ میں تمہاری ماں نہیں مجھ سے دور مت جانا مجھ سے نفرت نہیں کرنا یہ سوچ کر کہ اس سب کی ذمہدار میں تھی ورنہ میں جیتے جی مرجاٶں گی۔“ وہ اسے سینے میں بھینچیں شدت سے روتے ہوۓ رک رک کر بول رہی تھیں ۔ دعاۓخیر بھی ان کے سینے میں منہ دیۓ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ اذلان کی آنکھیں بھی اس منظر پر بھیگ رہی تھیں جبکہ سلیمہ بیگم کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے۔


”والدہ اگر آج کے بعد آپ نے مرنے کی بات کی تو میں واقعی ناراض ہوجاٶں گی۔ آپ میری ماں تھیں، آپ ہی میری ماں ہو اور مرتےدم تک میری ماں آپ ہی رہوگی۔ بےشک یہ سب میرے لۓ برداشت کرنا آسان نہیں لیکن برداشت تو آپ نے بھی کیا اور میری اس ماں نے بھی جس نے مجھے جنم دیا۔ مجھے نا آپ سے کوئی شکوہ ہے اور نا ان سے شکایت ہے۔ آپ جان کر تو ان وحشیوں کو اندر نہیں لاٸیں تھیں۔ آپ کی نیکی کو ان لوگوں نے اپنے لۓ گناہ بنالیا۔ آپ کی نیت صاف تھی۔ آپ ان کے دل میں تو نہیں جھانک سکتی تھیں اور میں ان سے بھی خفا نہیں ہوں۔ ان کی تکلیف اور درد میں اپنے اندر محسوس کرسکتی ہوں۔ جب مجھے وہ سب سن کر اتنی تکلیف پہنچیں تھی جیسے کوٸی میری شہہ رگ پر چھری پھیر رہا ہو ۔ میں اتنا ہی تڑپ رہی تھی۔۔۔ اور انہوں نے تو وہ سب کچھ خود پر جھیلا تھا۔ ان کی روح تارتار ہوٸی تھی۔ ان کی حالت کا تو میں اندازہ بھی نہیں لگا سکتی ہوں۔ میں نا کسی سے خفاہوں اور نا ہی ناراض ہوں۔۔ ہاں اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مجھے کچھ وقت لگے گا لیکن میں شکوہ نہیں شکرکروں گی۔ برا میرے ساتھ نہیں بلکہ میری ماں کے ساتھ ہوا۔ میں تو پھر آپ سب کی محبت بھری چھاٶں میں آگٸی۔ مجھے رولا نہیں گیا۔ میں راہ کی دھول نہیں بنی بلکہ سب کے سرکا تاج بن گٸی۔ اتنی محبت تو شاید مجھے اپنی ماں سے بھی نا مل پاتی جتنی محبت مجھے آپ سب سے ملی۔ میرے دل میں ملال نہیں بس ایک درد سا ہے اور وہ درد بھی ان شاء اللہ! وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوجاۓ گا۔ بس آپ اپنے دل پر کوٸی بوجھ نا رکھیں۔ مجھے اپنی وہی والدہ واپس کریں جو مجھے پیار بہت کرتی ہیں لیکن ڈانٹ ڈپٹ کی آڑ میں!!“ وہ ان کے سینے سے لگی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی آخر میں نروٹھے پن سے بولی تو ثرورت بیگم کے لبوں پر دھیمی سے مسکان آگٸی۔ انہوں نے جھک کر اس کا سر چوما اور ایک دفعہ پھر اس کے گرد حصار مضبوط کیا تو دعاۓخیر نے پرسکوں ہوکر لمبی سانس کھینچ کر اپنی آنکھیں موند لیں۔ اس جگہ سے زیادہ پرسکون جگہ کوئی نہیں تھی۔


”سارا پیار اپنی والدہ پر لٹانا ہے! کچھ حصہ اپنے بابا کا بھی نکال لو!!“ حارث صاحب کی پرشکوہ آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں تو ثروت بیگم نے اس کو اپنے حصار سے آزاد کردیا۔ وہ تیزی سے اٹھی اور دوڑ کر حارث صاحب کی کھلی آغوش میں سماگٸی۔


”بابا مجھے معاف کردیں!“ وہ ایک دفعہ پھر روپڑی۔


”نا نا میرے بچے! رونا نہیں، اور معافی کیسی؟ سچ جاننا تمہارا حق تھا۔ ہم نے بس تم سے وہ سب اسی لۓ چھپایا تھاکہ تمہیں تکلیف نا پہنچیں لیکن شاید سب کو اپنے حصے کے درد اٹھانے ہی پڑتے ہیں۔ سب بھول جاٶ بس یہ بات یاد رکھو کہ ہم سب تمہیں بہت پیار کرتے ہیں۔“ وہ اس کا چہرہ تھام کر اس کے ماتھے پر پیار سے بوسہ دیتے ہوۓ بولے تو وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرادی۔


”تایاابو سے بھی مل لو اپنے۔۔ تم نے تو ہمیں سسر ہی بناچھوڑا!“ حارث صاحب کے شرارت سے کہنے پر دعاۓخیر نے خفگی بھری نظروں سے انہیں دیکھا۔


”اتنے دنوں سے جو میں نے فرماٸشی پروگرام موخر کررکھا تھا ۔ آپ فکر نا کریں بس شروع کرنے والی ہوں۔۔۔ پوری ایک لسٹ بناکر آپ کو تھماٶں گی۔ پھر کوئی شکوہ باقی نہیں رہے گا۔“ وہ اب ان کے بازو سے لگی لاڈ سے انہیں متنبیہہ کررہی تھی۔

”میں دل و جان منتظر رہوں گا۔“ وہ اس کے گال کھینچ کر خوشدلی سے بولے۔


”تاٸ امی اتنے دن سے میں نے ڈھنگ سے کھانا نہیں کھایا تو آج آپ میری فرماٸش پر میرے لۓ ہرے مصالحہ کا قیمہ اور چکن سندھی بریانی بناٸیں گی۔“ وہ اب ان کے گلے میں بانہیں ڈالے اپنا فرماٸشی پروگرام بتارہی تھی جبکہ اذلان بےچارہ اپنی باری کا انتظار کررہا تھا کہ وہ کب ایسے محبت بھرے مظاہرے اس کے ساتھ کرے گی لیکن شاید اسے علم نہیں تھاکہ یہ انتظار فلحال انتظار ہی رہنے والا تھا۔


”دعاۓخیر تھوڑی شرم کرلو۔ اب وہ تمہاری تاٸی کے ساتھ ساتھ تمہاری ساس بھی لگتی ہیں۔ بی بی عقل کے ناخون لو! ان کی خدمت کرنے کےبجاۓ الٹا تم فرماٸشی لسٹ تھمارہی ہو۔“ ثروت بیگم کی لتاڑتی آواز پر اس نے منہ بسورا۔


”ثروت تم بیچ میں نا بولوبھئی! یہ میرا اور میری بچی کا معاملہ ہے۔ تم بس اپنی بہو پر توجہ دو۔ میری بہو پر میں خود توجہ دےلوں گی۔۔“ وہ پیار سے دعاۓخیر کا ہاتھوں کو چومتی انہیں سرزنش کرتی بولیں۔

”میری بہو ماشاءاللہ بہت سمجھدار ہے۔“ وہ ہنکارہ بھرتی جتاکر بولیں اور واپس بستر پر دراز ہوگٸیں۔


”چھوڑو اپنی ماں کو آجاٶ میری بچی تم میرے ساتھ تمہیں میں اچھے سے ناشتہ کرواتی ہوں۔“ ثروت بیگم اس کا ہاتھ تھام کر اسے پچکارتے ہوۓ بولیں اور باہر کی طرف بڑھ گئی۔


”پیاری امی حضور!! اگر آپ بھول گٸیں ہیں تو یاد کروادوں کہ میں بھی آپ کی ہی کا بیٹا ہوں اور وہ بھی اکلوتا۔ جو صبح سے خالی پیٹ آپ کی بہو کے پیچھے خوار ہورہا تھا۔۔“ پیچھے سے اذلان جلے دل اور نیم چڑے لہجے میں بول اٹھا۔


”تو میرے بچے میں کیا تمہیں ناشتہ نہیں دوں گی جو یوں واویلاکر رہے ہو!! آجاٶ تم بھی کرلینا ناشتہ۔“ وہ پیچھے پلٹے بغیر خفف سا طنز کرتیں دعاۓخیر کو اپنے ساتھ لئے کمرے سے باہر نکل گٸیں۔


”دیکھ لیں آپ دنوں! کیسے میرے اپنے ہی گھر میں میری اپنی ماں مجھ سے بہوٶں والا سلوک کررہی ہیں۔“ وہ بےوقت اپنے چچا اور بابا کو دیکھتے ہوۓ شکوہ کناں ہوا۔


”میرے بچے شکوہ چھوڑو اور جاکر ناشتہ کرو۔ جو اور جتنی عزت مل رہی ہے چپ چاپ سے لےلو!“ وارث صاحب کا انداز شرارت لئے ہوئے تھا۔ اذلان صدمہ میں گھیرا انہیں دیکھنے لگا مطلب کسی کو اس کی قدر ہی نہیں تھی۔ وہ ناراضگی کے اظہار کے طور پر منہ پھولتا کمرے سے واک آؤٹ کر گیا۔

”میں کتنا بد نصیب ہوں! نا مجھے میری ماں کا پیار مل رہا ہے اور نا میرے ہونے والے بچوں کی ماں کا پیار!“ وہ ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتا خود بھی کچن کی جانب چل دیا تھا۔


”چلو بھٸی ہم بھی ریڈی ہوکر آفس کے لۓ نکلتے ہیں

ویسے ہی لیٹ ہوگۓ ہیں۔“ وارث صاحب اپنے بھاٸی کا شانہ تھپتھپاکر بولتے خود بھی کمرے سے باہر نکل گۓ۔ حارث صاحب نے ایک نظر پرسکون سی سورہی ثروت بیگم پر ڈالی اور خود بھی تیار ہونے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گۓ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


صبح کا ناشتہ کرکے وہ دونوں ہوٹل سے نکل آۓ تھے۔ ان کا ارادہ آج شاپنگ اور لنچ کے بعد شام تک لوٹ آنے کا تھا۔ ساری رات وقفے وقفے سے برف باری کا سلسلہ چلتا رہا تھا۔ جس وجہ سے اس وقت ٹھیک ٹھاک سردی محسوس ہورہی تھی لیکن وہ دونوں ہی اچھی طرح سے خود کو کور کرکے نکلے تھے ۔

”ہم کراچی میں رہنے والوں کی تو یہاں آکر قلفی ہی بن جاتی ہے۔“ ارحم کے ہاتھ میں بازو ڈالے وہ اس کے ساتھ ہلکے ہلکے واک کرتی ہوٹل سے باہر نکلتی ٹھنڈ کی وجہ سے جھرجھری لےکر بولی تھی۔


”زیادہ سردی لگ رہی ہے تو واپس چلیں؟“ وہ اس کی سرخ ناک اور گال دیکھ کر متفکر سا پوچھنے لگا۔


”نہیں! اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔ سردی تو کافی ہے لیکن مزا بھی آرہا ہے۔ ہم یہی اس طرح بھالو بن کر گھوم سکتے ہیں وہاں کراچی میں تو اس طرح کی ڈریسنگ سوچنا بھی محال ہے۔“ اس کے بھالو کہنے پر ارحم نے قہقہہ لگایا تو کٸی لوگ اس کیوٹ سے کمپل کی جانب متوجہ ہوگۓ۔


”کیا ہے بھئی! میں نے کونسا لطیفہ سنادیا جو یوں کھلکھلارہے ہیں؟“ وہ نروٹھے پن سے کہتی ہاتھ کی مٹھی بناکر ارحم کے بازو پر مار گئی۔


”یار واقعی یہاں کھلکھلانا نہیں بلکہ غصہ کرنا چاہیۓ۔ تم نے لیکر اتنے ہنڈسم بندے کو بھالو ہی بناچھوڑا۔“ اب کے وہ اسے مصنوعی آنکھیں دیکھاتے ہوۓ بولا تو وہ زرا برابر بھی متاثر نہیں ہوٸی۔

”اتنے وزنی اور اونی کپڑے اور ٹوپے پہن کر مجھے تو ہرکوٸی بھالو ہی لگ رہا ہے۔“ وہ یہاں وہاں چلتے پھیرتے لوگوں کو دلچسپی سے دیکھتی اب بھی اپنی بات پر قاٸم تھی۔


”ویسے تم رج گج کے ان رومنٹک لڑکی ہو۔“ ارحم نے سنجیدگی سے کہہ کر اس کی کمر کے گرد حصار کسا۔ فابیحہ اس بےباکی پر بوکھلاکر اس سے دو قدم دور ہوٸی تو ارحم نے جتاتی نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کی نظروں کی شکایت پر فابیحہ گھبرا کر نظریں چراگٸی۔ وہ واقعی اس کی طوفانی محبت کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ وہ دونوں وہاں سے سیدھا شاپنگ پر آۓ تھے ۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور وہ مگن سے تھے ۔ ارحم نے اسے کافی ساری شاپنگ کرواٸی تھی ۔ گھروالوں کے لۓ بھی ان دونوں نے شاپنگ کی تھی ۔ تین بج رہے تھے اور فابیحہ کا بھوک سے برا حال تھا۔ ارحم نے یہاں بھی گاڑی بمعہ ڈراٸیور ہاٸر کی تھی۔ سارا سامان گاڑی میں رکھواکر وہ لوگ اب مزے سے گرم گرم لنچ انجواۓ کررہے تھے۔


”واپس جانے سے پہلے کیوں نا ہم تھوڑی سے واک کرلیں!“ ارحم نے ٹشو سے منہ صاف کرتے ہوۓ اس سے راۓ طلب کی۔ اچانک ہی ہلکی ہلکی سی دھوپ نکل آٸی تھی اور کافی لوگ اس وقت چہل قدمی کرتے ہوۓ قدرت کی اس کرم نوازی کو انجواۓ کررہے تھے۔


”جیسے آپ کی مرضی!“ وہ تابعداری سے سر ہلا گئی۔

”افف! میں قربان ہی نا ہوجاٶں اس ادا پر!!“ اس نے اچانک ہی ہاتھ بڑھاکر اس کے گال کو کھینچ کردلبرانہ انداز میں کہا تو وہ سب کی موجودگی کے سبب جھنپ کر مسکرادی۔

بل پےکرتا وہ اس کا ہاتھ تھامے باہر لےآیا۔


تم میرے ساتھ ہو

اتنے پاس ہو

پھر بھی دل ہے کہ بہلتا نہیں

دل ہو کہ دلدار ہو میرا پیار ہو

پاس ہو پھر بھی یہ سنبھلتا نہیں


🍃افشاں کنول🍃


وہ اپنی نرم گرم شدتیں لٹاتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ ہلکا سا اس کی جانب جھکتے دھیرے سے مخمور بوجھل لہجے میں گنگنایا تو فابیحہ کی نظریں بارشرم سے جھک گٸیں ۔ وہ ویسے بھی کہاں ان پرتپش نظروں کا مقابلہ کرسکتی تھی۔ اس کا چہرہ ارحم کی حدت بھری نظروں سے دہک اٹھا تھا۔ اسی وقت ان کے نزدیک سے منچلے لڑکوں کا ٹولا گزرا ۔ ان دونوں کو لوبرڈز بنادیکھ ان لوگوں نے خوب ہی سٹیاں بجاٸیں تھیں ۔ اس سچوئشن پر فابیحہ بےچاری شرم کے مارے ارحم کے ہی بازو میں منہ دےگٸی جبکہ ارحم نے محفوظ ہوکر بھرپور قہقہہ لگایا تھا۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


آج وارث صاحب کی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس سبب اذلان نے انہیں زبردستی گھر پر روک لیا اور خود ان کی جگہ آفس جاچکا تھا۔ ویسے بھی اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھاکہ اب وہ روزانہ آفس جاۓ گا اسے نہیں منانا یہ روکھا پھیکا ہنی مون! دعاۓخیر نے اس گوہرافشانی پر اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورا تو اس نے نظر بچاکر اسے فلاٸنگ کس پاس کی تھی۔ وہ سب کی موجودگی میں تلملاکر رہ گٸی تھی لیکن اس نے بھی سوچ لیا تھا کہ اس ٹھرکی کو اس کے ٹھرک پن کا خوب ہی مزا چکاکر رہے گی۔

اذلان حارث صاحب کے ساتھ ہی تھکا ہارا شام میں گھر پہنچا تھا۔ نیچے سب سے دعاسلام کرکے وہ اپنے روم میں آیا تو اس کی آنکھیں خیراں ہوگٸ ۔ کیمل کلر کے فراک پاجامے میں وہ کھلی کھلی سی شیشے کے آگے کھڑے بالوں کا جوڑا بنارہی تھی ۔ اذلان نے آرام سے آگے بڑھ کر دروازہ بند کیا اور بیگ ایک طرف رکھتے ہوۓ اس کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔ وہ ایک دم ہی پیچھے جاکر ایک جست میں اسےاپنے حصار میں باندھ گیا۔ دعاۓخیر اپنی سوچوں میں گم اس افتاد کے لۓ تیار نہیں تھی تبھی اس کے منہ سے چیخ نکلی۔


”کیاکرتی ہو ریڈچلی!“ وہ ایک دم ہی بوکھلاکر اس کے منہ پر ہاتھ جماگیا تو وہ اس کی مضبوط گرفت میں بری طرح پھڑپھڑا کر رہ گٸی۔


”امی بابا چاچو چچی اپیا باجیوں یہاں تک ارحم بھیا کے بھی گلے لگ جاتی ہو اور جس کا سب سے زیادہ حق بنتا ہے وہ آج تک اس حق سے محروم ہے۔ سوچا تھا شادی کے بعد تو تم یونہی میرا والہانہ استقبال کرو گی لیکن ہق ہا ان گھنچوں پر جو کھلے ہی نہیں۔۔“ اس کے شانے پر تھوڑی ٹیکاۓ شرارت بھری سنجیدگی سے گویا ہوتا وہ دعاۓخیر کا جی بری طرح جلاگیا۔ اس نے پوری قوت لگاکر اپنی کہنی اس کے پیٹ میں ماری تو وہ اچھل کر اس سے دو قدم دور ہوا۔


”شرم نہیں آتی؟ جب دیکھو بچہ سمجھ کر مارتی رہتی ہو۔ اب میں بچہ نہیں بلکہ ہمارے ہونے والے بچوں کا ابا بننے کے قابل ہوچکا ہوں لیکن وہ عہدہ بھی تمہاری نااہلی کی وجہ سے مجھ سے کوسوں دور ہے۔“ لڑاکا عورتوں کی طرح وہ تڑکتے ہوۓ ہاتھ نچانچاکر بول رہا تھا ساتھ کوسوں دور پر ہاتھ سے لمباٸی کا اشارہ بھی دیا تو اس کی بےباک گفتگو سن کر دعائے خیر کے کانوں سے مانو دھواں ہی نکل گیا۔


”تم ٹھرکی! کیا بےہودہ گفتگو کررہے ہو؟ کوٸی شرم لحاظ ہے کہ نہیں! وہ سرخ چہرے کے ساتھ تلملاکر غصے سے پھنکاری تھی۔


”میاں بیوی میں کسی شرم!“ بولنے کے ساتھ ہی وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے محبت سے چور لہجے میں کہتا اس کے دونوں گالوں کا بوسہ لےگیا۔


”اذلان کے بچے ابھی کے ابھی مجھے چھوڑو ورنہ میں تمہاری جان لےلوں گی۔“ وہ خونخوار انداز میں اسے تنبیہہ کرتی اس کی گرفت میں بری طرح مچلی تھی۔


”میرے بچے دنیا میں آنے تو دو! یہ کیا کہ ابھی سے انہیں پکارنا شروع ہوگٸیں؟ اور جان لینے کی بھی تم نے خوب کہی ظالم! دل وجان تو میں نے کب کی تم پرلٹادی۔۔۔ اب تو بس یہ سانسیں ہیں جو تمہارے نام کی مالا جپتی ہیں، بلکہ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ تمہاری اس مسحورکن قربت میں ایک دن یہ بھی تھم جاٸیں گی۔“وہ بوجھل ہوتے بھاری لب و لہجے میں بولتا گویا اس کی جان کے در پر ہوا۔ اس کی دہکتی قربت، چہرے پر پڑتی سانسوں کی تپش اس کی جزبے لٹاتی شوخ نظریں، ہر چیز جان لیوا تھی ۔ وہ آگ بن کر اسے موم کی طرح پگھلارہا تھا۔ دل کی دھڑکنوں کا شور اتنا تھاکہ اذلان کو بھی باآسانی سناٸی دے رہا تھا۔ دعاۓخیر کی مغلوب حالت پر اس کے چہرے پر بڑی دلفریب مسکراہٹ آٸی تھی۔


میرا ہوجا ، مجھے اے یار مکمل کر دے !

یا مجھے چھوڑ دے ،انکار مکمل کر دے !

اپنے دیدار کے جلوؤں میں گھرا رهنے دے !

دور جانا ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیوار مکمل کر دے !

زندگی اس کی ، رضا اس کی، کہانی اس کی !

پھر جہاں چاھے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کردار مکمل کر دے !

پیاس دی ہے تو وہی وصل کی بارش دے گا !

اور وہ چاھے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ سرشار مکمل کر دے !

میں مہاجر ہوں تو ہجرت کی اجازت دے دے !

یا اس شہر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انصار مکمل کر دے !

وہ جو پیارا ہے تو ، جاں کسے پیاری ہے !

عشق میں جو بھی ہے معیار مکمل کر دے !

توجو خوش ہے تو یہی بات مجھے ہے کافی !

جیت جا مجھ سے ۔۔۔ میری ہار مکمل کر دے !

لفظ ہے مایہ اگر ہوں گے تو میں چاہوں گا !

ایسی خاموشی جو۔۔۔۔ اظہار مکمل کر دے !


اذلان کی گمبیر دلفریب مخمور لہجے کی فرماٸش پر اس کی ہتھلیاں بھیگ سی گٸیں۔ دل کی دھڑکنوں میں گویا ارتعاش برپا ہوگیا ۔ پورے بدن میں سرد سی لہریں اٹھنے لگیں ۔ اذلان نے جھک کر عقدت سے اس کی صبیحی پیشانی کا بوسہ لیا تو تشنگی اور بڑھی۔ اس نے ذرا سا جھک کر اس کی لرزتی پلکوں پر اپنا شدت بھرا لمس چھوڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس فسوں خیز لمحوں کو اور طول دیتا دروازے پر زوردار دستک ہوٸی۔ دعاۓخیر ہوش میں آتی ہڑبڑاکر اس سے دور ہوٸی تو اس نے ایسا ہونے نہیں دیا الٹا ہاتھ بڑھاکر اس کی زلفوں کو جوڑے کی قید سے آزاد کردیا۔


”میری محبت ایک بپھرا دریا ہے۔ کب تک بچا پاٶ گی خود کو اس کے ساتھ بہنے سے؟“ وہ اس کی نرم مشک بہا زلفوں کو مٹھی میں بھرے انہیں چومتے ہوۓ گھمبیر لہجے میں بولتا اس سے دور ہوا اور پھر پلٹ کر تیزی سے ڈریسنگ روم میں جاگھسا۔ دعاۓخیر نے اپنی اتھل پتھل دھڑکنوں کو یکجاکرنے کے لۓ گہرے گہرے سانس لۓ۔

دروازہ ایک بار پھر بجا ساتھ ملازمہ کی آواز بھی آٸی ”بی بی جی سب شام کی چاۓ پر آپ دونوں کا انتظار کررہے ہیں۔“

”اچھا ٹھیک ہے تم چلو ہم آرہے ہیں۔“ وہ اپناچہرہ تھپھپاکر دروازہ کھولتی سامنے دانت نکال کر کھڑی ملازمہ کو سنجیدگی سے بولی تو وہ اپنے دانت اندر کرتی فوراً ہی واپس پلٹ گٸی۔ دعاۓخیر نے جلدی سے دوبارہ بال لپٹ کر جوڑا بنایا اور شانوں پر دوپٹہ درست کرتی عجلت میں کمرے سے باہر نکل آٸی۔ اگر وہ جن پھر سے آجا تو! یہی سوچ کر اس نے جھرجھری لی۔

ارحم فریش ہوکر بلیک ٹراٶز ٹی شرٹ میں ہاتھوں کی مدد سے بال بناتا باہر نکلا تو خالی کمرہ اسے منہ چڑھا رہا تھا ۔

ڈرپوک! وہ دھیرے سے بڑبڑاتے سمپل سلیپر پہنے خود بھی روم سے باہر نکل آیا۔ نیچے پہنچا تو دعاۓخیر چاۓ کی ٹرے تھامے کچن سے باہر نکل کر لان کی طرف جارہی تھی۔ وہ خود بھی شرافت سے اس کے پیچھے ہولیا ۔ سب کو چاۓ دینے کے بعد دعاۓخیر نے چاۓ کا کپ اذلان کی سمت بڑھایا۔ اس کی اس حددرجہ شرافت کے مظاہرے پر اذلان کا ماتھا ٹھنکا ۔ اس نے ڈرتے ڈرتے چاۓ کا ہلکا سا سپ لیا تو شکرادا کیا کہ چاۓ کا زاٸقہ بلکل ٹھیک تھا لیکن بس میٹھا کم تھا۔ گھر میں سب ہی چاۓ میں میٹھاکم لیتے تھے سواۓ اذلان کے، اسی لۓ ایک چھوٹے سے خوبصورت کانچ کے مرتبان میں پسی چینی ساتھ ہی رکھی ہوتی تھی۔اذلان نے مرتبان کا ڈھکن ہٹاکر ایک چمچ پاٶڈر چاۓ میں ڈال کر ملایا اور جیسے ہی کپ لبوں سے لگا کر چاۓ کا بڑا سا گھونٹ بھرا ویسے ہی وہ چاۓ فوارے کی صورت اس کے منہ سے برآمد ہوٸی ۔ وہ چینی کا نہیں نمک کا پاٶڈر تھا اور دعاۓخیر نے اس میں واٸٹ مرچ کا پاٶڈر بھی ساتھ ملادیا تھا۔ سارے حیرانی میں گھیرے اس کا سرخ منہ دیکھ رہے تھے ۔آخر اسے ہوا کیا تھا؟ دعاۓخیر اس کی حالت پر کھلکھلاکر ہنس نے لگی تو اذلان سب کچھ بھلاۓ مبہوت سا اسے کھلکھلاتے دیکھنے لگا۔ سب کا حال بھی کم و بیش ایسا ہی تھا ۔ انہیں کتنے دنوں کے بعد اپنی وہی دعاۓخیر واپس ملی تھی۔ وہ جتنا اپنے رب کا شکرادا کرتے وہ کم ہی تھا۔ اسے یوں اذلان پر ہنستے دیکھ وہ سمجھ چکے تھے کہ اس نے ضرور کوٸی شرارت کی ہے۔ آج تو ثروت بیگم بھی اس کی اس حرکت پر اسے گھور نہیں رہی تھیں بلکہ نثار ہوتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ یقیناً اذلان سے اس کی شادی کا فیصلہ بالکل درست رہا تھا۔ وہ اس کی سنگت میں ہمیشہ یونہی خوش رہنے والی تھی۔

ارحم اور فابیحہ کے لوٹ آنے سے ایک دفعہ پھر گھر کی رونقیں دوبالا ہوچکیں تھیں۔ سب بےپناہ خوش تھے۔ ڈنر کے بعد وہ سب اکھٹے بیٹھے تھے اور فابیحہ ساتھ لاۓگفٹس انہیں دے رہی تھی ۔


”اپیا ویسے ایک بات تو سچ ہے کہ آپ کو وہاں کا پانی راز آگیا، دیکھیں زرا آپ کسقدر گلوکررہی ہیں۔ وہاں سے لوٹ کر تو آپ ماشاءاللہ اور بھی خوبصورت ہوگٸی ہیں۔“ دعاۓخیر کے چہک کر راۓ دینے پر اس نے گھبراکر ارحم کی جانب دیکھا جو اس وقت بھی شوخ بھری نظروں سے اسے بوکھلاۓ دے رہا تھا۔


”یہ وہاں کی آب و ہوا کا نہیں تمہارے بھاٸی کی دلفریب سنگت کا اثر ہے جو یہ بہار میں کھلا گلاب لگ رہی ہیں۔“ ارحم کے سنجیدگی سے کہنے پر جہاں سب مسکراۓ تھے وہی اس کی بات میں چھپی زومعنیت پر وہ بری طرح سٹپٹاٸی تھی۔


”مجال ہے یہ بندہ بھری محفل کا ہی خیال کرلے لیکن ارحم اور ان کی بےباکی نے بس مجھے خفت ذدہ کرنے کی ہی ٹھانی ہے۔“ اس نے روہانسی انداز میں سوچا تھا۔


وارث صاحب اور سلیمہ بیگم اپنی بیٹی کو خوش اطمینان محسوس کررہے تھے۔ارحم کی سنجیدہ نیچر کے سبب وہ تھوڑا فکرمند تھے لیکن اپنی بیٹی کے چہرے پر کھلے رنگوں نے انہیں مطمئن کردیا تھا۔


”ارحم بھاٸی! آپ لوگ وہاں گھومیں پھیریں بھی ہیں یا اپیا سارا دن کمرے میں کمبل میں دبکی بیٹھیں رہیں؟“ اذلان کے شرارت سے پوچھنے پر فابیحہ نے اس کے شولڈر پر ایک دھپ رسید کی تو وہ دانت دیکھا کر رہ گیا۔


”میری بیٹی کو چاہیۓ جتنی بھی سردی لگتی ہو لیکن برفباری دیکھنے کے شوق نے اسے سب کچھ بھلادیا ہوگا۔کیوں سہی کہہ رہا ہوں ناں؟“ وارث صاحب کے وثوق سے کہنے پر فابیحہ مسکرا کر اٹھی تھی اور ان کےبازو سے لگ کر سر ان کے شانے پر رکھ دیا اور لاڈ سے جتاکر بولی۔۔

”میرے بابا مجھے سب سے زیادہ جانتے ہیں۔“اس کی بات سن کر وہ مسکرا کرشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر گۓ ۔ارحم خاموشی کے ساتھ بس اپنی بیوی کے انداز دیکھ رہا تھا جو گھر آتے ہی اسے اگنور کررہی تھی لیکن وہ بھی اسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔ اس نے اس چیز کا پورا بدلا لینا تھا۔


”میں نےوہاں آپ سب کو بہت مس کیا۔ کاش آپ سب وہاں ہمارے ساتھ ہوتے۔“ وہ منہ بسورے بولی۔


”خدا کا نام لیں اپیا!! آپ کے ہنی مون میں ہمارا کیا کام تھا! ہمیں وہاں جاکر کباب میں ہڈی نہیں بننا تھا۔“ دعاۓخیر کے شرارت سے کہنے پر جہاں سب کے چہرے پر دبی دبی ہنسی دوڑ گئی تھی وہی ثروت بیگم نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ پل میں سمٹی اور چہرے پر سارے جہاں کی مسکینت چھاگئی۔


”ثروت! میری بچی کو اب تو گھورنا چھوڑ دو۔ شادی شدہ بچی ہے۔ شوہر کے سامنے تو اسے بخش دیا کرو۔“حارث صاحب حسب روایات جھٹ اس کی حمایت میں بولے تھے۔


”چاچو شوہر کی تھوڑی وضاحت کردیں۔ اس جملے میں شوہر سے مراد چچی کے شوہر ہیں یا پھر دعاۓخیرکا معصوم پلس شریف شوہر؟“ اذلان کے شرارت سے پوچھے گۓ سوال پر دعاۓ خیر نے دانت کچکاۓ اور من ہی من میں جلبلاکر اسے نیا لقب دیا ”شوخا ٹھرکی“

”بھٸ جو تمہیں مناسب لگے تم اس میں فٹ کرلو۔۔“

انہوں نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا تو محفل زعفران بن گٸی۔


”چلیں بھٸی میری طرف سے شب بخیر! بہت تھک گیا ہوں اور شدید نیند آرہی ہے۔“ ارحم نے اٹھتے ہوۓ اجازت طلب کی۔


”ہاں بچے جاٶ! تم آرام کرو سفر سے آۓ ہو تب سے بیٹھے ہوئے ہو۔“ سلیمہ بیگم نے مسکراتے ہوۓ پرشفیق انداز میں گویا اجازت دی۔


”فابیحہ مجھے چینج کرنا ہے تو پلیز آکر میرا ڈریس نکال دیں۔“اسے اپنی جگہ پر یونہی جمادیکھ وہ سنجیدگی سے کہتا آگے بڑھ گیا جبکہ اس کی جان ہوا ہورہی تھی روم میں جانے کے نام سے ۔ وہ اتنے سے دنوں میں ہی اس کے ہرانداز کو سمجھنے لگی تھی ۔ اسے پتا تھا اس کا موڈ خراب ہوچکا ہے۔ بس اسی وجہ سے وہ روم میں جانے سے گھبرارہی تھی۔


”اٹھو بھی تم سکون سے ابھی تک بیٹھی ہو۔ جاٶ جاکر بچے کو کپڑے وغیرہ دو۔“ اسے یونہی گم سوم بیٹھا دیکھ وہ غصے میں اسے سرزنش کرنے لگیں۔


”جارہی ہوں امی! وہ منہ بسورے سب کو شب بخیر کہتی اٹھ کھڑی ہوٸی۔ دروازے کے باہر جی کڑا کۓ وہ روم میں داخل ہوٸی لیکن یہ کیا پورا روم بھاٸیں بھاٸیں کررہا تھا۔ اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ ایک دم اسپرنگ کی طرح اچھلی اور پیچھے پلٹ کر ہراساں نظروں سے ارحم کے کڑے تیوروں کو ملاحظہ کیا تو گلے کی گلٹی ڈوب کر ابھری۔


پھر اسی بےوفا پہ مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے


پرشکوہ انداز میں کہۓ گۓ الفاظ فابیحہ کی جان نکال گۓ۔ لیکن کچھ لمحوں بعد ہی اس کیفیت پر غصہ غالب آگیا اور وہ چند قدم کا فاصلہ سمیٹتی جارحانہ تیور لۓ اس کے روبرو آٸی۔


”میں نے کب بےوفاٸی کی ہے؟“ وہ اس کی گہری بولتی آنکھوں میں آج آنکھیں ڈالے کڑے تیوروں سے استفسار کررہی تھی ۔ اس کا یہ تیکھا انداز ارحم کے دل و نظر میں شوخ تقاضے جگاگیا لیکن جب بولا تو لہجہ اس کے برعکس تھا۔


”محبوب سامنے ہو اور پھر بھی اسے بےاعتناٸی برتی جاۓ تو مجھے بتاٶ! یہ وفا کی کون سی قسم ہے؟“ سرد انداز سے کہتے ہی اس نے اس کی کلاٸی پکڑکر گھماٸی اور پیچھے کمرسے لگادی۔ ایساکرنے سے وہ بلکل اس کے ساتھ آلگی۔ ہاتھ مڑنے کے سبب اس کے منہ سے سسکی برآمد ہوئی اور ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں نمی دوڑ گئی۔


”باہر سب کی موجودگی میں، میں کیسے آپ پر توجہ دوں بتاٸیں زرا؟“وہ اس کے ساتھ لگی سر اٹھاۓ غصے میں سوں سوں کرتی تیکھے چتونوں پوچھنے لگی۔


”باہر نہیں دےسکیں تو کیا ہوا۔۔ یہاں تو مجھ پر اپنی نظرِکرم کرسکتیں ہو ناں!“ وہ اس کے گرد بازو حماٸل کرتا بھاری مخمور لہجے میں گویا ہوتا اسے بری طرح سٹپٹانے پر مجبور کرگیا۔ ارحم نے پیش قدمی کی اور اس کی بھیگی آنکھوں کی نمی کو اپنے پرحدت لمس سے چنا۔ ارحم کی پیش قدمی اور

اس کی جان لیوا سرگوشی سے اس کے دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہوٸی تو اس کی شوخ نظروں سے بچنے کے لۓ فابیحہ نے اسی کے وسیع مضبوط سینے میں پناہ ڈھونڈی تھی ۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


آج زبیر اور رمشا کی کمباٸن مایوں تھی۔ صبح سے اذلان وہی گیا ہوا تھا اور دعاۓخیر جلےپیر کی بلی کی طرح یہاں وہاں چکرارہی تھی۔ ویسے بھی ان دنوں اس کے وہاں کے کافی چکر لگ رہے تھے۔ ثروت بیگم تو کل سے ہی وہاں رکی ہوٸی تھیں ۔ باقی سب گھروالوں نے شام میں تیار ہوکر نکلنا تھا۔ بیچ کے دنوں میں وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ وہاں جاچکی تھی اور جس طرح تانیہ اس سے چپک چپک کر مل رہی تھی اور اذلان شہد گھلے لہجے میں اس کے ساتھ گھلا ملا ہوا تھا ۔ یہ سب حرکتیں اس کا فشارخون بڑھارہی تھیں۔ آج بھی وہ عجلت بھرے انداز میں ناشتہ کرکے وہاں کے لۓ نکل گیا تھا۔ مایوں کا فنکشن گھر میں رکھا گیا تھا اور ساری ذمہداری اسی نے اٹھاٸی تھی۔ ڈیکوریٹ سے لیکر مینیو تک میں اس کے مشورے کا عمل دخل تھا۔ یہ کہنا بجاتھاکہ وہ وہاں گھر بھر کا لاڈلا تھا۔ وہ جو کب سے جلتی کڑتی کمرے کے چکر لگارہی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر ٹہر کر پلٹی۔


”لوبھٸ تمہارا ڈریس پریس ہوکر آگیا۔“ فابیحہ ہاتھ میں خوبصورت سی پاٶں کو چھورتی فراک پکڑے روم میں داخل ہوٸی جس کا دوپٹہ پلٹی شیڈ کا تھا۔ آج سب لڑکیوں نے ایسی ہی ڈریسنگ کرنی تھی جبکہ لڑکوں نے واٸٹ شلوار قمیض پہننا تھے۔


”اپیا! آپ نے کیوں زحمت کی میں آرہی تھی۔“ وہ ان کے ہاتھ سے ڈریس پکڑتی پیڈ پر پھیلاکر رکھتے ہوۓ شرمندگی ظاہر کرنے لگی۔


”کوٸی نہیں یار! میں لےآٸی تو کونسی بڑی بات ہوگٸی!“ وہ مسکراکر لاپرواہی سے کہتی اس کے گال کھینچ کے بولی تو دعاۓخیر بےساختہ ہی پیار سے اس کا گال چوم گٸی۔


”صبح سے دیکھ رہی ہوں کچھ پریشان ہو؟”خیر تو ہے ناں! اگر چاہوتو مجھے بتاسکتی ہو؟“ وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامے پچکار کے پوچھنے لگی۔


”اپیا یہ تانیہ اذلان کے اتنا آگے پیچھے کیوں پھرتی ہے؟ جہاں اذلان کو دیکھا وہی مکھن کی طرح پگھل گٸی۔“ وہ بغیر لگی لپٹے سیدھے مدعے پر آئی تھی۔


”وہ شروع سے ہی اذلان میں دلچسپی رکھتی ہے اور یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں لیکن اذلان کے لۓ وہ جسٹ ایک کزن ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں تو تم زیادہ فکرے مت پالو اور شام کی تیاری پوری رکھو۔

گجرے میں نے ارحم سے بول کر منگوالۓ ہیں۔ وہ آفس سے آتے ہوۓ لے آٸیں گے۔“ فابیحہ اس کا گال تھپتھپاکر ہلکے پھلکے لہجے میں بولی تو دعائے خیر خاموش سی ہوگٸی۔

"اچھا بھئی! اب میں چل کر تمہارے بھائی کا ڈریس وغیرہ بھی چیک کرلوں۔ اگر کوئی کمی بیشی رہ گئی تو صاحب کو لگے گا کہ میں انہیں پھر اگنور کررہی ہوں۔“ جھرجھری لیتی فوراً ہی وہ وہاں سے رفوچکر ہوئی تھی۔

اس کے جانے کے بعد دعاۓخیر سست انداز میں بیڈ پر پیرلٹاکر بیٹھ گٸی۔


”اگر وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تو اسے یوں قریب آجانے پر جھڑک کیوں نہیں دیتا۔ صاف الفاظ میں اس سے یہ کیوں نہیں کہہ دیتا کہ میں دعاۓخیر کا ہوں اور صرف اور صرف اسی سے محبت کرتا ہوں سو مجھ سے دور رہو۔ اسے نظر نہیں آتا کہ وہ جب اس کے قریب ہوتی ہےتو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ وہ صرف میرا ہے اور اس کے قریب رہنے کا حق بھی میرا ہے۔“وہ حسب عادت منہ ہی منہ میں بدبداٸی لیکن اپنے آخری جملے پر وہ ششدر رہ گٸی۔


”اوگاڈ! میں کیا بول رہی ہوں؟ میں اذلان دی گریڈ ٹھرکی سے۔“ آگے وہ سوچ نہیں سکی اور بری طرح جھرجھری لی۔


”اگر میں یونہی بیٹھی اس ٹھرکی کے بارے میں سوچتی رہی تو فضول خیالات ہی دماغ میں آۓ گے۔ اٹھو دعائے خیر کام سے لگو۔“وہ خود کو بری طرح ڈپتی اٹھ کھڑی ہوٸی۔ ویسے بھی چھ بجنے والے تھے اور اسے تیاری بھی کرنی تھی۔ وہ ذہن سے سارے خیالات جھٹکتی تیار ہونے چل دی تھی۔

چینج کرنے کے بعد دعائے خیر نے تقریب کی مناسبت سے لائٹ میک آپ کیا اور مرر میں دیکھتے ہوۓ موتیے کے بالے کان میں پہننے لگی۔ فابیحہ کچھ دیر پہلے ہی روم میں دوبارہ آکر اس کی چوٹی باندھ گٸی تھی ساتھ میں موتیوں کے گجرے بھی چوٹی کی ذینت بنائے تھے۔ ماتھے پر بھی موتیے اور گلاب کی بندیا سجی اس کے حسن کو چار چاند لگ رہی تھی۔ اس نے جیسے ہی گجروں کی جانب ہاتھ بڑھایا ویسے ہی دروازے کھول کر اذلان روم میں داخل ہوا تھا۔ بلیک جینز پر ریڈ شرٹ پہنے ماتھے پر بکھرے بال لۓ وہ اسے تھکا تھکا سالگا ۔دعاۓخیراسے مرر سے دیکھ رہی تھی اور نجانے کیوں آج اسے دیکھنے سے دل کی دھڑکنوں میں طغیانی برپا ہوٸی تھی ۔ گال دہکنے لگے تھے اور ہاتھوں پیروں میں عجیب سے سنسناہٹ ہورہی تھی۔ اذلان بےدھیانی میں روم میں داخل ہوتا گھوم کر دروازہ بن کرکے جیسے ہی پلٹا ساخت رہ گیا۔ واٸٹ ڈریس میں اس کے نازک سراپے کی چھاپ ہی نرالی تھی۔ وہ سراپے حسن و بو بنی اسے مبہوت کرگٸی تھی۔


سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے

با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے

میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں

کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے

مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمن جانی میرا

خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے


وہ ایک ٹریس کی کیفیت میں اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کا اٹھنے والا ہر ایک قدم جیسے دعاۓخیر کی دھڑکنیں بڑھا رہا تھا۔ وہ جوں ہی اس کے پیچھے آکر ٹہرا اس نے اپنی سانسیں تک روک لیں۔ اذلان نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے شانوں پر رکھ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا تو اس کی بولتے جزبوں سے پر نظروں کی تاب نالاکر اس کی پلکیں عارضوں پر جھک گٸیں اور اس کے ہاتھ خود بخود اس کے پہلو میں آگرے۔


رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام

موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

دوستو اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر

گلستاں کی بات رنگیں ہے نہ مے خانے کا نام

پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں

پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام

دلبری ٹھہرا زبان خلق کھلوانے کا نام

اب نہیں لیتے پری رو زلف بکھرانے کا نام

اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرار محبوبی نہیں

ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام

محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے

رند کا ساقی کا مے کا خم کا پیمانے کا نام


مخمور لہجے کی سرگوشی امرت بن کر اس کے رگ وپے میں سرور بن کر اتری تھی ۔ ماتھے پر موتی چمک رہے تھے تو گالوں کی لالی بڑھ گٸ تھی۔

پلکیں بارحیا سے جھکی تھیں اور گلابی پنکھڑیوں جیسے نازک لب اس کی نظروں کی شدت سے کچھ کہنے کی چاہ میں پھڑپھڑاکر رہ گۓ تھے ۔ وہ دھیرے سے جھکا اور ہاتھ بڑھاکر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے دو گجروں میں سے ایک گجرا اٹھالیا۔ دھیرے سے احتیاط کے ساتھ وہ پھولوں کا کنگن اذلان نے اس کی نازک مرمری کلاٸی میں پہناکر ہاتھ کی پشت کا بوسہ لیا. دعاۓخیر کی دل کی دھڑکنیں اس پر حدت بھرےلمس پر مدھم پڑیں۔ اذلان نے نرمی سے وہ ہاتھ چھوڑ کر دوسرا ہاتھ تھاما اور اسی احتیاط اور نرمی اسے کنگن پہناکر اس ہاتھ کی پشت بھی اپنے شدت بھرے لمس سے مہکاکر اس کا ہاتھ چھوڑکے آہستگی سے اس کی کمر کے گرد بازو حماٸل کرتے اسے خود میں سمولیا۔


”دعاۓخیر! میرے انتظار کو اظہار میں بدل دو۔ طلب بڑھ رہی ہے۔ تمہیں چھونے کی، محسوس کرنے کی اپنی محبت کو معتبر کرنے کی۔ لاحاصل کو حاصل بنادو۔ تھام لو ہاتھ میرا اور میرے ساتھ اس رستے پر چلو جہاں کہکشاں رستہ سجاۓ ہماری منتظر ہے۔“

اذلان کا لفظ لفظ اس سے گویا التجا کر رہا تھا ۔ وہ اس کے بدن میں گڑی ساری سوٸیاں آہستہ آہستہ نکال رہا تھا۔ یعنی وہ شہزادہ اس شہزادی کے سوۓ احساسات جگا رہا تھا۔ اذلان اسے یونہی احساسات کی ڈور میں بندھا چھوڑ کر اس سے الگ ہوا اور پلٹ کر فریش ہونے چل دیا۔ دعاۓخیر نے اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ کہی نہیں تھا لیکن اس کا احساس اس کی خوشبو آس پاس اسے قید کۓ ہوٸی تھی۔


🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹


وہ سب ابھی کچھ دیر پہلے مایوں کی تقریب میں پہنچیں تھے۔جب تانیہ چہکتی ہوٸی آکر اذلان کے بازو سے چمٹی کسی آکاس بیل کی طرح!


”واٶ ہنڈسم! آج تو بجلیاں گرا رہے ہو۔“ اس کی چمکتی والہانہ نظریں اذلان کے لمبے چوڑے سراپے پر پھسلی جارہی تھیں ۔ دوسری طرف دعاۓ خیر کا بس نہیں چل رہا تھاکہ وہ اس ٹھرکن کو کہیں دور آتش فشاں کے پہاڑ پر پھنک آۓ جو اس کے شوہر کو خواہ مخواہ چڑیل کی طرح چمٹ رہی تھی۔


”ہم سے بھی مل لو ڈیٸر کزن! ہم بھی راہوں میں پڑے ہیں۔“ دعاۓخیر کاغصے سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ فابیحہ ان کے نزدیک آکر کھنکتے ہوۓ لہجے میں بولی۔

”بس میں ابھی آپ سب سے ملنے آہی رہی تھی کہ راستے میں اذلان سے ٹکراگٸی۔ آپ کو علم ہے حسن میری کمزوری ہے تو بس اسے خراج پیش کررہی تھی۔“ وہ بےباکی سے آنکھ ونگ کرتی بولی تو دعاۓخیر کی یہی بس ہوٸی وہ دو قدم کا فاصلہ سمیٹی اذلان کے نزدیک ہوٸی اور اس کےبازو میں اپنا بازو حماٸل کردیا۔


”صرف میرے شوہر کے ہی حسن کو خراج تحسین پیش کرو گی یا اس میں کچھ میرا بھی حصہ رکھا ہے؟ ویسے مجھے تمہاری اس داد و تحسین کی کچھ خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہاں آنے سے پہلے یہ مجھے اچھے سے بتاچکے ہیں کہ میں کتنی خوبصورت لگ رہی ہوں۔ ہیں نا اذی؟“ ایک ادا سے کہتی وہ اذلان کے گال پر شہادت کی انگلی پھیرتی

ہوٸی دلبرانہ انداز اپنائے بولی تھی تو اس اچانک بدلاٶ پر بےچارہ اذلان ہق دہق سا اش اش کراٹھا۔ جبکہ فابیحہ نے بامشکل اپنے ابلتے قہقہے پر قابو پایا اور آگے کی سمت بڑھ گٸی۔ اسے علم تھا باقی کا دعاۓخیر اچھے سنبھال لےگی۔

”تم! تم تو بڑی نہیں تھی اذلان سے؟“ وہ اپنے سامنے نازک دلکش سراپے والی دعاۓخیر کو دیکھ صدمے میں گھیری بری طرح ہکلائی تھی ۔ اس نے دعاۓخیر کو سالوں پہلے دیکھا تھا اور جن دنوں ان کی شادی ہوٸی تھی اس وقت بھی وہ ملک سے باہر اپنی پھوپھو کے پاس گٸی ہوٸی تھی۔ اسے تو یہی لگا تھا کہ وہ اذلان سے بڑی ہے تو اس کے ذہن میں دعاۓخیر کا کھینچاگیا نقشہ کچھ مختلف تھا لیکن اپنے سامنے کھڑی نازک سراپے اور خوبصورت نین نقش والی دعاۓخیر کو دیکھ اسے سہی معنوں میں چارسوچالیس والٹ کا جھٹکالگا تھا اور وہ سنبھل بھی نہیں پائی تھی۔


”میں اذلان سے بڑی ضرور ہوں لیکن بوڑھی نہیں ہوں۔ ویسے اگر بوڑھی بھی ہوتی تب بھی اذلان میرا شوہر ہی رہتا اور میں اس کی بیوی ۔ دنیا کی کوٸی طاقت اس سچاٸی کو جھٹلانہیں سکتی۔“ وہ اسے اچھے سے جتلاکر ساتھ ایک گھوری بھی ڈال گئی۔ تانیہ نے ایک نظر اذلان کو دیکھا جو مطمین سا دعاۓخیر کو اپنے پہلو میں لۓ مسرور سا لگ رہا تھا اور دوسری نظر اس کے پہلو میں کھڑی اسے کچاچبادینے والی نظروں سے دیکھتی دعاۓخیر کو دیکھا اور بھناکر تن فن کرتی وہاں سے واک آٶٹ کرگٸی۔ اس کے جاتے ہی اذلان نے داٸیں باٸیں نظریں دوڑاٸیں اور سراعت سے جھک کر اس کا گال چوم لیا۔


”اذلان ٹھرکی کہیں کے، تھوڑی تو شرم لحاظ رکھو۔۔۔ اپنے بیڈ روم میں نہیں ہم کٸی لوگوں کے بیچ بھری محفل میں موجود ہیں۔“ غصے میں اپنی جون میں لوٹی تھی۔

”بس رہنے بھی دو۔۔ بول تو یوں رہی ہو جیسے بیڈ روم میں تو مجھے بھرپور اجازت دیتی ہو اپنے پاس آنے کی۔“ وہ بھی جواباً اسے گھورتے ہوۓ بولا۔


”میرے اجازت تمہیں درکار ہی کب ہوتی ہے! ٹھرک پن جھاڑکر ہر وقت تو اپنی من مانیاں کرتے رہتے ہو اور پھر بھی حضرت کےگلے شکوےہی ختم نہیں ہوتے۔“ اب کے وہ تڑخ کر دبے دبے لہجے میں بولی تو وہ بےساختہ گہرا سا مسکرایا۔


”وہ تو بس چھوٹی موٹی شرارتیں ہیں۔ کبھی کھل کے برسنے کی اجازت تو دو۔ جل تھل ناکردوں توکہنا!“ اس کے کان کی جانب جھکے وہ معنیٰ خیز گھمبیر لہجے میں گویا ہوتا اس کی جان لبوں پر لے آیا ۔ وہ سرعت سے اس سے دور ہوٸی اور پھر پلٹ کر بھی نا دیکھا۔ وہ کہاں اس کی ان شوخ چمکدار نگاہوں کی تاب لاسکتی تھی۔ تبھی وہاں سے سیدھی بڑوں کے پاس جاکر بیٹھ گٸ تھی۔


”لگالو حد بندیاں لیکن کب تک ہم دیکھیں گے۔۔

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گیں ہم دیکھیں گے۔۔“

وہ خود کلامی کرتا بالوں میں ہاتھ پھیرتا گنگناتے ہوۓ اسٹیج کی طرف بڑھ گیا تھا جہاں سارے کزن اسے ہاتھ کے اشارے سے اوپر بلارہے تھے ۔ زبیر اسٹیج پر آچکا تھا اور رمشا اپنی کزنز کے ساتھ اسٹیج پر آرہی تھی ۔ نکاح تو ہوچکا تھا اسی لۓ دونوں کو ساتھ بیٹھاکر رسمیں کی جارہی تھیں لیکن رمشا کے اوپر ریڈ کلر کا نہایت خوصورت جالی دار دوپٹہ ڈالا گیا تھا جس وجہ سے اس کے دلکش نقوش دھندلا دیۓتھے ۔


”یار دلہن تم میری ہو۔ سجی بھی میرے لۓ ہو اور مجھ سے ہی پردہ داری! یار یہ کہاں کا انصاف ہوا پھلا!!“زبیر اس کے کان کے قریب جھکے دہاٸی دیتا کہنے لگا۔ رمشا بےچاری خود ایسےوقت میں کافی کنفوز تھی بےچاری کیا بولتی چپ چاپ اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔


”یار ہاتھ مسلنا بند کرو ۔ مجھے گھسے ہاتھوں والی رمشی نہیں چاہیۓ۔۔“اسے نروس ہوتا دیکھ زبیر نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے شرارت سے کہا تو ینگ پارٹی نے خوب ہی ہوٹنگ کی۔


”بس کردے بھاٸی بچی کی جان لےگا!“ اس کے تایا کے بیٹے نے ہانک لگاٸی۔

”بےچاری بھابھی پہلے ہی ڈری سہمی اس کے پہلو سے لگی بیٹھی ہیں اور یہ جناب اور انہیں خوفزدہ کررہےہیں۔“ ایک اور کزن نے شوشا چھوڑا تو محفل زعفران بن گٸی۔


”مشرقی لڑکیاں ایسے موقعوں پر شرماتی بھی ہیں اور گھبراتی بھی ہیں لیکن یہ بات بےشرم لڑکوں کی سمجھ سے باہر ہے۔“اسٹیج پر ارحم کے ساتھ اوپر آتی فابیحہ نے ان سب کی صنف پر لطیف سا طنز کیا تو اسٹیج پر قہقہوں کا طوفان امنڈ آیا۔ ارحم نے بھی ایک آٸبرو اٹھا کر اس کی جانب یوں دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو "سریسلی“ لیکن وہ "اونہہ“ کرتی آگے بڑھ گٸی۔ وہ بھی تو ایسا ہی تھا ۔اس کی شرم جھجھک کو کچھ اور ہی معنیٰ دینے والا۔ ارحم سمجھ چکا تھا اس نے درپردہ اسے پچھلی بات کا بیوٶں والا مخصوص طعنہ مارا ہے تبھی برا مناۓبغیر دلکشی سے مسکرادیا۔


”بس کردو تم لوگ جناتی قہقہہ لگالگاکر پورا اسٹیج ہی ہلا چھوڑا ہے۔ کنٹرول کرو سب ورنہ یہ نا ہوہم سب باجماعت زمیں بوس ہوجاٸیں۔ کل بارات بھی نمٹانی ہے ظالموں کچھ دلہا کے ارمانوں کا بھی خیال کرو۔“ اذلان کے شگوفہ چھوڑنے پر ایک دفعہ پھر ہنسی کے فوارےپھوٹے تھے۔ اس طرح پوری تقریب میں ہلا گلا مچا رہا ۔ ان کے سبھی کزنز نے خوب رونق لگاٸی تھی اور تقریباً سب لڑکے ذول کی تھاپ پر ناچے تھے اور کیا خوب ناچے تھے۔ دعاۓخیر نے تو فابیحہ سے صاف کہہ دیا تھا کہ جو لڑکے پہلے سے ہی ناچتے ہوں انہیں بےچاری بیویاں کیا نچاٸیں گی۔“ اس ناچ میں اذلان بھی شامل تھا اور درپردہ اس نے اذلان کو ہی طعنہ مارا تھا۔ جسے سمجھ کر فابیحہ کھلکھلاکر ہنس پڑیں تھی۔ ارحم جس نے ہمیشہ کی طرح اس محفل میں بھی فابیحہ کو اپنی نظروں کی گرفت میں رکھا ہوا تھا اس کی کھلکھلاتی ہنسی کو اپنے فون کے کیمرے میں قید کرگیا تھا۔

”اذلان میری چوڑی کا سیٹ گرکر ٹوٹ گیا اب میں کل برات میں کیا پہنوں گی؟“ وہ اپنے ہاتھوں میں ٹوٹی ہوٸی چوڑیاں پکڑے منہ بسورے بولی تھی ۔ اذلان جو لیپ ٹاپ میں منہ دیۓ ایک ضروری میل کا رپلاۓ دے رہا تھا اس کی بسورتی پکار پر زرا سا سر اٹھایا اور کرنٹ کھاکر سب چھوڑ چھاڑکر اٹھ کھڑا ہوا۔


”تمہیں کوٸی سمجھے دعاۓخیر! ہاتھ میں ٹوٹی چوڑیوں کا ڈھیر لۓ کھڑی ہو ابھی جو کوٸ ٹکڑا ہاتھ زخمی کردیتا تو؟“ غصے میں جھنجھلاتے ہوۓ وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سے پکڑتا واش روم میں لے آیا ۔ پاٶں سے ڈسٹ بین کا ڈھکن اوپن کرتے اس کے دونوں ہاتھ اس میں جھاڑے اور پھر آگے بڑھ کے نل کھول کر اسکی دونوں ہتھلیاں پانی کی تیز دھار کے نیچے کردیں تاکہ اگر کوٸی باریک کانچ رہ بھی گیا ہو تو پانی کی دھار سے بہہ جاۓ۔ دعاۓخیر خاموشی سے چپ چاپ آنکھوں میں نمی لۓ اسے اپنے لۓ فکرمند ہوتا دیکھ رہی تھی۔کیا تھا وہ شخص؟ اور کیوں اسے اس قدر چاہتا تھا؟اس میں ایسا کیا تھا؟کچھ بھی تو نہیں لیکن وہ پھر بھی اس کی اس قدر کیٸر کرتا تھا۔ اس کی کڑوی کیسلی باتیں خوشی سے پی جاتا تھا۔ اس کی تخریب کاریوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا بغیر ماتھے پر تیوری لائے۔ وہ کچھ دیر پہلے ایک میل لکھنے بیٹھا تھا یہ سختی سے بول کر کہ اسے کوٸی ڈسٹرب نا کرے ۔ اس کوٸی کے پیچھے درپردہ وہ دعاۓخیر سے کہہ رہا تھا لیکن اس وقت وہ اس کے لئے اپنا اہم کام چھوڑ، اس کی فکر میں ہلکان ہورہا تھا۔ اذلان اسے واپس باہر لے آیا اور ٹاول سے اس کے دونوں ہاتھ نرمی سے خشک کرنے لگا۔


”یار آج کےبعد ایسی بیوقوفانہ حرکت مت کرنا۔ چیز ٹوٹ گٸی بےجان تھی دفعہ کرو نٸی آجاۓ گی۔۔۔ تم کیوں اس کے چکر میں خود کو زخمی کرنے پر تلی ہو؟ حد ہوگٸی۔۔ چوڑیاں ٹوٹ گٸیں تھیں تو وہی گری رہنے دیتی ملازمہ سے کہہ کر اٹھوالیتی، ان چند روپوں کی چوڑیوں کے چکرمیں ابھی تم اپنا قمیتی ہاتھ زخمی کرلیتی۔“ وہ اب بھی اس پر بری طرح خفا ہورہا تھا اسے غصہ دیکھا رہا تھا لیکن دعاۓخیر برا مناۓ بغیر نیچے منہ کئے مسلسل یوں مسکرارہی تھی جیسے وہ ڈانٹنے کے بجائے پیار بھری باتیں کررہا ہو۔ اس کا یوں خود پر بھڑکنا اسے تھوڑا بھی برا نہیں لگ رہا تھا بلکہ اس ڈانٹ سے اس کے دل میں نئے شگوفے پھوٹ رہے تھے۔ ابھی یہ سلسلا اور طویل ہوتا کہ دروازہ پر ہونے والی دستک نے اس کے لفظوں پر بریک لگاٸی۔


”آجاٸیں!“ آنے والے کو اجازت دیتا وہ تولیہ اس کے ہاتھ میں تھاما کر واپس اپنی جگہ بیٹھ چکا تھا۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے سراٹھاکر آنے والے کو دیکھا ثروت بیگم کو دیکھ وہ اٹھ کھڑا ہوا تب تک دعاۓخیر بھی ٹیرس میں رکھے اسٹنڈ پر تولیہ لٹاکر کر واپس کمرے میں آگٸی تھی۔

”بیٹا تم مصروف تو نہیں ہو؟“ انہوں نے پیار بھرےنرم لہجے میں استفسار کیا۔

”آپ کہیں چچی! میں بلکل بھی مصروف نہیں۔“ وہ فوراً ہی مودب ہوا۔

”بیٹا دراصل مجھے جیولر کے پاس جانا ہے ۔ ارحم آج لیٹ ہوجاۓ گا اور تمہارے چاچو تو اپنے کسی دوست کی عیادت کو گئے ہوئے ہیں۔ میں نے زبیر کی دلہن کے لۓ منہ دیکھاٸی میں چین لاکٹ بنوایا تھا وہی لینے جانا ہے۔ ڈراٸیور ہے تو لیکن میں اس کے ساتھ اکیلی جانے نہیں چارہی۔ اگر تم لےچلو گے تو اچھا ہوجاۓ گا۔ کل تو ٹاٸم نہیں ہوگا کیونکہ کل بارات کا دن ہے۔“ وہ اپنی پریشانی اس کے گوش گزار کرتی اس کے جواب کی منتظر تھیں ۔ اذلان جانتا تھا وہ شروع سے ہی ہر چیز میں احتیاط برتتی تھیں۔ یقیناً ان کا یہ عمل اس برے واقعہ کے بعد سے تھا۔ گولڈ کی چیز لینے وہ بلکل ڈراٸیور کے ساتھ نہیں جاتیں تبھی اس نے ہامی بھرنے کا سوچا۔


”چچی مجھے دس منٹ دیں۔ بس یہ میل مکمل ہونے والی ہے۔ اسے سینڈ کردوں تو پھر چلتے ہیں۔ دعاۓخیر بھی ساتھ ہی چلے گی اسے بھی اپنی کچھ چیزیں لینی ہیں۔“اس کے فوراً سے ہامی بھرنے پر وہ دھیرے سے مسکراٸیں تھیں۔


”والدہ! مجھے پانچ منٹ دیں میں ریڈی ہوکر آتی ہوں۔“دعاۓ خیر جو خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی اذلان کے خاموش ہوتے ہی عجلت میں کہتی ڈریسنگ روم میں جاگھسی تھی۔


”چلو پھر میں نیچے ہی تم لوگوں کا ویٹ کررہی ہوں۔۔ تم دعائے خیر کے ساتھ آجانا۔“ وہ پیار سے تاکید کرتی واپس پلٹ کر روم سے نکل گٸیں تو اذلان جلدی جلدی اپنی انگلیاں کی پیڈ

پرچلانے لگا۔ فابیحہ کل سے سلیمہ بیگم کے ساتھ اپنی خالہ کی طرف رکی ہوٸی تھی۔ یہ اجازت بھی بڑی سردھڑکی بازی لگاکر ملی تھی اور اس اجازت کے بدلے ارحم نے جو جو کڑی شرطیں رکھیں تھیں ۔اسے سن کر فابیحہ کے کانوں سے دھواں نکل آیا تھا لیکن مرتے کیا ناکرتے کہ مصدق اسے شرطیں ماننی ہی پڑیں تھیں۔ ارحم خود اسے چھوڑ کر آیا اس خاص ہدایت کے ساتھ کہ وہ خود سے لاپرواہی نہیں برتے گی۔


دعاۓخیر لباس بدل کر باہر آٸی اور جلدی جلدی ہاتھ چلاکر بالوں میں برش کرکے بالوں کا جوڑا لپیٹا۔ ہلکے سی کریم چہرے پر مل کے اس نے آنکھوں میں کاجل ڈالا اور لبوں پر گلوس لگاکر دوپٹے کو اچھے سے سر پر جماکر وہ ریڈی ہو کر لئے جوں ہی پلٹی تو اذلان کو بری طرح کام میں غرق پایا ۔ اب وہ جو کرنے جارہی تھی اس کے لئے اسے بڑی ہمت درکار تھی۔ وہ دل مضبوط کرتی بلی کی چال چلتے بیڈ کے قریب آٸی۔ اذلان اب بھی اپنے کام کی ہی جانب متوجہ رہا تھا تو اس کے دل کو ڈھارس بندھی۔ اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا جس میں اس نے کھسے پہنے ہوۓ تھے۔ پھر دوسری نظر آدھ کھلے روم کے دروازے پر ڈالی۔ اس کے بعد پلک جھپکنے کی بات تھی۔۔۔

*************************

ختم شد!

Yun Bhi Aa Kabhi Rubaru Romatic Novel 

I have the skill to write all kinds of articles, I teach my article to eradicate the evil in the society.

She is very famous for her unique writing style.

She chooses a variety of topics to write about. 

She has written many stories and has large number of

fans waiting for her novels.

People get a message of peace from my article, people get a different feeling by reading my article, I have been writing for two years, I choose different topics to write my article.

I try to suppress social evils in every one of my articles

My articles are read not only in Pakistan but also in many other countries including some special countries like India, UK, Canada, Australia, Japan, USA etc.

I wish my articles were good because of which people follow me

The Afshan Kanwal novels are published in episodic format every month at various platforms furthermore online release


Novels inurdu pk start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.

They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels. Hope you like this Story and to Knows More about the story of the Novel you must read it.

 give your feedback 

زمرہ: رومانٹک ناولز

 

urdu pk میں ناول تمام سوشل میڈیا مصنفین کے لیے اپنی تحریریں شائع کرنے کے لیے ایک سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ تمام مصنفین کو خوش آمدید، اپنی تحریری صلاحیتوں کی جانچ کریں۔

 

وہ رومانوی ناول لکھتے ہیں، زبردستی کی شادی، ہیرو پولیس آفیسر پر مبنی اردو ناول، بہت ہی رومانوی اردو ناول، مکمل رومانوی اردو ناول، اردو ناول، بہترین رومانوی اردو ناول، مکمل گرم رومانوی اردو ناول، مشہور اردو ناول، رومانوی اردو ناول، رومانوی اردو ناولز ہر دور کے ناول، بہترین اردو رومانوی ناول۔ امید ہے کہ آپ کو یہ کہانی پسند آئے گی اور ناول کی کہانی کے بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ اسے ضرور پڑھیں گے۔

 

مصنف پی ڈی ایف فارم اور آن لائن پڑھنے کے لیے یہاں دستیاب ہے۔

 

مفت پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

 

مفتڈاؤن لوڈ لنک

 

ڈاؤنلوڈ پر کلک کریں۔

اپنی رائے دیں

 

جیسا کہ آپ سب اردو pk میں ناولز سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارا مقصد صرف علم کو پھیلانے کے لیے آپ کو کتابوں کا بہت بڑا مجموعہ فراہم کرنا ہے جس میں نئے اور پرانے ناولوں کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ ہماری ٹیم اس کے لیے دن رات کام کر رہی ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تمام کتابیں انٹرنیٹ کے ذریعے جمع کی جاتی ہیں۔ آج ہم آپ کو مہوش علی کا ناول دشت وہشت پیش کرنے جا رہے ہیں جو مصنف کا پی ڈی ایف ہے … صرف اپنے قارئین کے لیے۔ مہوش علی کا یہ دشت وھشت ناول پی ڈی ایف شیئرنگ اس کے چاہنے والوں کے لیے ہے۔ تاکہ وہ کتاب سے لطف اندوز ہو سکیں۔ عام طور پر یہ تمام ناول بازار سے باآسانی خریدے جا سکتے ہیں لیکن اس کی ایک قیمت ہوگی جو سب کے لیے خاص طور پر ناول کے شائقین کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ کیونکہ ناول سے محبت کرنے والوں کو بہت سی کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں تو اس صورت میں یقیناً اتنی کتاب خریدنا سستی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم مہوش علی کے ناول دشت وہشت کی پی ڈی ایف الیکٹرانک کاپی صرف اس کے چاہنے والوں یا قارئین کے لیے شیئر کر رہے ہیں۔

उपन्यास का नाम:

 

लेखक का नाम:

 

श्रेणी: रोमांटिक उपन्यास

 

उर्दू पीके में उपन्यास सभी सोशल मीडिया लेखकों के लिए अपने लेखन प्रकाशित करने के लिए एक यात्रा शुरू करते हैं। सभी लेखकों में आपका स्वागत हैअपनी लेखन क्षमताओं का परीक्षण करें।

 

वे रोमांटिक उपन्यासजबरन विवाहनायक पुलिस अधिकारी आधारित उर्दू उपन्यासबहुत रोमांटिक उर्दू उपन्यासपूर्ण रोमांटिक उर्दू उपन्यासउर्दू उपन्याससर्वश्रेष्ठ रोमांटिक उर्दू उपन्यासपूर्ण गर्म रोमांटिक उर्दू उपन्यासप्रसिद्ध उर्दू उपन्यासरोमांटिक उर्दू उपन्यास सूचीरोमांटिक उर्दू लिखते हैं सभी समय के उपन्याससर्वश्रेष्ठ उर्दू रोमांटिक उपन्यास। आशा है कि आपको यह कहानी पसंद आएगी और उपन्यास की कहानी के बारे में अधिक जानने के लिए आपको इसे अवश्य पढ़ना चाहिए।

 

लेखक यहां पीडीएफ फॉर्म में डाउनलोड करने और ऑनलाइन पढ़ने के लिए उपलब्ध है।

 

पीडीएफ को फ्री में डाउनलोड करने के लिए नीचे दिए गए लिंक पर क्लिक करें

 

मुफ्त डाउनलोड लिंक

 

डाउनलोड पर क्लिक करें

 

अपनी प्रतिक्रिया दें

 

How can a modern child instill a love for the book? Why is it so difficult for today’s children to instill the value and love of reading ? What can you do to make your baby love the world of the printed word? To begin with, let’s try to speculate about what reading gives a modern child? What is its uniqueness and difference from other sources of information? We must try to be honest. What’s the book now? A treasure trove of information? For us, who were growing up in another, “pre-Internet” era, the book was the only repository of knowledge in all possible areas. This book taught us, talking about worlds that were inaccessible, showing many examples of responding to various situations. Everything has changed. Instead of spending hours searching in dusty libraries, just watch a fascinating video. With reduced criticality, this information is conventionally perceived as something objective, as some kind of knowledge. Of course, the Internet makes it easy to familiarize yourself with other sources, but: first, certain search skills are required; secondly, you need a need for analysis, a desire to understand, form your own assessment, and not be content with plagiarizing someone else’s opinion. And what about the book? The book is structured according to different rules. Reading books is akin to meditation, it does not give ready-made pictures, it models them in our mind using symbols. Encourages co-creation by referring to our experience. In this sense, the book is less subjective, although the personality of the author stands behind it with all the delusions. But most importantly, the book adjusts to the pace of our perception, it does not pull with spectacular images. An essential plus of reading: We have the opportunity to stop, analyze, argue, agree. We have the right to pause, to think, to plunge into the problem. This is work, and a person always strives for laziness, for entertainment, for pleasure.

Disclaimer

 

website for writers and readers. all contents on our website are unique and our own property. Novels are for sharing knowledge and provide guidence in real life for the readers.