Mere Maula Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic Novel
Mere Maula Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic Novel
Novels In Urdu Pk
Read Complete Romantic All Novels
![]() |
Mere Maula By Hamna Tanveer Complete Romantic Novel |
Novel Name :Mere Maula
Writer Name: Hamna Tanveer
Category : Complete Romantic Novel
"آپی میں نے حسن کو نہلا دیا ہے اب آپ رانیہ کو میرے پاس چھوڑ کر اسے تیار کر لیں... "
وہ کمرے میں آتی ہوئی بولی۔
"ٹھیک ہے لے جاؤ اسے اور کچن میں کھچڑی پڑی ہے اس کی وہ گرم کر کے کھلا دو... "
وہ حسن کو گود میں بٹھاتی ہوئی بولی۔
"جی اچھا... "
وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔
اور چلتی ہوئی کچن میں آ گئی۔
"رانیہ کھچڑی کھاےُ گی؟"
وہ بولتی ہوئی مائیکروویو میں گرم کرنے لگی۔
تیس سیکنڈ بعد لائٹ چلی گئی۔
"اس لائٹ کو بھی ابھی جانا تھا... "
وہ کوفت سے کہتی رانیہ کو دیکھنے لگی۔
سال بھر کی رانیہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"اب جتنی گرم ہوئی ہے کھا لو چپ کر کے..."
وہ کہتی ہوئی کچن سے باہر نکل آئی اور صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئی۔
یہ ایک متوسط درجے کا گھرانہ تھا۔
صحن عبور کر کے سامنےڈرائینگ روم تھا جہاں سے شہناز بیگم کسی خاتون کے ہمراہ نکل رہی تھی۔
"باہر بیٹھ جاتے ہیں اندر تو گرمی ہے... "
وہ بولتی ہوئی دوسری چارپائی بچھانے لگیں۔
"پتہ نہیں یہ واپڈا والے سکون سے رہنے کیوں نہیں دیتے... "
جنت نے چہرہ اٹھا کر اس خاتون کو دیکھا جو ان کی پڑوسن تھی۔
"خود سکون میں رہتے ہیں نہ اس لئے عوام کا سکون غارت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں... "
جنت نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
"مریم کا رشتہ نہیں دیکھا پھر کہیں؟"
وہ ذرا مدھم آواز میں شہناز بیگم سے بولیں۔
"کنواری لڑکیوں کے رشتے نہیں ہوتے تو طلاق یافتہ کے کہاں ہوں گے... "
وہ درد بھری آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"گھر بسانا تو لڑکی کا کام ہوتا ہے... ارے دو سال بعد ہی طلاق لے کر آ گئی۔ چار پانچ سال رہتی شوہر کو راضی کرتی خود ہی گھر بس جاتا۔"
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
شہناز ہمیشہ کی مانند خاموش رہی لیکن جنت خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔
"آپ مریم کے گھر رہتی تھیں؟"
وہ رانیہ کو سائیڈ پر کرتی انہیں دیکھنے لگی۔
"کیا مطلب بھئ؟"
ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"آپ اتنے وثوق سے میری بہن پر الزام لگا رہی ہیں تو کیا ثبوت ہے آپ کے پاس؟ اس معاشرے نے تماشہ بنا لیا ہے عورت کو کہ ہر چیز کا الزام اس کے سر کا تاج بنا دیا جاتا ہے... "
اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
"میں تو نہیں سبھی یہی کہتے ہیں... طلاق تو حماد نے دی نہ تو خامی بھی مریم میں ہی ہوگی۔"
وہ کہاں خاموش رہنے والی تھی۔
"مرد چاہے جوتیاں کھانے کے قابل ہو... قصور وار ہمیشہ عورت ہی ہے۔ سمجھ نہیں آتی ایک عورت ہو کر کیسے دوسری عورت کو یہ سب کہہ سکتی ہیں... "
اس کا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔
"تم کچھ بھی کہہ لو... قصور مریم کا ہی ہے تبھی تو ماں کے گھر آ کر بیٹھی ہے ورنہ میری شازیہ کی طرح اپنے شوہر کے گھر ہوتی... "
وہ کہتی ہوئی دروازے کی جانب چل دی۔
"تم خاموش نہیں رہ سکتی کیا؟'
شہناز جو تب سے خاموش تھی اب بول پڑی۔
"امی آپ مجھے ہی کیوں چپ کرواتی ہیں؟ ایسے لوگوں کی زبان بند کیوں نہیں کرواتی؟ کبھی ممانی, کبھی خالہ کبھی یہ محلے والیاں سب کو موقع چائیے تماشہ بنانے کا۔"
وہ برہمی سے بولی۔
"بولنے دو ہمارا کیا جاتا ہے... لیکن تم خاموش رہا کرو اسی وجہ سے تمہارے بارے میں لوگ باتیں بناتے ہیں کہ جنت کی زبان بہت چلتی ہے۔"
وہ پریشانی سے بولیں۔
"لوگوں نے جو کہنا ہے کہہ لیں۔ میں حق بات کہنے سے گریز نہیں برتنے والی۔ غلط کے خلاف آواز اٹھاؤں گی میں امی..."
آنکھیں جھلملانے لگی تھیں۔
"تم کیوں خود کو ہلکان کرتی ہو؟"
مریم کمرے سے باہر آ چکی تھی۔
"روز کوئی نہ کوئی آ کر ہمیں یہ بتانے بیٹھ جاتا ہے کہ تم غلط ہو... تمہاری غلطی ہے۔"
وہ اسے شانوں سے پکڑتی ہوئی بولی۔
"کیا ان کے کہنے سے میں غلط ہو جاؤں گی؟ اگر ان کی نظر میں شوہر کی گالیاں سننا اور جوتیاں کھانا صحیح ہے تو میں ان کا نظریہ تبدل نہیں کر سکتی۔ میرا خدا جانتا ہے کون حق پر ہے...."
وہ اس کا رخسار تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
وہ نفی میں سر ہلاتی کمرے میں چلی گئی۔
"خالہ کو ناراض کر دیا تم نے؟"
وہ رانیہ کے پاس آتی ہوئی بولی۔
شہناز بیگم سر جھکاےُ آنسو پی رہی تھی۔
ایسا ماحول اکثر و بیشتر ان کے یہاں ہوتا تھا جب بھی کوئی مہمان آتا۔
دنیا کو لطف آتا ہے لوگوں کی مجبوریوں کا مذاق بناتے ہوۓ... ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا محبوب مشغلہ ہے آج کل کی خواتین کی۔ لیکن جب بات اپنے گھر کی آتی ہے تو تمام اصول و ضوابط میں ترامیم کر دی جاتی ہے۔ یہ تضاد ہر جگہ دکھائی دے گا آپ کو....
~~~~~~~~
رات کی تاریکی میں جہاں آدھی سے زیادہ دنیا نیند کی آغوش میں تھی وہیں جنت معمول کے مطابق رسالہ ہاتھ میں پکڑے چھوٹی سی لائٹ جلاےُ بیٹھی تھی۔
قریب ہی بیڈ پر مریم اور اس کے بچے سو رہے تھے۔
"کاش ناولز کی طرح ہماری زندگی میں بھی سب ٹھیک ہو جاتا..."
وہ چھت کو گھورتی ہوئی بولی۔
"یہ زندگی حقیقی زندگی سے کتنی مختلف اور اچھی ہے۔ بٹ آئی وِش کسی دن میں لڑکیوں کے لئے آواز اٹھاؤں... اس معاشرے کی گھناؤنی سازشوں کو ناکام بناؤں,ہمیشہ عورت کو ہی کیوں قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔
یہ شب و سحر اسی آزرو میں کٹ جاتے
کبھی تو قسمت ہم پر بھی مہربان ہوگی
واہ جنت تم تو شاعرہ بن گئی۔"
وہ مسکراتی ہوئی خود کو داد دینے لگی۔
"ایک دن میں ٹی وی پر آؤں گی اور سب کو بتاؤں گی کتنا غلط,کتنا ظلم ہوتا ہے اس معاشرے میں... "
وہ پر عزم ہو کر بولی۔
آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔
وہ رسالہ دراز میں رکھتی بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
"کاش مہسم تم بھی میرے کسی ناول کے ہیرو کی طرح بن جاؤ... "
وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی بڑبڑائی۔
~~~~~~~~
"مام میں جا رہا ہوں اگر آپ نے آنا ہو تو ڈرائیور کے ساتھ آ جانا... "
وہ ناگواری سے کہتا اس وسیع لاؤنج کو پار کرنے لگا۔
"زمان اب ایسے تو مت کہو میرے بغیر تم اکیلے کیسے جا سکتے ہو... "
وہ کہتی ہوئی اس کے پیچھے لپکیں۔
وہ ایک اچٹتی نگاہ ڈالتا دروازے سے باہر نکل آیا۔
"تم نے کال کر دیا تھا ان لوگوں کو؟"
وہ فرنٹ سیٹ سنبھالتی ہوئی بولی۔
"یس آئی ٹولڈ دیم (ہاں میں نے انہیں بتا دیا تھا)۔"
وہ سیٹ بیلٹ باندھتا ہوا بولا۔
چوکیدار اسے دیکھ کر گیٹ وا کر چکا تھا۔
گاڑی زمان ویلا سے باہر نکل کر سڑک پر اتر آئی۔
"اب اس رشتے میں کوئی خامی مت نکال دینا تم... "
وہ لہجے کو ذرا سخت بناتی ہوئی بولیں۔
"سوری؟ کیا کہا آپ نے؟"
اس نے جیسا سنا نہیں یا پھر انہی کے منہ سے تردید سننا چاہتا تھا۔
"کچھ نہیں..."
وہ نفی میں سر ہلاتی فون پر انگلیاں چلانے لگیں۔
گاڑی ایک شاندار بنگلے کے گیراج میں آ کھڑی ہوئی۔
وہ کوٹ کا بٹن بند کرتا باہر نکل آیا۔
گندمی رنگ، بھورے بال جیل سے سیٹ کر رکھے تھے، بھوری آنکھیں جو گہرائی سے ہر شے کا جائزہ لیتی،شیو معمول کے مطابق بڑھی ہوئی تھی، گردن اٹھاےُ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ چلنے لگا۔
مسز تیمور اس کے ہمراہ قدم اٹھا رہی تھی۔
"ہم کب سے آپ کا انتظار کر رہے تھے... "
ایک خاتون انہیں لاؤنج میں نظر آئیں۔
"یہی وقت طے ہوا تھا اور میرا خیال ہے ہم وقت پر آےُ ہیں۔"
وہ بائیں بازو پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتا سپاٹ انداز میں بولا۔
وہ خفیف سی ہو کر مسز تیمور کو دیکھنے لگی۔
"کیسی ہیں مسز ملک؟"
انہوں نے کشیدگی کم کرنی چاہی۔
زمان دائیں بائیں گردن گھماتا صوفے پر بیٹھ گیا۔
"گڈ اینڈ یو... "
وہ مسکرانے کی سعی کے باوجود مسکرا نہ سکی۔
"آئم آل سو... (میں بھی)"
وہ کہتی ہوئی زمان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی۔
اسی اثنا میں ملک صاحب بھی تشریف لے آےُ۔
حال احوال کے بعد لڑکی کو بلایا گیا۔
اجلا چہرہ, بال سنہری رنگ کے ڈائی کر رکھے تھے, شارٹ قمیض کے ساتھ کیپری پہنے, وہ دوپٹے سے بے نیاز تھی۔
زمان نے ایک بھرپور نظر اس پر ڈالی اس ایک نظر میں اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اسے یہ لڑکی نہیں چائیے۔
"مام چلیں؟"
مسز تیمور جو لڑکی کی ماں کے ساتھ محو گفتگو تھی تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔
"لیکن ابھی تو... "
"مجھے آفس جانا ہے لیٹ ہو رہا ہے... مجھے آپ کی بیٹی پسند نہیں آئی اس لئے ہمیں اب چلنا چائیے۔"
وہ کہتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
مسز تیمور بھی کھڑی ہو گئیں۔
اپنی بیٹے کی مخالف وہ کیونکر کرتی۔
سامنے بیٹھی لڑکی تلملا اٹھی۔
اتنا تضحیک آمیز رویہ، وہ شخص اس کے گھر میں کھڑا ہو کر اس طرح سے بول رہا تھا۔
اس سے قبل کہ ملک صاحب کچھ بولتے وہ دروازے کی جانب بڑھ گئے۔
"ڈیڈ یہ کیسے لوگ تھے؟ انکار کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں یہ کیا ایک منٹ میں فیصلہ کر لیا؟"
وہ چلاتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"اپنی ماما سے پوچھو یہی جانتی تھی ان لوگوں کو... "
وہ قہر برساتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔
"مسز تیمور تو بہت اچھی ہیں اب... مجھے کیا پتہ تھا بیٹا اتنا بد لحاظ.... ہوگا۔"
وہ گڑبڑا کر کہتی وہاں سے نکل گئی۔
"تماشہ بنانے کے لیے بلایا تھا مجھے... "
وہ کلس کر کہتی چلی گئی۔
~~~~~~~~
گاڑی میں ہنوز خاموشی برقرار تھی۔
کچھ سوچ کر عظمی نے اس خاموشی کو توڑا۔
"تمہیں پسند نہیں آئی شفا؟"
"نہیں اسی لئے تو آ گیا وہاں سے... "
نظریں سڑک پر تھیں, چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔
"اٹس اوکے... ہم کوئی اور رشتہ دیکھ لیں گے۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"اب کسی نارمل گھر کی لڑکی ڈھونڈیں.... وجہ میں بتانا نہیں چاہتا، آئی ہوپ یو انڈرسٹینڈ۔"
زمان کا لہجہ بے لچک تھا۔
"نو پرابلم... "
وہ فون کان سے لگاتی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~
"شہناز تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی ہمیں... "
ان کا اشارہ جنت کو بھیجنے کی جانب تھا۔
"جنت جاؤ پھوپھو کے لئے چاےُ بناؤ... "
وہ جنت کی پشت پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی البتہ دل سکینہ کے انداز پر گھبرا رہا تھا۔
"جی اچھا..."
وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔
مریم اپنے بچوں کے ہمراہ دوسرے کمرے میں تھی۔
وہ کچن میں جانے کی بجاےُ صحن میں آ گئی۔
نظریں حماد پر تھیں جو کہ دروازے میں کھڑا تھا۔
"کیا لینے آےُ ہیں آپ یہاں؟"
وہ بلند آواز میں بولی۔
"مجھے مریم سے بات کرنی ہے تم سے نہیں اس لئے ہٹو... "
وہ رکھائی سے بولا۔
"اگر آپ کی یاداشت برقرار ہے تو میں آگاہ کرتی چلوں یہ آپ کا گھر نہیں میرا گھر ہے اور طلاق کے بعد آپ میری بہن کے پاس کس لئے آ جاتے ہیں؟"
چہرہ مارے غیض کے سرخ ہو رہا تھا۔
آنکھیں سختی سے حماد پر گاڑھے ہوۓ تھی۔
"جنت کیا ہوا؟"
مریم اس کی آوازیں سنتی صحن میں آ گئی۔
حماد کو دیکھ کر وہ پیشانی مسلنے لگی۔
"پھر تماشہ لگانے آ گئے ہو تم؟"
آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔
لہجہ ہارا ہوا تھا۔
"میں کوئی تماشہ نہیں لگانا چاہتا یہ تمہاری بہن کو ہی شوق ہے۔"
وہ جنت کو گھورتا ہوا بولا۔
"طلاق دینے کے بعد تم کیوں آ جاتے ہو مجھ سے ملنے؟"
مریم کی آواز لڑکھڑا گئی۔
"تم میرے ساتھ گھر چلو... "
وہ آگے بڑھ کر مریم کی کلائی پکڑتا ہوا بولا۔
"ہاتھ چھوڑیں آپی کا... میں لحاظ کر رہی ہوں آپ کا، جس کے لائق آپ ہر گز نہیں ہے۔"
وہ حماد کا ہاتھ ہٹاتی چبا چبا کر بولی۔
سرخ رنگ کا دوپٹہ گلے میں تھا۔ وہ شعلہ بار نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تم ہم دونوں کے بیچ نہ ہی آؤ تو بہتر ہوگا... "
وہ تلملاتا ہوا بولا۔
"تمیز سے چلے جائیں گے یا میں بھائی کو فون کروں؟ پہلے طلاق دینے کا شوق تھا اب منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں یہاں... "
وہ دونوں کے وسط میں آتی پھنکاری۔
مریم کی آنکھیں برسنے لگیں تھیں۔
وہ دوہری اذیت سے گزر رہی تھی۔
ایک طلاق کا دکھ دوسرا حماد کو یوں آےُ دن جھگڑا کرنا گھر جانے کے لیے۔
"جنت کیا کر رہی ہو تم؟"
سکینہ باہر نکلتی ششدر سی بولی۔
"میں سمجھاتی ہوں اسے... "
شہناز بیگم گھبراتی ہوئی سرعت سے آگے نکل گئی۔
"امی اپنی اس بھانجے کو یہاں سے بھیج دیں ورنہ میں اپنے طریقے سے بھیج دوں گی۔"
مخاطب شہناز بیگم سے لیکن نگاہیں حماد پر تھیں۔
"تم خاموش رہا کرو... میں بات کر لوں گی۔"
وہ لہجے کو سخت بناتی ہوئی بولیں لیکن آواز مدھم سی تھی۔
"چلیں آپی... "
وہ مریم کی بازو پکڑے کمرے کی جانب لے گئی۔
"حد سے زیادہ بد تمیز ہے جنت... "
دونوں کے اوجھل ہوتے ہی حماد بگڑ کر بولا۔
"بیٹا تمہیں سمجھایا ہے اب مریم تمہارے گھر نہیں رہ سکتی, وہ تمہارے لیے حلال نہیں نہ تم اس کے لئے... "
انہوں نے تحمل سے سمجھانا چاہا۔
"میں آؤں گا دوبارہ اور ساتھ لے کر جاؤں گا مریم کو... "
وہ ہنکار بھرتا باہر نکل گیا۔
سکینہ پرسوچ انداز میں اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔
شہناز تھکے تھکے انداز میں چارپائی پر بیٹھ گئی۔
دھوپ نے آدھے صحن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
سنہری کرنیں چمک رہی تھی لیکن ان کی زندگی میں فلحال صرف سیاہی ہی تھی۔
"یہ سب کیا ہے شہناز؟"
وہ ان کے پاس آتی ہوئی بولی۔
"کیا بتاؤں باجی حماد ایسی ہی حماقتیں کر رہا ہے... "
وہ آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"میں تمہیں بتانے آئی تھی کہ مہسم کی منگنی ہم نے خاندان سے باہر کر دی ہے۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
"لیکن کیسے؟ اس کی منگنی تو جنت... "
الفاظ دم توڑ گئے۔
یہ خبر کسی عذاب سے کم نہ تھی۔
"ہاں ہاں جانتی ہوں جنت سے کی تھی... لیکن تمہارے گھر کے حالات دیکھ کر مہسم نہیں مانتا اور پھر اتنی تیز چالاک لڑکی کو میں اپنی بہو نہیں بنانا چاہتی۔ جو یہاں کرتی ہے میرے گھر بھی وہی سب کرے گی۔"
وہ چادر اوڑھتی بیگانگی سے بولیں۔
شہناز کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔
ہاتھ ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے سکینہ کو دیکھ رہی تھیں جسے اس بات کا احساس نہیں تھا وہ کیا قیامت ڈھا رہی ہے اس گھر پر۔
"چلتی ہوں میں اب... "
وہ کہتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
"امی آپ پریشان مت ہوں... "
جنت پانی کا گلاس لئے ان کے سامنے کھڑی تھی۔
"کیسے پریشان نہ ہوں میں... دیکھا تم نے کیا کہا تمہاری پھوپھو نے؟ یہ تمہاری زبان کے باعث آج وہ منگنی توڑ کر چلی گئی ہیں... "
وہ ہاتھ مار کر گلاس پھینکتی پھٹ پڑیں۔
"ﷲ ہمارے ساتھ ہے تو پھر آپ کیوں ان جیسے لوگوں کی باتوں سے غمگین ہوتی ہیں؟"
وہ زمین پر گھنٹے رکھے شہناز کے گھنٹوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
"معاف کر دو ہمیں جنت.... تمہیں خدا کا واسطہ ہے مت بولا کرو اس گھر کے معاملات میں۔ تمہارے ابو کو علم ہوا تو نجانے کیا گزرے گی ان پر... کیا پہلے اس گھر کی پریشانیاں کم ہیں جو تم نے ایک اور مسئلہ کھڑا کر دیا۔"
وہ اسے سخت سست سنانے لگیں۔
"امی آپ خود سوچیں اگر یہ رشتہ نہ ٹوٹتا تو میرا کیا ہوتا؟ وہ مجھے اپنے گھر نہیں لے جانا چاہتے تو میرا حال بھی آپی جیسا ہونا تھا تو کیا یہ اس سے بہتر نہیں؟"
وہ نم آنکھوں سے چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی۔
"شرم کرو... کیا اول فول بکے جا رہی ہو!! میری نظروں سے دور ہو جاؤ اس سے قبل کہ میرا ہاتھ اٹھ جاےُ... "
وہ کپکپاتی آواز میں بولیں۔
ضبط کی انتہا پر وہ عورت کھڑی تھی آج۔
آزمائش ایسی کہ کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی کھڑی ہوئی اور سامنے بڑے کمرے میں چلی گئی۔
دکھ اس کی آنکھوں میں بھی تھا لیکن وہ خود کو دلاسہ دینے سے قبل اپنی ماں کو دلاسہ دینا چاہتی تھی۔
"زندگی اتنی سہل اور سیدھی نہیں جنت! جتنی تم نے سوچی تھی۔"
وہ تلخی سے مسکرائی ہوئی بولی۔
اگر یہ رشتہ ختم ہوا ہے تو اسی میں میری بہتری ہوگی..."
وہ خود کو تسلی دینے لگی۔
"مجھے اپنے ﷲ پر پورا بھروسہ ہے لیکن شاید امی کا یقین کچھ کمزور ہے اسی لئے اسے میرا قصور بنا رہی تھیں.... "
آنسو ضبط کے باوجود پلکوں کی باڑ کو توڑتے رخسار پر آ گرے۔
"بس ایسے لوگوں کے عوض میں اپنے آنسو بے مول ہرگز نہیں کروں گی.... "
وہ ہاتھ کی پشت سے رخسار رگڑتی ہوئی بڑبڑائی۔
وہ صوفے سے ٹیک لگاےُ زمین پر بیٹھی تھی۔
~~~~~~~~
عظمی صوفے پر بیٹھی نیل پالش لگا رہی تھی جب زمان وہاں نمودار ہوا۔
فون کان سے لگاےُ وہ آتا ہوا سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
وسط میں شیشے کا میز پڑا تھا۔
اور دائیں بائیں سنگل صوفے تھے۔
"اوکے آئی کال یو لیٹر(ٹھیک ہے میں تمہیں بعد میں فون کرتا ہوں) "
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
ملازم جوس لئے اس کے بائیں جانب کھڑا تھا۔
"کیا میں نے جوس مانگا؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے دھاڑا۔
"نو سر.... "
وہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہو گیا۔
"تو پھر کیوں لے کر آےُ ہو؟"
وہ گلاس پکڑ کر اس کے منہ پر جوس گراتا ہوا چلایا۔
عظمی اپنے کام میں محو تھی۔
"سوری.... س.. سر... "
وہ سر جھکاےُ بول رہا تھا۔
"یہاں تمہیں خود سے سوچنے کی اجازت نہیں ہے۔ ناؤ گیٹ لاسٹ... "
وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا۔
چہرے پر ناگواری در آئی۔
ایک نظر عظمی پر ڈالی اور کھڑا ہو گیا۔
کچھ یاد آنے پر وہ عظمی کو دیکھنے لگا۔
نظروں کی تپش تھی یا اس کے کھڑے ہونا کا احساس عظمی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"جلد از جلد میری ڈیمانڈ کی لڑکی ڈھونڈ کر دیں۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"اوکے.. ڈونٹ وری(فکر مت کرو) "
وہ سر کو خم دے کر بولی۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا سامنے راہداری میں چلنے لگا۔
"پہلے خود رضامند نہیں تھا اب ہر کام جلدی کی نذر کرنا چاہتا ہے۔"
وہ نیل پالش میز پر پٹختی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~
"امی آپ فکر مت کریں ﷲ بہتر کرے گا۔ ہماری جنت میں کوئی کمی نہیں پھر کیوں رشتہ نہیں ہوگا اس کا؟"
کبیر ان کے قدموں میں بیٹھا بول رہا تھا۔
"تم جانتے ہو نہ آج کل رشتے کرنا کتنا کٹھن ہو گیا ہے اور پھر ایسی لڑکی کا رشتہ جس کی منگنی ٹوٹ گئی ہو, گھر میں ایک طلاق یافتہ بہن بیٹھی ہو.... "
وہ منہ پر دوپٹہ رکھے سسکنے لگیں۔
"اگر آپ ایسے کریں گیں تو ابو کو بلانا پڑے گا... "
وہ خفگی سے بولا۔
"سب مجھے دھمکیاں دئیے جاؤ بس... "
وہ سفید موتیوں کو دوپٹے سے صاف کرتی ہوئی بڑبڑائیں۔
"ہم ہیں نہ تو آپ کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہیں؟ آپ دیکھنا...."
دروازے کھلنے کی آواز پر کبیر خاموش ہو گیا۔
وہ دونوں بیرونی دروازے کی جانب دیکھنے لگے جہاں سے عائشہ اپنے بچوں کے ہمراہ اندر آ رہی تھی۔
"ﷲ خیر کرے یہ اس وقت کیوں آ گئی؟"
وہ کبیر کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولیں۔
"آپ پریشان مت ہوں جنت کا سن کر آئی ہوگی۔"
اس نے مسکرا کر انہیں مطمئن کرنا چاہا لیکن اس کے ہاتھ میں بیگ دیکھ کر اس کا اپنا اطمینان بھی غارت ہوگیا۔
"عائشہ کیا ہوا؟"
شہناز چارپائی سے اتر کر اس کے مقابل آ گئی۔
"امی میں چھوڑ آئی ہوں وسیم کو... مجھے خلاء چائیے، کبیر تم صبح کورٹ جانا... "
"خدا کا واسطہ ہے چپ کر جاؤ.... "
شہناز پھٹ پڑیں۔
وہ بات ادھوری رہ جانے پر تعجب سے انہیں دیکھنے لگی۔
"اپنی ماں کو ایک پل سکھ کا لینے مت دینا... جنت؟"
وہ اشک بہاتی گردن گھما کر چلائی۔
"جی امی... "
ان کی ایک آواز پر وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔
"سمجھاؤ اسے تم... اس کی عقل پر پردے پڑے ہیں تبھی بہکی بہکی باتیں کرتی ہے۔"
وہ ملامتی نگاہ عائشہ پر ڈالتی کبیر کے پاس آ گئیں۔
"وہ سمجھا لے گی بے فکر ہو جائیں آپ... "
وہ انہیں ساتھ لگاےُ تسلی دینے لگا۔
"مریم کو بولو پانی لے کر آےُ... "
کبیر چہرہ اٹھا کر جنت کو دیکھتا ہوا بولا۔
عائشہ دم سادھے وہیں کھڑی تھی۔
جنت تذبذب کا شکار تھی۔
"جنت؟"
کبیر کے پکارنے پر وہ عائشہ کی جانب بڑھی اور ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے گئی۔
"یہ لیں پانی اور دوائی لاؤں؟"
پانچ منٹ بعد مریم وہاں کھڑی تھی۔
"ہاں اور سنو... نیند کی گولی ملا دینا چاےُ میں امی سونے کا ارادہ نہیں رکھتی میں جانتا ہوں۔"
وہ مدھم آواز میں سرگوشی کر رہا تھا تاکہ شہناز سن نہ سکے۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی کچن میں چلی گئی۔
"بچوں کیسے ہو؟"
جنت باری باری دونوں کے رخسار چومتی ہوئی بولی۔
"خالہ ماما ناراض کیوں ہیں؟"
چار سالہ علی مدھم آواز میں بولا۔
"آپ فاطمہ کو لے کر بڑے کمرے میں چلے جاؤ حسن اور رانیہ وہیں ہیں۔ خالہ ماما سے بات کرتی ہیں۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
وہ اس کے حکم کی تعمیل کرتا دو سالہ فاطمہ کا ہاتھ پکڑے کمرے سے باہر نکل گیا۔
"اب کیا ہوا ہے؟"
جنت کمر پر ہاتھ رکھے اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔
عائشہ نے خلاء کو مخول بنا رکھا تھا۔
آےُ دن جھگڑا کرنا اور اس کے بعد میکے آ کر خلاء کی بات کرنا۔
"تم تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے میں مجرم ہوں... "
وہ ناخوش دکھائی دے رہی تھی۔
"میں نے تو بس یہی پوچھا ہے کہ آج کیا ہوا جو رات میں اکیلی آ گئیں آپ؟"
وہ کرسی پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
"ایک مہینہ ہو گیا مجھے پیسے نہیں دئیے وسیم نے... "
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
"کیوں؟ میرا مطلب گھر میں راشن وغیرہ نہیں آتا؟"
جنت کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"کھانے پینے کا سب سامان آتا ہے باقی جو پیسے بچ جاتے ہیں اپنی ماں کو پکڑا آتا ہے اور میرے لئے کچھ بھی نہیں... کیا مجھے اپنی ضرورتیں پوری نہیں کرنی؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"یہ بتائیں اب وہ ڈیوٹی سے کتنے بجے آتے ہیں؟ میرا مطلب اوور ٹائم...."
"یہی کوئی چھ بجے تک آ جاتے ہیں... "
وہ اس کی بات کاٹتی ہوئی بولی۔
"تو آپی گزشتہ ماہ آپ اس لئے ناراض ہو کر آئیں تھی کہ وہ آپ کو وقت نہیں دیتے۔پتہ نہیں کہاں غائب رہتے ہیں اس لئے آپ کو خلاء چائیے۔ اب وہ اوور ٹائم نہیں کر رہے تو آپ کو یہ شکایت ہے کہ پیسے نہیں دیتے... "
وہ بات کی گہرائی تک پہنچتی ہوئی بولی۔
"ہاں تو؟ دونوں کام کرے نہ... میں کہاں جاؤں؟ تم لوگوں سے مانگوں؟"
وہ بگڑ کر بولی۔
"ایک بات آپی آج میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دوں کہ طلاق ﷲ پاک کو سخت نا پسند ہے۔ لیکن قرآن میں ہی ﷲ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہارا نباہ نہ ہو سکے تو تم الگ ہو جاؤ ایک دوسرے کو اذیت نہ دو... لیکن آپ اتنی چھوٹی سی بات کے لیے خلاء لینا چاہتی ہیں... کیا اس گھر کی پریشانیاں کم ہیں؟ کیا آپ جانتی ہیں میری منگنی ٹوٹ گئی ہے۔ صبح سے امی پریشان ہیں۔ اور آپ مزید پریشانی لے آئی ہیں۔"
وہ تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تم سمجھ نہیں رہی... مجھے اپنے سے زیادہ بچوں کی فکر ہے۔"
"آپی معاف کرنا لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ آپ کو یہ برداشت نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ماں کو پیسے کیوں دیتے ہیں... مجھے سمجھ نہیں آتی وسیم بھائی اتنے اچھے ہیں پھر بھی آپ علیحدگی چاہتی ہیں! "
وہ آنکھوں میں حیرت سموےُ اسے دیکھ رہی تھی۔
"میں یہاں سے تب تک نہیں جاؤں گی جب تک وہ میرا خرچا الگ نہیں کر دیتا بس بات ختم.... "
وہ رخ موڑ کر بولی۔
"ٹھیک ہے سو جائیں آپ میں نماز پڑھ لوں..."
وہ اثبات میں سر ہلاتی اٹھ گئی۔
~~~~~~~~
"آپ ڈرائیور کو کال کر دینا مجھے کچھ ضروری کام سے جانا ہے اس لئے واپس گھر نہیں جا سکتا... "
وہ گاڑی روکتا ہوا بولا۔
گاڑی ایک کوٹھی کے سامنے رکی تھی۔
وہ تعجب سے دیکھتا عظمی کو دیکھنے لگا۔
"آر یو شیور یہی گھر ہے؟"
اسے غلطی کی گنجائش دکھائی دے رہی تھی۔
"یس یہی ہے... "
وہ مسکراتی ہوئی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
وہ گرد و پیش کا جائزہ لیتا چلنے لگا۔
لڑکی ضرورت سے زیادہ ماڈرن تھی۔
بے تکلفی سے زمان کے ہمراہ آ کر بیٹھ گئی۔
زمان کے چہرے پر زمانے بھر کی بیزاری تھی۔
اسے یہ لڑکی ایک نظر نہیں بھائی تھی۔
ایک اچٹتی نگاہ لڑکی پر ڈالتا وہ عظمی کو دیکھنے لگا۔
وہ خفیف سی ہو کر مسکرانے لگی۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے ساتھ بیٹھنے کی؟"
وہ طیش میں بولا۔
وہ ہکا بکا سی اسے دیکھنے لگی۔
"لیٹس گو.. (چلتے ہیں)"
وہ عظمی کو دیکھتا ہوا بولا۔
"ابھی تو تم نے اپنے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں... "
وہ لڑکی خفگی سے کہتی کھڑی ہو گئی۔
"تم جیسی لڑکی کے لئے میرا پاس ٹائم نہیں رشتہ جوڑنا تو بہت دور کی بات ہے... "
وہ ناپسندیدگی سے کہتا چلنے لگا۔
عظمی بنا کچھ کہے اس کے پیچھے باہر نکل آئی۔
"مام کیا یہ معمولی گھرانہ تھا؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"معمولی ہی تو ہے... دیکھو ان کا گھر صرف پندرہ مرلہ پر مشتمل ہے۔"
وہ انگلی سے سامنے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
"اور اس معمولی گھر کی لڑکی دیکھی تھی آپ نے؟ آئی مین اتنی بےشرم؟ آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی میرے شانے سے شانہ ملا کر بیٹھنے کی اور وہ لڑکی دھڑلے سے میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی...."
وہ بدمزہ ہوا۔
"اب مجھے کیا پتہ تھا ان کی بیٹی ایسی ہوگی۔ ایک دعوت میں شرکت کی تھی اس کی ماں نے تو... "
"اوکے اوکے... مجھے تفصیل میں نہیں جانا۔ میں گھر آ کر آپ سے بات کرتا ہوں۔"
وہ گاڑی روکتا ہوا بولا۔
"میں کہاں جاؤں؟"
وہ ششدر سی بولی۔
"ڈرائیور کو کہہ دیا ہے آتا ہی ہوگا۔"
وہ گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔
"لیکن باہر گرمی ہے.... "
وہ صدمے سے بولی۔
"آپ کی فرینڈ کا گھر اسی کالونی میں ہے نہ؟"
وہ چہرہ موڑ کر بولا۔
"ہاں... "
وہ آنکھیں سکیڑے سامنے دیکھتی ہوئی بولی۔
"بس پھر وہاں چلی جائیں.... ڈرائیور آےُ گا تو کال کر لے گا آپ کو۔"
وہ گاڑی سٹارٹ کرتا رکھائی سے بولا جس کا مطلب تھا وہ اب اتر جاےُ۔
وہ اپنا فون اور کلچ سنبھالتی باہر نکل گئی۔
زمان گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔
~~~~~~~~
"کچھ عقل کے ناخن لو... "
شہناز سلائی مشین چلاتی ہوئی بولی۔
"امی مریم بھی تو کب سے یہاں بیٹھی ہے.. کیا میری روٹی زیادہ بھاری ہے آپ پر؟"
وہ خفگی سے بولی۔
"اگر ماں باپ کے در پر آ کر بیٹھنا تھا تو پھر شادی کرتی ہی نہ... تب بھاری نہ ہوتی ہمیں تمہاری روٹی۔ زمانہ منہ بھر بھر کے باتیں کرتا ہے نجانے کیوں سمجھ نہیں آتا تمہیں.."
وہ سخت خفا دکھائی دے رہی تھی۔
جنت کچھ فاصلے پر علی اور رانیہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔
"دفعہ کریں زمانے کو... مجھے خود کو دیکھنا ہے بس۔"
وہ ضد پر قائم تھی۔
"امی آپ کو چائیے کہ جب یہ خلاء کی نیت سے آئیں تو انہیں گھر میں رکھا ہی نہ کریں.. اگر وسیم بھائی برے ہوں تو ہم آپ کی حمایت کر بھی دیں لیکن آپ بلا وجہ تنگ کر رہی ہیں سب کو... "
جنت اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
عائشہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔
"تم بھی مجھے ابھی بتا دو... اگر شادی کے بعد تم نے بھی اسی طرح کرنا ہے تو میں رشتہ نہ ہی دیکھوں تمہارا۔"
وہ اسے آڑے ہاتھوں لیتی ہوئی بولیں۔
"امی؟"
وہ صدمے سے بولی۔
"کیا امی؟ ذلیل و خوار کر دیا ہے ہمیں دنیا کے سامنے.... ماں باپ کو بیٹوں سے نہیں بیٹیوں کے نصیب سے ڈر لگتا ہے۔"
وہ آنکھوں میں چبھتی نمی کو صاف کرتی ہوئی بولیں۔
"امی آپ مجھے جب رخصت کریں گیں تو کبھی آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔"
وہ چہرے پر سنجیدگی طاری کئے بولی۔
"تم سے یہی امید ہے۔"
وہ معدوم سا مسکرائیں۔
"اور تم سن لو... رات میں کبیر چھوڑ کر آےُ گا تمہیں گھر۔ لڑکی اپنے سسرال میں ہی اچھی لگتی ہے۔"
وہ بے لچک لہجے میں بولیں۔
"پہلے وسیم کو بلائیں میرا خرچا لکھوائیں پھر میں جاؤں گی... "
وہ کہتی ہوئی کمرے سے چلی گئی۔
"پتہ نہیں اس لڑکی کو کب عقل آےُ گی۔ کہنے کو سب سے بڑی ہے یہ اور عقل... "
وہ نفی میں سر ہلاتی بات ادھوری چھوڑ گئیں۔
"السلام علیکم شہناز!"
وہ جنت کی ممانی تھیں۔
"وعلیکم السلام کیسی ہو؟"
شہناز کا لہجہ روکھا سا تھا۔
"میں تو ٹھیک ہوں یہ بتاؤ جنت کے ساتھ کیا بنی؟ سنا ہے منگنی ٹوٹ گئی؟"
وہ منہ پر ہاتھ رکھے متحیر سی بولی۔
"ہاں باجی نے جواب دے دیا۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
جنت کو یکسر دونوں نظر انداز کر گئیں۔
"کیا وجہ ہوئی؟ کوئی مسئلہ تھا کیا جو اتنی پرانی منگنی توڑ دی... کچھ تو بڑا ہوا ہو گا۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"پتہ نہیں بھابھی، جن لوگوں نے ختم کیا رشتہ وہیں جانتے ہوں گے۔"
وہ سر جھکاےُ سلائی کرنے لگیں۔
"لو یہ کیا بات ہوئی!... کوئی عیب تھا کیا جنت میں جو معلوم ہونے پر رشتہ ختم کر دیا۔ ایسے تو کوئی اتنا پرانا رشتہ نہیں توڑتا.."
وہ خفیہ انداز میں بولی۔
"ممانی کیا کہنا چاہتی ہیں آپ؟"
جنت کی آواز سن کی سماعت میں پڑی تو گردن گھما کر عقب میں دیکھنے لگی۔
"بڑوں کی باتوں میں بچے دخل نہیں دیتے..."
انہیں جنت کی مداخلت پسند نہ آئی۔
"بات میری ہو رہی ہے تو مجھے بتائیں کیا کہنا چاہتی ہیں آپ؟ میں کیوں دخل نہ دوں؟"
وہ ضبط کرتی ہوئی بولی۔
آنکھیں دھیرے دھیرے سرخ مائل ہوتی جا رہی تھیں۔
"پوچھ ہی رہی ہوں میں کہ ایسا کون سا تنازعہ چلا کہ رشتہ ختم کر دیا... بھئی کوئی بڑی بات ہوگی۔"
وہ شہناز کو دیکھتی ہوئی بولی جو چپ سادھے ہوۓ تھی۔
"آپ کی بیٹی کی منگنی ٹوٹی تھی تو کیا میری امی استفسار کرنے آئی تھیں کہ کومل میں کیا عیب یا برائی تھی جو منگنی ٹوٹ گئی؟"
وہ چبا چبا کر وار کرنے لگی۔
"کوئی شرم ہوتی ہے لیکن شہناز تمہاری بیٹی کو تو لگتا ہے چھو کر نہیں گزری کیسے بات کر رہی ہے مجھ سے؟ کوئی لحاظ نام بھی چیز ہے۔"
وہ تلملا اٹھی۔
"میں نے آپ کو کوئی گالی یا کوئی معیوب بات نہیں کہی کہ آپ مجھے بے شرم بنائیں۔ ایک سادہ سا سوال کیا ہے آپ اتنا تاؤ کیوں کھا رہی ہیں؟"
وہ طمانیت سے بولی۔
"نہایت ہی بد تمیز بیٹی ہے تمہاری... سمجھ آ گئی کیوں منگنی ٹوٹی ہوگی اس کی۔ گز جتنی لمبی زبان جو ہے اس کی۔"
وہ ہنکار بھرتی شہناز کو سنانے لگیں۔
شہناز خاموش تھی۔
"اگر غلط کے خلاف بولنا بدتمیزی ہے تو میں بد تمیز ہی سہی... لیکن میں قطعاً برداشت نہیں کروں گی کہ کوئی بھی آکر میری امی کو زچ کرے، انہیں اذیت دے۔"
چہرے پر سختی بڑھتی جا رہی تھی۔
"تم سے بات نہیں کی میں نے... اپنی نند سے کی تھی لیکن تم تو اول درجے کی بد لحاظ ہو، کچھ تمیز اپنی ماں سے بھی سیکھ لو۔"
کہہ کر وہ رکی نہیں اور باہر نکل گئی۔
شہناز دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز تھیں۔
کوئی بھی آ کر ان کی بیٹیوں میں عیب تلاشنے بیٹھ جاتا اور وہ کچھ نہ کر پاتیں۔
"میں پانی لے کر آتی ہوں... "
وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
علی اور رانیہ فلحال اس تکرار کو سمجھنے سے قاصر تھے۔
~~~~~~~~
"میری ہر بات مانے وہ، زمان تیمور کہے تو ہی وہ کچھ کرے میرے حکم کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہ اٹھاےُ۔"
وہ معدوم سا مسکرایا۔
زمان کی مسکراہٹ عظمی کی پریشانی میں اضافہ کر رہی تھی۔
"آپ ایسا سمجھ لیں مجھے ایک ڈول چائیے..یو نو چابی سے چلنے والی ڈول۔ جسے میں چابی دوں تو وہ چلے نہ دوں تو وہ وہیں رک جاےُ۔"
وہ شیشے سے باہر دیکھنے لگا۔
"اچھا میں کوشش کرتی ہوں... "
"کوشش نہیں... نتیجہ چائیے مجھے۔"
وہ زور دے کر بولا۔
"اور ایک بات؟"
وہ رخ موڑ کر بولا عظمی جو کمرے سے باہر جانے لگی تھی رک کر اسے دیکھنے لگی۔
"کیا؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"ود ان ٹو اور تھری ڈیز ، مائی وائف شوڈ بی دئیر۔(دو یا تین دن کے اندر، میری بیوی یہاں ہونی چائیے)"
وہ سخت لہجے میں بولا۔
"اوکے۔"
وہ بظاہر مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔
"تم تیار ہو؟"
شہناز اندر آئی۔
"جی امی... "
وہ رخ موڑتی ہوئی بولی۔
"میں آتی ہوں تھوڑی دیر تک... "
وہ کہتے ہوۓ ڈرائینگ روم میں چلی گئیں۔
کچھ دیر بعد جنت بھی ڈرائینگ روم میں بیٹھی تھی۔
لڑکے والوں کی طرف سے لڑکے کی امی, بہن, اور والد آےُ تھے۔
جنت کو دیکھ کر دونوں خواتین سرگوشیاں کرنے لگیں۔
"شادی کے بعد نوکری کروانی ہے ہم نے... "
وہ لڑکے کی والدہ تھی۔
"بہن میرے خیال میں تو شادی کے بعد سارا وقت شوہر اور گھر کو دینا چائیے۔ یہ نوکری والیاں کہاں گھر کو وقت دیتی ہیں۔"
شہناز منہ بناتی ہوئی بولی۔
"گھر بھی چھوٹا سا ہے آپ کا... "
اب کہ لڑکے کی بہن نے تبصرہ کیا۔
"نوکری بھی کرے گی اور گھر بھی سنبھالے گی... ویسے ہمیں لڑکی کا قد کوئی خاص پسند نہیں آیا لیکن اگر... "
"یہ کوئی طریقہ نہیں ہے رشتہ جوڑنے کا... "
کبیر ان کی بات مکمل ہونے سے قبل بول پڑا۔
"اچھا جی چلتے ہیں ہم... پھر سوچ کر بتائیں گے۔ اٹھیں جی؟"
وہ اپنے خاوند کو گھورتی کھڑی ہو گئی۔
ان کے جاتے ہی جنت بھی چلی گئی۔
"جن کا لڑکا نوکری کرتا ہو ان کا تو دماغ ہی بہت خراب ہے..."
شہناز ہنکار بھرتی ہوئی بولی۔
"ایسے لوگوں میں کسی شرط پر رشتہ نہیں کریں گے... جیسے ان کے مزاج تھے آےُ دن تنگ کریں گے جنت کو۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"صحیح کہہ رہے ہو... ایک لڑکے کا بتا رہی تھی نجمہ واپڈا میں لگا ہے لیکن جب جنت کی تصویر دکھائی انہیں تو کہتے رنگ زیادہ سفید ہو اور ناک بھی تیکھی ہو... بتاؤ بھلا لوگوں کی باتیں دیکھو۔"
وہ تاسف سے بولیں۔
"ایسے لوگوں کو مت بلائیں آپ جن کے پاس عقل و دانش نہیں ۔ یہ روز روز لوگوں کے سامنے پیش نہیں کرنا جنت کو مجھے پسند نہیں... پھوپھو کے بھی عجیب ہی تماشے ہیں اتنے سال کی منگنی توڑ کر مصیبت ہم پر ڈال دی... ہونہہ...."
وہ سر جھٹکتا باہر نکل گیا۔
"دماغ تو سب کے ہی خراب ہیں کسے بلاؤں اور کسے نہیں... لوگ کہتے ہی یہی ہیں کہ ہم نے پہلے لڑکی دیکھنی ہے۔ عجیب ہی دستور ہیں زمانے کے۔"
وہ سر تھامتی ہوئی بولیں۔
درد دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا تھا۔
افق پر سیاہ رات اپنے پر پھیلا چکی تھی۔
گھڑی کی سوئیاں دس بجا رہی تھیں۔
تمام افراد صحن میں بیٹھے خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔
"مریم تم برتن دھو لینا آج... "
شہناز کھانے سے فارغ ہوتی ہوئی بولی۔
جنت اور مریم مل کر برتن سمیٹنے لگیں۔
اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی۔
"میں دیکھتا ہوں... "
کبیر کہتا ہوا دروازے کی سمت بڑھ گیا۔
"السلام علیکم وسیم بھائی! "
وہ بلند آواز میں بولا تاکہ اندر موجود افراد سن سکیں۔
عائشہ کے چہرے پر ناگواری در آئی۔
"ماما بابا آےُ ہیں؟"
علی عائشہ کا بازو کھینچتا ہوا بولا۔
"مریم بچوں کو اندر لے جاؤ... "
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
"آ جاؤ بچوں ہم کھیلتے ہیں... "
وہ کہتی ہوئی انہیں اندر لے گئی۔
چند پل خاموشی کی نذر ہو گئے۔
وسیم کبیر کے ہمراہ بیٹھا تھا۔
ماحول میں کشیدگی تھی جسے سب محسوس کر رہے تھے۔
"آنٹی میں عائشہ کو لینے آیا ہوں... "
بلآخر اس نے خاموشی کو توڑا۔
"ہاں ہاں لے جاؤ..."
وہ خوشدلی سے بولیں۔
"امی میری شرط؟"
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
"کیسی شرط؟"
وہ بغور عائشہ کو دیکھتا ہوا بولا۔
"میرا خرچا الگ کرو... پھر ہی میں جاؤں گی تمہارے ساتھ۔"
وہ ہٹ دھرمی سے بولی۔
"آنٹی گھر میں کھانے کو ہر اچھی چیز میسر ہے، عائشہ اور بچوں کے کپڑے ، جوتے ، سب میں اپنے ہاتھ سے لاتا ہوں۔ کچھ پیسے امی کی دوائی کے لئے انہیں دیتا ہوں بس۔ ہاں یہ ہے اس کے علاوہ میں فلحال اسے خرچا نہیں دے پا رہا, کیونکہ اوور ٹائم کرنے سے بھی اسی نے منع کیا تھا اب بتائیں میں کیا کروں؟"
وہ اپنا مدعا بیان کرتا انہیں دیکھنے لگا۔
"بیٹا جو تم سے بن سکے وہ دے دینا اسے۔ اور اگر نہ ہو تو بےشک مت دینا... "
وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی نرمی سے بولیں۔
"امی؟"
وہ صدمے سے انہیں دیکھنے لگی۔
"اس گھر کے دروازے صرف اسی صورت تمہارے لئے کھلے ہیں جب تم اپنے گھر کو سنبھال کر رکھوں گی۔ دوسری صورت میں ہم تمہیں یہاں رکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"
وہ لہجے کو سخت بناتی ہوئی بولیں۔
"جنت کھانا لے آؤ... "
کبیر برآمدے سے گزرتی جنت کو دیکھتا ہوا بولا۔
"جی اچھا... "
وہ کہتی کچن میں چلی گئی۔
"ارے نہیں کھانا میں کھا کر آیا ہوں۔ بس سوچا اپنی فیملی کو لے آؤں۔ اجازت دیں اب... "
وہ ہاتھ ملاتا کھڑا ہوگیا۔
"جاؤ جا کر سامان لے آؤ اپنا... "
شہناز خفا انداز میں بولیں۔
عائشہ نا چار سامان لینے چلی گئی۔
وہ کسی سے بھی ملے بغیر وسیم کے ہمراہ چلی گئی۔
"اس لڑکی کو کبھی عقل نہیں آےُ گی امی... اسی رویے سے اندازہ لگا لیں یہ سسرال میں کیا کرتی ہو گی؟"
کبیر دروازہ کو گھورتا سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
"شادی کے بعد بھی عقل نہیں آئی اس لڑکی کو... "
وہ نفی میں سر ہلاتی لیٹ گئیں۔
~~~~~~~~~
آج دوسرا دن تھا اور عظمی بلی کے جلے پیروں کی مانند یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی۔
"جو بھی رشتہ ہے تم دکھا دو چاہے لوگ ہمارے سٹینڈرڈ کے نہیں ہیں... تمہارے پاس تو ایسے رشتے ہوتے ہیں۔"
وہ فون کان سے لگاتی بے چینی سے بولی۔
"تم وقت بتاؤ میں زمان کو لے کر پہنچ جاؤں گی... جوڑ نہیں بنتا تم پھر بھی دکھا دو۔"
کہتے ساتھ ہی اس نے فون بند کر دیا۔
"زمان بھی عجیب ہے بھلا دو دن میں کیسے اس کی بیوی کو یہاں لا سکتی ہوں میں۔ عجیب ہی باتیں کرتا ہے۔"
وہ کہتی ہوئی آئینے کے سامنے آ گئی۔
سنگھار میز سے لپ اسٹک اٹھائی اور تراشیدہ ہونٹوں پر لگانے لگی۔
~~~~~~~~
"نجمہ تم خود سوچو وہ اتنے امیر لوگ انہیں کہاں ہمارا گھر پسند آےُ گا؟"
شہناز ہکا بکا سی اسے دیکھ رہی تھی۔
"وہ کہتے ہیں لڑکی ہماری پسند کی ہونی چائیے گھر سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں... "
اس نے دو ٹوک بات کی۔
"لیکن پھر بھی... لڑکے میں کوئی عیب تو نہیں؟ یہ امیر لوگ کہاں ہم جیسوں کی بیٹیوں کو بہو بناتے ہیں؟"
وہ ماننے پر تیار نہ تھی۔
"تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا ہے یا نہیں بتاؤ؟ ایسا سونے جیسا رشتہ دوبارہ کبھی نہیں ملے گا... "
وہ منہ بسورتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"آپ لے آنا لڑکے والوں کو... "
شہناز کی بجاےُ مریم بولی۔
"بہت سمجھدار بچی ہے تمہاری... چلو میں چلتی ہوں پھر فون کر دوں گی۔"
وہ چہکتی ہوئی دروازے کی جانب چل دی۔
"مریم تم نے کیوں؟"
وہ گردن گھما کر عقب میں دیکھنے لگی۔
"امی دیکھ لینے میں کیا حرج ہے؟ ہو سکتا ہے اس کے نصیب میں یہی لکھا ہو۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی... "
ان کا دل مطمئن نہیں تھا۔
"آپ رانیہ کی مالش کر دیں... مجھے اور بھی کام ہیں۔"
مریم نے ان کا دھیان ہٹانا چاہا۔
"لاؤ بھئ میری گڑیا کو... "
وہ رانیہ کو گود میں بٹھاتی ہوئی بولیں۔
مریم مسکرا کر انہیں دیکھتی برآمدے کو عبور کرتی بڑے کمرے میں آ گئی۔
~~~~~~~~
"کون رشتہ دیکھنے آ رہے ہیں؟"
سلمان صاحب صحن میں بچھی چارپائی پر براجمان ہوتے ہوۓ بولے۔
وہ آج ہی دوسرے شہر سے آےُ تھے۔
"نجمہ بتا رہی تھی ایک رشتہ ہے بڑا اچھا... اپنی جنت کے لیے۔"
وہ رک کر انہیں دیکھنے لگیں۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگے۔
"باجی نہیں آئیں دوبارہ؟ یا کوئی فون؟"
وہ پرسوچ انداز میں بولے۔
"جب جواب دے دیا تو اب کیوں فون کریں گیں وہ... "
شہناز منہ بناتی ہوئی بولی۔
"اچھا ہوا کبیر بھی آ گیا... آج جنت کو دیکھنے لڑکے والے آ رہے ہیں...."
"کون؟"
وہ کہتا ہوا سلمان صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"ہے کوئی بڑی فیملی.. کافی امیر لوگ ہیں۔ ہاں وہ جو تیمور گھی ملز ہے نہ؟ وہی ہیں۔"
وہ دماغ پر زور ڈالتی ہوئی بولی۔
"اماں عقل کو ہاتھ ڈالو وہ ہمارے گھر کیوں آئیں گے؟ اور یہاں رشتہ کریں گے؟ کوئی جوڑ بنتا ہے؟"
وہ برہم ہوا۔
"اچھا دیکھ لینے میں کوئی برائی نہیں... اگر تمہاری ماں کہہ رہی ہے تو پوری کر لینے دو اسے اپنی خواہش... "
وہ کبیر کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
"جنت کہاں ہے؟"
وہ متلاشی نگاہوں سے برآمدے کو دیکھ رہا تھا۔
"مریم کے ساتھ ہی ہے... "
وہ اداسی سے بولیں۔
"ٹھیک ہے وہ؟"
لہجے میں فکر عیاں تھی۔
"ہاں ٹھیک ہی ہے... تم جانتے ہو نہ اس گھر میں سب سے بڑا دل اسی کا ہے۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"جنت روٹی لے کر آؤ... "
کبیر بلند آواز میں بولا۔
"نماز پڑھ رہی ہے جنت... انتظار کر لو۔"
یہ مریم کی آواز تھی۔
"پانی تو پلا دیں آپ... "
وہ شہناز کو دیکھتا ہوا بولا۔
"اچھا میں دیتی ہوں... "
وہ کہتی ہوئی چارپائی سے اتر کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔
~~~~~~~~
"ہماری گاڑی چلی جاےُ گی ان کے گھر تک؟"
وہ گردن گھما کر عظمی کو دیکھتا ہوا بولا۔
"ہاں نجمہ بتا رہی تھی گلی کشادہ ہے... میں فون کرتی ہوں اسے۔"
وہ کلچ سے فون نکالتی ہوئی بولی۔
"ہری اپ... (جلدی کریں)"
وہ ناگواری سے کہتا سامنے سڑک کو دیکھنے لگا۔
سپیڈ اس نے کم کر دی۔
"تم کہاں ہو نجمہ؟ ہاں ہم اسی سڑک پر ہیں۔ اچھا آؤ پھر..."
کہہ کر فون بند کر دیا۔
زمان انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
"وہ پیچھے ہے آ رہی ہے... پھر راستہ بتا دے گی۔"
عظمی نے مسکرا کر تلخی کم کرنی چاہی۔
"لڑکے والے آتے ہی ہوں گے تمہارے کام ختم ہوۓ کہ نہیں... "
وہ کچن میں آتی مریم سے مخاطب تھیں۔
"جی امی بس سمجھیں سب تیار ہے۔"
وہ تیز تیز ہاتھ چلاتی ہوئی بولی۔
"جنت تم تیار نہیں ہوئی ابھی تک؟"
وہ ششدر سی بولیں۔
"اس شرارتی کو پکڑیں آپ مجھے تیار نہیں ہونے دے رہا...."
وہ حسن کو گھورتی ہوئی بولی جو اس کی گود میں تھا۔
"خالہ کو تنگ نہیں کرتے کتنی بار کہا ہے... "
مریم برہمی سے بولی۔
"بچہ ہے کیا سمجھ اسے... لاؤ مجھے پکڑا دو اور جلدی کرو کسی بھی وقت آتے ہوں گے وہ لوگ۔"
وہ متفکر سی بولیں۔
"جی اچھا... "
وہ کہتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
"تم اسے سنبھالو میں دیکھوں دروازے پر دستک ہوئی ہے..."
وہ حسن کو سلیب پر بٹھاتی باہر نکل گئیں۔
اس سے قبل کبیر دروازہ کھول چکا تھا۔
"السلام علیکم!"
شہناز آگے آتی ہوئی بولی۔
"وعلیکم السلام! "
عظمی تنقیدی نگاہوں سے گھر کا جائزہ لیتی ہوئی بولی۔
نجمہ تعارف کروانے لگی۔
زمان کو دیکھ کر کبیر کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
شہناز انہیں لئے کمرے میں آ گئی۔
یہ چھوٹا سا مگر نفاست سے سیٹ کیا گیا ڈرائینگ روم تھا۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی صوفے پڑے تھے جن کے وسط میں ایک ٹیبل پڑا تھا۔
دیواریں لائٹ پنک کلر کی تھیں۔
عظمی منہ بسورے گرد و پیش میں نگاہ ڈال رہی تھی اس کے بر عکس زمان چہرے پر سنجیدگی طاری کئے بیٹھا تھا۔
سلمان صاحب حال احوال دریافت کر کے خاموش ہو چکے تھے۔
"امی یہ ہمارے گھر میں کب سے ہونے لگا؟"
کبیر سخت خفا دکھائی دے رہا تھا۔
شہناز اس کی بات کا مفہوم سمجھ چکی تھی۔
"بعد میں بات کرتے ہیں ابھی یہ مناسب وقت نہیں۔"
وہ اس کا شانہ تھپتھپاتی جنت کے پاس آ گئی۔
"چلو آؤ... "
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
مریم کمرے میں ہی تھی جو کہ شہناز بیگم کی ہدایت تھی اور وہ خود بھی جانتی تھی اس کے پس منظر میں پوشیدہ حکمت۔
جنت ٹرے لئے کمرے میں آ گئی۔
زمان آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔
وہ کاٹن کی پرنٹ شرٹ کے ساتھ پلین لیمن کلر کی کیپری پہنے ہوۓ تھی۔ سر پر لیمن کلر کا سادہ ریشمی دوپٹہ تھا۔
ہونٹوں پر لائٹ سی پنک کلر کی لپ اسٹک اس کے گندمی رنگ کو پرکشش بنا رہی تھی۔
لوازمات میز پر رکھ کر وہ سلمان صاحب کے ہمراہ بیٹھ گئی۔
سر جھکا ہوا تھا لیکن چہرے پر ہچکچاہٹ نہ تھی۔
"کیا کرتی ہیں آپ؟"
زمان کی جانب سے سوال آیا۔
"ایم۔ اے کر چکی ہوں۔"
وہ چہرہ کو ذرا سا اٹھا کر بولی یوں کہ وہ اسے دیکھ سکے۔
"جنت کو کھانا بنانا،سب آتا ہے... "
شہناز عظمی کو دیکھتی ہوئی بولی جو خاموش تھی۔
"کھانا بنانے کے لیے ہمارے گھر شیف موجود ہیں اس کی ضرورت نہیں رائٹ مام؟"
وہ نگاہیں ترچھی کئے عظمی کو دیکھتا ہوا بولا۔
"بلکل۔ لڑکی فرمانبردار ہونی چائیے بس۔"
وہ جبراً مسکرائی۔
"ہمیں جنت بہت فرمانبردار ہے۔ جس رنگ میں کہیں گے ڈھل جاےُ گی۔"
شہناز مسکراتی ہوئی بولی۔
"ٹھیک ہے ہمیں لڑکی پسند ہے... شادی ایک ہفتے کے اندر ہوگی۔ آپ کو ہمارا گھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ رائٹ؟"
وہ سلمان صاحب کو دیکھتا ہوا بولا۔
"لیکن ہمیں سوچنے کے لیے وقت درکار ہے اور اتنی جلدی شادی کیسے؟ ہم نے کوئی تیاری بھی نہیں کی... "
یکدم وہ پریشان ہو گئے۔
جنت نے نگاہ اٹھا کر پھر سے اس انسان کو دیکھا جس نے پل بھر میں یہ فیصلہ لیا تھا۔
وہ لمحوں میں فیصلہ لینے والوں میں سے تھا۔
گرے کلر کا فور پیس پہنے ہوۓ ، شیو بڑھی ہوئی،بھوری گہری آنکھیں، بال جیل لگا کر سیٹ کر رکھے تھے۔ وہ ایک پرکشش شخصیت کا حامل تھا۔
"ہمیں جہیز یا کوئی چیز نہیں چائیے...نہ ہی ہمارے گھر میں کمی ہے۔ آپ بس اتنا کریں کہ اچھا سا ریسٹورنٹ بک کروا لیں بارات کے لئے... باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔"
وہ قطعیت سے بولا۔
"وہ تو ٹھیک ہے لیکن... "
"میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے لیکن پھر بھی کل تک کا ٹائم ہے سوچ لیں۔"
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
عظمی بھی کھڑی ہو گئی۔
"آپ کچھ لیں تو... "
شہناز گڑبڑا کر بولی۔
"بہن روز ایسے رشتے نہیں ملتے... میرے بیٹے نے وقت دے دیا ہے تو سوچ لو۔"
وہ کہتی ہوئی زمان کے پیچھے باہر نکل گئی۔
"ارے تم پریشان کیوں ہو رہی ہو؟ تمہاری جنت کو پسند کر لیا ہے انہوں نے یہ تو خوشی کی بات ہے... "
نجمہ اسے گلے لگاتی ہوئی بولی۔
"تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا وہ بیٹے کے ہمراہ آئے گی؟"
سلمان صاحب خفگی سے بولے۔
"مجھے لگا دیکھنا ہی ہے... اب آپ جانتے ہیں وہ بڑے لوگ ایسے ہی کرتے ہیں۔"
وہ سادگی سے بولیں۔
"جاؤ بیٹا کمرے میں... "
وہ جنت کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
"تم نے انہیں بتایا ہے جنت کی منگنی کے متعلق؟"
سلمان صاحب کھڑے ہوتے ہوۓ بولے۔
"جی بھائی صاحب ایک ایک چیز واضح کرکے بتائی ہے۔ کچھ نہیں چھپایا... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"سوچ کر جواب دے دیں گے... اگر کوئی ہم جیسے لوگوں کا رشتہ ہو تو وہ بھی دکھاؤ۔"
وہ کہتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گئے۔
"شہناز میں بتا رہی ہوں یہ سنہری موقع ہاتھ سے مت گنوا دینا تم...."
نجمہ نے سرگوشی کی۔
"ٹھیک کہہ رہی ہوں... آج کل لوگوں کے دماغ اتنے خراب ہیں اچھی بھلی لڑکی میں نقص نکال جاتے ہیں اور انہیں تو جنت پسند آ گئی ہے۔"
وہ پرسوچ انداز میں بولیں۔
"اچھا بیٹھو ویسے میرے پاس ایک اور رشتہ ہے لڑکا جوس کی کمپنی میں کمپیوٹر کا کام کرتا ہے گھر بار بھی ٹھیک ہے میں جانتی ہوں اچھے لوگ ہیں..."
وہ صوفے پر بیٹھ کر بوتل پینے لگی۔
"فیملی بڑی ہے؟ اور گھر وغیرہ؟"
شہناز کہتی ہوئی بیٹھ گئی۔
"نہیں نہیں چھوٹی سی فیملی ہے ایک بہن ایک بھائی۔ اور گھر بھی اچھا ہے کوٹھی اسٹائل میں بنایا ہے... "
وہ پرجوش انداز میں بول رہی تھی۔
"اچھا پھر ایسا کرنا کل بلا لو انہیں.... لڑکے کی تصویر ہے تمہارے پاس؟"
یکدم ان کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
"ہاں ہاں یہ دیکھو,, اونچا,لمبا قد، صحت مند ہے... "
وہ پرس سے تصویریں نکالنے لگی۔
"کون سی تھی؟"
وہ آنکھیں چھوٹی کیے تلاش رہی تھی۔
"ہاں یہ دیکھو یہ ہے... "
وہ تصویر آگے کرتی ہوئی بولی۔
"لیکن اس کی عمر تو بہت زیادہ لگ رہی ہے... "
ان کا منہ بن گیا۔
"لو جی... سیانے کہتے شوہر عمر میں بڑا ہی ہو تو صحیح رہتا ہے اب میرا دیکھ لو آٹھ سال کا فرق ہے۔"
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
"لیکن میری جنت تو ہلکی عمر کی ہے... پچھلے سال تو اس کا ایم اے پورا ہوا ہے..."
وہ ناخوش تھی۔
"اب بتاؤ دیکھنا ہے یا کسی اور کو دکھا دوں؟"
وہ بگڑ کر بولی۔
"تمہیں فون کرتی ہوں میں جنت کے ابو سے مشورہ کر کے..."
وہ تصویر اپنے پاس رکھتی ہوئی بولیں۔
"اچھا رات ہی کر دینا تاکہ میں لڑکے والوں کو بھی آگاہ کر دوں۔"
وہ سموسہ اٹھاتی کھڑی ہو گئی۔
"ہاں بتا دوں گی... "
وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
جنت اندھیرا کئے بیڈ پر لیٹی تھی۔
"کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو؟"
مریم لائٹ آن کرتی ہوئی بولی۔
"کچھ نہیں بس ایسے ہی... "
وہ بولتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔
"کیسا تھا لڑکا؟ امی کو تو بہت پسند آیا ہے ابو کو قائل کر رہی ہیں۔"
وہ رانیہ کو اٹھاےُ اس کے پاس آ گئی۔
"بد دماغ سا لگ رہا تھا۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"مطلب ہینڈسم ہوگا... "
مریم اندازے لگانے لگی۔
"حسن کہاں ہے؟"
وہ رانیہ کے گال کھینچتی ہوئی بولی۔
"ابو کے پاس ہے... ہاں امی بتا رہی تھی کل کے لئے نیا سوٹ استری کر لینا۔ لڑکے والوں نے آنا ہے۔"
وہ رانیہ کو بیڈ پر بٹھاتی خود بیڈ سے اتر گئی۔
"کیا آپی روز روز تیار ہو کر چلے جاؤ... مجھے نہیں پسند یہ سب۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"کیا کر سکتے ہیں؟ مجبوری ہے... "
وہ لاچاری سے بولی۔
"سب گندے ہیں نہ... کسی سے بات نہیں کرنی ہم نے۔"
وہ رانیہ سے مخاطب تھی۔
"میری مانو دعا کرو خالہ کا ہیرو آ جاےُ پھر میری اس جھنجھٹ سے جان بھی چھوٹ جاےُ گی... "
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
مریم جو الماری میں کپڑے رکھ رہی تھی گردن گھما کر مسکرانے لگی۔
رانیہ دونوں ہاتھ اٹھاےُ جنت کو دیکھ رہی تھی۔
"اب بولو آمین... "
وہ اس کے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتی ہوئی بولی۔
رانیہ کھلکھلاتے ہوۓ اسے دیکھنے لگی۔
"ﷲ کرے کسی ناول سے ہیرو نکل کر میری زندگی میں آ جاےُ... مغرور سا تھوڑا کھڑوس سا اور پیارا سا بھی... "
آخر میں اس کی آواز مدھم ہو گئی۔
"خدا کا خوف کرو... یہ جو کھڑوس ہیرو تم پڑھتی رہتی ہو نہ حقیقی زندگی میں بہت خوفناک ہوتے ہیں۔"
وہ جھرجھری لیتی ہوئی بولی۔
اسے اپنا وقت یاد آ گیا۔
"اوہ سوری... "
یکدم اسے احساس ہوا وہ کیا کہہ گئی۔
"چلو ہم سوتے ہیں... خالہ کو لوری سناؤ۔"
وہ رانیہ کو اپنے اوپر بٹھاتی ہوئی بولی۔
رانیہ آنکھیں بند کرتی اس کے چہرے پر اپنا سر رکھ کر لیٹ گئی۔
وہ مسکرانے لگی۔
~~~~~~~~
"کیا میں نے تمہیں بلایا؟"
وہ ڈرائینگ روم میں آتا ہوا بولا۔
"نہیں... "
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"کیا آنے سے پہلے تم نے کال کر کے پوچھا؟"
وہ سینے پر بازو باندھتا ہوا بولا۔
"نہیں..."
وہ عظمی کو دیکھتی ہوئی بولی جو اس کے عقب میں تھی۔
"تو پھر کیسے آئی یہاں؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"میری نئی نئی شادی ہوئی ہے تو کیا میں ملنے بھی نہیں آ سکتی؟"
وہ منہ بناتی ہوئی عظمی کے پاس آ گئی۔
"آ سکتی ہو لیکن اس طرح نہیں... "
وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ صوفے پر بیٹھ گیا۔
"مام دیکھیں بھائی کو... "
وہ روہانسی ہو گئی۔
"تمہیں معلوم ہے نہ پھر بنا بتاےُ کیوں آ گئی؟"
وہ خفگی سے بولیں۔
"اب واپس چلی جاؤں؟"
وہ دونوں کو گھورتی ہوئی بولی۔
"یس یو کین(ہاں تم جا سکتی ہو) "
"مام... "
وہ تقریباً چلائی۔
"ایسی کوئی بات نہیں جو تم چلا رہی ہو وہ کمرے میں جا رہا ہے اپنے... "
وہ اسے ساتھ لئے صوفے پر آ بیٹھیں۔
"تمہارا ہزبینڈ کہاں ہے؟"
زمان فون نکالتا ہوا بولا۔
"پتہ نہیں... "
وہ بے رخی سے بولی۔"
"واٹ؟"
اس نے جیسے سنا نہیں۔
عظمی ریحام کو گھورنے لگی۔
"آفس تھا وہ... "
ناچار اسے جواب دینا پڑا۔
"گڈ... "
وہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
"کہاں گئے تھے آپ دونوں؟"
وہ عظمی کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔
"زمان کے لئے رشتہ دیکھنے گئے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کیسے اس لڑکی کو ہاں کہہ دی زمان نے۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
"کس لڑکی کو مجھے تو بتائیں؟ اور سندس نہیں تھی تو مجھے لے جاتے ساتھ... "
وہ خفا ہوئی۔
عظمی نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔
"یو رئیلی تھینک!! وہ تمہیں لے کر جاتا وہاں؟"
"زراد کہاں ہے؟"
اس نے موضوع تغیر کرنا بہتر سمجھا۔
"گھر پر نہیں ہے؟"
عظمی بھنویں اچکا کر بولی۔
"مجھے تو نہیں ملا... "
وہ لاعملی ظاہر کرتی ہوئی بولی۔
"اپنے کمرے میں ہوگا۔ مل لو جا کر اس سے میں فریش ہو جاؤں... گندی سی سمیل تھی وہاں، نجانے کتنے جراثیم ہوں گے۔"
وہ ناگواری سے کہتی کھڑی ہو گئی۔
"آپ نے مجھے رشتے کے متعلق نہیں بتایا؟"
وہ بھی کھڑی ہو گئی۔
"سمجھ لو سڑک کے کسی بھکاری کا گھر تھا، لڑکی کو پسند کر لیا ہے زمان نے۔"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
"تو آپ منع کر دیتیں... "
وہ متحیر رہ گئی۔
"میں زمان کی تردید کر سکتی ہوں؟"
اس نے سوال داغا۔
"پھر اب؟"
وہ سمجھ کر بولی۔
"پھر کیا جو زمان کی پسند وہی میری پسند۔ بس میری بیٹے کی خواہش پوری ہو جاےُ...دعا کرنا لڑکی اس کی توقعات کے عین مطابق ہو۔ورنہ..."
وہ کہتی ہوئی قدم اٹھانے لگی۔
"نہیں بھی ہوئی تو بھائی اسے بنا لیں گے..."
وہ قہقہ لگاتی ان سے آگے نکل گئی۔
راہداری ختم ہوتے ہی سیڑھیاں تھیں۔
ریحام زینے چڑھتی اوپر آ گئی اور پہلے دروازے پر دستک دینے لگی۔
"ہوذ دئیر؟(کون ہے وہاں)"
کمرے سے زراد کی آواز آئی۔
"دروازہ تو کھولو... "
ریحام زور سے دروازہ بجاتی ہوئی بولی۔
"کیا میرے کمرے کا دروازہ توڑنے کا ارادہ رکھتی ہو تم؟"
وہ باہر آتا ہوا بولا۔
"ہرگز نہیں... "
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"تم نے کیا حال بنا رکھا ہے اپنا؟"
ایک نظر اس نے زراد کے سراپے پر ڈالی۔
بال بکھرے ہوۓ، شرٹ پینٹ سے باہر نکلی ہوئی، آدھی شرٹ کے بٹن کھلے تھے، بازو کے کف بھی بند نہیں تھے۔
اس کی ابتر حالت دیکھ کر ریحام کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"آرام کر رہا تھا لیکن تم نے قسم کھائی ہے مجھے سکون سے رہنے نہیں دو گی۔"
وہ منہ بسورتا ہوا چلنے لگا۔
"ہاں تو تم یہ مت سمجھو میں اس گھر سے چلی گئی تو اب تم جی بھر کر.... "
"اس گھر سے بھیج دیا تھا ہم نے تمہیں... پھر واپس کیا لینے آئی ہو؟"
وہ آنکھیں سکیڑتا ہوا دیکھنے لگا۔
"ہمیشہ کے لئے نہیں گئی۔ ایڈیٹ کبھی بھی آ سکتی ہوں۔"
جواب میں زراد کا قہقہ سنائی دیا۔
دونوں لاؤنج میں آ کر بیٹھ گئے۔
"زمان کے ہوتے ہوۓ تم یوں نہیں آ سکتی۔"
وہ ابھی تک ہنس رہا تھا۔
"جانتی ہوں... اور اچھی خاصی کروا کے آئی ہوں۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"تم بھی تو منہ اٹھا کر چلی آئی۔ انسان ایک فون ہی کر دیتا ہے... ایسا کرو اپنا فون نکال کر ٹیرس سے نیچے پھینک دو کیونکہ استعمال تو تمہیں کرنا نہیں۔"
وہ تمسخرانہ انداز میں بولا۔
"زراد اپنا منہ بند کر لو... "
وہ کشن اٹھا کر نشانہ بناتی ہوئی بولی لیکن زراد مہارت سے کیچ کر چکا تھا۔
"کون سی نئی مووی آئی ہے جو تم میرے ساتھ دیکھنے آئی ہو؟"
وہ ایل ای ڈی آن کرتا ہوا بولا۔
"دل کر رہا ہے تمہارے سر میں کچھ مار دوں۔"
وہ کاٹ کھانے والے نظروں سے گھور رہی تھی۔
"یار میں سموکنگ کر رہا تھا تم نے تنگ کر دیا مجھے...."
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"میں لے کر آتی ہوں تمہارے کمرے سے... مل کر پیتے ہیں۔"
وہ بائیں آنکھ کا کونا دباتی اٹھ گئی۔
زراد پینٹ کی جیب سے فون نکالتا انگلیاں چلانے لگا۔
~~~~~~~~
"پھر بتائیں کل بلا لو رشتے والوں کو؟"
شہناز تفصیل سے آگاہ کرتی انہیں دیکھنے لگی۔
"لیکن تم کہہ رہی لڑکے کی عمر زیادہ ہے۔"
ان کی پیشانی پر شکنیں بڑھنے لگیں۔
"جن لڑکوں کی عمر کم ہے وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔"
وہ متفکر سی بولیں۔
"بلا لو پھر... اگر پسند کر لیتے ہیں جنت کو پھر بات آگے بڑھائیں گے۔"
وہ کافی دیر بعد بولے۔
"اور وہ زمان تیمور کو کیا جواب دینا ہے؟"
وہ بےچینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولیں۔
"یہ رشتہ دیکھ لیں پھر اسی مناسبت سے انہیں جواب دیں گے۔ دیکھا جاےُ تو اتنا برا بھی نہیں... اور آےُ دن جنت کو غیر لوگوں کے سامنے بھیجنا مناسب بھی نہیں مزید بر آں جنت کی شخصیت پر بھی اثر پڑے گا۔"
وہ پرسوچ دکھائی دے رہے تھے۔
"درست کہہ رہے ہیں آپ۔ بار بار انکار سننا لڑکیوں کو متاثر کرتا ہے۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔
"صبح دیکھتے ہیں پھر تم بھی سو جاؤ۔ سویرے سے انہی کاموں میں لگی ہو۔"
وہ کہتے ہوۓ چلنے لگے۔
~~~~~~~~
"یہ سیٹنگ کس کے کہنے پر تم نے چینج کی تھی؟"
زمان کی بلند آواز لاؤنج میں گونج رہی تھی۔
"سر رات میں زراد صاحب نے کروائی تھی۔"
ملازم سر جھکاےُ کھڑا تھا۔
"میری اجازت کے بغیر تم نے کیسے چینج کی؟ بلا کر لاؤ زراد کو اب... "
وہ اسے دھکا دیتا ہوا بولا۔
ملازم ریلنگ سے نیچے گرتا گرتا بچا۔
سنبھل کر وہ زراد کے کمرے کی جانب چل دیا۔
"سب کو اپنی من مرضی کا شوق چڑھا ہے۔"
غصے سے چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔
بائیں ہاتھ پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتے اسے مزید کوفت ہو رہی تھی۔
انتظار سے اسے سخت نفرت تھی۔
"کیا ہو گیا ہے؟"
زراد آنکھیں مسلتا، جمائی روکتا ہوا وہاں آیا۔
"یہ سیٹنگ تم نے چینج کروائی ہے؟"
اس کا اشارہ لاؤنج میں پڑے صوفوں کی جانب تھا۔
"جی ہاں.. رات میں ریحام کے ساتھ مووی دیکھ رہا تھا میں۔"
وہ ابھی تک غنودگی میں تھا۔
آنکھیں بار بار بند ہو رہی تھی۔
"کتنی بار کہا ہے میری مرضی کے بغیر ایک چیز یہاں سے وہاں نہیں ہو سکتی؟ پھر تم نے کیوں چینج کروائی؟"
وہ زراد کو گریبان سے پکڑتا ہوا دھاڑا۔
نیند کا نشہ تو اب اترا تھا۔
وہ پوری آنکھیں کھولے زمان کو دیکھنے لگا جیسے صورتحال سمجھنے کی سعی کر رہا ہو۔
"وہ,, مجھے خیال نہیں رہا۔"
وہ وہ دائیں بائیں دیکھتا اس کا ہاتھ اپنی کالر سے ہٹاتا ہوا بولا۔
"اس کو واپس پہلے کی طرح کرو ورنہ تمہاری شکل نظر نہیں آےُ گی۔"
وہ ملازم کو جھنھوڑتا ہوا بولا۔
قہر آلود نگاہ زراد پر ڈالتا وہ راہداری میں چلنے لگا۔
"پتہ نہیں کب ان کی حکمرانی کرنے کی عادت ختم ہوگی؟..."
وہ بڑبڑاتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
~~~~~~~~
"آپی آج پھر سے تیار ہو کر ان کے سامنے جا کر بیٹھ جاؤں؟"
وہ منہ بناےُ آئینے کے سامنے بیٹھی تھی۔
"ظاہر سی بات ہے۔ جو اصول ہے زمانے کا اس پر عمل پرا تو ہونا پڑے گا نہ... "
وہ رانیہ کو کپڑے پہناتی بول رہی تھی۔
"ایسا لگتا ہے خود کو بیچ رہے ہیں کہ آؤ چیز پسند کرو اور لے جاؤ۔"
وہ سخت خفا دکھائی دے ہی تھی۔
"ہم اس دنیا اور اور اس کے بنے رواجوں کو تغیر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہاں اسی طرح اپنے گھر میں رہ کر احتجاج ضرور کر سکتے ہیں۔"
وہ لاچار دکھائی دے رہی تھی۔
"حماد تم واپس چلے جاؤ... "
باہر صحن سے آوازیں دیوار پھلانگ کر اندر آنے لگیں۔
"حماد کہا نہ؟"
جنت استفسار کرتی کھڑی ہو گئی۔
"جنت نہیں... "
مریم اس کا اراداہ بھانپ گئی۔
"فکر مت کریں ابو گھر پر ہیں آج۔ میرے بولنے کی نوبت نہیں آےُ گی۔"
وہ سپاٹ انداز میں کہتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
"انکل میں مریم کو ساتھ لیے بغیر نہیں جاؤں گا۔"
وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
"جا کر کسی مولوی سے معلوم کر لو کہ وہ اب تمہارے لئے حلال نہیں ہے..عقل کو ہاتھ ڈالو حماد بات وہی کرتے ہیں جو بن سکے۔ بنا سوچے سمجھے بولتے جا رہے ہو۔"
وہ طیش میں چلانے لگے۔
"اسی منحوس کی وجہ سے آج ہم دونوں الگ ہیں... "
اس نے تمام ملبہ جنت پر گرا دیا۔
"میری وجہ سے کیسے؟"
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تم نے ہی مریم کو بھڑکایا اور نوبت طلاق تک آ گئی۔ لیکن ایک طریقے ہے... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"بہتر ہوگا آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ اب کسی حل کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔"
وہ آنکھیں سکیڑے اسے گھورنے لگی۔
"کون سا طریقہ؟"
سلمان صاحب ضبط کرتے ہوۓ بولے۔
"حلالہ... "
وہ کہتا ہوا الٹے قدم اٹھانے لگا۔
"یا ﷲ اس احمق کو عقل دے.... "
وہ سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
حماد کے لب مسکرا رہے تھے جیسے اپنی جیت پر سرشاری میں مسکراتے ہیں۔
"ابھی جا رہا ہوں لیکن بہت جلد واپس آؤں گا۔"
وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا باہر نکل گیا۔
"جو تھوڑی بہت عقل اس کے پاس تھی وہ بھی مر گئی آج..."
سلمان صاحب ہنکار بھرتے ڈرائینگ روم میں چلے گئے۔
مریم چہرہ گھٹنوں پر رکھے بیٹھے تھی جب جنت واپس کمرے میں آئی۔
شاید وہ سن چکی تھی جو حماد کہہ کر گیا تھا۔
جنت کو اس پر ترس آ رہا تھا۔
کیسا ستم تھا قسمت کا؟ یہ صرف مریم جانتی تھی دوسرے تو صرف ہمدردی کر سکتے تھے۔
"تم ٹھیک ہو؟"
جنت اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
"ہاں... ابھی تک اس تنازعے کی عادت نہیں ہوئی۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
اس سب میں نقصان اگر کسی کا تھا تو وہ مریم کا ہو رہا تھا۔
"مجھے تیار کر دو چلو اٹھو... "
وہ اس کی پشت تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
"پانچ منٹ تک... "
مدھم سی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ مزید بنا کچھ کہے آئینے کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔
لڑکے کی ماں چہرے پر ناگواری سجاےُ نجمہ کو دیکھ رہی تھی۔
نجمہ ان کے اشارے پر گڑبڑاتی ہوئی ان کے بائیں جانب بیٹھ گئی۔
"تمہیں کہا تھا لڑکی کا قد چھ فٹ ہو... بھول گئی میرے بیٹے کا قد چھ فٹ ہے۔"
وہ خفگی سے دیکھتی کان میں سرگوشی کرنے لگی۔
"مجھے یاد ہے لیکن میں نے سوچا... "
"جیسا کہا ہے ویسا رشتہ دکھاؤ... "
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"ہم سوچ کر جواب دیں گے... "
وہ شہناز بیگم کو دیکھ کر کہتی باہر نکل گئی۔
خاوند اور بہو بھی اس کے پیچھے چل دئیے۔
"مجھے نہیں لگتا انہیں رشتہ پسند آیا ہے..."
سلمان صاحب صوفے سے ٹیک لگاتے ہوۓ بولے۔
"پسند آیا ہوتا تو چہرے پر کوئی تاثر بھی ہوتا۔"
جنت مایوسی سے کہتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
"کیا کہہ رہی تھی لڑکے کی ماں تمہیں؟"
شہناز پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگیں۔
"اس نے کہا تھا لڑکی کا قد چھ فٹ ہو اور اپنی جنت کا قد چھ فٹ نہیں اس لئے انکار کر دیا۔"
وہ تاسف سے بولی۔
"کیا ہوا؟"
مریم جنت کے چہرے پر بکھری آسودگی دیکھتی ہوئی بولی۔
"جو متوقع تھا..."
وہ دوپٹہ اتارتی ہوئی بولی۔
"مطلب تم نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ وہ پسند نہیں کریں گے....."
"نہیں پہلے سے نہیں... لیکن جب انہیں دیکھا تو اندازہ ہوگیا۔ آپی ہم لڑکیاں کیا کھلونے ہیں؟ کہ جو پسند آ گیا وہ لے لیا اور جو نہیں پسند اسے چھوڑ دیا۔"
وہ آنکھوں میں بڑھتی نمی کو چہرہ موڑ کر صاف کرنے لگی۔
"اسی ذلت سے بچانے کے عوض امی نے اپنوں میں رشتے کئے تاکہ ان کی بیٹیوں کو یہ ہتک آمیز رویے نہ جھیلنے پڑیں... خیر میں بات کرتی ہوں ابو سے۔"
وہ اس کا منہ تھپتھپاتی باہر نکل گئی۔
"یا ﷲ پلیز کوئی ذریعہ بنا دے۔ یہ ریجیکشن عجیب لگتے ہیں... احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں اور یوں لگ رہا جیسے اپنی نمائش کر رہی۔"
اب اس نے آنسوؤں کو بہنے دیا۔
"کچھ فیصلے کتنے تباہ کن ہوتے ہیں۔ لیکن نہیں میں مایوس نہیں ہوئی بس چاہتی ہوں جلدی سے یہ آزمائش اپنے اختتام کو پہنچ جاےُ۔"
آنسو تواتر کے ساتھ اس کے رخسار پر گرے رہے تھے۔
انہیں صاف کرتی وہ کپڑے نکالنے لگی۔
"ابو کیا میں کچھ کہہ سکتی ہوں؟"
وہ سر کو جھکاےُ بیٹھی تھی۔
"ہاں بیٹا اجازت کیوں لے رہی ہو؟"
وہ نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
مریم کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔
وہ انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتے اسے دیکھنے لگے۔
"ابو کل جو جنت کو پسند کر کے گئے ہیں آپ انہیں ہاں کر دیں۔ اپنوں کو تو آزما لیا اب غیروں کو آزما کر دیکھ لیں۔"
وہ چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی۔
"ابھی تمہاری امی یہاں سے اٹھ کر گئی ہیں تو ہم دونوں بھی اسی پر غور و فکر کر رہے تھے۔ بس ان کی حیثیت دیکھ کر دل کچھ گھبراتا ہے۔"
وہ الجھن کا شکار تھے۔
"آپ سب ﷲ پر چھوڑ دیں وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے جنت کے لئے یہی لکھا ہو۔ بہت دفعہ معمولی گھرانے کی لڑکی امیر گھرانے میں چلی جاتی ہے۔ یہ تو ﷲ کے کام ہے جو ہر شے پر قادر ہے۔"
وہ مدھم آواز میں بولتی انہیں سمجھانے لگی۔
"پھر ﷲ کے سپرد ہاں کر دیتے ہیں۔ بس ﷲ اس کے نصیب اچھے کرے۔"
وہ سانس خارج کرتے ہوۓ بولے۔
"آمین... "
وہ معدوم سا مسکرائی
"ہاں..... اچھا ٹھیک ہے میں زمان سے بات کرتی ہوں پھر تمہیں بتاؤں گی۔"
وہ کہتی ہوئی زمان کے کمرے کی جانب چلنے لگی۔
فون بند کر کے دروازہ ناک کرنے لگی۔
چند ساعتوں بعد زمان دروازہ کھول کر ان کے سامنے کھڑا تھا۔
"کوئی کام تھا؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"ہاں وہ جو لڑکی تم نے پسند کی تھی کیا نام تھا اس کا.... پتہ نہیں جو بھی نام تھا خیر۔ انہوں نے ہاں کر دی ہے اب آگے تم بتاؤ کیسے کرنا ہے سب؟"
وہ ساری بات اس کے گوش گزار کر کے اسے دیکھنے لگیں۔
"اندر آ جائیں... "
وہ کمرے میں داخل ہوتا ہوا بولا۔
وہ صوفے پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔
ایک منٹ بعد زمان نے زبان کھولی۔
"ایک ہفتے بعد ہم بارات لے کر جائیں گے انہیں بتا دیں۔ بارات میرے بتاےُ ہوۓ ریسٹورنٹ میں ہوگی۔ مینیو بھی میں ڈیسائیڈ کروں گا اور ایک بات کا خاص خیال رکھا جاےُ مجھے جہیز میں ایک چیز بھی نظر نہ آےُ۔ جنت کو جس چیز کی ضرورت ہوگی میں مہیا کروں گی لیکن وہاں سے کچھ لانے کی ضرورت نہیں... "
چہرے پر بلا کی سختی تھی۔
شاید وہ ہمیشہ ہی سنجیدہ رہتا تھا۔
"اچھا اور؟"
وہ جیسے اس کے حکم نامے سننے کی عادی تھی۔
" انہیں کہیے گا بس ایک فنکشن اچھے سے کر لیں باقی کوئی خرچا نہیں ہوگا ان کا۔ اور فنکشن کمبائن ہونا چائیے۔ بارات کا ڈریس بھی میری طرف سے ہوگا۔"
وہ صوفے کی پشت پر بازو پھیلاےُ بیٹھا تھا۔
"ٹھیک ہے میں کہہ دوں گی اس کے علاوہ کچھ؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولی۔
"نہیں بس یہی....کوشش کریں کہ ہر چیز میری مرضی کے مطابق ہو ورنہ آپ جانتی ہیں۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"ہاں مجھے علم ہے۔ مہمان تو ہمارے بھی مختصر ہوں گے تو انہیں بھی کہہ دوں گی کہ چند ایک مہمان ہی لائیں ولیمے میں... "
وہ کچھ سوچ کر بولی۔
"آپ سے کس نے کہا ہمارے مہمان مختصر ہوں گے؟"
وہ ٹیک چھوڑتا آگے کو ہوا۔
چہرے پر غیض نمایاں تھا۔
"ایسے ہی لگا مجھے... "
وہ لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگی۔
"ہمارے مہمان ہرگز مختصر نہیں ہوں گے۔ اب جا سکتی ہیں آپ... "
وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہاتھ سے دروازے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئیں۔
دروازہ بند ہو چکا تھا۔
اب کمرے میں زمان اور اس کی تنہائی تھی۔
کچھ سوچ کر اس نے ٹیبل سے سیگرٹ اٹھائی اور لائٹر نکال کر جلانے لگا۔
سرمئی دھواں اس کے گلابی لبوں سے آزادی حاصل کرتا ہوا میں بکھرتا جا رہا تھا۔
~~~~~~~~
"یہ کیا عجیب سی شرطیں رکھ دی ہیں انہوں نے؟"
کبیر کہے بنا رہ نہ سکا۔
"عجیب ہمارے لئے ہیں کیونکہ ان کے اور ہمارے بیچ ایک بہت واضح فرق ہے۔ وہ صرف اپنی کلاس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔"
مریم جو کافی دیر سے خاموش بیٹھی تھی بول پڑی۔
"ایک ہفتہ تو یونہی گزر جاتا ہے... "
شہناز متفکر سی بولی۔
"امی ہمیں کون سا تیاری کرنی ہے؟ بارات کا سوٹ بھی وہیں بھیجیں گے تو فکر کیوں کر رہی ہیں؟"
مریم ان کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
"ہاں کیونکہ ہماری چیزیں تو انہیں پسند نہیں آئیں گیں۔"
وہ تلخی سے بولا۔
"خیر اب تمہاری پھوپھو کو بھی جواب مل جاےُ گا۔ ہماری جنت کو ٹھکرایا تھا نہ دیکھو ﷲ نے کتنی جلدی اتنا اچھا رشتہ بھیج دیا۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
جنت پرسکون سی جاےُ نماز اٹھا رہی تھی۔
"چلو اچھا ہوا امی کی پریشانیوں میں کچھ تو کمی ہوئی۔"
ساتھ والے کمرے سے آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔
وہ رسالہ اٹھا کر بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
"تو مسٹر زمان تیمور دیکھتے ہیں آپ کیسے مزاج کے مالک ہیں۔ ہینڈسم تو ہیں کھڑوس سے بھی... "
وہ اپنے تبصرے پر خود ہی مسکرا دی۔
"ایک ہفتہ اور زندگی بلکل بدل جاےُ گی۔ جنت سلمان سے جنت زمان بن جاؤں گی میں... "
وہ رسالہ سینے پر رکھے بول رہی تھی۔
کمرے میں نیم تاریکی تھی۔
"خیر آپ کو سوچنے کے لیے اب پوری زندگی باقی ہے... ابھی تو میں اپنا ناول مکمل کروں۔"
وہ مسکراتی ہوئی رسالہ کھولنے لگی۔
"جنت تمہاری نظر کمزور ہو جاےُ گی... یہ کوئی طریقہ ہے پڑھنے کا؟"
مریم کمرے میں آتی برہمی سے گویا ہوئی۔
"امی کو معلوم ہوگیا نہ تو بس میری کلاس لینے بیٹھ جائیں گیں۔"
وہ مدھم آواز میں بولی۔
"جانتی ہوں... اکثر رات میں میری آنکھ کھلتی ہے اور تم رسالہ لئے بیٹھی ہوتی ہو..."
وہ حسن کو اس کی گود میں بٹھاتی خفگی سے بولی۔
"یہ ناولز کا مزہ تم کیا جانو... "
وہ حسن کے گال پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔
"یہ نشہ کرنا بھی نہیں چاہتی میں۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی کمرے میں بکھرا سامان سمیٹنے لگی۔
"میں تو کہتی ہو تم بھی پڑھا کرو... وہ زندگی بہت زبردست ہے۔ تھوڑی سی نوک جھوک اور بے تحاشا محبت...."
وہ اپنی موجودہ کہانی کو سوچتی ہوئی بول رہی تھی۔
"آس دنیا میں رہنا چھوڑ دو... حقیقی زندگی بہت تلخ ہوتی ہے، ایسا کچھ نہیں ہوتا۔یہ تو خود سے بنائی گئی کہانیاں ہیں اچھی تو لگیں گیں۔"
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی تلخ ہو گئی۔
"دیکھنا ایک دن بہت اچھا شوہر ملے گا تمہیں... میری دعا ہے ﷲ سے۔ اور وہ کسی کی دعا رد نہیں کرتا.. ہیں نہ حسن؟"
وہ حسن کو شامل کرتی ہوئی بولی۔
"اسے سلا دو تم میں رانیہ کو دیکھ لوں امی کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں... "
وہ اس موضوع سے کتراتی تھی اس لئے فوراً باہر نکل گئی۔
"تمہاری ماما بھی نہ... "
وہ گول مٹول سے حسن کو دیکھتی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~
وقت پنکھ لگاےُ اڑ رہا تھا۔ آج جنت کی مہندی کی تقریب کی تیاری ہو رہی تھی۔
مہندی کا جوڑا اور باقی سامان آ چکا تھا سسرال سے۔ جنہیں لئے جنت پارلر کا چکی تھی۔
سب یہاں سے وہاں بھاگ رہے تھے۔
"جلدی کر لو ٹائم دیکھو ذرا... "
شہناز بیگم تیار کھڑی تھیں۔
"امی بس رانیہ کو تیار کر رہی ہوں پانچ منٹ رک جائیں۔"
مریم تقریباً چلائی۔
شہناز صحن میں کھڑی تھیں۔
"امی ہم چلتے ہیں مریم کو کبیر لے آےُ گا۔"
عائشہ اپنے بچوں کو لئے بڑے کمرے سے نکلی۔
"ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔مہمان بھی آنے والے ہوں گے اچھا نہیں لگتا اگر میزبان خود ہی موجود نہ ہوں... "
وہ خفا انداز میں بولیں۔
"مریم تم کبیر کے ساتھ آجانا ٹھیک ہے... "
وہ کمرے میں داخل ہوتی ہوئی بولی۔
"اچھا ٹھیک ہے اور جنت کب تک فارغ ہوگی پارلر سے؟ فون کیا اسے؟"
وہ حسن کے بالوں میں برش چلاتی ہوئی بولی۔
"نہیں میں کرتی ہوں ابھی... "
وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔
"چلیں بھئی اب تیاری نہیں ہو رہی آپ لوگوں کی؟"
سلمان صاحب کلف لگے سفید رنگ کا شلوار قمیض پہنے ہوۓ تھے۔ سر کے آدھے بال سیاہ اور آدھے سفید تھے۔
"جی جی چلیں...."
شہناز چادر سر پر اوڑھتی ہوئی بولی۔
"چلو بچوں... "
عائشہ کہتی ہوئی ان کے ہمراہ نکل گئی۔
"اتنے امیر لوگوں میں کیسے رشتہ کر لیا انہوں نے؟"
سکینہ جنت کی چاچی سے بات کر رہی تھیں۔
"کیا معلوم باجی... مجھے تو لگا تھا اب رشتہ نہیں ہوگا اس کا لیکن انہوں نے تو چٹ منگنی پٹ بیاہ والا کام کیا۔"
وہ منہ پر انگلی رکھے سٹیج پر بیٹھی جنت کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔
مہندی کی تقریب گلی میں ٹینٹ وغیرہ لگا کر کی گئی تھی۔
سٹیج کے سامنے کرسیاں اور ٹیبل لگاےُ گئے تھے۔
سٹیج پر پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔
جنت سر اوپر اٹھاےُ مسکراتے ہوۓ مریم سے بات کر رہی تھی۔
~~~~~~~~
"کنگراچولیشن میرے بھائی...."
سندس اس سے گلے ملتی ہوئی بولی۔
"تھینک یو... لیکن تم لیٹ ہو۔ میں نے کہا تھا چھ بجے تم یہاں نظر آؤں۔"
وہ خفا انداز میں بولا۔
"فلائٹ کا ٹائم میں نے تمہیں ٹیکسٹ کر دیا تھا... تم نے میسج نہیں پڑھا اب اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"اچھا....ہوسکتا ہے.... مام چلی گئیں؟"
وہ شال کندھے پر رکھتا ہوا بولا۔
"ہاں... فنکشن کمبائن کیوں نہیں کیا تم نے؟"
وہ متجسس سی بولی۔
"جیسے مجھے مناسب لگا۔"
وہ کھردرے پن سے کہتا والٹ اٹھانے لگا۔
سندس اس کے ساتھ ریسٹورنٹ پہنچی۔
اندر آتے ہی زمان کا پارہ ہائی ہو گیا۔
ڈیکوریشن ویسی نہیں تھی جیسے اس نے کہی تھی۔
"واٹ دا ہیل از دس؟"
وہ ریحام کو گھورتا ہوا بولا۔
"واٹ ہیپنڈ؟"
وہ گھبرا کر کبھی سندس کو دیکھتی تو کبھی زمان کو۔
"یہ سب کس نے کیا؟ کہاں ہے ویڈنگ پلینر..."
دھیرے دھیرے اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
"مام... "
ریحام حیران پریشان سی عظمی کی جانب بڑھ گئی۔
"جب میں نے تمہیں بتایا تھا ڈیکوریشن کیسے کرنی ہے تو تم نے اپنی مرضی کیوں کی؟"
وہ اسے گریبان سے پکڑتا ہوا بولا۔
"سوری سر... وہ صوفے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔"
وہ سر جھکاےُ نادم تھا۔
"تمہاری مہندی تھی؟"
وہ غصے میں دھاڑا۔
"نو سر... "
"زمان ریلیکس... سب دیکھ رہے ہیں کل تمہاری شادی ہے کیا تاثر ملے گا سب کو؟"
عظمی بوکھلائی سی اس کے پاس آ گئی۔
اس نے ایک سرد نگاہ ان پر ڈالی پھر کچھ سوچ کر اسے دور دھکیل دیا۔
"یو آؤٹ... آئی ویل ہائر سم ون ایلز (میں کسی اور کو ہائر کر لوں گا) "
وہ آگ بگولہ ہوتا ہوا بولا۔
"میں جا رہا ہوں... "
وہ کہتا ہوا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
"زمان میری بات سنو... دیکھو سب مہمان ، تمہارے دوست ، بزنس پاٹنر موجود ہیں یہاں تم چلے جاؤ گے تو فنکشن کیسے کریں گے؟"
وہ اس کی راہ میں حائل ہوتی ہوئی بولی۔
"میری بات کی کیسے کوئی تردید کر سکتا ہے؟"
وہ چبا چبا کر بولا۔
"یہ تو پلینر کی غلطی ہے نہ تم پلیز ریلیکس ہو جاؤ ہم ابھی چینج کروا دیتے ہیں جیسے تم چاہو گے... "
وہ اسے بازوؤں سے پکڑتی ہوئی بولیں۔
"میں ویٹنگ روم میں بیٹھا ہوں تب تک اسے ٹھیک کروائیں۔ مجھے بلکل نہیں پسند یہ سب آپ اچھے سے جانتی ہیں۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا چلنے لگا۔
"زراد سیگرٹ لیتے آؤ... "
وہ زراد کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہتا چلنے لگا۔
وہ جو کسی دوست کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا تعجب سے اپنی فیملی کو دیکھنے لگا جن کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔
"ایکسکیوز می... "
وہ مسکراتا ہوا عظمی کے پاس آ گیا۔
"اب کیا ہو گیا زمان صاحب کو؟"
وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
"وہ ایڈیٹ پلینر ڈیکوریشن چینج کر دی اس نے... اب زمان کا غصہ ساتویں آسمان پر۔ اتنی مشکل سے ٹھنڈا کیا ہے اسے۔"
وہ ٹیشو پر پیشانی صاف کرتی ہوئی بولیں۔
ائیر کنڈیشنر ہال کے باوجود پیشانی پر پسینے کی بوندیں تھیں۔
"مجھے سیگرٹ کا بول کر گئے ہیں... "
وہ رک کر سندس کو دیکھنے لگا۔
"مجھ سے بعد میں ملنا پہلے اپنے بھائی کو سیگرٹ دے آؤ ورنہ تمہاری بھی خیر نہیں.."
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"آ کر گپ شپ کرتا ہوں آپ سے... "
وہ اس کے گلے لگتا ہوا بولا۔
"ریحام جا کر پتہ کرو پلینر سے زمان نے کیا کہا تھا اسے... واپس سے سب چینج کرواؤ۔"
وہ فون نکالتی ہوئی بولی۔
ریحام منہ بسورتی چل دی۔
زراد جیب سے سیگرٹ نکالتا ویٹنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔
"یہ لیں... "
وہ اس کی جانب سیگرٹ اور لائٹر بڑھاتا ہوا بولا۔
زمان چہرے پر دنیا جہاں کی بیزاری سجاےُ سموکنگ کرنے لگا۔
"میں جاؤں؟"
وہ چند لمحے کسی حکم کے انتظار میں کھڑا تھا۔
"ہاں اور اسے بھیجو میرے پاس میں ذرا مینیو چیک کروں... "
وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ آرام دہ انداز میں بیٹھا تھا۔
"اچھا... "
وہ سانس خارج کرتا باہر نکل گیا۔
"اگر یہاں بھی کوئی غلطی نکل آئی پھر تو یہ مہندی مشکل سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گی۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا چلنے لگا۔
~~~~~~~~
جنت چھوٹے کمرے میں تنہا بیٹھی تھی۔
تواتر آنسو بہہ رہے تھے۔
"جنت؟"
شہناز پکارتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
بڑے کمرے میں مہمان اور باقی گھر کے افراد ہلا غلا کر رہے تھے۔
"جی امی... "
وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
آواز بھرائی ہوئی تھی۔
"بیٹا آج کچھ باتیں سمجھانا چاہتی ہوں تمہیں... "
وہ اس کے ہمراہ زمین پر ہی بیٹھ گئیں۔
"کون سی باتیں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔
"اپنی ماں سے وعدہ کرو کچھ بھی ہو جاےُ اپنا گھر نہیں ٹوٹنے دو گی تم... جو آوازیں تم یہاں حق کے لیے اٹھاتی ہو وہاں ایسا نہیں کرو گی۔"
وہ ہاتھ پھیلاےُ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
چند لحظے وہ انہیں دیکھتی رہی پھر کچھ سوچ کر اپنا دائیاں ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
"وعدہ کرتی ہوں امی... "
وہ بغور ان کا چہرہ دیکھتی ہوئی بولی۔
"جنت اُس گھر سے تمہارا جنازہ ہی اٹھے۔ اس گھر کے دروازے تم پر تب تک کھلے ہیں جب تک تم اپنے شوہر کے ساتھ رہو گی۔ اپنے ماں باپ کو مزید رسوا مت کرنا۔ میری تربیت پر انگلیاں مت اٹھنے دینا۔ سب کہتے ہیں کہ میری ترتبیت میں کوئی کمی ہوگی جس کی وجہ سے میری بچیاں اپنا گھر بسا نہیں رہیں۔"
وہ دوپٹے سے آنکھیں رگڑنے لگیں۔
"امی آپ بے فکر رہیں.... آپ کو کسی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ جس گھر میں آپ مجھے بھیج رہی ہیں اسے ہرگز نہیں چھوڑوں گی چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔"
وہ ان کے ہاتھ پکڑے بول رہی تھی۔
آنسو پلکوں کی باڑ سے ان کے ہاتھ پر آگرے۔
انہوں نے جنت کو سینے سے لگا لیا۔
"مجھے پورا بھروسہ ہے اپنی جنت پر... "
آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہو گیا۔
"چلو بس... اب تم آرام کرو یہاں بیٹھی کیا سوچ رہی تھی؟"
وہ اسے خود سے الگ کرتی ہوئی بولیں۔
"بس یہی سوچ رہی تھی اس گھر کو چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ کتنا عجیب لگتا ہے نہ امی... ایک نئی جگہ جانا۔"
وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔
"یہ دن تو سب پر آتا ہے.. مجھے دیکھو میں بھی تو ایسے ہی ایک انجان جگہ پر آئی تھی۔"
وہ نم آنکھوں سے مسکراتی ہوئی بولی۔
"شہناز.... "
کھڑکی سے آواز سنائی دی۔
"امی آپ کو ابو آواز دے رہے ہیں ابو... "
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"میں پوچھتی ہوں...."
جنت نے ہاتھ بڑھایا جسے پکڑتی وہ کھڑی ہو گئیں۔
"تم سو جاؤ اب..."
وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔
"جی امی... "
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
وہ باہر نکل گئیں تو جنت بھی بیڈ پر لیٹ گئی۔
"ﷲ پاک پلیز مجھے میرے وعدے پر قائم رکھنا اور ایسے کوئی ناخوشگوار حالات پیش ہی نہ آئیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"سب اچھا ہوگا مجھے یقین ہے... زمان تیمور میرے ناولز کے ہیرو جیسے ہیں۔ کچھ دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں...ایک بہت خوبصورت زندگی ہماری منتظر ہے۔"
وہ آنکھیں بند کرتی پرسکون سی ہو گئی۔
~~~~~~~~
زمان تنقیدی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا۔
"ریسٹورنٹ تو اچھا ہی ہے... "
عظمی نے لقمہ دیا۔
"ہممم... چلیں اتنے بھی بیکار لوگ نہیں اپنے داماد کی بات کا احترام کیا اچھا لگا۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
سٹیج پر زمان کی فیملی براجمان تھی۔
فنکشن کمبائن تھا جوکہ زمان کا حکم تھا۔
ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق ہوئی تھی اور وہ خوش تھا اس بات سے۔
نکاح کے بعد جنت کو زمان کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔
وہ سر کو اوپر اٹھاےُ ہوۓ تھی کہ سامنے کیمرہ مین ان دونوں کی تصاویر نظر بند کر رہا تھا۔
زمان لاتعلق سا بیٹھا تھا۔
سکن کلر کی شیروانی کے ساتھ ریڈ کلر کا کلا پہن رکھا تھا۔ صاف رنگت پر بڑھی ہوئی شیو غضب ڈھا رہی تھی۔
جنت ریڈ کلر کی کامدار میکسی پہنے ہوۓ تھی۔ بیوٹیشن کی مہارت سے وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔ سرخ لپ اسٹک سے پوشیدہ ہونٹ۔ گھنی پلکیں کبھی جھکتی تو کبھی اٹھتیں۔
"مبارک ہو شہناز اس فرض سے سبکدوش ہوۓ تم... "
سکینہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"خیر مبارک باجی... "
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
"لڑکے میں کوئی عیب تو نہیں؟"
وہ زرداری سے استفسار کرنے لگیں۔
"جی نہیں...میری جنت کو کوئی عیب والا کیوں ملے گا؟ انہیں ہماری جنت پسند آ گئی تو رشتہ کر لیا۔میں آتی ہوں باقی مہمان دیکھ لوں۔"
وہ مسکراتی ہوئی نکل گئیں۔
"حیرت ہے بھئی اتنا اونچا رشتہ کیسے مل گیا اسے ہمیں تو نہیں ملتے ایسے سونے جیسے رشتے... رشتے دار دیکھو ذرا ان کے کتنے امیر کبیر معلوم ہو رہے ہیں تو ان کے پاس کتنا پیسہ ہوگا۔"
وہ ہکا بکا سی مہسم سے مخاطب تھیں۔
"مجھے کیا سنا رہی ہیں اب... آپ نے ہی انکار کیا تھا اچھی بھلی تو ہے جنت دیکھیں ذرا.."
وہ سٹیج کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
بلاشبہ دونوں پرفیکٹ کپل کی عکاسی کر رہے تھے۔
"اچھا بیٹھو اب... مجھے کوسنا بند کرو۔ شکل کا کیا کرنا جب زبان گز جتنی لمبی ہو۔ ایسی لڑکیاں گھر نہیں بساتی لکھ لو میری بات۔"
وہ کوفت سے کہتی بیٹھ گئیں۔
رسمیں تمام ہوئیں تو رخصتی کا وقت آ گیا۔
وہ دلیر تھی لیکن یہ ایسا لمحہ تھا کہ خود کو رونے سے باز نہیں رکھ سکی۔
سر پر سرخ رنگ کی چادر اوڑھے وہ سلمان صاحب کے سینے سے لگے بلک رہی تھی۔
سب سے مل کر اسے گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔
گاڑی میں زمان اس کے ہمراہ عقبی سیٹ پر بیٹھا تھا۔
وہ سر جھکاےُ بیٹھی تھی۔
سارا سفر خاموشی کی نذر ہوئی۔
گھر کے افراد اور قریبی رشتہ دار ان سے قبل پہنچ چکے تھے۔
ان دونوں کو لاؤنج میں بٹھا دیا گیا۔
"ماشاءﷲ لڑکی تو پیاری ہے... "
سندس عظمی کے ہمراہ کھڑی تھی۔
"ہاں لڑکی ہی قدرے بہتر ہے باقی گھر تو ﷲ معاف کرے... "
وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی۔
"ریحام کہاں ہے؟"
وہ گرد و پیش میں نگاہ دوڑاتی ہوئی بولی۔
"پتہ نہیں اپنے کمرے میں ہوگی... اسے کوئی دلچسپی نہیں ایسی دو ٹکے کی لڑکی کی۔"
وہ حقارت سے بولیں۔
"مام ایسے تو مت بولیں۔ آفٹر آل وہ زمان کی بیوی ہے اب... اور میرے خیال میں یہی اس کی پہچان ہے۔ رائٹ؟"
وہ آبرو اچکا کر بولی۔
"ہاں کہہ تو ٹھیک رہی ہو۔ لڑکی شوہر کے نام سے پہچانی جاتی۔چلو تم کر لو جو رسم کرنی ہے۔"
وہ کہتی ہوئی اپنی نند کے پاس چل دیں۔
زمان کی کزنز بھی وہیں بیٹھی تھیں جو جنت سے معمول کے سوالات کر رہی تھیں۔
جیب میں پڑا فون رنگ کر رہا تھا۔
زمان نے ہاتھ بڑھا کر فون باہر نکالا۔
مینیجر کا نام دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"تم یہیں رہنا میں خود کمرے میں لے کر جاؤں گا۔"
وہ دائیں جانب ہوتا جنت کے کان کے قریب سرگوشی کرتا کھڑا ہوگیا۔
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جیسے اس کی بات سن نہیں سکی۔
"رسم یہ ہے کہ آپ کو زمان کا نام پورا کرنا ہے... اس میں چھ مرتبہ زمان کا نام ڈالا گیا ہے۔ آپ کو ایک ایک پرچی نکالنی ہے اور نام پورا کرنا ہے۔ ویسے زمان میں پانچ حروف آتے ہیں لیکن آپ کو چھ پرچیاں نکالنی ہیں اب دیکھتے ہیں نام پورا ہوتا ہے یا نہیں۔"
سندس اس کے بائیں جانب بیٹھتی ہوئی بولی۔
"ٹھیک ہے... "
وہ آہستہ سے بولی۔
ایک ، دو ، تین اسی طرح دیکھتے دیکھتے چھ پرچیاں نکال لیں جنت نے لیکن این نہیں نکل سکا جس کے باعث اس کا نام پورا نہیں ہوا۔
جنت کے چہرے پر مایوسی در آئی۔
"چلیں کوئی بات نہیں... سب کے کمپلیٹ نہیں ہوتے۔ میرے تو دو حروف رہ گئے تھے۔"
سندس ہلکے پھلکے انداز میں بول رہی تھی تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔
"اب زمان کہاں چلا گیا؟"
عظمی سندس کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"ڈونٹ نو... (پتہ نہیں) بتایا نہیں اس نے۔"
وہ لاعلمی سے شانے اچکاتی ہوئی بولی۔
وہ مینیجر کے ہمراہ زمان ویلا سے جا چکا تھا اور یہ بات کسی کے علم میں نہیں تھی۔
"فون کر کے پوچھو اس سے.... کب تک دلہن کو یہاں بٹھاےُ رکھیں۔"
وہ پیشانی پر بل ڈالے سندس کو دیکھ رہی تھیں۔
"ہاں پوچھو اس وقت کہاں چلا گیا؟"
حمیرا نے بھی حصہ ڈالا۔ جوکہ زمان کی پھوپھو ہیں۔
"اٹینڈ نہیں کر رہا... "
وہ مایوسی سے بولی۔
ایک نظر جنت پر ڈالی جو عروسی لباس میں بیٹھی تھی۔
"پھوپھو ایسا کرتے ہیں جنت کو کمرے میں بھیج دیتے ہیں یہاں کمفرٹبیل نہیں وہ۔"
وہ اس وقت سے گزر چکی تھی اس لئے اندازہ تھا اتنا بھاری عروسی لباس پہن کر بیٹھے رہنا کتنا مشکل ہے۔
"ہاں لے جاؤ زمان کے کمرے میں... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔
"آ جاؤ... "
وہ جنت کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
بائیں جانب سے جنت نے خود میکسی اٹھا رکھی تھی۔
زراد ریلنگ کے ساتھ ٹیک لگاےُ کھڑا تھا۔
ہاتھ میں سیگرٹ تھی۔
ایک نظر جنت پر ڈالی جو چہرہ جھکاےُ زینے چڑھ رہی تھی۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
سندس اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا لیکن ایسا لگ رہا میری اہمیت اب ختم ہو گئی... "
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
اس کا اشارہ جنت کی جانب تھا۔
"میں بس ابھی آ رہی ہوں... تم اپنے اس فضول سے مشغلے سے فارغ ہو جاؤ تب تک۔"
وہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔
جنت نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا جو بغور اسی کا جائزہ لے رہا تھا۔
اس کے سر اٹھانے پر زراد نے نظروں کا زاویہ موڑ لیا۔
"یہ سب سے چھوٹا اور ہمارا شرارتی بھائی ہے۔"
وہ زراد کے عین مقابل آ چکی تھیں۔
جنت نے سر اثبات میں ہلانے پر اکتفا کیا۔
"تم رہنے دو میں چھوڑ آتی ہوں... "
عظمی اوپر آتی ہوئی بولی۔
"چلیں ٹھیک ہے... "
وہ زراد کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔
"تم آرام سے بیٹھ جاؤ یہاں... میں زمان کو پھر سے فون کرتی ہوں۔ اور تمہیں آگاہ کر دوں...."
اس سے قبل کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی ان کا فون رنگ کرنے لگا۔
"میں آتی ہوں ابھی... "
وہ فون کان سے لگاتی باہر نکل گئیں۔
فلحال وہ کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتی تھی لیکن زمان کا یوں چلے جانا دماغ میں ہزاروں سوالوں کو جنم دے رہا تھا۔
وہ عروسی لباس میں ملبوس سر جھکاےُ، چہرے پر گھونگھٹ ڈالے بیٹھی تھی۔
بیڈ پر سرخ گلاب کی پتیاں منتشر تھیں، پورا کمرہ ان پھولوں کی خوشبو سے معطر تھا۔
اس نے کمرے کا جائزہ نہیں لیا تھا بس خاموشی سے سر جھکاےُ بیٹھی تھی۔
نجانے کیوں دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں، ہزاروں وسوسے جنم لے رہے تھے جنہیں وہ دور دھکیل رہی تھی۔
کمرے میں مدھم سی روشنی تھی۔
یکدم خاموش میں ارتعاش پیدا ہوا اور دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔
جنت کا جھکا ہوا سر مزید جھک گیا۔
دروازہ بند کرتے ایک سلگتی نگاہ اس نے جنت کے سراپے پر ڈالی اور قدم بڑھاتا اس کے پاس آ گیا۔
ہاتھ بڑھا کر اس کی کلائی پکڑی اور بیڈ سے نیچے لے آیا۔
اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا گئی۔
"کیا تم نے اجازت لی میرے بیڈ پر بیٹھنے سے پہلے؟"
وہ اس کی کلائی پر زور ڈالتا ہوا بولا۔
"جی؟"
وہ گھبرا کر اس باریک گھونگھٹ سے اسے دیکھنے لگی۔
"کیا میں نے تمہیں اجازت دی یہاں بیٹھنے کی؟ پھر کیسے تم یہاں آئی؟"
وہ اس کا گھونگھٹ اتار کر زمین پر پھینکتا ہوا دھاڑا۔
"و....وہ مجھے آنٹی.... یہاں... "
وہ ایسی صورتحال کے لئے تیار نہ تھی۔
"اپنی اوقات میں رہو گی تو بہتر ہوگا تمہارے لئے....چلو اب یہاں سے۔"
وہ اسی طرح اس کی کلائی پکڑے دروازے کے پاس آ گیا۔
وہ ہکا بکا سی اسے دیکھ رہی تھی۔
"لیکن میں کہاں جاؤں گی؟"
وہ اس کا ارادہ بھانپ کر بولی۔
"میری بلا سے بھاڑ میں جاؤ تم... "
وہ اسے کمرے سے باہر دھکیلتا ہوا بولا۔
وہ زمین بوس ہو چکی تھی۔
اندر واپس جانے کا وہ ارادہ رکھتی تھی لیکن اس سے قبل کہ وہ اپنے ارادے پر عمل پیرا ہوتی وہ دروازے بند کر چکا تھا۔
وہ نم آنکھوں سے اس دروازے کو دیکھنے لگی۔
جس کے دوسری جانب اس کا سرتاج تھا۔
کیا سوچا تھا اور کیا ملا تھا۔
"کیا ایسا بھی کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔"
آواز اتنی مدھم تھی کہ وہ خود بمشکل سن پائی۔
"اس لڑکی کی اتنی ہمت ابھی آےُ ایک دن نہیں ہوا اور میری مرضی کے خلاف جانے لگی... "
وہ کلا اتار کر زمین پر پٹختا ہوا بولا۔
"بکواس کر کے گیا تھا میں کہ لاؤنج میں بیٹھی رہنا پھر یہاں آکر بیٹھ گئی۔ بہت جلدی تھی اسے یہاں آ کر بیٹھنے کی میرا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔"
دھیرے دھیرے غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
"پتہ نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو... زمان تیمور ہوں میں کوئی معمولی انسان نہیں۔"
وہ یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔
"اب ساری رات اسی دروازے کے سامنے بیٹھی رہے... یہی سزا ہے تمہاری جنت۔"
وہ شیروانی کے بٹن کھولتا ہوا بڑبڑایا۔
پیشانی پر بل ڈالے, آنکھوں میں غیض سموےُ وہ ٹہل رہا تھا۔
کب آنسو پلکوں کو پھلانگ کر اس کے رخسار کی زینت بنے اسے معلوم ہی نہ ہوا۔
زمان گھنٹے بعد واپس آیا تھا اور اب تقریباً سبھی اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔
"مہ... میں کہاں جاؤں؟"
وہ دائیں بائیں دیکھتی ہوئی بولی۔
"میں نے سوچا کیا تھا اور یہاں کیا ہو رہا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوتا پھر یہ سب کیا ہے؟"
وہ ریلنگ کو پکڑتی کھڑی ہو گئی۔
"اب کس کے پاس جاؤں؟"
وہ سامنے دروازے کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"اگر دروازہ بجایا تو سب کو علم ہو سکتا ہے اور زمان جتنے غصے میں تھا نجانے کیا رد عمل ظاہر کرے۔"
وہ کشمکش میں مبتلا تھی۔
کچھ سوچ کر وہ زمان کے کمرے سے آگے چلنے لگی۔
سامنے لاؤنج تھا۔
وہ ننگے پیر چلتی ہوئی لاؤنج میں آ گئی۔
اردگرد کا جائزہ لیتی ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔
چہرہ گھٹنوں پر رکھ لیا۔
آنسو برسات کی مانند رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
"ناولز پڑھنے میں یہ سب کتنا دلکش ہوتا ہے کھڑوس سا ہیرو، وہ نوک جھوک، خفا ہونا، پڑھنے میں سب کتنا دلکش لگتا ہے لیکن حقیقت میں کتنا تکلیف دہ ہے یہ سب... وہاں تو بہت مزے مزے سے پڑھتے ہیں لیکن جب اصل زندگی میں یہ سب ہو تو قابل برداشت نہیں۔"
وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔
"ﷲ پاک یہ سب کیا ہو رہا ہے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا... کوئی کیسے اپنی دلہن کو کمرے سے باہر پھینک سکتا ہے؟"
وہ ابھی تک ششدر تھی۔
"دیکھیں اس بات کا خاص خیال رکھا جاےُ کہ جیسے زمان تیمور نے آپ کو بتایا ہے ایک ایک چیز ویسے ہی ہو، ایک ایک چیز... یو گیٹ اٹ؟ مطلب ایک پھول بھی چینج نہ ہو ورنہ.... "
وہ بات ادھوری چھوڑ کر سانس خارج کرتا چلنے لگا۔
وہ فون پر بات کرتا کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔
زراد کو لاؤنج میں کسی نفس کی موجودگی کا احساس ہوا۔
"جو مینیو زمان نے بتایا ہے فلحال وہی رکھیں اگر کوئی چینج کرنا ہوا تو میں صبح آپ کو فون کر دوں گا۔"
وہ بولتا ہوا لاؤنج کی جانب بڑھنے لگا۔
"ٹھیک ہے میں صبح بات کرتا ہوں آپ سے..."
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے سامنے دیکھ رہا تھا۔
وہ عروسی لباس میں یہاں بیٹھی تھی۔
"واٹ از دس؟"
وہ کہے بنا رہ نہ سکا۔
اس کی آواز پر جنت سر اٹھا کر زراد کو دیکھنے لگی۔
کیسا قیامت خیز منظر تھا۔ یہ تو زراد ہی جانتا تھا۔
"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟"
وہ جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا۔
سرخ و سپید رنگ پر لرزتی نم پلکیں، سرخ آنکھیں، رخسار پر گرے آنسو۔ وہ متحیر سا اسے دیکھ رہا تھا۔
"وہ... زمان نے مج... مجھے کمرے سے نکال دیا ہے۔"
وہ سر جھکاےُ مجرمانہ انداز میں بولی۔
ایسی صورتحال میں نجانے کیوں وہ خود کو مجرم گردان رہی تھی۔
ان حالات کو سمجھنے سے وہ قاصر تھی۔
"واٹ؟ لیکن کیوں؟"
وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔
"پتہ نہیں مجھے... "
وہ چہرہ موڑتی رکھائی سے بولی۔
"تو... اب آپ ساری رات یہیں بیٹھی رہیں گیں؟"
وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
"ظاہر ہے واپس تو نہیں جا سکتی نہ... "
وہ آنسوؤں پر بندھ باندھتی ہوئی بولی۔
"ہممم صحیح کہا... "
وہ ٹراؤذر کی جیب میں ہاتھ ڈالے سوچنے لگا۔
"لیکن مناسب نہیں یہاں بیٹھے رہنا۔ گھر میں مہمان ہیں کوئی بھی آ سکتا ہے جیسے میں آ گیا۔"
وہ اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
یہی بات تو جنت کو پریشان کر رہی تھی۔
لوگ نجانے کیا کیا باتیں کرتے۔
کہ پہلی رات ہی شوہر نے کمرے سے باہر نکال دیا نجانے کیا وجہ ہوگی۔
سوچوں کا ایک لامحدود محور تھا جس کے گرد وہ گھوم رہی تھی۔
"تو پھر کہاں جاؤں میں؟"
وہ اس کی جانب چہرہ موڑتی ہوئی بولی۔
"آپ ایسا کریں... "
وہ ہونٹوں پر انگلی رکھے سوچنے لگا۔
"گیسٹ روم تو فری نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتا اپنی تردید کرنے لگا۔
جنت اس کے جواب کی منتظر تھی۔
"ریحام تو نہیں... سندس کو کال کرتا ہوں میں۔"
وہ فون پر انگلیاں چلاتا ہوا بولا۔
بیل جا رہی تھی لیکن وہ اٹینڈ نہیں کر رہی تھی۔
جنت بے چینی سے پہلو بدلتی اسے دیکھ رہی تھی۔
"اگر زمان کی ماما نے امی کو کچھ کہہ دیا اس متعلق پھر؟"
ایک نئی پریشانی نے اسے آن گھیرا۔
"نہیں امی کو کچھ معلوم نہیں ہونا چائیے۔"
وہ متفکر سی بولی۔
"یار بات سنو... زمان نے اسے کمرے سے نکال دیا ہے۔"
وہ بولتا ہوا وہاں سے چل دیا۔
پانچ منٹ بعد وہ واپس آ گیا۔
"سندس آ رہی ہے۔ سو آپ اس کے کمرے میں سو جائیں۔"
وہ فون جیب میں ڈالتا ہوا بولا۔
"تھینک یو... "
وہ تشکرانہ انداز میں بولی۔
"نو اٹس اوکے... "
وہ کہتا ہوا راہداری میں چلنے لگا۔
"لے جاؤ انہیں... شکر کرو میں نے دیکھ لیا ورنہ تماشہ بن جاتا بیچاری کا۔"
وہ تاسف سے کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
"میرے ساتھ آ جاؤ تم... "
وہ مدھم آواز میں بولی۔
جنت خاموشی سے اس کے ہمراہ چل دی۔
"تم چینج کر لو... "
وہ ٹی شرٹ اور ٹراؤذر اس کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی۔
جنت ہچکچاتی ہوئی اسے دیکھنے لگی۔
"واٹ ہیپنڈ؟"
وہ تشویش سے بولی۔
"کچھ نہیں... "
وہ اس کے ہاتھ سے کپڑے لیتی واش روم میں چلی گئی۔
"اوہ زمان ایسا بھی کوئی کرتا ہے... نجانے اب اس بیچاری نے ایسا کیا کیا ہوگا جو تم نے اسے کمرے سے ہی نکال دیا۔"
وہ ٹہلتی ہوئی سوچنے لگی۔
"وہ بھی کیا سوچ رہی ہوگی... شادی کی پہلی رات یہ رویہ۔"
وہ تاسف سے سر نفی میں ہلاتی بول رہی تھی۔
"ہاں یہاں صوفے پر رکھ دو اپنا سامان... "
وہ جنت کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"یہ میرا بیٹا ہے ابراہیم... "
وہ دو سالہ بچے کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی جو بیڈ پر سو رہا تھا۔
بیڈ فل سائز کا تھا۔
"فکر مت کرو تم بھی سمارٹ سی ہو اور میں بھی آرام سے سو جائیں گے۔"
وہ اس کا منہ تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
"جی... "
جنت باوجود کوشش کے مسکرا نہ سکی۔
وہ بیڈ کے ایک کنارے پر لیٹ گئی۔
آنسو بار بار اس کی آنکھوں کو نم کر رہے تھے۔
"مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا زمان نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے تو کوئی غلطی نہیں کی پھر مجھے کیوں باہر نکال دیا؟"
وہ آنکھوں کے سامنے پڑے لیمپ کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی۔
"توقعات ہمیشہ حقیقت کے برعکس ہوتی ہیں لیکن اتنی پیچیدہ اور تکلیف دہ.... "
اس نے تکلیف سے آنکھیں میچ لیں۔
"بس امی کو کچھ معلوم نہ ہو... ورنہ وہ تو صدمے میں چلی جائیں گیں۔ شادی کی پہلی ہی رات یہ کیا ہو گیا؟"
خود سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر تھی اسے۔
رات دیر تک وہ یونہی آنسو بہاتی رہی۔
نیند مہربان ہوئی تو اس کے دماغ کو ان سوچوں سے آزادی ملی۔
~~~~~~~~
"نجمہ مریم کے لئے بھی کوئی رشتہ دکھانا.. میری جنت تو اپنے گھر کی ہو گئی۔ مریم کا دکھ نہیں دیکھا جاتا۔"
وہ آسودگی سے بولیں۔
"تم فکر ہی مت کرو... یہ ہیرے جیسا رشتہ تھا جو تمہاری جنت کے لئے لائی تھی۔ دیکھنا ایسا ہی بہترین سا رشتہ مریم کے لئے بھی دکھاؤں گی۔"
وہ اپنے پیسوں کی گنتی کرتی ہوئی بولی۔
"یہ مٹھائی کا ڈبہ اور یہ سوٹ۔جو کہا تھا سب دیا.... اب بس میری مریم کا بھی گھر بس جاےُ۔"
وہ اشیاء اس کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی۔
"ہاےُ تم فکر کیوں کرتی ہو؟ بس انتظار کرو تھوڑا سا... کوئی اچھا رشتہ آتا ہے تو سب سے پہلے تمہیں ہی دکھاؤں گی۔"
وہ سرشار سی بولی۔
"چاےُ پی کر جانا....مریم بنا رہی ہے۔"
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولیں۔
"ہاں ہاں پی کر جاؤں گی... "
وہ بیگ میں سامان رکھتی ہوئی بولی۔
شہناز اثبات میں سر ہلاتی ڈرائینگ روم سے باہر نکل آئی۔
سورج کی کرنیں کھڑکی کو چیرتی کمرے میں آ رہی تھیں۔
زمان بے خبر نرم گداز بستر پر نیند کی آغوش میں تھا۔
تقریباً سبھی افراد ابھی تک اپنے اپنے کمروں میں تھے۔
الارم نے زمان کی نیند میں خلل پیدا کیا۔
پیشانی پر بل ڈالے وہ کلاک کو بند کرنے لگا۔
جیسے حواس بحال ہوۓ تو جنت کا خیال آیا۔
بھورے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بیڈ سے اتر آیا۔
نیند میں ڈوبی سرخی مائل آنکھیں غضب ڈھا رہی تھیں۔
وہ سلیپر پہن کر دروازے کی جانب چلنے لگا۔
اس کی توقع کے مطابق جنت کو دروازے کے سامنے ہی موجود ہونا چائیے تھا لیکن دروازہ کھولتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"یہ کہاں گئی؟"
وہ چبا چبا کر کہتا کمرے سے باہر نکل آیا۔
وہ دائیں جانب راہداری میں چلنے لگا جو سیڑھیوں تک جاتی تھی۔
اس سے قبل کہ وہ زینے اترتا جنت سندس کے ہمراہ زینے چڑھتی دکھائی دی۔
اسے دیکھ کر وہ مزید طیش میں آ گیا۔
جنت سر جھکاےُ زینے چڑھ رہی تھی اس بات سے بے خبر کہ اوپر وہی انسان کھڑا ہے۔
"کہاں سے آ رہی ہو تم؟"
آواز ہمیشہ کی مانند بلند، لہجے میں بلا کی سختی۔
وہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
"میں سندس.... "
"میری اجازت کے بغیر تم وہاں سے ہلی کیسے؟"
وہ آگے بڑھ کر اس کی بازو دبوچتا ہوا بولا۔
گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں۔
سرخ آنکھیں جنت پر گاڑھے ہوۓ تھا۔
وہ ششدر سی زمان کو دیکھنے لگی۔
"لیکن میں... "
"بتاؤ مجھے کیا تم ؟"
وہ اس کی بات کاٹتا درشتی سے بولا۔
"زمان کیا ہو گیا ہے... "
"شٹ اپ... یہ میرا اور میری بیوی کا معاملہ ہے اور جانتی ہو نہ مجھے دخل اندازی کتنی ناگوار گزرتی ہے۔"
وہ سندس کو گھورتا چبا چبا کر بولا۔
جنت پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
یہ سب دیکھ کر اسے ڈراؤنے خواب کا گمان ہو رہا تھا لیکن یہ کوئی خواب نہیں حقیقت تھی۔
جنت کی بازو پر گرفت مضبوط ہو چکی تھی۔
"بتاؤ مجھے... ابھی ایک دن نہیں ہوا تمہیں یہاں آےُ اور تم اپنی مرضیاں چلانے بیٹھ گئی ہو؟"
وہ اسے جھٹکا دیتا ہوا بولا۔
وہ جو سندس کو دیکھ رہی تھی بوکھلا کر زمان کو دیکھنے لگی۔
"اوکے دین پلیز اپنے روم میں جا کر بات کرو... "
وہ کسی کے جاگ جانے کے باعث فکرمند تھی۔
"تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں... "
رکھائی سے جواب آیا۔
"آپ نے دروازہ بند کر دیا تھا تو میں... "
"میں نے اگر دروازہ بند کیا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا تم پوری رات وہیں بیٹھی رہتی۔ میری اجازت کے بغیر تم ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی۔"
وہ اس کی جانب جھکتا باور کرانے لگا۔
زمان کی آواز کے باعث زراد آنکھیں مسلتا کمرے سے باہر نکلا۔
وہ سب اسی کے کمرے کے سامنے کھڑے تھے۔
"صبح صبح میرے کمرے کے سامنے یہ سب کیا ہے؟"
وہ جمائی روکتا ہوا بولا۔
پر جونہی نظر سہمی ہوئی جنت پر پڑی نیند لمحے میں اڑ گئی۔
"تمہاری کمی رہ گئی تھی... "
وہ بد مزہ ہوا۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتا زمان یونہی جنت کی بازو پکڑے اپنے کمرے کی جانب چلنے لگا۔
وہ کسی بے جان شے کی مانند اس کے ہمراہ کھینچی چلی جا رہی تھی۔
دروازہ اتنی زور سے بند کیا کہ یقیناً گہری نیند میں سوتا ہوا انسان بھی بآسانی جاگ سکتا تھا۔
"یا ﷲ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"
جنت اسے دروازہ بند کرتے دیکھ کر دل ہی دل میں گویا ہوئی۔
کمرے کے وسط میں آ کر زمان نے اس کی بازو آزاد کر دی۔
وہ دائیں ہاتھ سے اس حصے کو مسلنے لگی جہاں زمان کی فولادی گرفت اپنے نشاں چھوڑ چکی تھی۔
"پہلی اور آخری بار سمجھا رہا ہوں میرے ساتھ رہنا ہے تو وہی کرنا ہوگا جو میں کہوں گا۔ میری مرضی کے بغیر تم اس کمرے سے باہر بھی نہیں نکل سکتی۔ سمجھ رہی ہو نہ؟"
لہجہ سخت لیکن آواز مدھم تھی۔
"جی؟"
جنت کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"کوئی اعتراض ہے تمہیں؟اس گھر میں رہنا چاہتی ہو یا نہیں؟ تمہاری ماں نے تو کہا تھا جنت بہت فرمانبردار ثابت ہوگی؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر دو قدم اس کی جانب بڑھا۔
"نہیں کوئی اعتراض نہیں ہے... میں آگے سے خیال رکھوں گی آپ کو شکایت کا موقع نہ ملے۔"
وہ اس سے نظریں ملاےُ بغیر بول رہی تھی۔
"مجھے نتیجہ چائیے یہ کوشش نہیں۔ تمہارے قدموں میں لغزش نہیں آنی چائیے ورنہ تم زمان تیمور تک آتے راستے کو طے نہیں کر پاؤں گی۔"
وہ انگلی سے اس کے چہرے پر آئی لٹ کو پیچھے کرتا ہوا بولا۔
"جی ٹھیک ہے... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی اسے دیکھنے لگی۔
"تم نے کپڑے بھی چینج کر لئے.... "
وہ نفی میں سر ہلاتا بول رہا تھا۔
جنت سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ سیاہ رنگ کا ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھی۔
بالوں کی ڈھیلی سی پونی بنا رکھی تھی۔
"تو کیا میں ساری رات اسی ڈریس میں گزارتی؟"
وہ متحیر سی بولی۔
"ظاہر ہے... تمہاری منہ دکھائی نہیں ہوئی اور تم نے ڈریس بھی چینج کر لیا۔ یہ میرا طریقہ نہیں ہے جتنے پرسکون انداز میں ابھی میں تم سے بات کر رہا ہوں۔ لیکن آئیندہ اگر تم نے کچھ بھی اپنی مرضی سے کیا تو یاد رکھنا نتیجے کی ذمہ دار تم خود ہو گی... "
وہ سرد نگاہیں اس پر گاڑھے تنبیہ کر رہا تھا۔
"ٹھیک ہے... "
وہ بغور اس کی نگاہوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
"گڈ... اور یہ رہا تمہارا منہ دکھائی کا گفٹ۔"
وہ ڈریسنگ ٹیبل کی دراز سے ایک باکس نکالتا ہوا بولا۔
جنت کے چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ خوشی کی رمق تک نہ تھی وہاں۔
"شاید میں پہلی دلہن ہوں جس کے ساتھ یہ سب اس انداز میں ہو رہا... "
وہ تلخی سے بڑبڑائی۔
باکس لے کر وہ جنت کی جانب گھوما۔
"یہ تب تک تمہارے ہاتھ میں رہیں گے جب تک میں حکم نہیں دیتا... "
وہ تحکمانہ انداز میں کہتا اس کا ہاتھ پکڑے کنگن پہنانے لگا۔
نفیس سے باریک باریک ڈیزائن والے جو کنگن کم اور چوڑیاں زیادہ معلوم ہو رہے تھے۔
"ٹھیک ہے... "
اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے صرف یہی ایک لفظ ہے جس کا اسے استعمال کرنا ہے۔
"اگر تم سونا چاہو تو سو سکتی ہو... "
وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا نرمی سے بولا۔
تم جیسے ظالم کو دیکھنے سے بہتر ہے میں سو ہی جاؤں...
وہ اسے دیکھتی ہوئی سوچنے لگی لیکن کہہ نہ پائی۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی بیڈ کی جانب بڑھنے لگی لیکن تبھی اس کی کلائی زمان کے ہاتھ میں آ چکی تھی۔
"کہاں؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔
"آپ نے کہا نہ کہ اگر میں چاہو تو سو جاؤں... "
وہ گردن گھما کر بولی۔
"ہاں تو بتانے میں تمہارا حرج ہو جاتا... یہ زبان بولنے کے لیے ہے میرے خیال میں۔"
وہ تیکھے تیور لئے بولا۔
"سوری... "
وہ سر جھکا کر بولی۔
"مجھے غلطیاں کر کے سوری بولنے والے لوگ بلکل نہیں پسند خیال رکھنا اس بات کا۔ اب تم سو سکتی ہو میں یہیں بیٹھا ہوں اور اگر میں کمرے میں موجود نہ ہوں تو تم باہر نہیں نکل سکتی میرے بغیر... سمجھ گئی؟"
سرد لہجہ جسم کی رگیں تک منجمد کر رہا تھا۔
"جی سمجھ گئی۔"
وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
اس نے مسکراتے ہوۓ جنت کی کلائی چھوڑ گئی۔
"مائی گاڈ....یہ انسان مسکراتا بھی ہے... "
وہ نرم بستر پر نیم دراز ہوتی ہوئی بڑبڑائی۔
"پتہ نہیں کیسا انسان ہے یہ... اتنا عجیب سا آج تک نہیں دیکھا۔"
وہ جھرجھری لیتی ہوئی خود کلامی کر رہی تھی۔
"میں کیسے رہوں گی اس انسان کے ساتھ؟"
وہ روہانسی ہو گئی۔
"یا ﷲ میری مدد کرنا... نجانے کیوں ایسا گمان ہو رہا کسی مصیبت میں پھنس گئی ہوں میں۔"
اس نے کمبل سر تک تان لیا۔
کمرے میں ائیر کنڈیشنر چل رہا تھا جبکہ گرمی اتنی زیادہ نہیں تھی اور جنت کو تو ائیر کنڈیشنر کی عادت ہی نہیں تھی۔
زمان لیپ ٹاپ کھولے صوفے پر نیم دراز تھا۔
پاؤں ٹیبل پر رکھے ہوۓ تھے۔
بائیں جانب ایش ٹرے اور سیگرٹ پڑی تھی جسے وہ پینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
دو گھنٹے بعد جنت منہ بناےُ اٹھ بیٹھی۔
اس کی آنکھ سیگرٹ کی بو سے کھلی تھی۔
"آپ پلیز اسے بند کریں گے... "
وہ ابھی تک نیند کے خمار میں تھی۔
زمان نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔
"تم مجھے حکم دے رہی ہو؟"
بھاری بلند آواز جب اس کی سماعت سے ٹکرائی تو وہ جیسے ہوش میں آئی۔
"نہیں... وہ میں نیند میں تھی تو شاید۔"
وہ سر کھجاتی زبان دانتوں تلے دبا گئی۔
"نیند میں بھی ایسی غلطی مت کرنا۔ مجھے وارنگ دینا پسند نہیں... "
وہ ناپسندیدگی سے اسے دیکھتا پھر سے لیپ ٹاپ کی دیکھنے لگا۔ بائیں ہاتھ کی انگلی میں سیگرٹ دبا رکھی تھی۔
"ٹھیک ہے... اممم میرے کپڑے کہاں ہیں؟"
وہ اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔
"لیفٹ سائیڈ پر تمہاری ضرورت کی ہر چیز موجود ہے لیکن خیال رہے میری سائیڈ تم کھول نہیں سکتی جب تک میں خود نہ کہوں... "
نگاہیں اسکرین پر مرکوز کیے مخاطب جنت سے تھا۔
"ٹھیک ہے.... "
وہ کہتی ہوئی سامنے دیوار میں نصب الماری کی جانب بڑھ گئی۔
"لیکن یہاں تو چار ہیں تو لیفٹ والی مطلب لاسٹ والی... "
وہ شش و پنج میں مبتلا ہو کر بولی۔
"جی ہاں لاسٹ والی... لگتا ہے طوطے کی طرح ہر بات تمہیں سمجھانی پڑے گی۔"
وہ کوفت سے کہتا سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلنے لگا۔
"کوئی انسان اپنی شادی پر بھی اتنا سڑا ہوا ہو سکتا ہے؟"
جنت پیشانی الماری سے ٹکاتی ہوئی بڑبڑائی۔
"یہ منہ میں بولنے کی عادت ختم کر دو... مجھے سخت نا پسند ہے اس طرح کی فضول گوئی کرنا۔"
وہ تیز تیز بول رہا تھا۔
"اف اب میں بول بھی نہیں سکتی... "
وہ الماری کھولتی ہوئی سوچنے لگی۔
اندر ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائنر سوٹ ہینگ کیا ہوا تھا۔
جنت کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔
"بلیک کلر کا ڈریس پہنو گی تم... "
وہ کام اپنا کر رہا تھا لیکن جنت سے بے خبر نہیں تھا۔
"کیا میں یہ پنک والا پہن لوں... پلیز!..."
وہ زمان کے سامنے آتی بیچارگی سے بولی۔
"ہر گز نہیں... تم کیا چاہتی ہو میں تمہارے سامنے اس ڈریس کو آگ لگا دوں؟"
وہ خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔
"بلکل بھی نہیں... میں یہ بلیک والا ہی پہنوں گی۔"
اس نے پنک والا ڈریس کمر کے پیچھے چھپا لیا اور بلیک والا اس کے سامنے کر دیا۔
"یو کین گو...(تم جا سکتی ہو) "
"کہاں؟"
جنت کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"ٹائم دیکھو ذرا؟ تم بچی ہو کیا جو ہر بات میں سمجھاؤں؟"
وہ لیپ ٹاپ شیشے کی میز پر پٹختا کھڑا ہو گیا۔
"نہیں... مجھے لگا۔"
"اپنے خیال زبان پر نہ ہی لاؤ تو بہتر ہوگا۔"
وہ اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
زمان کے خطرناک تیور دیکھ کر جنت واش روم کی جانب چل دی۔
"ﷲ معاف کرے یہ انسان ہے یا کوئی اور مخلوق.... "
وہ جھرجھری لیتی اندر داخل ہو گئی۔
~~~~~~~~
"جنت کا کوئی فون وغیرہ آیا ہی نہیں... "
شہناز گھڑی دیکھتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"امی وہ بڑے لوگ ہیں... ہماری طرح صبح سویرے نہیں جاگ جاتے۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"کل حماد بھی آیا تھا نہ؟"
وہ حسن کے بالوں میں برش پھیرتی ہوئی بولیں۔
"جی آیا تھا... وہی فضول باتیں میرے ساتھ گھر چلو۔"
وہ سرد آہ بھرتی نفی میں سر ہلانے لگی۔
"میں نے نجمہ کو بولا ہے....کوئی اچھا سا رشتہ تمہارے لئے بھی دکھاےُ... "
وہ ہچکچاتی ہوئی بولیں۔
"امی بس... میرا دل بھر گیا ہے اس رشتے سے۔ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہوں مجھے شادی نہیں کرنی۔"
وہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
چہرے پر بیزاری اور سہی جانے والی اذیت کے آثار تھے۔
"لیکن بیٹا اتنی لمبی زندگی ایسے نہیں گزرتی پھر بچوں کو پالنا تم تنہا کیا کیا کرو گی؟"
نمکین پانی پھر سے آنکھوں کو جھلملانے لگا۔
"امی سب ہو جاےُ گا۔ بس آپ یہ رٹ چھوڑ دیں میرے لئے یہ ایک تجربہ ہی بہت ہے۔"
وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
"جانتی ہوں دکھ گہرا ہے لیکن میری بچی اس کے بغیر گزارا بھی نہیں آخر کب تک ماں باپ کی دہلیز پر پڑی رہو گی۔ کل کو ہم گزر گئے تو نجانے بہو کیسا سلوک کرے تمہارے ساتھ؟"
وہ حسن کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھیں۔
~~~~~~~~~
زمان جنت کا ہاتھ پکڑے زینے اتر رہا تھا۔
وہ اس وقت سیاہ کامدار قمیض کے ساتھ کیپری پہنے ہوۓ تھی۔ چہرے پر لائٹ سا میک اپ کیا تھا جو جنت کا ذاتی کمال تھا۔
اس کے بر عکس زمان گرے کلر کا لائنگ والا فور پیس پہنے ہوۓ تھا۔
چہرے پر ہمیشہ کی مانند سنجیدگی تھی۔
لاؤنج میں ریحام, عظمی اور حمیرا موجود تھیں۔
"لو آ گیا میرا بیٹا... "
عظمی اسے دیکھتی ہوئی چہکی۔
جنت کو دیکھ کر ریحام کے چہرے پر ناگواری در آئی۔
"مام اب ایسی لڑکی ہمارے بیچ آ کر بیٹھے گی؟"
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
"مام شی از مائی وائف... (مام یہ میری بیوی ہے)"
وہ ریحام اور عظمی کو دیکھتا ہوا زور دے کر بولا۔
"آئی نو... (میں جانتی ہوں) "
وہ تعجب سے زمان کو دیکھ رہی تھی۔
"آئی سیڈ شی از مائی وائف۔(میں نے کہا یہ میری بیوی ہے۔)"
وہ ریحام کو گھورتا ہوا بولا۔
جنت اس سب میں خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔
"آئی انڈرسٹینڈنگ.... (میں سمجھ گئی)"
ریحام اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتی ہوئی بولی۔
"بلکل سہی کہا زمان نے... بیٹھ جاؤ بیٹا۔"
حمیرا جنت کو دیکھتی خوشدلی سے بولی۔
وہ زمان کی جانب دیکھنے لگی۔
وہ کھڑا تھا تو جنت کیسے بیٹھ سکتی تھی۔
"آئی ہوپ آپ اپنی بیٹی کو سمجھا دیں گیں۔"
وہ سرد مہری سے کہتا بیٹھ گیا۔
غصے میں وہ اسی طرح رشتے سے عاری کر کے مخاطب کرتا۔
جنت بھی اس کی تقلید میں اس کے ہمراہ بیٹھ گئی۔
"شاید میں آپ کی بھی کچھ لگتی ہوں... "
ریحام سے جنت کے سامنے اپنی ہتک برداشت نہ ہوئی۔
"جب تم سمجھ جاؤ گی تو شاید میں بھی سمجھ لوں گا.... ایلن ناشتہ لاؤ۔"
وہ بائیں ہاتھ پر بندھی گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔
"تم فکر مت کرو میں اچھے سے سب سمجھا دوں گی۔"
عظمی مسکراتی ہوئی بولی۔
"گڈ... سندس کہاں ہے؟ بلائیں مجھے کچھ بات کرنی ہے۔"
وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا۔
"ایلن پہلے سندس کو بلاؤ اور کوک کو بولو زمان کا ناشتہ بھیجواےُ... "
ایلن جو کچھ بولنا چاہ رہی تھی حکم سنتی وہاں سے غائب ہو گئی۔
"یس مجھے بلایا تم نے؟"
وہ مسکراتی ہوئی سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔
"تمہارا شوہر کہاں ہے؟"
وہ فون کو دیکھتا ہوا بولا۔
"نہیں آ سکے وہ... "
وہ مدھم آواز میں بولی۔
"سوری... "
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"چھٹی نہیں ملی امتیاز کو۔"
وہ عظمی کو دیکھتی ہوئی بولی جیسے مدد درکار ہو۔
"آل رائٹ۔ اسے کہنا دوبارہ اس گھر میں آنے کی ضرورت نہیں...."
وہی روکھا لہجہ۔
"زمان... "
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
حمیرا مدھم سا مسکرائی۔
"میرے بیٹے سے رشتہ نہیں کیا نہ اچھا ہوا... "
وہ دل ہی دل میں سندس سے مخاطب تھیں۔
"واٹ زمان؟ کیا زمان تیمور کی شادی سے اہم کوئی کام ہو سکتا ہے؟ وہ میری شادی میں نہیں آیا؟ تم سمجھ رہی ہو؟"
وہ آگے کو ہوتا برہمی سے بولا۔
"ہاں میں جانتی ہوں لیکن... "
"او پلیز آئی ڈونٹ نیڈ دیز ایکسکیوز....(پلیز مجھے ان بہانوں کی ضرورت نہیں)"
وہ ہاتھ اٹھا کر اس کی بات مکمل ہونے سے قبل بول پڑا۔
سندس خفگی سے عظمی کو دیکھنے لگی۔
"ماں کو کیا دیکھ رہی ہو؟ زمان بلکل درست کہہ رہا ہے....بھئی زمان کی شادی تھی کوئی مذاق تھوڑی ہے۔"
حمیرا نے لقمہ دیا۔
"فائن... "
وہ ناراض سی اٹھ کر چلی گئی۔
جنت ششدر تھی۔
اسے اپنی بینائی پر شبہ ہو رہا تھا۔
ملازم ناشتہ لگا کر جا چکا تھا۔
وہ تینوں خواتین وہاں سے چلی گئیں۔
سب جانتے تھے زمان کو تنہا کھانے کی عادت ہے۔
"تمہارے لئے اب انویٹیشن کارڈ بھیجوں؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔
جنت جو اپنی سوچوں میں گم تھی بوکھلا گئی۔
"نہ... نہیں... "
وہ پلیٹ اپنی جانب کھسکاتی ہوئی بولی۔
"ڈال کر دو مجھے... "
حکم صادر کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لی۔
"جی... "
وہ سر جھکا کر اس کی پلیٹ میں ٹوسٹ اور انڈے رکھنے لگی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میں گزشتہ ایک ہفتے سے بھوکا ہوں؟"
وہ آگے کو ہوتا ہوا بولا۔
"نہیں... کیوں؟"
وہ چہرہ بائیں جانب موڑتی ہوئی بولی۔
زمان کا چہرہ کچھ فاصلے پر تھا۔ جنت فاصلہ مزید بڑھاتی پیچھے کو کھسک گئی۔
"جس طرح تم میرے لئے ڈال رہی ہو مجھے تو یہی گمان ہو رہا ہے۔"
وہ گھورتا ہوا پیچھے ہو گیا۔
پلیٹ میں تین انڈے وہ ڈال چکی تھی۔
"مجھے نہیں پتہ آپ کتنے ٹوسٹ لیں گے... "
وہ چہرہ موڑ کر پھر سے اسے دیکھنے لگی۔
"یہ جو عقل ہے نہ استعمال کرنے کے لیے ہے۔ نہیں معلوم تو پوچھ لو... میں کسی دوسرے شہر میں تو نہیں بیٹھا۔"
وہ اس کی پیشانی کو دو انگلیوں سے پیچھے کرتا خفگی سے بولا۔
"کتنے لیں گے آپ.... "
وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
"تین ٹوسٹ اور ایک آملیٹ... "
وہ فون نکال کر ٹائپ کرتا ہوا بولا۔
پلیٹ زمان کے سامنے رکھ کر وہ گلاس میں جوس انڈیلنے لگی۔
"اس شخص کے سامنے کام کرتے ہوۓ ڈر ہی لگتا ہے....کب کس بات پر غصہ آ جاےُ پتہ نہیں چلتا۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی پیچھے ہو گئی۔
"یہ کام چھوڑ دو گی تو بہتر ہوگا.... "
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"کون سا کام؟"
وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔
"یہ منہ میں بڑبڑانے والا کام... آئی ڈونٹ لائک دس۔(مجھے نہیں پسند یہ).....اینڈ آئی ٹولڈ یو۔(اور میں تمہیں بتا چکا ہوں) "
وہ لہجے کو سخت بناتا ہوا بولا۔
"جی اچھا... "
وہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
"ناشتہ کر کے تم روم میں چلی جانا... تین بجے ڈرائیور تمہیں پارلر لے جاےُ گا۔ دوبارہ بتانا کی نوبت نہ آےُ۔ نہ ہی میرے حکم کی تردید ہو۔"
وہ جوس کا گلاس اٹھاتا ہوا بولا۔
"نہیں آےُ گی نوبت... "
وہ آہستگی سے بولی۔
~~~~~~~~
"مام آخر آپ خاموش کیوں تھیں؟ ٹھیک ہے میں جانتی ہوں کوئی زمان کو سمجھا نہیں سکتا لیکن امتیاز کو یہاں آنے سے منع کرنا... یہ کیا ہے؟"
وہ کمرے میں ٹہلتی ہوئی بول رہی تھی۔
آواز معمول کے خلاف بلند تھی۔
"امتیاز کو سوچنا چائیے تھا زراد کی شادی ہوتی تو خیر تھی لیکن یہ زمان کی شادی تھی چاہے بارات کا فنکشن اٹینڈ کر لیتا... لیکن آتا تو سہی۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
زراد دروازے سے ٹیک لگاےُ دلچسپی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"سندس ٹھیک کہہ رہی ہے زراد کو سمجھائیں آپ کم از کم سب کے سامنے تو کچھ خیال کر لیا کرے۔"
ریحام کو اپنی توہین یاد آ گئی۔
"تم آج کیسے یہ بات بول رہی ہو؟"
سندس آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھنے لگی۔
"کیونکہ میڈم کچھ دیر قبل اپنی ستھری کروا کے آئیں ہیں... ویسے میں نے بہت اینجواےُ کیا۔"
زراد مداخلت کرتا ان کی جانب بڑھنے لگا۔
"مام میں اس کے سر میں کچھ مار دوں گی خاموش کروا لیں۔"
وہ کاٹ دار لہجے میں بولی۔
"آپ کو پتہ ہے ریحام کا منہ دیکھنے والا تھا جب بھائی نے اسے کھری کھری سنائیں۔"
وہ سندس کے عقب میں آ کھڑا ہوا۔
زراد کے ساتھ ساتھ سندس بھی مسکرانے لگی۔
"تم لوگوں کو عادت ہو گئی ہے شور مچانے کی اچھے سے واقف ہو اس کی عادات سے پھر بھی عقل نہیں آتی... "
عظمی نفی میں سر ہلاتی ہوئی۔
"آپ ہی کی وجہ سے زمان اتنا خود سر ہوا ہے.... "
سندس تاسف سے بولی۔
"میں جا رہی ہوں ایلن نے پتہ نہیں آصفہ(عظمی کی بہن) کو ناشتہ دیا کہ نہیں... "
وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
"ریحام تمہارا دوبارہ سے اپنی عزت کروانے کا ارادہ ہے تو بتا دو ہم دونوں مس نہیں کرنا چاہتے وہ خوبصورت سین... "
وہ سینے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
ریحام نے کشن اٹھا کر مارا جو زراد کی بجاےُ سندس کو جا لگا۔
"ریحام... "
سندس اپنے بال درست کرتی ہوئی بولی۔
"بہت شکریہ میری لاڈلی... ویسے سحر کہاں ہے؟"
وہ ریحام کا گال تھپتھپاتا ہوا بولا۔
"تم بہت اداس ہو رہے ہو اس سحر کے بغیر..."
سندس عقب سے اس کا کان کھینچتی ہوئی بولی۔
"میں تو اس کے لئے پوچھ رہا تھا آخر کو بچپن کی دوستی ہے دونوں کی... "
وہ پھر سے ریحام کو چڑانے لگا۔
"زمان کم ہے کیا تم بھی شروع ہو جاتے ہو..."
وہ دوسرا کشن اٹھاتی ہوئی بولی۔
"کتنی کیوٹ لگتی ہے نہ یہ سڑی سی شکل بناتے ہوۓ... "
وہ قہقہ لگاتا باہر نکل گیا۔
"بلکل بیوقوف ہے یہ... "
ریحام پیر پٹختی ٹہلنے لگی۔
"تم نے کب جانا ہے پارلر؟"
سندس گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی بولی۔
"پانچ بجے... "
وہ کہتی ہوئی بیڈ پر براجمان ہو گئی۔
"مجھے ساتھ لے جانا... "
وہ کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
"ریحام اندر ہے؟"
وہ سحر(حمیرا کی بیٹی) تھی۔
"سو رہی ہے... "
سندس نے سہولت سے جھوٹ بول دیا۔
"اوہ اچھا... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی واپس چل دی۔
~~~~~~~~
"سر تھوڑی سمائل کریں... "
کیمرہ مین پوز چینج کرواتا ہوا بولا۔
"کیوں تمہیں تکلیف ہو رہی ہے؟"
پل بھر میں زمان کا موڈ بدلا تھا۔
"نہیں میرا مطلب تھوڑا چینج ہونا چائیے نہ... "
وہ گڑبڑا کر سندس کو دیکھنے لگا جو بائیں جانب کھڑی تھی۔
وہ سب اس وقت برائیڈل روم میں تھے۔
فوٹو سیشن کے بعد ان دونوں نے باہر جانا تھا۔
"زمان کامن ڈاؤن... تھوڑا سمائل کر لو گے تو کیا ہو جاےُ گا۔"
سندس التجائیہ انداز میں بولی۔
جنت تعجب سے زمان کو دیکھ رہی تھی۔
"عجیب انسان ہے... "
وہ کہے بنا رہ نہ سکی۔
"کچھ کہا تم نے؟"
وہ جنت کو دیکھتا ہوا بولا۔
"نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"تم جلدی کرو... اور یہ ییلو لائٹ(پیلی روشنی) ہٹاؤ، وائٹ لائٹ لے کر آؤ۔"
وہ پیشانی پر بل ڈالے تحکم سے بولا۔
"سر یہ لائٹ بلکل ٹھیک ہے... "
وہ دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا۔
"آئی سیڈ چینج دِس(میں نے کہا تبدیل کرو اسے) ....اگر نہیں تو جا سکتے ہو۔ تمہارے جیسے دس فوٹوگرافر بلوا سکتا ہوں میں۔"
وہ آگ بگولہ ہو گیا۔
جنت سندس کو دیکھنے لگی جو کوفت سے فون ملا رہی تھی۔
"لیکن سر... "
"آؤٹ... "
وہ دروازے کی جانب اشارہ کرتا ہوا چلایا۔
"میں نے زراد کو فون کیا ہے وہ دوسرا فوٹوگرافر بھیجتا ہے... "
وہ فون بند کرتی ہوئی بولی۔
"مجھے نہیں کرنا کوئی فوٹو شوٹ... عجیب جاہل لوگ ہیں۔"
وہ برہمی سے کہتا دروازے کی جانب چلنے لگا۔
"کہاں؟"
وہ اس کی بازو پکڑتی ہکا بکا سی بولی۔
"مام سے کہنا فنکشن ختم... "
وہ چبا چبا کر بولا۔
"فنکشن تو شروع بھی نہیں ہوا تو ختم کیسے؟"
وہ بوکھلا گئی۔
"میرے لئے ختم ہو چکا ہے۔"
وہ اس کا ہاتھ ہٹاتا باہر نکل گیا۔
جنت منہ کھولے بند ہوتے دروازے کو دیکھنے لگی۔
"یا ﷲ اس لڑکے کا دماغ درست جگہ پر کیوں نہیں رہتا... "
وہ جھنجھلا کر کہتی فون ملانے لگی۔
"مام جائیں روکے اپنے نواب کو... کیمرہ مین پر غصہ کر کے چلا گیا ہے۔"
وہ فون کان سے لگاتی ٹہلنے لگی۔
"پتہ نہیں یہ کیسا انسان ہے... "
جنت بولتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"اچھا ہوا تم بیٹھ گئی... ہم ذرا تمہارے شوہر کو منا کر لائیں۔"
وہ مسکرا کر کہتی باہر نکل گئی۔
"میری بات سنو زمان مہمانوں کو بلا کر ان کی انسلٹ کون کرتا ہے؟ وہ سب تمہارے مہمان ہیں ہمارے نہیں... "
عظمی گزشتہ دس منٹ سے بحث کر رہی تھی۔
وہ دونوں گاڑی کے ساتھ کھڑے تھے۔
"براےُ مہربانی ایسے جاہل لوگوں کو ہائر مت کیا کریں جو میرا دماغ خراب کریں... "
وہ کار کا دروازہ بند کرتا اندر کی جانب قدم اٹھانے لگا۔
اسے اندر جاتے دیکھ کر عظمی کی جان میں جان آئی۔
"شکر ہے مان گیا... ورنہ کیا جواب دیتی میں سب مہمانوں کو... اتنے بڑے بڑے بزنس مین ہیں، میری فرینڈز ہیں... "
وہ سانس خارج کرتی زراد کے ہمراہ اندر کی جانب چلنے لگی۔
"چلیں شکر کریں وہ آ گئے واپس... ورنہ آج دولہے کو گھونگھٹ میں لانے کی نوبت آ جانی تھی۔"
وہ تمسخرانہ انداز میں کہتا خود بھی مسکرانے لگا۔
"ہاں گزشتہ صورتحال کو دیکھ کر یہی خدشہ لاحق ہو رہا تھا۔"
وہ مسکراتی ہوئی اندر آ گئی۔
زمان اور جنت سٹیج پر بیٹھے تھے۔
"لو یہ بھی آ گئے... "
وہ ناگواری سے بولی۔
شہناز اور سلمان صاحب سٹیج کی جانب جا رہے تھے۔
زراد نظر انداز کرنا دوسری سمت میں چل دیا۔
"کیسے ہو بیٹا؟"
وہ زمان کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"فائن... "
وہ سپاٹ انداز میں بولا۔
سلمان صاحب کے سلام کا جواب دے کر وہ سٹیج سے اتر گیا۔
"کیسی ہے میری بچی؟ زمان کیسا ہے تمہارے ساتھ؟ روکھا روکھا سا لگتا ہے۔"
وہ اسے ساتھ لگاتی تشویش سے بولیں۔
"نہیں امی وہ بس کم گو ہیں... اور میں بہت خوش ہوں آپ ٹینشن مت لیں۔"
وہ مسکرا کر انہیں تسلی دینے لگی۔
اس مسکراہٹ میں مخفی دکھ وہ دیکھ نہ سکیں۔ کمال کی اداکاری کرتی ہیں یہ بیٹیاں۔
"ﷲ تمہیں یونہی خوش و خرم رکھے... "
سلمان صاحب اس کے سر پر پیار دیتے ہوۓ بولے۔
"آمین... اچھا یہ بتاؤ باقی گھر والے وہ کیسے ہیں؟ تمہیں ٹھیک سے بلاتے ہیں؟"
وہ متفکر سی بولیں۔
"جی امی سب بہت اچھے ہیں... میں نے آپ کو کہا نہ آپ فکر مت کریں۔"
وہ ان کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
"چلو اچھی بات ہے... میں مریم اور عائشہ کو بھی بولتی ہوں تم سے مل لیں آکر... "
وہ کہتی ہوئی سٹیج سے اتر گئیں۔
جنت سرد آہ بھرتی مسکرانے لگی کیونکہ سامنے کبیر کھڑا تھا۔
کتنا تکلیف دہ لمحہ ہوتا جب دل پر زخم لئے مسکرانا پڑے۔
جب ہمیں اس لئے مسکرانا پڑے کہ کہیں آنکھوں سے آنسو نہ پھسل جائیں۔
جب دل رو رہا ہو اور آپ کو دنیا کے لیے مسکرانا پڑے۔ یہ مسکراہٹ آنسوؤں سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔ وہ بھی اسی موڑ پر کھڑی تھی جہاں اشکوں کو چھپا کر مسکراہٹوں کی نمائش کرنی پڑتی ہے۔ جہاں غم کو چھپا کر جھوٹی خوشی ظاہر کرنی پڑی ہے۔ یہ منافقت بیٹیاں بخوبی کرتی ہیں۔
ریسٹورنٹ سے نکل کر جنت زمان کے ہمراہ چل رہی تھی۔
"آج آپ مجھے بتا دیں... "
وہ گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی۔
"کیا؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"کمرے میں آپ کے ساتھ جاؤں... میرا مطلب کل... "
"ہاں... میں سیدھا کمرے میں ہی لے جاؤں گا فلحال تمہیں کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
وہ سخت لہجے میں بولا۔
"جی اچھا... "
وہ سر جھکا کر اپنے پاؤں دیکھنے لگی۔
~~~~~~~~
"ﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے سب اچھے سے ہوگیا..."
شہناز بیگم چارپائی پر بیٹھتی ہوئی بولیں۔
"بس یہی چاہتے ہیں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھ لیں..."
سلمان صاحب رانیہ کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
"آپ حماد سے بات کر کے اسے سمجھاتے کیوں نہیں ہیں؟"
وہ رازداری سے بولیں۔
"کیا سمجھاؤں میں اسے؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالتے ہوۓ بولے۔
"یہی کہ اب مریم کو تنگ کرنا ترک کر دے۔ اس کے لئے رشتہ دیکھنا ہے کل کو کوئی مسئلہ پیدا نہ کر دے۔"
وہ تشویش سے بولیں۔
"بھانجا تمہارا ہے تو میں کیسے سمجھاؤں؟ یہ کام خود ہی سر انجام دو... "
وہ خفگی سے بولے۔
"کیوں بار بار فون کر رہے ہو؟"
وہ زچ ہو کر بولی۔
"تم سے بات کرنی ہے۔"
مقابل ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
"تمہیں ہزار بار بول چکی ہوں کہ اب کچھ نہیں رہا میری جان چھوڑ دو۔ سکون سے رہنے دو مجھے.... "
وہ مدھم آواز میں برہم ہوئی۔
"اور میں نے بھی تمہیں بتا دیا ہے کہ میرا گزارا نہیں تمہارے بغیر..."
مریم کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا مقابل پر۔
اس نے کھٹاک سے فون بند کر دیا۔
"باہر جاؤ... "
وہ حسن کو دیکھتی ہوئی بولی جو دروازہ کھول کر اندر آ رہا تھا۔
مریم کا غصہ دیکھ کر وہ فوراً باہر نکل گیا۔
"کیوں میرا ضبط آزما رہا ہے وہ انسان؟"
"کیوں مجھے میرے حال پر نہیں چھوڑ دیتا.... سب تو لے لیا مجھ سے اب کیا باقی ہے؟"
وہ زمین پر بیٹھی سسک رہی تھی۔
"ایسے کون سے خزانے پوشیدہ کئے ہوۓ ہیں میں نے جو اسے چائیے.... "
وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔
"نجانے کس جرم کی سزا مل رہی ہے مجھے... "
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"دور کر دیں اس غلیظ انسان کو مجھ سے... مجھے نفرت ہوتی ہے اس کی موجودگی سے، گھن آتی ہے مجھے۔"
وہ حقارت سے بول رہی تھی۔
ضبط کا دامن آج ٹوٹ ہی گیا تھا۔
اور جب دامن ٹوٹا تو وہ بھی ٹوٹ کر بکھر گئی۔
~~~~~~~~
زمان کے پیچھے جنت بھی کمرے میں آ گئی۔
شاید یہ انسان مجھے روبوٹ بنانا چاہتا ہے۔
وہ زمان کو دیکھتی دل ہی دل میں سوچنے لگی۔
"منصور کیا رپورٹ ہے؟"
وہ فون کان سے لگاےُ بیڈ پر بیٹھ گیا۔
وہ اس بھاری لباس میں غیر آرام دہ تھی۔
سر جھکاےُ الماری کی جانب بڑھ گئی۔
سادہ سی شلوار قمیض نکال کر وہ واش روم کی جانب بڑھ گئی۔
وہ چینج کر کے نکلی تو زمان سیگرٹ سلگا رہا تھا۔
"میں نے چینج کیا؟"
ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالتا ہوا غرایا۔
"نہیں... "
وہ بے رخی سے بولی۔
"تو پھر؟ تم اپنی مرضی نہیں کر سکتی یہاں۔"
وہ جو الماری کی جانب بڑھ رہی تھی اپنی بازو کھینچے جانے پر زمان کے پاس آ گئی۔
"کیا سمجھتی ہو تم خود ہو؟"
ٹھہرا ہوا انداز، لہجہ سرد۔ عجیب ظالم انداز تھا اس کا۔
"کیا مجھے چینج کرنے کے لیے بھی آپ کی اجازت درکار ہے؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے بلند آواز میں بولی۔
اگلے لمحے جنت کے چہرے پر پڑنے والے تھپڑ کی گونج سنائی دی۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے زمان کو دیکھنے لگی جس کی آنکھیں انگارے اگل رہی تھیں۔
"زمان تیمور ہوں میں کوئی معمولی انسان نہیں... آئیندہ اگر اونچی آواز میں مجھ سے بات کی تو اس سے زیادہ برا ہو سکتا ہے۔ مجھے ہر گز ان مردوں میں شمار مت کرنا جو عورت کے پاؤں میں بچھ جاتے ہیں۔ تمہارا شوہر زمان تیمور ہے۔"
وہ اس کی بازو پر زور ڈالتا ہوا بولا۔
"آہ... "
وہ کراہ کر اسے دیکھنے لگی۔
"درد ہو رہا ہے؟ یہ زبان چلانے سے پہلے تو تم نے سوچا نہیں تھا پھر اب کیوں کراہ رہی ہو؟"
وہ بائیں ہاتھ سے اس کا منہ دبوچتا ہوا بولا۔
جنت کی آنکھوں میں خفگی کی جگہ خوف اور اشکوں نے لے لی۔
اس کی آنکھوں کے بدلتے موسم دیکھ کر زمان مبہوت رہ گیا۔
"تم نے مجھ سے اونچی آواز میں بات کی کیسے؟ آج تک کسی کی اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ مجھ سے اونچی آواز میں بات کرے۔"
وہ اس کا منہ آزاد کرتا طیش میں چلایا۔
وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔
"جانتی ہو میں کون ہوں؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
زمان کے اس انداز پر جنت کے الفاظ دم توڑ چکے تھے۔
"زمان تیمور ہوں میں... لوگ میرے آگے جھکتے ہیں..... اور اور اور یہ آخری وارنگ ہے تمہاری لئے ورنہ میں بہت برا پیش آؤں گا۔ یہ سب میں برداشت نہیں کروں گا۔ اپنی حد میں رہو گی تو بہتر ہوگا تمہارے حق میں۔"
وہ سرد نگاہیں اس کے چہرے پر گاڑھتا ہوا بولا۔
اس سے قبل کہ جنت کوئی جواب دیتی وہ اس کی کلائی اپنی فولادی گرفت سے آزاد کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
"میں انسان ہوں بھی یا نہیں؟"
وہ سر تھامتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
ولیمے کا ڈریس زمین بوس ہو چکا تھا۔
"یہ انسان پاگل ہے مجھے یقین ہو چلا ہے۔ صرف کپڑے چینج کرنے پر... نہ... نہیں اونچی آواز میں بات کرنے پر مجھے تھپڑ مار دیا؟"
وہ بے یقینی کی کیفیت میں بول رہی تھی۔
سر جھکا ہوا تھا۔
"یہ کیسی آزمائش ہے؟ اتنا غصہ؟ وہ بھی بلا وجہ... میں کیسے اس کے اشارے پر چلوں؟ انسان ہوں میں کوئی روبوٹ نہیں..."
وہ جھرجھری لیتی دروازے کو دیکھنے لگی جہاں سے وہ باہر نکل کر گیا تھا۔
"لیکن اگر آپ نے یہ آزمائش مجھ پر ڈالی ہے تو یقیناً اس سے نکلنے کا راستہ بھی رکھا ہوگا۔ میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گی۔ البتہ یہ بہت مشکل ہے زمان چاہتا ہے میں اپنا ہر کام اس کی اجازت سے کروں... اس سے پوچھوں پھر کچھ کروں۔ کیسے ممکن ہے یہ؟"
وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
وہ زمین کو دیکھنے لگی جہاں اس کا سامان بکھرا ہوا تھا۔
بالوں میں ہاتھ پھیرتی وہ کھڑی ہو گئی اور سامان اٹھانے لگی۔
"دیکھو بیٹا شوہر سے کبھی اونچی آواز میں بات مت کرنا۔مرد ہرگز برداشت نہیں کرتا عورت کا اونچی آواز میں بات کرنا یا برابری کرنا۔اگر کوئی اونچ نیچ ہو بھی جاےُ تو تم جھک جانا... درگزر سے کام لینا، جھکنے والا غلط نہیں ہوتا بس رشتہ سنبھالنے کی خاطر یہ چھوٹے چھوٹے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔"
وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھے سمجھا رہی تھیں۔
"آپ فکر مت کریں امی... "
وہ نظریں اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی۔
"میاں بیوی کے رشتے میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور رشتہ تبھی محفوظ رہتا ہے جب آپ جھکنا جانتے ہو، اگر ضد میں آ گئی تو چیزیں خراب ہو جائیں گیں۔ زمان کچھ خشک قسم کا انسان معلوم ہو رہا ہے بیٹا تم سمجھداری کا مظاہرہ کرنا۔ چاہے غلطی زمان کی ہو تم جھک جانا.... کوئی فرق نہیں پڑتا اس چیز سے۔"
وہ نرمی سے بول رہی تھیں۔
"ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ویسے بھی آپ سے وعدہ کیا ہے... ظلم بھی ہوا تو احتجاج نہیں کروں گی۔"
وہ زمین کو گھورتی تلخی سے بولی۔
"ﷲ نہ کرے ایسا کچھ ہو... ﷲ تمہارے نصیب اچھے کرے۔میں چلتی مہمانوں کو دیکھوں مولوی صاحب آتے ہوں گے نکاح کے لیے۔"
وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئیں۔
جنت سانس خارج کرتی ماضی سے حال میں لوٹ آئی۔
وہ صوفے پر بیٹھی پانی سے بھرے جگ کو گھورنے لگی۔
"کیا یہ باتیں مردوں کو سمجھائی نہیں جاتیں؟ کیا انہیں نہیں بتایا جاتا کہ کہیں نہ کہیں وہ بھی سمجھوتہ کر لیں۔ کچھ اپنی منوا لیں اور کچھ سامنے والے کی مان لیں۔ رشتے تو ایسے ہی چلتے ہیں۔ یہ ظلم نہیں کہ سمجھوتہ عورت ہی کرے؟ کیا شوہر کو بیوی کی ضرورت نہیں؟ پھر ہر سمجھوتہ بیوی کے حصے میں کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟ اس کی غلطی ہو تب بھی وہی جھکے اور جب اس کی غلطی نہ ہو تب بھی وہی جھکے کیونکہ گھر تو بیوی کو ہی بنانا ہے نہ.... "
وہ تلخی سے گویا ہوئی۔
"مطلب اب مجھے یہیں بیٹھے رہنا ہے جب تک زمان واپس نہیں آ جاتا... چاہے میں یہاں بیٹھی بیٹھی تھک جاؤں لیکن میں سو نہیں سکتی... "
وہ ہنستی ہوئی بولی۔
"زمان صاحب نے مجھے حکم نہیں دیا تو میں کیسے کچھ بھی کر سکتی ہوں؟عجیب اصول ہیں زمان کے... "
وہ صوفے سے ٹیک لگاتی ہوئی بڑبڑائی۔
رات کے دو بجے زمان کمرے میں داخل ہوا۔
لائٹ آن تھی جنت سر صوفے کی پشت پر رکھے آنکھیں بند کئے ہوۓ تھی۔
وہ جیب میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھا۔
جھک کر جنت کو بغور دیکھا جو سو رہی تھی۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا سیدھا ہو گیا۔
"بیڈ پر جا کر سو جاؤ... "
وہ اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔
وہ گھبرا کر سیدھی ہو گئی۔
"میں ہوں... "
وہ اس کی گھبراہٹ محسوس کرتا ہوا بولا۔
وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی اردگرد دیکھنے لگی۔
"میں نے کہا وہاں جا کر آرام کرو... "
آواز پہلے کی نسبت کچھ بلند ہو گئی۔
"اچھا... "
وہ گلاس میں پانی ڈالتی ہوئی بولی۔
"بلکہ ایسا کرو پہلے میرے کپڑے نکال دو اس کے بعد سو جانا... "
وہ کوٹ کے بٹن کھولتا ہوا بولا۔
وہ آدھا گلاس پانی پی چکی تھی۔
گلاس لبوں سے ہٹایا اور ٹیبل پر رکھتی الماری کے سامنے آ گئی۔
"کون سا؟"
وہ رخ موڑ کر بولی۔
آنکھیں رونے کی چغلی کھا رہی تھیں کچھ نیند کے باعث سرخی مائل ہو رہی تھیں۔
لیکن زمان تیمور کے ماتھے پر ایک شکن تک نہ آئی۔
"سیکنڈ والی کب بورڈ کھول کر کوئی بھی نکال دو..."
وہ بائیں ہاتھ سے گھڑی اتارتا ہوا بولا۔
وہ ہینگر صوفے پر رکھتی بیڈ کی جانب بڑھ گئی۔
زمان چینج کر کے آیا تو جنت بیڈ کے بائیں کنارے کروٹ لئے لیٹی تھی۔
ایک نظر اس پر ڈال کر وہ لائٹ آف کرتا دوسرے کنارے پر آ کر لیٹ گیا۔
کسی نے پانی سے بھرا جگ جنت کے منہ پر گرایا۔
وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی۔
سامنے زمان تیمور کھڑا تھا کڑے تیور لئے۔
"یہ کیا طریقہ ہے؟"
وہ برہمی سے بولی۔
"تمیز سے بات کرو مجھ سے... اور یہ بتاؤ ذرا تمہیں جگانے کی ذمہ داری میری ہے؟ تمہیں اس گھر میں اس لئے لایا ہوں تاکہ تمہاری خدمت کروں میں؟"
وہ چبا چبا کر کہتا اسے گھور رہا تھا۔
"میں نے کب کہا ایسا؟"
وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
"کل سے الارم لگا کر سونا اور مجھ سے پہلے جاگنا ہے تمہیں... میں اٹھوں اور مجھے میری ہر چیز سامنے نظر آےُ۔"
وہ صوفے کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔
"کون سی چیز؟"
وہ بولتی ہوئی بیڈ سے اتر آئی۔
"میرے شوز, کپڑے, سٹڈ اور گھڑی... لکھ لو کہیں تمہارا حافظہ خاصا کمزور معلوم ہوتا ہے۔"
وہ گردن گھما کر دیکھتا رکھائی سے بولا۔
"اچھا.... کتنے بجے جاگنا ہوگا مجھے؟"
وہ ڈریسنگ کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔
"دس بج کر تیس منٹ پر... آدھے گھنٹے میں تمہیں سب کرنا ہے گیارہ بجے مجھے اٹھاؤ گی۔اور اسی وقت میں تم بھی تیار ہو۔ اب باقی سوال بعد میں کرنا میرے کپڑے نکالو مجھے میٹنگ کے لئے دیر ہو رہی ہے۔"
وہ دیوار میں نصب گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔
"کون سی الماری سے اور کون سے کپڑے... "
وہ ہنکار بھرتی چلنے لگی۔
زمان فون پر محو ہونے کے باعث اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ نہیں سکا۔
"بلیک والا نکال دو، جس کے ساتھ وائٹ شرٹ ہے۔ اور تم آج گرے کلر والا ڈریس پہنو گی۔"
وہ آنکھیں چھوٹی کیے اسکرین پر انگلیاں چلا رہا تھا۔
آخری بات پر جنت کا منہ کھل گیا۔
"کیا پاگل پن ہے... "
وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔
"کوئی مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟"
جنت اسے دیکھ رہی تھی نجانے کیسے بھانپ لیا اس نے۔
"نہیں... "
وہ کہتی ہوئی کپڑے نکالنے لگی۔
سٹڈ نکالتے ہوۓ نجانے اس کا دھیان کہاں تھا جو باکس نیچے گر گیا۔
زمان نے فوراً گردن گھما کر اسے دیکھا۔
"سوری... "
وہ سرعت سے کہتی باکس اٹھانے لگی جس کے ہمراہ ٹکٹس تھیں۔
"کام کرنا نہیں آتا کیا؟ ماں نے تو تعریفوں کے پل باندھ دئیے تھے۔"
وہ سخت خفا دکھائی دے رہا تھا۔
"ہم کہیں جا رہے ہیں؟"
وہ بغور ٹکٹس کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"کینسل کر دیں ہیں میں نے ہمارے ہنی مون کی تھیں... "
وہ لیپ ٹاپ کھولتا پرے کرتا ہوا بولا۔
"کیوں؟"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"اپنے کام سے کام رکھو... اور آج کی تاریخ میں مجھے میری مطلوبہ اشیاء مل جائیں گیں یا نہیں... "
وہ خطرناک تیور لئے کھڑا ہوگیا۔
"یہ لیں بس ہو گیا... "
وہ ٹکٹس واپس اندر رکھتی ہوئی اس کے سامنے آ گئی۔
وہ سلگتی نگاہ جنت پر ڈالتا ہینگر لیتا واش روم میں چلا گیا۔
"کیا میں مشین ہوں جو مجھ سے غلطی نہیں ہو سکتی... "
وہ واش روم کے دروازے کو گھورتی ہوئی بولی۔
درد کی انگلیاں پیشانی سے ہوتی ہوئی گردن تک جا رہی تھیں۔
وہ دکھتے سر کو دباتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"کیوں کینسل کر دیا ہنی مون؟"
وہ منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی۔
زمان واش روم سے باہر نکل کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
"اگر کوئی مجھ سے پوچھے ہنی مون کے بارے میں تو میں کیا کہوں؟"
وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"کہہ دینا زمان نے منع کر دیا۔"
وہ شرٹ کے بٹن بند کرتا ہوا بولا۔
"واٹ دا ہیل.... "
وہ ٹوٹے ہوۓ بٹن کو دیکھتا ہوا بولا۔
"میں لگا دوں؟"
جنت اسے دیکھ چکی تھی۔
"یہاں کسی مووی یا ڈرامے کی شوٹنگ نہیں ہو رہی جو تم میری شرٹ کا بٹن لگاؤ گی۔ دوسری شرٹ نکال کر دو اور ایلن سے کہو پھنک دو اسے... "
وہ شرٹ اتار کر صوفے پر پھینکتا ہوا بولا۔
"پھینک دے؟"
جنت کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"مجھے کمی نہیں ہے کسی چیز کی... ایسی دس چیزیں پھینکتا ہوں میں روز۔ اب تم مجھے لا کر دو گی یا میرا سر کھاتی رہو گی؟"
وہ پیچ و تاب کھا کر بولا۔
"آ گئی بس... "
وہ شرٹ نکالتی ہوئی بولی۔
"بہت اِریٹیٹنگ ہو تم... "
وہ شرٹ چھینتا ہوا بولا۔
"میں نے کب تنگ کیا آپ کو؟"
وہ ششدر سی بولی۔
"میرے ساتھ بحث مت کرو... نہ ہی مجھے پسند ہے۔"
وہ ہاتھ اٹھا کر بلند آواز میں بولا۔
وہ سانس خارج کرتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
وہ بالوں میں برش پھیرتا آئینے میں اسے دیکھنے لگا۔
"تمہیں ہر بات میں سمجھاؤں گا؟"
وہ اس کی جانب رخ موڑتا ہوا بولا۔
"اب کیا کر دیا میں نے؟"
وہ متحیر سی اسے دیکھنے لگی۔
"جا کر چینج کرو میرے ساتھ نیچے جاؤ گی تم اور میں روز روز نہیں بتاؤں گا یہ سب... "
وہ برش زور سے ڈریسنگ پر رکھتا ہوا بولا جو اس کے تمس کا اظہار تھا۔
"اچھا... "
وہ اپنے کپڑے اٹھاتی ہوئی بولی۔
"یس زمان تیمور...."
وہ فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
"تم سے میں فیس ٹو فیس بات کروں گا... تم جیسے لوگوں کو پل بھر میں مسل کر رکھ سکتا ہوں میں۔"
وہ ٹہلتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہے پھر میرے سرپرائز کا ویٹ کرو.. "
چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ تھی۔
~~~~~~~~
"جنت اپنی سم لے کر گئی ہے؟"
شہناز پیاز کاٹتی ہوئی بولیں۔
"جی امی لے کر تو گئی ہے لیکن ابھی تک آن نہیں کیا نمبر..."
وہ حسن کو روٹی کھلا رہی تھی۔
"اچھا... میں نے سوچا پوچھوں تو سہی کب آےُ گی ولیمے کے بعد سیدھا گھر ہی چلے گئے وہ لوگ۔"
وہ متفکر سی بولیں۔
"یاد آ رہی ہے آپ کو؟"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"یاد کیوں نہیں آےُ گی؟ جسے پال پوس کر اتنا بڑا کیا... "
وہ دوپٹے سے آنکھوں میں ابھرتی نمی صاف کرتی ہوئی بولی۔
"ماما... خالہ؟"
حسن اس کا بازو ہلاتا ہوا بولا۔
"خالہ اپنے گھر چلی گئی ہیں... "
وہ اس کا منہ تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
"تم جلدی سے سالن بنا لو.... آج کبیر نے آنا ہے دوپہر میں۔"
وہ کہتی ہوئی کچن میں آ گئیں۔
"جی ٹھیک ہے۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"میں نجمہ کی طرف جا رہی ہوں گھنٹے تک آ جاؤں گی۔"
وہ ہاتھ دھوتی ہوئی بولیں۔
"جلدی آ جانا..."
وہ حسن کو زمین پر اتارتی ہوئی بولی۔
"اچھا... "
ان کے نکلتے ہی حماد وہاں آ گیا۔
"بابا.... "
حسن چلاتا ہوا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
"بابا.... "
مریم بڑبڑاتی ہوئی کچن سے باہر نکل آئی۔
"تم پھر آ گئے؟"
وہ اسے دیکھتی تمس سے چلائی۔
"تم سے ملنے آیا ہوں لیکن تم ہو کہ ہر وقت منہ میں مرچیں دباےُ رکھتی ہو... "
وہ حسن کو گود میں اٹھاتا ہوا بولا۔
"میرے بیٹے کو چھوڑو... "
وہ خفگی سے کہتی حسن کو اس سے لینے کی سعی کرنے لگی۔
"نہ تمہیں چھوڑوں گا نہ اپنے بچوں کو... "
وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
"حماد مجھے مجبور مت کرو کہ میں تمہارا حشر نشر کر دوں... "
وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئی بولی۔
"اور ایسا کیوں کرو گی؟"
وہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتا ہوا بولا۔
"اب تمہیں ہماری یاد کیوں آ رہی ہے بتاؤ؟"
وہ سینے پر بازو باندھتی چہرے پر سختی طاری کئے اسے دیکھنے لگی۔
"بس مجھے تمہاری ضرورت ہے... "
وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔
"یاد ہے جب تم نے مجھے تیسری طلاق دی تھی؟ کیا کہا تھا مجھے... "
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
آنکھیں دھندلانے لگیں۔
"بھول جاؤ ان باتوں کو اور میرے ساتھ چلو بس... "
وہ آسودگی سے بولا۔
"تم نے کہا تھا کہ مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے نہ ہی تمہارے بچوں کو... "
وہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
وہ ہچکچاتا ہوا دائیں بائیں دیکھنے لگا۔
"شازیہ کہاں گئی؟ اسی کے لئے تم نے مجھے چھوڑا تھا نہ؟ اب کیا ہوا چھوڑ گئی تمہیں وہ؟"
اب کہ اس نے چوٹ کی۔
"شرم آنی چائیے اس طرح کے الزام... "
"شرم تو تمہیں آنی چائیے طلاق دینے کے بعد بھی مجھے واپس لے جانے کی ضد کر رہے ہو... دفعہ ہو جاؤ یہاں سے اس سے قبل کہ میں تمہیں دھکے مار کر نکال دوں یہاں سے... "
وہ اس کی بات کاٹتی درشتی سے بولی۔
"پچھتاؤ گی تم... تم جیسی لڑکی کو کوئی نہیں اپناےُ گا لکھ کے دے سکتا ہوں میں۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتا حسن کو نیچے اتار کر الٹے قدم اٹھانے لگا۔
"آج تک پچھتا ہی رہی ہوں یقین ہے اب آگے ایسا نہیں ہوگا۔ اور تم سے کئی درجے اچھا انسان ملے گا مجھے.... "
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
"جنت کی زبان بولنے لگی ہو تم بھی... میرا گھر اجاڑ کر خوش وہ بھی نہیں رہے گی۔"
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
مریم وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔
چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ زاروقطار رونے لگی۔
"ماما... "
حسن پریشان سا اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹانے لگا۔
"آپ رانیہ کے ساتھ جا کر کھیلو... "
وہ اس کے رخسار پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔
"پتہ نہیں کب یہ قصہ تمام ہوگا؟"
وہ تھک کر دروازے کو دیکھنے لگی۔
~~~~~~~~
"آفس جا رہے ہو؟"
وہ زمان کو تیار دیکھ کر بولیں۔
"جی اب کام کا آغاز کیا ہے تو ٹائم تو دینا پڑے گا۔"
وہ جوس کا گلاس اٹھاتا صوفے سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی سنگل صوفے پر بیٹھ گئیں۔
"سندس دکھائی نہیں دے رہی..."
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولی۔
"اپنے کمرے میں ہے... امتیاز کے باعث تم ابراہیم سے بھی نہیں ملے خفا ہو رہی تھی۔"
وہ مصنوعی خفگی لئے بولیں۔
"اوہ ابراہیم! اتنے کام تھے... آئی جسٹ فور گوٹ ہم۔(میں اسے بھول گیا) "
وہ نفی میں سر ہلاتا تاسف سے بولا۔
"غصے میں سب ہی بھول جاتے ہو... "
وہ خفا انداز میں بولیں۔
"اوکے فائن سن لیا میں نے... بلائیں اسے کہاں ہے۔"
وہ بائیں ہاتھ آگے کرتا گھڑی پر ٹائم دیکھتا سرد مہری سے بولا۔
"سو رہا ہے واپس آ کر مل لینا... "
وہ نیوز پیپر اٹھاتی ہوئی بولیں۔
"ایز یو وش(جیسے آپ کی مرضی) "
جنت خاموشی سے ناشتہ کر رہی تھی۔
"وہ.....مجھے گھر کال کرنی تھی۔"
زمان کے کھڑے ہوتے ہی وہ بھی کھڑی ہو گئی۔
"کال؟"
وہ فون پر انگلیاں چلاتا ہوا بولا۔
"میں زراد کو کہہ دوں گا وہ تمہیں فون اور سم لا دے گا.... کچھ اور چائیے؟"
وہ کوٹ اٹھاتا ہوا بولا۔
"نہیں... میں گھر میں گھوم پھر سکتی ہوں نہ؟ میرا مطلب کمرے میں بند...."
"ہاں لیکن گھر کی چاردیواری سے باہر نہیں... "
وہ کہتا ہوا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
وہ سانس خارج کرتی اسے جاتا دیکھنے لگی۔
"مام میں جا رہی ہوں... "
سندس ابراہیم کا ہاتھ پکڑے کھڑی تھی۔
"کہاں؟"
وہ نیوز پیپر واپس ٹیبل پر رکھتی کھڑی ہو گئیں۔
"اپنے سسرال اور وہیں سے واپس سپین چلی جاؤں گی۔"
چہرے پر خفگی کا عنصر نمایاں تھا۔
"یہ کیا بات ہوئی ابھی دن ہی کتنے ہوےُ ہیں تمہیں یہاں آےُ؟"
وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگیں۔
"زمان نے اس بار تو حد ہی کر دی ہے مام...میں کیا بولوں امتیاز کو بتائیں؟"
وہ ہینڈ بیگ ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی۔
"وقتی غصہ ہے تم کیوں فکر کر رہی ہو... اور دیکھا جاےُ تو غلطی امتیاز کی ہی تھی اگر تھوڑا بہت خمیازہ بھگتنا پڑے تو...."
"اچھا بعد میں بات کریں گے فلحال ابراہیم کی دادو کی کالز آ رہی ہیں مجھے... "
وہ ان کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
"واپس آجانا...ورنہ زمان ناراض ہو گا جانتی ہو نہ اسے۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولیں۔
"اوکے چلتی ہوں میں... "
وہ جنت کے پاس آ گئی۔
وہ مسکراتی ہوئی گلے ملتی الگ ہو گئی۔
"اگر کوئی ہیلپ چائیے ہو تو بلا جھجھک مجھے کال کر لینا... میرا نمبر ایلن سے مل جاےُ گا۔"
وہ خوشدلی سے بولی۔
"تھینک یو...."
وہ تشکرانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"ویلکم... چلیں ابراہیم! "
وہ اسے گود میں اٹھاتی ہوئی بولی۔
"میں فون کروں گی تمہیں... "
عظمی نے اسے جاتے دیکھ کر ہانک لگائی۔
"اوکے... "
"ایلن میرے لئے کافی بنا کر لاؤ... "
وہ اپنا فون اٹھاتی وہاں سے نکل گئیں۔
"سب چلے گئے اب میں اکیلی کیا کروں؟"
وہ اردگرد کا جائزہ لیتی ہوئی بولی۔
سامنے بائیں جانب سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔
"ہاں فون... "
وہ سوچتی ہوئی دائیں جانب راہداری میں چلنے لگی۔
زینے چڑھ کر وہ ایک لحظے کے لئے رکی۔
"سو نہ رہا ہو... "
وہ انگلی دانتوں تلے دباےُ سوچنے لگی۔
"بارہ تو بج رہے ہیں... کچھ نہیں ہوتا اگر سویا بھی ہوا تو۔"
وہ خود کلامی کرتی دروازہ بجانے لگی۔
پانچ منٹ وہ تحمل سے انتظار کرتی رہی لیکن اندر سے کوئی آہٹ سنائی نہ دی۔
"لگتا ہے بہت گہری نیند میں ہے... "
وہ مایوسی سے کہتی اپنے کمرے کی جانب چلنے لگی لیکن تبھی دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔
وہ گردن گھما کر عقب میں دیکھنے لگی۔
زراد سوالیہ نظروں سے اسی کو دیکھ رہا تھا۔
"ڈسٹرب کرنے کے لیے سوری... وہ.. "
"نو پرابلم آپ بتائیں کیا کہنا تھا؟"
وہ بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتا انہیں سیٹ کرنے لگا۔
وہ ٹی شرٹ اور ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھا۔ غالباً وہ سو رہا تھا۔
"وہ زمان کہہ کر گئے ہیں کہ آپ مجھے فون لا دیں.... "
وہ اپنی بات کہہ کر اسے دیکھنے لگی۔
"کوئی پسند ہے آپ کو یا کسی بھی کمپنی کا؟ اور سم؟"
وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔
"کوئی بھی لا دیں اچھا سا... اور سم ہے میرے پاس۔"
وہ معدوم سا مسکرائی۔
"ٹھیک ہے.... آپ کو مل جاےُ گا... دو بجے تک۔"
وہ گردن گھما کر عقب میں گھڑی دیکھتا پرسوچ انداز میں بولا۔
"تب تک میں کیا کروں؟"
وہ آسودگی سے بولی۔
"سندس سے گپ شپ لگا لیں یا پھر... "
"وہ تو چلی گئیں ہیں... مجھے گھر کال کرنی تھی۔"
وہ بیچارگی سے بولی۔
"گھر کال کرنی تھی تو پھر ایک کام کریں...."
وہ کہتا ہوا اندر کمرے میں چلا گیا۔
وہ لب کاٹتی اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔
"آپ کچھ دیر کے لیے یہ میرا فون یوز کر لیں... پھر میں نیا لا دوں گا۔"
وہ آئی فون اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔
"تو آپ کو پریشانی ہوگی میری بات لمبی بھی ہو سکتی ہے... "
وہ تشویش سے بولی۔
"نہیں فکر مت کریں... آپ جتنی مرضی لمبی کال کریں یہ ایکسٹرا ہے۔ آج کل یہ استعمال نہیں کر رہا میں دوسرا ہے میرے پاس... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"چلیں پھر ٹھیک ہے... تھینک یو۔"
وہ فون لیتی ہوئی بولی۔
"یو ویلکم... "
وہ دروازہ بند کرتا اندر چلا گیا۔
"امی سے تو بات کروں... "
وہ اپنے کمرے میں آتی ہوئی بولی۔
"اچھا ہوا ولیمے والے دن مریم سے سم منگوا لی میں نے... "
وہ صوفے پر بیٹھ کر سم ڈالنے لگی۔
وہ مسکراتی ہوئی مریم کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
وہ دو گھنٹے بعد فون بند کر کے کھڑکی کے پاس آ گئی۔
پردے سِرکاےُ تو پورچ میں زمان کی گاڑی دکھائی دی۔
وہ فون ہاتھ میں لئے کمرے سے باہر نکل آئی۔
"زمان اتنی جلدی آ گئے؟"
وہ تعجب سے کہتی زینے اترنے لگی۔
جنت سے آگے زراد چلا جا رہا تھا۔
"آپ نے بلایا مجھے؟"
وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتا اس کے عین مقابل آ گیا۔
زمان کا چہرہ مارے غیض کے سرخ ہو رہا تھا۔
گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں, شعلہ بار آنکھیں۔
زراد نے ایک نگاہ عظمی پر ڈالی جو زمان کے بائیں جانب کھڑی تھی۔
"ایک کروڑ بیانوے لاکھ بائیس ہزار کی BMW 7 تمہارے پاس کہاں سے آئی؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"تو آپ کو معلوم ہو گیا... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
جنت کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
اسے اپنی سماعت پر شبہ ہو رہا تھا۔
"تمہیں کیا لگا تھا میں لاعلم رہوں گا؟".
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگا۔
"بینک سے لان لیا تھا... "
وہ آہستگی سے بولا۔
سر مجرمانہ انداز میں جھکا ہوا تھا۔
"کیا کہا؟"
وہ اس کی جانب ایک قدم بڑھاتا ہوا بولا۔
"بینک سے لان لیا تھا۔"
وہ ایک قدم الٹا اٹھاتا ہوا بولا۔
زمان نے دائیں ہاتھ کا مکا بنا کر زراد کے منہ پر جھڑ دیا۔
اس کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا۔
وہ دو قدم الٹے اٹھاتا بائیں ہاتھ کے انگوٹھے خون صاف کرنے لگا۔
جنت منہ پر ہاتھ رکھے ششدر سی انہیں دیکھ رہی تھی۔
عظمی بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی زمان کے معاملات میں کسی کو بھی دخل اندازی کی اجازت نہیں تھی۔
"زمان تیمور کا بھائی بینک سے بھیک مانگنے گیا؟"
وہ طیش میں چلایا۔
"بھیک کہاں واپس کروں گا انہیں... "
وہ خفا انداز میں بولا۔
"دل چاہ رہا ہے دو چار مزید جھڑ دوں تمہارے منہ پر... یہ دن آ گئے ہیں کہ زمان تیمور کا بھائی بینک سے مانگنے جاےُ گا۔"
وہ خطرناک تیور لئے بولا۔
لاؤنج میں اس وقت صرف زمان تیمور کی کرودہ آواز گونج رہی تھی۔
"مجھے لگا ابھی ایک مہینے پہلے گاڑی چینج کی تھی اگر ابھی کہا تو شاید آپ... "
وہ بات ادھوری چھوڑ کر زمان کو دیکھنے لگا۔
"کبھی منع کیا ہے تمہیں بتاؤ مجھے؟ تم مجھے کل آ کر کہو گے نہ کہ مجھے وہ والی گاڑی پسند آ گئی ہے تب بھی انکار نہیں کروں گا۔ اندازہ نہیں لگا سکتے جب سے مجھے معلوم ہوا کہ تم نے بینک سے ادھار لیا ہے دل چاہ رہا تھا تمہیں شوٹ کر دوں... جو دوسروں کو دیتا ہے اس کا بھائی بینک سے مانگنے چلا گیا۔"
وہ اسے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑتا ہوا بولا۔
"غلطی ہو گئی مجھ سے... "
وہ عظمی کو دیکھتا مجرمانہ انداز میں بولا۔
"اچھا چلو چھوڑو نہ اب... معافی مانگ تو رہا ہے۔"
عظمی زمان کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
زمان ترچھی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا۔
اس کی نگاہوں میں تنبیہ تھی۔
وہ خفیف سی ہو کر پیچھے ہو گئی۔
"کیا اس کی معافی سے میری عزت واپس آےُ گی... پتہ نہیں سب کی عقل کہاں مر گئی ہے۔ تم ایک بار مجھ سے پوچھ بھی نہیں سکتے تھے... "
اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
"اب غلطی ہو گئی کیا کروں؟ مجھے لگا شاید آپ منع کر دیں... "
وہ اپنا گریبان آزاد کرواتا اس سے دور ہو گیا۔
"یہ دن آ گئے ہیں نہ کہ تم بینک میں دھکے کھاتے پھرو گے... یاد رکھنا اتنا پیسہ ہے میرے پاس کہ تم ساری زندگی اس پیسے پر عیش کر سکتے ہو... آئیندہ ایسی حماقت مت کرنا ورنہ... "
وہ بات ادھوری چھوڑ کر گلاس میں پانی ڈالنے لگا۔
"کبھی نہیں ہوگا دوبارہ... "
وہ سکھ کا سانس لیتا ہوا بولا۔
"یہ چیک پکڑو اور بینک کے منہ پر مارو جا کر... میں احسان لینے والوں میں سے نہیں کرنے والوں میں سے ہوں۔"
وہ چیک بک ٹیبل پر رکھے سائن کر رہا تھا۔
زراد کا چہرہ کھل اٹھا۔
"ابھی جاتا ہوں میں... "
وہ چیک لے کر راہداری میں مڑ گیا۔
"سب کے سب بیوقوف ہیں یہاں... "
وہ پانی گلے سے اتارتا ہوا بولا۔
جنت زمان کا یہ روپ دیکھ کر اپنی جگہ پر منجمد ہو چکی تھی۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
وہ صوفے پر بیٹھتا اسے دیکھنے لگا۔
"وہ... میں.. کیوں آئی تھی یہاں..."
اس ہنگامے میں وہ یہاں آنے کی وجہ ہی فراموش کر گئی۔
"آر یو کریزی؟(کیا تم پاگل ہو؟)"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے گھورنے لگا۔
"نہیں...وہ... "
اس سے کوئی بات بن نہیں پا رہی تھی۔
عظمی بھی بیٹھ چکی تھی۔
"آہ... سب پاگل ہیں یہاں۔"
وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا ہوا بڑبڑایا۔
ٹیبل سے چیک بک اٹھا کر کوٹ کی جیب میں ڈالی اور دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
"مجھے بات کرنی تھی آپ سے... "
وہ بولتی ہوئی اس کے پیچھے لپکی۔
"نو... ابھی میں کچھ نہیں سنوں گا۔ شام میں بات کروں گا۔ واپس جاؤ۔"
وہ دروازے میں رک کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
جنت کا منہ کھل گیا۔
"سنا نہیں تم نے؟"
وہ چلایا تو جنت اثبات میں سر ہلاتی مڑ گئی۔
"ایک بات دس دفعہ بتانی پڑتی ہے... "
وہ جھنجھلا کر کہتا باہر نکل گیا۔
"زیادہ سوال جواب مت کیا کرو زمان سے... چڑتا ہے وہ اس بات سے۔"
عظمی لیپ ٹاپ کی اسکرین کھولتی ہوئی بولی۔
"جی اچھا... "
وہ سرد آہ بھرتی راہداری میں آ گئی۔
"پتہ نہیں پسند کیا ہے زمان تیمور کو... توبہ اتنا غصہ! اپنے بھائی کا لحاظ بھی نہیں کیا پھر میں کیا چیز ہوں... "
اس کی آنکھوں میں حیرت کا عنصر تھا۔
وہ خود پر ہنستی چلنے لگی۔
"زراد کو دیکھ کر آپ کا تھپڑ یاد آ گیا... ابھی تک درد ہو رہا ہے۔ کتنی بے دردی سے آپ نے ولیمے کی دلہن کو مارا تھا... "
وہ بولتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔
"پتہ نہیں اتنے سنگدل کیوں ہیں آپ؟ وہ تکلیف میرے رگ و پے پر سرایت کر گئی تھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جسم کا ایک ایک عضو تکلیف میں ہے۔"
وہ آنکھوں میں ابھرتی نمی کو صاف کرتی ہوئی بولی۔
"آہ میرے ناولز کے ظالم ہیرو... ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں مجھے یہ ہیرو بلکل پسند نہیں آیا۔ ان کے ہاتھ نے بہت تکلیف دی ہے مجھے صرف جسمانی نہیں روحانی بھی... "
وہ پاؤں اوپر کیے صوفے پر بیٹھی تھی۔
"انسان سوچتا کیا ہے اور ملتا کیا ہے؟ ناولز کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں پٹخا گیا ہے تو منہ کے بل گری ہوں۔ خواب تو ٹوٹے ہی لیکن اب انہی خوابوں کی کرچیاں مجھے زخمی کر رہی ہیں۔"
وہ سر گھٹنوں پر رکھے بول رہی تھیں۔
"پتہ نہیں کیسے جنت اس انسان کے ساتھ گزارا کرے گی... زمان کے ساتھ تو لفظ گزارا بھی بہت کٹھن معلوم ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ گزارنا کرنا بھی ناممکن سا معلوم ہوتا ہے۔"
اذان کے کلمات گونج رہے تھے۔
وہ نماز پڑھنے کی نیت سے اٹھ گئی۔
نماز پڑھ کر وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔
لاؤنج میں آ کر وہ دائیں بائیں دیکھتی سامنے راہداری میں چلنے لگی۔
راہداری کے اختتام پر سیڑھیاں تھیں جو ٹیرس کو جاتی تھیں۔
وہ آہستہ آہستہ زینے چڑھنے لگی۔
دیواروں کے ہمراہ چھوٹے چھوٹے گملے رکھے ہوۓ تھے۔
وہ چلتی ہوئی آگے آ گئی۔
ریلنگ پر ہاتھ رکھے نیچے دیکھنے لگی جہاں سے بیرونی گیٹ اور گارڈن دکھائی دیتا۔
زراد گیٹ سے گاڑی اندر لا رہا تھا۔
جنت سر اٹھاےُ دائیں بائیں دیکھ رہی تھی۔
وہ جنت کو دیکھ چکا تھا اس لئے سیدھا ٹیرس پر آ گیا۔
قدموں کی آہٹ پر جنت نے گردن گھما کر عقب میں دیکھا۔
"آپ؟"
آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔
"یہ آپ کا فون... "
وہ ہاتھ میں پکڑے شاپر سے باکس نکالتا ہوا بولا۔
زمان کے تشدد کا نتیجہ ابھی تک اس کے چہرے پر ثبت تھا۔
"تھینک یو... "
وہ باوجود کوشش کے مسکرا نہ سکی۔
"آپ یقیناً نیچے ہونے والی بحث سے پریشان ہیں... "
وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے اس کے دائیں جانب کچھ فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔
"جی... حیرت ہے وہ آپ کو مارتے بھی ہیں؟"
وہ متحیر سی اسے دیکھنے لگی۔
پہلے وہ معدوم سا مسکرایا پھر بولنے کے لیے لب وا کیے۔
"آپ کو ابھی آےُ زیادہ دن نہیں ہوۓ اسی لئے ایسا پوچھ رہی ہیں... لیکن ہاں وہ اکثر مجھ پر ہاتھ اٹھا لیتا ہے کیونکہ غلطی شاید میری ہی ہوتی ہے۔"
وہ جنت کو نہیں بلکہ سامنے دیکھ رہا تھا۔
"تو آپ ایسے ہی ہمیشہ خاموش ہو جاتے ہیں؟"
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
"زمان کے اصول کے مطابق وہ نہیں جھک سکتا چاہے غلطی اس کی ہو... مجھے اندازہ ہے ان دو تین دنوں میں آپ اس کے رویے سے ڈسٹرب ہوں گیں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"میں زمان کا غصہ سمجھنے سے قاصر ہوں... کیا انہیں کوئی بیماری یا؟"
وہ اتنی مدھم آواز میں بولی جیسے خوف ہو کہیں زمان نہ سن لے۔
زراد مسکراتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا۔
"یہ باتیں آپ کو اس گھر میں کوئی بھی نہیں بتاےُ گا... اگر میں بھی نہ بتاؤں تو آپ کو دقت ہو گی زمان کی پرسنالٹی سمجھنے میں۔"
وہ پھر سے سامنے دیکھنے لگا۔
"پھر وہ ایسے کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے ان کے غصے کی؟"
وہ بے چینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولی۔
"اگر آپ یہ سمجھ رہی ہیں کہ ان کا سائیکالوجیکل پرابلم ہے یا پھر کوئی درد ناک ماضی یا کچھ بھی... "
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
جنت کے چہرے پر تجسس تھا۔
"تو ایسا کچھ بھی نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"پھر؟"
وہ اپنے اندازے غلط ثابت ہونے پر اسے مایوسی ہوئی۔
"وہ بلکل نارمل ہیں... نہ ہی ان کے ساتھ کچھ برا ہوا ہے کہ جس کا بدلہ وہ باقی سب سے لے رہے ہیں۔"
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا چلنے لگا۔
"تو پھر ایسا بی ہیو کیوں؟ اتنے روڈ کیوں؟"
وہ پے در پے سوال کرنے لگی۔
"آپ زمان تیمور کو سمجھ ہی نہیں سکی... خیر اس میں آپ کا بھی قصور نہیں ابھی دن ہی کتنے ہوےُ ہیں... "
وہ خود اپنی نفی کرنے لگا۔
"آپ بتا دیں کیا وجہ ہے؟"
وہ اس کے ہمراہ قدم اٹھاتی ٹہل رہی تھی۔
بےچینی, تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔
"تیمور گھی ملز کی بنیاد میرے ڈیڈ نے رکھی تھی لیکن زندگی نے ان سے وفا نہیں کی اور وہ بہت جلد ہم سے دور چلے گئے... تب ابھی فیکٹری کا آغاز ہی تھا ایسا سمجھ لیں۔"
وہ لمحہ بھر کو سانس لینے کو رکا۔
"زمان نے فیکٹری کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اسے آسمان پر پہنچا دیا۔ لیکن افسوس فیکٹری کو آسمان پر پہنچاتے پہنچاتے وہ خود بھی آسمان پر پہنچ گئے۔ آج وہ ہم سب کو دیکھتے ہیں آسمان سے جہاں سے ہم کیڑے مکوڑے معلوم ہوتے ہیں... انہیں دولت کا نشہ ہے۔ اپنے پیسے کا غرور۔ اور نشے میں انسان کو ہوش نہیں رہتا وہ کیا کر رہا ہے۔"
وہ دائیں جانب رخ موڑ کر جنت کو دیکھتا ہوا بولا جو انہماک سے اسے سن رہی تھی۔
"اپنی دولت کے باعث وہ کسی شخص کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ لائک ان کے نزدیک ہم انسان بھی نہیں ہیں جو ہیں بس وہی ہیں۔"
آہستہ آہستہ لہجے میں تلخی گھل گئی۔
"اور؟"
وہ جیسے مزید سننا چاہتی تھی۔
"اور ایک ان کی سب سے بری عادت جس سے آپ سب سے زیادہ تنگ ہوں گی میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔"
وہ سر جھکاےُ ٹہل رہا تھا۔
"کون سی؟"
وہ جان بوجھ کر انجان بنی۔
"حکمرانی کی عادت... کافی ظالم بادشاہ ہیں وہ۔ انہیں یہ عادت پچپن سے ہے اپنی مرضی چلانے کی... اور جب ہر شے ان کے ہاتھ میں آ گئی تو اس عادت میں مزید وسعت آ گئی۔ وہ چاہتے ہیں ہر شخص وہی کرے جو ان کے منہ سے نکل گیا۔ ہر چیز ان کی مرضی کے مطابق ہو۔ جب آپ کے متعلق معلوم ہوا تو لمحہ بھر کو میں حیران ہوا لیکن پھر سمجھ گیا کہ ایسا کیوں ہے... "
وہ تاسف سے بول رہا تھا۔
"کیوں ہے؟"
وہ آہستہ سے جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"سوری ٹو سے(معذرت سے کہتا ہوں) آپ کی کلاس کی لڑکیاں طلاق نہیں لیتی مطلب بہت مشکل سے۔ جبکہ ہماری کلاس کی لڑکیاں پل میں طلاق لے کر چلی جائیں یہاں سے۔ اسی لئے آپ سے شادی کی کہ حالات کیسے بھی ہوں آپ ان کے ساتھ ہی رہیں گیں اور وہ جی بھر کر اپنا حکم چلائیں گے آفٹر آل بچپن کا شوق ہے۔"
وہ ہنستا ہوا بولا۔
"اور غصہ؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ کبھی انہیں چیک کروایا آپ لوگوں نے؟"
وہ رازداری سے بولی۔
"ہاں... مام سے ہم نے پوچھا تھا۔ مجھے عمر نہیں یاد لیکن اتنے بڑے نہیں تھے تب انہیں سائکیٹرسٹ کو چیک کروایا تھا کہ یہ اتنا غصہ کیوں کرتے ہیں؟ شی سیڈ ہی از ٹوٹلی نارمل(اس نے کہا یہ بلکل نارمل ہیں) بس کچھ لوگوں کو غصہ بہت زیادہ آتا ہے تو زمان تیمور اس کا عملی نمونہ ہیں۔"
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
"تو آپ ان کا غصہ اور یہ حکمرانی کیوں برداشت کرتے ہیں؟ یہاں سے جا نہیں سکتے کیا آپ؟ زبردستی روک رکھا ہے یہاں؟"
وہ الجھ کر بولی۔
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں... ہم جب چاہیں ان سے الگ ہو سکتے ہیں وہ کہہ چکے ہیں لیکن آپ نے ان کی بات سنی نہیں؟"
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
"کون سی بات؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
"کہ وہ ساری زندگی مجھے عیش کروا سکتے ہیں اپنے پیسے پر... وہ بھی گھر بٹھا کر۔"
وہ مسکراتا ہوا پھر سے چلنے لگا۔
"اوہ اچھا... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"اب کون ظالم یہ عیش و عشرت چھوڑ کر جاےُ جس کی عادت ڈال دی ہو... "
وہ سانس خارج کرتا ہوا بولا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہیں... "
وہ آہستہ سے بولی۔
"تو اب آپ یہ مت سمجھیں انہیں کوئی بَیر ہے آپ سے... وہ غصہ کرتے ہیں تو اس بات پر کہ ان کی بات رد کر دی جاےُ یا آرگیو کیا جاےُ۔"
وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
"مطلب کوئی چوائس نہیں... ہر حال میں انہی کی ماننی ہے۔"
وہ تاسف سے بولی۔
"آپ کی مجبوری ہے۔"
وہ بیچارگی سے بولا۔
"اگر آپ ان کی مرضی کے مطابق چلیں گیں تو وہ غصہ نہیں کریں گے۔"
وہ معدوم سا مسکرایا۔
"تھینک یو مجھے اتنا سب بتانے کے لیے۔"
وہ مشکور تھی اس کی۔
"نو پرابلم... اگر میں نہ بتاتا تو آپ کو سمجھنے میں دقت پیش آتی... اور اس گھر کا کوئی فرد آپ کو یہ سب نہیں بتاےُ گا۔"
وہ رازداری سے بولا۔
"کیوں؟"
وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔
"میں نے صرف اسی لئے بتایا تاکہ آپ کی زندگی سہل ہو جاےُ۔ انہیں جانتی ہوں گیں تو ان کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں گیں۔"
وہ مسکرا کر بولا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ... ان سے بات کرتے ہوۓ ڈر لگتا ہے کہیں کسی بات پر غصہ نہ کر جائیں۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
شاید وہ پہلی بار اس گھر میں دل سے مسکرائی تھی۔
"زیادہ باتیں مت کرنا ان سے... وہ خفا ہو جائیں گے۔ دراصل اس انسان نے اپنی پوری زندگی بزنس کو دی ہے۔ روکھے سے ہیں مطلب کی بات کرتے ہیں۔"
جنت جواباً اثبات میں سر ہلانے لگی۔
"اور کچھ پوچھنا چاہتی ہیں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"نہیں... فلحال تو میری مشکل آسان کر دی ہے آپ نے۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"گڈ... "
وہ کہتا ہوا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
"یہ آپ کا فون... "
یاد آنے پر وہ اس کے پیچھے لپکی۔
وہ اس کے ہاتھ سے فون لیتا گنگناتا ہوا نیچے اتر گیا۔
وہ چند لمحے ٹریس کو گھورتی رہی۔
"کتنے عجیب انسان ہیں آپ... تو میرا شوہر ایک مغرور انسان ہے۔ جسے دولت کا غرور ہے۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"کتنی غلط بات ہے زمان آپ خدا بننے کی کوشش کر رہے ہیں!..تبھی ایسی باتیں ہوتی ہیں آپ کی... "
وہ تاسف سے کہتی زینے اترنے لگی۔
~~~~~~~~~
جنت یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی۔
"اتنی دیر ہو گئی زمان ابھی تک آےُ ہی نہیں... "
نظر غیر ارادی طور پر گھڑی پر جا ٹھہرتی۔
گھڑی کی سوئیاں ایک بجا رہی تھیں۔
"بھوک بھی لگی ہے... زمان کا نمبر بھی نہیں ہے میرے پاس۔"
وہ منہ بناتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
پندرہ منٹ بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور زمان کا چہرہ نمودار ہوا۔
"آپ نے اتنی دیر لگا دی.... "
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"اچھا تو میں اپنا کام چھوڑ دیتا... "
وہ ہنکار بھرتا کوٹ اتارنے لگا۔
"نہیں میرا مطلب میں انتظار کر رہی تھی آپ کا... "
وہ سنبھل کر بولی۔
"تو مجھ پر احسان نہیں کیا... کپڑے... "
جنت کے ہاتھ میں کپڑے دیکھ کر اس کی بات ادھوری رہ گئی۔
وہ مسکرا رہی تھی۔
وہ جانچتی نظروں سے دیکھتا واش روم میں چلا گیا۔
"اتنی رات ہو رہی ہے ایلن تو سرونٹ کوارٹر میں چلی گئی ہو گی... "
وہ منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی۔
"زمان آتے ہیں تو پوچھتی ہوں... "
وہ بیڈ کی چادر درست کرتی ہوئی بولی۔
"ایلن کو بولو کھانا کمرے میں لے آےُ.... "
وہ باہر نکل کر بالوں میں تولیہ پھیرتا ہوا بولا۔
"وہ جاگ رہی ہو گی؟"
جنت کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"مجھے کھانے دئیے بغیر وہ سو سکتی ہے؟ اتنی مجال نہیں اس کی.... اتنے سوال جواب مت کیا کرو مجھ سے۔"
وہ رکھائی سے کہتا آئینے کے سامنے آ گیا۔
وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔
زمان ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتا فون کان سے لگاےُ بیڈ کی جانب بڑھ گیا۔
ایلن برتن اٹھا رہی تھی۔
"کچھ چائیے آپ کو؟"
جنت بھی صوفے سے کھڑی ہو گئی۔
"تم مجھے میل کر دو... میں صبح چیک کر لوں گا۔"
وہ جنت کو دیکھتا نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"تم لے جاؤ یہ سب... "
وہ مسکراتی ہوئی ایلن کو دیکھنے لگی۔
وہ سر کو خم دیتی ٹرے باہر لے گئی۔
"ابھی میرا دل نہیں... تم سے کہا نہ صبح۔"
وہ برہمی سے بولا۔
جنت دروازہ بند کر کے اسے دیکھنے لگی۔
وہ کسی حکم کی منتظر تھی۔
"ریموٹ اٹھا لاؤ مووی دیکھتے ہیں... "
وہ بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا۔
"آپ کو نیند نہیں آئی؟"
وہ تعجب سے کہتی ریموٹ لئے اس کے پاس آ گئی۔
"نہیں ابھی نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتا ایل ای ڈی آن کرنے لگا۔
جنت دوسری جانب آ کر بیٹھ گئی۔
"میں سو جاؤں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"ہرگز نہیں... تم میرے ساتھ مووی دیکھو گی۔"
وہ معدوم سا مسکرایا۔
جنت دلچسپی سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگی۔
اس عرصے میں شاید وہ دوسری بار مسکرایا تھا۔
"کون سی مووی ہے؟"
وہ اشتیاق سے اسکرین کو دیکھنے لگی۔
"ایوینجر (Avengers )...ہالی وُوڈ کی ہے۔"
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
"مجھے ایسی لڑائی والی نہیں پسند... "
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"لیکن مجھے تو ایسی ہی پسند ہیں اور تمہیں بھی یہی پسند کرنا ہوگا۔ تم وہی دیکھو گی جو میں دیکھوں گا۔ وہی بولوں گی جو میں بولوں گا اور وہی سنو گی جو میں سنوں گا۔"
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
لمحہ بھر کو وہ متحیر رہ گئی۔
"ساری دیکھنی پڑے گی؟"
وہ رونے والی شکل بناےُ اسے دیکھ رہی تھی۔
"بلکل ساری.. اور اب تم کوئی سوال نہیں کرو گی۔ شدید الجھن ہوتی ہے مجھے۔"
وہ خفا انداز میں کہتا اسکرین کو دیکھنے لگا۔
جنت ناچار اسکرین کو دیکھنے لگی البتہ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔
اس نے نگاہ اٹھا کر گھڑی پر ڈالی جو دو بجا رہا تھی۔
"دو گھنٹے کی سزا... "
وہ کشن گود میں رکھتی ہوئی بڑبڑائی۔
چہرے پر ناپسندیدگی نمایاں تھی لیکن وہ مجبور تھی۔
~~~~~~~~~
وہ سیگرٹ سلگا کر کھڑکی میں آ کھڑا ہوا۔
افق پر سیاہی اپنے عروج پر تھی۔
وہ چہرہ اوپر اٹھاےُ اس سیاہی میں ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھنے لگا۔
وہ اپنی سوچوں میں غرق اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔
فون کی رنگ ٹون نے اسے اس طلسم سے نکالا۔
"ہاں بھائی بول؟"
وہ سرمئی دھواں لبوں سے آزاد کرتا ہوا بولا۔
"گاڑی کا کیا بنا؟"
وہ متفکر سا بولا۔
"کیا ہونا تھا؟ زمان کو معلوم ہوا تو پورے پیسے دے دئیے۔ میرے تو مزے ہو گئے کیونکہ کچھ پیسے اپنے اکاؤنٹ سے نکالے تھے میں نے... "
زراد قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
"واہ پھر تو پارٹی بنتی ہے ویسے بھی ابھی تک اس نئی گاڑی کی ٹریٹ نہیں دی تو نے..."
وہ خفگی سے بولا۔
"ہاں ہاں... لے لینا ایک کیا دو دے دوں گا اور بتا... "
وہ کش لیتا ہوا بولا۔
"میں پھر سعد کو بھی فون کر دوں گا... "
حیدر کی آواز اسپیکر پر ابھری۔
"چل ٹھیک ہے میں پھر صبح ملتا ہوں تم دونوں سے... "
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
"چلو اچھا ہی ہوا... اگر پہلے بتاتا تو کم پیسے آتے اب آپ نے پورے دے دئیے ہیں... "
وہ محظوظ ہوتا لیمپ آف کرنے لگا۔
"اب سکون سے سو سکتا ہوں میں... اس دن سے تلوار لٹک رہی تھی سر پر۔"
وہ بیڈ پر گرتا ہوا بولا۔
~~~~~~~~
مریم ناشتہ رکھ کر واپس کچن میں چلی گئی۔
"تم بات کرو نہ مریم سے... "
شہناز رازداری سے بولی۔
"میری بات مانے گی وہ؟"
وہ دونوں آبرو اچکا کر بولا۔
"ہو سکتا ہے مان جاےُ... میری تو بس یہی دعا ہے وہ اپنے گھر میں خوش رہے۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"آپ خود بات کریں،پھر سے کوشش کر کے دیکھیں اگر نہیں مانتی تو ابو سے بات کریں گیں۔ اس مہینے کے آخر میں آئیں گے نہ تب... "
کبیر نوالہ توڑتا ہوا بولا۔
"پھر تو اتنے دن ہو جائیں گے....نجمہ بتا رہی تھی ایک رشتہ ہے۔"
وہ مدھم آواز میں بول رہی تھیں۔
"انہیں کہہ دیں پہلے ہم لڑکا دیکھیں گے۔"
بولتے بولتے چہرے پر سختی در آئی۔
شہناز کا چہرہ اتر گیا۔
"تم تو جانتے ہی تو آج کل لوگوں کے دماغ... ہر کوئی یہی کہتا پہلے ہمیں لڑکی دکھاؤ... لڑکے تو سر عام بازاروں میں بھی گھومتے ہیں انہیں دیکھ لیں گے پہلے تو کون سی قیامت آ جاےُ گی؟ لیکن نہیں پہلے ہمیں لڑکی دکھاؤ... "
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
"مجھے یہ مناسب نہیں لگتا... باقی آپ ابو کو فون کر کے پوچھ لیں جیسے وہ کہیں۔"
وہ خفا انداز میں کہتا کھڑا ہو گیا۔
"ختم تو کر لو... "
وہ ششدر سی اسے دیکھنے لگیں۔
"بس بھوک نہیں مجھے.... "
وہ ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا۔
"بات کرتی ہوں میں آج مریم سے... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔
کبیر بنا کچھ کہے فون اٹھاتا باہر نکل گیا۔
"مریم فارغ نہیں ہوئی تم؟"
وہ کچن میں آتی ہوئی بولیں۔
"جی امی بس ہو گئی... کوئی کام تھا؟"
وہ سلیب کو کپڑے سے صاف کر رہی تھی۔
"ہاں کچھ بات کرنی تھی تم سے... "
وہ پرسوچ انداز میں بولیں۔
"آپ کمرے میں بیٹھیں میں آتی ہوں... رانیہ اور حسن کو بھی دیکھ لیں میں سلا کر آئی تھی۔"
اس نے اونچی آواز میں ہانک لگائی۔
شہناز کمرے میں جا چکی تھی۔
"جانتی ہوں امی کیا بات کرنی ہے آپ نے... "
وہ سانس خارج کرتی باہر دیکھنے لگی۔
"جی بتائیں کیا بات کرنی تھی؟"
وہ دوپٹے سے چہرہ صاف کرتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"بیٹا تم ایک بار شادی کے بارے میں سوچو تو سہی... ہم سے تمہاری تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔"
وہ اس کا ہاتھ پکڑتی نرمی سے گویا ہوئی۔
مریم کی آنکھوں کے سامنے گزشتہ روز کا منظر گھوم گیا۔
"ٹھیک ہے امی... آپ دیکھیں رشتہ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
"سچ کہہ رہی ہو؟"
وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھیں۔
"جی امی.... آپ کو جیسے مناسب لگے کریں مجھے کوئی اختلاف نہیں۔"
وہ باجود کوشش کے بھی مسکرا نہ سکی۔
"تم دیکھنا ﷲ نے تمہارے لئے بہت اچھا انسان چنا ہوگا۔ ہر کام میں اس کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ یہ تو انسان کا سمجھ ہے جو اس کی حکمتیں سمجھتا نہیں ہے۔"
وہ آنکھوں میں نمی لئے بول رہی تھیں۔
"ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ... میری عمر اتنی نہیں ہوئی کہ حماد کی غلطیوں کی سزا میں خود کو دوں... مجھے بھروسہ ہے ﷲ پر وہ سب بہتر کرے گا۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"اچھا دوپہر میں کیا بنانا ہے مجھے بتا دو پھر سبزی ختم ہو جاتی ہے۔"
وہ مسرور سی کھڑی ہو گئیں۔
"آج آلو گوشت بنا لیتے ہیں... "
وہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
"آلو تو پڑے ہیں نہ؟ میں گوشت لے آتی ہوں۔"
وہ چادر اٹھاتے ہوۓ بولیں۔
"جی پڑے ہیں... "
وہ رانیہ کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"چلو میں آتی ہوں ابھی... "
وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
"حماد تم دیکھنا... تم سے کئی درجے اچھا انسان ملے گا مجھے... "
وہ بچوں کو دیکھتی خود کلامی کر رہی تھی۔
~~~~~~~~
الارم کلاک سے زمان کی آنکھ کھلی۔
جنت آئینے کے سامنے کھڑی بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔
"اٹھ گئے آپ؟"
وہ اس کی جانب رخ موڑتی مسکرا کر بولی۔
"نہیں سو رہا ہوں... کتنا احمقانہ سوال ہے۔"
وہ بد مزہ ہوا۔
جنت خفیف سی ہو کر آئینے کو گھورنے لگی۔
"اس رشتے میں سارے سمجھوتے تمہیں ہی کرنے ہیں جنت... اور امی کے وعدے کے باعث تم مجبور ہوں اس لئے بیچ راستے سے واپس نہیں مڑ سکتی... "
وہ اپنے عکس کو دیکھتی خود کلامی کر رہی تھی۔
زمان فون اٹھاےُ اپنی میلز چیک کر رہا تھا۔
"سب ریڈی ہے... ایلن کو ناشتے کا بول دوں؟"
وہ پھر سے چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ اسے دیکھنے لگی۔
"نہیں دس منٹ بعد بولنا... اور کون سے کپڑے نکالے ہیں؟"
وہ فون پر انگلیاں چلاتا اس کے پاس آ گیا۔
"بلیو والا پینٹ کوٹ... آپ نے یہی بولا تھا نہ؟"
اسے خدشہ لاحق ہوا۔
"ہاں یہی بولا تھا... گڈ۔ یہ بتاؤ تمہارے بال لمبے کیوں نہیں ہیں؟"
وہ بغور اس کی سمت دیکھتا ہوا بولا۔
دونوں کے بیچ فاصلہ قائم تھا۔
"لمبے تو ہیں... "
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"یہ لمبے تو نہیں ہیں... "
وہ تولیہ اٹھاتا ہوا بولا۔
"آدھی کمر تک تو آ رہے ہیں اور کتنے لمبے ہوں؟"
وہ آئینے میں اپنی پشت دیکھتی ہوئی بولی۔
"میں تمہیں ایکسپرٹ کے پاس لے جاؤں گا وہ لمبے بال لگا دے گا... پرمننٹ۔"
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
"مجھے نہیں لگوانے....اور ویسے بھی یہ تو ﷲ کی مرضی ہے وہ جیسے چاہتا ہے دے دیتا ہے۔ گناہ ہے ایسے بال لگوانا۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"گناہ ثواب کچھ بھی نہیں ہوتا... انسان جو چاہے حاصل کر سکتا ہے۔ جو چاہے۔"
وہ زور دے کر بولا۔
وہ ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔
"کسی بھی چیز کے لئے ہم محتاج نہیں ہیں۔ایسا کچھ بھی نہیں جو ہم حاصل نہ کر سکیں۔ بال کیا تم اپنے ہونٹ اور ناک کی بھی سرجری کروا کے اپنی پسند کے کروا سکتی ہو...سب ممکن ہے اور سہل بھی۔"
وہ معدوم سا مسکرایا۔
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن ایسے ہی ٹھیک ہیں پلیز..."
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتی اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
"فکر مت کرو مجھے لمبے بال پسند بھی نہیں ہے... تم پارلر جانا اور اسے بھی شارٹ کروا لینا۔ ورنہ اگر پسند ہوتے تو تم کبھی بھی روک نہیں سکتی تھی مجھے۔"
وہ اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکال کر اس کا دائیں رخسار تھپتھپاتا ہوا بولا۔
"اتنے نہیں رکھ سکتی کیا؟"
وہ آہستہ سے بولی کہ کہیں وہ غصہ نہ ہو جاےُ۔
"بلکل بھی نہیں... اور مجھے یہ مہندی لگانا مجھے بہت ناگوار گزرتا ہے آگے سے خیال رکھنا. اور جا کر ایلن کو ناشتہ کا بولو۔ لیکن اس سے پہلے کافی بھیجوا دو... "
وہ آبرو سے جانے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔
"جی اچھا... "
وہ سانس خارج کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
"یہ کیسی زندگی ہے؟ آپ کے ساتھ تو سانس بھی نہیں لے سکتی میں... "
وہ جھرجھری لیتی ہوئی بولی۔
اگلے لمحے زمان کا خیال دماغ میں کوندا۔
"اگر دیر ہو گئی تو پھر غصہ کریں گے... "
وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی چلنے لگی۔
"بات سنو... "
جنت کچن سے نکل رہی تھی جب ریحام نے اسے ٹوکا۔
"جی؟"
وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔
"کیا کر رہی تھی تم اندر؟"
وہ کچن میں جھانکتی ہوئی بولی۔
"زمان کے ناشتے کا بولنے گئی تھی...."
وہ نا سمجھی سے بولی۔
"اپنے کمرے میں رہا کرو... زیادہ گھومنے پھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
وہ رعب سے بولی۔
"زمان نے مجھے اجازت دی ہے اور ان کے علاوہ مجھے کسی کی اجازت درکار نہیں..."
وہ چبا چبا کر بولی۔
"تم دو ٹکے کی لڑکی مجھ سے ایسے بات کر رہی ہو؟"
وہ تلملاتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
"میں... "
"پیچھے ہٹو جنت... "
عقب سے زمان کی آواز نے اسے خاموش کروا دیا۔
وہ دو قدم الٹے اٹھاتی ریحام کو دیکھنے لگی۔
"زمان تم نے اس لڑکی کو زیادہ ہی سر پر نہیں چڑھا لیا؟"
وہ جنت کو گھورتی زمان کو دیکھنے لگی۔
"تم ہوتی کون ہو میری بیوی کے بارے میں ایسے بات کرنے والی؟"
وہ خطرناک تیور لئے آگے بڑھا۔
"کیا مطلب؟"
وہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہو گئی۔
"معافی مانگو جنت سے... "
وہ جنت کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
"واٹ؟ میں؟ معافی مانگوں؟ اور وہ بھی اس سے؟"
اس کا منہ کھل گیا۔
جنت کے چہرے پر سکون کی لہر دوڑ گئی۔
"کیا تمہیں کم سنائی دیتا ہے یا کچھ اور سننا چاہتی ہو؟ اپنا طرز تخاطب تغیر کر لو ورنہ مجھے اچھے سے کروانا آتا ہے۔"
برہمی سے جواب آیا۔
آواز پہلے کی نسبت بلند ہو گئی۔
"میں کیسے اسے سوری بولو؟ تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہا... تم اس کے لئے... "
وہ جھنجھلا کر بولی رہی تھی جب زمان نے اس کی بات کاٹی۔
"یہ میری بیوی ہے... میں چاہے اسے مارو یا بے عزت کروں یہ میرا مسئلہ ہے۔ لیکن تمہیں کس نے اجازت دی کہ تم میری بیوی پر حکم چلاؤ؟"
وہ آگے بڑھ کر اس کی بازو پکڑ چکا تھا۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے زمان کو دیکھنے لگی۔
"تم جانتی ہو مجھے ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا... "
بلا کی سختی تھی چہرے پر۔
اس کا اشارہ آنسوؤں کی جانب تھا۔
"میں نہیں بولوں گی سوری... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"کیا کہا تم نے؟ "
وہ اسے جھنجھوڑتا ہوا چلایا۔
"سوری... "
اس نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔
"اب مجھے دکھائی مت دینا تم ورنہ پچھتاؤ گی... "
وہ ہنکار بھرتا جنت کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا۔
وہ بت بنی اس کے ساتھ کھینچی چلی جانے لگی۔
"میرے علاوہ کوئی تم پر حکم نہیں چلا سکتا سمجھی؟"
وہ اسے گھوری سے نوازتا صوفے پر بیٹھ گیا۔
"جی سمجھ گئی۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتی بیٹھ گئی۔
"وہ... مجھے بات کرنی تھی آپ سے... "
وہ لب کاٹتی اسے دیکھنے لگی جو خاموش تھا۔
"بولو..."
وہ آنکھیں چھوٹے کئے فون کی اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔
"مجھے گھر جانا تھا... "
وہ آہستہ سے بولی۔
"کیوں کوئی مر گیا ہے؟"
وہ مصروف سے انداز میں بولا۔
جنت پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
"ﷲ نہ کرے... کیا میں اپنے گھر نہیں جا سکتی؟"
وہ اجازت طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"یہ روز روز کے تماشے مجھے نہیں پسند۔ اور کوئی ضرورت نہیں گھر جانے کی۔ ساری زندگی وہیں گزاری ہے۔ اب نام مت لینا وہاں جانے کا۔"
پہلے کی نسبت سرد مہری سے جواب آیا۔
"میں نے تو پہلی بار کہا ہے... اور اتنا تو.. "
"بس.... مجھ سے بحث کرنے کی غلطی مت کرنا۔ ایک بار کہہ دیا نہیں جاؤ گی تو دس بار پوچھنے پر بھی انکار ہی ہوگا۔ بہتر ہے میرے وقت کا ضیاع مت کرو۔"
وہ ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے باز رکھتا ہوا بولا۔
وہ لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگی۔
"اب کیا چائیے؟"
وہ اس کی نگاہیں خود پر محسوس کرتا ہوا بولا۔
"کچھ نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"جاؤ میری کافی لے کر آؤ ایلن پتہ نہیں کہاں مر گئی ہے... "
وہ کوفت سے بولا۔
"میں دیکھتی ہوں... "
وہ کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
جنت کافی لئے آ رہی تھی۔
اس کا دوپٹہ فرش کو چھو رہا تھا۔
نجانے کیسے اس کے دوپٹے کا کونہ ہیل کے نیچے آ گیا۔ جس کے باعث وہ پھسل گئی اور کافی زمان کی بازو پر گر گئی۔
"اندھی ہو کیا؟ آنکھیں کس لئے ہیں؟"
وہ اپنی بازو کو دیکھتا چلاتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
وہ پلک جھپکنے سے قبل اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
کہاں چوٹ آئی تھی فلحال اسے اس بات کی فکر نہیں تھی۔ زمان کیا حشر کرے گا یہ خوف تیر رہا تھا اس کی آنکھوں میں۔
"وہ... میرا پاؤں... "
وہ گھبراتی ہوئی بولنے لگی۔
"آنکھیں ہیں یا بٹن؟ اگر کام نہیں کرتی تو باہر پھینک آؤ... "
وہ خطرناک تیور لئے اس کی جانب بڑھا۔
"میں نے....جان بوجھ....کر نہیں کیا۔"
اس کا حلق خشک ہو گیا۔
"یہ آنکھیں کس لئے ہیں؟"
وہ اسے بازو سے دبوچتا اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔
"سو... سوری... "
وہ پلکیں اٹھاتی اسے دیکھنے لگی۔
"یہ کیا مذاق ہو رہا ہے یہاں؟ تمہیں کام کرنے کی تمیز نہیں؟"
وہ چہرے پر سختی طاری کئے اس کی بازو پر زور ڈالتا ہوا بولا۔
"زمان مجھے درد ہو رہا ہے.... "
وہ کراہ کر اسے دیکھنے لگی۔
"میری بازو دیکھو... گرم کافی گرا دی تم نے۔ اب مجھے اپنی شکل مت دکھانا ورنہ حشر کر دوں گا تمہارا... "
وہ جھٹکے سے اسے پرے پھینکتا ہوا بولا۔
سر ٹیبل سے ٹکرا گیا۔ جنت زمین پر جا گری۔
"نان سینس.... "
وہ جھنجھلا کر کہتا چلنے لگا۔
وہ سوں سوں کرتی ٹیبل پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھ گئی۔
بائیں بازو میں درد کی شدید لہر دوڑ گئی۔
اب احساس ہوا تھا کہ نیچے گرنے پر بائیں بازو ٹیبل سے ٹکرائی تھی۔
اور زمان نے بائیں بازو ہی پکڑی تھی۔
آنسو ضبط کے باوجود پلکوں کی باڑ کو توڑتے بہہ نکلے۔
وہ ہاتھ کی پشت سے رخسار رگڑتی بازو فولڈ کرنے لگی۔
"زمان ایسے کیوں ہیں آپ؟ میں اس سب کی مستحق تو نہیں ہوں... "
وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔
قدموں کی آہٹ سنائی دی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
اس کا اندازہ تھا زمان ہوگا لیکن وہاں زراد کھڑا تھا۔
"آپ ٹھیک ہیں؟"
وہ متفکر سا کہتا اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
زراد کو وہ بارات کی دلہن یاد آ گئی۔
آنکھیں اسی طرح سرخ آنسوؤں سے لبریز، رخسار پر گرے آنسو اور کپکپاتے لب۔
وہ متحیر سا اسے دیکھ رہا تھا۔
"ٹھیک ہوں میں.. "
وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتی ٹیبل کا سہارا لئے کھڑی ہونے لگی۔
"کیا ہوا؟ آپ ایسے کیوں بیٹھی تھیں؟"
وہ اردگرد نگاہ ڈالتا ہوا بولا۔
اس کی نگاہیں زمان کی تلاش میں تھیں۔
"کچھ نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی مدھم آواز میں بولی۔
"آپ مجھے اپنا دوست سمجھ سکتی ہیں... اتنا برا نہیں ہوں میں۔"
وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا غیر مرئی نقطے کو دیکھتا ہوا بولا۔
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں... پاؤں پھسل گیا تھا میرا۔"
اب تک وہ سنبھل چکی تھی۔
تکلیف چوٹ نے نہیں زمان کے رویے نے دی تھی۔
"پاؤں پھسلنے پر ایسے تو کوئی نہیں روتا... اور آپ بچی نہیں ہیں ایک باہمت لڑکی ہیں۔"
وہ جیسے اس کی شخصیت کو پہچان چکا تھا۔
"جیسا آپ سوچ رہے ایسا کچھ نہیں... "
جنت نے اسے مطمئن کرنا چاہا۔
"میں نے تو بتایا ہی نہیں کیسا سوچ رہا ہوں میں... اس کا مطلب میرا اندازہ درست ہے۔ خیر چلیں کوئی نہیں اگر آپ مجھے اپنا دوست نہیں مانتی تو میں چلتا ہوں۔"
وہ مسکرا کر کہتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔
"دونوں بھائی کتنے مختلف ہیں ایک دوسرے سے... ایک آگ تو دوسرا پانی۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
لیکن تباہی دونوں مچاتے ہیں۔ آگ بھی اور پانی بھی۔
وہ سر جھکاےُ زینے چڑھنے لگی۔
کچھ سوچ کر جنت کمرے میں جانے کی بجاےُ لاؤنج میں آ گئی۔
سامنے دیوار پر زمان کی تصویر آویزاں تھی۔
وہ پہلے بھی یہاں آئی تھی لیکن آج دھیان گیا۔
"کیوں اتنے ظالم ہیں آپ؟ آج سب کام اچھے سے کئے میں نے؟ کیا اس کے بدلے میں آپ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے اس بھول کو؟میں نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا.... "
وہ شکوہ کناں نظروں سے زمان کی تصویر سے مخاطب تھی۔
"جب تھوڑی چھوٹی تھی امی کا ایک ہاتھ برداشت نہیں کر پاتی تھی میں... تو اب یہ سب کیسے برداشت کروں؟ آپ کا سرد رویہ ایک جانب اور یہ ظالمانہ رویہ ایک جانب..."
آنسو پھر سے اس کے ساتھی بن کے بہنے لگے۔
"میں انسان ہوں... تکلیف ہوتی ہے مجھے لیکن آپ تو احساسات سے عاری ہیں۔"
وہ سر جھکاےُ اشک بہاتی سرگوشیاں کر رہی تھی۔
"ﷲ پاک پلیز میری مدد کریں... زمان کا یہ رویہ برداشت نہیں ہوتا روز وہ مجھے توڑتے ہیں اور روز میں خود کو جوڑتی ہوں لیکن یہ کیسا رشتہ ہے؟ جس میں محبت تو درکنار احساس تک نہیں... "
سسکیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔
دروازے کھلنے کی آواز سنائی دی تو اس نے اپنی سسکیوں کا گلا دبا دیا۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنے کمرے کے دروازے کی سمت میں دیکھنے لگی۔
زمان سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔
اس کا چہرہ وہ دیکھ نہیں سکی۔
"شکر ہے چلے گئے.... "
لب وا کئے تو دو موتی لڑھک کر گال پر آ گرے۔
"امی بہت یاد آ رہی ہے آپ کی... "
وہ پاؤں اوپر رکھتی چہرہ گھٹنوں پر رکھے بولنے لگی۔
"پلیز آ جائیں میرے پاس... آپ کی باتیں، آپ کی ڈانٹ سب بہت یاد آ رہا ہے۔ بہت مس کر رہی ہوں میں آپ سب کو۔"
آنسو رخسار سے بہتے ہوۓ کپڑوں کو بھگو رہے تھے۔
"ہاں.... امی کو بلا لیتی ہوں۔"
وہ صوفے سے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دی۔
"چلیں ٹھیک ہے امی پھر دوپہر میں آ جانا آپ... "
وہ شاد سی بولی۔
"ایلن سے کھانے کا پوچھ لیتی ہوں... "
وہ کہتی ہوئی کمرے سے نکل آئی۔
سارا وقت وہ لاؤنج میں بیٹھی رہی۔وہ شہناز کی منتظر تھی۔
گھڑی کی سوئیاں جیسے تھم گئیں تھیں۔
"کیسی ہیں آپ؟"
جنت ان کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
"میں تو ٹھیک ہوں تم بتاؤ... "
وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں۔
"میں بھی ٹھیک ہوں... "
جنت ان کے گلے لگی بول رہی تھی۔
"بیٹھ جائیں... "
وہ ان سے الگ ہوتی بیٹھنے کا اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
"زمان ٹھیک ہے؟ اور باقی گھر والے؟"
وہ بولتی ہوئی بیٹھ گئیں۔
"جی امی سب ٹھیک ہیں... ابو, کبیر بھائی, مریم ,بچے...."
"ہاں ماشاءﷲ سب ٹھیک ہیں... رانیہ اور حسن تو ہم سے زیادہ یاد کرتے ہیں تمہیں۔"
وہ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل بول پڑیں۔
"میں بھی ان دونوں کو بہت مس کرتی ہوں۔"
وہ شہناز کے شانے پر سر رکھتی ہوئی بولی۔
"سب ٹھیک ہے نہ؟ زمان نے کچھ کہا تو نہیں؟"
یکدم انہیں خدشہ لاحق ہوا۔
"نہیں امی ایسی کوئی بات نہیں... سسرال کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو گھر کی یاد تو آتی ہی ہے۔"
جنت نے انہیں مطمئن کرنا چاہا۔
"ہاں یہ تو بات بلکل درست ہے... بھلا گھر کو بھلایا جا سکتا ہے جہاں زندگی کا ایک حصہ گزارا ہو۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔
"میں ابھی آتی ہوں... "
وہ کہتی ہوئی کچن کی جانب بڑھ گئی۔
واپس آئی تو ایلن اس کے ہمراہ تھی جس کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔
"ارے یہ تکلف کیوں کیا تم نے؟"
وہ ششدر سی اسے دیکھنے لگیں۔
"اس میں تکلف والی کیا بات میں آنٹی کو بلا کر آتی ہوں..."
یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
"ہاں بلا لاؤ... "
وہ ایلن کو دیکھتی ہوئی بولیں جو چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ ٹیبل پر اشیاء رکھ رہی تھی۔
جنت دروازہ ناک کر کے اردگرد دیکھنے لگی۔
"بولو؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے منہ بناتی ہوئی بولی۔
"وہ... امی آئی تھیں تو.... "
وہ مناسب الفاظ تلاش رہی تھی۔
"اچھا... ریحام میں ذرا دو منٹ میں آئی۔"
وہ دروازے سے اندر جھانک کر بولی۔
"چلو... "
دروازہ بند کر کے جنت کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"کیسی ہیں آپ؟"
شہناز بولتی ہوئی اپنی نشست سے کھڑی ہو گئیں۔
"ٹھیک اور آپ؟"
وہ کہتی ہوئی سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔
ایک نگاہ ٹیبل پر پڑے سامان پر ڈالی اور چہرے پر ناگواری در آئی۔
"ﷲ کا شکر میں بھی ٹھیک... بچے ٹھیک ہیں آپ کے؟"
وہ ان کی جانب متوجہ تھیں۔
"سب ٹھیک ہیں... آپ دونوں باتیں کریں مجھے کچھ کام تھا۔"
وہ کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
"ان کے مزاج کچھ ٹھیک نہیں لگتے مجھے..."
شہناز رازداری سے بولی۔
"نہیں امی... وہ ان کی بیٹی آئی ہوئی ہے نہ اس لئے اسی کے پاس گئیں ہیں۔ آپ کچھ لیں نہ اتنا سب پڑا ہے۔"
اس نے دھیان ہٹانا چاہا۔
"تم نے اتنا سب بنوا لیا... میں کہاں اتنا کھاتی ہوں۔"
وہ منہ بناتی ہوئی جوس کا گلاس اٹھانے لگیں۔
جنت نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔
"تم بتاؤ خوش ہو نہ زمان کے ساتھ؟"
وہ اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولیں۔
"جی امی بہت خوش ہوں زمان کے ساتھ میں۔ بہت اچھے ہیں وہ۔"
وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
کتنی منافق ہوتی ہیں یہ بیٹیاں۔
جھوٹ بولنے میں مہارت رکھتی ہیں۔
"کب تک آتا ہے زمان؟"
وہ گھڑی پر نگاہ ڈالتی ہوئی بولیں جو آٹھ بجا رہی تھی۔
"وہ آتے تو اکثر لیٹ ہی ہیں... پھر آج تو انہیں دیر ہو گئی تھی اب پتہ نہیں کب آئیں گے؟"
وہ لاعلمی سے شانے اچکاتی ہوئی بولی۔
"چلو میں دوبارہ مل لوں گی کبیر آنے والا ہوگا... اب چلتی ہوں ٹائم کافی ہو رہا ہے۔"
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولیں۔
"گھر میں سب کو میرا سلام کہیے گا... "
وہ ان کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
"زمان کو میرا سلام کہنا... "
وہ کہتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئیں۔
جنت پورچ تک انہیں چھوڑنے آئی پھر وہاں سے واپس اندر آ گئی۔
آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
دل انہیں خود سے دور بھیجنے پر راضی نہیں تھا۔
وہ لاؤنج میں ہی بیٹھ گئی۔
نجانے کیوں آج کمرے میں جانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔
"آپ صبح سے یہیں بیٹھی ہیں؟"
جنت کی نگاہیں فون پر مرکوز تھیں جب زراد کی آواز سنائی دی۔
"ہاں... نہیں...وہ امی آئی تھیں تو میں یہیں بیٹھ گئی۔"
وہ جھنجھلا کر بولی۔
"اچھا... ایلن پانی لاؤ... "
وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
"زمان آج کل اتنی لیٹ کیوں آتے ہیں؟ آپ کو کچھ علم ہے؟"
وہ فون سائیڈ پر رکھتی اسے دیکھنے لگی۔
"شادی سے کچھ وقت پہلے انہوں نے شوگر مل کا آغاز کیا تھا نئے پروجیکٹ کو ٹائم تو دینا پڑتا ہے... میرا خیال ہے اسی وجہ سے لیٹ آتے ہیں۔"
وہ پانی پیتا ہوا بولا۔
"آپ کو کچھ چائیے؟"
ایلن جنت سے مخاطب تھی۔
"نہیں... مجھے کچھ نہیں چائیے۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"آپ کو کیسے پتہ میں باہمت لڑکی ہوں؟"
اسے صبح والی بات یاد آ گئی۔
"کیوں؟ غلط کہا میں نے؟"
وہ فون سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
"صحیح کہا اس لئے تو پوچھ رہی ہوں... "
وہ تجسس سے بولی۔
"دیکھیں سمپل سی بات ہے... آپ ابھی تک زمان کے ساتھ ہیں تو اس کا یہی مطلب ہوا کہ با ہمت ہیں... اگر کمزور یا نازک ہوتی تو اب تک جا چکی ہوتی یہاں سے۔"
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"اتنا مشکل ہے زمان کے ساتھ رہنا؟"
وہ جانتے ہوےُ بھی پوچھ بیٹھی۔
"آپ زیادہ بہتر جانتی ہوں گیں... کیونکہ ہم سے زیادہ وقت آپ کا ان کے ساتھ گزرتا ہے۔"
وہ لا علمی سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔
وہ خاموش ہو کر اثبات میں سر ہلانے لگی۔
"فون پسند آ گیا آپ کو؟"
یکدم اسے خیال آیا۔
"جی... اچھا ہے۔"
وہ پھیکا سا مسکرائی۔
"جی مام؟ میں آ گیا ہوں گھر... آتا ہوں۔"
وہ فون کان سے لگاےُ وہاں سے چلا گیا۔
"کتنے عجیب ہیں اس گھر کے مکین... اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلتے۔"
وہ منہ بناتی راہداری میں چلنے لگی۔
"پتہ نہیں کمرے میں بند رہ کر کیسے دن گزر جاتا ان کا... "
وہ جھرجھری لیتی زینے چڑھنے لگی۔
"زمان پتہ نہیں کب آئیں گے... سر میں بھی اتنا درد ہو رہا ہے۔"
وہ کمرے میں آتی آئینے کے سامنے آ گئی۔
پیشانی دائیں جانب سے سوجھ گئی تھی۔
شہناز کے سامنے اس نے دوپٹہ اس انداز سے لیا تھا کہ یہ سوجھن دکھائی نہ دے۔
"عجیب اصول ہیں... نہ کھانا کھا سکتی ہوں نہ سو سکتی ہوں بس ایک سزا ہے جو کاٹ سکتی ہوں... "
وہ تلخی سے گویا ہوئی۔
"اگر میں زمان کو چھوڑ دیتی ہوں تو سب کہیں گے دو دن بعد ہی گھر آ گئی... کچھ دن رہتی گزارہ تو کر کے دیکھتی۔اور یہاں ایسے معلوم ہوتا ہے کسی نے قید خانے میں مقید کر رکھا ہو۔"
وہ بولتی ہوئی بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
"جب تک ہمت ہے تب تک یہاں سے کہیں نہیں جانا مجھے... ہر حال میں یہ رشتہ نبھانا ہے مجھے۔ پھر چاہے سزا پی کیوں نہ ہو میرے لیے۔"
وہ آنکھیں بند کرتی خود کو باور کرانے لگی۔
رات کے دو بجے زمان کمرے میں داخل ہوا۔
اندر آتے ہی نظر جنت پر پڑی جو بے خبر نیند کی وادی میں تھی۔
"اوہ تو میڈم میرا دماغ خراب کر کے یہاں مزے سے سو رہی ہے... اسے میں نے کہا بھی تھا.... "
وہ اپنی بازو دیکھتا ہوا اس کے سر پر آ کھڑا ہوا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
وہ بازو پکڑ کر اسے جھنھوڑتا ہوا بولا۔
وہ ہکا بکا سی اٹھ بیٹھی۔
"جی؟"
وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔
"میں کہہ کر گیا تھا مجھے اپنی شکل مت دکھانا پھر یہاں کیا کر رہی ہو تم؟"
وہ با رعب آواز میں بولا۔
"تو میں کہاں جاتی؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
"چلو اٹھو... نکلو میرے کمرے سے۔ تمہاری وجہ سے زمان تیمور آدھا گھنٹہ لیٹ پہنچا میٹنگ میں... مجھے تب تک اپنی شکل مت دکھانا جب تک میں خود نہ بلاؤں.... "
وہ اس کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا۔
"زمان مجھے بخار ہے... میں کہاں جاؤں اس وقت؟"
وہ اس کے ساتھ کھینچی چلی جا رہی تھی۔
"آئی ڈونٹ کئیر(مجھے پرواہ نہیں) "
وہ رکھائی سے کہتا اسے کمرے سے باہر کر چکا تھا۔
"جب تمہیں کام کرنے کی تمیز آ جاےُ گی واپس بلا لوں گا... اور ایلن کو بولو میرا کھانے لے کر آےُ۔"
کاٹ دار لہجے میں کہتے ہوۓ اس نے دروازہ بند کر دیا۔
نقاہت کے باعث اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
"آج پھر باہر نکال دیا۔"
وہ دروازے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
"پتہ نہیں کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے... "
وہ خفا انداز میں کہتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
"ایلن زمان آ گئے ہیں... "
وہ کچن میں آتی مدھم آواز میں بولی۔
"ٹھیک ہے آپ کو کچھ چائیے؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتی استفسار کرنے لگی۔
"نہیں تم انہیں کھانا دے آؤ ورنہ غصہ کریں گے۔ میں چاےُ بنا لوں گی خود اپنے لیے۔"
وہ فریج کھولتی ہوئی بولی۔
"نہیں آپ خود نہیں بنا سکتی... "
ایلن نے بوکھلا کر فریج بند کر دی۔
"لیکن کیوں؟ اس میں ایسی کون سی بات ہے؟"
جنت اس کی بوکھلاہٹ کی وجہ سمجھ نہ سکی۔
"سر غصہ کریں گے... آج تک اس گھر کے کسی فرد نے کچن میں آ کر پانی تک خود نہیں لیا اور آپ چاےُ بنانی کی بات کر رہی ہیں!...."
وہ ششدر سی انہیں دیکھنے لگی۔
"زمان کمرے میں ہیں تم فکر مت کرو...بس ان کا کام کرو۔"
وہ مسکرا کر اس کا شانہ تھپتھپاتی چولہے کے سامنے آ گئی۔
ایلن نا چاہتے ہوۓ بھی خاموش ہو گئی۔
"بس اتنی سی بات تھی تمہارے سر کو معلوم بھی نہیں ہوگا۔"
وہ مگ ہاتھ میں پکڑے مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔
وہ بنا کچھ کہے ٹرے میں گلاس رکھنے لگی۔
جنت مگ لئے اوپر لاؤنج میں آ گئی۔
"کتنا بے عزت کرتے ہیں نہ آپ مجھے؟ اعر مجھے سب پس پشت ڈال کر پھر سے مسکرا کر ملنا پڑتا ہے آپ سے.... "
وہ اپنی بے بسی پر ہنستی ہوئی بولی۔
"جب بھی آپ ایسا کرتے ہیں نہ شکل تک دیکھنے کا دل نہیں کرتا۔ لیکن مجبور ہوں۔"
وہ سرد آہ بھرتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
ایل ای ڈی آن کر کے وہ ڈرامہ دیکھنے لگی۔
"کتنے دن ہو گئے میں نے کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا... "
وہ حسرت زدہ سی بولی۔
"آپ اس وقت یہاں کیا کر رہی ہیں؟"
وہ تعجب سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"ایسے ہی دل کر رہا تھا... "
وہ شانے اچکاتی اسکرین کو دیکھنے لگی۔
"میرا خیال ہے آپ اپنے روم میں بھی ڈرامہ دیکھ سکتی ہیں... "
وہ کہتا ہوا ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"نہیں وہ روم زمان کا ہے... "
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی تلخ ہو گئی۔
"اوہ... ہاں وہ روم زمان کا ہے۔ آپ گیسٹ روم میں چلی جائیں۔"
وہ جیب سے فون نکالتا ہوا بولا۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں...."
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
چہرے کی رنگت پھیکی پڑی ہوئی تھی۔
"نہیں آپ ٹھیک نہیں ہیں... "
اس نے ایک لمحے میں اس کا جائزہ لیا تھا۔
"ہو سکتا ہے... "
وہ سانس خارج کرتی تھکے تھکے انداز میں بولی۔
"چلیں پھر آج میں آپ کو کمپنی دیتا ہوں..."
وہ فون جیب میں ڈالتا ہوا بولا۔
"نہیں...میری وجہ سے آپ کیوں اپنی نیند خراب کریں گے؟"
وہ ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔
"کل صبح کا میرا کوئی پلان نہیں ہے اس لئے....یوں آپ کا بھی ٹائم پاس ہو جاےُ گا۔"
وہ ٹیبل سے ریموٹ اٹھاتا ہوا بولا۔
"تو آپ ہمیشہ ایسے ہی گھر میں رہیں گے فارغ... "
یہ سوال اسے خاصا تنگ کر رہا تھا۔
"ظاہر ہے... زمان کی اجازت کے بغیر میں کیسے جاب کر سکتا ہوں۔"
وہ صوفے سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
"زمان اجازت کیوں نہیں دیتے؟"
وہ اس کی جانب متوجہ ہو چکی تھی۔
"لاسٹ ائیر میرا ایم بی اے پورا ہوا تو میں نے کہا کہ میں جاب کروں گا... لیکن آپ کے سر تاج نے کہا کہ نہیں اپنی فیکٹری ہونے کے باوجود تم جاب کرو گے... بلکہ آپ کو ان کے الفاظ میں بتاتا ہوں۔"
وہ پرجوش انداز میں کہتا سیدھا ہو گیا۔
"زمان تیمور کا بھائی کسی کے آفس میں جا کر کام کرے گا؟ یہ دن آ گئے ہیں؟ تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کام کرنے کی... آرام سے اپنی زندگی گزارو۔ میری انا کو گوارا نہیں کہ تم لوگوں کے پاس جا کر نوکریاں کرتے پھرو..."
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
جنت منہ پر ہاتھ رکھے ہنسنے لگی۔
"پھر میں بیچارا مجبور... ان کا حکم کیسے ٹال سکتا تھا؟"
وہ بیچارگی سے سر جھکاتا ہوا بولا۔
وہ مسلسل اسے دیکھتی ہنس رہی تھی۔
"تب میں نے کہا کہ اپنے آفس رکھ لیں مجھے... لیکن کہتے نہیں تم میرے برابر کام نہیں کر سکتے اور نیچے بھی نہیں۔ عجیب و غریب سے اصول ہیں ان کے ورنہ فیکٹری میں مزے کرتا میں۔"
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
"اف.... اگر زمان کو یہ سب معلوم ہو جاےُ تو وہ کیا کریں گے آپ کا؟"
وہ مسلسل ہنسے جا رہی تھی۔
"پھر وہ مجھے چھوڑیں گے نہیں... اس دن تو ایک مکا مارا تھا نہ آج بھرمار کر دیں گے۔"
وہ سینے پر ہاتھ رکھتا سادگی سے بولا۔
"بلکل... آپ کی شکایت لگاتی ہوں میں زمان کو... "
وہ شرارت سے بولی۔
"اپنے دوست کو مصیبت میں ڈال دیں گیں آپ؟"
وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگا۔
" دوست بھی تو میرے شوہر کے بارے میں بول رہا... "
وہ گھوری سے نوازتی ہوئی بولی۔
"کچھ غلط بھی تو نہیں کہہ رہا۔"
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
وہ اسے دیکھتی پھر سے ہنسنے لگی۔
"تو زمان احسان نہیں جتاتے اپنے پیسوں کا؟"
وہ پرسوچ انداز میں بولی۔
"کبھی کبھار.... لیکن.. اب تو عادت ہو گئی ہے۔"
وہ خود ہی اپنی بات پر ہنسنے لگا۔
"اچھا یہ بتائیں فنی فلم(مزاحیہ فلم) پسند ہے آپ کو؟"
وہ ریموٹ اٹھا کر اسکرین کو دیکھتا ہوا بولا۔
"بلکل... "
وہ اشتیاق سے کہتی اسکرین کو دیکھنے لگی۔
"چلیں پھر میرے ساتھ یہ پنجابی مووی دیکھیں بہت زبردست ہے۔"
وہ کشن گود میں رکھتا ہوا بولا۔
جنت دلچسپی سے اسکرین کو دیکھنے لگی۔
وہ دونوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
"اف!! میں مزید نہیں ہنس سکتی... "
جنت پیٹ پر ہاتھ رکھتی ہنستی ہوئی بولی۔
زراد بھی تسلسل سے ہنس رہا تھا۔
"میں نے آپ کو پہلے بتایا تھا یہ مووی بہت اچھی ہے۔"
وہ ڈائیلاگ سن کر قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
"یہی دیکھتے رہے تو پتہ ہی نہیں چلے گا رات کب گزری... "
وہ گلاس میں پانی ڈالتی ہوئی بولی۔
"بلکل... میں اکثر ایسے ہی پوری رات جاگتا رہتا ہوں۔"
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
وہ اسکرین کو دیکھتی پھر سے ہنسنے لگی۔
~~~~~~~~
"اچھا ٹھیک ہے... میں زمان کو بتا دوں گی۔"
وہ فون کان سے لگاےُ مسکراتی ہوئی کمرے کی جانب چل دی۔
دروازے پر دستک دے کر وہ انتظار کرنے لگی۔
"لگتا ہے سو رہے ہیں زمان... "
وہ فون پر ٹائم دیکھتی ہوئی بولی۔
"اگر لیٹ ہو گئے پھر غصہ کریں گے... "
وہ زور سے دروازہ بجاتی ہوئی بڑبڑائی۔
"مردہ کو جگانے کی کوشش کر رہی ہو؟"
وہ دروازہ کھولتا اس پر دھاڑا۔
"نہیں... وہ آپ کو دیر ہو جاتی اگر... "
وہ دو قدم الٹے اٹھاتی پیچھے ہو گئی۔
"کیا لینے آئی ہو؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"آپ کی...ہاں... چیزیں نکالنے آئی تھی... "
وہ ہچکچاتی ہوئی بولی۔
"رات کہاں تھی؟"
وہ تفتیشی انداز میں بولا۔
"وہاں لاؤنج میں بیٹھی تھی... "
وہ انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
"دوبارہ مجھے کہنے کی نوبت نہ آےُ... جب کام کرو تو توجہ سے کرو۔"
وہ کہتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا جس کا مطلب تھا وہ بھی اندر آ جاےُ۔
جنت سکھ کا سانس لیتی اندر آ گئی۔
"آگے سے خیال رکھوں گی... "
وہ کہتی ہوئی الماری کی جانب بڑھ گئی۔
"رات کیا کہہ رہی تھی تم؟"
وہ بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا۔
"بخار تھا مجھے... "
وہ آہستہ سے بولی۔
"اور اب؟"
وہ فون کو دیکھتا ہوا بولا۔
"اب بہتر ہے شاید... "
وہ شرٹ نکالتی ہوئی بولی۔
"اِدھر آؤ... "
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
"جی؟"
وہ صوفے پر سامان رکھتی اس کے سامنے آ گئی۔
زرد رنگت, آنکھیں سرخی مائل, چہرہ اترا ہوا تھا۔ سیاہ بال پونی کی قید میں تھے۔
زمان ہاتھ کی پشت اس کی پیشانی پر رکھے چیک کرنے لگا۔
"زراد کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی جانا... ابھی بھی بخار ہے۔"
وہ ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی اس کی گھڑی نکالنے لگی۔
"میں نے تمہاری راےُ نہیں مانگی۔"
سرد مہری سے جواب آیا۔
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
"ٹھیک ہے... اور ایک بات کرنی تھی۔"
وہ لب کاٹتی اسے دیکھ رہی تھی۔
"بولو... "
وہ پھر سے فون پر مصروف ہو چکا تھا۔
"اگر آج آپ کے پاس ٹائم ہے تو ہم عائشہ آپی کی طرف چلیں؟ انہوں نے دعوت پر بلایا ہے۔"
آنکھوں میں خوف تیر رہا تھا۔
"نہیں... "
فوراً سے جواب آیا۔
"میں منع کر دوں؟"
وہ ششدر سی بولی۔
"ہاں... اتنا فضول ٹائم نہیں ہے میرے پاس۔"
پیشانی پر شکنیں ابھرنے لگیں۔
"لیکن ایسے اچھا تو نہیں لگتا اتنی محبت سے انہوں نے...."
"اچھا برا آئی ڈونٹ کئیر.... نہ میں جاؤں گا نہ ہی تم۔ اور مجھے دوبارہ دہرانا نہ پڑے۔ اپنی خیریت چاہتی ہو تو خاموش ہو جاؤ۔"
وہ برہم ہوا۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر خاموشی سے باہر نکل گئی۔
~~~~~~~~
"لڑکی تو پسند ہے ہمیں... "
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
"ﷲ تیرا شکر... "
شہناز منہ میں بڑبڑائی۔
"تو پھر دن بتا دو تم... لڑکے کو دیکھنے کب آئیں؟"
نجمہ خوشدلی سے بولی۔
"اتوار والے دن فیض کو چھٹی ہوتی ہے تو اتوار کو ٹھیک ہے نہ؟"
وہ نجمہ سے نظریں ہٹاتی اپنے شوہر سے استفسار کرنے لگی۔
"جی بہن اتوار ٹھیک ہے... "
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔
کچھ ہی دیر بعد وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔
"ﷲ تمہارے نصیب اچھے کرے... بس دیکھنا سب اچھا ہوگا اب۔"
وہ خوشی سے نہال ہو کر مریم کو گلے لگاتی ہوئی بولیں۔
"میں ابو کو فون کر کے بتاتا ہوں... وہ بھی دیکھنے ساتھ چلیں گے تو بہتر ہوگا۔"
کبیر کہتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
"ہاں... ہاں تمہارے ابو کے بغیر بھلا کیسے جا سکتے ہیں ہم ابھی فون ملاؤ ان کو۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
"میں آتی ہوں... "
مریم کہتی ہوئی ڈرائینگ روم سے نکل گئی۔
"مریم کا بھی گھر بس جاےُ تو میری ساری فکر دور ہو جاےُ گی۔"
وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولیں۔
"امی یہ لیں جنت کا فون ہے... "
مریم انہیں فون دے کر باہر نکل گئی۔
"وعلیکم السلام! تم تو ایسے گئی مڑ کے دیکھا ہی نہیں... "
وہ خفا انداز میں بولیں۔
"بس امی کیا کروں زمان پر کام کا بوجھ ہی اتنا ہے۔"
وہ بےبسی سے گویا ہوئی۔
"مانتے ہیں بہت بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں زمان کی لیکن اتنی بھی کیا مصروفیت کے دس منٹ کے لئے چکر بھی نہیں لگا سکتے تم دونوں...شادی کے بعد سے شکل ہی نہیں دکھائی۔"
وہ شکوہ کر رہی تھیں۔
"جانتی ہوں... لیکن سسرال کو بھی تو دیکھنا پڑتا ہے نہ؟ پھر آپ نے تو کہا تھا میرے لئے سب سے پہلے میرا سسرال ہے۔"
بولتے بولتے آنکھیں نم ہو گئیں۔
"ہاں.. تم خوش ہو نہ بس اور کچھ نہیں چائیے۔ لیکن زمان سے کہنا اگر اس کے پاس وقت نہیں تو تمہیں چھوڑ جاےُ تم کون سے کاروبار کر رہی ہو وہاں؟"
وہ خفا انداز میں بولیں۔
"آپ کو بتایا تو تھا زمان کی بہنیں آئی ہوئی ہیں۔ ایسے میں اچھا نہیں لگتا کہ میں گھر چلی جاؤں..."
اس نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
اب تو گھر والوں سے بات کرتے ہوۓ خوف محسوس ہوتا تھا کہ حقیقت ان پر آشکار نہ ہو جاےُ۔
"اچھا چلو تم کہتی ہو تو مان لیتے ہیں۔ ویسے آج لڑکے والے آےُ تھے مریم کو پسند کر گئے ہیں۔ بس دعا کرنا گھر بار ٹھیک ہو۔"
یکدم انہیں خیال آیا۔
"ﷲ نصیب اچھے کرے... "
بولتے بولتے دو موتی ٹوٹ کر رخسار پر آ گرے۔
"آمین... "
"امی میں آپ کو تھوڑی دیر بعد فون کرتی ہوں کچھ کام ہے... "
ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ رہا تھا اور جنت نہیں چاہتی تھی شہناز اس کی تکلیف سے واقف ہو جاےُ۔
"ہاں تم کر لو کام... فارغ ہو کے کرنا فون۔"
انہوں نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
"یا ﷲ یہ کیسی آزمائش ہے؟"
جنت نے سسکتے ہوۓ سر تکیے پر رکھ دیا۔
"کہاں جاؤں میں؟ سمجھ نہیں آتی زمان کے ہمراہ تو میں سانس بھی نہیں لے سکتی... یہ کیسا رشتہ ہے؟ جس میں امتحان کے سواء کچھ بھی نہیں... "
وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔
"میں کیوں زمان کا ایسا ظالمانہ رویہ برداشت کروں؟ صرف اس لئے کہ وہ میرے شوہر ہیں... شوہر ہونے کا یہ تو مطلب نہیں کہ بیوی پر ظلم و ستم کی اجازت ہے۔ آخر کیوں یہ بات مردوں کو سمجھ نہیں آتی... مجھے اپنے ہاتھ کی کٹھ پتلی بنا کر بھی ان کا دل خوش نہیں ہوا اور کیا کروں میں؟"
تسلسل سے بہتے آنسو تکیے میں جذب ہو رہے تھے۔
"اتنا سب برداشت کروں؟ کس لیے؟ دو وقت کی روٹی اور سکونت کے لیے؟ اس کا وعدہ تو خدا نے کیا ہے نہ تو یہ سب تو کہیں بھی مل جاےُ گا پھر کیوں مجھے اتنا مجبور کر دیا ہے؟ کیوں مجھے زبردستی یہ ظلم سہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ امی کے ایک وعدے نے مجھے لاچار بنا دیا ہے.... "
وہ سر اٹھا کر کمرے کو دیکھنے لگی۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتی اس کا فون رنگ کرنے لگا۔
انجان کا نام دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"کس کا فون ہو سکتا ہے؟... "
وہ بڑبڑاتی ہوئی فون کان سے لگانے لگی۔
"رات میں ڈنر پر جانا ہے سندس کے سسرال تو تم ریڈی رہنا آٹھ بجے تک۔"
مصروف سے انداز میں کہا تھا۔
"صبح تو آپ کہہ رہے تھے ٹائم نہیں ہے... "
وہ تلخی سے گویا ہوئی۔
"وہاں جانے کے لیے نہیں ہے۔ سندس کے سسرال جانے کے لیے ہے میرے پاس ٹائم... خیر میری بات غور سے سن لو تم بلیو کلر کا ڈریس پہنو گی تمہاری کب بورڈ میں موجود ہے اور میرے لئے بلیو کلر کا پینٹ کوٹ نکال دینا۔کچھ پوچھنا ہے تمہیں؟"
وہ فون بند کرنے کی بجاےُ رک گیا۔
"میری پوچھنے کی اہمیت ہی کیا ہے... "
وہ رکھائی سے بولی۔
"تم رو رہی ہو؟"
جنت کی بھاری آواز سے وہ بھانپ گیا۔
"نہیں... آپ کو کیوں فکر ہو رہی ہے؟"
وہ تنک کر بولی۔
"عزت راس نہیں تمہیں... "
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
چند لمحے وہ فون کی اسکرین کو گھورنے لگی۔
"آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا... میں بیوی ہوں آپ کی لیکن..."
اس نے روتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ دی۔
زمان آٹھ بجے آیا تو جنت تیار کھڑی تھی۔
"یہ آپ کے کپڑے... "
وہ اشارہ کرتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟"
وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔
"جی... "
وہ اس سے نظریں ملاےُ بغیر بولی۔
"اگر کوئی مسئلہ ہے تو بتا دو ہم ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں گے پہلے... "
وہ کوٹ اتار کر واسکٹ کے بٹن کھولنے لگا۔
"میرے لئے آپ کو انہیں انتظار نہیں کروانا چائیے۔"
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی تلخ ہو گئی۔
"ٹھیک ہے تمہاری مرضی... "
وہ لاپرواہی سے کہتا چینج کرنے چلا گیا۔
وہ تاسف سے بند دروازے کو دیکھنے لگی۔
سارا وقت جنت خاموش رہی سندس کچھ پوچھ لیتی تو جواب دے دیتی ورنہ خاموشی سے سر جھکاےُ بیٹھی تھی۔
زراد سامنے والے صوفے پر بیٹھا اس کا جائزہ لے رہا تھا۔
جنت کا چہرہ کھلی کتاب تھا جسے وہ بآسانی پڑھ رہا تھا۔
"ریحام کیوں نہیں آ رہی یہاں؟"
وہ سعد سے مخاطب تھا جو کہ ریحام کا شوہر اور سندس کا دیور تھا۔
"آنٹی نے بتایا نہیں آپ کو؟"
وہ حیران سا اسے دیکھنے لگا۔
"نہیں مجھے تو کچھ نہیں بتایا گیا... "
وہ لاعلمی سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔
"ضد کر کے بیٹھی ہے کہ میں اسے سپین لے جاؤں.... امتیاز بھائی کی جاب سپین میں تھی اسی لیے وہ سندس بھابھی کو بھی لے گئے....لیکن وہ سمجھنے پر تیار ہی نہیں ہے۔"
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔"آپ ٹھیک نہیں لگ رہیں؟"
وہ جیب میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا۔
"کس نے کہا آپ سے؟ میں تو بلکل ٹھیک ہوں۔"
وہ گلا کھنکار کر بولی۔
"جھوٹ بول رہی ہیں آپ دیکھیں... صاف لکھا ہے آپ کے چہرے پر۔"
وہ رک کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
"نہیں ایسی بھی کوئی بات نہیں۔"
وہ سر جھکا کر آہستہ سے بولی۔
"یہ سندس کا روم ہے اندر چلی جائیں آپ۔"
وہ دروازے سے کچھ فاصلے پر رکتا ہوا بولا۔
وہ باہر نکلی تو زراد پھر سے بولنے لگا۔
"زمان نے کچھ کہا؟"
وہ دونوں راہداری میں چل رہے تھے۔
"گھر کی یاد آ رہی تھی... مشکل ایسی ہے کہ کسی سے شئیر بھی نہیں کر سکتی میں۔ سب سینے میں دفن کرنے پر مجبور ہوں۔"
باوجود کوشش کے آواز بھیگ گئی۔
"ایسے حالات میں تو زیادہ شدت سے یاد آتی ہوگی... "
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
اسے جنت سے ہمدردی تھی۔
"آج میری آپی نے دعوت پر بلایا تھا لیکن زمان نے انکار کر دیا۔"
وہ مدھم آواز میں بولی۔
آواز میں پوشیدہ کرب واضح تھا۔
زراد اسے گارڈن میں لے آیا۔
"اسی لئے آپ اداس ہیں؟"
وہ گھاس پر قدم رکھتا ہوا بولا۔
"جی....آپ یہاں کیوں آ گئے؟ سب اندر ہیں..."
وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔
"آپ اندر آرام دہ نہیں تھیں اس لئے میں نے سوچا کچھ دیر چہل قدمی کر لیں شاید اچھا محسوس کریں... "
وہ پھیکا سا مسکرایا۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں... اندر چلتے ہیں۔"
وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلی۔
"شیور ہیں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"جی... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"ٹھیک ہے... "
وہ مسکراتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
~~~~~~~~
"کچھ چائیے آپ کو؟"
جنت کپڑے چینج کر کے سامان رکھ رہی تھی۔
"نہیں... تم سو جاؤ مجھے کام کرنا ہے۔"
وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین کھولتا ہوا بولا۔
"اچھا... "
وہ کہتی ہوئی بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
تھکن کے باعث وہ لیٹتی ہی نیند کی وادی میں اتر گئی۔
زمان نگاہیں اسکرین پر مرکوز کیے اپنے کام میں محو تھا۔
جنت کے فون پر میسج آنے لگے۔
پہلے ایک, دو, تین....جب یہ سلسلہ بدستور جاری رہا تو زمان نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھایا۔
پیشانی پر شکنیں ابھرنے لگیں۔
فون سے نظریں ہٹا کر ایک نگاہ اس نے جنت کے چہرے پر ڈالی۔
کچھ سوچ کر اس نے اپنا نمبر سیو کیا اور فون سائیڈ پر رکھ دیا۔
~~~~~~~~
"نمبر سیو کر دیا ہے میں نے اپنا... "
وہ ناشتہ کر رہے تھے جب زمان بولا۔
"اچھا... "
وہ کہہ کر کھانے لگی۔
"تمہارا فون کہاں ہے؟"
وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا۔
"کمرے میں ہوگا... "
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
"لے کر آؤ... "
صوفے سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
"اچھا... "
وہ سانس خارج کرتی وہاں سے چلی گئی۔
"مجھے بلایا تھا؟"
جنت کے جاتے ہی ریحام آ گئی۔
"ہاں بیٹھو... مام کہاں ہیں؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"آ رہی ہیں..."
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
اپنی توہین وہ بھولی نہیں تھی۔
"اوکے... مجھے یہ بتاؤ تم اپنے گھر کیوں نہیں جا رہی؟"
وہ سیدھا مدعے پر آیا۔
"کیا میں یہاں رہ نہیں سکتی؟ یہ میرا بھی تو گھر ہے۔"
وہ آنکھوں میں حیرت سموےُ اسے دیکھنے لگی۔
"رہ سکتی ہو... لیکن فضول کی ضد کر کے نہیں... "
وہ لہجے کو سخت بناتا ہوا بولا۔
"کون سی فضول ضد؟"
وہ آہستہ سے بولی جیسے خدشہ ہو کہیں وہ جان نہ لے۔
"جو تم نے سعد سے کی ہے... اسی لئے واپس نہیں جا رہی نہ تم۔"
زمان کی بجاےُ عظمی وہاں آتی ہوئی بولی۔
"مام؟"
وہ خفگی سے دیکھتی ہوئی بولی۔
"سندس سپین اس لئے ہے کیونکہ امتیاز کی جاب وہاں ہے... سعد کا اپنا بزنس سیٹ ہے وہ کیوں سب چھوڑ کر وہاں جا کر جاب ڈھونڈے؟ آر یو کریزی؟"
آواز دھیرے دھیرے بلند ہوتی جا رہی تھی۔
"کیوں اس میں ایسی کون سی انوکھی بات ہے؟جاب کرنے میں کیا برائی ہے؟"
وہ بگڑ کر بولی۔
"اپنی ہی بہن سے حسد کرنا بند کر دو... میں قطعاً اجازت نہیں دوں گا سعد کو کہ وہ اپنا ویل سیٹل بزنس تمہاری احمقانہ ضد میں آ کر ختم کرے۔"
اس کا فیصلہ حتمی تھا ریحام جانتی تھی۔
"میری زندگی ہے اور میرے شوہر... "
"ٹھیک ہے پھر یہ میرا گھر ہے جاؤ اپنے شوہر کے گھر جا کر لڑائی کرو یہاں رہنے کی اجازت نہیں دیتا میں تمہیں... "
وہ کہتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
"مام آپ خاموش کیوں ہیں؟"
وہ سب خراب ہوتے دیکھ کر متفکر سی بولی۔
"کیونکہ زمان بلکل درست کہہ رہا ہے... تم سے زیادہ سمجھ ہے زمان کو۔ اور یہ توقع مت رکھنا میں تمہاری طرف داری کروں گی۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔
"سن لیا... اب اپنا سامان باندھو اور زراد کے ساتھ جاؤ یہاں سے... شام میں مجھے تم نظر نہ آؤ اس گھر میں۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔
جنت پیچھے ہی رک گئی۔
"آ جاؤ باہر... "
وہ جنت کو اشارہ کرتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
"مام آپ کیوں میری دشمن بن رہی ہیں؟"
وہ تلملا اٹھی۔
"تم خود اپنی دشمن بن رہی ہو... عقل کہاں گئی ہے تمہاری؟ اپنا بزنس چھوڑ کر وہ جاب کرے گا تو گزارا کر لو گی تم؟"
وہ خفگی سے دیکھنے لگیں۔
جنت سر جھکاےُ باہر نکل گئی۔
"یہ لیں... "
وہ زمان کے پاس آ گئی جو اپنی گاڑی کے پاس کھڑا تھا۔
"کل رات تمہارے فون پر میسجز آ رہے تھے... کون ہے یہ جو تمہیں جان بلا رہا ہے؟"
وہ مسیجز کھول کر اسکرین اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔
"مجھے نہیں پتہ... "
وہ بغور نمبر کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"تم نہیں جانتی اسے؟ تمہارا کسی سے افئیر تھا؟ کوئی عاشق یا؟"
وہ سپاٹ انداز میں بول رہا تھا۔
"ایسا کچھ بھی نہیں تھا... نہ ہی میں اس نمبر کو جانتی ہوں۔"
وہ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل بول پڑی۔
"ٹھیک ہے... یہ نمبر میں نے بلاک کر دیا ہے اگر کسی نمبر سے دوبارہ میسج آےُ تو مجھے بتانا۔"
وہ فون اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔
"آپ کو یقین ہے مجھ پر؟"
وہ اس کی بھوری آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔
"ہاں... مجھے یقین ہے تم بدکردار نہیں ہو سکتی۔"
لب دھیرے سے مسکراےُ۔
"تھینک یو... "
جنت بھی مسکرا دی۔
"کس لیے؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"مجھ پر ٹرسٹ کرنے کے لیے.... "
وہ گیٹ کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"جب تک تم خود میرا بھروسہ نہیں توڑتی تب تک زمان تیمور کو تم پر بھروسہ ہے۔"
وہ اس کا رخسار تھپتھپاتا ہوا بولا۔
"اب تم جاؤ میرا ٹائم ہو رہا ہے... "
وہ بائیاں ہاتھ اوپر کرتا گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتے الٹے قدم اٹھانے لگی۔
زمان آنکھوں پر گاگلز لگاتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
"شکر ہے کچھ تو اچھا ہے آپ میں... "
جنت اس کی گاڑی کو دیکھتی ہوئی بولی جو گیٹ سے باہر نکل رہی تھی۔
"آپ کو سمجھنا بہت مشکل ہے زمان... نہیں معلوم کب کس بات پر غصہ کر جائیں آپ۔"
وہ خود کلامی کرتی اندر کی جانب بڑھ گئی۔
~~~~~~~~
"خیر ہے جنت گھر کیوں نہیں آ رہی؟"
سلمان صاحب چاےُ کا کپ پکڑتے ہوۓ بولے۔
"نندیں آئی ہوئی ہیں اس لئے آنے نہیں دے رہے۔"
شہناز کہتی ہوئی بیٹھ گئی۔
"پھر بھی ایسی بھی کیا مصروفیت کہ کچھ وقت کے لئے بھی نہ آ سکیں... مل ہی جاےُ آ کر۔"
وہ خفا انداز میں بولے۔
"آپ تو جانتے ہی ہیں سسرال والوں کی سننی پڑتی... جنت خود مختار تو نہیں ہے نہ... ورنہ بتا رہی تھی اتنا دل کرتا ہے آنے کا۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"اچھا خوش ہے نہ اپنے گھر وہ؟"
وہ اس بات کو پس پشت ڈالتے ہوئے بولے۔
"ہاں خوش تو ہے لیکن زمان سے ملاقات نہیں ہوئی میری... بس میری تو یہی دعا ہے ﷲ اسے خوش و خرم رکھے۔"
وہ مریم کو دیکھتی ہوئی بولیں جو کچن میں کام کر رہی تھی۔
"رشتہ دیکھنے کب جانا ہے؟"
انہوں نے موضوع تبدیل کیا۔
"میں نے نجمہ کو آج کا ہی بول دیا ہے... "
وہ آہستہ سے بولی۔
"اتنی جلدی بھی اچھی نہیں ہوتی... آج تو میں آیا ہوں۔"
وہ خفگی سے بولے۔
"مہینہ تو ہو گیا ہے اب اور کتنا انتظار کرتے... اچھے رشتے روز روز کہاں ملتے ہیں؟"
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
"اچھا بھئی ٹھیک ہے... "
وہ ہتھیار ڈالتے ہوۓ بولے۔
~~~~~~~~
"زمان اٹھ جائیں... "
وہ اس کا بازو ہلاتی ہوئی بولی۔
"ٹائم؟"
وہ منہ پر ہاتھ رکھے جمائی روکتا ہوا بولا۔
آنکھیں بدستور بند تھیں۔
"دس بج کر پچاس منٹ ہو رہے ہیں اور میں آپ کو گزشتہ دس منٹ سے اٹھا رہی ہوں..."
وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
"اچھا... میرا فون دو۔"
وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
"یہ لیں... میں ایلن کو ناشتے کا بولنے جا رہی ہوں۔"
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔
"نہیں ابھی نہیں... یہ بتاؤ یہ تمہارے رشتے دار کیا لینے آےُ تھے یہاں؟"
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
"پھوپھو کی بات کر رہے ہیں آپ؟"
وہ لب کاٹتی الماری کی جانب بڑھ گئی۔
"تفصیل بتانا ضروری نہیں سمجھتا میں... تم اچھے سے جانتی ہو نہ پھر کیوں پوچھ رہی ہو؟"
وہ خفگی سے بولا۔
"پتہ نہیں... "
وہ آہستہ سے بولی۔
"کیا پتہ نہیں؟"
وہ فون سے نگاہیں اٹھا کر بگڑ کر بولا۔
"مجھے نہیں پتہ وہ کیوں آئی تھیں... "
وہ ہونٹوں کو دائیں بائیں جنبش دیتی زمان کو دیکھنے لگی۔
"خود ہی منع کر دو گی تو بہتر ہوگا ورنہ میرا طریقہ پسند نہیں آےُ گا۔ یہ میرا گھر ہے۔ تفریحی مقام نہیں جہاں یہ دو ٹکے کے لوگ منہ اٹھا کر آ جائیں... "
وہ برہمی سے گویا ہوا۔
"جی اچھا... میں کہہ دوں گی۔"
وہ الماری سے تولیہ نکالتی ہوئی بولی۔
جنت لمحہ بھر رک کر اسے دیکھنے لگی۔
"کوئی بات کرنی ہے؟"
وہ اس کی نگاہیں خود پر محسوس کرتا ہوا بولا۔
"جی... "
وہ آہستہ سے بولی۔
"اِدھر آؤ... "
وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا ہوا بولا۔
"بیٹھو اور بولو... "
وہ کمبل ہٹاتا اس کے لئے جگہ بنانے لگا۔
جنت بیٹھ کر الفاظ مجتمع کرنے لگی۔
"بولو اب... "
اس کی جانب سے خاموشی پا کر زمان فون سائیڈ پر رکھتا اسے دیکھنے لگا۔
"میں امی سے مل آؤں پلیز... "
وہ اس کے ہاتھ پکڑتی التجائیہ انداز میں بولی۔
"تم پہلے بھی مجھ سے بحث کر چکی ہوں... آخر چاہتی کیا ہو بتا دو؟"
وہ اس کے ہاتھ جھٹکتا سرد مہری سے بولا۔
"زمان پلیز ایک بار جانے دیں... ہماری شادی کو مہینے سے بھی زیادہ ہوگیا ہے میں ایک بار بھی نہیں گئی۔"
آنسو باجود ضبط کے آنکھوں کی زینت بن گئے۔
"زمان تیمور کی بیوی ایسے گندے علاقے میں نہیں جاےُ گی۔ زیب نہیں دیتا۔"
وہ قطعیت سے بولا۔
"وہ میرے امی ابو کا گھر ہے زمان... "
وہ تڑپ کر بولی۔
اس کی بے حسی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا تھا۔
"تمہارے ہیں میرے نہیں... "
رکھائی سے جواب آیا۔
"ہاں تو پھر مجھے تو جانے دیں... میں زراد کے ساتھ چلی جاؤں گی بس تھوڑی دیر کے لیے۔ سب مجھ سے پوچھتے ہیں بار بار تم کیوں نہیں آتی؟ کیا جواب دوں انہیں؟"
بولتے بولتے اشک رخسار پر آ گرے۔
"اس سب کا کوئی نفع نہیں پہنچے گا۔ میں ایک بار بتا چکا ہوں زمان تیمور کی بیوی ایسی گھٹیا جگہوں پر نہیں جاےُ گی۔ جہاں میں جاؤں گا تم بس وہیں جاؤں گی۔ سمجھ گئی؟ امید ہے دوبارہ تم بحث نہیں کرو گی۔"
وہ چبا چبا کر بولا۔
سرد نگاہیں جنت کے سراپے پر تھیں۔
"میں کیوں مانوں آپ کی بات بتائیں؟ ہر بات پر سر جھکا دیتی ہوں لیکن نہیں یہ بات نہیں مانوں گی میں آپ کی بہت ہوگیا... "
وہ پھٹ پڑی۔
آج ضبط جواب دے گیا تھا۔
ایک انسان آخر کب تک اور کس حد تک برداشت کرے۔
"تم میری بیوی ہو اور وہی کرو گی جو میں کہوں گا سمجھی... "
وہ اس کی بازو پکڑ کر اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا۔
"آج کچھ نہیں سمجھوں گی میں... بہت ہوگیا زمان میں بھی انسان ہوں لیکن آپ نے مجھے خود کی طرح مشین بنا دیا ہے لیکن میرے اندر آج بھی جذبات اور احساسات موجود ہیں۔ میں جاؤں گی وہاں... "
وہ اس کا ہاتھ ہٹاتی کھڑی ہو گئی۔
"یاد رکھنا اگر تم گئی تو واپس یہاں نہیں آؤ گی... تم میری بات رد نہیں کر سکتی۔"
وہ تلملا اٹھا۔
جنت کے قدم وہیں تھم گئے۔
آنسو لڑی کی مانند تسلسل سے بہہ رہے تھے۔
وہ مٹھیاں بند کرتی خود پر قابو پانے لگی۔
کتنی بے بس کتنی لاچار تھی وہ۔ حالات کے ہاتھوں مجبور۔ نہ اُگل سکتی تھی نہ نگل سکتی تھی۔
"مجھے ان لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا اور بحیثیت میری بیوی تم بھی نہیں رکھو گی۔"
وہ کہتا ہوا اس کے عین مقابل آ گیا۔
آنکھوں میں پہلے حیرت اور پھر شکوے در آےُ۔
"دوسروں کے باعث ہمارا رشتہ خراب مت کرو... تمہیں وہی کرنا ہے جو میں بولوں گا۔ اور میری بات مانتے ہوئی ہی اچھی لگتی ہو تم۔"
زمان ٹیشو سے اس کے رخسار سے آنسو پونچھتا ہوا بولا۔
"مت کریں ایسا... "
وہ ہمت جمع کرتی پھر سے بولی۔
"میں فیصلہ سنا چکا ہوں... جانا چاہتی ہو تو جاؤ اس کے بعد میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا۔ اب تم پر منحصر کرتا ہے۔"
وہ کہتا ہوا چلنے لگا۔
وہ تلخی سے مسکرانے لگی۔
"یعنی آپ مجھے کسی شرط پر جانے نہیں دیں گے؟ صرف اس لئے کہ آپ کی توہین ہو گی.... "
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
آنکھوں میں خفگی نمایاں تھی۔
"بلکل...وہ لوگ میرے سٹینڈرڈ کے نہیں اور میں صرف اپنے سٹینڈرڈ والے لوگوں سے ملتا ہوں۔"
وہ اس کی جانب گھومتا ہوا بولا۔
"میں بھی وہیں سے آئی ہوں... "
وہ اس کی نگاہوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
"ہاں... لیکن اب تم مسز زمان ہو... بس یہی تمہاری پہچان ہے پہلے تم کیا تھی میٹر نہیں کرتا۔ اور مسز زمان کو زیب نہیں دیتا وہ ایسے علاقوں میں جائیں۔"
وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتا بے حسی سے گویا ہوا۔
وہ سرد آہ بھرتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
"بحث کا کوئی فائدہ نہیں جنت زمان... "
وہ تلخی سے بولی۔
"بلکل درست کہا... ایسی فضول سی باتیں کر کے میرا دماغ خراب مت کیا کرو۔ اب جاؤ میرا ناشتہ دیکھو۔"
وہ آبرو اٹھا کر کہتا اپنے کپڑے اٹھانے لگا۔
"جانتی تھی یہی ہوگا... لیکن ایک موہوم سی امید تھی جو آج آپ نے توڑ دی۔ یہ صلہ دیا ہے آپ نے میری خدمت کا مجھے زمان تیمور..."
وہ نفی میں سر ہلاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
~~~~~~~~
"کافی پیو گے؟"
جنت دو کافی کے مگ ہاتھ میں لئے اس کے سامنے آئی۔
"آپ لے آئی ہیں تو پی بھی لوں گا... "
وہ مگ پکڑ کر مسکراتا ہوا بولا۔
"لیکن آپ کو تو چاےُ پسند تھی؟"
لمحہ بھر کو وہ ٹھٹھک گیا۔
"ہاں... لیکن زمان کو کافی۔"
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
"اوہ اچھا... زمان چلا گیا؟"
وہ دونوں ٹیرس کی جانب چل رہے تھے۔
"ہاں... دس منٹ پہلے گئے ہیں۔"
وہ سنجیدگی سے بولی۔
"آج پھر کچھ ہوا؟"
وہ ریلنگ سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
"زمان کے ساتھ رہنا بہت مشکل ہے... اور ستم یہ کہ آپ کے علاوہ کسی سے شئیر بھی نہیں کر سکتی۔"
وہ مگ کو گھورتی ہوئی بول رہی تھی۔
"نو پرابلم... اس طرح آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور میرا کیا ہے میں تو ہوں ہی فارغ... مجھے بھی کمپنی مل جاتی ہے۔ پہلے سندس اور ریحام ہوتی تھیں اور اب آپ۔"
وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔
"مجھے سمجھ نہیں آ رہا... "
وہ جھنجھلا کر بولی نگاہیں ابھی تک مگ پر تھیں۔
"کیا سمجھ نہیں آ رہا؟"
وہ سپ لیتا ہوا بولا۔
"میں گھر جانا چاہتی ہوں... لیکن زمان حامی نہیں بھر رہے۔ انہوں نے سختی سے منع کر دیا ہے۔ میں کیسے چھوڑ دوں اپنی فیملی کو بتائیں؟"
وہ آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھنے لگی۔
"یہ تو بہت بڑا ظلم ہے... باقی سب ایک طرف لیکن آپ کو ان سے دور رکھنا بہت غلط ہے۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"میں نے بحث کی تو زمان نے دھمکی دی کہ واپس نہیں آنے دیں گے یہاں۔"
وہ چہرہ جھکا کر بولی۔
"ڈونٹ وری... کل صبح وہ یہاں آ جاےُ گی۔"
زمان اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
"ابراہیم کی نیند پوری ہوئی یا نہیں؟"
زمان سندس کو دیکھتا بلند آواز میں بولا۔
"ہاں وہ ملازمہ کو بھیجا ہے میں نے آتی ہوگی۔"
وہ جو عظمی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی کمرے کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔
"اوکے... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا گھڑی دیکھنے لگا۔
"واش روم کہاں ہے؟"
جنت سندس کا شانہ تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
"آئیں میں لے جاتا ہوں آپ کو... "
زراد اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
"نہیں آپ کو زحمت ہو گی... "
"اس میں زحمت والی کیا بات؟ مجھے ایک کال کرنی ہے اس لئے کہہ رہا ہوں۔"
وہ اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
"ہاں زراد تمہیں بتا دے گا... "
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
جنت اثبات میں گردن ہلاتی زراد کے عقب میں چلنے لگی۔
آنسو آنکھ سے نکل کر رخسار سے بہتے ہوۓ فرش پر جا گرے۔
"میں بھی مجبور ہوں... چاہ کر بھی آپ کی مدد نہیں کر سکتا۔ بھلا زمان کے سامنے میری کہاں چل سکتی ہے؟"
وہ استہزائیہ ہنسا۔
"میں کیا کروں؟ مجھے سب کی یاد آ رہی ہے... ایک بار ملنا چاہتی ہوں ان سے..."
وہ ہاتھ کی پشت سے چہرہ صاف کرنے لگی۔
"آپ کے پاس اب دو ہی راستے ہیں... یا تو زمان یا فیملی۔"
وہ صاف گوئی سے بولا۔
"میں کیسے کسی ایک کا انتخاب کر سکتی ہوں؟"
وہ سسک کر اسے دیکھنے لگی۔
"دیکھیں میں آپ کو کوئی ایسا مشورہ نہیں دینا چاہتا جس سے آپ کی زندگی مزید کسی طوفان کی نذر ہو جاےُ۔"
وہ آہستگی سے بولا۔
"جو زندگی پہلے ہی سونامی کی بھینٹ چڑھی ہو اسے مزید کسی طوفان سے کیا خوف محسوس ہوگا؟"
وہ اپنی بے بسی پر خود ہی ہنس دی۔
زراد کرب سے اسے دیکھ رہا تھا۔
لیکن اسی کی طرح بے بس تھا۔ کچھ نہیں کر سکتا تھا اس کے لیے۔
"آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟"
وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔
"زمان تو آفس گئے ہیں رات دیر سے ہی واپسی ہوگی... آپ مجھے لے جاؤ گھر۔ ان کے آنے سے قبل ہم واپس آ جائیں گے۔"
وہ التجائیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"دیکھیں مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لے جانے میں... لیکن آپ دیکھ لیں یہ خطرے سے خالی نہیں۔ جاننے کے بعد زمان کیا کرے گا آپ نتیجے کو بھی مدنظر رکھیں۔"
وہ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
"زیادہ سے زیادہ کیا ہے؟ تھپڑ مار لیں گے نہ... وہ تو بہت بار مار چکے ہیں۔ لیکن طلاق نہیں دیں گے میں جانتی ہوں اتنے وقت میں انہیں میری عادت تو ہو گئی ہے اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"میں تو آپ کو یہی مشورہ دوں گا ایسا نہ کریں... باقی آپ دیکھ لیں جیسے آپ کو مناسب لگے۔"
دونوں کی کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔
اب یہ بدمزہ سی کافی کوئی نہیں پینے والا تھا۔
"میں فیصلہ کر چکی ہوں... اب تک زمان کی ہر بات مانی اگر ایک بار نہیں مانوں گی تو قیامت نہیں آ جاےُ گی۔"
وہ سخت لہجے میں بولی۔
"ٹھیک ہے پھر آپ چینج کر لیں میں ابھی لے جاتا ہوں آپ کو... "
وہ فون پر ٹائم دیکھتا ہوا بولا۔
"بس دس منٹ دو مجھے... "
وہ مگ لیتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
جنت کے چہرے پر خوشی کی رمق وہ دیکھ چکا تھا۔
"کتنی مجبور ہیں آپ... "
وہ آہ بھرتا ہوا بولا۔
فون جیب میں ڈالتا وہ زینے اترنے لگا۔
جنت نے اسے بھی غمگین کر دیا تھا۔
~~~~~~~~
"ارے واہ... آج تو بڑے بڑے لوگ آےُ...."
مریم جو خوشدلی سے بول رہی تھی زراد کو دیکھ کر خاموش ہو گئی۔
"کوئی بڑے لوگ نہیں ہم اچھا... "
جنت اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
"اچھا جی... یہ بتاؤ کیسی ہو؟"
وہ اسے ساتھ لئے اندر آ گئی۔
"آپ نہ ڈرائینگ روم میں بیٹھ جاؤ.... "
وہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوتی لائٹس آن کرتی ہوئی بولی۔
زراد مسکراتا ہوا بیٹھ گیا۔
"ایزی ہیں؟"
وہ جاتی جاتی رک کر اسے دیکھنے لگی۔
"جی آپ آرام سے باتیں کرو میں ایزی ہوں۔"
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہے... "
وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔
زراد گردن گھما کر جائزہ لیتا فون نکالنے لگا۔
"شکر ہے تم نے بھی دل نکالا۔"
وہ دونوں چھوٹے کمرے میں بیٹھ چکی تھیں۔
"اچھا اب طعنے تو مت دو... کیا کرتی نندیں جانے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔"
وہ منہ بسورتی سہولت سے جھوٹ بول گئی۔
"اچھا یہ بتاؤ کیسی ہو؟ زمان کیسا ہے؟ اور سسرال میں خوش ہو نہ؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟"
وہ متفکر سی پے در پے سوال کرنے لگی۔
"میں بھی فٹ۔ میرے شوہر بھی فٹ اور سب ٹھیک ہے۔ بہت خوش ہوں میں... میرے چہرے سے پتہ نہیں چل رہا؟"
وہ مسکراتی ہوئی بول رہی تھی۔
"ہاں پتہ تو چل رہا ہے... بس ایسے ہی مسکراتی رہو۔ اچھا میں کچھ کھانے کو بناؤ... "
مریم کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"کھانے پینے نہیں آئی میں... امی نظر نہیں آ رہیں۔ کسی کے گھر گئی ہیں؟"
وہ آبرو اچکا کر بولی۔
"رشتہ دیکھنے گئی ہیں۔ تم بتاؤ کیسا چل رہا ہے سب؟"
وہ کہتی ہوئی بیٹھ گئی۔
"سب اچھا ہے... وہ جڑواں بھی نظر نہیں آ رہے؟"
وہ دوپٹہ گلے میں ڈالتی ہوئی بولی۔
"سو رہے ہیں... تم کہو تو اٹھا دوں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
"نہیں... سونے دو۔ عائشہ آپی نہیں آئیں؟"
وہ بیڈ سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔
"ایک دن شام میں آئی تھیں لیکن تھوڑی دیر کے لیے۔"
وہ یاد کرتی ہوئی بولی۔
"ٹھیک... "
وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
مریم پھر سے بیڈ سے اتر گئی۔
"اب کہاں جا رہی؟"
جنت اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
"تمہارے دیور کو تو چاےُ وغیرہ دوں.... پہلی بار آیا ہے کیا سوچے گا؟"
وہ خفگی سے بولی۔
"وہ ابھی ناشتہ کر کے آیا ہے اس لئے کچھ نہیں کھاےُ گا تم آرام سے بیٹھ جاؤ میرے ساتھ۔ مجھے بہت ساری باتیں کرنی ہیں... "
وہ پرجوش انداز میں کہتی سیدھی ہو گئی۔
"باتیں تو مجھے بھی کرنی ہیں... پتہ ہے تمہاری اتنی عادت ہو گئی تھی کہ ایسا لگ رہا تھا گھر میں کوئی موجود ہی نہیں ہے۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"اب میری اہمیت کا اندازہ ہوگا آپ لوگوں کو... "
وہ منہ بناتی مسکرانے لگی۔
"اتنے عرصے میں ہی اندازہ ہو گیا ہے۔"
وہ ہنستی ہوئی بولی۔
دو گھنٹے بعد جنت کے فون پر کال آنے لگی۔
اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔
وہ تیز تیز ہاتھ چلاتی بیگ کھول کر فون نکالنے لگی۔
مریم اس کی گھبراہٹ محسوس نہ کر سکی۔
زراد کالنگ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔
"میرے خیال میں کافی ٹائم ہو گیا ہے اب چلنا چائیے...."
فون اٹھاتے ہی زراد کی آواز اسپیکر پر ابھری۔
"امی آ جائیں ان سے مل کر پھر چلتے ہیں۔"
زمان کا خوف دل پر براجمان تھا۔ لیکن وہ ایسے بنا ملے نہیں جانا چاہتی تھی۔
"ٹھیک ہے لیکن زیادہ دیر مت کیجئے گا۔"
وہ متفکر سا بولا۔
"اوکے.... "
اس نے کہہ کر فون بند کر دیا۔
"لگتا ہے امی آ گئیں... "
مریم کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔
"جنت آئی ہے اچھا؟ تم فون کر دیتی ہمیں.."
جنت آوازیں سنتی باہر نکل آئی۔
"میری بچی... میرے گھر کی رونق آ گئی۔"
شہناز اسے سینے سے لگاتی ہوئی بولیں۔
آنکھیں ضبط کے باوجود چھلک پڑیں۔
"ہمیں بھی ملنے دیں اب... "
سلمان صاحب خفا انداز میں بولے۔
"ابو... "
وہ پکارتی ہوئی ان کے گلے لگ گئی۔
"کیسی ہے میری بیٹی؟"
وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوےُ بولے۔
جنت ہچکیاں لیتی رونے لگی۔
"کیا ہوا بیٹا تم ٹھیک ہو؟"
وہ اس سے الگ ہوتے تشویش سے بولے۔
"جی ابو... بس دل بھر آیا۔"
وہ اپنے جذبات پر قابو پاتی ہوئی بولی۔
"چلو اندر بیٹھتے ہیں... "
شہناز خوشی سے چہکیں۔
"پسند آ گیا پھر رشتہ؟"
جنت نے موضوع خود سے ہٹایا۔
"لڑکا تو اچھا تھا... گھر بھی ٹھیک تھا لیکن... "
شہناز سلمان صاحب کو دیکھتی خاموش ہو گئی۔
"لیکن کیا؟"
جنت سلمان صاحب کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"وہ کہتے مریم کو بچے چھوڑنے ہوں گے... "
وہ آہستہ سے گویا ہوۓ۔
"کیا مطلب چھوڑنے ہوں گے؟ وہ دونوں کہاں جائیں گے؟"
وہ ششدر سی کبھی شہناز بیگم کو دیکھتی تو کبھی سلمان صاحب کو۔
"کہتے بچے نانا نانی کے پاس رہیں..."
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"امی قطعاً نہیں... میں اپنے بچے کسی شرط پر نہیں چھوڑوں گی۔"
مریم کی آواز کپکپانے لگی۔
"تمہیں لگتا ہے ہم ایسا کریں گے؟"
سلمان صاحب خفگی سے بولے۔
"مجھے یہاں رہنا منظور ہے لیکن اپنے بچوں... "
"میرا بچہ تم کیوں پریشان ہو رہی ہو؟ یہ خیال اپنے ذہن سے نکال دو۔ تم ہم پر بوجھ نہیں ہو جو کہیں بھی پھینک دیں گے سمجھی... "
وہ مریم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
"جی ابو... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"میں نجمہ سے بات کروں گی کہ اگلی دفعہ پہلے یہ بات کر لے تاکہ کسی کا بھی وقت برباد نہ ہو... "
شہناز ناراض سی بولی۔
"ہاں... یاد آیا پھوپھو آئیں تھی میرے گھر..."
وہ کہہ کر باری باری سلمان صاحب اور شہناز کو دیکھنے لگی۔
"ہیں!.. وہ کس لئے وہاں آئی تھیں؟"
شہناز متحیر رہ گئی۔
"پتہ نہیں... زمان ناراض ہو رہے تھے۔ آپ پلیز ان سے بات کریں کے میرے گھر دوبارہ مت آئیں۔جبکہ شادی پر طے ہوا تھا وہ ہمارے گھر نہیں آئیں گیں نہ ہم ان کے گھر جائیں گے۔ اور وہ میرے سسرال پہنچ گئیں۔"
جنت کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
"تم پریشان مت ہو... میں بات کروں گا باجی سے... آخر کیا لینے گئی وہ وہاں؟"
سلمان صاحب برہمی سے گویا ہوۓ۔
"امی سمجھا دینا انہیں ورنہ زمان نے کچھ کہہ دیا تو میری کوئی ذمہ داری نہیں۔"
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"تمہارے ابو نے کہہ دیا کہ فکر مت کرو اب... دیکھ لیں گے۔"
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔
"اچھا امی میں چلتی ہوں اب... "
وہ سب سے مل کر وہاں سے نکل گئی۔
"کافی دیر نہیں لگا دی آپ نے؟"
وہ گردن گھما کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
"دل نہیں کر رہا تھا واپس جانے کو... لیکن جانا تو وہیں ہے۔"
وہ سرد آہ بھرتی سامنے سڑک کو دیکھنے لگی۔
"ﷲ کرے زمان کو معلوم نہ ہو... "
وہ سپیڈ بڑھاتا ہوا بولا۔
"ﷲ کرے ایسا ہی ہو... "
گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔
انجام کیا ہوگا یہی فکر لاحق تھی اسے۔
"یا ﷲ پلیز مجھے بچا لینا... یہ رشتہ ختم مت ہونے دینا۔ ورنہ امی... امی تو ٹوٹ جائیں گیں۔"
وہ خود کلامی کر رہی تھی۔
"ہاں مجھے یاد ہے بھولا نہیں ہوں میں... "
زراد فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔
جنت لب کاٹتی شیشے سے پار دیکھ رہی تھی۔
گاڑی تیزی سے منزل کی جانب رواں دواں تھی۔
"میں گھر ہوں... پندرہ منٹ تک آتا ہوں تیرے پاس۔"
گاڑی میں زراد کی آواز گونج رہی تھی۔
زراد نے گاڑی زمان ویلا کے باہر ہی روک دی۔
چوکیدار کو اشارہ کرتا وہ جنت کو دیکھنے لگا۔
"مجھے کام سے جانا ہے تو... "
وہ بات ادھوری چھوڑ گیا۔
چوکیدار چھوٹا دروازہ کھول چکا تھا۔
"ٹھیک ہے... "
وہ کہتی ہوئی گاڑی سے اتر گئی۔
جوں جوں وہ اندر کی جانب بڑھ رہی تھی خوف بھی بڑھتا جا رہا تھا۔
پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو رہی تھیں۔
وہ دوپٹے سے پیشانی خشک کرتی لاؤنج میں آ گئی۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
زمان وسط میں کھڑا تھا۔ بائیں جانب عظمی کھڑی تھی۔
جونہی نظر زمان سے جا ٹکرائی جنت کے قدم وہیں تھم گئے۔
چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔
وہ یک ٹک زمان کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پر غیض نمایاں تھا۔
"رک کیوں گئی؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بلند آواز میں بولا۔
وہ ڈری سہمی سی اس کی جانب بڑھنے لگی۔
اس پل ایسا معلوم ہو رہا تھا اپنی موت کی جانب چل رہی تھی۔
وہ چہرہ جھکا کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
"کہاں سے آ رہی ہو؟"
وہ تھوڑی سے جنت کا چہرہ بلند کرتا ہوا بولا۔
"و... وہ... میں زراد کے ساتھ...."
زمان کا دائیاں ہاتھ اٹھا اور جنت کا بائیاں رخسار سرخ کر گیا۔
جتنی قوت سے اس نے تھپڑ مارا جنت کی روح تک کانپ اٹھی۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔
وہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
"میرے منع کرنے کے باوجود تم وہاں گئی؟ سمجھتی کیا ہو خود کو؟"
وہ اس کے بال دبوچتا ہوا غرایا۔
وہ خاموش تھی شاید صفائی دینے کو کچھ میسر ہی نہیں تھا۔
صرف اشک تھے جو وہ بہا رہی تھی کہ شاید وہ ان اشکوں کی التجا سن لے۔
"اور تو اور زراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا... میں نے پوچھا تو کہتا کام سے جا رہے ہیں ہم.... "
عظمی نے لقمہ دیا۔
"آپ خاموش رہیں میں بات کر لوں گا... "
وہ قہر آلود نگاہوں سے جنت کو دیکھ رہا تھا۔
جنت کے بال ابھی تک اس کی فولادی گرفت میں تھے۔
"زمان پلیز... "
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔
"میں نے کیا کہا تھا؟"
وہ اس کے بال اپنی گرفت سے آزاد کرتا اس کی جانب ایک قدم بڑھا۔
جنت کے لب کپکپا رہے تھے۔
"کچھ پوچھ رہا ہوں میں... "
وہ اسے بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑتا ہوا بولا۔
زمان کے اس جارحانہ انداز پر وہ سہم ہی تو گئی۔
"آ... آپ نے کہا تھا نہیں جانا وہاں... "
وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بولی۔
"اور میرے منع کرنے کے باوجود تم وہاں دفع ہوئی.... "
ایک اور تھپڑ جنت کے بائیں گال کو لرزا گیا۔
وہ کانپ رہی تھی۔
آنکھوں میں تحیر, خوف, شکوے نجانے کیا کیا تھا۔
وہ تیز تیز سانس لے رہی تھی۔
خون ہونٹ سے بہتا ہوا تھوڑی تک آ رہا تھا۔
جتنی اس میں قوت تھی ایک عورت برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
"پھر یہاں کیا لینے آ گئی تم؟طلاق کے پیپرز تیار کرواتا ہوں میں... وہ دروازہ نظر آ رہا ہے نہ؟"
وہ ہاتھ سے دروازے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
"نہیں پلیز... زمان... "
وہ اس کے ہاتھ پکڑتی گڑگڑانے لگی۔
"نہیں؟ تمہیں دروازہ دکھائی نہیں دے رہا کوئی مسئلہ نہیں... اپنی نافرمان بیوی کو میں خود دروازے تک چھوڑ کر آؤں گا۔"
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔
"نہیں زمان ایسا مت کریں پلیز... میں دوبارہ کبھی آپ کی بات سے اختلاف نہیں کروں گی۔"
وہ اس کے ساتھ گھسیٹتی چلی جا رہی تھی۔
وہ ایسے چل رہا تھا جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا۔
"زمان پلیز... میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں... "
وہ اپنی ہاتھ چھڑواتی اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
وہ پورچ میں آ چکے تھے۔
زمان کی نظر گیٹ پر تھی۔
"اگر اتنی پرواہ ہوتی تو ایسا نہ کرتی تم... میرا بھروسہ اب اٹھ چکا ہے۔"
وہ سینے پر بازو باندھتا رکھائی سے بولا۔
"آپ کو کبھی کوئی شکایت نہیں ملے گی... پلیز ایک موقع دے دیں۔ مجھے طلاق مت دیں۔"
وہ اشک بہاتی خود کو روند رہی تھی۔
"میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا اب...."
وہ سرد نگاہیں اس پر گاڑھتا ہوا بولا۔
وہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
کتنی بے بس تھی وہ۔ آج اسے احساس ہو رہا تھا۔
ایک ایسے شخص کے ساتھ رہنے کی بھیک مانگ رہی تھی جس کے ساتھ رہنا ناممکنات میں شمار ہے۔
لیکن وہ یہ کڑوا گھونٹ ہی پی پینا چاہتی تھی اور اب تو عادت بن گئی تھی زہر اپنے اندر اتارنے کی۔
"بلکل بھی نہیں.. طلاق سب سے بہترین آپشن ہے۔ اب تمہاری ضرورت نہیں مجھے....تم جیسی بیوی سے بہتر ہے میں دوسری شادی کر لوں۔ لڑکیوں کی کمی نہیں زمان تیمور کو۔"
وہ خفگی سے بولا۔
جنت اس وقت کسی ہارے ہوۓ سپاہی کی مانند لگ رہی تھی۔
اس نے تھک کر زمان کے پاؤں چھوڑ دئیے۔
وہ ایسا ظالم بادشاہ تھا جسے بھیک دینا بھی گوارا نہیں۔
"ٹھیک ہے پھر... اگر یہی نصیب میں لکھا ہے تو میں اپنے نصیب سے لڑ نہیں سکتی۔"
وہ بے دردی سے رخسار رگڑتی ہوئی بڑبڑائی۔
~~~~~~~~
رات گئے زراد گھر میں داخل ہوا۔
"شکر ہے تمہیں بھی گھر کی یاد آئی.... "
عظمی اسے دیکھتے ہی کھڑی ہو گئی۔
"کیوں؟ مجھ سے کیا کام؟ فون کر دیتی آپ... "
وہ کہتا ہوا صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔
"مجھے یہ بتاؤ... اس جنت سے تمہارا کیا واسطہ؟ کیوں اس کے ساتھ رہتے ہو؟"
وہ تفتیشی انداز میں بولی۔
"بھابھی ہیں میری تو کیا میں بات بھی نہیں کر سکتا... اور پلیز مام اب ان ٹیپیکل لوگوں کی طرح شک و شبہات میں مت پڑ جانا... "
وہ بیزاری سے بولا۔
"پھر تم نے جھوٹ کیوں بولا؟ اسے میکے لے کر گئے تھے نہ.... "
وہ چبا چبا کر بولی۔
"جی... تو پھر اب؟"
وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
چہرے پر اکتاہٹ نمایاں تھی۔
"زمان کو حساب دینے کے لئے تیار ہو جاؤ... صبح پوچھے گا تم سے اور میری جانب ہرگز مت دیکھنا کوئی مدد نہیں کر سکتی میں تمہاری... "
وہ سرد مہری سے بولی۔
"آپ پہلے بھی کہاں کرتی ہیں مدد... "
وہ تنک کر کہتا وہاں سے چلا گیا۔
"پتہ نہیں کیوں اس کی مدد کرنے کا بھوت سوار ہے اس پر... "
وہ ہنکار بھرتی کچن کی جانب چلنے لگی۔
"زمان سے پوچھ لینا پہلے...اس کے بعد کھانا لے کر جانا۔اگر ڈائریکٹ کھانا لے گئی تو اس کے غیض کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔"
وہ ایلن کو ہدایات دیتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
"پتہ نہیں زمان نے جنت کے ساتھ کیا کیا ہوگا؟"
وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتا ٹہل رہا تھا۔
"کیسے معلوم کروں؟ ان کے ساتھ کیا ہوا؟"
وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔
"مجھے جانا ہی نہیں چائیے تھا... "
وہ خود کو کوسنے لگا۔
"لیکن میں کہاں کچھ کر سکتا ہوں؟ یہاں ہوتا بھی تو کیا کر لیتا؟"
وہ استہزائیہ ہنسا۔
کچھ سوچ کر وہ کمرے سے باہر نکلا اور زینے اترنے لگا۔
وہ چلتا ہوا باہر گارڈن میں آ گیا۔
سرونٹ کوارٹر عقب میں تھا۔
وہ دستک دے کر انتظار کرنے لگا۔
اس سے قبل کہ دروازہ کھلتا وہ واپس چل دیا۔
"کیا پوچھوں گا؟پتہ نہیں ان کے علم میں ہو گا بھی یا نہیں..."
وہ کوفت سے کہتا چلنے لگا۔
"کیسے معلوم کروں جنت کے ساتھ کیا ہوا ہے؟"
وہ آسمان کو دیکھتا ہوا بولا۔
بادلوں کے باعث چاند کی روشنی مدھم تھی۔
دیکھتے دیکھتے چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔ آسمان تاریک ہو گیا۔
ستارے تو پہلے ہی موجود نہ تھے۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے اس تاریک سما کو دیکھنے لگا۔
آج کی رات کچھ زیادہ ہی تاریک تھی بہت سے لوگوں کے لیے۔
"ﷲ کرے وہ ٹھیک ہوں... زمان کو کم از کم ان کے لئے تو دل کو نرم رکھنا چائیے۔"
وہ آنکھیں مسلتا ہوا بولا۔
آدھ گھنٹے بعد وہ تھک کر واپس کمرے میں آ گیا۔
"اب تو صبح ہی معلوم ہوگا... "
وہ بیڈ پر گرتا ہوا بولا۔
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
اسے اپنی فکر نہیں بلکہ جنت کی فکر ستا رہی تھی۔
اس فکر میں اسے رات بھر نیند نہیں آنے والی تھی۔
وہ تکیے پر سر رکھتا بے لگام سوچوں کو جھٹکنے لگا۔
~~~~~~~~
"ایک رشتہ ہے.. لیکن ایک مسئلہ ہے..."
وہ آہستہ سے بولی۔
"کیا مسئلہ ہے؟"
وہ انہماک سے اسے سن رہی تھی۔
"لڑکے کی ایک بیٹی ہے ڈھائی سال کی... مریم کو اپنی سگی اولاد کی مانند پالنا ہوگا اسے۔بدلے میں وہ مریم کے بچوں کو باپ کا سایہ دے گا۔"
نجمہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
"اچھا... میں جنت کے ابو سے بات کروں گی۔ دیکھتے ہیں وہ کیا کہتے۔"
وہ پرسوچ انداز میں بولیں۔
وہ چاےُ کا کپ رکھتی کھڑی ہو گئی۔
"اچھا میں چلتی ہوں پھر مجھے فون پر بتا دینا... "
وہ سلام لیتی وہاں سے نکل گئی۔
"جی سن لیا ہے میں نے... "
مریم چاےُ رکھ کر بیٹھتی ہوئی بولی۔
"تو پھر کیا خیال ہے تمہارا؟ تمہاری راےُ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ زندگی تم نے بسر کرنی ہے۔"
وہ متفکر سی بولیں۔
"آپ دیکھ لیں جیسے مناسب لگے... "
وہ جیسے خوش نہیں تھی۔
"ہم کیا دیکھ لیں؟ تم بتاؤ نہ... "
وہ خفا انداز میں بولیں۔
"اگر وہ میرے بچوں کو اپنے بچے سمجھیں گے تو میں بھی ان کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھو گی... بات بس اتنی سی ہے۔ زندگی گزارنی ہے وہ تو کسی کے ساتھ بھی گزر جاےُ گی۔"
لہجے میں تلخی گھل گئی۔
"ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو؟"
وہ متحیر رہ گئیں۔
"امی اب زندگی کو جینا نہیں ہے بس گزارنا ہے۔ جیتے تو پہلے تھے... ایسی ایسی آزمائشیں دی ہیں کہ ہر خواہش دم توڑ گئی ہے۔ حسن اور رانیہ کی ذمہ داری نہ ہوتی تو کبھی دوسری شادی نہ کرتی میں... "
وہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔
"ہر مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے... اور تمہاری زندگی میں بھی خوشیاں آئیں گیں مجھے یقین ہے۔"
وہ پُر نم آنکھوں سے مسکرانے لگیں۔
~~~~~~~~
"تم جنت کو لے کر گئے تھے؟"
زمان اس کے کمرے میں کھڑا تھا۔
"جی... "
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
"کیا مجھ سے پوچھا؟"
چہرے پر سنجیدگی طاری تھی۔
"جب میں سلون لے کر گیا تھا کیا آپ نے مجھے کہا تھا؟ جب میں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تب کہا تھا؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
زمان لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگا۔
"ٹھیک ہے... "
وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
"غصے میں تو نہیں تھے... "
وہ داڑھی کھجاتا ہوا بولا۔
"یہ جائیں گے تو جنت کا معلوم کر سکوں گا۔"
وہ کھڑکی سے پردے ہٹاتا ہوا بولا۔
وہ تب تک کھڑکی سے نہیں ہلا جب تک زمان کی گاڑی باہر جاتے نہیں دیکھی۔
"ٹھینک گاڈ... چلے گئے۔"
وہ کہتا ہوا کمرے سے نکل آیا اور زمان کے کمرے کی جانب چلنے لگا۔
دروازہ ناک کیا لیکن جب کوئی جواب موصول نہ ہوا تو اندر چلا گیا۔
کمرہ خالی تھا وہاں کوئی نہیں تھا۔
"کہیں سچ میں زمان نے طلاق تو نہیں دے دی؟"
وہ پرسوچ انداز میں کہتا باہر نکل آیا۔
اب اس کا رخ عظمی کے کمرے کی جانب تھا۔
"مام جنت کہاں ہے؟"
وہ بنا دستک دئیے اندر آ گیا۔
"زراد سارے مینرز بھول گئے ہو کیا؟"
وہ جو میگزین لئے بیٹھی تھی خفگی سے بولی۔
"میں نے پوچھا جنت کہاں ہے؟"
وہ ان کی بات نظر انداز کرتا ہوا بولا۔
"پتہ نہیں مجھے... اور تمہیں اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے اس لڑکی کی؟"
وہ تنک کر بولی۔
"آپ نہیں بتائیں گیں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"جا کر زمان سے پوچھ لو... مجھے کیا علم اس متعلق... "
وہ لاعلمی سے کہتی میگزین کے صفحے الٹنے لگی۔
"فائن... "
وہ کہتا ہوا باہر نکل آیا۔
"کیا ہوا ہوگا کل؟"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا لاؤنج میں آ گیا۔
"یار ایلن کافی لا دو... "
سر میں درد کی ایک لہر سی اٹھی تھی۔
یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
"فون کر کے دیکھتا ہوں... "
وہ کہتا ہوا نمبر ملانے لگا۔
"بند جا رہا ہے... حد ہے۔ مجھ سے ایسے چھپایا جا رہا ہے جیسے...."
ایلن کو دیکھتا ہوا وہ خاموش ہو گیا۔
"ایلن کو تو معلوم ہوگا... "
یہ خیال بجلی کی سی تیزی سے اس کے دماغ میں کوندا۔
"جنت کہاں ہے؟"
وہ مگ اٹھاتا نارمل انداز میں بولا۔
"آپ کو نہیں معلوم؟"
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیا؟"
وہ بظاہر پرسکون دکھائی دے رہا تھا۔
"زمان سر نے انہیں سٹور روم میں بند کر دیا ہے دو دن کے لئے... "
وہ رازداری سے بولی۔
"اوہ اچھا... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"نہ کوئی ان سے ملے گا نہ ہی کھانا دے گا۔"
وہ مدھم آواز میں سرگوشی کر رہی تھی۔
چہرے پر ہمدردی تھی۔
"ویری گڈ... اب تم ایسا کرو ناشتہ تیار کرو میرا۔"
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"بس سمجھیں ریڈی ہے پانچ منٹ میں آتی ہوں... "
وہ سر کو خم دیتی وہاں سے چلی گئی۔
"تو مجھ سے مام نے اس لئے چھپایا کہ میں جنت کی مدد نہ کروں... ویل ان کی مدد تو میں بھی ضرور کروں گا۔"
وہ ہٹ دھرمی سے گویا ہوا۔
جب تک اس کی کافی ختم ہوئی ایلن ناشتہ لے کر آ چکی تھی۔
"سو ایلن... تم نہیں جانتی کہ میں جنت کے پاس جا رہا ہوں یہ ناشتہ لے کر... رائٹ؟"
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"رائٹ... "
وہ بولتے ہوۓ ٹھٹھک گئی۔
"میں نہیں جانتی لیکن... "
"بلکل تم نہیں جانتی.... "
وہ اس کی بات کاٹتا سختی سے بولا۔
"جی... میں نہیں جانتی۔"
وہ اس کی بات سمجھ چکی تھی۔
"تھینک یو... "
وہ مسکرا کر کہتا ٹرے لے کر بائیں جانب بنی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
"زمان تیمور شاید یہی ظلم رہ گیا تھا... "
وہ کہتا ہوا سٹور روم کا دروازے کھولنے لگا۔
دروازہ کو لاک نہیں کیا گیا تھا کیونکہ اس گھر میں زمان کی حکم عدولی ممکن نہ تھی۔
کمرے میں تاریکی تھی۔ دروازہ کھلنے پر جنت کا سراپا دکھائی دیا۔
وہ زمین پر بیٹھی تھی, سر گھٹنوں پر رکھے۔
زراد کو اس پر ترس آ رہا تھا۔
زمان نے اسے آج صحیح معنوں میں قیدی بنا دیا تھا۔
وہ اس کی قید میں ہی تو مقید تھی جہاں سانس لینا بھی جرم قرار دیا جاتا تھا۔
قدموں کی آہٹ پر جنت نے سر اٹھایا تو زراد کے لئے نگاہ پھیرنا کٹھن ہو گیا۔
ہونٹ سے بہتا ہوا خون جم چکا تھا۔
آنکھیں سرخ تھی جو اس کی تکلیف کا آئینہ دار تھی۔
جنت نے چہرہ پھیر لیا۔
زراد کی ٹرے پر گرفت کمزور پڑی۔
اس نے جنت سے کچھ فاصلے پر ٹرے رکھی اور نیچے بیٹھ گیا۔
"آپ کیوں آ گئے یہاں؟"
وہ اسے بیٹھتے دیکھ کر گویا ہوئی۔
"یہ سب کیا ہے؟ آپ کیوں برداشت کر رہی ہیں یہ صعوبتیں؟"
وہ ششدر تھا۔
جنت کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
ہونٹ لرز رہے تھے۔
"آپ چلے جائیں یہاں سے... "
وہ اس کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔
"مجھ سمجھ نہیں آ رہا آخر آپ کیوں خود کو سزا دے رہی ہیں؟ زمان آپ کے قابل نہیں ۔ آپ پڑھی لکھی ہیں جاب کر سکتی ہیں پھر کیوں اس ظالم انسان کے ساتھ خود کو باندھ رہی ہیں؟"
وہ الجھتا جا رہا تھا۔
"زمان نہیں ظالم یہ معاشرہ ہے جو ہمیں جینے نہیں دیتا... "
وہ مدھم آواز میں بولی۔
"آپ کیوں معاشرے کی پرواہ کر رہی ہیں؟ زمان سے بہتر انسان آپ کو مل سکتا ہے... "
وہ کرب سے بولا۔
جنت نفی میں سر ہلانے لگی۔
"آپ نہیں سمجھ سکتے... میں نہیں جا سکتی زمان کو چھوڑ کے۔"
وہ سسکی۔
"کیوں مجبور ہیں آپ؟"
وہ زور دے کر بولا۔
آنکھوں میں تکلیف نمایاں تھی۔
"کیونکہ میں وعدے کی قید میں ہوں... زمان کو نہیں چھوڑ سکتی۔ موت آےُ گی تو ان سے الگ ہو پاؤں گی۔ اور میرے ساتھ ہی یہ ستم بھی مدفن ہو جائیں گے۔"
وہ اشک بہاتی ہوئی بولی۔
البتہ چہرہ جھکا ہوا تھا۔
"یہ قابل برداشت نہیں ہے... مجھے حیرت ہو رہی ہے آپ ابھی تک اس بات پر قائم ہیں۔"
وہ اسے قائل کرنا چاہ رہا تھا۔
"آپ پلیز چلے جائیں یہاں سے... میرا یہ آخری فیصلہ ہے۔"
وہ قطعیت سے بولی۔
"ٹھیک ہے چلا جاؤں گا لیکن یہ کھائیں پہلے آپ... "
وہ ٹرے اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔
آنسوؤں کے باعث منظر دھندلا رہا تھا۔
وہ تلخی سے مسکرانے لگی۔
ایک نظر زراد پر ڈالی جو پریشان سا بیٹھا تھا۔
"آپ کیوں فکر کر رہے ہیں میری؟"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"کیونکہ مجھ میں ابھی تھوڑی بہت انسانیت باقی ہے۔"
وہ چبا چبا کر بولا۔
وہ جواباً اثبات میں سر ہلانے لگی۔
"اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں یہاں سے جاؤں تو پہلے یہ کھائیں اور مجھے سب بتائیں۔"
وہ دیوار سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
"بلکل ضدی ہو... زمان کی طرح... لیکن میرا دل نہیں کر رہا کھانے کو۔"
وہ آسودگی سے بولی۔
کربناک لہجہ زراد کے ضمیر کو کچوکے لگا رہا تھا۔
"دو دن بھوکے رہنا ہے آپ کو کھا لیں... "
وہ سامنے دیوار کو گھورتا آہستہ سے بولا۔
وہ کانپتے ہاتھ بڑھاتی نوالہ توڑنے لگی۔
نوالہ حلق سے اتارنا مشکل ہو رہا تھا۔
جنت کے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے۔
مانو حلق میں کانٹے چبھ رہے ہوں...
جنت نے سسکتے ہوۓ ٹرے پیچھے کر دی۔
"مجھ سے نہیں کھایا جاےُ گا... "
وہ ہاتھ کی پشت سے منہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
"اڑتالیس گھنٹے گزارے نہیں گزرتے.... اس اندھیرے میں خوف نہیں آیا آپ کو؟"
وہ گردن گھما کر کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔
"اب تو سارے خوف ختم ہو گئے... پلیز لے جاؤ یہ۔"
اسے الجھن ہو رہی تھی۔
"ٹھیک ہے مت کھائیں لیکن بتائیں کل کیا ہوا تھا جب میں آپ کو چھوڑ کر گیا؟"
وہ ٹرے اس کے سامنے سے ہٹاتا ہوا بولا۔
"زمان گھر پر موجود تھے جب میں آئی... "
مدھم آواز میں طویل سرگوشیاں ہونے لگی۔
"مجھے تو لگا تھا شاید وہ طلاق دے دیں گے لیکن پھر... "
وہ چہرہ اوپر اٹھاتی آنسو پینے لگی۔
نظروں کے سامنے گزشتہ روز کا منظر گردش کرنے لگا۔
"ٹھیک ہے تمہیں طلاق نہیں دیتا میں... لیکن میری مخالفت کی سزا تمہیں ملے گی۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بات رد کرنے کی۔"
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا بولا۔
چہرے پر زمانے بھر کی سختی تھی۔
"آپ کی ہر سزا منظور ہے۔"
وہ اپنی ہمت بندھاتی ہوئی بولی۔
دل گھبرا رہا تھا اسے دیکھ کر۔
"گڈ... دو دن تم سٹور روم میں بند رہو گی۔ نہ تمہیں کھانا ملے گا نہ ہی کوئی تم سے ملے گا۔"
وہ اس کی بازو پکڑتا کھڑا ہوگیا۔
جنت پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی کھڑی ہو گئی۔
"کوئی اعتراض ہے تمہیں؟"
کیا ظالمانہ رویہ تھا اس کا۔
بھلا اعتراض کا حق اسے حاصل ہی کہاں تھا۔
"درد تو نہیں ہو رہا تمہیں؟ شاید زیادہ زور سے مار دیا۔"
وہ تشویش سے بولا۔
وہ اجنبی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
جو چوٹ دے کر استفسار کر رہا تھا کہ تکلیف تو نہیں ہوئی۔
واہ کیسا ستم تھا اس ظالم کا۔
"اگر میں کہوں ہاں... "
وہ نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز کیے ہوۓ تھی۔
"تو میں کہوں گا.... اٹس اوکے۔ غلطی بھی تمہاری تھی زمان تیمور کو انکار کرنے کی جرأت کسی میں نہیں اور تم نے وہی کیا جس سے میں نے منع کیا تھا... خیر چلو اندر۔"
وہ سرد مہری سے کہتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی اس کے عقب میں چلنے لگی۔
"ایلن انہیں سٹور روم میں چھوڑ آؤ... اور دھیان رہے کوئی سٹور روم کی طرف نہ جاےُ۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"یہ سزا کاٹنے جا رہی ہیں اس لئے غلطی سے بھی کھانا مت لے جانا وہاں..."
وہ کھردرے پن سے کہتا راہداری میں چلنے لگا۔
"میم؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
جنت کی نظروں نے دور تک زمان کا تعاقب کیا حتی کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
کیسا ظلم تھا یہ جس پر وہ کراہ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ شاید وہ انسان نہیں صرف ایک بیوی تھی جسے نہ تکلیف ہوتی ہے نہ اپنی توہین محسوس ہوتی ہے۔
وہ سر جھکاےُ ایلن کے ساتھ زینے چڑھنے لگی۔
جنت نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔
"آپ کیوں خود کو اس اذیت میں رکھ رہی ہیں؟ طلاق لے لیں زمان سے... وہ آپ کے قابل نہیں ہے۔"
وہ جنت کی آنکھ سے بہتے اشک دیکھتا تڑپ کر بولا۔
"ایک عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ امی نے وعدہ لیا ہے میں وہاں نہیں جا سکتی، اگر زمان کو چھوڑ دوں تو کہاں جاؤں گی؟ زمانے میں انسانی شکل میں بھیڑیے گھوم رہے ہیں... "
وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کرنے لگی۔
"لیکن یہ حماقت ہے۔"
وہ تاسف سے بولا۔
"نہیں.... یہ میری قسمت ہے اور قسمت سے کوئی انسان لڑ نہیں سکتا۔ مجھے اپنی امی کا سر نہیں جھکانا۔جو بھرم ہے اسے قائم رکھنا ہے...ان کے لئے مشکلات کا باعث نہیں بننا۔"
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
"چاہے ساری زندگی سسک سسک کر گزارنی پڑے؟"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
"دیکھتے ہیں کس میں زیادہ طاقت ہے؟ مجھ میں یا پھر درد میں... "
وہ ہنستی ہوئی بولی۔
"یہ پاگل پن ہے... "
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
"دیکھتے ہیں میں ہارتی ہوں یا یہ اذیتیں؟"
وہ زراد کو نہیں دیکھ رہی تھی۔
"آپ نہ بلکل.... "
وہ نفی میں سر ہلاتا باہر نکل گیا۔
اس کے نکلتے ہی دروازہ بھی بند ہو گیا۔
وہ پھر سے تنہائی اور اندھیروں کی نذر ہو گئی۔
وہ دوپٹہ سر پر لیتی يا رحيمُ کی تسبیح کرنے لگی۔
"امی کہتی تھی مشکل وقت میں ﷲ کے اس نام کی تسبیح کرنی چائیے۔"
وہ الماری سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔
ﷲ مشکل وقت میں سب سے زیادہ یاد آتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی نہیں رہتا تو پھر انسان اسی کے در پر جاتا ہے۔ حالانکہ وہ تو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے لیکن ہم سب سے آخر میں اسے تلاشتے ہیں۔
~~~~~~~~
"کیا کہہ رہے تھے تم فون پر؟"
زمان کرسی سنبھالتا ہوا بولا۔
"وہ سر... مرتضی کو آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔"
وہ رومال سے پسینہ صاف کرتا ہوا بولا۔
"اچھا پھر بھیج دو اسے... اور مجھے اس مہینے کی ساری ڈیٹیلز لا کر دو... "
وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین کھولتا ہوا بولا۔
"جی سر.. "
وہ سر کو خم دیتا کیبن سے باہر نکل گیا۔
چند لمحوں بعد مرتضی نے دروازہ ناک کیا۔
"یس کم آن... "
وہ آنکھیں چھوٹی کیے اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔
"گڈ مارننگ سر... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"کام کی بات کرو... "
بیزاری سے جواب آیا۔
"سر میری وائف کا آپریشن تھا تو اگر آپ سیلری ایڈوانس میں دے دیں تو.... "
وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"یہ میرا آفس ہے.... میں یہاں پیسہ بہانے کو نہیں بیٹھا۔ تم لوگوں کو ایڈوانس میں دیتا رہا تو ہو گیا میرا کام... "
وہ ہنکار بھرتا اسے دیکھنے لگا۔
"سر میں اتنے سالوں سے یہاں کام کر رہا ہوں... پہلی بار ایسی مجبوری در پیش آئی ہے۔"
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"مجھ پر احسان نہیں کر رہے اپنے کام کے پیسے لیتے ہو۔میں نے سب کی مجبوریوں کا ٹھیکا نہیں لے رکھا .... آج تمہیں دوں گا کل کو دوسرا آ جاےُ گا بس پھر اسی کام میں لگا رہوں گا میں۔ اپنے مسائل کو خود حل کروں۔"
وہ اسکرین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
چہرے پر سنجیدگی طاری تھی۔
"سر پلیز... میری وائف کا۔"
"اس فضول سے کام کے لیے تم نے میرے وقت کا ضیاع کیا ہے؟ اب جا سکتے ہو... "
وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا اپنا کام کرنے لگا۔
لمحہ بھر وہ ششدر سا اسے دیکھنے لگا پھر مایوسی سے باہر نکل گیا۔
"حیدر میرے کیبن میں آؤ... "
وہ ریسیور اٹھا کر کان سے لگاتا ہوا بولا۔
اگلے لمحے حیدر اس کا مینیجر وہاں موجود تھا۔
"تم ایسے فضول کاموں کے لئے میرا وقت برباد کرو گے؟ کس لئے رکھا ہے؟ تمہیں مفت کی تنخواہ لینے کے لیے؟"
وہ برہم ہوا۔
"سوری سر... وہ اس کی وائف... "
"بھاڑ میں گئی اس کی وائف... میرا مسئلہ نہیں ہے۔ آئیندہ سے میرے پاس مت لانا ایسے کیس خود ہی رفع دفع کر دیا کرو۔"
وہ آگ بگولہ ہو گیا۔
"جی سر.... آپ کو شکایت نہیں ملے گی۔"
وہ آہستہ سے بولا۔
"اگلی بار وارنگ نہیں...تم باہر ہو گے یہاں سے۔ مجھے کمی نہیں ورکز کی۔ ایک کے بدلے ہزار آ جائیں گے لوگ ترستے ہیں یہاں کام کرنے کے لیے۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"اوکے سر میں جاؤں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
"ہاں جاؤ... "
وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا ہوا بولا۔
"تمہیں میں نے کہا تھا نہ کوئی فائدہ نہیں... وہ ایک بے حس انسان ہے جسے کسی کی مجبوری سے کوئی فرق نہیں پڑتا... "
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
"مجھے لگا شاید.... "
مرتضی نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔
"اب جاؤ ورنہ یہ نہ ہو میری نوکری چلی جاےُ... "
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
وہ سر ہلاتا چلا گیا۔
~~~~~~~~
"آپ لوگ میری بات مان لیں ورنہ مریم کبھی خوش نہیں رہ سکے گی... "
وہ سرد نگاہیں سلمان صاحب پر گاڑھتا ہوا بولا۔
"مریم کا رشتہ تم سے کرنا تو ہمارے لئے ایک آزمائش ہی بن گیا ہے.... خوش تو کبھی تمہارے ساتھ بھی نہیں رہی۔"
وہ کوفت سے بولے۔
"سمجھ نہیں آتا کن الفاظ کا چناؤ کریں کہ تمہاری عقل میں یہ بات بیٹھ جاےُ.... "
وہ سخت خفا دکھائی دے رہے تھے۔
"تو میں بتا چکا ہوں وہ میرے گھر ہی آےُ گی.... "
وہ چبا چبا کر بولا۔
"یہ بات تمہیں پہلے معلوم نہ تھی؟ تب کہاں سوےُ ہوۓ تھے اب تمہیں بیوی بچے یاد آ گئے ہیں۔"
وہ ہنکار بھرتے شہناز کو دیکھنے لگے جو خاموش بیٹھی تھیں۔
"تو اب حلالہ کا بول تو رہا ہوں میں... کچھ وقت رہے اس کے ساتھ بعد میں طلاق لے کر مجھ سے نکاح کر لے۔"
وہ جراح پر اتر آیا۔
"یا ﷲ صبر دے مجھے... تمہارا یہ بھتیجا جان کو آ رہا ہے ہماری۔ اپنا سمجھ کر رشتہ دیا تھا کیا معلوم تھا زمانے بھر میں رسوا کرے گا یہ۔ تم سے تو غیر ہی اچھے ہیں۔"
وہ تاسف سے بولے۔
"یہ لڑکے کی ساری معلومات ہیں... تفتیش کروا لیں اپنی اور مریم کا نکاح کر کے رخصت کریں یہاں۔ باقی میں دیکھتا ہوں میرے ہوتے ہوۓ کیسے کسی اور سے نکاح کرتے ہیں آپ لوگ مریم کا۔"
وہ میز پر ایک صفحہ رکھ کر سب پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالتا باہر نکل گیا۔
"بس یہی باقی رہ گیا تھا... "
سلمان صاحب صوفے سے ٹیک لگاتے ہوۓ بولے۔
"آزمائش ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی..."
شہناز آسودگی سے بولیں۔
"تمہارا ہی انتخاب تھا یہ... "
وہ افسوس کا اظہار کرتے وہاں سے چلے گئے۔
"مجھے کیا علم تھا حماد ایسا کچھ کر جاےُ گا... "
وہ آہستہ سے بولیں۔
~~~~~~~~
"جنت کے پاس کوئی گیا؟"
زمان جو ابھی آفس سے آیا تھا ایلن کو دیکھتا استفسار کرنے لگا۔
"نو سر... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"گڈ... "
وہ کہتا ہوا زینے چڑھنے لگا۔
سٹور روم کا دروازہ کھول کر چند لمحے جنت کو دیکھتا رہا۔
زمان کا پرفیوم وہ پہچان چکی تھی لیکن چہرہ نہیں اٹھایا۔
"ڈر تو نہیں لگتا تمہیں اندھیرے سے؟"
وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا بولا۔
"نہیں... "
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
"ٹھیک ہے... لیکن میں تمہاری سزا میں توسیع کرنے کی بجاےُ کمی کر رہا ہوں۔"
وہ اس کا رخسار تھپتھپاتا ہوا بولا۔
"چلو آؤ میرے ساتھ... "
وہ اس کے سامنے ہتھیلی پھیلاتا ہوا بولا۔
وہ شش و پنج میں مبتلا ہو کر اس کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔
"کم آن... "
وہ خفگی سے بولا تو جنت اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی کھڑی ہو گئی۔
"مجھے امید ہے اب تم ایسا کچھ نہیں کرو گی... "
وہ زینے اترتا ہوا بولا۔
"آپ کی امید پر پوری اتروں گی... "
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ صرف ایک زندہ لاش ہے جسے سانسیں تھمنے تک اس دنیا میں رہنا تھا۔
اندر سے تو شاید وہ مر چکی تھی۔
اس کی موت کی خبر اس کا چہرہ بخوبی سنا رہا تھا۔
"آئیندہ تم میرے مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرو گی۔"
وہ دونوں کمرے میں آ چکے تھے۔
"نہیں کروں گی یقین کریں... "
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
"اب کیسے یقین کروں؟بھروسہ تو اب جیتنا پڑے گا تمہیں... میں نے تم پر اعتماد کیا اور تم نے مجھے یہ صلہ دیا؟"
وہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"کیسے آپ کا اعتماد دوبارہ سے حاصل کروں گی؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
"اب زمان تیمور تمہیں آزمائے گا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو یا نہیں؟ کیونکہ وہاں جا کر تم نے یہ ثابت کیا ہے کہ تمہیں مجھ سے زیادہ وہ لوگ عزیز ہے۔"
معمول کے خلاف وہ نرمی سے بول رہا تھا۔
"آپ کی ہر آزمائش میں کامیاب ہوں گی میں۔"
وہ پر عزم تھی۔
"اتنے وثوق سے کہہ رہی ہو کر پاؤ گی؟دیکھتے ہیں کتنی سکت ہے تم میں... سب سے پہلے تو یہ کہ تم دن میں صرف ایک بار کھانا کھاؤ گی۔ صبح میرے ساتھ بس... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"جی ٹھیک ہے... "
جنت کی آنکھیں پھیل گئیں لیکن پھر اپنی کیفیت پر قابو پا لیا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"ایک اور بات اپنے دماغ میں بٹھا لو... میں تم پر ساری راہیں مسدود کر دوں گا, ہر دروازہ تم پر بند کر دوں گا..تم صرف زمان تیمور تک محدود ہو جاؤ گی کیونکہ یہی تمہاری بغاوت کی سزا ہے۔"
وہ چبا چبا کر بولا۔
"آپ اس سے بھی بدتر کر سکتے ہیں.... "
وہ اسے دیکھتی سوچنے لگی۔
"تم چینج کر لو... دیکھو کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا۔ باقی باتیں بعد میں۔"
وہ ٹیشو اٹھا کر اس کا خون صاف کرنے کی سعی کرنے لگا۔
وہ متحیر سی اسے دیکھ رہی تھی جو خود زخم دے کر اب مرہم لگا رہا تھا۔
"زمان... "
وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
"بولو... اور یہ پانی سے صاف کرو۔"
وہ ٹیشو ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا۔
"مجھے کچھ چیزیں چائیے تھی... "
وہ مدھم آواز میں بولی۔
"جو بھی چائیے زراد کو بول دینا وہ لا دے گا۔ اگر خود جانا ہو تو پہلے مجھ سے پوچھ لینا۔"
وہ پیچھے ہوتا ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرنے لگا۔
"جی ٹھیک ہے...."
وہ کہتی ہوئی الماری کی جانب بڑھ گئی۔
"آپ کے کپڑے نکال دئیے ہیں... "
وہ کہتی ہوئی واش روم میں چلی گئی۔
وہ کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکتا فون اٹھانے لگا جو رنگ کر رہا تھا۔
"زمان اذان ہو رہی ہے... "
وہ باہر نکلی تو وہ فل والیم پر فلم دیکھ رہا تھا۔
"تو؟تمہیں کوئی مسئلہ ہے؟"
وہ بگڑ کر بولا۔
"میرا مطلب آواز بند کر دیں... وہ....."
وہ ہچکچاتی ہوئی بول رہی تھی۔
"اپنی نصیحت اپنے پاس رکھو مجھ پر مسلط کرنے کی ضرورت نہیں... اور اپنے کام سے کام رکھا کرو تم۔" اگر اتنی تکلیف ہے تو کانوں پر ہاتھ رکھ لو۔"
وہ رکھائی سے کہتا پل بھر میں اسے بے عزت کر گیا تھا۔
وہ خاموشی سے کپڑے سمیٹنے لگی۔
~~~~~~~~
وہ بے مقصد گارڈن میں ٹہل رہی تھی۔
شام کے ساےُ گہرے ہو رہے تھے۔
صبح سے کھانا کھایا ہوا تھا اور اسے اب بھوک محسوس ہو رہی تھی۔
"زمان اب آپ صحیح معنوں میں میری زندگی اجیرن کرنے والے ہیں۔"
وہ آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"کیا میں ایسے جی پاؤں گی؟ ان سانسوں کا بوجھ اٹھا پاؤں گی؟"
وہ دیوار سے کچھ فاصلے پر لگے درختوں کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"میڈم آپ سے کوئی لڑکا ملنے آیا ہے... "
چوکیدار اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔
"مجھ سے؟ کوئی لڑکا؟"
حیرت کا عنصر پریشانی میں تغیر ہو گیا۔
"کون ہے؟نام بتایا؟"
وہ تشویش سے بولی۔
"نہیں... اس نے کہا کہ آپ انہیں جانتی ہیں..."
وہ بات ختم کر کے اسے دیکھنے لگا۔
"کون ہو سکتا ہے؟ اگر کبیر بھائی ہوتے تو نام بتا دیتے یا پھر کال کر دیتے.... "
وہ گیٹ کی سمت دیکھتی ہوئی بڑبڑائی۔
"میڈم اب کیا کرنا ہے؟"
وہ سوالیہ نشان بنا کھڑا تھا۔
"اندر بھیج دو... "
وہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
وہ اثبات میں گردن ہلاتا چلا گیا۔
"پتہ نہیں کون ہے...."
وہ انگلیاں مڑورتی ہوئی بولی۔
چند لمحے بعد مہسم آتا دکھائی دیا۔
جنت کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
اسے ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ وہ مہسم ہوگا۔
"تم؟"
وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
"کیسی ہو؟"
وہ مسکراتا ہوا اس کے عین مقابل آ گیا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
وہ مدھم آواز میں برہم ہوئی۔
"تم سے ملنے آیا ہوں... "
وہ خفگی سے بولا۔
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے یقیناً...."
وہ چبا چبا کر بولی۔
"ہاں مجھے بھی ایسا ہی گمان ہو رہا ہے... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا محظوظ ہوا۔
"اپنی بکواس بند کرو مہسم اور چلے جاؤ یہاں سے... "
وہ دبی دبی آواز میں غرائی۔
"چلا جاؤں گا پہلے میری بات تو سن لو... "
وہ سینے پر بازو باندھتا ڈھٹائی سے بولا۔
"مہسم یہ میرا سسرال ہے تمہیں ذرا خیال نہیں... جانتے ہو میرا تماشہ بن سکتا ہے... "
وہ اندرونی دروازے کی سمت دیکھتی ہوئی بولی۔
"تم زمان سے طلاق لے لو... میں جانتا ہوں تم خوش نہیں ہو۔"
وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟"
وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہی ہاتھ مہسم کے منہ پر مارتی ہوئی بولی۔
"تمہاری ناراضگی بجا ہے... لیکن یقین مانو میں دن رات تمہارے بارے میں ہی سوچتا ہوں... "
وہ تھپڑ کا اثر لئے بنا بیچارگی سے بولا۔
"اور میں نے سوچنا ترک کر دیا ہے...میں اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش ہوں آئیندہ یہاں آنے کی غلطی مت کرنا ورنہ میں زمان کو بتا دوں گی دیکھنا کیا حشر کریں گے وہ تمہارا... "
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
چہرے پر سختی در آئی۔
"تم بس ایک بار ہاں بول دو... امی بھی تیار ہیں معافی مانگنے کے لئے بس ایک موقع دے دو... "
وہ بضد ہوا۔
"تم جاؤ گے یا میں چوکیدار کو بلاؤ؟"
وہ سینے پر بازو باندھتی ہوئی بولی۔
اس فعل کو سر انجام دینے میں جنت کو خوف محسوس ہو رہا تھا کیونکہ ہنگامہ ہونے سے اسی کی عزت پر آنچ آنی تھی۔
"تمہاری بات رد نہیں کر سکتا... ابھی جا رہا ہوں لیکن واپس آؤں گا دوبارہ۔"
وہ کہتا ہوا الٹے قدم اٹھانے لگا۔
"یہ سب تمہیں تب سوچنا چائیے تھا جب تمہاری ماں ہمیں بے عزت کر کے رشتہ توڑ کر گئی تھی۔ اور تم اتنے بے غیرت ہو گئے ہو منگنی کروانے کے بعد میرے پیچھے یہاں تک آ گئے شرم آنی چائیے تمہیں۔ دوبارہ اپنی شکل مت دکھانا مجھے... "
آواز غصے میں بلند ہوتی جا رہی تھی۔
وہ بنا کچھ کہے گیٹ سے باہر نکل گیا۔
وہ وہیں گھاس پر بیٹھ گئی۔
"کیا باقی آزمائشیں کم تھیں جو ایک نئی مصیبت آن پڑی؟"
وہ کنپٹی کو دباتی ہوئی بولی۔
"مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گی... "
وہ دکھتے سر کو تھامتی ہوئی بولی۔
"آپ ٹھیک ہیں؟ ایسے کیوں بیٹھی ہیں یہاں؟"
وہ اس کے پاس آتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہوں میں... مجھے مارکیٹ لے جاؤ گے؟"
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"لے جاؤں گا... پہلے یہ بتائیں کس سے بات کر رہی تھیں آپ؟"
زراد کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
وہ سانس خارج کرتی اسے دیکھتی رہی پھر لب وا کیے۔
"چابی لے آؤ راستے میں بتاؤں گی... "
وہ دوپٹہ سر پر اوڑھتی ہوئی بولی۔
"چلیں جیسے آپ کو ٹھیک لگے... "
وہ کہتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
"آ کر دوائی لوں گی یہ درد تو بڑھتا جا رہا ہے... "
وہ سر دباتی ہوئی بولی۔
گاڑی میں ہنوز خاموشی برقرار تھی۔
زراد منتظر تھا اور جنت عجیب کشمکش میں مبتلا تھی۔
"بتائیں اب... "
وہ متجسس تھا۔
"مہسم آیا تھا میرا سابقہ منگیتر... "
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"وہ کیوں آیا؟"
اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"معافی مانگ رہا تھا... کہتا زمان سے طلاق لے کر اس سے شادی کر لوں گی۔"
وہ استہزائیہ ہنسی۔
"تو آپ شادی کر لیں گی اس سے؟"
وہ سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا۔
"ہر گز نہیں... میں بیوقوف نہیں ہوں۔ جو اندھے کنویں میں چھلانگ لگا دوں گی۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"آ گئی لائیبریری... ویسے آپ کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے؟"
وہ گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرتا ہوا بولا۔
"ناولز پڑھنے کا... کیونکہ وہاں ابتدا اچھی نہیں ہوتی لیکن اختتام ہمیشہ اچھا ہوتا ہے وہاں سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ خوشیاں اور مسرتیں مل جاتی ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ چیزیں معمول پر نہیں آتی اور ہم ضبط کرتے کرتے اس دنیا فانی سے کوچ کر جاتے ہیں بس اتنی سی کہانی ہے..."
وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔
"اتنی مایوس ہیں آپ؟"
وہ آسودگی سے بولا۔
جنت کے منہ سے یہ سب سننا اسے اچھا نہیں لگا۔
"نہیں... مضبوط بننے کی جستجو میں ہوں دعا کرنا کامیاب ہو جاؤں میں... کسی کا سر بلند کرنے کے لیے کسی کو تو سر جھکانا پڑتا ہے۔"
وہ کہتی ہوئی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
"کیا ایسی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں جو چاہ کر بھی اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتیں؟ جو خود کو سزا میں مقید رکھنے پر مجبور ہیں؟"
وہ تاسف سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔
"ﷲ کرے آپ کی ساری مشکلیں دور ہو جائیں آپ سب کے سامنے سرخرو ہو جائیں اور زمان آپ کو محبت اور عزت سے رکھے۔ بس ایسے ہی معجزے کی دعا کرتا ہوں میں... "
وہ کہتا ہوا باہر نکل آیا۔
وہ ناولز اٹھاتی ایسے خوش ہو رہی تھی جیسے اسی میں زندگی ہے۔
"آپ کے چہرے پر والہانہ مسکراہٹ؟"
وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"یہ بہت اچھے ساتھی ہیں... انسان اپنی زندگی کے دکھ بھول جاتا ہے جب تک اس زندگی میں مگن رہتا ہے کچھ پل کے لئے ہی سہی زندگی کی تلخیاں بھول جاتا ہے۔ یہ خیالی اور خوابی دنیا ہی حسین ہے حقیقی زندگی نہیں۔"
اس کے ہاتھ میں جنت کے پتے ناول تھا۔
"دکھائیں ذرا... "
وہ اشتیاق سے بولا۔
"اسے پکڑیں میں دوسرے دیکھ لوں... "
وہ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
"پتہ نہیں کیسے اتنی بڑی بڑی کہانیاں پڑھ لیتی یہ لڑکیاں..."
اس نے مدھم آواز میں سرگوشی کی۔
دو گھنٹے بعد وہ دونوں لائیبریری سے نکلے۔
"کچھ کھائیں گیں؟"
وہ گاڑی سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔
"نہیں گھر چلتے ہیں... "
وہ فون پر ٹائم دیکھتی ہوئی بولی۔
"ابھی تو آٹھ بجے ہیں زمان گیارہ بجے سے پہلے نہیں آنے والا... اور ویسے بھی آپ چھپ کر تو میرے ساتھ نہیں آئیں۔"
وہ خفگی سے کہتا سپیڈ بڑھانے لگا۔
"مجھے بھوک نہیں ہے... "
اس نے سہولت سے انکار کر دیا۔
وہ اس سزا کو پوری ایمانداری سے کاٹنا چاہتی تھی۔
"ٹھیک ہے پھر آئسکریم کھا لیتے ہیں... نہیں موٹی ہوتیں آپ۔"
وہ شرارت سے کہتا گاڑی سائیڈ پر روکنے لگا۔
وہ مبہم سا مسکرائی۔
"یہ بات نہیں ہے... مجھے جا کر روم سیٹ کرنا ہے زمان کی چیزیں... "
"صرف دس منٹ لگیں گے اور آپ کے جلاد شوہر سے میں معذرت کر لوں گا۔"
وہ کہتا ہوا گاڑی سے باہر نکل گیا۔
"نہیں نہ... ہمیں گھر چلنا چائیے... "
وہ متفکر سی بولی۔
"میں ذمہ داری لیتا ہوں کچھ نہیں ہوگا۔"
وہ سینے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
"آپ کا دل بھی بہل جاےُ گا گھر میں قید رہتی ہیں ہر وقت..."
وہ اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔
وہ شش و پنج میں مبتلا کبھی زراد کو دیکھتی تو کبھی آئسکریم پارلر کو۔
"میں زمان سے فون پر اجازت لے لیتی ہوں... "
زمان کا خوف اس پر حاوی ہو چکا تھا۔
اب اس کے پاس کسی غلطی کی گنجائش باقی نہ تھی۔
"وہ فون نہیں اٹھائیں گے... کوشش کر لیں۔"
وہ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔
ایک بار, دو بار, تین بار جنت نے فون کیا۔ بیل جا رہی تھی لیکن وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔
اسے مایوسی ہوئی۔
"کہا تھا نہ میں نے... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"صرف دس منٹ... "
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتی باہر نکل گئی۔
"اوکے ٹین منٹس... "
وہ بازو پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔
"کون سا فلیور پسند ہے آپ کو؟"
وہ مینیو کارڈ اٹھاتا ہوا بولا۔
"پسند؟"
وہ تلخی سے مسکرائی۔
"جو پسند ہے آڈر کر لو... میری پسند کی کیا اہمیت بھلا۔"
وہ سرد مہری سے گویا ہوئی۔
"کیوں اہمیت نہیں؟ آپ بتائیں جو آپ کو پسند ہے وہی آڈر کروں گا۔"
وہ خفا انداز میں بولا۔
"مجھے کیا پسند ہے اب تو فراموش ہونے لگا ہے... کوئی سا بھی کر لو آڈر۔"
وہ بتانے کی خواہاں نہ تھی۔
"فائدہ آپ کو یہاں لانے کا.... آپ تو بتا ہی نہیں رہیں۔"
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
"پستہ فلیور کر دو۔"
وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی۔
"ٹھیک ہے... "
وہ کھل کر مسکرایا۔
"کھانے میں کیا پسند ہے آپ کو؟"
وہ ٹیبل پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
"مجھے؟"
وہ پرسوچ انداز میں بولی۔
جواباً وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔
"بریانی, کوفتے, کھیر... "
وہ پرانے وقت یاد کرتی مسکرانے لگی۔
"اور؟"
اسے مسکراتا دیکھ کر زراد ہلکا پھلکا سا ہو گیا۔
"اور جب بھی کھیر بنتی تھی ہماری لڑائی ہوتی تھی... میں ہمیشہ امی سے کہتی میرے لئے الگ برتن میں نکال دیں زیادہ ساری... "
وہ اپنی نادانیوں پر خود مسکرا رہی تھی۔
"پھر؟"
وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
"پھر کیا عائشہ آپی ناراض ہو جاتی تھیں ہمیشہ... کیونکہ امی مجھے چپکے سے علیحدہ سے دیتی تھیں۔ وہ جانتی تھی جنت کھیر کی دیوانی ہے۔"
وہ ماضی کی حسین یادوں تلے تھی۔
گلابی لب دھیرے سے کھلتے اور مسکرانے لگتے۔
"یہ لیں آ گئی آپ کی آئسکریم... "
وہ ویٹر کے ہاتھ سے لیتا ہوا بولا۔
"آپ نے بھی یہی منگوائی ہے؟"
وہ آگے کو ہوتی اس کا کپ دیکھتی ہوئی بولی۔
"میں نے سوچا آج آپ کے ساتھ یہ چیک کرتے ہیں... "
وہ مسکراتا ہوا چمچ منہ میں ڈالنے لگا۔
وہ خاموشی سے اپنی آئسکریم سے انصاف کرنے لگی۔
"بہت دنوں بعد کھائی... بلکہ یاد بھی نہیں آخری بار کب کھائی تھی۔"
وہ دونوں باہر نکل رہے تھے۔
وہ چابی جیب سے نکالنے لگا۔
"تھینک یو... "
وہ تشکرانہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔
"کس لیے؟"
وہ انجان بنا۔
"اس سب کے لئے... اب میں تفصیل میں نہیں جانے والی۔ اچھے سے جانتی ہوں جان بوجھ کر انجان بن رہے ہو۔"
وہ گھورتی ہوئی بولی۔
زراد قہقہ لگاتا دروازہ کھولنے لگا۔
"چلیں نہ بتائیں آپ کی مرضی... "
وہ شانے اچکاتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
~~~~~~~~
"اتنی جلدی کیوں ہے شادی کی؟"
سلمان صاحب چشمہ اتارتے ہوۓ بولے۔
"ماؤں سے بچیوں کا دکھ دیکھا نہیں جاتا... اس لئے چاہتی ہوں وہ اپنے گھر میں خوش اور آباد رہیں۔"
وہ آہستہ سے بولیں۔
"لیکن جانتی ہو نہ ابھی ممکن نہیں شادی کرنا... جنت کی شادی پر قرض لیا تھا وہ بھی پورا واپس نہیں کیا ابھی تک... مریم کی شادی کیسے کریں گے؟"
وہ ششدر سے بولے۔
"ﷲ سب کروا دیتا ہے... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔
"بے شک... لیکن ذریعہ بھی تو ہونا چائیے۔ میری مانو تو ابھی کچھ انتظار کرو پھر اس کے بعد کبیر کی شادی بھی کرنا ہے۔سوچ سمجھ کر چلنا پڑتا ہے۔"
وہ پریشانی میں مبتلا تھے۔
"اس مہینے جو کبیر کی تنخواہ آےُ گی آپ وہ ساری دے کر قرض اتار دیں... "
وہ پرسوچ انداز میں بولیں۔
"اور گھر کا خرچ؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
"ﷲ مالک ہے... آپ کے پیسوں میں جیسے تیسے گزارا کر لیں گے۔"
وہ پر امید تھیں۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے... لیکن بچوں کے خرچے کہاں رکتے ہیں؟ روزانہ کے لئے دودھ، پیمپر وغیرہ...یہ بھی تو دیکھنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو مریم خود کو ہم پر بوجھ سمجھنے لگے۔"
وہ زور دیتے ہوۓ بولے۔
"پھر ابھی نجمہ کو منع کر دوں؟"
وہ متفکر سی بولیں۔
"ابھی ٹال دو اسے... ویسے بھی ایک دو دن میں واپس چلا جاؤں گا میں۔ ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر لینا چائیے۔ جلد بازی میں کام بنتے نہیں بگڑتے ہیں.. ﷲ کی جب رضا شامل ہوئی معلوم ہی نہیں ہوگا دیکھنا کیسے سب آسان ہو جاتا۔"
وہ تحمل سے سمجھانے لگے۔
"صحیح کہہ رہے ہیں... بیشک وہ آسانیاں پیدا کرنے والا ہے۔ مشکل کشا تو وہی ہے اور اس مشکل سے بھی نکال دے گا۔"
وہ ان کی بات سے اتفاق کرتی ہوئی بولیں۔
"مریم کو بولو چارپائیاں بچھا لے... تھکاوٹ کے باعث نیند بہت آ رہی ہے۔"
وہ گردن دائیں بائیں گھماتے ہوۓ بولے۔
"میں کہتی ہوں اسے... "
وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئیں۔
~~~~~~~~
"زمان کے کپڑے بھی نکال دئیے... کھانا بھی دیکھ لیا... "
وہ بولتی ہوئی یاد کر رہی تھی کوئی ایسا کام جو وہ بھول گئی ہو۔
اسی لمحے زمان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
وہ آگے بڑھ گئی۔
زمان کوٹ اتار کر اس کی جانب بڑھاتا کمرے پر نگاہ دوڑانے لگا۔
"آپ فریش ہو جائیں پھر کھانا لے آؤں گی میں۔"
وہ کوٹ سائیڈ پر رکھتی ہوئی بولی۔
جنت کے فون پر پھر سے میسجز آنے لگے۔
زمان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"اپنا فون لاؤ... "
وہ صوفے پر ہی بیٹھ گیا۔
وہ فون لے کر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
"کون ہے اب یہ؟"
وہ سپاٹ انداز میں بولا۔
"میں نہیں جانتی... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"تم کیوں نہیں جانتی؟ تمہارا نام لے رہا ہے.. نجانے کیا کیا فضولیات بول رہا ہے۔"
پیشانی پر شکنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔
"میں کیسے جان سکتی ہوں؟ آپ فون کر لیں پوچھ لیں خود... "
وہ الجھ کر بولی۔
"تمہارا ملازم ہو نہ یہ کام کروں اب..."
وہ رکھائی سے کہتا اسے گھورنے لگا۔
"میرا مطلب تھا... "
"اپنے پاس رکھو اپنے مطلب... "
وہ درشتی سے اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
"اگر تم اس میں ملوث ہوئی تو یاد رکھنا حشر کر دوں گا تمہارا... کیا معلوم میری پیٹھ پیچھے کیا کرتی ہو تم۔"
وہ خونخوار نظروں سے دیکھتا فون اس کی جھولی میں گراتا ہوا بولا۔
"جی ٹھیک ہے۔ لیکن آپ کو تو مجھ پر یقین تھا... "
وہ تڑپ کر بولی۔
"تھا اب نہیں ہے۔"
وہ چبا چبا کر بولا۔
"میں نے آپ کو دھوکہ تو نہیں دیا... ہاں آپ کی نافرمانی ضرور کی ہے۔"
آواز دھیرے دھیرے مدھم پڑنے لگی۔
"اب اعتبار نہیں رہا تم پر... "
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
وہ ہونٹوں کو باہم ملاےُ آنسو پینے لگی۔
"یہ کیا اول فول پڑھ رہی ہو تم؟"
زمان کمرے میں آیا تو جنت بیڈ پر بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی۔
"ناول ہے... "
وہ گھبرا گئی۔
"ایسی فضولیات پڑھنے کی ضرورت نہیں.."
وہ بک اس کے ہاتھ سے لیتا زمین پر پھینکتا ہوا بولا۔
"زمان مجھے پسند ہے یہ پڑھنا... "
وہ ایک ہی جست میں بیڈ سے اتر کر اسے اٹھانے لگی۔
"مجھے نہیں پسند... اور دوبارہ تمہارے ہاتھ میں نظر نہ آےُ مجھے یہ۔"
چہرے پر ناگواری در آئی۔
وہ یاس سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
"اور بھی لائی ہو؟"
یکدم وہ نرم پڑا۔
"جی... "
وہ سر جھکا کر بولی۔
"کہاں ہیں وہ؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"کب بورڈ میں رکھے ہیں... "
وہ نم آنکھوں سے بک کو دیکھ رہی تھی۔
"لے کر آؤ ذرا... "
وہ دونوں آبرو سے جانے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔
وہ اس کے حکم کی تعمیل میں سارے ناولز اٹھا لائی۔
"ہممم... بہت شوق ہے تمہیں یہ سب پڑھنے کا؟"
وہ سب کے سب فرش پر بکھیر چکا تھا۔
"جی...لیکن اب نہیں پڑھوں گی۔"
اس نے لمحے میں دلدوز فیصلہ لیا تھا۔
"نوبت نہیں آےُ گی تمہیں کہنے کی اب... "
وہ لائٹر اٹھا کر ایک ایک کتاب کو آگ لگانے لگا۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس کی کاروائی دیکھ رہی تھی۔
"میں نہیں پڑھوں گی دوبارہ لیکن ایسے... "
"میں نہیں چاہتا کہ تمہیں غلطی کرنے کا موقع بھی ملے۔ یہ تمہارے حق میں ہی بہتر ہے۔"
وہ اسے شانوں سے پکڑتا ہوا بولا۔
وہ رونے لگی تھی۔
"اتنا روتی کیوں ہو تم؟ مجھے تو لگا تھا ہمت والی ہو... "
وہ آہستگی سے بولا۔
"ایسے ہی... "
وہ سوں سوں کرتی ہوئی بولی۔
جب عزیز چیزیں خاکستر کر دی جائیں تو دل تو دکھتا ہی ہے۔ اور ایسے اجنبی شوہر کے ساتھ تو معمولی سے معمولی بات پر بھی آنکھیں بھر آتی ہیں۔
"اچھی نہیں لگتی ایسے تم... رویا مت کرو میرے سامنے۔"
وہ خفا انداز میں کہتا اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔
"آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نہ؟"
وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تم میری بات مانو گی تو کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔"
وہ نرمی سے بول رہا تھا۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
"آؤ واک کرنے چلتے ہیں... تب تک ایلن یہ صاف کر دے گی۔"
کمرے میں دھواں زور پکڑ رہا تھا۔
وہ سر جھکاےُ اس کے ساتھ چل دی۔
کمرے سے باہر نکلتے ہوئے جنت نے مڑ کر ایک نظر ان جلتی کتابوں پر ڈالی۔
اور سسک کر آگے چل دی۔
~~~~~~~~
"تم پھر آ گئی؟"
زمان ناشتے کے لئے نیچے آیا تھا۔
"تو کیا میں اب یہاں آ ہی نہیں سکتی؟"
اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"آ سکتی ہو... لیکن لڑائی کر کے نہیں۔"
وہ سرد نگاہ اس پر ڈالتا ہوا بولا۔
"لڑائی کر کے نہیں آئی... آپ کے علم میں اضافہ کرتی چلوں سندس بھی آئی ہے۔"
وہ چبا چبا کر بولی۔
"جاؤ ابراہیم کو لے کر آؤ... "
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
"میں؟"
وہ انگلی سے اپنی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
"تمہیں عادت ہے کہ میں سخت سست سناؤں؟"
اب کہ وہ گرجا۔
"نہیں جا رہی ہوں میں... "
ریحام کہتی ہوئی وہاں سے نکل گئی۔
پانج منٹ بعد ابراہیم ریحام کا ہاتھ پکڑے نمودار ہوا۔
"مائی چیمپئن!!...."
وہ اسے گود میں بٹھاتا ہوا بولا۔
"ماموں آپ کہاں تھے؟"
وہ خفا انداز میں بولا۔
"ماموں تو یہیں تھے آپ نے اتنے دن لگا دئیے دادو کے گھر...."
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
جنت اس کا ناشتہ لئے وہاں آ گئی۔
زمان کو ابراہیم کے ساتھ یوں محبت سے باتیں کرتے دیکھ کر اسکی آنکھیں پھیل گئیں۔
"یہ انسان نرمی سے بات کر سکتا ہے کیا؟"
وہ اسے دیکھتی ہوئی بڑبڑائی۔
"مما نہیں آ رہی تھیں... مجھے وہ بڑی والی گاڑی لا کے دیں گے نہ؟"
وہ اس کی داڑھی اور چہرے کے انگلیاں چلا رہا تھا۔
"یس... جو آپ کہو گے وہی والی... اپنے ماموں جیسا بننا ہے آپ نے۔"
وہ اس کے رخسار پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔
"نہیں جی ہمیں ایک اور زمان نہیں چاہئے..."
سندس وہاں آتی اس کی بات سن چکی تھی۔
"کیسی ہو؟"
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔
"تمہارے سامنے ہوں... جنت کیسی ہو تم؟"
وہ اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
"میں ٹھیک ہوں اور آپ؟"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"یہ تمہارا چہرہ اتنا اترا ہوا کیوں ہے؟"
وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"نہیں تو... ایسے ہی لگ رہا ہوگا آپ کو۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"میں نے پارلر جانا ہے تم میرے ساتھ چلنا.."
وہ اس کا رخسار تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
"زمان سے پوچھ لیں آپ... "
وہ چہرہ جھکا کر بولی۔
"جنت کو پارلر لے کر جانا ہے... "
وہ سنگل صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
"کیوں؟ کیا ضرورت اچھی بھلی تو ہے۔"
زمان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"دیکھو تو اس کا حال کیا بنا رکھا ہے؟ کوئی کہے گا نئی شادی ہوئی ہے۔"
وہ خفا انداز میں بولی۔
وہ رخ موڑ کر بغور جنت کو دیکھنے لگا۔
وہ یوں جائزہ لینے پر جھنپ گئی۔
اور جلدی جلدی ٹیبل پر چیزیں رکھنے لگی۔
"میں لے جاؤں گی شام میں بتا رہی ہوں.... غصہ مت کرنا اس بیچاری پر۔"
وہ ابراہیم کے بال درست کرتی ہوئی بولی۔
"اچھا لے جانا.... لیکن صرف پارلر یہ نہ ہو وہاں سے کھانے پینے چلے جاؤ۔"
وہ ابراہیم کو صوفے پر بٹھاتا کھڑا ہو گیا۔
"زمان ناشتہ؟"
جنت اس کے جانے کا ارادہ بھانپ کر بولی۔
"ضرورت نہیں تم کر لینا ناشتہ... "
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا بولا۔
"جی ٹھیک ہے... "
وہ اثبات میں گردن ہلاتی ہوئی بولی۔
"تمہیں کیا پڑی ہے اس کو ساتھ لے جانے کی؟"
زمان کے نکلتے ہی ریحام بول پڑی۔
"وہ بھابھی ہے تمہاری اور میری بھی... سو پلیز یہ سب میرے سامنے مت کرو تمہیں کوئی پرابلم ہے تو تمہاری مرضی لیکن مجھے منع کرنے کا اختیار نہیں ہے تمہارے پاس... "
سندس بگڑ کر بولی۔
"میری وجہ سے پلیز آپ دونوں.... "
"بہت خوش ہو رہی ہوگی نہ تم؟ اول روز سے یہی تو کر رہی ہو سب کو میرے خلاف کرنا... بہت سکون ملتا ہے نہ تمہیں یہ سب کر کے؟"
وہ جنت کی بات مکمل ہونے سے قبل کاٹ دار لہجے میں بولی۔
"نہ میں ایسا کچھ کرتی ہوں اور نہ ہی مجھے کوئی تسکین ملتی ہے۔ آپ ہمیشہ اپنے کہے الفاظ کے باعث پچھتاتی ہیں..."
وہ چبا چبا کر کہتی وہاں سے چلی گئی۔
"ہمت دیکھیں اس کی؟ کیسے زبان چلتی ہے۔ہے کیا یہ دو کوڑی... "
"اچھا بس... تم بھی حد کرتی ہو جب مام خاموش ہیں تو کیوں ایسا کرتی ہو؟ اور زمان کو بھی اچھے سے جانتی ہو... ایسا کرنے پر تم خود شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالتی ہو..."
وہ تاسف سے بول رہی تھی۔
"مما ماموں کب آئیں گے؟"
ابراہیم اداسی سے کہتا اس کے پاس آ گیا۔
"میرا بے بی.... ہم ماموں کو فون کریں گے پھر وہ چاکلیٹ اور آئسکریم لے کر آئیں گے... "
وہ اسے گود میں اٹھاتی قدم اٹھانے لگی۔
"میری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے... "
وہ کلس کر بولی۔
~~~~~~~~
"انڈہ بریڈ کھا کر انسان کیسے سارہ دن گزار سکتا ہے؟"
وہ پیٹ پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
وہ ابھی پارلر سے آئی تھی اور زمان کے حکم کے مطابق وہیں سے واپس گھر آ گئی جبکہ سندس ابراہیم کو لے کر ریسٹورنٹ چلی گئی۔
"زمان کیسا ستم ہے یہ؟ اتنا سنگدل بھی کوئی ہوتا ہے؟"
وہ بچوں کی مانند اس کی تصویر سے مخاطب تھیں۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز تھیں۔
"سزا بھی دے دی اب کیا باقی رہ گیا تھا؟"
وہ آنکھیں مسلتی لیٹ گئی۔
تھکاوٹ کے باعث آنکھیں اور سر بھاری ہو رہا تھا۔
"زمان کے آنے میں ابھی بہت ٹائم ہے تب تک سو جاتی ہوں..."
وہ گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی بولی۔
رات کے نو بجے جنت کی آنکھ کھلی۔
وہ جمائی روکتی گھڑی دیکھنے لگی۔
"میں اتنی دیر سو گئی؟"
وہ ششدر رہ گئی۔
"شکر ہے زمان کے آنے سے پہلے جاگ...."
یکدم اسے مہندی کی خوشبو محسوس ہوئی۔
نظر غیر ارادی طور پر اپنے دائیں ہاتھ پر جا رکی جہاں مہندی لگی ہوئی تھی۔
جنت کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"یا ﷲ یہ سب کیسے ہوا؟"
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنا دائیاں ہاتھ دیکھنے لگے۔
"زمان کو معلوم ہو گیا وہ تو مجھے جان سے مار دیں گے... "
وہ کمبل پرے کرتی فوراً بیڈ سے اتری۔
پاؤں سلیپر میں ڈالے اور واش روم کا رخ کیا۔
ٹونٹی چلاےُ وہ بائیں ہاتھ سے مہندی کو رگڑ رہی تھی لیکن جو رنگ چڑھ چکا تھا وہ کہاں اترنے والا تھا۔
" ﷲ جی! اب میں کیا کروں؟ زمان تو مجھے نہیں بخشنے والے.... "
وہ اپنے ہاتھ کی پشت کو دیکھتی متفکر سی بولی۔
"یہ تو چھپاےُ نہیں چھپ سکتی.... "
وہ دائیں ہاتھ کی پشت پر لگی مہندی کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
"کس نے لگائی میرے ہاتھ پر مہندی؟"
وہ پر سوچ انداز میں بولی۔
"میں اتنی بے ہوش کیسے سو گئی کہ مجھے احساس تک نہ ہوا؟"
وہ خود سے استفسار کر رہی تھی۔
"اب آپ کے آنے سے پہلے کیسے اسے مٹاؤں؟ میرے پاس تو کوئی اسکن پالش کا سامان بھی نہیں ہے ورنہ شاید اس سے افاقہ ہو جاتا... "
جنت کی حالت ایسی تھی مانو کسی نے سولی پر لٹکا رکھا ہے۔
"جلدی سوچو.... کیسے اسے چھپاؤں؟"
وہ خود کلامی کر رہی تھی۔
"آپ کے لئے جلدی آیا ہوں میں... "
زمان سیدھا سندس کے کمرے میں آیا تھا۔
"سچی؟"
وہ اشتیاق سے کہتا اس کی گود میں بیٹھ گیا۔
"مچی... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"اب ہم گاڑی لینے چلیں گیں نہ؟"
وہ خفا انداز میں بولی۔
"یس... ماموں فریش ہو جائیں پھر چلتے ہیں۔ تم نے کھانا کھا لیا؟"
وہ اسے نیچے اتارتا سندس سے مخاطب تھا جو محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"ہاں پارلر سے میں ریسٹورنٹ چلی گئی تھی... "
وہ مسکرا رہی تھی۔
"اور جنت؟"
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
"زراد اسے گھر لے آیا تھا میں اور ابراہیم گئے تھے... ہیں نہ؟"
وہ ابراہیم کو شامل کرتی ہوئی بولی۔
"یس..."
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"اوکے میں آتا ہوں... "
وہ ابراہیم کے بال بکھیرتا باہر نکل گیا۔
وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا کمرے میں نگاہ دوڑانے لگا۔
جنت کو نا پا کر پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"یہ کہاں گئی؟"
وہ کہتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔
فون نکال کر اس کا نمبر ملانے لگا۔
جنت کے فون کی رنگ ٹون سنائی دینے لگی۔
فون بیڈ پر پڑا تھا۔
"خود کہاں گئی ہے؟"
بولتے ہوۓ نگاہ واش روم کے دروازے پر پڑی۔
"شاید اندر ہو... "
وہ بڑبڑاتا ہوا سیگرٹ سلگانے لگا۔
سرمئی دھواں اس کے عنابی لبوں سے رسائی حاصل کرتا ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا۔
چند لمحے بعد جنت واش روم سے باہر نکل آئی۔
دائیاں ہاتھ پشت پر لے جا کر چھپا رکھا تھا۔
"میرے کپڑے نہیں نکالے تم نے؟"
وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا جہاں خوف کا عنصر نمایاں تھا۔
"وہ... آپ آج جلدی آ گئے؟"
وہ ہچکچاتی ہوئی بیڈ کی جانب بڑھنے لگی۔
دوپٹہ اٹھایا اور گلے میں ڈال کر ہاتھ دوپٹے میں چھپا لیا۔
"تم ایسی مشکوک حرکتیں کیوں کر رہی ہو؟"
وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"نہیں تو... میں آپ کے کپڑے نکال دیتی ہوں۔"
چہرے کی رعنائی تو لوٹ آئی تھی لیکن جب دل ہی خوش نہ ہو تو چہرے پر رونق کہاں سے آےُ؟
وہ اثبات میں سر ہلاتا سیگرٹ ہونٹوں میں دباےُ اسے دیکھنے لگا۔
جونہی جنت نے الماری کھولی زمان کی نگاہ اس کے ہاتھ پر سجی مہندی پر گئی۔
آنکھوں میں پہلے تحیر پھر غیض سمٹ آیا۔
سیگرٹ کی بو کے باعث مہندی کی خوشبو مانند پڑ گئی تھی۔
وہ خاموشی سے چلتا ہوا اس کے عین عقب میں آ کھڑا ہوا۔
"یہ کس خوشی میں تم نے لگائی ہے؟"
وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا گئی۔
"وہ... یہ مجھے... "
"ادھر آؤ اور اپنا منہ بند رکھنا تم... "
وہ خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا اس کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا۔
"زمان میں نے یہ نہیں... "
"اپنی بکواس بند رکھو... ایک بات کتنی مرتبہ دہرایا کروں میں؟"
وہ جھٹکے سے اسے سامنے لاتا ہوا چلایا۔
وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہو گئی۔
"لیکن سن تو لیں... "
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی لیکن زمان کا رحم کھانے کا فلحال کوئی ارادہ نہیں تھا۔
وہ دونوں صوفے پر بیٹھ چکے تھے۔
"مجھے سمجھ نہیں آتا کن الفاظ کا استعمال کروں کہ تمہاری اس چھوٹی سی عقل میں میری باتیں بیٹھ جائیں..."
وہ شہادت کی انگلی اس کی کنپٹی پر رکھتا ہوا بولا۔
"میں نے نہیں...."
"تمہاری آواز نہ نکلے اب...."
وہ درشتی سے اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
وہ لب کاٹتی اسے دیکھنے لگی جو سخت خفا دکھائی دے رہا تھا۔
"اب مجھے امید ہے دوبارہ مجھے کہنے کی نوبت نہیں آےُ گی کیونکہ یہ سزا تمہیں ہمیشہ یاد رہے گی... "
وہ سیگرٹ اس کے مہندی لگے ہاتھ پر رکھتا ہوا بولا۔
"آہ... زمان.... "
وہ اچھل کر پیچھے ہوئی لیکن ہاتھ زمان کی مضبوط گرفت میں تھا۔
"تمہیں بلکل سمجھ نہیں آتا نہ جو میں بولتا ہوں....پتہ نہیں کیوں میری مخالفت کرنے کا شوق چڑھا ہے تمہیں۔"
جنت کی تکلیف کا اس پر زرہ برابر بھی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
وہ تکلیف سے کراہ رہی تھی آنسو پلکوں کی باڑ کو توڑتے بہہ رہے تھے لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
"اب تم ہمیشہ میری بات یاد رکھوں گی... "
وہ جگہ جگہ سے اس کا ہاتھ داغ چکا تھا۔
ہاتھ سرخ ہو چکا تھا۔
پلکوں پر ٹھہرے موتی اس سے گلہ کر رہے تھے۔
"زمان پلیز..."
وہ اپنا ہاتھ کھینچتی ہوئی بولی۔
"پہلے کیوں نہیں سوچتی تم؟"
وہ اس کی بازو پر گرفت مضبوط کرتا ہوا بولا۔
"میں نے نہیں لگائی... آخر آپ میری بات کیوں نہیں سنتے؟"
وہ مسلسل اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کر رہی تھی۔
"اچھا پھر مجھے بتاؤ کیسے تمہارے ہاتھ پر مہندی لگی؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر کہتا سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلنے لگا۔
جنت دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ میں پکڑے رونے لگی۔
"مجھے نہیں پتہ... میں سو رہی تھی پتہ نہیں کس نے لگا دی۔"
وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔
تکلیف ہی تکلیف تھی۔صرف جسمانی اذیت نہیں روحانی اذیت بھی تھی۔
"تمہیں میں پاگل لگتا ہوں جو یہ من گھڑت کہانیوں پر یقین کر لوں گا؟ کسے اور کو بیوقوف بنانا تم... "
وہ قہر آلود نگاہ ڈالتا کھڑا ہو گیا۔
"میں کیسے یقین دلاؤں آپ کو؟"
وہ سسکتے ہوۓ بولی۔
"جا کر میرے کپڑے نکالو مجھے ابراہیم کو لے کر جانا ہے... پہلے ہی بہت ٹائم ضائع کر دیا ہے تم نے۔"
وہ ناگواری سے کہتا ٹہلنے لگا۔
وہ فوراً کھڑی ہوئی اور اس کے کپڑے نکالنے لگی۔
زمان جا چکا تھا...
وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔
جنت کا رخ ٹیرس کی جانب تھا۔
وہ خاموشی سے ریلنگ پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔
نظریں اپنے سرخ ہاتھ پر تھیں۔
آنکھیں پھر سے بھر آئیں۔
"کس جرم کی سزا مل رہی ہے مجھے؟"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"امی یہ کیا کر دیا آپ نے؟ کیسے آپ کی جنت اس ظالم انسان کے ساتھ زندگی گزارے جس کے ساتھ ایک دن رہنا محال ہے۔ کیسے خاموش رہوں اس ظلم پر؟"
اس کے دکھ کے گواہ یہ آنسو تھے جو ہر ہمہ وقت اس کے ساتھ رہتے۔
قدموں کی آہٹ پر وہ بائیں ہاتھ سے آنسو صاف کرتی عقب میں دیکھنے لگی۔
زراد پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔
"کب تک چھپائیں گیں یہ آنسو؟"
وہ غمزدہ دکھائی دے رہا تھا۔
"میں کہاں رو رہی ہوں؟"
وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی۔
"مجھے یقین دلا رہی ہیں یا خود کو جھوٹی تسلی دے رہی ہیں؟"
وہ بولتا ہوا اس کے دائیں جانب آ کر کھڑا ہو گیا۔
"شاید خود کو فریب دے رہی ہوں... کبھی کبھی لگتا ہے آزمائشیں بہت طویل ہوتی ہیں کبھی تمام نہیں ہوں گیں۔"
وہ رنج و غم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
"میں باہر جا رہا تھا لیکن آپ پر نظر پڑی تو سمجھ گیا... آپ کے یہ آنسو مجھ سے مخفی نہیں رہ سکتے۔ مجھے سب بتا دیتے ہیں یہ۔"
آخری بات وہ رازداری سے بولا۔
وہ نم آنکھوں سے مبہم سا مسکرائی۔
"کہاں جا رہے تھے؟ اور گئے کیوں نہیں؟"
اس نے گفتگو کا رخ موڑا۔
"ڈنر پر جا رہا تھا لیکن اب ملتوی کر دیا۔"
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"کیوں؟ ابھی تو جا رہے تھے اور.... "
وہ دو قدم پیچھے ہوتی اس کا جائزہ لینے لگی۔
وہ بلیک پینٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنے ہوۓ تھا۔
سیاہ ریشمی بال پیشانی پر منتشر تھی۔
گندمی رنگت پر ہلکی ہلکی شیو اسے پرکشش بنا رہی تھی۔
"تیار بھی ہو تو جا کیوں نہیں رہے؟"
وہ خفگی سے دیکھنے لگی۔
"یہ منافقت کیسے کر لیتی ہیں؟ اتنی سکت کہاں سے لاتی ہیں آپ؟"
وہ سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔
"کون سی منافقت؟"
وہ انجان بنی۔
"یہی جو کر رہی ہیں... کیسے روتے دل کو خاموش کروا کے آپ خود کو سیٹ کر لیتی ہیں؟"
وہ حیرت اور دکھ میں مبتلا تھا۔
"ایسے ہنر صرف بیٹیوں کے پاس ہوتے ہیں... لیکن میں سوچتی ہوں کیا کبھی یہ ہنر ختم ہو سکتا ہے؟"
وہ چہرے پر آےُ بالوں کو دائیں ہاتھ سے ہٹاتی ہوئی بولی۔
"زمان نے اب کیا کیا؟"
وہ اس نیم تاریکی میں بھی اس کے ہاتھ کے داغ دیکھ چکا تھا۔
"کچھ نہیں بس چھوٹا سا زخم ہے... "
اس نے ٹالنا چاہا۔
"کیسا زخم دکھائیں؟"
وہ اس کے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جسے وہ اب دوپٹے میں چھپا رہی تھی۔
"نہیں... بلا وجہ فکر مند ہو رہے ہو۔ ایسا کچھ نہیں۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"آپ دکھائیں گیں یا میں خود دیکھ لوں؟"
اب کہ وہ برہمی سے گویا ہوا۔
جنت نے ہاتھ دوپٹے سے باہر نکالا تو وہ کپکپا رہا تھا۔
زراد کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"یہ... یہ سیگرٹ سے کیا انہوں نے؟"
وہ ہکا بکا سا دیکھ رہا تھا۔
جنت کے الفاظ دم توڑ چکے تھے۔
آنسوؤں کا پھندا گلے میں پھنس گیا۔
آنکھوں میں پھر سے نمی تیرنے لگی۔
گردن اثبات میں ہلا کر اس نے اپنی ہی مشکل آسان کر دی۔
"آر یو... مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔ آپ کیسے یہ سب؟"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا جھنجھلا کر بولا۔
"کیا فرق پڑتا ہے اس سب سے؟ زندگی تو گزر ہی جاےُ گی۔"
وہ بے بس تھی۔
جینے کی چاہ دم توڑ چکی تھی۔
"فرق؟ کیوں نہیں پڑتا فرق؟ آپ نے خود کو اتنا ارزاں کیوں کر لیا ہے؟ آپ خلاء کا مطالبہ کریں ورنہ میں بول پڑوں گا زمان کے سامنے... "
وہ لہجے کو سخت بناتا ہوا بولا۔
"ہر گز نہیں... یہ میری سزا ہے۔ اس میں دخل نہیں دے سکتے کیونکہ یہ میرا اور میرے شوہر کا معاملہ ہے۔"
وہ خفا انداز میں بولی۔
وہ ناراض سا اسے دیکھتا نظروں کا رخ موڑ گیا۔
"کب تک سہتی رہیں گیں؟ آپ کو خود پر ترس نہیں آتا؟ اپنے حال پر رحم کیوں نہیں کرتی آپ؟"
وہ تاریک آسمان کو دیکھ رہا تھا۔
"میرا رب دیکھ رہا ہے۔ اور یقین کرو وہ کسی کا حق نہیں رکھتا۔ مجھے اپنے ماں باپ کا بھرم قائم رکھنا ہے اور رہی بات میرے صبر کی تو اس کا اجر ﷲ دے گا اس دنیا میں نہ سہی تو آخرت میں مل جاےُ گا لیکن وہ ضائع نہیں ہونے دے گا۔"
ایک چمک تھی اس کی آنکھوں میں جسے زراد سمجھنے سے قاصر تھا۔
"یہ کیا بات ہوئی؟ اس کے پیچھے آپ ظلم سہتی رہی گیں؟ یہ بھی گناہ ہے... "
وہ جراح پر اتر آیا۔
"میں ایک بیوی ہونے کا فرض ادا کر رہی ہوں۔ وہ الگ بات ہے کہ زمان کو صرف اپنے حقوق دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ ان کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔ مجھ سے جب پوچھا جاےُ گا تو میں فخر سے کہہ سکوں گی کہ اپنے فرائض بخوبی سر انجام دئیے، ان کی عزت ان کی خواہشات کا احترام کیا... میرے کندھے پر آج بوجھ ہے لیکن اس دن یہ کندھے آزاد ہوں گے بوجھ سے۔"
بولتے ہوۓ وہ مدھم سا مسکرائی۔
"آپ کی باتیں کم از کم مجھے سمجھ نہیں آتیں... چلیں کھانا کھاتے ہیں آپ کے شوہر تو کھا کر آئیں گے ابراہیم کے ساتھ گئے ہیں۔"
اس نے مزید سمجھانا بیکار جانا۔
"نہیں میں نہیں کھا سکتی... "
اس کے لبوں سے پھسلا۔
احساس ہونے پر وہ زبان دانتوں تلے دبا گئی۔
"کیوں؟ آج کل میں دیکھ رہا ہوں آپ کھاتی پیتی نہیں ہیں کیا وجہ ہے؟"
وہ جیسے بھانپ گیا۔
"نہیں کوئی وجہ نہیں... ایسے ہی آپ کو لگا ہوگا۔ آپ کھا لو میں نے کھا لیا تھا تھوڑی دیر پہلے... "
وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی بولی۔
"کب؟ کتنی دیر پہلے؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"یہی کوئی گھنٹہ پہلے... "
بولتے بولتے پیشانی پر شکنیں ابھریں۔
"جھوٹ بول رہی ہیں آپ... گزشتہ دو گھنٹوں سے ایلن ڈنر بنا رہی ہے وہ بھی ریحام کی پسند کا... آپ کب آئیں نیچے اور کب ڈنر کیا؟"
وہ اس کا جھوٹ پکڑ چکا تھا۔
"آپ کو نہ پولیس میں ہونا چائیے تھا اتنے سوال کرتے ہو کہ بندہ کنفیوز ہی ہو جاتا ہے۔"
وہ منہ بناتی ہوئی چلنے لگی۔
"بات کو مت گھمائیں... زمان نے منع کیا ہے آپ کو؟"
اس نے اندھیرے میں تیر چلایا۔
"نہیں تو... وہ کیوں منع کریں گے۔"
وہ سیڑھیوں کے پاس آ چکی تھی۔
"اسی نے منع کیا ہے میں جانتا ہوں... وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔"
وہ سخت خفا دکھائی دے رہا تھا۔
"آپ کو بھوک نہیں لگی؟"
وہ اس موضوع سے بھاگنا چاہ رہی تھی۔
"ناراض ہوں میں آپ سے... "
وہ خفا خفا سا کہتا اس کے آگے سے نکل گیا۔
وہ تاسف سے اسے زینے اترتے دیکھنے لگی۔
~~~~~~~~
"امی آپ حماد کا کچھ کرتی کیوں نہیں ہیں؟"
وہ اکتاہٹ کا شکار تھی۔
"بیٹا کیا کروں میں اس کا بتاؤ؟ وہ تو ضد پر اڑا ہے کہ حمزہ کے ساتھ تمہارا نکاح کر دیں۔ تب تک سکون سے نہیں بیٹھے گا وہ... "
وہ لاچار دکھائی دے رہی تھیں۔
"تو آپ اسے سمجھائیں... کچھ بھی کریں لیکن خدا کے واسطے میرا سامنا مت ہونے دیا کریں اس انسان سے۔ مجھے سکون سے رہنے کیوں نہیں دیتا وہ؟"
وہ بچوں کو دیکھتی ہوئی بولی جو دوسری چارپائی پر سو رہے تھے۔
"بیٹا ہم سب ہی مجبور ہیں... اپنا خون ہو کر وہ یہ سب کر رہا ہے۔"
وہ تاسف سے بولیں۔
"امی پھر ایک کام کریں میری شادی کر دیں حمزہ سے... کسی سے تو کرنی ہی ہے تو اسی سے کر دیں۔"
وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولی۔
"ہاےُ ہاےُ ایسے کیسے شادی کر دیں؟ جانتی ہو نہ ایسے حلالہ نہیں ہوتا... "
انہیں اس کی عقل پر شبہ ہو رہا تھا۔
"امی اچھے سے جانتی ہوں لیکن میں تنگ آ گئی ہوں اس روز روز کے فساد سے۔ وہاں کم از کم مجھے سکون سے جینے تو دے گا حماد... "
وہ کوفت سے بولی۔
"لیکن یہ فیصلہ انتہائی غلط ہے... "
انہوں نے قائل کرنا چاہا۔
"پہلا فیصلہ درست تھا نہ امی؟ اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم میں سے کوئی نہیں دعوہ کر سکتا کہ فلاں انسان کے ساتھ میں خوش ہوں گی اور فلاں کے ساتھ نہیں... "
وہ ضبط کی انتہا پر کھڑی تھی۔
"لیکن مریم یہ سب بھی تو مناسب نہیں... "
وہ متفکر سی بولیں۔
"میں اپنا فیصلہ سنا چکی ہوں اب آپ لوگ دیکھ لیں باقی سب... "
وہ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئی۔
شہناز تاسف سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"یا ﷲ میری بچی کو صبر اور ہمت دے۔"
وہ دوپٹے سے آنکھ کا کونا صاف کرتی ہوئی بڑبڑائی۔
~~~~~~~~
"آپ کہیں جا رہے ہیں؟"
وہ کمرے میں آتی ہوئی بولی۔
"ہاں تمہیں کس نے بتایا؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"زراد بتا رہا تھا... "
وہ دروازہ بند کرتی ہوئی بولی۔
"چائنہ جا رہا ہوں میں... میری پیکنگ کر دینا تم کل رات میں فلائٹ ہے۔"
وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
"جی ٹھیک ہے... "
وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
"میری عدم موجودگی میں تم گھر پر ہی رہوں گی اگر کسی کام سے جانا ہوا تو پہلے مجھ سے اجازت لینا اس کے بعد جیسے میں کہوں... "
وہ کافی کا مگ اٹھاتا ہوا بولا۔
"میں ایسے ہی کروں گی... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"گڈ... "
وہ نرم لہجے میں بولا۔
"آپ کتنے دن تک رہیں گے وہاں؟"
یکدم اسے خیال آیا۔
"ابھی کوئی آئیڈیا نہیں... تمہیں فون کرتا رہوں گا میں۔"
وہ مبہم سا مسکرایا۔
"ٹھیک ہے.... "
وہ بھی جواباً جبراً مسکرائی۔
"سٹڈ اٹھا کر لاؤ... "
وہ مگ ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا۔
وہ خاموشی سے اٹھ گئی اور اس کے سٹڈ لے آئی۔
"میں چلتا ہوں... "
وہ اپنی چیزیں اٹھاتا ہوا بولا۔
~~~~~~~~
"ایلن اب تم کیک کو دیکھ لینا میں چینج کرنے جا رہی ہوں... "
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"اوکے ٹھیک ہے۔"
وہ سر ہلاتی ہوئی بولی۔
جنت کچن سے نکلی تو سامنے ملازم کھڑا تھا۔
"میڈم آپ کے مہمان آےُ ہیں ڈرائینگ روم میں بٹھایا ہے انہیں... "
جنت کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"میرے مہمان... "
اس نے زیر لب دہرایا۔
"امی تو نہیں... "
وہ کہتی ہوئی ڈرائینگ روم کی جانب بڑھ گئی۔
اندر موجود شخص کو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئی۔
"آخر تمہیں کون سی زبان سمجھ آتی ہے؟"
وہ درشتی سے کہتی آگے آئی۔
"پھر کیا سوچا تم نے؟"
وہ اس کی بات نظر انداز کرتا ڈھٹائی سے بولا۔
"میرا جواب ہمیشہ منفی ہوگا... اور اپنی شکل لے کر دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔"
وہ بظاہر سخت لہجے میں بول رہی تھی لیکن دل کسی کے آ جانے سے لرز رہا تھا۔
"پانی پلانے کا رواج نہیں ہے کیا تمہارے گھر؟"
وہ اس کے عین مقابل آ رکا۔
"مہسم بہتر ہوگا تم یہاں سے چلے جاؤ اور دوبارہ اس گھر میں قدم مت رکھنا ورنہ انجام بہت برا ہوگا۔"
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی بے خوف سی بولی۔
وہ لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگا۔
"عزت سے جاؤ گے یا دھکے مار کر نکالوں؟"
اسے دیکھ کر غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
"جا رہا ہوں... لیکن تم اچھا نہیں کر رہی میرے ساتھ۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"اپنا منہ بند رکھو... "
وہ درشتی سے بولی۔
وہ ہنکار بھرتا باہر نکل گیا۔
جنت سر تھام کر صوفے پر بیٹھ گئی۔
"پتہ نہیں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیوں زندگی اتنی کٹھن ہوتی جا رہی ہے؟ کب تک میں سب سنبھال پاؤں گی؟"
وہ آہیں بھرتی بول رہی تھی۔
یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا اور فورا سے بیشتر وہاں سے اٹھی اور باہر کی جانب چلنے لگی۔
"آئیندہ آپ اس انسان کو اندر نہیں آنے دیں گے ڈرائینگ روم میں بٹھانا تو بہت دور کی بات ہے۔ گیٹ سے ہی واپس بھیج دینا... مجھے دوبارہ یہ شخص یہاں نظر نہ آےُ۔"
وہ چوکیدار سے مخاطب تھی۔
"جی میڈم ٹھیک ہے... آگے سے خیال رکھوں گا۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
وہ ہلکی پھلکی سی واپس لوٹ آئی۔
"چینج کرنے جانا تھا مجھے... "
وہ پیشانی پر ہاتھ مارتی چلنے لگی۔
~~~~~~~~
"اب کیا ہو گیا ہے جو تم منہ بنا کر بیٹھی ہو؟ نہ کچھ بتا رہی ہو.... "
شہناز گزشتہ آدھ گھنٹے سے اس کے گرد منڈلا رہی تھیں۔
وہ شکوہ کناں نظروں سے انہیں دیکھتی اور رخ موڑ لیتی۔
"چاےُ پیو... ریلیکس ہو جاؤ گی۔"
مریم اس کے سامنے ٹرے رکھتی ہوئی بولی۔
"کیا خاک ریلیکس ہوں گی میں؟ امی میری اتنی بے عزتی کی اس فضا(عائشہ کی نند) نے... "
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"یا ﷲ خیر.... اب کیا کر دیا اس نے؟"
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
"امی بلا وجہ اتنی لڑائی کی اس نے مجھ سے کیا بتاؤں اب آپ کو... "
وہ ہنکار بھرتی مریم کو دیکھنے لگی۔
"بتاؤ گی تو پتہ چلے گا نہ... "
مریم زور دے کر بولی۔
"مجھے کہتی جب تمہارے میکے سے مہمان آئیں تو تم ایسے کھانے بناتی ہو جیسے شادی کا فنکشن ہو اور ہم آئیں تو یہ پلاؤ متھے مار دیتی ہوں... "
وہ مٹھیاں بھینچ کر بولی۔
"تو تم کیوں ایسے کرتی ہو؟ بتاؤ؟"
وہ اسے آڑے ہاتھوں لیتی ہوئی بولی۔
"بس امی میں اب وہاں نہیں جاؤں گی... میری کوئی عزت ہی نہیں ہے۔"
وہ سخت لہجے میں بولی۔
"بہت شوق ہے تمہیں طلاق لینے کا؟ کوئی کسر چھوڑی ہے دنیا نے جو تم پوری کروا دینا چاہتی ہو؟"
وہ اسے جھنجھوڑتی ہوئی بولیں۔
"امی آپ بھی مجھے ہی برا کہیں... بس میں نے بتا دیا ہے کوئی بحث نہیں کرنی مجھے۔"
وہ اپنی بازو چھڑواتی اندر چل دی۔
"امی رہنے دیں.... جنت کو فون کرتی ہوں وہ ہی سمجھاےُ گی۔"
مریم ان کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
"جاؤ فون لاؤ نمبر ملاؤ جنت کا... "
وہ ہاتھ مسلتی ہوئی بولیں۔
"جی اچھا... "
وہ کہتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
"یہ لیں امی... "
وہ فون ان کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی۔
حال احوال کے بعد وہ سیدھا مدعے پر آئیں۔
"تم چکر لگا لو گھر کا... عائشہ کا دماغ پھر خراب ہو گیا ہے۔"
"امی میں نہیں آ سکتی... "
اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔
"کیوں؟ منع کرتے ہیں؟"
وہ پریشان ہو گئیں۔
"نہیں منع نہیں کرتے... زمان چائنہ جا رہے ہیں تو مصروف ہوں میں۔"
وہ سرد مہری سے گویا ہوئی۔
"اچھا... "
اس کے انداز پر الفاظ دم توڑ گئے۔
"میں آپ کو بعد میں فون کرتی ہوں زمان آ گئے ہیں... "
وہ دروازے کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"جب زمان نے ساری زندگی آپ لوگوں گی شکل نہیں دیکھنے دینی تو یہی مناسب ہے۔"
وہ فون بند کرتی ہوئی بڑبڑائی۔
"چلو ٹھیک ہے... "
وہ آہستہ سے بولیں۔
"کیا ہوا؟"
مریم متفکر سی بولی۔
"منع کر دیا... عجیب سی ہوتی جا رہی ہے جنت اب تو فون پر بھی مختصر سی بات کرتی ہے۔"
اب دوسری پریشانی نے آن گھیرا۔
"ایسے ہی لگ رہا ہے آپ کو... مجھ سے تو بات کرتی ہے۔"
وہ فون پکڑتی ہوئی بولی۔
"ﷲ کرے میرا وہم ہی ہو... "
وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولیں۔
"زمان نیچے چلیں آپ کو کچھ دکھانا ہے... "
وہ ہر بار کی مانند نئے حوصلے اور ہمت سے اس کے سامنے آئی۔
"کیوں؟ ایسا کیا ہے نیچے؟"
اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"چلیں تو سہی... "
وہ فون ڈریسنگ پر رکھتی ہوئی بولی۔
"اچھا ایک منٹ... "
وہ کوٹ اور واسکٹ اتارنے لگا۔
"رکھو اسے... "
دونوں چیزیں اسے دے کر ٹائی اتارنے لگا۔
"چینج کریں گے آپ یا؟"
"نہیں ایزی ہوں میں چلو کیا دکھانا ہے تم نے جو اتنی خوش ہو رہی ہو... "
وہ اسے اشارہ کرتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
وہ دونوں راہداری میں چلتے جا رہے تھے۔
سامنے پول تھا۔
"یہاں کیا کام تمہارا؟"
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"اِدھر آئیں... "
وہ اس کی بازو پکڑے چلنے لگی۔
جنت کے چہرے کی خوشی زمان کو ٹھٹک رہی تھی۔
شفاف پانی کے بائیں جانب ایک چھوٹا سا ٹیبل پڑا تھا۔
جس پر کیک پڑا تھا۔
ٹیبل پر لائٹس لگی ہوئی تھیں۔
شام کے گہرے ساےُ میں یہ چھوٹا سا ٹیبل دلکش معلوم ہو رہا تھا۔
"امیزنگ..."
وہ سراہے بنا نہ رہ سکا۔
"ہیپی برتھ ڈے... "
وہ مطلوبہ جگہ پر پہنچ چکے تھے۔
"تمہیں کس نے بتایا؟"
پہلی بار اس نے زمان کو یوں مسکراتے دیکھا تھا۔
"آپ کو اچھا لگا؟ میں نے خود بنایا ہے یہ کیک آپ کے لئے... "
وہ پرجوش انداز میں کہتی چھری اٹھانے لگی۔
"یس آئی لائک اٹ(ہاں مجھے پسند آیا یہ) "
وہ مسلسل مسکرا رہا تھا۔
یہ حیرت انگیز سرپرائز اسے پسند آیا تھا۔
"کاٹیں... "
وہ چھری اس کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی۔
"شیور... میری وائف نے بنایا ہے تو ضرور کاٹیں گے۔"
وہ مسرور سا کہتا کیک کاٹنے لگا۔
زمان نے کیک کا پیس اٹھایا اور جنت کے سامنے کیا۔
اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔
"آج بھی تم رو رہی ہو کیوں؟"
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
"نہیں.. یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔"
وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔
وہ نفی میں سر ہلاتا اسے کیک کھلانے لگا۔
"میں کھلا سکتی ہوں آپ کو؟"
اس لمحے زمان کو جنت پر جی بھر کر ترس آیا۔
"بلکل... "
وہ گردن اثبات میں ہلاتا ہوا بولا۔
وہ کسی معصوم بچے کی مانند خوش ہوتی اسے کیک کھلانے لگی۔
"تھینک یو فور دس... "
وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا۔
"آپ کو اچھا لگا میرے لئے یہی بہت ہے۔"
وہ پر سکون سی بولی۔
"آج ڈنر ہم باہر کریں گے... تم تیار ہو جاؤ تب تک میں ابراہیم سے مل کر آتا ہوں۔"
وہ اس کا رخسار تھپتھپاتا ہوا بولا۔
"کون سا ڈریس؟"
وہ فوراً بول پڑی۔
"اممم... مجھے یاد نہیں لیکن بلیک کلر میں پہن لو کوئی بھی لیکن خیال رہے پہلے پہنا ہوا نہ ہو... جو پہن چکی ہوں ایلن کو دے دو یا پھینک دو۔"
وہ مسکرا کر کہتا چلنے لگا۔
وہ منہ کھولے اس کی پشت کو دیکھنے لگی۔
"اتنے مہنگے کپڑے پھینک دوں؟"
اسے اپنی سماعت پر شبہ ہو رہا تھا۔
"زمان تو حد کرتے ہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی چلنے لگی۔
~~~~~~~~
"میں انتظار کروں گی آپ کی کال کا... "
وہ گاڑی میں اس کے ہمراہ عقبی نشست پر بیٹھی تھی۔
"جب ٹائم ملے گا میں تمہیں کال کر لوں گا... اگر مجھے کام نہ ہوتا تو تمہیں بھی ساتھ لے جاتا۔"
وہ معمول کے خلاف نرم لہجے میں بات کر رہا تھا۔
"کوئی بات نہیں میں آپ کا انتظار کروں گی۔"
وہ مبہم سا مسکرائی۔
"اب مجھے فیل ہو رہا ہے کہ تم ایک اچھی بیوی بن رہی ہو... "
وہ اس سے خوش تھا۔
"ایک دن ایسا آےُ گا آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی.... "
وہ چاہ کر بھی مسکرا نہ پائی۔
"لیکن شاید اس دن تک میں مر چکی ہوں گی۔"
وہ کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہ سکی۔
وہ زمان کو خوش رکھنے میں تو کامیاب ہو رہی تھی لیکن خود کو گنواتی جا رہی تھی۔
وہ خود کو خوش نہیں رکھ پا رہی تھی شاید یہ اس کی ذمہ داری تھی ہی نہیں۔ اسے خوش رکھنے کی ذمہ داری تو زمان پر عائد ہوتی تھی لیکن اسے اپنے اصول و ضوابط کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔
"واپس آ کر ہم ہنی مون پر چلیں گے... تھوڑا بریک لوں گا۔"
گاڑی ائیر پورٹ کے باہر رک چکی تھی۔
"ٹھیک ہے..."
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"تم ابھی یہی بیٹھو... زراد کے ساتھ واپس گھر جانا۔"
وہ دروازہ کھول کر باہر نکل چکا تھا۔
جنت نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ریحام، سندس،عظمی اور زراد سب اسے چھوڑنے آےُ تھے لیکن جنت کو گاڑی سے باہر نکلنے کی اجازت زمان نے نہیں دی تھی۔
وہ سب اسے اندر چھوڑنے گئے اور وہ پارکنگ میں زراد کا انتظار کر رہی تھی۔
"کب تک واپس آنے کا ارادہ ہے آپ کے ظالم دیو کا؟"
زراد ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا ہوا بولا۔
"تم رکشے لے لینا... "
وہ کھڑکی سے باہر ڈرائیور سے مخاطب تھا۔
وہ سر ہلاتا چلا گیا۔
"پتہ نہیں کچھ بتایا نہیں اس بارے میں... "
وہ آہستہ سے بولی۔
"ویسے مجھے لگتا ہے ﷲ کو آپ پر رحم آ گیا ہے... آپ کو روبوٹک لائف سے چھٹی مل گئی کچھ دن کے لیے... "
وہ گاڑی سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔
"کوئی شبہ نہیں زمان نے مجھے کٹھ پتلی بنا لیا ہے... "
وہ آسودگی سے بولی۔
"چلیں کوئی نہیں... اب آپ سکون سے رہ سکیں گیں۔"
وہ گاڑی سڑک پر لے آیا تھا۔
راستے میں ایک جگہ زراد نے گاڑی روکی اور معذرت کرتا باہر چلا گیا۔
واپس آیا تو ہاتھ میں دو تین شاپر تھے۔
"کس کام سے گئے تھے؟"
وہ باہر دیکھتی ہوئی بولی۔
"کھانا لینے گیا تھا... باہر آپ جا نہیں سکتیں تو گھر میں ہی لنچ کر لیں گے۔"
وہ مبہم سا مسکرایا۔
جنت کچھ نہ کہہ سکی۔
وہ سر جھکا کر اپنے ہاتھ دیکھنے لگی۔
ہاتھ پر سوجھن ابھی بھی تھی۔
وہ نگاہیں پھیرتی کھڑکی سے باہر دیکھتی اپنی توجہ ہٹانے لگی۔
"ایلن ٹیبل پر لگا دو یہ سب... "
زراد لاؤنج میں آتا ہوا بولا۔
"تم باہر سے کیوں لاےُ؟ ایلن کھانا نہیں بنا کیا؟"
عظمی کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"مما ماموں کب آئیں گے؟"
ابراہیم اداسی سے بولا۔
"میرا بچہ... ماموں آپ کے لئے ٹوائز لینے گئے ہیں... "
وہ اسے بہلاتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"آپ ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھیں میں آتا ہوں... "
وہ جنت کو دیکھتا ہوا بولا۔
عظمی ناگواری سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"کچھ زیادہ ہی محبت نہیں دیور بھابھی میں.... "
ریحام تنقیدی نظروں سے جائزہ لے رہی تھی دونوں کا۔
"شٹ اپ ریحام.....یہ کیا فضول بکواس کی ہے تم نے؟زمان تمہیں بلکل سہی سناتا ہے آج سمجھ آیا۔"
اسے ریحام کے منہ سے ایسی بات سخت ناگوار گزری۔
"تم کب سے زمان کی زبان بولنے لگ گئے؟ میں وہی ریحام ہوں جس کے ساتھ تم ساری ساری رات بیٹھ کر موویز دیکھتے تھے... "
وہ گھورتی ہوئی بولی۔
جنت نے خاموشی سے نکلنے میں عافیت جانی۔
"زراد بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے اس میں ایسی کوئی معیوب بات نہیں... وہ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھا سکتے ہیں ان فیکٹ زراد نے مجھے بھی کہا ہے۔"
سندس ابراہیم سے نظریں ہٹا کر ریحام کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"سندس کے آتے ہی تم مجھے بھول گئے... احسان فراموش۔"
وہ کشن اٹھا کر اسے مارتی ہوئی وہاں سے نکل گئی۔
عقب میں اسے زراد کا قہقہ سنائی دیا۔
"مام یہ دن بہ دن پاگل ہوتی جا رہی ہے اسے کہا کریں اپنے سسرال رہا کرے... "
وہ قہقہ لگاتا بیٹھ گیا۔
"تمہیں کیا مسئلہ ہو رہا ہے اگر وہ یہاں آتی بھی ہے تو؟"
عظمی خفگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"یہاں فارغ رہتی ہے تو دیکھیں دماغ کو زنگ لگ رہا ہے.. "
وہ کہاں سنجیدہ ہونے والا تھا وہ بھی ریحام کی معاملے میں۔
سندس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی جسے اس نے بروقت چھپا لیا۔
"ماموں ہم لمبردینی (لمبرگینی) لینے چلیں؟ ورنہ فائق(تایازاد) لے لے گا۔"
وہ سندس کی گود سے اتر کر زراد کے پاس آ گیا۔
"ہاےُ تمہارا بیٹا تو بہت ہی مہنگی فرمائشیں کرتا ہے۔اور میں ٹھہرا بیچارا غریب سا انسان... "
وہ مسکین سی صورت بناےُ بولا۔
"اتنے تم غریب نہ... "
سندس محظوظ ہوئی۔
عظمی ہنستی ہوئی راہداری میں چل دی۔
"میرے شہزادے ایسی فرمائشیں نہ بڑے ماموں سے کرتے ہیں... آپ انہیں فون کرنا اور کہنا کہ چائنا سے لے کر آئیں... مجھے تو ابھی تک ملی نہیں تمہیں کہاں سے دوں گا۔"
وہ سینے پر ہاتھ رکھتا آسودگی سے بولا۔
"بہت بڑے ڈرامے باز ہو تم... "
سندس نے کشن کا نشانہ لگایا جو سیدھا اس کے منہ پر جا لگا۔
"چلو آؤ ابراہیم آپ کے سونے کا ٹائم ہو گیا ہے... "
وہ گھڑی دیکھتی کھڑی ہو گئی۔
"سلا دو اسے... پھر آجانا۔ اب تمہارا انتظار کرنا پڑے گا۔"
وہ منہ بسورتا چلنے لگا۔
سندس نفی میں سر ہلاتی ابراہیم سے باتیں کرتی چلنے لگی۔
"ریحام کی طرف سے میں سوری کرتا ہوں... اسے بس عادت ہے فضول بولنے کی۔"
وہ سربراہی کرسی سنبھالتا ہوا بولا۔
"جس بات میں کوئی سچائی نہیں میں اسے اہمیت نہیں دیتی... "
وہ پرسکون تھی۔
"ویری گڈ... آپ نے دیکھا یہ سب؟"
وہ اشتیاق سے پوچھ رہا تھا۔
"نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"دیکھیں... "
وہ دونوں ہاتھ باہم ملاتا ہوا بولا۔
وہ باری باری ڈھکن اٹھا کر دیکھنے لگی۔
آنکھوں میں حیرت کا عنصر نمایاں تھا۔
"یہ سب تو... "
"آپ کی پسند کا ہے۔ میں نے سوچا زمان چلا گیا ہے اب آپ اطمینان سے اپنی مرضی کے مطابق کھانا کھائیں... "
وہ مسکرا رہا تھا۔
اور جنت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بولے۔
ٹرے میں بریانی، ایک ڈونگے میں کوفتے اور ایک میں کھیر تھی۔
وہ سب اسی کی پسند تھی۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔
"کیا ہوا؟ آپ نے تو یہی سب کہا تھا نہ؟"
وہ اس کی آنکھوں کے بدلتے موسم دیکھ کر متفکر سا بولا۔
"نہیں... دراصل یقین نہیں آ رہا... آپ کیوں یہ سب کر رہے؟ میری عادتیں خراب ہو جائیں گیں۔"
وہ آنکھیں مسلتی اسے دیکھنے لگی۔
"پتہ نہیں کیوں...بس میرا دل کرتا ہے کیونکہ آپ مسکراتی ہوئی اچھی لگتی ہیں جب جب آپ کو روتا دیکھتا ہوں تو ایک ہی خیال آتا ہے آپ اس سب کی حقدار نہیں ہیں اور میرے نزدیک آپ خود بھی ظالم ہیں۔"
وہ کہتا ہوا شکوہ کر گیا۔
"گھر بسانے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ظالم بھی بننا پڑتا ہے اور مظلوم بھی... "
وہ مبہم سا مسکرائی۔
"پتہ نہیں عجیب ہی لاجک ہیں آپ کے... "
وہ جھرجھری لیتا ہوا بولا۔
"آپ کو سمجھ نہیں آئیں گے... "
وہ ہنس رہی تھی۔
"یار سندس آ جاؤ... میرے پیٹ کے چوہے اب تک خودکشی کر چکے ہیں اور کیا چاہتی ہو تم؟ میں بھی یہی کر گزروں؟"
وہ فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
"بس پانچ منٹ انتظار کروں گا میں... "
دوسری جانب سے نجانے کیا کہا گیا جو اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
"آپ کو سچ میں اتنی بھوک لگی ہے؟"
وہ اس کی چوہے والی بات پر ابھی تک مسکرا رہی تھی۔
"نہیں... آپ کو لگی ہے۔"
وہ فون پر انگلیاں چلاتا ہوا بولا۔
نگاہیں فون کی اسکرین پر تھیں۔
جنت لمحہ بھر کو ٹھٹھک گئی۔
وہ پتھر کی بنی اسے دیکھنے لگی۔
"ایسے مت دیکھیں میں سب جانتا ہوں... آپ کو کیا لگتا ہے آپ خود سے نہیں بتائیں گیں تو مجھے معلوم نہیں ہوگا؟"
وہ فون کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔
شاید وہ جنت کی آنکھوں میں ابھری بے بسی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
"تم دونوں شروع کر دیتے... "
وہ زراد کے دائیں جانب والی کرسی کھینچ کر بیٹھتی ہوئی بولی۔
جنت نے اسے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔
"آپ کے بغیر کیسے شروع کر دیتے؟"
جنت کے لہجے میں اپنائیت تھی۔
"چلو اب شروع کرو... اب تم فون میں بزی ہو گئے ہو۔"
سندس اس کے ہاتھ سے فون لے کر ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی۔
وہ ہونٹوں پر دو انگلیاں رکھے مسکرانے لگا۔
"ایک نمبر کے ڈرامے باز ہو اچھے سے جانتی ہوں.. تمہاری وجہ سے ابراہیم کو ڈانٹ دیا میں نے۔"
وہ گھورتی ہوئی بولی۔
"اچھا ہے کہ ایسے وہ زمان تیمور نہیں بنے گا... "
اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔
"سدھر جاؤ زراد... "
آنکھوں میں تنبیہ تھی لیکن ہونٹوں پر مسکراہٹ۔
"ابھی کچھ دن کے لیے تو زندگی جینے دیں... وہ جلاد یہاں نہیں ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے آزاد ہو گئے ہیں جیل سے... "
وہ قہقہ لگاتا پلیٹ میں چاول ڈالنے لگا۔
"میں کال کرتی ہوں زمان کو... تاکہ وہ سب سن لے۔"
سندس نے اسے دھمکایا۔
"کیوں میری موت کو دعوت دے رہی ہیں... خدا کا خوف کریں کھانا تو کھا لینے دیں۔"
وہ منہ بسور کر بولا۔
جنت اور سندس اسے دیکھ کر ہنسنے لگیں۔
"کھاؤ چپ کر کے... "
سندس اس کے سر پر چت لگاتی ہوئی بولی۔
کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔
اس کے بعد تینوں وہاں سے منتشر ہو گئے۔
~~~~~~~~
"خیر ہے کس لئے آےُ ہو؟"
شہناز پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگیں جو دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
"آپ کا بھانجا ہوں اب کیا اندر بھی نہیں آنے دیں گیں؟"
وہ خفا انداز میں بولا۔
"جو بات کرنی ہے یہیں بتا دو... "
وہ اسے اندر بلانے کی خواہاں نہ تھیں۔
"کمال ہے ویسے... آپ کو کیا لگتا ہے میں اندر نہیں آ سکتا؟"
وہ کاٹ دار لہجے میں بولا۔
وہ سرد آہ بھرتی اسے راستہ دیتی سائیڈ پر ہو گئی۔
"کہاں ہے میری بیوی؟"
وہ صحن میں نگاہ دوڑاتا ہوا بولا۔
"وہ تمہاری بیوی نہیں ہے اب... "
چاہ کر بھی آواز بلند نہ ہو سکی۔
"کوئی نہیں حلالہ کے بعد تو ہو جاےُ گی... آخر دین نے یہ آپشن رکھا ہی کیوں ہے آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی؟"
وہ بیزار سا بولا۔
کچن میں کام کرتی مریم اس کی آوازیں بخوبی سن رہی تھی۔
وہ ضبط کرتی خود کو نارمل رکھنے کی سعی کر رہی تھی۔
"ہے کہاں وہ؟"
وہ کہتا ہوا کچن کے سامنے آ گیا۔
کھڑکی کھلی تھی جہاں سے مریم دکھائی دینے لگی۔
"او ہو تو میری بیگم یہاں کام کر رہی ہے؟"
وہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا۔
"حماد اپنی بکواس بند کر لو... "
وہ بھی برداشت کر کر کے تھک چکی تھی۔
"اتنا غصہ؟ ویسے آپ لوگ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ نکاح سادگی سے ہوگا پھر کیوں دیر کر رہے ہیں؟"
وہ مڑ کر شہناز کو دیکھنے لگا۔
"حماد دیکھو... "
"آپ لوگ دیکھیں... اگر اپنی عزت عزیز ہے تو میری بات مان لیں ورنہ کل کو کچھ برا ہو گیا تو مجھے ذمہ دار مت ٹھہرائیے گا... "
وہ ہاتھ اٹھا کر بے حسی سے گویا ہوا۔
"تم جیسے لوگوں کو ﷲ کبھی معاف نہیں کرے گا... "
مریم باہر نکلتی ہوئی بولی۔
"وہ سب بعد کی باتیں ہیں... "
وہ اثر لئے بنا بولا۔
وہ خاموشی سے پیشانی مسلنے لگی۔
"تمہیں کوئی کام کار نہیں ہے؟"
عائشہ باہر نکلتی ہوئی بولی۔
"آپ بھی آئی ہوئی ہیں... "
وہ چہکا۔
"امی اس ذلیل انسان کو یہاں سے نکال دیں ورنہ میں کچھ کر دوں گی.... "
مریم کی آواز کپکپا رہی تھی۔
"میں بھیجتی ہوں تم اندر جاؤ... "
وہ اس کے پاس آتی ہوئی بولیں۔
"کیا میرے اندر جانے سے اس کی آوازیں میرے کان تک نہیں پہنچیں گیں؟ کیا یہ فضول باتیں مجھ تک رسائی حاصل نہیں کریں گیں؟"
وہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"تمہیں غرور آ گیا ہے بس مجھے معلوم ہو گیا ہے... تمہارے پیچھے آتا ہوں نہ اسی لئے نخرے دکھانے لگ گئی ہو۔"
وہ مداخلت کر رہا تھا۔
"حماد بہتر ہوگا تم جاؤ یہاں سے... جب کبیر یا ابو گھر ہوں تب آنا۔"
عائشہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتی نرمی سے بولی۔
مریم کی آنکھیں شعلہ بار تھیں۔
غصہ، بےبسی،تکلیف سب ہی تو تھا۔
"صرف دو دن... اس کے بعد آپ لوگوں کے لئے ایک سرپرائز ہوگا۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے مریم اور شہناز کو دیکھتا ہوا بولا۔
"اب جاؤ بھی... "
شہناز کوفت سے بولیں۔
مریم بنا کسی کو دیکھے اندر چلی گئی۔
"یا ﷲ کرم کر اپنا... "
وہ اشک بہاتی ڈرائینگ روم کی جانب بڑھ گئیں۔
~~~~~~~~
"کیا کر رہی ہیں یہاں؟"
وہ لاؤنج میں اسے اکیلے بیٹھے دیکھ کر آ گیا۔
"کچھ نہیں بس ایسے ہی... "
وہ ٹیک چھوڑ کر آگے ہو گئی۔
"زمان سے بات ہوئی؟"
وہ دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"نہیں ابھی تک تو فون نہیں آیا... "
وہ مایوسی سے بولی۔
"تو آپ کر لیں... "
وہ تعجب سے بولا۔
"زمان نے کہا تھا وہ خود کریں گے... "
وہ نگاہیں چراتی سامنے دیکھنے لگی۔
"چاےُ پئیں گیں؟"
اس نے موضوع بدلا۔
"نہیں کافی... "
وہ مبہم سا مسکرائی۔
"زمان تو یہاں نہیں ہے... "
آنکھوں میں حیرت کا عنصر نمایاں تھا۔
"عادتیں خراب ہو جائیں گیں تو بعد میں مجھے مسئلہ ہو گا... "
وہ سادگی سے بولی۔
"یہ بھی ٹھیک ہے ویسے... چلیں پھر کافی پیتے ہیں۔"
وہ فون نکالتا ہوا بولا۔
"کچھ اور لیں گیں؟"
وہ فون کان سے لگاےُ ایلن سے بات کرتا اسے دیکھنے لگا۔
"نہیں ضرورت نہیں... "
اس نے سہولت سے انکار کر دیا۔
"جب تک وہ کافی لے کر آتی ہے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں... "
وہ پرجوش انداز میں کہتا آگے ہوا۔
"کیسا واقعہ؟"
وہ متعجب سی اسے دیکھنے لگی۔
"ایک بار میں نے رات کے دو بجے خود کشی کی کوشش کی... گلاس توڑا اور شیشہ لے کر اپنی بازو کی وین(نس) کاٹ لی... "
وہ مدھم آواز میں بول رہا تھا۔
"پھر؟"
وہ ششدر سی اسے دیکھ رہی تھی۔
"پھر کیا دھوکہ ہو گیا میرے ساتھ... پتہ نہیں کیسا گلاس تھا اتنے معمولی سے کٹ لگے کہ ہاسپٹل بھی جا نہیں سکا..."
وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
"یہ سچ ہے؟"
وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آپ کو کیا لگتا ہے؟"
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
"اپنی بازو دکھاؤ؟"
وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"مذاق تھا... "
وہ لب دباےُ مسکرا رہا تھا۔
جنت جواباً اسے گھورتی مسکرانے لگی۔
"بھلا میں کسی کے لیے ایسا کروں گا؟"
وہ ہنستا ہوا بولا۔
"کرنا بھی نہیں چائیے... "
وہ ایلن سے کافی لیتی ہوئی بولی۔
"میرے پاس ایک چیز ہے آپ کو دینے کے لئے۔"
وہ کافی کا سپ لیتا کھڑا ہو گیا۔
"کون سی چیز؟"
وہ پر سوچ انداز میں بولی۔
"آتا ہوں... "
وہ مگ رکھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
وہ مگ ہاتھ میں پکڑے اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔
وہ واپس آیا تو دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر کمر پر رکھے ہوۓ تھے۔
"آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟"
وہ دائیں جانب سے عقب میں دیکھنے کی سعی کرنے لگی۔
"یہ آپ کے لئے گفٹ... ایلن بتا رہی تھی آپ کے کمرے میں بکس جلائی گئیں تو میں سمجھ گیا۔"
وہ اس کے سامنے ناول رکھتا ہوا بولا۔
وہ متحیر سی اسے دیکھنے لگی۔
"جنت کے پتے... "
وہ زیر لب دہراتی اسے دیکھنے لگی۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔
"آپ کے پاس کہاں سے آیا؟"
وہ ہاتھ میں لئے ناول دیکھ رہی تھی۔
"جب یہ ناول آپ کے ہاتھ میں تھا تو ایک عجیب سی خوشی تھی آپ کے چہرے پر... جیسے ابھی ہے۔"
وہ مسکرا رہا تھا۔
"کب لیا؟"
وہ مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگی۔
"جب آپ مجھے یہ دے کر باقی بکس لینے گئی تب میں نے یہ لے لیا تھا... "
وہ مگ اٹھاتا ہوا بولا۔
"تھینک یو... "
وہ مسرور سی بولی۔
"ضرورت نہیں بس آپ نے مسکرا دیا یہی بہت ہے۔"
وہ سپ لیتا ہوا بولا۔
"آج رات یہی پڑھوں گی۔"
وہ اشتیاق سے بولی۔
"پہلے نہیں پڑھا ہوا؟"
وہ تعجب سے بولا۔
"پڑھا ہے... "
وہ اسے سائیڈ پر رکھتی مگ اٹھانے لگی۔
"پھر؟"
اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"دوبارہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں... یہ ہمیشہ موڈ فریش کر دیتا ہے۔"
وہ اس کی حیرت پر محظوظ ہو رہی تھی۔
"بڑی عجیب ہیں آپ... "
وہ کہے بنا رہ نہ سکا۔
"بہت شکریہ... "
وہ کھل کر مسکرا دی۔
وہ منہ بناتا اسے دیکھنے لگا۔
"اب میں چلتی ہوں رات اچھی گزر جاےُ گی...."
وہ ناول کی جانب اشارہ کرتی چلنے لگی۔
وہ صوفے سے ٹیک لگاتا مسکرانے لگا۔
~~~~~~~~
"مریم تم کیوں ضد کر رہی ہو؟"
وہ سمجھنے سے قاصر تھیں۔
"آپ بس میری بات مان لیں... میں تنگ آ گئی ہوں آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے..."
وہ جھنجھلا کر بولی۔
"لیکن فرار کی یہ راہ مناسب نہیں... تم کہو تو میں نجمہ..."
"امی آپ بھول گئی ہیں وہ کیا کہہ کر گیا تھا؟ آپ بھی اچھے سے جانتی ہیں حماد کو اور میں بھی... "
وہ ان کی بات کاٹتی ہوئی بولی۔
"لیکن ایسے کیسے حمزہ کے ساتھ تمہارا نکاح کر دیں؟"
وہ متعجب تھیں۔
"بس امی رحم کریں میرے حال پر... مجھے اس اذیت سے نجات دلا دیں۔ حماد سے شادی آپ نے اپنی مرضی سے کی تھی نہ اب میری مان لیں۔ آگے میرا نصیب اور آپ بھی جانتی ہیں نصیب سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔"
وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے مجھے تمہاری تکلیف کا احساس نہیں؟ لیکن کیا کریں ہم سب ہی مجبور ہیں... "
وہ بےبسی سے گویا ہوئیں۔
"تو امی ہم سب کو اس اذیت سے نکال دیں نہ... کیوں سب کو مبتلا کر رکھا ہے اس میں؟"
وہ سسکی۔
"اچھا تم پریشان مت ہو میں بات کرتی ہوں تمہارے ابو سے..."
وہ اسے ساتھ لگاتی ہوئی بولیں۔
مریم ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑنے لگیں۔
~~~~~~~~
"کیسے ہیں آپ؟"
بے قرار سا لہجہ۔
"میں ٹھیک ہوں اور تم کیسی ہو؟"
وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔
"اتنے دن ہو گئے آپ نے فون ہی نہیں کیا میں انتظار کر رہی تھی۔"
وہ خفا انداز میں بولی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں چھٹیاں منانے آیا ہوں؟ اتنا فارغ ہوں میں کہ تمہارے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو جاؤں؟"
وہ برہم ہوا۔
"نہیں میرا مطلب.... "
وہ لب بھینچ کر دائیں بائیں دیکھنے لگی۔
"اپنی حد میں رہا کرو تم... "
وہ لہجے کو سخت بناتا ہوا بولا۔
"جی اچھا... "
اس کی بے قراری پر اوس پڑ گئی۔
دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہو گئی۔
"کہاں ہو تم؟"
وہ اس طویل خاموشی کو توڑتا ہوا بولا۔
"کمرے میں ہوں... "
وہ آہستہ سے بولی۔
دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
"اچھا میں بعد میں فون کروں گا تمہیں ابھی بزی ہوں۔"
اس نے کہہ کر فون بند کر دیا بنا اسے سنے۔
وہ ہونٹوں کو دائیں بائیں جنبش دیتی دروازے کو گھورنے لگی۔
"وہاں جا کر بھی آپ اتنے ہی سرد مہر ہیں جتنے یہاں تھے... کیا آپ کبھی نہیں بدلے گے؟ میری فرمانبرداری کا یہ صلہ دیں گے آپ؟"
وہ سسکتے ہوۓ بولی۔
آنکھوں میں موتی چبھنے لگے تھے۔
وہ دم سادھے کھڑکی کو گھور رہی تھی۔
پلکوں پر ٹھہرے موتی ٹوٹنے کو بے تاب تھے۔
میسج کی ٹون نے اس کا سکتا توڑا۔
وہ آنکھیں صاف کرتی میسج پڑھنے لگی۔
"اب زراد کو کیا کام ہے؟"
وہ بڑبڑاتی ہوئی بیڈ سے اتری اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
"آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا میں... "
اس کے باہر نکلتے ہی وہ بول پڑا۔
"توبہ... مجھے ڈرا ہی دیا... "
وہ دل پر ہاتھ رکھے خفگی سے بولی۔
"بس اتنے سے ڈر گئیں... آج آپ کو ہارر مووی دکھانی ہے۔"
وہ بولتا ہوا لاؤنج کی جانب قدم اٹھانے لگا۔
"ڈراؤنی تو نہیں ہوگی؟"
وہ اس کے عقب میں چل رہی تھی۔
وہ رکا اور گردن گھما کر اسے گھورنے لگا۔
"ہارر مووی ڈراؤنی نہیں ہوگی کیا؟"
وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھنے لگا۔
"اوہ نہیں... میرا مطلب تھا زیادہ خوفناک تو نہیں ہوگی؟"
وہ زمان کی سرد مہری بھلانے کی سعی کر رہی تھی اسی لیے جو منہ میں آیا بول دیا۔
"اتنے مطلب مت نکالا کریں اب آئیں... "
وہ خفا انداز میں کہتا دھپ سے صوفے پر بیٹھ گیا۔
وہ چاہ کر بھی توجہ اسکرین پر رکھ نہیں پا رہی تھی۔
ابھی مووی کا آغاز ہوا تھا۔
زراد اسی کو نوٹ کر رہا تھا۔
مووی سٹاپ کر کے وہ اسے دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا؟"
وہ یوں اچانک بند کرنے پر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"کیا ہوا ہے؟ زمان سے بات ہوئی کیا آپ کی؟"
وہ جیسے پل بھر میں بھانپ گیا۔
"نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی مدھم آواز میں بولی۔
"جھوٹ... اگر نہیں تو پھر کیا ہوا ہے؟"
وہ کشن گود میں رکھتا اس کی جانب متوجہ تھا۔
"کچھ بھی نہیں ہوا... ایسے ہی اوہام ہونے لگے ہیں اور کچھ نہیں۔"
وہ بتانا نہیں چاہتی تھی۔
"آپ بتائیں گیں اس کے بعد ہی مووی دیکھیں گے کیونکہ ایسے مزہ نہیں آےُ گا اور اگر نہ بتایا تو میں ناراض ہو جاؤں گا۔"
وہ منہ بناتا ہوا روٹھے بچے کی مانند رخ موڑ کر بیٹھ گیا۔
جنت کے لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ رینگ گئی۔
"بلکل ابراہیم لگ رہے ہو... "
وہ شرارت سے بولی۔
"میں ناراض ہوں۔"
وہ ابھی بھی اس کی مخالف سمت میں دیکھ رہا تھا۔
"ہاں زمان سے بات ہوئی تھی... پتہ ہی ہے ان کی عادت کا۔ خشک نوعیت کے انسان ہیں وہ۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"چپس کھائیں گیں؟"
وہ ایسے پوچھ رہا تھا کیسے جنت کی بات سنی ہی نہ ہو۔
"ہاں کھاؤں گی لیکن... "
"چلیں ٹھیک ہے بس آتی ہو گی اور ساتھ میں کافی بھی... اب مووی اینجواےُ کریں اور مسٹر جلاد زمان تیمور کو چائنہ میں ہی رہنے دیں فلحال۔"
آخر میں وہ شرارت سے بائیں کا کونا دباتا ہوا بولا۔
"سدھر جاؤ... میں زمان کو بتاؤں گی۔"
وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتی اسے گھورنے لگی۔
"خوش تو ہو لینے دیں کہ وہ چلے گئے ہیں... ہاں کچھ دنوں کے لیے ہی سہی... "
اس نے دل کو تسلی دی۔
"اچھا چلو اب سٹارٹ سے پلے کرو... "
جنت وہ سرد لہجے پس پشت ڈالتی ہوئی بولی۔
"اور کوئی حکم؟"
وہ آن کرتا ہوا بولا۔
وہ اس کے انداز پر مسکراتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی۔
جنت منہ کھولے انہماک سے اسکرین پر چلتے مناظر دیکھ رہی تھی۔ ہاتھ میں چپس کا پیکٹ تھا۔
زراد ترچھی نظریں کئے اسے دیکھنے لگا۔
وہ پوری طرح سے فلم میں مگن تھی۔
وہ محتاط انداز میں اس کے پیکٹ سے چپس نکال کر اپنے پیکٹ میں منتقل کرنے لگا۔
وہ جو مووی کے اندر جا چکی تھی اسے احساس تک نہ ہوا زراد کی اس کاروائی کا۔
"ہاےُ... "
جیسے ہی تیز خوفناک میوزک سنائی دیا وہ تکیہ منہ پر رکھتی ہوئی بولی۔
زراد نچلا لب دانتوں تلے دباےُ مسکراہٹ دبا رہا تھا۔ نظریں اب اسکرین پر تھیں۔
جنت نے پیکٹ پر نظر ڈالی تو آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔
"یہ کہاں گئیں؟"
پیکٹ کے اندر چند ایک پڑی تھیں۔
"کیا ہوا؟"
وہ سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھتا ہوا بولا۔
"میری چپس آپ نے لیں؟"
وہ حیرت مبتلا تھی۔
زراد نے اس کے سامنے اپنا پیکٹ لہرایا۔
"آپ کی کیوں لوں گا میں؟"
وہ صاف مکر گیا۔
"پھر کہاں گئیں؟"
وہ خوفزدہ سی اسے دیکھتی استفسار کرنے لگی۔
"کہیں وہ چڑیل تو نہیں لے گئی؟"
وہ ایل ای ڈی کی جانب اشارہ کرتا رازداری سے بولا۔
"وہ کیسے لے جا سکتی ہے؟"
وہ برہمی سے گویا ہوئی۔
"آہستہ بولیں... اونچی آواز سے یہ چیزیں غصہ کرتی ہیں۔"
وہ اردگرد کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔
"سچ کہہ رہے ہو؟"
وہ تھوک گلے سے اتارتی ہوئی بولی۔
جنت کی آنکھوں میں تیرتا خوف واضح تھا۔
وہ جواباً اثبات میں سر ہلانے لگا۔
"اب کیا کریں گے؟"
وہ بیچارگی سے بولی۔
"آپ کے پیچھے کیا ہے؟"
وہ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتا پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"امی... "
وہ اچھل کر صوفے سے اتری اور ریلنگ کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
دل کی دھڑکن معمول سے بڑھ گئی تھی۔
وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔
زراد قہقہ لگاتا اس کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔
"مجھے بیوقوف بنا رہے تھے؟"
وہ خفگی سے کہتی آگے آئی۔
"آپ کی شکل دیکھنے والی تھی... "
اس کے قہقہے بند ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔
"بہت ہی فضول قسم کا مذاق تھا۔"
وہ کشن اٹھا کر نشانہ بناتی ہوئی بولی۔
کشن سیدھا زراد کے منہ پر جا لگا لیکن اس کے ہنسنے میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔
اسے دیکھ کر جنت کو غصہ بھی آ رہا تھا اور ہنسی بھی۔
وہ منہ بناتی گود میں کشن رکھتی دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔
وہ اسکرین کو دیکھ رہی تھی جب زراد خاموش ہوتا اسے دیکھنے لگا۔
"آپ کو ہنسی آ رہی ہے؟"
وہ اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔
"نہیں.... مجھے غصہ آ رہا ہے۔"
وہ اسے گھوری سے نوازتی پھر سے اسکرین کو دیکھنے لگی۔
"نہیں آپ کو ہنسی آ رہی ہے... "
وہ آگے کو ہوتا اسے دیکھنے لگا۔
جنت کو اس کے انداز پر مسکراہٹ روکنا محال ہو رہا تھا۔
وہ مدھم سا مسکرائی۔
"دیکھا میں نے کہا تھا نہ... "
وہ کہتا ہوا پیچھے ہو گیا۔
"بہت بدتمیز ہو... "
وہ خفا انداز میں بولی۔
"اچھی لگتی ہیں آپ ایسے.... ہنستی ہوئی ناراض ہوتی۔"
جنت کو لگا وہ حد درجہ سنجیدہ ہے۔
اس نے فوراً رخ موڑ کر اسے دیکھا جو مسکرا رہا تھا لیکن وہ جنت کی بجاےُ اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔
وہ اس کے ہاتھ میں پکڑا پیکٹ کھینچ کر چپس کھانے لگی۔
چہرے پر خفگی نمایاں تھی۔
زراد مسکراتا ہوا صوفے کے عقب سے دوسرا پیکٹ نکالنے لگا۔
~~~~~~~~
"زمان مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی... "
وہ فون کان سے لگاےُ ٹہل رہی تھی۔
چہرے پر خوف بھی تھا کہیں وہ غصہ نہ ہو جاےُ۔
"ہممم بولو.... "
مصروف سے انداز میں جواب آیا۔
"مریم کا نکاح ہے... "
وہ بات مکمل نہ کر سکی۔
"تو؟ میں کیا کروں؟"
وہ بگڑ کر بولا۔
"ہم دونوں کو بلایا ہے۔"
وہ مناسب الفاظ تلاش کر رہی تھی۔
"میرا خیال ہے تمہیں پہلے ہی جواب دے چکا ہوں میں اس بات کا۔.زمان تیمور کی بیوی وہاں نہیں جاےُ گی۔"
"تو میں امی کو کیا بولوں؟"
وہ روہانسی ہو گئی۔
"کیا پھر سے دہراؤں میں؟ اور ہاں کان کھول کر میری بات سن لو تم فون کرو اپنے گھر کال ریکارڈ کر کے مجھے بھیجو.... صاف کہہ دو میں نہیں آؤں گی اب میرا وقت برباد کرنے کی بجاےُ یہ کام کرو... "
اسے سنے نہیں حکم صادر کرتا وہ فون بند کر گیا۔
وہ لب بھینچ کر فون کو گھورنے لگی۔
"کیسا ستم ہے یہ؟ زمان ایسا کیوں کر رہے ہیں؟"
وہ مٹھیاں بند کئے ضبط کر رہی تھی۔
"تو اصولاً مجھے وہی کرنا ہے جو زمان نے کہا... "
وہ تلخی سے مسکرائی۔
"واہ... جنت کتنی اچھی بات ہے نہ تم اس تقریب کا حصہ نہیں بنو گے... "
وہ نمبر ملاتی خود اپنے زخموں پر نمک چھڑک رہی تھی۔
"جی امی کیسی ہیں؟"
وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی بولی۔
"سب چھوڑو یہ بتاؤ آئی کیوں نہیں ابھی تک؟ سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں... "
وہ خفا تھیں۔
"امی میں نہیں آؤں گی۔ آپ لوگ اپنی تقریب مکمل کریں۔"
وہ سرد مہری سے بولا۔
"کیا مطلب؟ کیوں نہیں آؤ گی؟ زمان نے منع کیا ہے کیا؟"
انہیں خدشہ لاحق ہوا۔
"نہیں بس میرا دل نہیں کر رہا.... "
کہتے ساتھ ہی اس نے فون بند کر دیا۔
آنسو رخسار کو بھگو رہے تھے اور وہ اس بات سے انجان تھی۔
کیسا تکلیف دہ وقت تھا یہ تو جنت ہی جانتی تھی۔
ریکارڈ کی ہوئی کال زمان کو واٹس ایپ پر بھیج دی۔
شہناز پھٹی پھٹی نگاہوں سے فون کو دیکھ رہی تھیں۔
"کیا کہا؟ کب تک آےُ گی؟"
عائشہ ان کے پاس آتی ہوئی بولی۔
"کہتی نہیں آؤں گی... "
وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولیں۔
"وجہ؟"
وہ ششدر سی بولی۔
"دل نہیں کر رہا... "
وہ آہستہ سے بولیں۔
"چلو تم اپنے ابو کو کہو نکاح شروع کروائیں مہمان کب سے انتظار کر رہے ہیں..."
جنت کے رویے نے انہیں تکلیف دی تھی۔
"لیکن امی... "
"ہٹو میں خود کہتی ہوں... "
وہ اسے اپنے سامنے سے ہٹاتی ناراض سی چل دیں۔
"عجیب ہے جنت بھی شادی کے بعد کسی سے ملتی ہی نہیں ہے۔ ایسی بھی کیا انوکھی شادی ہوئی ہے اس کی کہ شوہر کے علاوہ کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا... "
وہ ہنکار بھرتی چلنے لگی۔
لمحوں کا کھیل تھا اور وہ مریم سلمان سے مریم حمزہ بن چکی تھی۔
رخصتی ہوئی، اشک بہاےُ اور وہ اپنے سسرال آ گئی۔
حمزہ اندر آیا تو مریم نے سر کو مزید جھکا لیا۔
"اسے تم شادی ہر گز مت سمجھنا... بس ایسا سمجھ لو ایک ایگریمنٹ ہے کچھ وقت میرے ساتھ رہو گی اور کے بعد یہاں سے چلی جاؤ گی۔"
وہ سرد مہری سے گویا ہوا۔
مریم کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔
شاید اس نے کوئی توقع رکھی ہی نہیں تھی۔ بس خود کو قسمت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
"تم جیسی بدکردار لڑکی کو میں کبھی اپنی بیوی کا درجہ نہ دیتا اگر حماد نے مجھے مجبور نہ کیا ہوتا... "
دھیرے دھیرے سختی بڑھتی جا رہی تھی۔
وہ متحیر سی اسے دیکھنے لگی۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ تمہارے شوہر نے بتایا ہے یہ سب... نجانے کتنے لڑکوں کے ساتھ افئیر تھا تمہارا۔"
وہ ہنکار بھرتا کھڑا ہو گیا۔
"اور آپ نے یقین کر لیا؟"
وہ متعجب تھی۔
"نہیں کرنا چائیے کیا؟"
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"اگر وہ میرا شوہر تھا تو اب آپ میرے شوہر ہیں... خود آزما کے دیکھ لیں کہ میرا کردار کیسا ہے؟"
ایک موہوم سی امید تھی جسے وہ ٹوٹتے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
"تمہارے بچوں کی صرف روٹی پانی کی ذمہ داری لوں گا میں جب تک تم میرے ساتھ ہو... باقی ہر چیز تم خود کرو گی ان کی... "
وہ اس کی بات نظر انداز کرتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہے... "
وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
دونوں کے بیچ طویل خاموشی حائل ہو گئی جسے نہ توڑنا ہی دونوں نے مناسب سمجھا۔
~~~~~~~~
"تم خود وہاں ہو اور یہاں تمہاری بیوی نجانے کیا کرتی پھر رہی ہے... "
وہ چھوٹتے ہی شروع ہو گئی۔
"کیا مطلب؟ صاف صاف بتائیں کیا کہنا چاہتی ہیں آپ؟"
زمان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"زراد کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے... کچھ خبر بھی رکھو ان کی۔"
عظمی منہ بناتی ہوئی بولی۔
"تو کیا معیوب ہے اس میں؟ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ شک کیا جاےُ... "
وہ بگڑ کر بولا۔
"یہ لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں... میں تمہیں بتا رہی ہوں کل کو کچھ... "
"مجھے زراد اور جنت دونوں پر بھروسہ ہے۔ اس لئے آپ اپنے دماغ سے یہ فتور نکال دیں۔اور ایسے فضول کاموں کے لئے مجھے فون مت کیا کریں. کام کے سلسلے میں آیا ہوں لیکن مجال ہے کہ مجھے کام کرنے دیں سکون سے۔"
وہ درشتی سے کہتا فون بند کر گیا۔
عظمی منہ بناتی فون کو دیکھنے لگی۔
"کیا ہوا؟"
ریحام بغور انہیں دیکھ رہی تھی۔
"اس نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا... الٹا مجھے سنا دیں۔"
وہ منہ بناتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"مام یہ لڑکی کب جاےُ گی اس گھر سے؟ ٹرسٹ می یہ یہاں سرونٹ بننے کے لائق بھی نہیں ہے اور زمان نے اسے مالکن بنا دیا ہے۔ مجھے بلکل بھی نہیں پسند وہ جنت... "
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
"تم مت الجھا کرو زمان کے معاملات میں اگر اسے بھنک بھی پڑ گئی نہ تو تمہارا اس گھر میں داخلہ ممنوع کر دے گا پھر روتی رہنا..."
وہ گھورتی ہوئی بولیں۔
"مہندی کا پتہ چلا زمان کو؟ کہ میں نے لگوائی تھی... نہیں نہ؟ تو بس آپ ٹینشن مت لیں اس جنت کو تو بھیج کر ہی دم لوں گی میں۔"
وہ کہتی ہوئی دروازے کو دیکھنے لگی۔
"تمہارے کام تم ہی جانو... مجھے دور ہی رکھنا اس سب سے۔"
عظمی خفگی سے کہتی باہر نکل گئی۔
~~~~~~~~
وہ بلا جواز یہاں سے وہاں گھوم رہی تھی۔
تھک کر وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
"کیا ہو جاتا زمان اگر آپ مجھے جانے دیتے...سب پتہ نہیں کیا سوچ رہے ہوں گے؟ اتنا دل کر رہا تھا میرا۔"
وہ مدھم آواز میں سرگوشیاں کر رہی تھی۔
"اور کتنا امتحان لیں گے میرے صبر کا؟ انسان ہوں میں کوئی بے جان شے نہیں... جس میں نہ کوئی احساس ہوتا ہے نہ ہی تکلیف... "
وہ آنکھوں میں نمی لئے بول رہی تھی۔
"گھر بیوی نے بنانا ہوتا ہے۔ اور اس بیوی کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ کوئی احساسات نہیں ہوتے۔محبت درکار نہیں ہوتی.... آنکھیں, منہ بند کئے بس وہ شوہر کی سنتی رہے تب وہ ایک اچھی بیوی کہلاتی ہے۔"
وہ تلخی سے گویا ہوئی۔
قدموں کی آہٹ پر وہ دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔
زراد ابراہیم کو اٹھاےُ اندر آ رہا تھا۔
"آنٹی یہ ہم آپ کے لئے لاےُ ہیں... "
وہ پرجوش انداز میں کہتا اس کے سامنے آیا۔
جنت نے اس کے ہاتھ کو دیکھا جس میں آئسکریم تھی۔
"تھینک یو... "
وہ اس کے رخسار پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔
"ماموں میں مما کو دے کے آتا ہوں...."
وہ کہتا ہوا راہداری میں بھاگ گیا۔
"یہ آپ کے لئے.... "
وہ ہاتھ میں پکڑا گلاب اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔
"میرے لئے کیوں؟"
جنت کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"راستے میں کسی غریب نے زبردستی دے دئیے... اب میں کیا کرتا؟ اس لئے آپ رکھ لیں۔"
وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔
"میں کیسے لے سکتی ہوں... "
وہ آنکھوں میں حیرت سموےُ اسے سرخ گلاب کو دیکھ رہی تھی۔
"اس میں اتنی حیرانی والی کیا بات؟ ہم دوست ہیں تو دوست ایک دوسرے کو گفٹ دیتے ہیں... پکڑیں اب میرا ہاتھ تھک گیا ہے۔"
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
وہ شش و پنج میں مبتلا تھی۔
ابراہیم کو آتے دیکھ کر اس نے وہ سرخ گلاب ٹہنی سے تھام لیا۔
"ابراہیم اِدھر آؤ..."
وہ نرمی سے مخاطب کرتی اسے اپنے پاس بلانے لگی۔
"جی... "
وہ اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔
"یہ آپ رکھ لیں... "
وہ اس کے ہاتھ میں وہی سرخ گلاب تھامتی ہوئی بولی۔
"واؤ... بہت پیارا ہے یہ... "
وہ خوشی سے چہکا۔
زراد کا منہ بن گیا۔
"ماموں یہ والی آنٹی بہت اچھی ہیں... "
وہ اس کی گود میں بیٹھتا ہوا بولا۔
"ہاں جی بہت اچھی ہیں... "
وہ خفا انداز میں بولا۔
جنت سر جھکاےُ زمین کو گھور رہی تھی۔
وہ زراد کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتی تھی اسی لیے وہ پھول ابراہیم کو دے دیا۔
لیکن زراد کا بدلا رویہ دیکھ کر اسے تشویش ہو رہی تھی۔
"ﷲ کرے میں غلط ثابت ہو جاؤں... اور ایسا کچھ نہ ہو اس کے دل میں۔"
وہ وہاں سے نکلتی ہوئی بڑبڑانے لگی۔
"کیا جو میں سوچ رہی ہوں وہ ٹھیک ہے؟"
چہرے پر فکروں کے جال بنے ہوۓ تھے۔
"زراد سے اب دور رہنا پڑے گا... ایسا نہ ہو کچھ غلط ہو جاےُ۔"
وہ متفکر سی بولی۔
اذان سن کر وہ نماز کی نیت سے اپنے کمرے کی جانب چل دی۔
~~~~~~~~
"اسے ہٹاؤ یہاں سے... "
وہ کوفت زدہ سا بولا۔
"ایسا بھی کیا ہو گیا؟"
وہ رانیہ کو اٹھاتی ہوئی بولی۔
"میرے بچے نہیں ہیں یہ... "
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہے تو پھر آپ نے یہ نکاح کیوں کیا بتا دیں؟"
وہ رانیہ کو گود میں اٹھاےُ اسے دیکھ رہی تھی۔
"زیادہ سوال جواب کرنے کی ضرورت نہیں..
بس کچھ ہی وقت ہے خاموشی سے گزار لو تو ہم دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔"
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"اگر یہی نصیب میں لکھا ہے تو پھر یہی سہی... "
وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔
~~~~~~~~
"زمان آپ واپس کب آئیں گے؟"
لہجے میں اداسی تھی۔
"کیوں مس کر رہی ہو مجھے؟"
وہ محظوظ ہوا۔
"نہیں کرنا چائیے کیا؟"
اس کی زبان سے پھسلا۔
کہیں وہ غصہ نہ ہو جاےُ... وہ زبان دانتوں تلے دباےُ سوچنے رہی تھی۔
"بلکل کرنا چائیے... لیکن باقی لوگوں کے لحاظ سے تو تمہیں خوش ہونا چائیے مجھ سے جان چھوٹ گئی۔"
وہ ہنسا۔
"نہیں... مجھے تو عادت ہو گئی ہے آپ کی۔ شاید ان تکلیفوں کی بھی۔"
آخری بات وہ دھیرے سے بولی۔
"تمہارے لئے میں نے ایک بلیک کلر کی ساڑھی لی ہے... "
وہ ساحل سمندر پر ٹہل رہا تھا۔
رات کے وقت یہ منظر مزید دلکش ہو گیا تھا۔
"آپ کو بلیک کلر بہت پسند ہے؟"
یکدم اسے خیال آیا۔
"ہاں صرف بلیک کلر پسند ہے مجھے... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"میں تھک گئی ہوں گھر رہ رہ کر... آپ جلدی آ جائیں نہ۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"سندس اور زراد کے ساتھ آؤٹنگ پر چلی جاؤ۔"
وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔
"نہیں... آپ کے ساتھ ہی جاؤں گی میں۔"
زراد کے نام پر وہ گھبرا گئی۔
"پھر انتظار کرو... بس میرا کام مکمل ہو جاےُ۔"
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
"میں دعا کروں گی آپ کے لئے... "
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"یہ دعا وغیرہ سے کچھ نہیں ہوتا... جس میں پانے کی لگن ہو وہ سب حاصل کر لیتا۔"
وہ ناگواری سے بولا۔
جیسے اسے یہ بات پسند نہ آئی۔
"اچھا... پھر کس دن آئیں گے آپ؟ سب مجھ سے پوچھتے ہیں۔"
وہ اسے غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی اس لئے فوراً موضوع سے ہٹ گئی۔
"امید ہے دس دن بعد... "
وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
"چلیں ٹھیک ہے... "
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"اوکے ٹاک ٹو یو لیٹر(ٹھیک ہے بعد میں بات کرتا ہوں تم سے) "
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
"خدا حافظ بھی نہیں بولنے دیتے... "
وہ فون کو گھورتی ہوئی بولی۔
"شکر ہے اب غصہ نہیں کرتے.... کیا پتہ جب واپس آئیں پھر بلکل بھی نہ کریں۔"
وہ فون سینے سے لگاتی حسرت سے بولی۔
"آپ نہیں ہیں تو کوئی کام ہی نہیں ہے کرنے کو... "
وہ کمرے کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"یہ دس دن گزر جائیں... پھر وہی پہلے والی روٹین میرے کھڑوس سر تاج۔"
وہ اپنے تبصرے پر خود ہی مسکرا دی۔
~~~~~~~~
"تم سلائی سیکھنے کیوں جاتی ہو؟"
وہ اسے بیٹھتے دیکھ کر بولیں۔
"حمزہ نے کہا ہے بچوں کا آدھا خرچا میں خود کروں گی۔ وہ صرف کھانا دے گا باقی کپڑے وغیرہ سب میں خود کروں۔"
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
"سنا تھا کہ بہت شریف لڑکا ہے اب ایسے کر رہا تمہارے ساتھ... "
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
"کیا فرق پڑتا ہے اگر میں سلائی کر کے کچھ پیسے کما لوں تو؟ ویسے بھی گھر کا کام بھی اتنا نہیں ہوتا۔"
وہ مدھم سا مسکرائی۔
"لیکن میری بچی... "
"امی آپ فکر مت کریں... میں وہاں پرسکون ہوں اور سکون ہی تو چاہتی تھی میں... "
وہ ان کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے... لیکن کیسا انسان ہے جو تمہیں کہہ رہا کمانے کو۔"
وہ خفا انداز میں بولیں۔
"امی میرا کچھ چلا نہیں جاےُ گا... اور حماد سے برا انسان تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی نے ورغلایا ہے حمزہ کو تاکہ وہ مجھ سے بد گمان رہے۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی تاسف سے بولی۔
"تو تم اس کے دل میں جگہ بنا لینا تاکہ وہ تمہیں چھوڑے نہ... ورنہ حماد تو..."
"امی آپ فکر مت کریں... میں آہستہ آہستہ ان کے دل میں جگہ بنا لوں گی اور اب جب وہ خود میرے ساتھ رہیں گے تو انہیں اندازہ ہو جاےُ گا۔"
وہ پر عزم تھی۔
"ﷲ تمہارے نصیب اچھے کرے... میری تو بس یہی دعا ہے تم تینوں اپنے گھروں میں خوش اور آباد رہو... "
وہ نم آنکھوں سے مسکراتی ہوئی بولیں۔
"ایسا ہی ہوگا... اب آپ بیٹھیں میں چاےُ بنا کر لاتی ہوں۔"
وہ ان کا منہ تھپتھپاتی کھڑی ہو گئی۔
"لو اب تم کیوں بناؤں گی؟ میں بنا دیتی ہوں... "
وہ کہتی ہوئی اٹھنے لگیں۔
"آپ تھک جاتی ہیں بیٹھی رہیں اور اب بہو لانے کی تیاری کریں....اکیلی کیسے سب کریں گیں آپ؟"
وہ خفگی سے کہتی باہر نکل گئی۔
"جب ﷲ کو منظور ہوا... "
وہ مسرت سے بولیں۔
~~~~~~~~
"آپ مجھ سے کترا رہی ہیں؟"
وہ اس کے راستے میں حائل ہوتا ہوا بولا۔
"نہیں... میں ایسا کیوں کروں گی؟"
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
"جھوٹ بول رہی ہیں... میں نوٹ کر رہا ہوں کچھ دنوں سے۔"
وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"زراد مجھے جانے دو کام کرنا ہے۔"
وہ اس موضوع پر آنا نہیں چاہتی تھی۔
"کام بعد میں ہو جاےُ گا ابھی مجھے بتائیں... "
وہ سینے پر بازو باندھتا ہوا بولا۔
"کیا بتاؤں؟"
جنت کا منہ کھل گیا۔
"کیوں اگنور کر رہی ہیں مجھے؟"
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
"ایسا کچھ نہیں لیکن اگر ابھی بھی یہی سمجھنا ہے تو مرضی آپ کی۔"
وہ کہتی ہوئی سائیڈ سے نکل گئی۔
"آپ ناراض ہیں؟"
وہ اس کے ساتھ چلنے لگا۔
"کیوں؟"
اس نے الٹا سوال داغا۔
راہداری سے نکل کر دونوں زینے چڑھنے لگے۔
"بتا دیں نہ... "
اسے خاموش پا کر وہ پھر سے بولا۔
"زمان آنے والے ہیں مجھے تنگ مت کرو... ہر چیز پرفیکٹ ہونی چائیے۔"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"حد ہے ویسے... "
وہ تاسف سے دیکھ رہا تھا۔
"کیا کہنا ہے بولو؟"
وہ ریلنگ کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔
"ناراض تو نہیں ہوں گیں؟"
وہ ہچکچا رہا تھا۔
"اگر آپ کو لگ رہا ہے میں ناراض ہو جاؤں گی تو ایسی بات کرنا ہی کیوں چاہتے ہو؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"اچھا... "
وہ سانس خارج کرتا ہوا بولا۔
"میں جاؤں؟ لیٹ ہو گئی تو کچھ نہ کچھ رہ جاےُ گا۔"
وہ ایک قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔
"میں آپ کو پسند کرتا ہوں...پتہ نہیں کب کیسے لیکن یہی سچ ہے۔زمان آپ کے قابل نہیں ہے۔"
وہ سرعت سے بولا۔
"بس کرو... سوچ بھی کیسے لیا تم نے ایسا؟ مجھے ایسی امید نہیں تھی کم از کم اس رشتے کا لحاظ ہی کر لیتے... "
وہ دکھ اور غم کی حالت میں تھی۔
"آپ غلط سمجھ رہی ہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"غلط؟"
وہ زیر لب دہراتی تعجب سے بولی۔
"تمہارے دل میں اس رشتے کا احترام باقی نہیں رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں میں بھی اپنی تربیت بھول جاؤں.... تم یہ بات اپنی زبان لاےُ بھی کیسے ہاں؟"
وہ پھٹ پڑی۔
"مجھے کچھ نہیں پتہ یہ سب کیسے ہوا... لیکن یقین کریں میں نے کبھی آپ پر بری نظر نہیں رکھی میں بس آپ کو ان دکھ تکلیفیں سے نکالنا چاہتا ہوں... "
وہ جھنجھلا کر بولا۔
"دوبارہ مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے... تم نے اس دوستی کا بھی قتل کیا ہے۔"
وہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھتی وہاں سے چل دی۔
"بات تو سنیں میری.... آپ... "
وہ اس کے پیچھے لپکا لیکن وہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔
"یار غلط سمجھ رہی ہیں آپ... میں تو بس آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں کیا برائی ہے اس میں؟"
وہ بند دروازے کو دیکھتا تھکے تھکے انداز میں بولا۔
~~~~~~~~
"مریم کھانا نہیں بنایا تم نے؟"
حمزہ کمرے میں آیا تو وہ سلائی مشین کے رکھے بیٹھی تھی۔
"جی بنایا ہے... آپ ہاتھ منہ دھو لیں میں گرم کر کے لاتی ہوں۔"
وہ اپنا کام وہیں چھوڑ کر باہر نکل گئی۔
حمزہ نے ایک نظر حسن پر ڈالی جو بیڈ پر بیٹھا کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ پاس ہی رانیہ سو رہی تھی۔
وہ نفی میں سر ہلاتا واش روم میں چلا گیا۔
"کل کہاں گئی تھی تم؟"
وہ ٹرے ٹیبل پر رکھ رہی تھی جب وہ بولا۔
"امی کی طرف... آپ کو صبح بتایا تو تھا۔"
وہ کہتی ہوئی بیٹھ گئی۔
"کب بتایا مجھے؟ سچ سچ بتا دو کس سے ملنے گئی تھی؟"
وہ اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔
"قسم لے لیں جھوٹ نہیں بول رہی میں... "
وہ آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھ رہی تھی۔
اس کی آنکھوں کے بدلتے موسم نے حمزہ کو مبہوت کر دیا۔
اس کی گرفت ڈھیلی پڑی۔
"امی کو فون کر کے پوچھ لیں اگر نہیں یقین تو... "
وہ اسے نرم پڑتے دیکھ کر پھر سے گویا ہوئی۔
"چاےُ کے لئے الگ سے بکواس کرنی پڑے گی؟"
وہ اس کی بازو چھوڑتا لہجے کو سخت بناتا ہوا بولا۔
"لاتی ہوں... "
وہ متحیر سی کہتی باہر نکل گئی۔
"ڈرامے باز کہیں کہ... آنسوؤں کے ذریعے مجھے نرم کرنا چاہتی ہے۔ اچھے سے جانتا ہوں ایسی دوغلی لڑکیوں کو۔"
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
~~~~~~~~
زمان گھر آنے کی بجاےُ آفس چلا گیا۔
سب متحیر سے واپس آ گئے۔
"دو مہینے بعد واپس آےُ اور آتے ہی آفس چلے گئے... "
وہ منہ بسورتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"اب پتہ نہیں کس ٹائم آئیں گے... فون کر کے پوچھ لوں؟"
وہ خود کلامی کر رہی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی تو وہ چہرہ اٹھا کر دیکھنے لگی۔
سندس ابراہیم کو اٹھاےُ اندر آ گئی۔
"اگر ایزی ہو تو میں ابراہیم کو چھوڑ جاؤں تمہارے پاس؟"
وہ اس کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔
"ابراہیم کے ساتھ کوئی ان ایزی کیسے ہو سکتا ہے؟"
وہ اسے پکڑتی ہوئی بولی۔
"مما مجھے چاکلیٹس دیں گیں نہ آنٹی؟"
وہ سندس کو دیکھتا ہوا بولا۔
"اممم چاکلیٹس.... جنت تم ایسا کرنا کسی ملازم کو بھیج کر منگوا لینا۔ میں ریحام کے ساتھ جا رہی ہوں کام سے۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"آپ ٹینشن مت لیں... بے فکر ہو کر جائیں۔"
وہ جواباً مسکرائی۔
"تھینک یو... آنٹی کو تنگ مت کرنا۔"
وہ ابراہیم کے رخسار پر بوسہ دیتی باہر کی جانب چل دی۔
"ہم ویڈیو گیم کھیلیں؟"
وہ جنت کو دیکھتا ہوا بولا۔
"کون سی گیم پسند ہے ابراہیم کو؟"
وہ بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
"کار والی... "
وہ پرجوش انداز میں بولا۔
دو گھنٹے بعد زمان وہاں نمودار ہوا۔
"آپ آ گئے؟"
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"میرے کپڑے دو اور ایلن کو بولو کافی لے کر آےُ جلدی۔"
وہ تھکا تھکا دکھائی دے رہا تھا۔
"آپ یہ کھاؤ میں آتی ہوں... "
وہ اسے بیڈ پر بٹھاتی ہوئی بولی۔
"ماموں!"
وہ چہکتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔
"میرا چیمپ کیسا ہے؟"
وہ اسے اٹھاتا ہوا بولا۔
"میرے ٹوائز؟"
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
"بہت سارے ٹوائز ہیں... پہلے کس دو ماموں کو... "
وہ اپنی رخسار پر انگلی رکھتا ہوا بولا۔
ابراہیم نے فوراً اس کے رخسار پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔
"گڈ... "
وہ اس کے گال پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔
"مما کہاں ہیں؟"
وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
"مما نہ... شاپنگ۔"
وہ آنکھیں ٹپٹپاتا ہوا بولا۔
"آپ بیٹھو ماموں چینج کر لیں... "
وہ اسے صوفے پر بٹھاتا ہوا بولا۔
جنت کافی لے کر آئی تو وہ چینج کر چکا تھا۔
"اتنی دیر لگتی ہے؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگا۔
"سوری... وہ ایلن کوارٹر میں گئی تھی تو..."
"لاؤ اب دو... میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔"
وہ اس کی بات کاٹتا برہمی سے بولا۔
"جی... "
وہ گھبراتی ہوئی آگے آ گئی۔
"میرا لیپ ٹاپ نکالو بیگ سے اور چارجنگ پر لگاؤ... "
وہ مگ پکڑتا ہوا بولا۔
"بیگ کہاں ہیں آپ کے؟"
وہ اردگرد نگاہ ڈالتی ہوئی بولی۔
"نیچے ہی ہوں گے... اب کیا میں اٹھا کر لاؤں گا یہاں؟"
وہ گھورتا ہوا بولا۔
"اچ..اچھا میں لاتی ہوں۔"
وہ کہتی ہوئی سرعت سے باہر نکل گئی۔
"ایک ایک بات سمجھانی پڑتی ہے اسے... "
وہ کوفت سے بولا۔
~~~~~~~~
"بڑی دیر لگا دی..."
ریحام اس سے ملتی ہوئی بولی۔
"کیوں تمہیں کام تھا مجھ سے؟"
وہ تیکھے تیور لئے بولا۔
"نہیں لیکن دو مہینے شاید بہت ٹائم ہوتا ہے۔"
وہ سنبھل کر بولی۔
زمان ناگواری سے دیکھتا آگے بڑھ گیا۔
"غصہ چھوڑو یہ بتاؤ کام ہو گیا؟"
سندس اس سے گلے ملتی ہوئی بولی۔
"ہاں بس ایسا ہی سمجھ لو... "
وہ کہتا ہوا بیٹھ گیا۔
"پھوپھو کا فون آیا تھا پوچھ رہی تھیں تمہارا...."
سندس اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
"انہیں کہہ دو عادل کو لے کر آ جائیں مجھے کچھ کام ہے۔"
وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا۔
سندس سانس خارج کرتی عظمی کو دیکھنے لگی۔
"شکر کرو اس نے ہاں بول دیا ورنہ کیا معلوم غصہ کر جاتا.... "
عظمی آگے کو ہوتی سندس کے کان میں سرگوشی کرنے لگی۔
سندس مبہم سا مسکراتی اثبات میں سر ہلانے لگی۔
زمان عادل کے ہمراہ باہر تھا جبکہ باقی تمام افراد اندر موجود تھے۔
ریحام کی نگاہیں جنت پر تھیں جو سندس سے بات کرتی مسکرا رہی تھی۔
چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
ٹیبل سے اپنا فون اٹھایا اور اس پر انگلیاں چلانے لگی۔
"اب مزہ آےُ گا... "
وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔
چہرے پر بھرپور طمانیت تھی۔
زمان ہاتھ میں سیگرٹ پکڑے کھڑا تھا جب فون پر مسیجز آنے لگے۔
"ون منٹ(ایک منٹ) "
وہ عادل کو اشارہ کرتا فون چیک کرنے لگا۔
ریحام کا نام دیکھ کر اس نے نظر انداز کرنا چاہا لیکن اس کے میسج پر ٹھٹھک گیا۔
"یہ سچ آپ کو معلوم نہیں ہے۔اس لئے آگاہ کر رہی ہوں کہ چوکنا رہیں۔"
میسج پڑھتے پڑھتے زمان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"واٹ دا ہیل.... "
وہ چلاتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
"زمان کیا ہوا؟"
عادل ہکا بکا اس کے پیچھے لپکا۔
"جنت... "
وہ حلق کے بل چلایا۔
"جی؟"
وہ گھبرا کر اپنی نشست سے کھڑی ہو گئی۔
"تم جیسی گھٹیا لڑکی آج تک نہیں دیکھی میں نے... "
وہ اس کی بازو پکڑ کر اپنے سامنے لا کر ایک تھپڑ رسید کرتا ہوا بولا۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
"شرم نہیں آئی تمہیں یہ سب کرتے ہوۓ... "
کہتے ساتھ ہی اس نے ایک اور تھپڑ دے مارا۔
سب حیران پریشان کھڑے تھے لیکن کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ اسے روک سکے یا استفسار کر سکے۔
"بے حیا لڑکی.... "
وہ غصے میں چلاتا اس کے چہرے پر تھپڑ مارتا جا رہا تھا۔
زراد ضبط کئے کھڑا تھا۔
اپنے سامنے یہ ظلم چاہ کر بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
"زمان لیکن ہوا کیا؟"
وہ آنسو بہاتی ہوئی بولی۔
"یہ بھی میں تمہیں بتاؤں؟"
زمان نے اسے کتنے تھپڑ مارے اس نے حساب نہیں رکھا۔
"بس... بہت ہو گیا یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا۔"
زراد اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
عظمی اور سندس ششدر سی اسے دیکھنے لگیں۔
"یہ کیا کر رہا ہے؟"
عظمی نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
"آئی ڈونٹ نو(مجھے نہیں معلوم) "
وہ شانے اچکاتی متعجب سی بولی۔
ابراہیم کا چہرہ اس نے پیچھے کر دیا تھا۔
"تمہاری اتنی جرأت کہ میرے معاملے میں مداخلت کرو.... "
وہ اسے گریبان سے پکڑ کر مکا مارتا ہوا غرایا۔
"جس طرح آپ ان کے ساتھ کر رہے ہیں یہ ہر گز قابل قبول نہیں... آپ کو نظر نہیں آ رہی ان کی حالت؟"
وہ اس کے مکے کا اثر کئے بنا بولا۔
"تم ہو کون بولنے والے؟ یہ میری بیوی ہے میں جو چاہے اس کے ساتھ کرو... (ہو دا ہیل یو آر) "
وہ اسے گریبان سے پکڑ کر دھکا دیتا ہوا بولا۔
"آپ کی بیوی ہونے سے پہلے وہ ایک انسان ہیں... اور ایک لڑکی جو آپ کے ہاتھ کی گرمی برداشت نہیں کر سکتیں.... "
وہ چبا چبا کر بولا۔
"اپنی بکواس بند کر لو زراد... "
وہ آگے بڑھ کر اس کے منہ پر پھر سے مکا رسید کر چکا تھا۔
اتنی توہین، اتنی ہتک، جنت کو اپنا آپ زمین میں گڑھتا محسوس ہو رہا تھا۔
"اس جیسی بدکردار لڑکیوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔"
وہ قہر آلود نظروں سے جنت کو دیکھتا ہوا بولا۔
"زمان بات تو بتاؤ ہوا کیا؟"
عظمی آہستہ سے بولی۔
"جان کر کیا کر لیں گیں آپ؟ اس گھر میں رہتے ہوئے جب آپ کے علم میں نہیں تو اب کیا اکھاڑ لیں گیں... "
توپوں کا رخ اب اس جانب پر گیا۔
"مام ابھی مت چھیڑیں اسے... "
سندس نے سرگوشی کی۔
جنت کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
رخسار پر اس کی انگلیوں کے نشان ثبت ہو چکے تھے۔
وہ تو اپنا قصور بھی نہیں پوچھ سکتی تھی۔
"اپنی شکل لے کر دفع ہو جاؤ یہاں سے... "
وہ جنت کے سامنے آتا ہوا بولا۔
وہ نگاہیں جھکاےُ دروازے کی جانب بڑھنے لگی۔
نظریں ملانے لائق چھوڑا ہی کہاں تھا زمان نے۔
آبسب کے سامنے اس کا کردار مشکوک بنا دیا تھا۔
"بلکہ رکو... ایلن اسے باہر گارڈن میں پھینک آؤ اگر تم وہاں سے ایک انچ بھی ہلی تو دیکھنا کیا حشر کرتا ہوں میں تمہارا... "
وہ اس کا منہ اوپر کرتا ہوا بولا۔
ہاتھ ایسے مانو لوہے سے بنے ہوں۔
وہ سہم کر اسے دیکھنے لگی۔
"لے جاؤ اس بے غیرت کو... "
وہ اسے پرے دھکیلتا ہوا بولا۔
زراد آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھ رہا تھا۔
اس کے باعث زمان نے آدھا غصہ اس پر نکال دیا شاید کچھ بچت ہو ہی گئی جنت کی۔
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی ایلن کے ہمراہ باہر نکل گئی۔
جنت نے آج ساڑھی پہن رکھی تھی۔ مہرون اور سکن کلر کی۔ وہ اچھی لگ رہی تھی لیکن اس کا نصیب اتنا اچھا نہیں تھا۔
رات کی تاریکی عروج پر تھی۔
گارڈن میں اکا دکا روشنیاں جل رہی تھیں۔
وہ سر جھکاےُ بیٹھی تھی۔
اشک تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
"کمرے میں تو پھر کسی حد تک ٹھیک تھا... لیکن یوں سب کے سامنے..."
وہ سسکتے ہوۓ بولی۔
"زمان آپ نے سب کے سامنے میرے کردار پر انگلی اٹھائی ہے کیا میں آپ کی عزت نہیں؟ جسے آپ نے سب کے سامنے اچھال دیا۔اتنی تضحیک کے بعد شاید انسان مر جاتا ہو،لیکن میں تو زندہ ہوں... مجھے کیوں موت نہیں آئی؟ جنت تم مر کیوں نہیں گئی جب وہ سب کے سامنے تمہارے کردار کی دھجیاں اڑا رہے تھے۔ کس مٹی سے بنی ہو؟ کیوں اثر نہیں ہوتا تمہیں؟"
وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔
آنسو تواتر کے ساتھ بہہ رہے تھے یہی تو غم خوار تھے اس کے۔یہی اس کے دکھ کے ساتھی تھی۔
"اتنا ظلم؟ اتنی اذیت؟ میں کیونکر حقدار ہوں اس کی؟"
وہ خود سے استفسار کر رہی تھی۔
"کیوں یہ سب برداشت کر رہی ہو تم؟ اس رشتے کا کوئی مستقبل دکھائی دیتا ہے تمہیں؟ زمان جیسا انسان جو خود کو انسان نہیں خدا سمجھتا ہے تم اس سے توقع رکھ رہی ہو تغیر ہونے کی؟"
آج اسے پہلی بار اپنی حالت پر ترس آ رہا تھا۔
ہونٹ سے بہتی ہوئی خون کی پتلی سی لکیر اب تک جم چکی تھی۔
افق بھی بادلوں سے لبریز تھا۔
آج نہ تو چاند دکھائی دے رہا تھا نہ ہی کوئی ستارہ۔ وہ بھی خفا ہو کر چھپے بیٹھے تھے۔ اس کی زندگی میں بھی ایسی ہی سیاہی تھی اس رات جیسی سیاہی جس میں راستے ملا نہیں کرتے بلکہ گمراہیاں نصیب ہوا کرتی ہیں۔
"بس یہی زندگی ہے کیا؟ ساری زندگی یہی سب چلتا رہے گا... "
وہ سیاہ آسمان کو دیکھتی بول رہی تھی۔
دو موتی ٹوٹ کر رخسار پر آ گرے۔
اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بازو ٹانگوں کے گرد باندھے اور گھٹنوں پر سر رکھ لیا۔
رات طویل تھی تو اس کے پاس بھی سوچوں کا لامحدود سمندر تھا۔
وہ لاچار سا کھڑکی میں کھڑا تھا۔
"میرا نیچے جانا آپ کے لئے مزید مشکلات کھڑی کر دے گا؟"
اشک اس کے رخسار پر گرے خشک ہو رہے تھے۔
جنت کو اس حال میں دیکھنا کسی اذیت سے کم نہ تھا۔
"آپ کیوں برداشت کر رہی ہیں یہ سب؟ چلی کیوں نہیں جاتی یہاں سے؟ بھاڑ میں گئی مجبوریاں... آپ کی ذات سب سے اہم ہے جسے آپ نے خود پس پشت ڈال دیا ہے۔"
وہ جنت کے بے حس وجود کو دیکھتا ہوا بولا۔
"آپ خود اپنے حال پر رحم نہیں کھانا چاہتی تو زمان سے کیسے توقع رکھ سکتی ہیں؟"
کھڑکی کے شیشے پر ہاتھ رکھے، نگاہیں جنت پر تھیں جنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنا زاویہ تبدل نہیں کیا تھا۔
"کاش... کاش میں آپ کو نکال سکتا اس سب سے۔ آپ کو اس قید سے رہائی دلا پاتا۔لیکن سب سے بڑی دشمن آپ خود ہیں.... "
لبوں کے ہمراہ آنکھوں میں بھی شکوے در آےُ۔
"بہت غلط کر رہی ہیں آپ... "
زراد کہتا ہوا فرش پر بیٹھ گیا۔
"کیسے کھیل ہیں قسمت کے؟"
وہ طنزیہ ہنسا۔
آنکھوں کی برسات نیچے بھی ہو رہی تھی اور اس کمرے میں بھی۔
نجانے کس کی زندگی میں سونامی آنے والے تھی؟
~~~~~~~~
"مما... "
رانیہ روتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
"کیا ہوا میری بیٹی کو؟"
وہ اسے سینے سے لگاتی ہوئی بولی۔
وہ روتی ہوئی کمرے کی جانب اشارہ کرنے لگی جہاں اس کی نندیں بیٹھی تھیں۔
"باجی رانیہ کو کیا ہوا؟"
وہ اندر آتی آہستہ سے بولی۔
"عبدﷲ نے کھلونا توڑ دیا اس کا... کیا ہو گیا بچہ تو ہے۔"
طاہرہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
مریم نے ایک نظر عبدﷲ پر ڈالی جو لگ بھگ نو سال کا ہوگا۔
"مما... "
وہ روتے ہوۓ ٹوٹے کھلونے کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
"ماما آپ کو نیا لا دیں گیں... "
وہ اس کے رخسار پر گرے آنسو صاف کرتی باہر نکل گئی۔
حمزہ کے آتے ہی ایک نیا ہنگامہ برپا ہو گیا۔
"کیسی بیوی ہے تمہاری جس کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے... اپنے بچوں کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا اسے۔ نہ ہمیں صحیح سے پوچھا اس نے... "
وہ طاہرہ کی آواز تھی۔
مریم کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"تم دونوں یہیں بیٹھو میں آتی ہوں... "
وہ حسن اور رانیہ کو کہتی کمرے میں چل دی۔
"یہ کیا سن رہا ہوں میں؟"
مریم کو دیکھتا وہ برہمی سے بولا۔
"میں نے کیا کیا؟"
وہ معصومیت سے بولی۔
"تمہارے سامنے دیکھو کیسے میسنی بن رہی ہے۔ نہ ہمیں کچھ کھانے کو پوچھا نہ ہی کوئی بات کی بس اپنے بچوں کو لے کر بیٹھی رہی جب ہم نے کہا تو کہتی میرے پاس وقت نہیں... "
وہ ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بولتی جا رہی تھی۔
"نہیں حمزہ یہ جھوٹ ہے... میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"لو اب یہ ہمیں جھوٹا کہہ رہی ہے.... یہی لڑکی ملی تھی تمہیں سارے جہان میں۔"
رمشا(چھوٹی بہن) تڑخ کر بولی۔
"حمزہ میں سچ بول رہی ہوں میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔"
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"تو ہم جھوٹے ہیں کیا؟ بس یہی سب دیکھنا رہ گیا تھا اب ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوگا اور تم خاموش کیوں کھڑے ہو؟ ابھی سے بیوی کے پیچھے لگ گئے ہو؟"
طاہرہ اسے جھنجھوڑتی ہوئی بولی جو برہمی سے مریم کو دیکھ رہا تھا۔
"معافی مانگو باجی سے... "
وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔
"میں سچ بول رہی ہوں..."
وہ سادگی سے بولی۔
"میں نے بکواس کی معافی مانگو اور آئیندہ اگر تم نے ایسا کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
"معاف کر دیں مجھے... "
مریم ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی۔
"دیکھا ایسے کنٹرول میں رکھتے ہیں... اپنے بھائی کو اس کی مٹھی میں جانے نہیں دیں گے۔"
طاہرہ رمشاء کے کان میں سرگوشی کرنے لگی۔
مریم آنسو پیتی باہر نکل گئی۔
~~~~~~~
"ویسے تو میں تمہارے ماں باپ کو بلا کر یہاں سے نکال پھینکے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن پھر بھی ایک موقع دے رہا ہوں اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہو گی؟ مہسم سے تم ملاقاتیں کرتی تھی وہ بھی میرے گھر میں... اتنی جرأت مند ہو؟"
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا اس کا منہ اوپر کرتا ہوا بولا۔
غصہ رات کی نسبت کم ہو چکا تھا۔
"اگر تم مکر جانے کا سوچ رہی ہو تو میں تمہیں دکھا دیتا ہوں... یہ دیکھو کیسے تمہارے ہاتھ پکڑے کھڑا ہے۔ یہیں اسی گارڈن میں کھڑے ہو نہ تم دونوں.... واہ کتنی محبت ہے دونوں کے بیچ۔"
وہ فون کی اسکرین سامنے کرتا چبا چبا کر بولا۔
جنت کے چہرے پر صرف سنجیدگی تھی۔
"اور یہاں تو دیکھو ڈرائینگ روم میں... ویسے داد دینی پڑے گی تمہاری ہمت کو ڈرائینگ روم تک لے آئی۔ یہ بتاؤ کمرے تک لائی۔"
"شٹ اپ..."
وہ زمان کے منہ پر تھپڑ مارتی ہوئی غرائی۔
لمحہ بھر کو اسے یقین نہیں آیا کہ یہ حرکت جنت نے کی ہے۔
"بہت سن لی میں نے آپ کی لیکن اب مزید ایک لفظ نہیں سنوں گی میں۔"
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
وہ تیوری چڑھا کر اسے دیکھتا کھڑا ہو گیا۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے پر ہاتھ اٹھانے کی؟"
بالوں سے جکڑ کر سر اوپر کیا۔
"صفائی؟ کیسی صفائی؟ آپ جیسے انسان کو میں ایک لفظ بتانا گوارا نہیں کرتی۔ جب فیصلہ سنا چکے تو اب کیا سننے آےُ ہیں آپ؟ سب کے سامنے مجھے رسوا کر دیا تب خیال نہیں آیا آپ کو؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھی۔
تکلیف کا شائبہ تک نہ تھا اس کے چہرے پر۔
"تمہاری زبان پھر سے بہت چلنے لگی ہے... میرے آگے بولنے سے گریز کیا کرو زمان تیمور ہوں میں... "
وہ بال چھوڑ کر اسے بازو سے پکڑ کر کھینچتا ہوا بولا۔
"مجھے فرق نہیں پڑتا اب... اور آپ مجھے کیا نکالیں گے یہاں سے میں خود آپ کا گھر چھوڑ کر جاؤں گی۔ نہیں رکھنا مجھے آپ سے رشتہ۔"
آج انتہا ہو گئی تھی۔
اس سے زیادہ وہ چپ نہیں رہ سکتی تھی۔
"اچھا تو پھر میں دیکھتا ہوں تم کیسے یہاں سے جاؤ گی... اب تو میری بھی ضد ہے اور یہ جو تم نے کیا نہ اس کا حساب بھی دینا ہے تمہیں... "
وہ چیلنج کرنے والے انداز میں بولا۔
"آپ طلاق دیں ورنہ میں خلع کے لئے کورٹ جاؤں گی..."
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بولی۔
"اتنی نڈر ہو گئی ہو؟ لیکن تم بھول رہی ہو یہ زمان ویلا ہے جہاں صرف میرا حکم میری بات مانی جاتی ہے۔ یہاں موجود ہر شخص صرف میری بات مانتا ہے۔میری بات رد کرنے کی اجازت کسی کو نہیں۔نہ ہی کسی میں اتنی جرأت ہے کہ وہ میری بات کی تردید کر سکے۔ اور تم ہو کیا ہاں؟ چیونٹی کی طرح لمحے میں مسل کر رکھ دوں گا تمہیں.. "
وہ مغرورانہ انداز میں کہتا ہوا اندر کی جانب چلنے لگا۔
"اور اگر یہی چیونٹی ہاتھی کے ناک میں چلی جاےُ تو اسے موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔"
وہ زمان کو گھورتی ہوئی بولی لیکن وہ سن نہیں سکا۔
جنت کی بازو ابھی تک اس کی فولادی گرفت میں تھی جس کے باعث اسے بھی چلنا پڑا۔
"زمان چھوڑیں مجھے... "
وہ خود کو آزاد کروانے کی سعی کر رہی تھی۔
وہ بولتی جا رہی تھی لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
کمرے میں لا کر اس نے جنت کو زمین پر پٹخ دیا اور اس کا فون اٹھا لیا۔
"باہر نہیں نکلو گی تم... "
تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ وہ باہر نکل گیا۔
وہ دروازہ لاک کر کے جا چکا تھا۔
"یہ سب کیا ہے؟"
وہ ہکا بکا رہ گئی۔
"جاؤں گی تو میں بھی ضرور... دیکھتی ہوں کیسے آپ مجھے روکتے ہیں۔ اب مزید یہ سب برداشت نہیں کروں گی میں... رہا امی کا وعدہ تو اکثر وعدے ٹوٹ ہی جاتے ہیں۔"
وہ تلخی سے گویا ہوئی۔
آنکھ میں آنسو نہیں عزم تھا۔
اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا۔
"زمان تیمور اب آپ کو معلوم ہوگا کہ جنت کون ہے؟"
وہ کھڑکی میں آتی اس کی گاڑی کو دیکھنے لگی۔
"اب جنت نہیں روےُ گی اب باری زمان تیمور کی ہے۔ اب انصاف ہوگا۔"
وہ سپاٹ انداز میں کہتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"ایلن سب کو بلا کر لاؤ... "
وہ کچن میں اسے کہہ کر باہر نکل گیا۔
پانچ منٹ میں سب افراد وہاں موجود تھے سواےُ جنت کے۔
"میری بات کان کھول کر سن لو تم زراد... "
وہ اسے کالر سے پکڑ کر آگے کرتا ہوا بولا۔
زراد کے چہرے پر بیزاری تھی۔
"مام کے منت کرنے پر میں تمہیں یہاں رہنے کی اجازت دے رہا ہوں ورنہ جو تم نے کیا اس کے بعد میں تمہیں اس گھر میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور تم سڑک پر بھیک مانگتے نظر آؤ... یہ میرا پیسہ ہے جس پر تم سب عیش کرتے ہو میری بدولت یہ لائف اسٹائل تم سب کو ملا ہے۔ میں ہاتھ روک لوں تو ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی ترسو گے۔ میرا شکر گزار ہونے کے بجاےُ تم میرے آگے بولو گے؟"
وہ سب کو باری باری دیکھتا ہوا بولا۔
سب کو سانپ سونگھا ہوا تھا۔
"یہ جو تم سب پر اتنا پیسہ پانی کی طرح بہاتا ہوں نہ احسان سمجھو.... "
وہ کاٹ دار لہجے میں بولا۔
زراد خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔
"اور تم ریحام؟ شادی ہو گئی لیکن نظر تم یہی پر آتی ہو؟ اپنے سسرال کیوں نہیں رہتی تم؟"
وہ ریحام کی جانب رخ موڑتا خفگی سے بولا۔
"وہ... وہ سندس بھی تو یہاں ہے۔"
وہ عظمی کو دیکھ رہی تھی مدد کے لیے۔
"سندس کا شوہر یہاں نہیں ہے اس کا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن تمہارا شوہر تو پاکستان میں ہے پھر کیا مسئلہ ہے تمہیں؟ اگر یہیں رہنا تھا تو پھر شادی نہ کرتی.. "
آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
"یہ آج رات میں جانے والی تھی... "
عظمی گھبراتی ہوئی بولی۔
"اور آپ؟ گھر میں ہوتی ہیں تو کچھ دیکھ بھی لیا کریں کہ یہاں چل کیا رہا ہے؟ آپ کو بس اپنی پارٹیز کا معلوم ہے کچھ گھر کی خبر بھی رکھا کریں۔"
توپوں کا رخ اب عظمی کی جانب تھا۔
"ہاں میں دھیان رکھوں گی نہ اب سے... "
وہ جبراً مسکراتی ہوئی بولی۔
"تم واپس کب جا رہی ہو؟"
وہ ایلن کے ہاتھ سے کافی لیتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔
"اس مہینے کے آخر میں... "
سندس سکھ کا سانس لیتی بیٹھ گئی۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔
"تمہارا ناشتہ منگواتی ہوں میں... "
عظمی نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔
زراد پہلے ہی جا چکا تھا وہاں سے۔
ریحام بھی عظمی کے ساتھ چل دی۔
~~~~~~~~
وہ صوفے پر ہی بیٹھی تھی جب دروازہ کھلا اور زمان کا چہرہ دکھائی دیا۔
"تمہارے گھر سے میسج آ رہے ہیں شاید تمہارے ابو کی موت ہو گئی ہے۔"
جتنے پرسکون انداز میں اس نے کہا جنت کا سکون غارت ہو گیا۔
"یہ کیا بکواس ہے؟"
وہ اس کے ہاتھ سے فون لیتی ہوئی بولی۔
"تمیز سے بات کرو... ورنہ بولنے کے قابل نہیں رہو گی۔"
وہ اسے بالوں سے پکڑتا ہوا بولا۔
"ہٹیں یہاں سے... "
وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی کھڑکی کے پاس آ گئی۔
دوپہر سے بے شمار کالز اور میسجز آےُ ہوۓ تھے۔
وہ جوں جوں پڑھتی جا رہی آنسو اسکرین پر گرتے جا رہے تھے۔
اس نے بائیاں ہاتھ کھڑکی پر رکھ لیا کہیں گر ہی نہ جاےُ۔
"ابو... "
سرگوشی اتنی مدھم تھی کہ زمان کی سماعت تک رسائی حاصل نہ کر سکی۔
"نہیں... ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ ہمیں چھوڑ کے نہیں جا سکتے... زمان؟"
وہ اشک بہاتی اس کے پاس آئی۔
وہ آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔
"آپ کو فون آیا کیا؟ یہ سب سچ نہیں ہے نہ؟"
وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔
"آر یو کریزی؟(کیا تم پاگل ہو) ایسے میسجز وہ بھی تمہارے بہن بھائی کیوں کریں گے؟"
اسے اس لمحے جنت کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔
وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں اسے دیکھنے لگی۔
آنکھیں برس رہی تھیں۔ شاید الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے۔
"مہ.. مجھے جانا ہوگا۔ سب میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ابو سے ملنا ہے مجھے۔"
وہ کہتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی لیکن کلائی زمان کی گرفت میں آ چکی تھی۔
وہ رخ موڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
"روز کسی نہ کسی کی موت ہوتی ہے تم ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو... اور یاد نہیں میں نے کیا کہا تھا؟ تم وہاں نہیں جا سکتی اس لئے خاموشی سے یہاں بیٹھ جاؤ... "
پہلے نرمی بعد میں سختی عود آئی۔
"آپ پاگل ہیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہوں گی میں۔"
وہ اس کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔
"کچھ بھی کہہ لو لیکن اس گھر سے جانا ممکن نہیں۔"
وہ اسے صوفے پر پھینکتا دروازہ بند کرنے لگا۔
"خدا کے واسطے مجھے جانے دیں... آپ جو کہیں گے میں کروں گی لیکن مجھے میرے ابو سے ملنے دیں پلیز... "
وہ پل بھر میں بدل گئی۔
اس لمحے یاد تھا تو صرف اپنے ابو کا چہرہ۔
چار ماہ قبل اپنی شادی پر دیکھا تھا اس نے اپنے ابو کو۔
"بلکل بھی نہیں... "
وہ سوٹ کیس سے ہتھکڑی نکالنے لگا۔
"یہ کیا ہے؟"
جنت کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"خاموش رہو... مجھے زیادہ بولنے والے لوگ بلکل پسند نہیں۔"
وہ ناگواری سے کہتا ہتھکڑی پہنانے لگا۔
وہ احتجاج کر رہی تھی۔
لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
زمان نے ایک تھپڑ مارا اور اپنا کام آسان کیا۔
"کیا لگتا ہے آپ کو اس سب سے میں رک جاؤں گی؟"
وہ اشکبار نگاہوں سے دیکھتی ہوئی چلائی۔
"بہت بولتی ہو تم... "
وہ دراز سے ٹیپ نکالتا ہوا بولا۔
"تمہارے ناقص علم میں اضافہ کرتا چلوں یہ جو تم مہسم سے ملاقاتیں کرتی تھی اسکی اور صبح والے تھپڑ کی سزا ہے... "
وہ اس کے منہ پر ٹیپ لگاتا ہوا بولا۔
"اب ٹھیک ہے... مجھے یقین ہے تم کبھی نہیں بھولوں گی اس سزا کو۔ یاد ہے میں نے کیا کہا تھا؟ تم تک آتا ہر دروازہ بند کر دوں گا میں تم صرف زمان تیمور تک محدود ہو جاؤں گی اور آج ایسا ہی ہو گا۔"
وہ بے رحمی سے کہتا اس کے پاؤں باندھنے لگا۔
شاید وہ ساری تیاری کر کے آیا تھا۔
وہ ہاتھ مار رہی تھی لیکن بے سود۔
اس حالت میں کوئی مزاحمت کام نہیں آنے والی تھی۔
سیگرٹ اٹھا کر زمان کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔
اشکوں کی روانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
دل پھٹنے کو بے تاب تھا۔
کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔
سر مسلسل نفی میں حرکت کر رہا تھا۔
ایسا ستم شاید ہی کسی نے کیا ہو۔
آج اسے خود پر افسوس ہو رہا تھا۔
اگر وہ پہلے ہی یہ گھر چھوڑ دیتی تو آج اس نہج پر نہ ہوتی۔
وہ مسلسل رو رہی تھی۔ کرب ہی کرب تھا۔
کیسا نصیب تھا اس کا۔
دو گھنٹے بعد کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھلا۔
اندر آنے والا شخص کوئی اور نہیں زراد تھا۔
جنت کی حالت دیکھ کر اس کا دماغ گھوم گیا۔
"یہ سب کیا ہے؟"
وہ کہتا ہوا آگے آیا۔
زمین پر بیٹھ کر اس کے منہ سے ٹیپ اتاری۔
وہ لمبے لمبے سانس لیتی خود کو نارمل کرنے لگی۔
"میری آنکھوں میں رقم اذیت کی داستانیں تمہاری دکھائی نہیں دے رہیں؟ کیا میرے درد کو زباں کی ضرورت ہے؟"
وہ غمزدہ سی بولی۔
"لیکن کیوں؟ زمان نے تو کہا تھا اس نے سب سیٹ کر لیا ہے۔"
وہ جھنجھلا کر کہتا اس کے پاؤں کھولنے لگا۔
"پلیز مجھے میرے ابو کے پاس لے جاؤ... مجھے نکالو یہاں سے۔"
وہ سسکی۔
زراد کے ہاتھ سست پڑ گئے۔
"کیا ہوا؟ جلدی کرو نہ...ابو میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔"
وہ اس کے رک جانے پر حیران رہ گئی۔
"اب کوئی فائدہ نہیں... زمان نے آپ کے نمبر سے میسج کیے تھا کہ میں نہیں آنا چاہتی آپ لوگ اپنا کام کریں اور پتہ نہیں کیا کیا۔جنازہ تو مغرب کے وقت تھا...اب ٹائم دیکھیں۔"
وہ گھڑی کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تم تمہیں... کی کیسے پتہ... یہ سب؟"
الفاظ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے۔
"مجھے بھی فون آیا تھا کبیر کا۔ آپ کا روم لاک تھا مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ اندر ہیں۔ میں گیا تھا آپ کے گھر کہ شاید آپ وہاں ہوں۔ اب آپ کا وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں... "
وہ آہستہ سے کہتا بیٹھ گیا۔
"نہیں... مجھے جانا ہے پلیز کھولو مجھے۔"
وہ التجائیہ انداز میں بولی۔
"وہاں سب آپ کو برا بول رہے تھے حتی کہ آپ کی فیملی بھی۔ اب کیا کریں گیں جا کر وہ یقین کریں گے؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"مجھ سے زیادہ بد قسمت کون ہوگا؟ آخری بار ابو کو دیکھ بھی نہیں سکی... "
وہ سر ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی۔
"یہ کیسی آزمائش ہے؟ یہ کیسا ظلم ہے؟"
وہ آہیں بھرتی بول رہی تھی۔
"پلیز مت روئیں... "
جنت کے آنسو زراد کو تکلیف دے رہے تھے۔
"کیسے چپ ہو جاؤں میں؟ مہ... میں اپنے ابو کو دیکھ نہیں سکی۔ ان سے بات نہیں کر سکی اور تم کہہ رہے ہو چپ ہو جاؤں؟"
وہ اس کی جانب دیکھتی تعجب سے بولی۔
"میں سمجھ سکتا ہوں لیکن اب... "
"تم کچھ نہیں سمجھتے... تم سمجھ ہی نہیں سکتے جو مجھ پر گزر رہی ہے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
زراد لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگا۔
"مجھے بتائیں میں کیسے آپ کی تکلیف کم کر دوں؟"
وہ آسودگی سے بولا۔
"مجھے موت دے کر... "
کیسا دلسوز لمحہ تھا یہ۔ یہ تو زراد ہی جانتا تھا۔
آنکھیں شمع کی مانند جل بجھ رہی تھی۔
چہرہ کرب کی داستاں بنا ہوا تھا۔
وہ واقعی موت کی حقدار تھی کیونکہ موت تو کئی بار آ چکی تھی اسے۔
"مت بولیں ایسا... میں ابھی آپ کو یہاں سے نکال نہیں سکتا لیکن صبح..."
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
"اب کیا ہوگا؟"
وہ ہار چکی تھی۔
"تو کیا یہ ظلم سہتی رہیں گیں آپ؟ کیا یہ بہت نہیں؟"
وہ برہم ہوا۔
"میرا سب ختم ہو گیا زراد... سب ختم ہو گیا مر چکی ہوں میں۔ یہ سانسیں کیوں نہیں رک جاتیں؟ انہیں بولو بس کرے تھک چکی ہے جنت تھک چکی ہے۔"
وہ زاروقطار رو رہی تھی۔
"نہیں آپ زمان کا غرور توڑ سکتیں ہیں... آپ دنیا کے سامنے انہیں بے نقاب کر سکتیں ہیں۔ یہ کام صرف جنت کر سکتی ہے۔"
وہ تحمل سے اسے سمجھانے لگا۔
"مجھے ابو کے پاس جانا ہے... پلیز لے جاؤ مجھے۔"
وہ اس کی بات نظر انداز کرتی اشک بہاتی اسے دیکھنے لگی۔
"زمان گارڈن میں ہے۔ نہیں لے جا سکتا آپ کو۔ پہلے تو وہ لاؤنج میں بیٹھے تھے اس لئے یہاں آ نہیں سکا۔"
وہ مجرمانہ انداز میں بولا۔
"چھوڑ دو مجھے میرے حال پر... چھوڑ دو مجھے۔"
وہ خاموش ہوتی تو اس کی سسکیاں گونجنے لگتیں۔
"کل صبح میں آپ کو لے جاؤں گا۔ خود کو تیار کر لیں اس چیز کے لیے۔"
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
مزید وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے ٹیپ واپس اس کے منہ پر لگائی اور پاؤں باندھنے لگا۔
ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
~~~~~~~~
"باپ کی موت پر بیٹی آئی ہی نہیں... پیسے نے دماغ خراب کر دیا ہے اور کچھ نہیں... "
صفیہ کسی رشتے دار کے ساتھ بیٹھی بول رہی تھی۔
"لیکن پھر بھی باپ تھا آ جاتی تو کون سا اس کی شان میں کمی ہو جاتی... "
مقابل بھی انہی کے جیسی تھی۔
مریم انہیں نظر انداز کرتی اندر آ گئی۔
یہ باتیں تو وہ صبح سے ان رہے تھے اور خود بھی صدمے میں تھے۔
حمزہ اسے دیکھ کر ایک طرف کو ہو گیا۔ تاکہ وہ بیٹھ سکے۔
"میں کچھ دن امی کے پاس رک جاؤں؟"
وہ آہستگی سے بولی۔
آنسو ضبط کے باوجود رخسار پر آ گرے۔
"ہاں ہاں... رک جاؤ اس میں رونے والی کیا بات ہے؟"
وہ اس کے رونے پر خفیف سا ہو گیا۔
"آپ کو مسئلہ کو نہیں ہوگا؟"
وہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
"نہیں... میں سمجھ سکتا ہوں یہ وقت کیسا ہے؟ اس تکلیف سے گزر چکا ہوں میں اس لئے جب تک تم اپنی امی کے پاس رہنا چاہو رہ سکتی ہو۔ بس ایک دو دن بعد چکر لگا کر کھانا بنا دیا کرنا... اب باہر کا کھانے کا دل نہیں کرتا۔"
وہ نرمی سے بول رہا تھا۔
"جی آپ جب کہیں گے میں آ جاؤں گی... "
وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔
"حوصلہ رکھو تمہیں اپنی امی کو بھی سنبھالنا ہے... "
وہ اس کے ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
"تھینک یو... "
آنسو حمزہ کے ہاتھ پر گرنے لگے۔
"اپنا خیال رکھنا تم... کیونکہ تم بیمار پڑ جاؤ گی تو باقی سب کا خیال کیسے رکھو گی؟"
وہ اس کے آنسو صاف کرتا خفگی سے بولا۔
وہ جواباً اثبات میں سر ہلانے لگی۔
"میں روز چکر لگاؤں گا ٹھیک ہے؟"
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
"جی ٹھیک ہے.... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
حمزہ کے نکلتے ہی آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہو گیا۔
وہ سلمان صاحب کی تصویر اٹھا کر دیکھنے لگی۔
"ابو اتنی جلدی چلے گئے آپ؟ ابھی تو ہماری خوشیاں دیکھنی تھی آپ نے... "
وہ تصویر کو سینے سے لگاتی ہوئی سسکی۔
"ﷲ کے کام میں بھلا کیسے دخل دے سکتے ہیں ہم...کاش آپ نہ جاتے۔"
وہ آنکھیں بند کرتی بول رہی تھی۔
~~~~~~~~
دیر رات زمان کمرے میں آیا تو جنت سر ٹیبل سے ٹکاےُ فرش پر بیٹھی تھی۔
اس نے نگاہیں دوڑا کر اطراف کا جائزہ لیا۔
اب ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔
وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
کھینچ کر منہ سے ٹیپ اتاری۔
وہ شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
چہرے پر خشک آنسوؤں کے نشان تھے۔
"کب تک مجھے باندھ کر رکھیں گے آپ؟"
وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔
"منہ بند رکھا کرو اپنا... میرے سامنے بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو۔ تم نے مجھے تھپڑ مار کر اچھا نہیں کیا اب ساری زندگی اسی سزا میں گزاروں گی تم۔"
وہ اسے بازوؤں سے پکڑتا ہوا بولا۔
"اب درد نہیں ہوتا مجھے... اتنا بے حس بنا دیا ہے آپ نے مجھے کہ اب یہ معمولی درد, درد نہیں لگتے.... "
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بولی۔
"تم اس لائق نہیں ہو کہ تمہیں کھانے کا پوچھا جاےُ... "
وہ اس کے منہ پر ٹیپ لگاتا ہوا چلایا۔
"ایسے ہی پڑی رہو... "
وہ ہنکار بھرتا کپڑے نکالنے لگا۔
~~~~~~~~~
زمان کے نکلتے ہی زراد چابیاں لئے اِدھر آ نکلا۔
دروازہ کھولا تو جنت وہیں نظر آئی جہاں کل تھی۔
اسے جنت پر ترس اور اپنی لاچاری پر غصہ آنے لگا۔
"آئم سوری... آپ اس حال میں ہیں۔"
وہ کہتا ہوا اس کے سامنے آیا۔
جنت چہرہ اٹھا کر اس ہمدرد کودیکھنے لگی۔
اس نے ٹیپ اتاری اور پاؤں کی رسی کھولنے لگا۔
"جانتے ہو اس سب کا انجام کیا ہوگا؟ اگر زمان کو علم ہو گیا تم نے میری مدد کی... وہ تمہیں چھوڑیں گے نہیں۔"
وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"یہ ہتھکڑی ابھی نہیں کھل سکتی آپ ایسے ہی چلیں میرے ساتھ۔ پہلے ہم آپ کے ابو کی قبر پر چلیں گے..."
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
"کیوں کر رہے ہو یہ سب؟"
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
وہ گہری سانس لیتے ہوۓ پلٹا اور اسے دیکھتا رسان سے بولا۔
"آپ کو یہاں سے نکالنا میرا فرض بنتا ہے۔ آپ کچھ بھی سوچیں مجھے فرق نہیں پڑتا۔"
وہ صوفے کا سہارا لیتی کھڑی ہو گئی۔
"اگر کسی نے دیکھ لیا؟"
وہ آہستہ آہستہ چلتی کمرے سے باہر نکل آئی۔
"اچھی امید رکھیں..."
وہ آگے پیچھے دیکھتا رازداری سے بولا۔
"فون بھول گئی میں... "
یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
"آپ رکیں میں لے کر آتا ہوں... "
وہ کہتا ہو دبے پاؤں واپس چل دیا۔
اسے آتے دیکھ کر وہ لب آپس میں جوڑتی زینے اترنے لگی۔
پاؤں جوتی سے بے نیاز تھے۔
دونوں سرعت سے باہر نکل آےُ۔
جنت پچھلی نشست پر بیٹھ گئی۔
زراد نے گاڑی سٹارٹ کی اور گھر سے باہر نکل آیا۔
وہ ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کر رہی تھی جب زراد نے اسے بیک مرر سے دیکھا۔
"ابھی بھی رو رہی ہیں؟"
وہ آہستہ سے استفسار کرنے لگا۔
"جب آنسو مقدر میں لکھے ہوں تو انسان کا بس کیسے چل سکتا ہے؟"
وہ شیشے سے پار دیکھتی ہوئی بولی۔
"آپ اپنے گھر جائیں گیں؟"
اسے یہ خاموشی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
"نہیں... "
وہ مدھم آواز میں بولی۔
"کیوں؟"
وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔
"پتہ نہیں... اب چاہ باقی نہیں رہی اور فلحال میں کسی کو صفائیاں دینا نہیں چاہتی مجھے میرے مالک پر بھروسہ ہے۔ وقت ہر انسان کو جواب دے گا۔ ویسے بھی مجھے اپنی جنگ تنہا لڑنی ہے جب ظلم سہتے ہوۓ تنہا تھی پھر اب کیوں سہارے ڈھونڈوں؟ یہ سہارے مجھے کمزور کر دیں گے اور میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی اب۔"
وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔
"اور آپ کے اس وقت میں ہمیشہ میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔"
وہ اسے تسلی دے رہا تھا۔
جنت نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس لمحے وہ فراموش کر چکی تھی کہ یہی ہمدرد انسان اس سے محبت کرتا ہے۔
"ابو معاف کر دیں اپنی جنت کو... معاف کر دیں میں نہیں آ سکی آپ کے پاس۔"
وہ سلمان صاحب کی قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔
زراد جو کافی دیر سے اسے دیکھ رہا تھا اب چلتا ہوا اس سے کچھ فاصلے پر آ رکا۔
"دیکھیں میری بد قسمتی آپ کو دیکھ بھی نہ پائی۔ آپ ناراض ہوں گے نہ مجھ سے... کیسے آپ اپنی جنت کو چھوڑ کر چلے گئے؟ ہمیشہ فون پر گلا کرتے تھے ملتی کیوں نہیں ہو اور اب خود روٹھ گئے؟"
اس کے آنسو زراد کو بھی رولا رہے تھے۔
"پلیز بس کر دیں... مت روئیں۔"
وہ اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔
"میں چپ ہو جاؤں؟ کیسے؟ ابو سے کہو ایک بار مجھ سے بات کر لیں ایک بار اپنے سینے سے لگا لیں... کوئی ایسے بھی جاتا ہے کیا؟ مجھ سے خفا ہو کر گئے ہیں... "
وہ زراد کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔
"سنبھالیں خود کو... آپ تو بہت ہمت والی ہیں نہ؟ پھر کیسے ٹوٹ سکتی ہیں؟"
وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔
"ابو میری آواز سن رہے ہیں نہ آپ پلیز جواب تو دیں... "
وہ ان کی قبر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
"ہمیں اب چلنا چائیے آپ کا زیادہ دیر باہر رہنا ٹھیک نہیں... "
وہ اردگرد نگاہ دوڑاتا ہوا بولا۔
"مجھے کہیں نہیں جانا... "
وہ منہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
"ایک گھنٹہ ہو گیا ہے... میں آپ کو دوبارہ لے آؤں گا لیکن پلیز ابھی آپ کی حفاظت سب سے اہم ہے۔"
وہ التجائیہ انداز میں بولا۔
وہ ایک نظر قبر کو دیکھتی کھڑی ہو گئی۔
دل جانے پر رضامند نہیں تھا۔
لیکن بہت بار دلدوز فیصلے لینے پڑتے ہیں چاہتے یا نہ چاہتے ہوۓ۔
وہ سر جھکاےُ اس کے عقب میں چلنے لگی۔
"یہ آپ کے کمرے کی چابی... میرا کمرہ یہ ساتھ والا ہے۔ فلحال اپنا فون بند رکھیں آپ اور یہ میرا استعمال کریں۔"
وہ اس کی جانب فون بڑھاتا ہوا بولا۔
وہ دونوں اس وقت ہوٹل کی راہداری میں کھڑے تھے۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی فون لے کر اندر کمرے میں چلی گئی۔
وہ دیوار سے ٹیک لگاتا سانس خارج کرنے لگا۔
"پتہ نہیں اب کیا ہوگا آگے؟"
وہ متفکر سا بولا۔
~~~~~~~~
وہ آ کر لاؤنج میں بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بعد ملازم کافی لے کر آ گیا۔
زمان نے ٹیبل سے مگ اٹھایا لیکن جونہی لبوں سے لگایا چہرے پر ناگواری در آئی۔
وہ کافی اس نے ملازم کے منہ پر پھینک دی۔
"ایسی ہوتی ہے کافی؟ ایسا لگ رہا فریج سے نکال کر لاےُ ہو... "
وہ غضبناک آواز میں بولا۔
"سوری سر... وہ... "
"بس تنخواہ لینے کا معلوم ہے کام کرنے کی تمیز نہیں ہے۔جاہل کہیں کے۔"
وہ ہنکار بھرتا راہداری میں چلنے لگا۔
کمرے کا دروازہ کھولتے ہی زمان کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
جنت وہاں موجود نہ تھی۔
"یہ کہاں گئی؟"
آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔
وہ کمرے سے باہر نکلا اور زینے اترنے لگا۔
رخ عظمی کے کمرے کی جانب تھا۔
بنا دستک دئیے دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔
"کیا ہوا؟"
وہ اس طرح دروازہ کھولنے پر حیران ہوئی۔
"جنت کہاں ہے؟"
وہ سخت لہجے میں بولا۔
"مجھے کیا معلوم؟"
وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی۔
"آپ لوگ اس گھر میں کرتے کہا ہیں مجھے بتائیں؟ وہ اس گھر سے چلی گئی اور یہاں کسی کو خبر ہی نہیں... "
وہ قہر آلود نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"کیا؟ چلی گئی وہ؟"
وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔
"دماغ خراب کر رکھا ہے یہاں سب نے.... "
وہ کرسی کو پاؤں مارتا باہر نکل گیا۔
کچھ ہی دیر بعد زراد, سندس, عظمی زمان کی عدالت میں موجود تھے۔
اس وقت سب لاؤنج میں تھے۔
"اگر اس میں تمہارا ہاتھ ہوا تو بیلیو می(میرا یقین کرو) میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا... "
وہ ایک ہاتھ سے زراد کی کالر پکڑے بول رہا تھا۔
"میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور پھر سے کہہ رہا ہوں کہ نہ تو اس میں میرا ہاتھ ہے نہ ہی مجھے کچھ علم ہے۔"
وہ پیچھے ہوتا ہوا بولا۔
"جس دن یہ بات یقینی ہو گئی وہ دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ دعا کرنا حقیقت مجھ پر آشکار نہ ہو ورنہ تم... "
"اب میں آپ کو کس طرح سمجھاؤں؟"
وہ اس کی بات کاٹتا اپنی کالر سے اس کا ہاتھ ہٹانے لگا۔
"میرا پہلا اور آخری شک تم پر ہی ہے۔ کیونکہ جس انسان نے کبھی اپنے لیے آواز نہیں اٹھائی وہ میری بیوی کے لئے بول رہا تھا..."
وہ چبا چبا کر کہتا الٹے قدم اٹھانے لگا۔
عظمی اور سندس حونق زدہ سی کھڑی تھی۔
"فائن... جو کرنا ہوگا آپ کو کر لینا لیکن ابھی میں جاؤں؟"
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
"گو ٹو ہیل... "
وہ جل کر بولا۔
زراد کے لب دھیرے سے مسکراےُ لیکن اگلے ہی لمحے وہ چہرے پر سنجیدگی طاری کرتا راہداری میں چلنے لگا۔
"ناؤ ٹیل می(اب مجھے بتائیں) آپ دونوں سارا دن کیا کرتی ہیں؟ وہ یہاں سے چلی بھی گئی اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی... "
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
"زمان تمہیں تو پتہ ہی ہے میں ابراہیم... "
"ہاں سب نے پہلے سے اسکرپٹ بنا رکھی ہے کہ زمان پوچھے گا تو یہ یہ حیلے بنائیں گیں۔ایم آئی میڈ(کیا میں پاگل ہوں)؟"
وہ دونوں کو گھورتا ہوا بولا۔
"نہیں... "
سندس آہستہ سے بولی۔
"تو پھر مجھے پاگل بنانے کی کوشش بھی مت کرو... لوگ بزنس میں مجھے دھوکہ نہیں دی سکے آج تک تو تم لوگ کیا چیز ہو؟ لیکن یاد رکھنا جو اس میں ملوث ہوا اپنا حشر ابھی سے سوچ لے... "
وہ رکھائی سے کہتا چل دیا۔
"مام اب یہ سب کیا ہے؟ کہاں چلی گئی جنت وہ بھی بنا بتاےُ؟"
سندس بس رو دینے کو تھی۔
"مجھے پتہ ہوتا تو زمان کو بتا نہ دیتی... خدا جانے کون سے چاند چڑھاتی پھر رہی ہے یہ لڑکی۔ اچھا ہوا ریحام چلی گئی ورنہ اس کی بھی خیر نہیں تھی۔"
وہ منہ بناتی ہوئی گلاس میں پانی انڈیلنے لگی۔
"میں تو پرسوں کی فلائٹ لے کر نکل رہی ہوں یہاں سے... زمان کا کوئی بھروسہ نہیں۔"
وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی۔
"اور ایسے جاؤں گی تو تمہی پر شک کرے گا... "
وہ تاسف سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"پھر کیا زمان کا غصہ برداشت کرتی رہوں؟"
وہ منہ بسورتی ہوئی بیٹھ گئی۔
"اپنے سسرال چلی جاؤ کچھ دن کے لیے... "
"مما؟"
ابراہیم کہتا ہوا اس کے پاس آیا۔
"جی ماما کی جان؟"
وہ اسے اپنے ساتھ لگاتی ہوئی بولی۔
"میرا ٹیڈی سو نہیں رہا... آپ کیوں آ گئی روم سے؟"
وہ خفا انداز میں بولا۔
ہاتھ میں ٹیڈی پکڑ رکھا تھا۔
"آؤ ہم چلتے ہیں روم میں... "
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
ایک نظر عظمی کو دیکھ کر وہ چلنے لگی۔
"یہ لڑکی نئی مصیبت کھڑی کر گئی ہے... "
عظمی سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
زمان ایک کے بعد دوسری سیگرٹ سلگا رہا تھا۔
"کیسے جا سکتی ہے وہ؟ نا ممکن... کسی کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔"
وہ کش لیتا ہوا بولا۔
"ایک بار مل جاؤ تم مجھے پھر پوچھوں گا تم سے... دیکھوں گا میں کون میرے قہر سے تمہیں بچاتا ہے۔"
وہ سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلتا ہوا غرایا۔
~~~~~~~~~
"ایک ہفتہ ہو گیا اور تم مجھے آج بھی یہ مایوسی والی خبر سنا رہے ہو... "
وہ گلاس ٹیبل پر پٹختا ہوا بولا۔
"سوری سر... لیکن ایسے تلاش کرنا بہت کٹھن ہے۔ میں اپنے طور پر پوری کوشش..."
"بھاڑ میں گئی تمہاری کوشش۔ ناؤ گیٹ لاسٹ(اب دفعہ ہو جاؤ) "
وہ ہاتھ اٹھا کر چلایا۔
مقابل لب بھینچ کر باہر نکل گیا۔
""کہاں جا سکتی ہے؟ اپنی ماں کے پاس نہیں گئی پھر گئی تو گئی کہاں؟"
وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا ہوا بولا۔
"آئم شیور کوئی تو ہے جو اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ورنہ وہ مجھ سے بچ نہیں سکتی۔ جنت تم پاتال میں بھیچھپ کر بیٹھ جاؤ میں تمہیں وہاں سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔ ابھی تم نے زمان تیمور کا قہر دیکھا ہی کہاں ہے؟ ابھی تو تمہیں اس تھپڑ کا حساب بھی دینا ہے۔"
وہ مٹھیاں بھینچ کر تلملاتا ہوا بولا۔
"مے آئی کم ان سر؟(کیا میں اندر آ جاؤں) "
مینیجر دروازہ کھولے استفسار کرنے لگا۔
"یس... "
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
"سر سکندر آیا ہے... اور یہ ہے وہ فائل۔"
وہ ٹیبل پر فائل رکھتا ہوا بولا۔
"اب کیا لینے آیا ہے وہ؟"
زمان فائل کھولتا ناگواری سے بولا۔
"سر کہہ رہا ہے اسے واپس رکھ لیں... "
وہ آہستہ سے بولا۔
"ضرورت نہیں... بہت سے لوگ ہیں جو میرے آفس میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خود ریزائن کر کے گیا تھا نہ اب کیوں آیا ہے؟"
وہ فائل سے نظریں ہٹا کر اسے گھورنے لگا۔
"شاید جاب... نہیں ملی اسے... "
وہ گڑبڑ کر بولا۔
"تو میں نے ٹھیکا نہیں لیا... اسے کہو اب جاؤں وہاں جو تمہیں ہماری جتنی تنخواہ دیتے ہیں۔ اور یہ پیمنٹ کا ایشو مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟"
پڑھتے پڑھتے اس کی پیشانی پر شکنیں ابھرنے لگیں۔
" سر آپ چائنہ تھے تو میں نے سوچا... "
"میں چائنہ میں تھا مر نہیں گیا تھا۔تمہیں سوچنے کے لیے نہیں رکھا ڈیم اٹ...."
وہ فائل اس کے منہ پر مارتا ہوا بولا۔
"اب مجھے بتاؤ کیسے یہ ری کور ہو گا؟"
وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
"آئم سوری سر... "
وہ ندامت سے جھک کر فائل اٹھانے لگا۔
"کیا کروں میں تمہارے سوری کا؟"
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
"یہ کمپنی میں چلا رہا ہوں... یہاں سوچنے کا بولنے کا کام صرف میرا ہے۔ خود سے سوچنا ترک کر دو ورنہ میں تمہاری شکل دیکھنا پسند نہیں کروں گا۔"
وہ ہنکار بھرتا کرسی پر بیٹھ گیا۔
ریوالونگ چئیر کو گھما کر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
اس کی پشت مینیجر کی جانب تھی۔
"وُوڈ یو لائیک ٹو گو یور سیلف اَور آئی تھرو یو(تم اپنے آپ جانا پسند کرو گے یا میں تمہیں پھینکو) "
مینیجر کی موجودگی اسے کوفت میں مبتلا کر رہی تھی۔
"آئی ویل گو سر(میں چلا جاؤں گا سر) ۔"
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
"واٹ دا ہیل از دس... "
وہ کھڑا ہو کر کھڑکی پر مکا مارتا ہوا بولا۔
"وہ جنت کم تھی کیا اب یہ نئی مصیبت آ گئی.... "
وہ جھنجھلا کر کہتا ٹہلنے لگا۔
~~~~~~~~
"امی جنت کا فون بند آ رہا ہے..."
مریم تشویش سے بولی۔
"رہنے دو... بند ہے تو ہمیں کیا؟ ہمارا کوئی تعلق نہیں اس سے۔"
وہ سپاٹ انداز میں بولیں۔
"ایسے کیسے تعلق نہیں؟ مانا وہ ابو کو دیکھنے نہیں آئی..."
"تم وہی پر تھیں نہ؟ کیسے تڑپ رہے تھے تمہارے ابو اس سے ملنے کے لیے....لیکن وہ۔ﷲ معاف کرے مجھے معلوم ہوتا کہ پیسے کی خاطر ہمیں چھوڑ دے گی تو میں کبھی اس کی شادی وہاں نہ کرتی۔ یہاں میرے شوہر ﷲ کو پیارے ہو گئے اور سارے خاندان نے منہ بھر بھر کر باتیں کیں؟ کیا سنتی میں اور کیا جواب دیتی؟"
ضبط کے باوجود آنکھیں بھیگ گئیں۔
"مجھے تو یقین نہیں آتا... جنت کیسے اتنی بدل سکتی ہے؟ وہ تو ہماری جنت تھی نہ امی؟"
وہ ان کے ساتھ لگتی ہوئی بولی۔
"صحیح کہا تم نے۔ وہ ہماری جنت تھی اب نہیں رہی....اور اچھا یہی ہوگا کہ وہ ہمارے سامنے نہ آےُ۔ یہ غرور اسی کو مبارک۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"امی آج حمزہ آئیں گے شام میں۔ کھانا بنانے جانا ہے میں سوچ رہی تھی عائشہ آپی کو کہہ دوں آپ کے پاس آ جائیں کیونکہ اگر مجھے رکنا پڑا تو۔"
"تم جاؤ... تمہاری ماں اتنی کمزور نہیں ہے۔ بیشک تمہارے ابو کی موت بہت اچانک اور تکلیف دہ تھی لیکن میں اپنے رب کے فیصلے پر گلے شکوے نہیں کر سکتی۔ ہمارے نبی ﷺ نے سختی سے منع کیا ہے۔ بس یہی دعا کرتی ہوں ﷲ ہم سب کو صبر دے۔"
وہ دوپٹے سے آنکھیں صاف کرتی ہوئی بولیں۔
"آپ سچ میں بہت ہمت والی ہیں... اور دیکھنا ﷲ کو آپ کا صبر ضرور پسند آےُ گا۔"
وہ ان کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
وہ خاموشی سے تسبیح اٹھانے لگیں۔
"اور امی وہ... "
وہ ہچکچا رہی تھی۔
"کیا ہوا؟"
وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگیں۔
"ممانی ناراض ہو گئیں ہیں... "
وہ آہستہ سے بولی جیسے بتانا نہیں چاہتی ہو۔
"کیوں؟ کیا ہوا؟"
وہ حیران ہوۓ بھی رہ نہ سکیں۔
"کہتی ان کی پلیٹ میں بوٹی نہیں تھی... "
وہ سر جھکا کر بولی۔
"یا ﷲ مجھے صبر دے... یہاں ایک انسان دنیا سے چلا گیا اور وہ اس بات پر ناراض ہو گئی؟"
وہ تاسف سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"امی ایسے لوگوں کا کچھ نہیں ہو سکتا... ان جیسوں کے دل میں احساس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہمارے دکھ میں شریک تو نہیں ہو سکتے لیکن اسے بڑھا ضرور سکتے ہیں۔"
بولتے بولتے آنکھیں بھر آئیں۔
"اچھا تم پریشان مت ہو... میں دیکھ لوں گی جاؤ اندر بچوں کو دیکھو مجھے لگتا ہے لڑائی کر رہے ہیں۔"
وہ اس کی پشت تھپتھپاتی ہوئی بولیں۔
وہ سسک کر انہیں دیکھتی وہاں سے اٹھ گئی۔
شہناز نے سر جھکا لیا۔
"عجیب دستور ہیں زمانے کے... "
ایک آہ نکلی تھی ان کے دل سے۔
~~~~~~~~
"کھانا کھایا آپ نے؟"
وہ اندر آتا ہوا بولا۔
"ہاں کھا لیا تھا... "
وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
"آپ علیل لگ رہی ہیں۔"
وہ سنگل صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
"دکھ انسان کو دیمک کی مانند کھا جاتے ہیں۔"
وہ غیر مرئی نقطے کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"تو آپ ان دکھوں کو اپنی طاقت بنائیں کمزوری نہیں۔ میں جانتا ہوں آپ ایک باہمت لڑکی ہیں اور آپ یہ سب کر جائیں گیں۔"
وہ ہمیشہ کی مانند اس کی ہمت بندھانے لگا۔
"سب کچھ تو چھین لیا مجھ سے۔ اب ایک انصاف باقی ہے جو میں خود لوں گی۔ ایک ایک تکلیف کا ازالہ کرنا پڑے گا انہیں۔"
وہ کرب سے آنکھیں میچ کر بولی۔
"تیار ہیں آپ؟ ایک بات میں بتا دوں آپ کے پیچھے زراد ہمیشہ کھڑا رہے گا اس لئے کبھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرنا آپ۔"
وہ بغور اسے دیکھتا ہوا بولا۔
"جانتی ہوں تم میرے ساتھ رہو گے۔ اسی لئے تمہاری نیت کو جج نہیں کر رہی میں۔"
وہ اس کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔
"اور رہی بات اس کام کی؟ تو اب یہی میرا مقصد ہے پھر خوف کیسا۔ زندہ جسم میں مردہ روح لے کر جینا بہت کٹھن ہوتا ہے۔ اس سے قبل کہ موت آن گھیرے مجھے ان کا غرور خاک میں ملانا ہے۔ انہیں بتانا ہے کہ وہ خدا نہیں ہیں۔ وہ جو اوپر بیٹھا ہے نہ وہ خدا ہے اور جب ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو خدا ظالم کو ہی ختم کر دیتا ہے۔ اب بس ان کا انجام دیکھنا ہے۔"
وہ چہرے پر سنجیدگی طاری کئے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"کب؟ دن سوچا آپ نے؟"
وہ پر سکون دکھائی دینے لگا تھا۔
"اس ویک اینڈ پر۔ وہ مجھے تلاش کر رہے ہیں تو چہرہ دکھانے میں کوئی قباحت نہیں۔"
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
زراد اثبات میں سر ہلانے لگا۔
"زمان نے دوبارہ تم سے استفسار نہیں کیا؟"
وہ لیمپ کو درست کرتی ہوئی بولی۔
"نہیں... لیکن ان کی نظریں ان کا بڑھا ہوا غیض سب بتا رہا ہے۔ ان کا بس چلے تو کھڑے کھڑے میرے ٹکڑے کر دیں لیکن ابھی کوئی ثبوت نہیں ان کے پاس۔"
وہ استہزائیہ ہنسا۔
"پولیس نے زمان تیمور کو بتایا تک نہیں....ایسا ہی ہے نہ؟"
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
"یہ پاکستان ہے بھول رہی ہیں آپ... یہاں یہی سب ہوتا ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے وہ زمان تیمور کو تکلیف دیں گے بھی نہیں۔ کیونکہ آپ ٹھہریں ایک معمولی شہری کیا بگاڑ لیں گیں ان کا؟"
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہے مجھے کوئی امید نہیں اس ادارے سے۔ بس زمان مجھے طلاق دے دیں اور مجھے یقین ہے وہ ضرور ایسا کریں گے۔"
وہ پر امید تھی۔
"ﷲ کرے ایسا ہی ہو.... میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں لیکن زمان کا کچھ بھروسہ نہیں۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"میں ایک بار پھر سے تمہیں مشورہ دیتی ہوں واپس پلٹ جاؤ۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا۔زمان کو صرف شک ہے...یہ میری لڑائی ہے میں نہیں چاہتی خسارے تمہارے ہاتھ بھی آئیں۔"
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
"مجھے پرواہ نہیں... میں نہیں جانتا لیکن اول روز سے مجھے آپ بہت معصوم لگیں اور اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اب تک ایک بے مقصد زندگی گزاری ہے اب اگر کچھ اچھا کرنے جا رہا ہوں تو کرنے دیں نہ... "
وہ خفا انداز میں بولا۔
"دیکھو میرے لئے زندگی کے معنی بہت تغیر ہو چکے ہیں۔ میرے دل میں کوئی خواہش یا کسی خوشی کی چاہ باقی نہیں رہی اس لئے میرا نقصان ہوتا بھی ہے تو مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن تمہاری زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہے۔"
جنت نے اسے سمجھانا چاہا۔
"یہ سب بے سود ہے۔ آپ پہلے بھی بحث کر چکی ہیں میں بعد میں آؤں گا۔"
وہ کہتا ہوا کھڑا ہوا اور دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔
جنت تاسف سے اسے دیکھنے لگی۔
وہ جا چکا تھا۔
"پتہ نہیں تم کیوں میری بات نہیں مانتے... زمان جیسے انسان سے ہر نوعیت کی توقع جائز ہے۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~
مریم معمول کے مطابق کچن میں کام کر رہی تھی لیکن چہرے پر الجھن تھی۔
کمرے میں حماد اور حمزہ بیٹھے تھے۔
"پتہ نہیں یہ کیوں آیا ہے؟ کہیں طلاق کے لیے تو نہیں؟"
وہ چاےُ میں چمچ ہلاتی ہوئی بولی۔
وہ انہی سوچوں میں غرق تھی جب قدموں کی آہٹ سنائی دی۔
مریم نے گردن گھما کر عقب میں دیکھا تو آنکھیں تحیر سے پھیل گئیں۔
"تم یہاں کیوں آےُ ہو؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی۔
"تم سے ملنے کا دل کر رہا تھا۔"
حماد اس کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔
"اپنی حد میں رہو حماد... "
وہ لہجہ کو سخت بناتی پیچھے ہو گئی۔
"تم تو ایسے ڈر رہی ہو جیسے میں کوئی انسان نہیں جن بھوت ہوں... "
وہ آگے بڑھ کر اس کی کلائی پکڑ چکا تھا۔
"شرم آنی چائیے تمہیں میری بازو چھوڑو... میں حمزہ کو بلاتی ہوں..."
"ہاتھ چھوڑو مریم کا... "
یہ حمزہ کی آواز تھی۔
حماد کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"میں نے کہا اس کا ہاتھ چھوڑو... "
وہ بائیں ہاتھ مریم کی بازو پر رکھتا دائیں ہاتھ سے حماد کا ہاتھ جھٹکتا ہوا بولا۔
"اسے میری بیوی بننا ہے پھر اتنا تاؤ کیوں کھا رہے ہو؟"
وہ متعجب تھا۔
"جب بنے گی تب کی بات ہے۔ اور ابھی یہ میری عزت ہے سمجھے۔ اس لئے اپنی حد میں رہو۔"
وہ دونوں کے بیچ آتا ہوا بولا یوں کہ مریم اس کے پیچھے چھپ گئی۔
"اچھا نہیں کر رہے تم... "
وہ تلملا اٹھا۔
"میرا خیال ہے تمہیں اب چلے جانا چائیے یہاں سے.... "
وہ چبا چبا کر بولا۔
"بھولوں گا نہیں... "
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا باہر نکل گیا۔
مریم آنکھوں میں نمی لئے مسکرانے لگی۔
"تم ٹھیک ہو؟ مجھے آواز کیوں نہیں دی تم نے بتاؤ؟"
وہ برہمی سے گویا ہوا۔
"وہ.. میں کہہ رہی تھی اسے۔"
وہ بوکھلا کر اسے دیکھنے لگی۔
"کیا کہہ رہی تھی؟ تمہاری کہاں سننی تھی اس نے؟ اس عقل کا استعمال بھی کرنا سیکھو... "
وہ خفگی سے کہتا کمرے کی جانب چل دیا۔
مریم کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
"آپ کے غصے میں پوشیدہ فکر عیاں تھی...اس لئے مجھے برا نہیں لگا۔"
وہ کہتی ہوئی کپ میں چاےُ ڈالنے لگی۔
~~~~~~~~
"مینیجر سے بات ہوئی تمہاری؟"
وہ متجس سی اسے دیکھنے لگی۔
"جی ہوئی تھی... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"پھر کیا کہا اس نے؟"
وہ بے چینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولی۔
"کیا یہ مفید ثابت ہوگا؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"دیکھو زمان تیمور ایک غرور کا نام ہے۔ اور ان کا غرور ہے یہ دولت یہ لائف اسٹائل... اور جب یہ غرور یہ حکمرانی نہیں رہے گی تب جانتے ہو کیا ہوگا؟"
وہ آبرو اچکا کر بولی۔
"کیا؟"
وہ آہستہ سے بولا جیسے اس کی بات سمجھ گیا ہو۔
"تب وہ اس مچھلی کی مانند تڑپے گیں جسے سمندر سے نکال کر ساحل پر پھینک دیا گیا ہو۔"
ایک مبہم سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر رینگ گئی جسے اس نے بر وقت دبا لیا۔
"بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا مسکرانے لگا۔
"مجھے ان کا غرور توڑنا ہے بس... تاکہ انہیں احساس ہو جاےُ کہ وہ دولت کے نشے میں چور جو خود کو نعوذبلله خدا سمجھ رہے تھے ایسا کچھ نہیں ہے۔ شاید ﷲ نے یہ سب میرے ہاتھوں ہی لکھا تھا۔ اب مجھے بتاؤ مینیجر نے کیا جواب دیا؟"
بے چینی لہجے سے عیاں تھی۔
"وہ رضامند ہے۔ جب آپ کہیں وہ عملدرآمد کر دے گا۔"
وہ مدھم سا مسکرایا۔
"ویک اینڈ پر ہی... میں چاہتی ہوں انہیں ایک ساتھ دو شاک لگیں۔ اور ہاں خیال رہے جب رات گہری ہو تب یہ کام ہو۔تاکہ بچانا سہل نہ ہو... "
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
"جیسے آپ کہیں گیں ویسے ہی ہوگا۔ لیکن اس کے بعد وہ آپ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے سوچ لیا آپ نے؟یہ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہے۔"
وہ متفکر سا بولا۔
"وہ کچھ نہیں کریں گے ٹرسٹ می... "
وہ پر اعتماد انداز میں بولا۔
"آپ کہتی ہیں تو ٹھیک ہے... "
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی مان گیا۔
وہ سانس خارج کرتی کھڑکی کو گھورنے لگی۔
"آپ کے گھر والے دوسرے شہر شفٹ ہو رہے ہیں... ملیں گیں نہیں ان سے؟"
وہ جانچتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"نہیں جانے دو انہیں... میرا وہاں جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ویسے بھی میرے حق میں یہی بہتر ہے۔کیونکہ میری کمزوری میرے گھر والے ہیں اور اچھا ہوگا کہ زمان کے ہاتھ میری کمزوری نہ لگے۔"
وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
"لیکن پھر سوچ لیں ایک بار... "
وہ بضد ہوا۔
"نہیں زراد....انہیں خاموشی سے جانے دو۔ میں نہیں چاہتی زمان کو بھنک بھی لگے اس بات کی۔"
آنکھوں میں خوف تھا۔
"اور زمان کی دکھتی رگ؟ اس کی دولت؟"
وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا کھڑا ہو گیا۔
"بلکل... زمان کو ان کی کمزوری سے پکڑیں گے ہم لیکن کیا تم تیار ہو؟ کیونکہ خسارہ تمہیں بھی ہوگا... "
یکدم اسے خیال آیا۔
"آئم ریڈی فور ایوری تھینگ(میں ہر چیز کے لئے تیار ہوں)۔"
وہ عزم سے کہتا مسکرایا۔
"آر یو شیور؟"
وہ متحیر سی رہ گئی۔
"یس آئی ایم... "
وہ اثبات میں گردن ہلاتا ہوا بولا۔
"باقی کا کام دیکھ لینا پھر تم... "
وہ ہلکی پھلکی ہو گئی۔
"ڈونٹ وری..."
وہ سر کو خم دیتا الٹے قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
دروازہ بند ہو چکا تھا۔
وہ پھر سے اپنی سوچوں کے ساتھ تنہا رہ گئی تھی۔
"مجھے پورا یقین ہے میرا رب مجھے مایوس نہیں کرے گا۔"
~~~~~~~~
"یہ کیا بنایا ہے تم نے؟" ایلن کہاں ہے؟"
وہ ہاتھ مار کر ٹرے نیچے پھینکتا ہوا بولا۔
"سر... وہ چھٹی پر گئی ہیں۔"
وہ گھبراتی ہوئی بولی۔
"مجھ سے تو نہیں پوچھا اس نے؟ پھر کیسے گئی؟"
وہ اس کی جانب رخ موڑتا خطرناک تیور لئے بولا۔
"سر وہ رات طبیعت خراب ہو گئی تھی تو فوری طور پر... "
"شٹ اپ... یہ بہانے میرے سامنے نہیں چلیں گیں۔ اینڈ یو گیٹ لاسٹ... "
وہ انگلی سے اشارہ کرتا ہوا چلایا۔
"کیا ہوا زمان کیوں اتنا غصہ کر رہے ہو؟"
عظمی مسکراتی ہوئی وہاں آئی۔
"تنخواہیں لینے کو رکھنے ہیں بس یہ ملازم...کام کوئی نہیں آت اور وہ ایلن کیسے گئی چھٹی پر؟"
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
"ہاں وہ رات اس کی طبیعت ناساز تھی تو میں نے دی تھی چھٹی... "
وہ پانی کا گلاس اس کے سامنے کرتی ہوئی بولی۔
"ضرورت نہیں... "
وہ ہنکار بھرتا کھڑا ہو گیا۔
"دن بہ دن تمہارا غصہ بڑھتا جا رہا ہے... "
وہ زمان کی پشت کو دیکھتی ہوئی تشویش سے بولی۔
~~~~~~~~
"سر آپ نے نیوز چینل دیکھا؟"
مینیجر بوکھلائے ہوۓ اندر آیا۔
"مینرز بھول گئے ہو تم؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالتا ہوا بولا۔
"سر وہ آپ کی وائف نیوز چینل پر... "
وہ گھبرا کر کہتا بات ادھوری چھوڑ گیا۔
زمان اسے گھورتا ایل ای ڈی آن کرنے لگا۔
"لگاؤ ذرا وہ چینل... "
وہ ریموٹ آس کی جانب بڑھاتا منہ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
وہ جنت تھی جو فی میل اینکر کے سامنے بیٹھی تھی۔
"واٹ دا ہیل از دس؟"
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسکرین کو دیکھتا ہوا بولا۔
"تعارف تو ہو گیا اب آتے ہیں مدعے پر....یہ آپ کے چہرے کو کیا ہوا؟"
وہ تعجب سے بولی۔
"مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میرے شوہر مجھ پر تشدد کرتے ہیں۔ یہ میرا چہرہ دیکھیں یہ سوجھن، اور یہ میرا ہونٹ..."
وہ ہاتھ پر بندھی ہتھکڑی والا ہاتھ اٹھا کر انگلی رکھتی ہوئی بولی۔
"کیمرہ زوم کریں تاکہ سب بآسانی یہ نشان دیکھ سکیں... "
اینکر کی آواز گونجی۔
"یہ حال ہی میں ہوا آپ کے ساتھ؟ یا جب سے شادی ہوئی تب سے؟"
وہ آسودگی سے دیکھتی ہوئی بولی۔
"جب سے شادی ہوئی ہے تب سے۔ انہیں غصہ آتا ہے تو وہ مار پیٹ کرتے ہیں...سزا بھی دیتے ہیں۔ ایک بار میرا ہاتھ سیگرٹ سے جلایا تھا... یہ دیکھیں ابھی بھی نشان ختم نہیں ہوےُ۔"
وہ اپنا ہاتھ اسے دکھاتی ہوئی بولی۔
زمان کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہونے لگیں۔
"تو آپ خاموش کیوں رہیں؟ آپ کی شادی کو چار ماہ؟ چار ماہ ہوۓ ہیں نہ؟ اور وہ بلاوجہ مارتے تھے یا آپ؟"
وہ بات ادھوری چھوڑ کر استفسار کرنے لگی۔
"جی ہاں...چار ماہ ہو چکے ہیں۔ مجھے لگا وقت کے ساتھ یہ سب ٹھیک ہو جاےُ گا لیکن وقت کے ساتھ سب بگڑتا گیا۔ جب غصہ آیا ہاتھ اٹھا لیا... ان کے لئے یہ معمولی سی بات تھی۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"اچھا سب کو یہ بتائیں سزا کا نوعیت کی دیتے تھے زمان تیمور آپ کو؟"
وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"بھوکے رہنے کی سزا، سٹور روم میں بند کر دینا۔ اور سب سے بڑی سزا مجھے میرے والدین سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔"
بولتے بولتے دو موتی اس کے رخسار پر آ گرے۔
"یہ تو بہت ہی غلط ہے... "
اینکر بھی رنجیدہ ہو گئی۔
"تو آپ پولیس کے پاس کیوں نہیں گئیں؟"
وہ متجسس سی بولی۔
"پولیس کے پاس بھی گئی ہوں میں... لیکن یہ پاکستان کا نظام ہے وہ کیسے زمان تیمور جیسے انسان پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں؟ میری پولیس سے کوئی امید وابستہ بھی نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں مجھے انصاف ملے۔ وہ مجھے طلاق نہیں دینا چاہتے... "
بولتے بولتے گلے میں آنسوؤں کا گولہ پھنس گیا۔
"وہ کیوں آپ کو طلاق نہیں دینا چاہتے؟ آپ پر تشدد کرتے ہیں لیکن آپ کو جانے نہیں دینا چاہتے؟"
وہ ایک کے بعد دوسرا سوال کرنے لگی۔
"ان کی ضد ہے وہ مجھے ساری زندگی یہی سزا دینا چاہتے ہیں۔ یہ ہتھکڑی دیکھ رہی ہیں آپ؟ یہ انہوں نے لگائی ہے جس طرح میں اس گھر سے فرار ہو کر آئی ہوں میں جانتی ہوں یا میرا خدا؟"
وہ ضبط کرتی ہوئی بولی۔
"ہاں میں اسی انتظار میں تھی کہ آپ اس ہتھکڑی کا راز کھولیں.... تو آپ نے بہت اچھا کیا یہاں آ کر۔ آپ یہ مت سوچیں آپ تنہا ہیں۔ ہماری ٹیم، آپ کو دیکھنے والے سب آپ کے ساتھ ہیں اور مجھے امید ہے آپ کو انصاف ضرور ملے گا۔"
وہ پر عزم تھی۔
" ایسے کیسز اکثر دیکھنے میں آتے ہیں کہ شوہر بلا وجہ بیوی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے لیکن کوئی اسے روکنے والا نہیں ہوتا... آج نیوز چینل بنے گا آپ کی آواز۔ ہم دلوائیں گے آپ کو انصاف۔ تو ناظرین آج کے لئے بس اتنا ہی ہمیں اجازت دیجئے... "
ساتھ ہی بریک ہو گئی۔
زمان نے گلاس اٹھا کر سامنے دیوار پر دے مارا۔
"یہ لڑکی نیوز تک کیسے جا سکتی ہے؟"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
اس کا فون کو سائلنٹ پر تھا نجانے کب سے رنگ کر رہا تھا۔
جونہی فون پر نظر پڑی تو ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھا لیا۔
"چودھری صاحب یہ سب بکواس ہے... میں بھلا اپنی بیوی پر کیوں ہاتھ اٹھاؤں گا۔جھوٹ بول رہی ہے وہ۔"
کہتے ہوۓ اس نے فون بند کر دیا۔
اسی اثنا میں آفس کا فون بجنے لگا۔
"اب کسے مصیبت آن پڑی... "
وہ کوفت سے کہتا ریسور کان سے لگانے لگا۔
"یہ سب فیک ہے... کوئی حقیقت نہیں اس میں۔"
اس نے کہتے ہوۓ ریسور کریڈل پر مار دیا۔
موبائل پر پھر سے کسی بزنس مین کا فون آ رہا تھا۔
"کیا مصیبت کھڑی کر دی ہے اس پاگل لڑکی نے... "
اس نے کہتے ہوۓ فون آف کر دیا۔
وہ چابیاں اٹھاتا اپنے کیبن سے باہر نکل آیا۔
سٹاف اسے دیکھ کر سرگوشیاں کر رہا تھا۔
"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ؟"
وہ دو لڑکوں کو گھورتا ہوا بولا جو اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے۔
"نہیں سر کوئی مسئلہ نہیں... "
ان میں سے ایک نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"تو اپنا کام کریں... "
وہ برہمی سے کہتا سرعت سے آگے نکل گیا۔
"میری ساخت تباہ کرنا چاہتی ہے یہ لڑکی... تم میرے ہاتھ لگ جاؤ جان سے مار دوں گا۔"
وہ گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
ڈرائیور اسے دیکھ کر گاڑی چلانے لگا۔
"تیز چلاؤ نہ... سائیکل چلا رہے ہو کیا؟"
وہ اس پر برسا۔
"سوری سر... "
وہ کہتا ہوا سپیڈ بڑھانے لگا۔
"زمان یہ سب کیا؟"
عظمی اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"مجھے کوئی بات نہیں کرنی فلحال... لیو می آلون(مجھے تنہا چھوڑ دیں)۔"
وہ ہاتھ اٹھا کر کہتا راہداری میں چلنے لگا۔
جنت کے انٹرویو نے ہل چل مچا دی تھی۔
اس حقیقت کے آشکار ہونے پر سب حیران تھے۔
زمان تیمور جیسے ڈیسنٹ انسان کی یہ حقیقت آشکار ہونا کسی تباہی سے کم نہ تھا۔ سوال اس کی ریپوٹیشن پر آ چکا تھا جسے بنانے میں اس نے سالوں لگا دئیے تھے۔
وہ دروازہ لاک کر کے سیگرٹ سلگانے لگا۔
ایک آگ تھی جو اس کے تن بدن میں لگ چکی تھی۔
"تمہاری اتنی ہمت؟ کہ میرے خلاف جاؤ... یہ سب تم نے کیا کیسے؟"
وہ دھواں لبوں سے آزاد کرتا ہوا غرایا۔
"ایک بار میرے سامنے آ جاؤ... آئی سوئیر تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ میری اتنی سالوں کی بنائی عزت کو تم خاک میں نہیں ملا سکتی۔"
وہ تلملاتا ہوا بولا۔
"نجانے کہاں چھپ کر بیٹھی ہے؟"
وہ ہنکار بھرتا دوسری سیگرٹ سلگانے لگا۔
"اس لڑکی کا کچھ کرنا پڑے گا... "
وہ کش لیتا ہوا پرسوچ انداز میں بولا۔
"اس اینکر کو اٹھاؤ اور پتہ کرو جنت کا... وہ زمین کے اندر چھپی ہو یا کہیں بھی مجھے ہر حال میں اپنے سامنے چائیے وہ... "
وہ فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔
"اور اس بار اگر اپنے جیسی منحوس خبر لے کے آےُ تو اپنا انجام خود سوچ لینا... "
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
"کس مصیبت میں ڈال دیا ہے مجھے اس لڑکی نے... "
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا خود کو پر سکون کرنے لگا۔
"اس سب کا جواب تو دینا پڑے گا... اتنی آسانی سے میں تمہیں اپنی ریپوٹیشن خراب نہیں کرنے دوں گا۔ تم ہو کیا میرے سامنے؟ صرف ایک لمحہ چائیے مجھے تمہارا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔"
وہ سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلتا ہوا بولا۔
کچھ سوچ کر اس نے فون اٹھایا اور نمبر ملانے لگا۔
"جی وکیل صاحب زمان تیمور بات کر رہا ہوں.... "
وہ پاؤں ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا۔
"جی جی بولیں سر... میں آپ کی کال کا ہی انتظار کر رہا تھا۔"
مقابل خاصے خوشگوار موڈ میں تھا۔
"اس سب کا حل نکالنا ہے مجھے جلد از جلد... "
وہ زور دے کر بولا۔
"آپ حکم کریں... کام ہو جاےُ گا۔"
"ڈائیورس پیپر تیار کروائیں گزشتہ تاریخ کے... مجھے سب کو یہ بتانا ہے کہ میں پہلے ہی اسے چھوڑ چکا ہوں۔ اور طلاق کی وجہ آپ لکھئے گا کہ بدکردار تھی دیور کے ساتھ افئیر چل رہا تھا اس کا۔"
وہ بھرپور طمانیت سے بولا۔
"سر کل تو سنڈے ہیں... میں پیپرز وغیرہ تیار کرواتا ہوں لیکن باقی کام منڈے(سوموار) کو ہی ہوگا۔"
وہ جھٹ سے بولا۔
"جیسے کرنا ہے کرو لیکن جلدی... جتنی زیادہ یہ نیوز پھیلے گی اتنے لوگوں کے علم میں آےُ گا میں فوری طور پر سب کے منہ بند کروا دینا چاہتا ہوں... "
وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔
"اوکے سر... "
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
زمان دوسری سیگرٹ نکال کر اسے جلانے لگا۔
~~~~~~~~
"امی آپ نے نیوز دیکھی؟"
مریم آنکھوں میں نمی لئے بول رہی تھی۔
"میں پہلے کب دیکھتی ہوں؟ کیوں ایسا کیا تھا اس میں؟"
وہ تعجب سے بولیں۔
"امی جنت آئی تھی ٹی وی پر... وہ سب بتا رہی تھی امی وہ بےقصور تھی۔"
وہ اشک بہاتی ہوئی بولی۔
"کیا مطلب ہے تمہارا؟"
ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"امی زمان نے اسے منع کر رکھا تھا...وہ اسے مارتا تھا اور دیکھیں اس نے ہمیں معلوم تک نہیں ہونے دیا سب تنہا سہتی رہی۔"
اشکوں کی روانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
"یا ﷲ....یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟ ایسا تھا تو اس نے بتایا کیوں نہیں کبھی؟ کہاں ہے وہ؟"
وہ متفکر سی بولیں۔
"میں نہیں جانتی وہ کہاں ہے ٹی وی پر دیکھا تھا اسے۔ وہ بہت تکلیف میں تھی اس کے ہاتھ پر ہتھکڑیاں تھیں نجانے کتنا ظلم کرتا تھا زمان اس پر؟"
اس کی آنکھوں کے سامنے جنت کا کربناک چہرہ گھوم گیا۔
"ہاےُ میری بچی... ہم کیا سمجھ رہے تھے اور حقیقت کیا تھی۔ مریم تم رابطہ کرو اس سے کسی بھی طرح۔"
وہ بے چینی سے بولیں۔
"میں کوشش کرتی ہوں لیکن اس کا نمبر ابھی تک بند جا رہا ہے... ﷲ کرے وہ ٹھیک ہو جہاں بھی ہو۔"
وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی بولی۔
"ہر وقت یہ فون لے کر بیٹھی رہتی ہو تم...."
حمزہ اس کے ہاتھ سے فون پکڑ کر بند کرتا ہوا بولا۔
"وہ امی سے بات کر رہی تھی...."
وہ چہرہ صاف کرتی کھڑی ہو گئی۔
"ٹینکی بھر گئی ہے نجانے کب سے پانی گر رہا ہے لیکن تمہیں کوئی ہوش ہی نہیں.... "
وہ خفا انداز میں کہتا صوفے پر بیٹھ کر جوتے کے تسمے کھولنے لگا۔
"سوری... وہ مجھے خیال نہیں رہا۔ میں آپ کے لئے پانی لاتی ہوں۔"
وہ خود پر قابو پاتی ہوئی بولی۔
"حد ہوتی ہے لاپرواہی کی بھی... یہ بل میری جیب سے جانا ہے کسی اور نے آ کر نہیں بھرنا۔"
وہ سخت خفا دکھائی دے رہا تھا۔
"آگے سے دھیان رکھوں گی میں... "
وہ آہستہ سے کہتی باہر نکل گئی۔
"پتہ نہیں کون سی باتیں ہوتی جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں...."
وہ صوفے سے ٹیک لگاتا کوفت سے بولا۔
~~~~~~~~
"تمہاری نیوز چینل والوں سے بات ہوئی ہے نہ؟ تم نے انہیں سمجھا دیا تھا نہ؟"
وہ متفکر سی بولی۔
"آپ فکر کیوں کر رہی ہیں؟ میں نے چینل والوں کو بھی اور اس اینکر کو بھی الگ سے سمجھا دیا تھا کہ میرے اور آپ کے بارے میں کسی کو کچھ بتایا نہ جاےُ۔"
وہ پانی کا گلاس اٹھاتا ہوا بولا۔
"لیکن پھر بھی مجھے ٹینشن ہو رہی ہے اگر زمان کو تمہارا معلوم ہو گیا تو وہ چھوڑیں گے نہیں... "
وہ ٹہلتی ہوئی بولی۔
"اس طرح چکر لگانے سے ٹینشن ختم نہیں ہو جاےُ گی۔"
جنت کے برعکس وہ پرسکون تھا۔
"تمہیں ڈر نہیں لگ رہا؟"
وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔
"نہیں... "
وہ بےخوف سا بولا۔
"مجھے اپنی فکر نہیں ہے۔ہاں اگر میرے باعث تمہیں کچھ ہوا تو میں خود کو معاف نہیں کر سکوں گی۔"
وہ مجرمانہ انداز میں بولی۔
"ایک بات بتائیں...کیا آپ نے مجھے مجبور کیا اس سب کے لیے؟"
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
وہ جواباً نفی میں سر ہلانے لگی۔
"تو پھر کیوں سوچ رہی ہیں اتنا؟ انجام کا ذمہ دار میں خود ہوں۔ اور میں اپنی مرضی اور خوشی سے یہ سب کر رہا ہوں اب مجھے یہ بتائیں دوسرا اٹیک کتنے بجے دینا ہے؟"
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
"رات کو دو بجے... "
وہ خفا انداز میں بولی۔
"میرا خیال ہے آپ کو اپنے گھر والوں سے اب بات کر لینی چائیے انہیں چوکنا رہنے کا بولیں... یہ اسی دن کا انٹرویو ہے اس لئے آپ کا کرب واضح دکھائی دے رہا ہے اب آپ کو کوئی صفائی نہیں دینی پڑے گی۔"
وہ مبہم سا مسکرایا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہو... مجھے انہیں آگاہ کر دینا چائیے۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتی آہستہ سے بولی۔
"آپ کو لگتا ہے آپ کی فیملی محفوظ ہے؟"
وہ چلتا ہوا صوفے پر جا بیٹھا۔
"ﷲ سے امید تو یہی لگائی ہے۔"
وہ آہستہ سے کہتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"پتہ نہیں کیوں؟لیکن مجھے نہیں لگتا...زمان کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہے اس نے کم عمری میں بزنس سنبھالا تھا تو ہمیں اسے بے خبر پر گز نہیں سمجھنا چائیے۔"
وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
"کیا زمان نے کوئی بات کی ہے؟"
وہ ہاتھ مسلتی ہوئی بولی۔
"نہیں... لیکن انہوں نے کچھ تو سوچا ہوگا اگر آپ ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھیں گیں تو کیا بدلے میں وہ ایسا نہیں کریں گے؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"تم نے مجھے پریشان کر دیا ہے... "
وہ نظروں کا زاویہ موڑتی ہوئی بولی۔
"پریشان نہیں... آپ کو اس لئے بتا رہا کہ ہر چیز کے لئے تیار رہیں یہ جو جنگ کا آغاز آپ نے کر دیا ہے اس میں نقصان کس کا؟ کتنا ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا... "
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"تم کچھ کر نہیں سکتے؟ ایک دن میں تم نے میرا انٹرویو کروا دیا تو کیا میری امی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟"
وہ صحیح معنوں میں فکرمند نظر آنے لگی تھی۔
"اپنے طور پر تو میں نے کوشش کی ہے۔ لیکن اسی لئے تو کہہ رہا ہوں انہیں بتائیں تاکہ وہ سوچ سمجھ کر کوئی بھی قدم اٹھائیں... "
وہ چہرے پر سنجیدگی طاری کئے بول رہا تھا۔
جنت نے ایک لمحے کا ضیاع کئے بغیر نمبر ملایا اور فون کان سے لگا لیا۔
زراد نظروں کا زاویہ موڑتا کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
"امی کیسی ہیں آپ؟"
بے تابی سے پوچھا گیا۔
"میری بچی تم کیسی ہو یہ بتاؤ؟ اتنا سب ہو گیا اور تم نے ہمیں بتایا تک نہیں؟"
وہ اشک بہاتی بول رہی تھیں۔
"میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔"
وہ ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتی ہوئی بولی۔
"پریشان؟ اور خود اس ظالم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟ اتنی ارزاں تھی تم؟"
وہ تاسف سے بول رہی تھیں۔
"امی یہ سب چھوڑیں... یہ بتائیں آپ لوگ ٹھیک پہنچ گئے ہیں؟"
فکر لہجے میں عیاں تھی۔
"ہاں ہم تو ٹھیک ہیں کیوں؟"
وہ حیران ہوئیں۔
"امی آپ اور کبیر بھائی پلیز دھیان سے رہیے گا... زمان کا کوئی بھروسہ نہیں مجھ سے بدلہ لینے کے لیے آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔"
وہ لٹ کاٹتی زراد کو دیکھنے لگی جو کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔
"تم تو مجھے ڈرا رہی ہے۔ اور یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی مجھے بتاؤ؟ وہاں سے بھاگی تھی تو میرے پاس آ جاتی... جنت یہ بڑے لوگوں کے ساتھ دشمنی ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔"
ان کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگا۔
"امی آپ ﷲ پر توکل رکھیں۔ اس سے دعا کریں وہ سب ہمارے حق میں بہتر کرے گا۔ میری آپ سے بات ہوئی ہے یہ راز ہی رہے۔"
وہ زور دے کر بولی۔
"اچھا ٹھیک ہے... لیکن میں تمہیں یہی مشورہ دوں گی بیٹھ کر بات کر لیتے ایسے تو معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ آخر دے ہی دیتا طلاق وہ تمہیں..."
وہ متفکر سی بولیں۔
"بات طلاق کی نہیں تھی امی بات ان کے غرور کی تھی۔ اور غرور کا سر نیچا ہوتا ہے ان کا بھی ہوگا آپ دیکھئے گا۔ ہر عروج کو زوال آتا ہے انہیں بھی آےُ گا۔ اپنا خیال رکھیے گا۔"
اس نے کہتے ساتھ فون بند کر دیا۔
وہ ششدر سی فون کو دیکھنے لگیں۔
جنت منہ پر ہاتھ رکھے آنسوؤں پر بندھ باندھنے لگی۔
زراد ایک نظر اس پر ڈالتا کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔
"میرے پاس آپ کو چپ کروانے کا حق نہیں ہے.... شاید میں دوستی کے عہدے سے بھی دستبردار ہو گیا ہوں۔"
وہ جیب میں ہاتھ ڈالے باہر دیکھتا کھوےُ کھوےُ انداز میں بولا۔
"میں ٹھیک ہوں... "
وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بولی۔
"آر یو شیور؟"
دیکھ باہر رہا تھا لیکن مخاطب جنت سے تھا۔
"یس.. "
وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہو گئی۔
"میں اسی لئے بات نہیں کر رہی تھی کسی سے بھی... "
وہ سر جھکا کر بولی۔
"کہ کمزور پڑ جائیں گیں؟"
وہ جیسے سمجھ چکا تھا۔
"ہاں... اور میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی۔"
وہ خود کو نارمل کر چکی تھی۔
"فکر مت کریں ﷲ آپ کے ساتھ ہے ورنہ اتنا سب اتنی آسانی سے نہ ہوتا۔ وہ آگے بھی آپ کو تھام کر رکھے گا۔"
جانے کیسا اعتماد تھا اس کے لہجے میں کہ جنت نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔ وہ پہلے کی نسبت سنجیدہ ہو چکا تھا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہو۔"
وہ چاہ کر بھی مسکرا نہ سکی۔
"میں چلتا ہوں۔ زمان شاید ڈھونڈ رہا ہو مجھے اور وہ کام دو بجے ہو جاےُ گا۔"
وہ مسکرا کر کہتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
"تھینک یو... "
وہ اس کی پشت کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"تھینکس نہیں چائیے... بس میری نیت پر شک مت کرنا آپ۔ پہلی بار کسی کے لیے کچھ کر رہا ہوں سچے دل سے۔ اس دن تکلیف ہوئی تھی مجھے جب آپ غلط سمجھ کر چلی گئی تھیں۔ حالانکہ اس جذبے پر کسی کا زور نہیں چلتا نہ ہی یہ ہماری اجازت طلب کرتا ہے۔ نہ ہی میں نے آپ کو مجبور کیا کبھی کہ.... "
وہ دروازے کے وسط میں کھڑا تھا۔
اس سے قبل کہ جنت کچھ بولتی وہ دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
"بھلا تمہاری نیت پر کیسے شک کر سکتی ہوں میں؟ اگر تم میری مدد نہ کرتے تو کبھی یہاں تک نہ پہنچتی میں... "
وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
کھڑکی سے باہر دیکھیں تو رات کی تاریکی اور خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔
چار سو اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ یہ رات بھی کچھ زیادہ ہی تاریک تھی۔
~~~~~~~~~
زمان بے خبر اپنے نرم گداز بستر پر سو رہا تھا۔
اتنی ٹینشن کے بعد بھی وہ ہر فکر سے آزاد معلوم ہوتا تھا۔
فون کی رنگ ٹون نے اس کی نیند میں خلل پیدا کیا۔
روشن پیشانی پر ہلکی ہلکی شکنیں ابھرنے لگیں۔
مونچھوں تلے عنابی لب وا ہوۓ۔
چہرے پر بیزاری کے تاثرات ابھرنے لگے۔
پلکوں میں جنبش آئی اور وہ آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھا۔
فون ابھی تک رنگ کر رہا تھا۔
"اتنی صبح صبح کسے مصیبت آن پڑی ہے؟"
وہ کوفت سے کہتا فون اٹھانے لگا۔
"فیکٹری کا مینیجر؟"
اس نے حیرت سے نام پڑھا۔
"ہیلو؟"
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
"سر فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے... "
دوسری جانب سے بوکھلاہٹ میں کہا گیا۔
"واٹ؟"
وہ سیدھا ہو گیا۔
آنکھوں میں جو نیند تھی اب مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔
"تم کہاں ہو؟"
وہ کمبل پرے کرتا نیچے اترا اور سلیپر پہننے لگا۔
"سر میں یہیں پر ہوں....کسی کا فون آیا تھا کہ فیکٹری میں آگ لگی ہے لگتا ہے سب تباہ ہو گیا۔"
وہ پریشان سا بولا۔
"میں تمہیں تباہ کر دوں گا... تمہیں کس لئے رکھا ہے میں نے؟"
وہ آگ بگولہ ہو گیا۔
"ہیلو سر؟ آپ کی آواز نہیں آ رہی... ہیلو؟"
ان آوازوں کے بعد فون بند ہو گیا۔
"آواز تو تمہیں میں سناؤں گا... "
وہ خطرناک تیور لئے چابی اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ زمان تیمور ٹی شرٹ اور ٹراؤذر پہنے گھر سے باہر نکلا۔
گھنے بال پیشانی پر منتشر تھے۔
لب سختی سے بھینچ رکھے تھے۔
وہ فل سپیڈ پر گاڑی چلا رہا تھا۔
جیسے اسے یقین ہو کہ وہاں پہنچنے پر وہ سب ٹھیک کر لے گا۔
وہاں پہنچ کر زمان تیمور کو احساس ہوا کہ اب دیر ہو چکی ہے۔
یہ فیکٹری شہر سے ہٹ کر تھی۔
فیکٹری سے نکلتا سیاہ دھواں آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔
شعلے بھڑک رہے تھے۔
"مائی گاڈ؟"
وہ گاڑی سے باہر نکلتا ہوا بولا۔
"ہاؤ از ڈیٹ پاسبل؟(یہ کیسے ممکن ہے؟)"
وہ مینیجر کو گریبان سے پکڑتا ہوا بولا۔
"سر میرا کیا قصور اس میں؟"
وہ سادگی سے بولا۔
"تنخواہ کس چیز کی لیتے ہو تم؟ اور فائر بریگیڈ کہاں ہے؟"
وہ اسے جھکٹے سے آزاد کرتا آگے چلنے لگا۔
"سر فون کیا ہے آتے ہوں گے بس... "
وہ سینے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
"آگ لگی کیسے؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"سر معلوم نہیں... چوکیدار کو جب تک علم ہوا تب تک آگ بہت بڑھ چکی تھی۔"
وہ سر جھکا کر بولا۔
"مفت کی تنخواہیں لینے بیٹھے ہیں سب یہاں... "
وہ خطرناک تیور لئے آگے بڑھا۔
"سر میرا کیا قصور؟"
وہ گھبرا کر پیچھے ہو گیا۔
وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلنے لگا۔
"تم کب اسے ڈھونڈو گے؟ جب وہ میری موت کا پروانہ جاری کروا چکی ہو گی؟"
وہ فون کان سے لگاےُ سائیڈ پر آ گیا۔
"مجھے آج ہی وہ چائیے... کیسے میں نہیں جانتا۔ لیکن اگر وہ آج نہ ملی تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا یاد رکھنا یہ بات۔"
وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔
"اگر نہیں کچھ بولتی وہ اینکر تو مار دو... ایک گولی کھا کر دیکھنا سب بتاےُ گی۔ سب معلوم ہوتا ہے ڈرامے کرتے ہیں اور کچھ نہیں... "
وہ ہنکار بھرتا فون بند کر گیا۔
"اسے صاف کرواؤ پھر مجھے صورتحال سے آگاہ کر دینا... "
وہ فون جیب میں ڈالتا ہوا بولا۔
مینیجر کا منہ کھل گیا۔
اس کے ماتھے پر ایک شکن بھی نہیں رہی تھی۔
"اتنے بڑے نقصان کے بعد کوئی کیسے اتنا پرسکون ہو سکتا ہے؟"
وہ اسے گاڑی کی جانب بڑھتے دیکھ کر بولا۔
"ویسے عجیب انسان ہیں یہ بھی... "
وہ جھرجھری لیتا چوکیدار کی جانب بڑھ گیا۔
"تمہیں لگتا ہے تم مجھے مات دے دو گی؟ تو تمہاری بھول ہے۔ زمان تیمور کو مات دینے والا کوئی پیدا ہوا ہی نہیں... "
ایک ایک لفظ سے غرور چھلک رہا تھا۔
زمان پر اس وقت یہ محاورہ بلکل ٹھیک آتا ہے کہ رسی جل گئی لیکن بل نہیں گیا۔
"ایوری تھینگ اوکے(سب ٹھیک ہے؟) اس طرح کہاں گئے تھے تم؟"
عظمی لاؤنج میں کھڑی تھی جب زمان وہاں نمودار ہوا بولا۔
"یس... وہ فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی۔"
وہ کہتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔
"کیا؟ آگ؟ کیسے لگ گئی؟"
حیرت سے آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"پانی دیں... "
وہ بیزار دکھائی دے رہا تھا۔
"یہ لو... اور وہ لینڈ لائن پر تمہارے لئے فون آ رہے ہیں۔ سب پوچھ رہے ہیں کیا جواب دوں میں؟"
وہ شش و پنج میں مبتلا تھی۔
"اس لڑکی کی وجہ سے یہ دن آ گیا ہے کہ لوگ مجھ سے سوال پوچھ رہے ہیں۔ مطلب اب میں جواب دوں انہیں.... "
وہ ہنکار بھرتا پانی پینے لگا۔
"اس سب کا کچھ کرو گے نہیں؟"
وہ آہستہ سے بولی۔
"کروں گا... فلحال آپ کسی کی کال مت لیں۔ سب کے منہ بند کروا لوں گا میں۔"
وہ ناگواری سے بولا۔
"ماموں؟"
ابراہیم چہکا اور اس کے پاس آ گیا۔
"آج نہیں... ماموں کو کام ہے۔"
وہ اس کے بال بکھیرتا راہداری میں چلنے لگا۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے بھئی؟"
سندس آبرو اچکا کر بولی۔
"مجھے خود نہیں معلوم... حیرت ہے وہ مڈل کلاس لڑکی میڈیا تک گئی کیسے؟"
عظمی ہونٹوں پر انگلی رکھتی پر سوچ انداز میں بولی۔
"مام ویسے دیکھا جاےُ تو جو حال تھا اس کا یہ سب متوقع تھا... آخر کب تک برداشت کرتی وہ؟ انسان ہے وہ بھی۔"
وہ تاسف سے بولی۔
"تمہیں بہت ہمدردی ہے اس سے... کہیں تمہیں تو اس کی مدد نہیں کر رہی؟"
وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھنے لگی۔
"فار گاڈ سیک(خدا کے واسطے) مام...میں کیوں ایسا کروں گی؟"
وہ بگڑ کر بولی۔
"ریحام کا بھی فون آیا تھا مجھے کافی غصے میں تھی... "
وہ نیوز پیپر اٹھاتی ہوئی بولی۔
"ابراہیم آپ گارڈن میں جاؤ اور پلے کرو... "
وہ اس کے سر پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔
"اوکے ماما... "
وہ کہتا ہوا باہر چلا گیا۔
"کیوں اسے کس بات پر غصہ آ رہا ہے؟"
وہ آبرو اچکا کر بولی۔
"یہی جو سب اس جنت نے کیا زمان کے ساتھ اور اب فیکٹری میں آگ لگ گئی۔ لگتا ہے کسی کی نظر لگ گئی ہے۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"جب ظلم کریں گے تو کسی کی تو آہ لگے گی نہ... "
وہ کہتی ہوئی اٹھی اور راہداری میں چلنے لگا۔
"ان کے دماغ ہمیشہ الٹے ہی کام کرتے ہیں..."
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
وہ زراد کے کمرے کے باہر کھڑی دستک دے رہی تھی۔
چہرے پر خفگی طاری تھی۔
"یار اتنی صبح کیوں تنگ کر رہے ہو؟"
وہ دروازہ کھول کر آنکھیں مسلتا ہوا بولا۔
بال منتشر تھے۔
نیند میں ڈوبی آنکھوں میں خفگی تھی۔
"پیچھے ہٹو... فارغ بس سوتے رہا کرو۔"
وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کرتی ہوئی بولی۔
وہ قہقہ لگاتا دروازہ بند کر کے اندر آ گیا۔
"یہ صبح صبح موت کا فرشتہ بن کر کیوں نازل ہو گئیں آپ؟"
وہ شرارت سے کہتا بیڈ پر گر گیا۔
"کبھی سنجیدہ بھی ہو جایا کرو... "
وہ اس کے سر پر چت لگاتی ہوئی بولی۔
"آپ کافی ہیں نہ سنجیدہ سی لڑکی... "
وہ کہاں باز آنے والا تھا۔
"زراد.... "
وہ لہجے کو سخت بناتی ہوئی بولی۔
"جی فرمائیں؟"
وہ زبردستی آنکھیں کھولے ہوۓ تھا۔
"تمہیں کچھ خبر بھی ہے فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے... آج کل تم گھر سے اتنا غائب کیوں رہنے لگے ہو؟"
وہ جانچتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیوں زمان تیمور بن رہی ہیں؟ اس گھر میں ایک جلاد ہی بہت ہے۔"
وہ منہ بناتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
"اب تمہارے منہ پر لگاؤں گی میں ایک... "
وہ برہمی سے گویا ہوئی۔
"اچھا تو پھر میں کیا کروں؟ جا کر پانی ڈالوں؟"
وہ منہ بسورتا ہوا بولا۔
"تم مجھے مشکوک لگ رہے ہو... کیا بات ہے بتا دو۔"
وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیا آپ پولیس بن کر آ گئی ہیں؟ میں نے کیا کر دیا ہے؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"تم جانتے ہو جنت کہاں ہے؟"
وہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
"جی یہیں میرے کمرے میں ہے۔ مطلب حد ہوگئی میری کیا وہ بچپن کی سہیلی تھی جو مجھے معلوم ہوگا۔"
وہ کہتا ہوا بیڈ سے اتر گیا۔
"جیسے مجھے تم پر شک ہو رہا ہے زمان کو بھی تم پر ہی...."
"انہیں اول روز سے مجھ پر ہی شک ہے۔ثبوت لے آئیں میں قبول کر لوں گا۔"
وہ اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
سندس خاموش ہو گئی۔
"اور کچھ پوچھنا ہے آپ کو یا میں سو سکتا ہوں؟"
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"سو جاؤں... "
وہ اپنے خیالات جھٹکتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
زراد چند لمحے خاموشی سے دروازے کو تکنے لگا۔
پھر سانس خارج کرتا بیڈ پر ڈھیر ہو گیا۔
~~~~~~~~
"کہاں ہے وہ اینکر؟"
زمان پیشانی پر بل ڈالے اس نیم تاریک کمرے میں داخل ہوتا ہوا بولا۔
"سر دوسرے کمرے میں ہے۔ لیکن ابھی تک منہ نہیں کھولا اس نے... "
وہ مایوسی سے سر جھکاتا ہوا بولا۔
"ہر کام خود کرنا پڑتا ہے کوئی نفع نہیں مجھے تم جیسوں کا... "
وہ ہنکار بھرتا باہر نکلا اور دوسرے کمرے میں آ گیا۔
ایک جوان نو عمر لڑکی کو کرسی پر بٹھا کر رسیوں سے باندھا گیا تھا۔
منہ پر ٹیپ لگا رکھی تھی۔
چہرے پر خشک آنسوؤں کے نشان تھے۔
زمان کو دیکھ کر آنکھیں مزید پھیل گئیں۔
"کچھ نہیں جانتی نہ تم؟"
وہ اس کے منہ سے ٹیپ کھینچ کر اتارتا ہوا بولا۔
"وہ... مہ...مجھے کچھ نہیں پتہ۔"
انجام اسے خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔
"انٹرویو کے دوران تو زبان بہت تیزی سے چل رہی تھی۔ کیا کہہ رہی تھی تم؟ ہاں انصاف دلاؤں گی... مجھے بتاؤ یہاں سے خود کو آزادی کیسے دلواؤں گی؟"
وہ اس کا منہ دبوچ کر اوپر کرتا ہوا بولا۔
وہ کراہ کر اسے دیکھنے لگی۔
"تم جیسے لوگ میرے سامنے کچھ بھی نہیں... اب تم میرے وقت کا ضیاع کرنا چاہتی ہو یا؟"
وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"سر وہ خود آئی تھی سٹوڈیو... مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے وہ کہاں رہائش پذیر ہیں؟"
آواز کپکپا رہی تھی کیونکہ بندوق وہ صبح میں دیکھ چکی تھی۔
"اکیلی تھی یا ساتھ میں کوئی تھا؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"مجھ سے تو اکیلی ہی ملی تھیں... مجھے کہا گیا کہ ان کا انٹرویو لینا ہے تو میں نے لے لیا۔"
وہ تیز تیز بول رہی تھی۔
"نہیں... تم جھوٹ بول رہی ہو۔"
وہ جیسے اپنی پسند کا جواب سننا چاہتا تھا۔
"میں سچ کہہ رہی ہوں... "
وہ تھوک گلے سے اتارتی ہوئی بولی۔
"اس کے ساتھ کوئی لڑکا بھی تھا۔ انہوں نے تمہیں منع کیا ہے اس لئے تم بتا نہیں رہی۔ لیکن دیکھو اس سے قبل کہ میں تمہارے بولنے کی صلاحیت سلب کر لوں تم مجھے بتا دو۔"
وہ بے حسی سے گویا ہوا۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
"مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں بولو اب..."
وہ کوٹ کا بٹن بند کرتا ہوا بولا۔
"آپ کا بھائی تھا... "
وہ سر جھکا کر بولی۔
"ویری گڈ... سنو اب اس کے بولنے کی صلاحیت سلب کر لو۔ اور..."
وہ جاتا ہوا رک گیا۔
"اس کے دائیں ہاتھ کا بھی کچھ کر دینا میں نہیں چاہتا لکھ کر کوئی بیان دے یہ لڑکی۔ اور اپنی فیملی کو سمجھا دینا اگر میرے خلاف جانے کا سوچا تو یہ چین چلتی رہے گی۔ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا لیکن تم جیسے لوگوں کا یقیناً خسارہ ہو گا۔"
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھتا ہوا بولا اور وہاں سے باہر نکل گیا۔
"نہیں پلیز... ایسا کچھ مت کرنا میں کسی کو کچھ نہیں بولوں گی۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"اپنا منہ بند رکھو... "
وہ اس کے منہ پر ٹیپ لگاتا ہوا بولا۔
~~~~~~~~~
جنت برقعہ پہنے ہوٹل سے باہر تھی۔
وہ کافی دور نکل آئی تھی اور اب وہ اس سم کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
"اب لگتا ہے آپ سے بات کرنی چائیے.... "
وہ بولتی ہوئی فون سے سم نکالنے لگی۔
اپنی سم ڈال کر وہ زمان کا نمبر ملانے لگی۔
زمان جو ڈرائیونگ کر رہا تھا فون پر جنت کا نام دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔
"کہاں چھپ کر بیٹھی ہو تم؟"
وہ گاڑی سائیڈ پر روکتا ہوا غرایا۔
"آپ کو غصہ آ رہا ہے؟"
وہ طمانیت سے بولی۔
"اپنی بکواس بند رکھو... اور یہ جو تم کر رہی ہو کیا سمجھتی ہو؟ مجھے مات دے دو گی؟"
وہ استہزائیہ ہنسا۔
"نہیں بھلا میری کیا مجال... لیکن میرا ﷲ ضرور دے سکتا ہے۔"
وہ پُر عزم سی بولی۔
جواب میں اسے زمان کا قہقہ سنائی دیا۔
"جانتی ہو تم جس دن تم میرے سامنے آئی وہ دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ شرم آنی چائیے تمہیں اپنے شوہر کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہوۓ۔"
وہ تلملاتا ہوا بولا۔
"سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اس لئے آپ کو بھی کڑوا لگ رہا ہے یہ سب۔"
وہ تنک کر بولی۔
"اب میری بات سنو... آ کر طلاق کے پیپرز پر سائن کرو۔"
وہ پیشانی مسلتا ہوا بولا۔
"کیوں؟ کیا میں پاگل ہوں جو پھر سے آپ کے پاس آ جاؤں؟"
وہ بگڑ کر بولی۔
"تمہاسے ساتھ جو کرنا ہوگا وہ تو میں کر ہی لوں گا۔ ابھی میرا دماغ خراب مت کرو سمجھی۔ورنہ میں اچھے سے جانتا ہوں تمہاری ماں اور بھائی کہاں گئے ہیں۔"
ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔
جنت کا سکون لمحے میں غرق ہوا۔
چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں۔
زبان کنگ ہو گئی۔
"کیا ہوا بولتی بند ہو گئی؟"
وہ ہنسا۔
"جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہے... آپ ابھی تک مجھے ڈھونڈ نہیں سکے تو انہیں کیا ڈھونڈیں گے؟"
وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی بولی۔
"ہاں کیونکہ تم میری لاعملی میں بھاگی جبکہ وہ تو میرے سامنے گئے ہیں۔"
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"آپ کچھ نہیں کریں گے انہیں.. "
یکدم وہ پریشان ہو گئی۔
"کیوں؟ میرا کیا رشتہ ان سے؟"
وہ محظوظ ہوا۔
جنت لب کاٹتی سامنے دیکھنے لگی۔
"اتنی بہادر ہو تو چھپ کر کیوں بیٹھی ہو؟ سامنے کیوں نہیں آتی ہاں؟"
وہ برہم ہوا۔
"کہاں آنا ہے مجھے؟"
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
"ڈیٹس لائیک اے گڈ گرل....تمہیں کیا لگا تھا کھیل صرف تمہیں کھیلنا آتا ہے۔ارے تم تو نئی ہو میں پرانا کھلاڑی ہوں۔"
وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
"کہاں آنا ہے بتائیں؟"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"تمہیں ٹیکسٹ کر دوں گا ایڈریس... "
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
"یا ﷲ اب کیا ہو گا؟ اگر زمان نے امی یا کبیر بھائی کو... "
اس سے زیادہ وہ سوچ نہ سکی۔
وہ سر جھکاےُ واپس چل دی۔
زراد کو وہ ٹیکسٹ کر چکی تھی۔
وہ عبایا اتار کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"اتنی آسانی سے نہیں زمان تیمور۔ میں ہار نہیں مانوں گی۔عورت کتنی طاقتور ہوتی ہے آپ بھی جان جائیں گے۔ آپ کےی یہ دھمکیاں میرا حوصلہ پست نہیں کر سکتی۔ ہار آپ ہی کے مقدر میں لکھی ہے۔ ایک بار ارادہ کر لیا تو پیچھے نہیں ہٹوں گی۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~~
"کہاں جا رہے ہو؟"
زمان کی آواز پر زراد کے قدم تھم گئے۔
"دوست کی طرف... "
وہ رخ موڑ کر بولا۔
"اس وقت؟"
وہ بائیں بازو آگے کرتا گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔
"جی...."
مختصر سا جواب آیا۔
"اچھا... "
وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔
اس وقت لاؤنج میں اس کے علاوہ ابراہیم موجود تھا۔
"ماموں یہ والی پک دیکھیں... "
وہ اس کا منہ فون کی جانب کرتا ہوا بولا۔
"دس از بیوٹیفل(یہ خوبصورت ہے) "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"اور یہ بھی دیکھیں... آنٹی نے مجھے فلاور دیا تھا۔"
وہ اسے اگلی تصویر دکھاتا ہوا بولا۔
"آنٹی نے دیا تھا آپ کو؟"
زمان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"یس... کتنا پیارا ہے نہ؟"
وہ اشتیاق سے پوچھ رہا تھا اور زمان اس سرخ گلاب پر اٹک گیا تھا۔
"آپ کو پتہ ہے آنٹی نے یہ پھول کہاں سے لیا تھا؟"
وہ کافی سوچ بچار کے بعد بولا۔
"یس... میں زراد ماموں کے ساتھ گیا تھا نہ وہ والے دن؟"
وہ آنکھیں گھماتا ہوا بولا۔
"جی... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"اس دن ماموں نے لیا تھا یہ والا فلاور... "
وہ مزے سے بتا رہا تھا اور زمان کے چہرے پر غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
"پھر آنٹی نے آپ کو دے دیا؟"
وہ جیسے سارا قصہ سمجھ چکا تھا۔
"ہاں جی... بہت اچھی ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟"
یکدم اسے خیال آیا۔
"وہ اپنی ماما کے پاس ہیں... آپ جاؤ اب ماما کے ساتھ کھیلو۔"
وہ اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔
"تو مام ٹھیک کہہ رہی تھیں زراد اور جنت ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ تم دونوں کا افئیر چل رہا تھا۔"
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
"اب شاید اور مزہ آنے والا ہے۔ یقیناً تم دونوں کا انجام میرے ہاتھوں لکھا ہے۔ آئی سوئیر تم دونوں یاد رکھو گے۔"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"اب ایک چال میری طرف ہے مسز زمان..."
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
ہاتھ میں پکڑے فون پر نمبر ملانے لگا۔
~~~~~~~~
"میری آج زمان سے بات ہوئی تھی تب انہوں نے یہ سب کہا مجھے... "
وہ لٹ کاٹتی اسے دیکھنے لگی۔
"آپ ابھی بات نہ کرتی ان سے... "
وہ تاسف سے بولا۔
"سوچو اگر بات نہ کرتی تو مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ وہ گھر والوں پر نظر رکھے ہوۓ ہیں۔ تم ٹھیک کہہ رہے تھے۔"
وہ جھنجھلا کر بولا۔
"اوکے ریلیکس... آپ فکر مت کریں۔"
وہ کہتا ہوا ٹہلنے لگا۔
"زمان نے ایڈریس بھیج دیا ہے۔ شام چھ بجے بلایا ہے۔"
وہ میسج پڑھتی ہوئی بولی۔
"تو آپ جائیں گیں؟"
وہ متحیر سا بولا۔
"ظاہر سی بات ہے۔ اس سب میں ایک کام اچھا ہو جاےُ گا کہ وہ طلاق کے پیپرز پر سائن کر لئے بلا رہے ہیں۔"
وہ خود کو تسلی دینے لگی۔
"اور اگر یہ جھوٹ ہوا؟"
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
"ﷲ مالک ہے... جانا تو پڑے گا مجھے کوئی چوائس نہیں۔"
وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی۔
"یہ بہت خطرناک ہے... "
زراد کی آنکھوں میں خوف دکھائی دے رہا تھا۔
"مجھے ﷲ پر بھروسہ ہے وہ جو بھی کرے گا بہتر کرے گا۔"
وہ پر امید تھی۔
"لیکن پھر بھی... میرا دل آمادہ نہیں آپ کو بھیجنے پر۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"جو ہوگا دیکھا جاےُ گا... "
وہ فلحال کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
"آپ سمجھ نہیں رہی لیکن سچ میں بہت خطرناک ہے۔"
وہ کہتا ہوا سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"کیا تمہارے پاس کوئی حل ہے؟"
وہ آبرو اچکا کر بولی۔
وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔
چہرے پر مایوسی چھائی تھی۔
"میں جاؤں گی۔ سب ﷲ پر چھوڑ دو... "
وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"
وہ آہستہ سے بولا۔
"کل تو نہیں لگ رہا تھا ڈر... "
وہ ترکی بہ ترکی بولی۔
"کل بات میری تھی آج آپ کی ہے۔"
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
"لیکن مجھے آج ڈر نہیں لگ رہا۔"
وہ مبہم سا مسکرائی۔
"میں کال کرتا ہوں آپ کو... "
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
جنت لب کاٹتی کھڑکی کو دیکھنے لگی۔
"میرے مولا مجھے اپنی فکر نہیں بس میرے گھر والوں کو محفوظ رکھنا اس شر سے۔"
وہ ہاتھ اٹھای ہوئی بولی۔
"زندگی کا تو ویسے بھی بھروسہ نہیں۔ لیکن کسی اپنے کا صدمہ برداشت نہیں کرنا چاہتی میں۔ اس لئے بس انہیں محفوظ رکھنا... آن کا کوئی قصور نہیں ، انہیں کوئی سزا مت دینا۔"
وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔
~~~~~~~~
"زراد نے کال بھی نہیں کی اور اب جواب بھی نہیں دے رہا..."
وہ جھنجھلا کر کہتی کمرے سے باہر نکل آئی۔
"ﷲ کرے وہ ٹھیک ہو... "
ایک اور پریشانی نے آن گھیرا۔
"چھ بج چکے ہیں اور تم مجھے دکھائی نہیں دے رہی... "
فون کان سے لگایا تو زمان کی آواز سنائی دی۔
"آ رہی ہوں... راستے میں ہوں بس۔"
وہ اپنی سپیڈ بڑھاتی ہوئی بولی۔
"ڈیسپیریٹلی ویٹنگ فور یو(بےصبری سے انتظار کر رہا ہوں تمہارا) ۔"
وہ مدھم آواز میں بولا۔
جنت نے جھرجھری لیتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
یہ کوئی ویران جگہ تھی۔
شاید کوئی غیر آباد فیکٹری۔
زمین پر سامان بکھرا ہوا تھا۔
جنت سنبھل کر قدم اٹھاتی آگے آئی۔
"سو فائنلی تم میرے سامنے آ ہی گئی.... "
زمان بائیں جانب سے آتا ہوا بولا۔
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔
"میں کمزور نہیں ہوں زمان تیمور نہ ہی آپ سے ڈرتی ہوں۔"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی بلند آواز میں بولی۔
"ہاں ہاں... جانتا ہوں بہت ہمت والی ہو تبھی تو میری فیکٹری تک پہنچ گئی۔"
وہ گھورتا ہوا اس کے عین مقابل آ گیا۔
"آئی ڈونٹ کئیر... آپ کچھ بھی کہیں۔پیپرز دیں میں سائن کر کے جاؤں۔"
اسے یہ جگہ پراسرار سی معلوم ہو رہی تھی۔
"چلی جانا اتنی جلدی کیا ہے؟ ابھی تو آئی ہو تم اور میں کوئی غیر تو نہیں... "
وہ آگے کو ہوتا ہوا بولا۔
"پیپرز دیں... "
وہ چبا چبا کر بولی۔
"ٹھیک ہے پھر پہلے یہی کام کر لیتے ہیں... "
وہ مبہم سا مسکرایا۔
چند قدم الٹے اٹھاےُ اور میز پر پڑے پیپرز اٹھا لایا۔
"پڑھنا نہیں چاہو گی؟"
وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"ضرورت نہیں... آپ سے کوئی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔"
وہ رکھائی سے بولی۔
"میڈم کے تو تیور ہی بدل گئے ہیں.... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
جنت فائل زمین پر رکھ کر سائن کرنے لگی۔
زمان پہلے سے سائن کر چکا تھا۔
"تمہارا ہمدرد نہیں آیا ساتھ؟"
وہ دروازے کی سمت دیکھتا ہوا بولا۔
"کون ہمدرد؟"
وہ سمجھ چکی تھی لیکن انجان بنی۔
"اتنی معصوم نہیں ہو کہ سمجھ نہیں سکی تم... "
وہ طنز کر رہا تھا۔
"ہو گیا کام میں جاؤں؟"
وہ آبرو اچکا کر بولی۔
"ارے نہیں ایسے کیسے... ابھی تو طلاق دوں گا میں بول کر۔"
وہ خفگی سے بولا۔
"دیں پھر؟"
وہ بیزاری سے بولی۔
"میں زمان تیمور اپنے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں... "
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
جنت سینے پر بازو باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ خاموش ہو چکا تھا۔
"آپ نے ایک بار کہا ہے... "
وہ الجھ کر بولی۔
"میں ضروری نہیں سمجھتا... بس کہہ دیا نہ ایک بار۔ اب تمہارے لئے ایک سرپرائز گفٹ ہے۔"
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا۔
"میرا ہاتھ چھوڑیں... "
وہ اس کا ہاتھ ہٹا رہی تھی لیکن گرفت مضبوط تھی۔
دائیں جانب مڑ کر راہداری تھی جسے عبور کر کے سامنے گیراج تھا۔
وہاں گھٹنوں کے بل چہرہ نیچے جھکاےُ کوئی بیٹھا تھا۔
جنت کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"تم اسے لانا بھول گئی تو میں نے سوچا میں بلا لوں... "
وہ اسی طرح اس کا ہاتھ پکڑے سامنے جا کھڑا ہوا۔
"شو یور فیس(اپنا چہرہ دکھاؤ) "
وہ بلند آواز میں بولا۔
جنت کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔
لبوں پر صرف ایک ہی دعا تھی کہ وہ زراد نہ ہو۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
سامنے موجود شخص نے چہرہ اٹھایا تو وہ کوئی اور نہیں زراد کا چہرہ تھا۔
جہاں جا بجا خون جم چکا تھا اور نیل پڑے ہوۓ تھے۔
یقیناً کسی نے بے دردی پیٹا ہوگا۔
"یہ سب کیا ہے؟"
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے زمان کو دیکھنے لگی۔
"تمہارے لئے گفٹ... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"یہی توقع تھی آپ سے زمان تیمور.... "
زراد چلا کر بولا۔
زمان ناگواری سے اسے دیکھنے لگا۔
"وہ آپ کا بھائی ہے اور آپ نے اسے اس طرح سے باندھ رکھا ہے؟"
وہ متحیر سی بولی۔
"بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ میرا گنہگار بھی ہے۔"
وہ زراد کو گھورتا ہوا بولا۔
"آپ کچھ بھی سمجھ لیں۔ لیکن میں جانتا ہوں میں نے کچھ غلط نہیں کیا... "
زراد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا بولا۔
"لگتا ہے یہ ڈوز اچھا نہیں تھا۔زبان تو تمہاری ابھی بھی ایسے چل رہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.... "
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
"میں نہیں ڈرتا اب آپ کی ان دھمکیوں سے... "
زراد اس کے غصے کا اثر لئے بنا بولا۔
"زراد چپ ہو جاؤ... "
جنت برہمی سے گویا ہوئی۔
وہ مسکرانے لگا۔
"واہ تمہاری تو بہت مانتا ہے؟"
وہ جنت کے بازو پر زور ڈالتا ہوا بولا۔
"چھوڑیں مجھے آپ... "
وہ اس کا ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی۔
"تاکہ تم اس کے پاس چلی جاؤ؟ ویری گڈ۔ویسے کیا سوچا تھا تم دونوں نے؟ زمان تیمور کو علم نہیں ہوگا؟" زمان تیمور ہوں میں اڑتے پنچھی کے پر گن لیتا ہوں میں تو تم دونوں کیا چیز ہو؟"
وہ باری باری دونوں کو دیکھتا ہوا بولا۔
"کوئی چوری نہیں کی جو آپ سے ڈریں گے... "
زراد نڈر سا بولا۔
"آخری بار دیکھ لو اپنے عاشق کو... "
وہ جنت کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔
وہ پتھرائی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
"مجھے اپنی بیوی پر بھروسہ ہے کیونکہ یہ بے قصور ہے۔ اصل قصوروار تو تم ہو.... "
وہ جیب سے گن نکالتا ہوا بولا۔
"نہیں زمان... آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔"
جنت اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
"کر لیں جو کرنا ہے آپ نے... "
زراد مسکراتا ہوا بولا۔
"تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟ ہمممم؟"
وہ جنت جھنجھوڑتا ہوا بولا۔
"وہ آپ کا بھائی ہے آپ کیسے اسے مار سکتے ہیں؟"
وہ آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تو لحاظ رکھتا بھابھی کا... "
وہ چبا چبا کر کہتا نشانہ باندھنے لگا۔
"نہیں.. میری وجہ سے،میں آپ کو یہ نہیں کرنے دوں گی۔"
جنت نے اس کا ہاتھ دائیں جانب موڑ دیا۔
گولی سامنے دیوار کو جا لگی۔
زمان قہر آلود نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"انہیں اپنا شوق پورا کر لینے دیں..."
زراد نے مداخلت کی۔
موت سامنے کھڑی تھی لیکن اس کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔
"تم چپ رہو... "
جنت کو اس پر مزید غصہ آ رہا تھا۔ جو زمان کے غصے کو ہوا دے رہا تھا۔
"تمہارے اندر کچھ زیادہ ہی ہمت نہیں آ گئی؟"
زمان جنت کا منہ دبوچتا ہوا بولا۔
"زمان میں آپ کو یہ غلطی نہیں کرنے دوں گی۔زندگی بھر پچھتائیں گیں اس لئے میں نہیں چاہتی آپ ایسا کچھ کریں... "
وہ اس کا ہاتھ ہٹاتی نرمی سے سمجھانے لگی۔
"ایسا ممکن نہیں اور تم اپنا منہ بند رکھو...."
وہ خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"سنو... اس کو بھی باندھ دو۔"
وہ کھلے دروازے کی جانب دیکھتا ہوا چلایا۔
دو آدمی اندر آےُ اور جنت کو پکڑ کر زراد کے پاس لے آےُ۔
"چھوڑو مجھے... "
وہ خود کو آزاد کروانے کی سعی میں مکمل طور پر ناکام ہو رہی تھی۔
دونوں کے بیچ کافی فاصلہ تھا۔
جنت کو بھی وہیں باندھ دیا گیا۔
"آئم سوری... "
وہ رخ بائیں جانب موڑتی زراد کو دیکھتی ہوئی بولی۔
دو موتی ٹوٹ کر رخسار پر آ گرے۔
"آپ کیوں سوری بول رہی ہیں؟ یہ میرا منتخب کیا ہو راستہ ہے اس میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"اب بتاؤ پہلے کسے گولی ماروں؟"
وہ دونوں کو دیکھتا ہوا بولا۔
"مجھے مارو... "
جنت حلق کے بل چلائی۔
"میں جانتا ہوں گولی مجھے لگے گی اس لئے ڈرامے ختم کریں اب... "
زراد بیزاری سے بولا۔
زمان تلملا اٹھا۔
ٹریگر پر ہاتھ رکھا اور ایک نظر دونوں کو دیکھنے کے بعد اسے دبا دیا۔
~~~~~~~~
"تم آج پھر آ گئے؟"
حمزہ بیرونی دروازہ کھولتا ناگواری سے بولا۔
"اپنی چیز واپس لینے آیا ہوں... "
وہ گھورتا ہوا بولا۔
"میرے پاس تمہاری کوئی چیز نہیں... "
رکھائی سے جواب آیا۔
"شرم کرو یوں آنکھیں پھیر رہے ہو مجھ سے....میں مریم کی بات کر رہا ہوں۔"
وہ دروازہ پکڑتا ہوا بولا ورنہ شاید حمزہ اب تک دروازہ بن کر چکا ہوتا۔
"پہلی بات وہ کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی تمہاری ہے۔"
وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔
"اپنی بات سے مکر نہیں سکتے تم... ہمارے بیچ طے ہوا تھا تم اسے چھوڑ دو گے۔"
حماد تلملا اٹھا۔
"فلحال تو میں ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا... ہاں جب ہوا تو تمہیں آگاہ کر دوں گا۔"
وہ جلانے ولے مسکراہٹ لئے بولا۔
"طلاق دو اسے ابھی...وہ میرے ساتھ جاےُ گی۔"
وہ اسے پرے کرتا اندر آ گیا۔
"حماد اپنی حد میں رہو تم... "
وہ آگ بگولہ ہو گیا۔
"حد تو تم بھول گئے ہو... میری بیوی کو اپنے گھر میں زبردستی رکھا ہوا ہے اور بھول گئے تم کیا بتایا تھا میں نے اس کا پتہ نہیں کس کس کے ساتھ افئیر...."
"اگر وہ اتنی بری ہے تو تم کیوں مرے جا رہے ہو اس کے لیے؟"
وہ سینے پر بازو باندھتا اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
"وہ میرا مسئلہ ہے... طلاق دو تاکہ حلالہ...."
"تمہارے ناقص علم میں اضافہ کرتا چلوں اس طرح سے حلالہ نہیں ہوتا۔ اور میں مریم کو طلاق نہیں دوں گا یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لو تم۔"
وہ کاٹ دار لہجے میں بولا۔
"سب ہو جاتا ہے تمہیں کیا معلوم... "
وہ ہنکار بھرتا کمرے میں دیکھنے لگا۔
"تم زبردستی نہیں کر سکتے مجھ پر... اور نہ ہی اس طرح حلالہ جائز ہوتا ہے کہ سوچ سمجھ کر سب ترتیب دیا جاےُ اور پھر اپنے نکاح میں لایا جاےُ۔ حلالہ تب جائز ہوتا ہے جب اس عورت کا شوہر مر جاےُ یا اپنی مرضی سے طلاق دے۔ بہتر ہوگا تم دوبارہ یہاں کا رخ نہ کرو کیونکہ میں اپنی بیوی کے ساتھ خوش ہوں اور وہ بھی۔"
وہ چبا چبا کر کہتا اس کے عین مقابل آ گیا۔
"اچھا نہیں کر رہے تم... "
وہ انگلی اٹھا کر بولا۔
"جا سکتے ہو اب تم... "
وہ باہر کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
حماد لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔
"آپ نے کیا کہا اسے؟"
مریم جو دونوں کی آوازیں سن رہی تھی باہر نکل آئی۔
"یہی کہ مجھے تم میں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔ بس تھوڑی سی لاپرواہ ہو۔"
آخر میں وہ مبہم سا مسکرایا۔
"سچ میں؟"
مریم کا چہرہ کھل اٹھا۔
"بلکل... اور میں نے کہا کہ میں یہ لاپرواہی ٹھیک کر لوں گا... "
وہ کمرے میں داخل ہوتا ہوا بولا۔
مریم کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
"بیشک جن کی امیدیں ﷲ سے وابستہ ہوں وہ مایوس نہیں لوٹتے... "
وہ اشک بہاتی ہوئی بولی۔
"میں آپ کے لئے دودھ گرم کر کے لاتی ہوں... "
وہ کہتی ہوئی کچن کی جانب بڑھ گئی۔
~~~~~~~~
"آپ یہ دیکھ سکتے ہیں...میں پہلے ہی مس جنت کو طلاق دے چکا ہوں اور یہ طلاق باہمی رضامندی سے ہوئی۔"
وہ طلاق کے کاغذات لہراتا ہوا بولا۔
"کیونکہ ہماری ذہنی ہم آہنگی نہیں تھی اس لئے یہ رشتہ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایک دوسرے کو تکلیف سے بچانے کے لئے ہم نے طلاق کا انتخاب کیا۔"
وہ سنجیدگی سے میڈیا کو دیکھتا بول رہا تھا۔
"لیکن جو ظلم و تشدد کا الزام لگایا وہ؟"
اینکر کی آواز گونجی۔
"دیکھیں میں ایک بزنس مین ہوں... مجھے کیا ضرورت ہے اپنی بیوی پر ظلم کرنے کی؟ اور وہ تو نجانے کب سے میرے گھر سے جا چکی ہیں مجھے کیا معلوم کس کے ساتھ ہیں؟ یہ جو حال ہے ظاہری سی بات ہے اسی انسان نے کیا ہوگا جس کے ساتھ وہ ہیں۔"
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
"لیکن پیپر پر تو لکھا ہے کہ وہ بدکردار ہیں اور یہ کہ آپ کے بھائی کے ساتھ ان کے تعلقات تھے... "
اب کہ دوسرے اینکر نے سوال داغا۔
"اب آپ نے پوچھ لیا ہے تو میں بتا دیتا ہوں ویسے میں یہ بات میڈیا میں کرنا نہیں چاہتا تھا۔ آفٹر آل میری وائف تھی وہ۔"
وہ آسودگی سے بولا۔
"خیر جی یہ سچ ہے میرے بھائی کے ساتھ نا جائز تعلقات تھے ان کے۔ اسی وجہ سے ہم الگ ہو گئے۔ میں نے جنت کو صاف کہہ دیا کہ اگر وہ زراد کے شادی کرنا چاہتی ہے تو کر لے مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن پھر بھی نجانے کیوں وہ اس طرح کے انٹرویو دے کر میری اور اپنی دونوں کی عزت خراب کر رہی ہیں۔"
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
"میری ان سے یہی درخواست ہے کہ جب راستے الگ ہیں تو اب ایک دوسرے کے متعلق بات نہ ہی کی جاےُ تو بہتر ہے۔خاص کر اس طرح کیچڑ اچھالنا اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت ہے۔ رہی بات پولیس کی تو وہ کیسے مجھے گرفتار کرتی جبکہ ہماری طلاق ہو چکی ہے۔ان کے تمام الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔"
وہ گلاسز آنکھوں پر لگاتا ہوا بولا۔
"سر کچھ سوالات ہیں ہمارے... "
رپورٹر اس کے جانے کا ارادہ بھانپ کر بولا۔
"میں یہاں آپ کے سوالوں کے جواب دینے نہیں آیا۔ جو حقیقت ہے وہ آشکار کرنے آیا تھا اور وہ کام ہو چکا ہے۔"
وہ رکھائی سے کہتا چلنے لگا۔
بائیں جانب اس کا وکیل تھا۔
آگے پیچھے گارڈز تھے۔
گردن غرور سے اکڑی ہوئی تھی۔
وہ چلتا ہوا اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔
~~~~~~~~
"ہی...ہیلو سندس؟"
وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بولی۔
"ہاں جنت بولو کیا ہوا؟ اس طرح رو کیوں رہی ہو؟"
اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"پلیز آپ جلدی سے یہاں آ جائیں مجھے آپ کی مدد درکار ہے۔"
وہ سسکیاں لیتی بول رہی تھی۔
"ہوا کیا ہے بتاؤ تو سہی... زمان کو معلوم ہوا تو چھوڑے گا نہیں مجھے۔"
وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
"کچھ نہیں کہیں گے زمان یقین کریں میرا؟ پلیز آ جائیں زراد کو آپ کی ضرورت ہے۔"
اشکوں کی رفتار میں اضافہ ہو گیا۔
"کیا ہوا؟وہ ٹھیک ہے نہ مجھے بتاؤ جنت؟"
وہ سلیپر پہنتی ہوئی بولی۔
"میں آپ کو ایڈریس بھیج رہی ہوں آپ پلیز جلدی آ جائیں... وہ ٹھیک نہیں ہے۔"
وہ لب کاٹتی زراد کو دیکھنے لگی۔
"اوکے میں آتی ہوں ابھی... "
وہ عجلت میں عظمی کو بتانا بھول گئی۔
اور گاڑی لے کر نکل گئی۔
~~~~~~~~
"میں نے تو پہلے ہی کہا تھا آپ کو... وہ لڑکی بلا وجہ میری ریپوٹیشن خراب کرنا چاہتی تھی اور کچھ نہیں... "
زمان فون کان سے لگاےُ ڈرائیو کر رہا تھا۔
"مجھے بھی ایسے لوگوں کو جواب دینا آتا ہے۔ بس خاموش رہ کر دیکھ رہا تھا کون کیا بولتا ہے۔"
وہ طنز کر رہا تھا۔
"میرے مینیجر کی کال آ رہی ہے بعد میں بات کرتا ہوں آپ سے... "
وہ اسکرین کو دیکھتا ہوا بولا۔
"ہاں بولو...."
کال اٹھا کر فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
"سر ایک بری خبر ہے۔"
وہ آہستہ سے بولا۔
"جو بات ہے بولو... میں ان نقصانات سے گھبراتا نہیں ہوں اچھے سے جانتا ہوں چیزوں کو سیٹ کیسے کرنا ہے۔"
وہ تفاخر سے بولا۔
"وہ سر کاظمی صاحب اور یاسر صاحب نے ہمارے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے مزید وہ آپ کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے۔"
"کیوں؟ اب کیا ہوا انہیں؟ ایسے کیسے کام نہیں کریں گے؟"
وہ بھڑک اٹھا۔
"سر ہم زبردستی تو نہیں کر سکتے... اور لاہور والے کہہ رہے ہیں پیمنٹ کر دی تھی ہم نے۔"
اب دوسرا دھماکہ کیا۔
"کیا مطلب کر دی تھی؟ ہمیں تو نہیں ملی؟"
اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"میں بات کر رہا ہوں ان سے... لیکن فلحال تو وہ بضد ہیں کہ پیمنٹ ہو چکی ہے اب وہ پیسے کہاں گئے یہ معلوم نہیں ہو رہا۔"
وہ گھبراتا ہوا بولا۔
"یہ سب کام کس کے سپرد ہے؟"
وہ پیشانی مسلتا ہوا بولا۔
"علی کے... اور وہ چھٹی لے کر بیرون ملک گیا ہوا ہے۔"
وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔
"یہ جتنا نقصان تم سب مجھے کروا رہے ہو یاد رکھنا پورا بھی تم لوگوں سے ہی کروں گا۔جب سے چائنہ گیا ہوں ایک چیز کا حساب نہیں رہا... صبح آفس آتا ہوں میں سب کو سیدھا کروں گا۔"
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کیا۔
نظریں اٹھا کر سامنے سڑک کو دیکھتا تو سامنے ٹرک تھا۔
اس سے قبل کہ وہ گاڑی سائیڈ پر کرتا سامنے سے آتا ٹرک اس کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔
ٹرک الٹ کر زمین پر گر چکا تھا۔
اور زمان کی گاڑی دور جا گری تھی۔
کس کا کتنا نقصان ہوا فلحال کچھ معلوم نہ تھا۔ زمان بیہوش ہو چکا تھا۔
اس ایکسیڈنٹ کو ہوۓ بیس منٹ گزر چکے تھے لیکن زمان اور ٹرک ڈرائیور دونوں اسی حال میں تھے۔
اس سنسان ویران سڑک پر کوئی آتا تو انہیں ہاسپٹل پہنچاتا۔
"یہ کیسی جگہ ہے جنت؟"
وہ فون کان سے لگاتی گرد و پیش کا جائزہ لیتی ہوئی بولی۔
"آپ آگے آ جائیں... گیراج ٹائپ جگہ ہے جہاں پر میں ہوں۔"
وہ مدھم آواز میں بولی۔
پانچ منٹ بعد سندس وہاں موجود تھی۔
"زراد... "
وہ چلاتی ہوئی اس کے پاس آئی جو خون میں لت پت تھا۔
یہ منظر کلیجہ چیرنے کو بہت تھا۔
"یہ سب کیا؟ کیسے... تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟"
وہ کیا بولنا چاہ رہی تھی خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
"میں آپ کو فون پر نہیں بتا سکتی تھی... "
وہ زراد کو دیکھتی ہوئی بولی جس کا چہرہ خون آلود تھا۔
"زراد... آنکھیں کھولو۔ دیکھو مجھ سے بات کرو۔ یہ سب کس نے کیا؟ اور یہ کچھ بول کیوں نہیں رہا؟"
آنسو زراد کے بے جان وجود پر گر رہے تھے۔
"یہ اب نہیں بولے گا... "
وہ کچھ دیر قبل برپا ہونے والی قیامت کو سوچتی ہوئی بولی۔
"زمان پلیز ایسا مت کریں... "
جنت نے نجانے کتنی بار اس سے التجا کی لیکن اس پر خدائی کا بھوت سوار تھا۔
گولی چلنے کی آواز آئی اور زراد کا سینہ چھلنی کرتی باہر نکل گئی۔
زراد کا سانس اکھڑ گیا۔
دوسری گولی چلی اور اس کے پیٹ میں جا لگی۔
اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔
وہ رخ موڑ کر جنت کو دیکھنے لگا جس کی آنکھیں تحیر سے پھیلی ہوئی تھی۔
ان آنکھوں میں اپنے لیے اشک دیکھ کر زراد کے چہرے پر دلکش سی مسکراہٹ رینگ گئی۔
"زمان پلیز نہیں کریں... "
وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔
اپنی آنکھوں کے سامنے ایسا ہولناک منظر دیکھ کر اس کے حواس جواب دیتے جا رہے تھے۔
سفید موتی ٹوٹ کر بے مول ہوتے جا رہے تھے۔
تیسری گولی اس کے دل پر جا لگی۔
ہاں اسی دل پر جہاں جنت کی محبت آباد تھی۔ اور آج اس محبت میں اس نے خود کو قربان کر دیا تھا۔
دل چھلنی ہوا تو وہ منہ کے بل گر گیا البتہ رخ ابھی تک جنت کی جانب تھا۔
آنکھیں بند ہونے سے قبل وہ اسی کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا اور یہاں قسمت نے اس پر ستم نہیں کیا۔
"زراد پلیز آنکھیں بند مت کرنا... تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔"
اس لمحے وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے تسلی دے رہی ہے یا اپنے آپ کو۔
وہ مسکراتے ہوۓ سر کو ہلکا سا نفی میں جنبش دینے لگا۔
"نہیں پلیز... تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ میں خود کو معاف نہیں کر پاؤں گی پلیز آنکھیں کھلی رکھنا۔"
زمان بغور ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
چہرے پر ملال کی رمق تک نہ تھی۔
"اب تم یہاں بیٹھ کر آرام سے اس کی موت کا سوگ منا سکتی ہو... "
وہ اس کے ہاتھ کھولتا ہوا بولا۔
"زراد آنکھیں بند مت کرو... میری بات سنو..."
وہ بول رہی تھیں لیکن اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔
اس کا چہرہ آنکھوں میں بسا کر وہ اس دنیا سے چلا گیا۔
وہ آنکھیں رگڑتی نفی میں سر ہلا رہی تھی۔
"آپ کو پتہ ہے آپ کا مسئلہ کیا ہے؟"
وہ غم و غصہ کی حالت میں تقریباً چلانے لگی۔
"کیا؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
زمان کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر جنت کا خون کھول رہا تھا۔
"آپ کے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے۔ اس لئے آپ اتنے بے حس اور اتنے خود سر ہیں۔"
وہ اس کا گریبان پکڑتی ہوئی بولی۔
زمان قہقہ لگاتا نفی میں سر ہلانے لگا۔
"لیکن یاد رکھیے گا میرا خدا دیکھ رہا ہے۔ نہ وہ بھولے گا نہ آپ کو بھولنے دے گا۔"
وہ چبا چبا کر کہتی زراد کی جانب بڑھ گئی۔
"پور لیٹل گرل(بیچاری غریب لڑکی) "
وہ بیچارگی سے کہتا باہر نکل گیا۔
"اٹھو پلیز آنکھیں کھولو اپنی... میں تمہیں ہاسپٹل لے جاؤ گی۔ تم ایسے نہیں جا سکتے... "
وہ اس کا سر اپنی گود میں رکھتے تھپتھپا رہی تھی۔
مگر اس کے بے جان وجود میں کوئی حرکت نہ آئی۔
جو لوگ چلے جائیں پھر وہ کہاں سے آتے ہیں۔
کتنی ہی آہ و بکا کیوں نہ کر لیں؟ کتنا ہی پکار لیں۔ لیکن پھر وہ کہاں سنتے ہیں؟ پھر وہ کہاں جواب دیتے ہیں؟ پھر تو بس خاموشی رہ جاتی ہے۔ دل چیرنے والی خاموشی۔ پھر ہم ان کی آواز سننے کو ترستے ہیں جنہیں پہلے سننا نہیں چاہتے تھے۔ایک بار جو چلے جائیں پھر وہ واپس نہیں آتے۔
"زمان نے؟"
سندس زیر لب دہراتی تعجب سے بولی۔
"جی زمان تیمور نے... آپ کے بھائی نے۔ شاید ان سے زیادہ ظالم اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہوگا۔"
وہ سختی سے بولی۔
"نہیں... زراد میری بات سنو دیکھو میں آگئی ہوں پلیز ناراض مت ہو۔ اٹھو نہ۔ یار کون مجھے تنگ کرے گا؟"
وہ اس کے سینے پر سر رکھے بلک رہی تھی۔
جوان بھائی کی موت کسی قیامت سے کم نہ تھی۔
جنت پتھرائی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آج آپ نے میرے دل کو اور بے حس بنا دیا ہے... "
وہ لب بھینچ کر دوسری جانب دیکھنے لگی۔
اس ہمدرد کو وہ اس حال میں دیکھ نہیں پا رہی تھی۔
سیاہ بال پیشانی پر منتشر تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔اور چہرے پر جا بجا نیل اور خون کے نشان تھے جو اس کی تکلیف کے آئینہ دار تھے۔ اس کے ہاتھ پر بھی خون تھا جو شاید اس نے گولی کو محسوس کرنے کے لیے اپنے دل پر رکھا تھا۔
وہ دونوں اس بے جان وجود کے سرہانے بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی۔
جنت کے ہاتھ بھی خون سے لبریز تھے۔
دوپٹے سے چہرہ رگڑتی وہ کھڑی ہو گئی۔
"ہمیں گھر چلنا چائیے..."
وہ سندس کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
لب کپکپا رہے تھے، ہاتھوں میں اس پیارے بھائی کا چہرہ تھا۔ تکلیف آنکھوں سے نمایاں تھی۔
جنت نے لب بھینچ کر رخ موڑ لیا۔
"کیسے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا؟"
وہ زراد کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
"رات ہو رہی ہے ہمیں اب چلنا چائیے اس جگہ سے۔"
وہ اس کے سامنے مزید کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
~~~~~~~~~
"مام زمان ایسے کیسے کر سکتا ہے؟ وہ کیسے زراد کو؟"
ریحام ہکا بکا سی انہیں دیکھ رہی تھی۔
"مجھے تو خود بھی یقین نہیں آ رہا... وہ زراد کو... "
چہرہ جھکا ہوا تھا۔
آنسو فرش پر گر رہے تھے۔
وہ دونوں اس وقت کمرے میں موجود تھیں۔
"مام میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی... یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔"
سندس اندر آتی پھٹ پڑی۔
"میری وجہ سے؟"
وہ زیر لب دہراتی متحیر سی بولی۔
"جی ہاں آپ کی وجہ سے... اگر آپ زمان کو اتنا خود سر نہ بننے دیتیں تو آج زراد ہمارے بیچ ہوتا۔ اس سب کی ذمہ دار آپ ہیں یاد رکھیے گا۔"
اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔
غم کی شدت کی کچھ الگ تھی۔
"بلکل سہی کہہ رہی ہے سندس... آپ نے زمان کو اتنا سر پر چڑھا لیا کہ دیکھیں آج وہ ہمارے بھائی کو کھا گیا مام... کیا آپ اسے واپس لا سکتی ہیں؟"
ریحام اسے بازوؤں سے تھام کر جھنجھوڑتی ہوئی بولی۔
"لیکن میں... "
"میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی... "
سندس ہاتھ کی پشت سے رخسار صاف کرتی باہر نکل گئی۔
"تم تو ایسے بات کر رہی ہو جیسے وہ صرف تمہارا بھائی تھا۔ میرا تو بیٹا تھا... مجھ سے پوچھو میرے دل پر کیا گزر رہی ہے؟"
وہ اس کے ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی۔
"اتنا دکھ نہیں آپ کو جتنا ہمیں ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس ایک اور بیٹا ہے لیکن ہمارے پاس تو ایک ہی بھائی تھا۔"
وہ سسکی۔
"اگر تمہیں خوشی ملتی ہے تو لگا دو مجھ پر الزام۔ لیکن مت بھولو میں نے اپنا جوان بیٹا کھویا ہے۔"
وہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھتی باہر نکل گئی۔
گھر میں تمام عزیز و اقارب موجود تھے سواےُ زمان تیمور کے۔
جنت ہوٹل جا چکی تھی۔
سندس زراد کا ہاتھ پکڑے زمین پر بیٹھی تھی۔
آنسو تسلسل کے ساتھ بہہ رہے تھے۔
"ماما... ماموں یہاں کیوں سوےُ ہیں؟"
ابراہیم اس کے پاس آتا ہوا بولا۔
آنسوؤں کی روانی بڑھ گئی۔
"آپ کیوں رو رہی ہیں؟"
وہ اس کے چہرے کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے صاف کرتا ہوا بولا۔
سندس نے اسے خود میں بھینچ لیا۔
وہ خاموشی سے سسکیاں لے رہی تھی۔
"بیٹا سنبھالو خود کو... "
حمیرا اس کی پشت تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
"ایلن تم کیوں لے آئی اسے روم سے باہر؟"
وہ اسے خود سے الگ کرتی خفگی سے بولی۔
"وہ ضد کر رہے تھے کہ آپ کے پاس جانا ہے۔"
وہ گھبرا کر بولی۔
"آپ روم میں جاؤ... ماما آ جائیں گیں۔"
وہ اسے ایلن کی جانب بھیجتی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~
جنازے کے بعد عظمی نے تمام رشتے داروں سے معذرت کر لی کہ وہ انہیں اب اکیلا چھوڑ دیں۔
صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا لیکن زمان کی کوئی خبر نہیں تھی۔
لاؤنج میں اس وقت ریحام اور عظمی بیٹھی تھیں۔
"کبھی سوچا بھی نہیں تھا ایسا کچھ ہوگا... "
وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولی۔
"پتہ ہی نہیں تھا اتنی کم عمر لکھوا کر آیا ہے وہ۔"
عظمی سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
آنکھیں غم اور آنسوؤں سے سوجھ چکی تھیں۔ لیکن جوان اولاد کا دکھ کم ہونے کو نہیں آتا۔
"مام زمان کا فون آیا ہے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔"
سندس وہاں آتی سپاٹ انداز میں بولی۔
"کیا ہوا ہے اسے؟"
چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔
"پتہ نہیں مجھے... "
وہ آہستہ سے بولی۔
"آپ دونوں چلی جائیں... "
وہ کہتی ہوئی واپس چل دی۔
"اس سب کے بعد تو زمان کی شکل دیکھنے پر بھی دل آمادہ نہیں۔"
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
"اسے دیکھ کر آ جائیں گے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اب آپ کو خاموش رہنا چائیے... "
ریحام تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتی کھڑی ہو گئی۔
وہ دونوں راہداری میں چل رہی تھیں۔
چہرے پر آسودگی چھائی تھی۔
کمرے کا دروازہ کھول کر دونوں اندر آ گئیں۔
زمان بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔
بازو اور سر پر سفید پٹی بندھی تھی۔
"آپ لوگ اب آ رہے ہیں؟"
وہ انہیں دیکھتا خفگی سے بولا۔
"شکر کریں آ گئے ہیں... ورنہ جو آپ نے کیا اس کے بعد تو آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنی چاہیے تھی۔"
ریحام اسے دیکھتی پھٹ پڑی۔
"اپنا زبان کو کنٹرول میں رکھو... کاٹ کے پھینک دوں گا۔"
وہ تلملا اٹھا۔
"کیوں بلایا ہے ہمیں تم نے؟"
عظمی غمزدہ سی کہتی آگے آئی۔
"کیا مطلب؟ میرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور آپ..."
"اور میرے جوان بیٹے کی موت ہوئی ہے وہ بھی تمہارے ہاتھوں... "
بولتے بولتے دو موتی رخسار پر آگرے۔
"آپ کچھ نہیں جانتی.... اور ڈرتا نہیں ہوں میں کسی سے۔"
وہ ریحام کو گھورتا ہوا بولا۔
"میں بس اتنا جانتی ہوں تم میرے بیٹے کے قاتل ہو زمان... تمہارے ہاتھ کانپے نہیں؟ کیسے تم نے اسے اتنی تکلیف دہ موت دے دی؟"
وہ آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"میری ٹانگیں ضائع ہو چکی ہیں اور آپ کو اس دھوکے باز کی پڑی ہے۔"
وہ برہم ہوا۔
"اچھا ہوا... دیکھ لو ﷲ کے کام۔ تم دوسروں کو تکلیف دینے کے در پر تھے نہ اب ﷲ نے تمہیں اس حال میں پہنچا دیا۔"
وہ اشک بہاتی ہوئی بولی۔
"ہم یہاں آپ کو بس اتنا بتانے آےُ ہیں کہ آپ سے کوئی رشتہ نہیں ہمارا... اور اپنے دل سے یہ خیال نکال دیں کہ ہم میں سے کوئی آپ کو سنبھالے گا۔"
ریحام تنک کر بولی۔
"ہاؤ ڈئیر یو(تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟)"
وہ آگ بگولہ ہو گیا۔
"بلکل ٹھیک کہا ہے ریحام نے... تم اس سزا کو کاٹو گے تاکہ تمہیں بھی احساس ہو تکلیف کا۔ جس اذیت میں تم نے ہم سب کو مبتلا کیا ہے اتنی تو نہیں ہے لیکن کچھ تو تمہیں بھی احساس ہونا چائیے.... "
وہ تاسف سے دیکھتی بول رہی تھی۔
"آپ لوگ جا سکتے ہیں یہاں سے... مجھے کسی کی ضرورت نہیں اور میرے گھر میں نظر نہ آےُ آپ میں سے کوئی۔"
وہ انگلی اٹھا کر بولا۔
"جا ہی رہے ہیں... "
عظمی اثبات میں سر ہلاتی الٹے قدم اٹھانے لگی۔
ریحام شکوہ کناں نظروں سے دیکھتی باہر نکل گئی۔ اس کے پیچھے ہی عظمی بھی چلی گئی۔
"زیادہ دماغ خراب ہو گئے ہیں... جب پیسے نہیں ہوں گے نہ پھر آئیں گے میرے پاس۔"
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
~~~~~~~~
"آئم سوری زراد.... آئم رئیلی سوری۔ میری وجہ سے یہ سب ہوا۔ میری وجہ سے تمہیں اتنی تکلیف پہنچی اور تم... "
گلے میں آنسوؤں کا گولہ پھنس گیا۔
وہ قالین پر بیٹھی تھی۔
اس کے باعث زراد موت کے منہ میں چلا گیا یہ احساس اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔
"میں کیسے خود سے نظریں ملاؤں؟ کاش تم میری مدد نہ کرتے۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیتے... تمہیں منع کرتی تھی میں لیکن تم نے ایک نہیں سنی میری۔"
وہ سسکیاں لیتی بول رہی تھی۔
"اب مجھے بتاؤ میں کیسے خود کو معاف کروں؟ تم تو چلے گئے اور مجھے اس احساس جرم میں مبتلا کر گئے۔"
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"تمہارا خون آلود چہرہ مجھے نہیں بھولتا... بتاؤ میں کیا کروں؟"
تکلیف تھی کہ کم ہونے کی بجاےُ بڑھتی جا رہی تھی۔
الفاظ دم توڑ گئے تو اس خاموش کمرے میں اس کی سسکیاں ارتعاش پیدا کرنے لگیں۔
~~~~~~~~
"کیسی ہیں پھوپھو؟"
مریم ان سے ملتی ہوئی بولی۔
"میں تو ٹھیک ہوں تم سناؤ...."
وہ منہ بناتی ہوئی بیٹھ گئیں۔
"جی ﷲ کا شکر ہے۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"حمزہ کام پر گیا ہے؟"
وہ بچوں کو دیکھتی ہوئی بولی جو بیڈ پر کھلونے لئے بیٹھے تھے۔
"جی شام میں آتے ہیں... میں آتی ہوں ابھی۔"
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"ارے نہیں.... میں ابھی کھانا کھا کر آئی ہوں کسی چیز کی طلب نہیں بیٹھ جاؤ۔"
وہ بھانپ گئیں۔
"لیکن ایسے اچھا نہیں لگتا... تھوڑا بہت لے لیجیے گا۔"
وہ انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔
"ابھی تو بیٹھو۔ میں خود کہہ دوں گی تمہیں۔"
وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتی ہوئی بولیں۔
"اچھا... "
وہ کہتی ہوئی سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔
"یہ جنت کہاں ہے بھلا؟ کبھی وہ ٹی وی پر آ رہی ہوتی تو کبھی اس کا شوہر... "
وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھنے لگی۔
"اممم... یہی ہوتی ہے۔"
وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
"اس کا شوہر تو کہہ رہا تھا اپنے دیور کے ساتھ چکر چلا رہی تھی... "
وہ رازداری سے بولیں۔
"جنت ایسی نہیں ہے۔ اور وہ خود کو اچھا ثابت کرنے کے لیے جنت کو ہی برا ثابت کریں گے۔"
وہ برہمی سے گویا ہوئی۔
"میں اکیلی تو نہیں۔ ساری دنیا یہی کہہ رہی ہے۔ لوگ میرے گھر آ کر پوچھ رہے ہیں میں کیا جواب دوں ان کو بتاؤ؟"
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
"پھوپھو یہ لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارآ مسئلہ ہے اور لوگ اس میں مداخلت نہ ہی کریں تو بہتر ہوگا۔"
وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔
"کس کس کا منہ بند کرواؤ گے؟ تمہاری ماں اسی لئے تو نہیں چلی گئی یہاں سے؟"
وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
"میں کچھ نہیں کہنا چاہتی اس بارے میں... "
وہ کھردرے پن سے بولی۔
مریم کا یہ انداز انہیں بلکل پسند نہ آیا۔
"چلتی ہوں میں اب... مہسم باہر کھڑا ہے۔"
وہ منہ بسورتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔
"ٹھیک ہے۔"
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
وہ سلام لئے بغیر ہنکار بھرتی باہر نکل گئیں۔
"پتہ نہیں کب یہ لوگ ہمیں چین سے رہنے دیں گے؟ اور جنت پتہ نہیں کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟"
وہ متفکر سی بولی۔
"ماما یہ مجھے نہیں دے رہا... "
رانیہ روتی ہوئی اسے بلانے لگی۔
"ﷲ کرے میری بہن ٹھیک ہو۔"
وہ دعا کرتی ان کے پاس آ گئی۔
~~~~~~~~~
"مل آئی ہیں اپنے لاڈلے سے؟ مام مجھے سمجھ نہیں آیا آپ نے پولیس کو انوالو کیوں نہیں کیا؟ وہ انسان میرے بھائی کا قاتل ہے اور آپ کی وجہ سے وہ آزاد گھوم رہا ہے۔"
عظمی کو دیکھتے ہی سندس پھٹ پڑی۔
"ریلیکس... پہلے میں بھی یہی سوچ رہی تھی لیکن اب وہ گھوم پھر نہیں سکتے... ہی از پیرالائز ناؤ(وہ اب معذور ہو گئے ہیں) ۔"
ریحام اس کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
"سو واٹ(تو کیا)؟ جو زمان نے کیا ہے وہ اس معذوری سے ٹھیک نہیں ہو جاےُ گا نہ ہمارے دلوں سے نکلے گا۔"
وہ اس کا ہاتھ ہٹاتی درشتی سے بولی۔
"میں سمجھ سکتی ہوں تمہاری حالت... لیکن زمان کو اب سزا ملے گی اور وہ تنہا اسے جھیلے گا تم دیکھنا۔"
عظمی آسودگی سے کہتی آگے آئی۔
"مطلب اب انتظار کریں کہ کب زمان دی گریٹ کو سزا ملے؟ میرے بھائی کو تو اس نے پل بھر میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کی جان کا بدلہ کون دے گا؟"
آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز تھیں۔
"مت دو خود کو اتنی تکلیف اور ہم سب کو بھی... اچھے سے جانتی ہوں تم کیا کہہ رہی ہو۔"
عظمی سسکتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"آئی ہیٹ یو مام(مجھے آپ سے نفرت سے مام) ۔ اس سب کی وجہ آپ ہیں۔ آپ نے زمان کو زمان تیمور بننے دیا...آپ ماں تھیں دو تھپڑ لگا کر اسے سیدھا کر سکتی تھیں جب اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تھا لیکن نہیں....آپ کو تو اس کے پیسے پر عیش کرنا تھا۔"
وہ غم و الم کی تصویر بنی بول رہی تھی۔
"ہمیں بھی دکھ ہے اس کی موت کا... لیکن مام کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے۔"
ریحام نے مداخلت کی۔
"پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا مام۔ یہ پیسہ آپ کے بیٹے کو کھا گیا اب اسے واپس کیوں نہیں لاتی آپ؟ اپنے اثر و رسوخ سے, اس پیسے کی طاقت سے۔ کیوں اس کے غم میں آنسو بہا رہی ہیں اس دولت کا استعمال کریں نہ...."
وہ ریحام کو اگنور کرتی آنکھیں سکیڑے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"بس کر دو سندس۔ معافی دے دو مجھے جو میں نے زمان کو کبھی روکا نہیں۔"
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی۔
آنکھوں میں اشک تیرتے دکھائی دے رہے تھے۔
"یہی اگر آپ پہلے سمجھ جاتی تو آج زراد بھی یہیں ہوتا ہمارے ساتھ۔ ہمارے بیچ۔"
بولتے بولتے آواز مدھم ہو گئی۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔"
وہ آہستہ سے کہتی اثبات میں سر ہلانے لگی۔
"زمان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان سے رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس گھر سے جانا ہوگا ہمیں... "
ریحام سینے پر بازو باندھتی سپاٹ انداز میں بولی۔
"مجھے ایک قاتل کے گھر رہنا بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی کچھ دن میں واپس جا رہی ہوں میں ہمیشہ کے لیے۔"
پہلے ریحام پھر سندس کو دیکھتی ہوئی بولی۔
عظمی سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جس کی پلکوں پر ٹھہرے موتی شکوہ کر رہے تھے۔ جس کی آنکھیں خفا تھیں۔
سندس تاسف بھری نگاہ ڈالتی راہداری میں مڑ گئی۔
"سامان پیک کروا لو ایلن سے۔ زمان کے آنے سے پہلے ہمیں یہاں سے چلے جانا چائیے۔"
وہ تھکے تھکے انداز میں کہتی کھڑی ہو گئی۔
"میں کروا لیتی ہوں۔ آپ روم میں جا کر آرام کر لیں۔"
وہ عظمی کی پشت تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
"آرام ہی تو شاید اب ملے گا نہیں... "
وہ تلخی سے کہتی چل دی۔
"زمان تیمور اتنی آسانی سے یہ سب نہیں ہوگا۔ سب وصول کر کے جاؤں گی میں یہاں سے۔"
وہ ہنکار بھرتی فون پر نمبر ملانے لگی۔
~~~~~~~~
"عجیب سی طبیعت ہوئی پڑی ہے۔ لگتا ہے ڈاکٹر کو چیک کروا ہی لینا چائیے...."
وہ بیڈ پر بیٹھتی آنکھیں بند کرتی ہوئی بولی۔
آنکھوں کے سامنے پھر سے وہی کربناک منظر گردش کرنے لگا۔
اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
"یہ کیسی سزا دے گئے ہو تم مجھے؟ کہاں جاؤں میں؟"
وہ سسکی۔
درد کی انگلیاں کنپٹی سے ہوتی ہوئی گردن تک جا رہی تھیں۔ جسم تھکاوٹ سے چور تھا۔
"کچھ تو رحم کرتے مجھ پر... تم بھی ظالم بن گئے۔"
وہ بولتی ہوئی لیٹ گئی۔
"اوہ زمان تیمور...."
یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
"سندس نے کال پر بتایا تھا۔ میرا وہاں جانا تو فرض بنتا ہے۔"
وہ تلخی سے کہتی اٹھ بیٹھی۔
"یقیناً مجھے آپ کو دیکھنے ضرور آنا چائیے۔"
وہ سوچتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
چادر اوڑھ کر باہر نکل گئی۔
اس کا رخ ہاسپٹل کی جانب تھا۔
~~~~~~~~
"مریم ایک بات تو بتاؤ؟"
وہ خاصا ڈسٹرب معلوم ہو رہا تھا۔
"جی پوچھیں؟"
وہ کپڑے تہ لگا رہی تھی۔
"جنت ہماری شادی میں نہیں آئی تھی نہ ہی تمہارے ابو کی موت پر.... "
وہ پر سوچ انداز میں بولا۔
"جی.... "
وہ آہستہ سے بولا۔
"وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں ہے... تمہاری بہن ہے تمہیں کچھ خبر ہے؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"میں سمجھ رہی ہوں آپ کی بات کا مفہوم... لیکن وہ ایسی نہیں ہے جیسا کہ زمان تیمور نے کہا۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"پتہ ہے مجھے تمہاری فیملی سے ملا تھا کوئی۔ پتہ نہیں تمہاری پھوپھو تھی یا خالہ... "
وہ جھنجھلا کر بولا۔
"پھر؟"
مریم کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"مجھے کہہ رہی تھیں کہ یہ ساری بہنیں ایک جیسی ہیں۔"
وہ گہری نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
"تو پھر؟ آپ نے یقین کر لیا؟"
ایک موہوم سی امید تھی اس کی آنکھوں میں۔
"نہیں... اس لئے تو تم سے پوچھ رہا ہوں ورنہ شاید میرا در عمل کچھ مختلف ہوتا۔"
وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔
"میری بہن حالات کی نذر ہوئی ہے۔ لیکن وہ ہم تینوں میں سب سے زیادہ با ہمت ہے اسی لئے اب تک تنہا اپنی جنگ لڑ رہی ہے۔ امی کا فون آیا تھا بتا رہی تھیں جنت نے ان سے بات کی ہے۔"
وہ آنکھوں میں نمی لئے بول رہی تھی۔
"میں نے تو نہ کبھی اسے دیکھا نہ مجھے معلوم اس کے متعلق کچھ۔ لیکن حیرت ہے تمہاری اپنی فیملی کے لوگ..."
"کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نہیں چاہتے کہ ہم خوش رہیں۔ ہمارے ماں باپ خوش رہیں۔ وہ ہمیں تڑپتے سسکتے دیکھنا چاہتے ہیں۔"
وہ بےبسی سے گویا ہوئی۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو تم... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"بابا آئسکریم؟"
رانیہ اس کے پاس آتی ہوئی بولی۔
"آئسکریم کھانی ہے آپ نے؟"
وہ اسے گود میں اٹھاتا ہوا بولا۔
جواباً وہ اثبات میں گردن ہلانے لگی۔
"تم اپنا کام ختم کر لو تب تک میں اسے آئسکریم لا دیتا ہوں۔"
حمزہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
"جی ٹھیک ہے... "
وہ رانیہ کو اس کی گود میں دیکھتی ہوئی بولی۔
وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
"میرے بچوں کو باپ کا سایہ تو میسر آیا اور مجھے ایک اچھے شوہر کا ساتھ۔"
وہ نم آنکھوں سے مسکراتی ہوئی بولی۔
"جنت کو فون کرتی ہوں... "
وہ پھر سے اس کا نمبر ملانے لگی لیکن بیل جانے کے باجود دوسری جانب سے اٹھایا نہیں گیا۔
"پتہ نہیں تم کیوں میرا فون نہیں اٹھا رہی... "
وہ فون ٹیبل پر رکھتی کوفت سے بولی۔
~~~~~~~~
"کتنے دن تک مجھے یہاں رکنا پڑے گا؟"
وہ نرس سے مخاطب تھا جب مینیجر اندر آیا۔
"میں ڈاکٹر سے پوچھ کر بتاتی ہوں آپ کو۔"
وہ کہتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
"علی سے رابطہ ہوا؟ کہاں ہے؟ کب آےُ گا؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"نو سر... ابھی تک رابطہ ممکن نہیں ہوا۔ آفس کے کچھ لوگوں کے ریزینیشن لیٹر کے کر آیا تھا میں۔"
وہ ہاتھ میں پکڑی فائل کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔
"وہ کیوں؟"
زمان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"ان کا کہنا ہے کہ وہ اس ڈوبتی ہوئی کمپنی میں مزید کام نہیں کرنا چاہتے۔"
وہ لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگا۔
"شاید وہ لوگ نہیں جانتے میں زمان تیمور ہوں۔ ڈوبتی کشتی کو پار لگانا جانتا ہوں۔"
وہ اتراتا ہوا بولا۔
"خیر... ان میں میرا بھی لیٹر ہے میں حیدر مغیث کی کمپنی جوائن کر رہا ہوں۔"
اس نے گویا دھماکہ کیا۔
اصل دھچکا تو اب لگا اسے۔
زمان کے بعد اسی نے سب سنبھال رکھا تھا۔
"تم اس کی کمپنی کو مجھ پر ترجیح دے رہے ہو؟ بھول گئے ہو میرے احسانات؟ کتنا کچھ تمہیں دیا ہے میں نے؟"
وہ تلملا اٹھا۔
"آپ کام بھی لیتے تھے... ﷲ کے نام پر تو کچھ نہیں دیا آپ نے۔"
وہ تنک کر بولا۔
"جتنی تمہاری اوقات ہے نہ بات بھی اتنی ہی کرو۔"
وہ مٹھیاں بھینچ کر بولا۔
"میں آپ کی کمپنی کا حصہ نہیں ہوں اس لئے جیسے چاہوں بات کر سکتا ہوں۔ اور آپ کو کب سے لوگوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی؟ آپ کو کمی نہیں سٹاف کی رائٹ؟ ایک کے بدلے دس رکھ سکتے ہیں تو پھر اب کیوں خوف میں مبتلا ہو رہے ہیں؟"
وہ جیسے اس کی بےبسی کا مذاق بنا رہا تھا۔
"دفع ہو جاؤ... اپنی شکل مت دکھانا مجھے دوبارہ کبھی۔"
زمان کے لئے برداشت کرنا محال ہو رہا تھا۔
"یقیناً آپ کی شکل دیکھنا بھی نہیں چاہوں گا میں... "
وہ ناگواری سے کہتا فائل اس کے سامنے پھینکتا باہر نکل گیا۔
"میں ہاسپٹل کیا آ گیا لوگوں کے پر نکل آےُ ہیں۔ٹھیک ہو جاؤں میں پھر دیکھنا سب کے پر کاٹوں گا۔ یہ جو اتنی لمبی زبان چلی ہے نہ حساب بھی دو گے تم۔"
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
ابھی وہ انہی سوچوں میں غرق تھا کہ جنت اندر آتی دکھائی دی۔
"اوہ مسز زمان... "
وہ محظوظ ہوا۔
"سنا ہے آپ معذور ہو گئے ہیں؟ بہت افسوس ہوا ویسے.... "
وہ کہتی ہوئی اس کے بیڈ کے پاس آ گئی۔
"کچھ وقت کے لیے۔ ڈاکٹرز نے کہا ہے میں ری کور کر لوں گا۔ زمان تیمور ہوں میں کوئی معمولی انسان نہیں۔"
وہ تفاخر سے بولا۔
"اوہ یہ زمان تیمور...."
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"سب کچھ بھی چلا جاےُ گا تب بھی شاید آپ کا یہ زمان تیمور ختم نہیں ہوگا۔"
وہ تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آ ہی گئی ہو تو میری میڈیسن چیک کرو۔"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"جہاں تک میرا خیال ہے میں آپ کی بیوی نہیں ہوں۔ اور زمان تیمور کو نوکروں کی کمی نہیں پھر میری ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ ویسے بڑا افسوس ہو رہا ہے اٹھ کر اپنی دوائی بھی نہیں لے سکتے آپ۔"
وہ چھی چھی کرتی نفی میں سر ہلاتی چلنے لگی۔
"تم کیا سمجھتی ہو میں اس بیڈ پر ہوں تو بے بس ہوں؟"
وہ تلملاتا ہوا بولا۔
"اب عادت ڈال لیں... ویسے دیکھیں میرے مولا کا انصاف کیسا لاچار بنا دیا نہ آپ کو؟ جس انسان کی میں ختم نہیں ہوتی تھی اب وہ ایک قدم اٹھانے کے بھی قابل نہیں رہا۔"
وہ ٹہلتی ہوئی جلتی پر تیل کا کام کر رہی تھی۔
"اپنی زبان بند کر لو ورنہ.... "
"ورنہ کیا؟ ماریں گے؟ اور کتنا ماریں گے اور کس کس کو ماریں گے؟ ویسے اب تو آپ اس قابل بھی نہیں رہے۔ آئیں ذرا ایک تھپڑ مار کر دکھائیں؟"
وہ سینے پر بازو باندھتی اس کے بیڈ ے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔
"بہت اُڑ رہی ہو نہ تم.... زیادہ دن کے لئے نہیں ہے ایک ایک لفظ کا حساب لوں گا تم سے۔"
وہ بے بسی کی انتہا پر تھا۔
جنت مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگی۔
"مجھے حیرت ہے آپ جیسے احمق انسان پر۔ مطلب ابھی بھی آپ کی اکٹر آپ کا غرور جوں کا توں برقرار ہے۔ مزید کس چیز کا انتظار ہے؟ یہ جو زبان ہے یہ بھی چلی جاےُ؟"
وہ آنکھیں سکیڑے ششدر سی بولی۔
"کہہ لو تم نے جو کہنا ہے۔ لیکن یاد رکھنا میرا بھی وقت آےُ گا تب میں تمہیں بتاؤں گا۔"
وہ چبا چبا کر بولا۔
"اتنے بڑے بزنس مین ہیں لیکن معمولی سی باتیں سمجھ نہیں آتیں آپ کو؟"
وہ نفی میں سر ہلاتی افسوس سے بولی۔
زمان بس مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
"آپ کا وقت آیا تھا... ﷲ نے آپ کو ڈھیل دی اور وقت بھی اور ساتھ میں آزمائش بھی۔"
وہ گھورتی ہوئی بولی۔
"اپنی بکواس بند کرو اور نکلو یہاں سے۔"
وہ کوفت سے بولا۔
اس کا بس چلتا تو کان بند کر لیتا اس وقت۔آخر کیسے یہ لڑکی اسے اتنی سنا سکتی ہے؟
"وقت آیا اور گیا۔ بار بار نہیں آتا وقت۔ اور مبارک ہو زمان تیمور آپ کو کہ آپ ﷲ کی اس آزمائش میں بلکل فیل ہو گئے۔ کہتے ہیں ﷲ غربت دے کر بھی آزماتا ہے اور امیری دے کر۔ آزمائش تو دونوں کی ہوتی بس نوعیت مختلف ہوتی ہے۔"
وہ چکر لگاتی ہوئی بولی۔
"آئی سیڈ آؤٹ(میں نے کہا جاؤ) ۔"
اس سے زیادہ وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
"کیوں؟ کیا ہوا؟ تکلیف ہو رہی ہے؟ زمان تیمور کبھی دوسروں کو تکلیف دے کر تو آپ کو احساس نہیں ہوا پھر اب اپنی تکلیف پر کیوں چلا رہے ہیں؟"
وہ برہمی سے گویا ہوئی۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے سے اس طرح بات کرنے کی؟"
وہ آگ بگولہ ہو گیا۔
"ہمت تو پہلے سے تھی۔ بس لحاظ تھا جسے آج بلاےُ طاق رکھ کر بات کر رہی ہوں۔"
وہ بھی آج سارے حساب پورے کر دینا چاہتی تھی۔
"یہاں سے چلی جاؤ اس سے قبل کہ میں تمہارا کچھ کر دوں۔"
وہ لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگا جو ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
"کیا کریں گے آپ؟ اوہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے آپ سے... "
وہ ڈرنے کی اداکاری کرتی ہوئی بولی۔
یہ لمحات زمان کے لئے خاصے دشوار کن تھے۔
"اپنے لئے تو کچھ کر نہیں سکتے میرا کیا کریں گے آپ؟"
وہ ہنستی ہوئی بولی۔
زمان کو اس کی ہنسی زہر لگ رہی تھی۔
"کیا چاہتی ہو تم؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"آپ جیسا لاچار انسان مجھے کیا دے گا؟"
وہ پے در پے وار کر رہی تھی۔
شاید وہ اس سے بھی بدترین کے لائق تھا۔
وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلنے لگا۔
اس لمحے اسے اپنی بےبسی کا جی بھر کر احساس ہوا۔ وہ کتنا لاچار تھا اسے اب احساس ہو رہا تھا۔
"سی یو.... جلد ملیں گے۔"
وہ اسے دیکھے بنا وہاں سے باہر نکل گئی۔
وہ دروازے کے باہر کھڑی ہو گئی۔
سانس خارج کرتی سامنے دیور کو گھورنے لگی۔
"زراد کاش تم ہوتے....زمان کی یہ حالت دیکھتے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ خسارے تمہارے حصے میں آےُ ہیں۔"
وہ آنکھیں رگڑتی ہوئی بولی۔
اشک تھے کہ بنا دستک دئیے آ جاتے۔
"تمہاری قربانی رائیگاں نہیں جاےُ گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج زمان تیمور کو اس کی فیملی نے چھوڑ دیا ورنہ شاید صورتحال کچھ مختلف ہوتی۔"
وہ دوپٹے سے بار بار آنکھیں صاف کر رہی تھی۔ جو لمحے میں برسنے لگتیں۔
"معاف کر دینا مجھے... بس معاف کر دینا۔"
وہ شہادت کی انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتی چلنے لگی۔
~~~~~~~~
"امی یہ سب کیا چل رہا ہے؟ جنت اور زمان کے بیچ؟"
کبیر الجھ کر انہیں دیکھ رہا تھا۔
"میں تو خود نہیں جانتی... خدا بہتر جانتا ہے۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"خاندان والے مجھے فون کر کے پوچھ رہے ہیں اور میرے علم میں ہی کچھ نہیں...."
وہ ششدر سا انہیں دیکھ رہا تھا۔
"کیا بتاتی تمہیں؟ اور کیسے اپنے منہ سے بتاتی؟ ظلم کرنے والے بھی تو ہم ہی ہیں۔ زمانے کے ڈر سے اپنی بچیوں کو سسرال میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔"
وہ اشک بہاتی ہوئی بول رہی تھی۔
"امی آپ اچھے سے جانتی ہیں ابو یا میرے لئے وہ تینوں کبھی بھی بوجھ نہیں ہیں۔ پھر آپ نے کیوں مجبور کیا جنت کو؟"
وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
"یہ دنیا جینے دے تب نہ.... بس اسی سوچ میں ہم خود کو تباہ کر لیتے ہیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟ لوگوں کو کیا جواب دیں گے؟ اگر ہم اتنی سی بات سمجھ لیں کہ زندگی ہماری ہے دنیا والوں کی نہیں تو شاید بہت سی جنت یوں بے مول نہ ہوں۔ ہم تو ساری زندگی لوگوں کی مرضی کے مطابق گزارتے ہیں۔ ان کے خوف سے خود پر ضبط کر لیتے ہیں کیسی حماقت ہے نہ یہ؟"
وہ آنسو بہاتی اسے دیکھنے لگی۔
"امی یہ ظلم ہی تو ہے۔ خدا نے زندگی ہمیں دی ہے تو ہم کیوں اپنی مرضی کے مطابق اسے بسر نہیں کرتے؟ ہماری ترجیح یہ دنیا ہے۔ آپ لوگ ہی ایسا کرتے ہیں۔ جو لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے نہ وہی صحیح معنوں میں اپنی زندگی جیتے ہیں ورنہ ہم جیسے لوگوں کی زندگی یونہی دوسرے کنڑول کرتے ہیں اور پتہ ہے ہم خود انہیں اختیار دیتے ہیں کنڑول کرنے کا۔ خدا سے زیادہ آپ ان دنیا والوں سے ڈرتے ہیں۔"
وہ تاسف سے بول رہا تھا۔
"بلکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ انہی کا خوف ہمیں کچھ کرنے نہیں دیتا۔ ﷲ معاف کرے کتنی غلط بات ہے۔ صرف ﷲ کی ذات ہے کہ جس سے ڈرا جاےُ۔ مجھے معاف کر دو بیٹا... "
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولیں۔
"امی اگر آپ لوگ یہ سمجھ کر جئیں نہ کہ زندگی ہماری ہے لوگوں سے ہمیں کیا؟ تو شاید سب خوش رہیں۔ اور زندگی میری نہیں جنت کی تباہ ہوئی ہے۔ اگر آپ معافی مانگنا ہی چاہتی ہیں تو اس سے مانگیں مجھ سے نہیں۔"
وہ ان کے ہاتھ نیچے کرتا ہوا بولا۔
"میں جنت سے بھی معافی مانگنا چاہتی ہوں لیکن وہ بات ہی نہیں کر رہی۔ نہ خود فون کرتی ہے نہ میرا اٹھاتی ہے۔"
وہ آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"امی اسے وقت دیں سنبھلنے کا۔ بہت برے دور سے گزری ہے وہ۔"
وہ آسودگی سے بولا۔
"تم سے کس نے پوچھا؟ اور کیا جواب دیا تم نے؟"
وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتی ہوئی بولیں۔
"مجھے اپنی بہن پر پورا یقین ہے اس لئے لوگوں کے منہ بند کروا دئیے ہیں میں نے آپ فکر مت کریں۔"
وہ کہتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
وہ بس سر ہلا کر رہ گئیں۔
"میں چھٹی لے کر جاؤں گا جنت کو ڈھونڈنے آپ پریشان مت ہوں... "
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
"میرے مولا مجھے معاف کر دے... میری وجہ سے جنت کے ساتھ یہ سب ہوا اور وہ خاموشی سے سب سہتی رہی۔"
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"شاید جنت مجھے کبھی معاف نہ کرے... نجانے ہمارے لئے یہ دنیا والے اپنے بچوں سے زیادہ اہم کیوں ہو جاتے ہیں کہ ہم ان کی خاطر ان پر جبر کرتے ہیں۔ کیسا ستم ہوگیا مجھ سے؟"
وہ اشک بہاتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"نماز پڑھ کر پہلے اپنے رب سے معافی مانگتی ہوں پھر جنت سے مل کر اس سے بھی معافی مانگوں گی۔ کبھی کوئی والدین لوگوں کے ڈر سے اپنی بچیوں کو ایسے سسرال میں رہنے پر مجبور نہ کریں۔ کوئی ایسی غلطی نہ کرے۔"
وہ دوپٹے سے آنکھیں صاف کرتی ہوئی بولیں۔
~~~~~~~~~
"آپ جنت زمان ہیں نہ؟ میں نے آپ کا انٹرویو دیکھا تھا۔"
اس کے چہرے پر شناسائی کی رمق تھی۔
"جی میں وہی ہوں... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"لیکن دیکھیں آپ کے پاس کوئی ڈاکومنٹس نہیں ہیں۔ ایسے کیسے ہم آپ کو جاب دے دیں؟"
وہ سوالیہ آبرو اچکا کر بولی۔
"آپ مجھے ٹرائل پر رکھ لیں۔ آپ کو خود اندازہ ہو جاےُ گا۔"
وہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے۔ لیکن ہمیں ہیڈ آفس میں جواب دینا پڑتا ہے وہ پوچھیں گے تو ہم کیا جواب دیں گے؟ کہ آپ کے ڈاکومنٹس ہی نہیں ہیں؟"
وہ مایوسی سے بولی۔
"اوکے نو پرابلم... "
جنت مسکراتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"آئی ہوپ یو انڈرسٹینڈنگ( مجھے امید ہے آپ سمجھیں گیں) ۔"
وہ چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ اسے دیکھنے لگی۔
"اٹس اوکے۔"
وہ مصافحہ کرتی وہاں سے نکل گئی۔
"اب دوسرے سکول جاتی ہوں شاید وہاں بات بن جاےُ... "
وہ فون کی اسکرین کو دیکھتی ہوئی بولی۔
وہاں سے بھی ناکامی ہوئی تو جنت نے واپس ہوٹل کا رخ کیا۔
"مجھے جلد از جلد جاب کا انتظام کرنا ہوگا۔ ورنہ اس ہوٹل کا خرچا کہاں سے دوں گی میں؟"
وہ متفکر سی کہتی چادر اتارنے لگی۔
"اتنی گرمی تھی باہر اف.... "
وہ بیڈ پر بیٹھ کر گلاس میں پانی انڈیلنے لگی۔
گلاس لبوں سے لگایا تو زراد کا چہرہ دکھائی دینے لگا۔
اس نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں اور گلاس واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیسے میں اس سب سے باہر نکلوں؟"
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی ہوئی بولی۔
"تمہاری محبت بہت پاک تھی اتنی کہ دیکھو مجھے بھی معلوم نہ ہو سکا۔"
وہ چہرے سے ہاتھ ہٹاتی آہستہ سے بولی۔
"کون کہتا ہے محبت پا لینے کا نام ہے؟ محبت میں قربانی بھی ہوتی ہے کبھی اپنی خوشیوں کی قربانی تو کبھی شاید اپنی جان کی۔ اور مجھے تو لگتا ہے ایسی محبت شاید ہی کوئی کسی سے کرے جو تم نے مجھ سے کی۔ میری خاطر تم نے اپنی پرواہ نہیں کی۔ میں کیسے تمہارا یہ قرض اتاروں گی؟"
وہ زراد کے ایسے مخاطب تھی مانو وہ سامنے بیٹھا ہو۔
"لیکن یہ سب تمہاری وجہ سے ممکن ہوا زراد۔ اگر تم ہوتے تو زمان کے گھر والے کبھی انہیں اکیلا نہ چھوڑتے۔ ہر کام میں ﷲ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ سچ میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہم سمجھ نہیں پاتے۔ اس لئے شکوے کرتے ہیں۔"
وہ مدھم آواز میں طویل سرگوشیاں کر رہی تھی۔
"میں تمہاری قبر پر بھی ضرور آؤں گی۔"
وہ آسودگی سے مسکرائی۔
"بس مجھے جاب مل جاےُ تاکہ یہ ٹینشن دور ہو۔"
وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
اب وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔
~~~~~~~~~
"یہ کیا بکواس ہے؟ کسی بھی پیمنٹ کا ڈیٹا کیوں نہیں ہے؟"
زمان وہیل چئیر پر بیٹھا چلا رہا تھا۔
"سر گزشتہ چند ماہ کا سارا ڈیٹا غائب ہے۔ شاید یہ پرانے مینیجر کا کام ہو۔"
وہ تشویش سے بولا۔
"بنا ثبوت کے کیسے پکڑ سکتے ہیں اسے؟"
وہ جھنجھلا کر بولا۔
"پھر تو معلوم نہیں ہو سکتا... "
وہ مایوسی سے بولا۔
"تو تمہیں کس لئے ہائر کیا ہے میں نے؟"
وہ تلملا اٹھا۔
"سر میں آپ کو پرانا ڈیٹا کیسے دے سکتا ہوں؟ جبکہ میں یہاں موجود نہیں تھا... "
وہ ششدر سا اسے دیکھنے لگا۔
"میں کچھ نہیں جانتا... مجھے وہ سارا لاس ری کور کرنا ہے ہر حال میں۔ اور یہ کام تم کرو گے ورنہ فائر کر دوں گا تمہیں... "
وہ ہنکار بھرتا باہر دیکھنے لگا۔
"میں کوشش کرتا ہوں... "
وہ مدھم آواز میں بولا۔
چہرے پر ناگواری تھی۔
"جا سکتے ہو.... جب میں بلاؤں فوراً بھاگے آنا۔ میں فلحال آفس نہیں آؤں گا۔"
بولتے بولتے آواز مدھم ہو گئی۔
"اوکے سر.... "
وہ گردن ہلاتا باہر نکل گیا۔
وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملاےُ پرسوچ انداز میں باہر دیکھ رہا تھا۔
اس حالت میں وہ کسی سے نہیں مل رہا تھا۔ جانے کیوں اسے ہتک محسوس ہوتی تھی۔
"واٹ دا ہیل.... "
اس نے گلدان اٹھا کر زمین پر دے مارا۔
"میں کب تک ایسے رہوں گا؟ وہاں بزنس ڈوبا جا رہا ہے اور یہاں یہ مصیبت.....لوگ مجھے منہ چڑا رہے ہیں اور میں کچھ نہیں کر سکتا۔"
وہ مٹھیاں بھینچ کر بولا۔
"سر آپ کی کافی... "
ایلن دروازہ ناک کرتی ہوئی بولی۔
"باقی نوکر کہاں ہیں؟"
وہ وہیل چئیر گھما کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
"سر وہ چلے گئے... "
وہ سر جھکا کر بولی۔
"کیا مطلب چلے گئے؟"
زمان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"سر وہ تنخواہ نہیں ملی تھی تو وہ سب چھوڑ گئے۔"
وہ مگ اس کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی۔
"تو اب تم اکیلی ہو؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"جی سر... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"ٹھیک ہے جاؤ... "
پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا ہوا تھا۔
وہ سوچتا ہوا پھر سے کھڑکی کے پاس آ گیا۔
"کوئی ہوگا نہیں تو میری مدد کون کرے گا؟"
وہ مگ لبوں سے ہٹاتا ہوا بولا۔
"ریحام تم مجھے مل جاؤ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں... پتہ نہیں کتنے پیسے لے کر گئی ہو یہاں سے۔"
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
"فلحال تو یہ ٹینشن ہے میرے پاس کون ہوگا؟"
وہ داڑھی کھجاتا ہوا بولا۔
"اب کیا مجھے کہنا پڑے گا کہ میرے ساتھ رہیں مجھے آپ لوگوں کی ضرورت ہے؟"
وہ الجھ کر بولا۔
"ہر گز نہیں... میں کسی کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ میں کیسے؟"
وہ جھنجھلا کر بولا۔
"کوئی ہوگا نہیں تو میرے کام کیسے ہوں گے؟"
وہ مگ ٹیبل پر رکھتا سوچنے لگا۔
"عجیب ہی ٹینشن ہے.... "
وہ ناگواری سے کہتا کمرے سے باہر نکل آیا۔
وہ اپنے کمرے کی بجاےُ نیچے کمرے میں تھا کیونکہ سیڑھیاں وہ چڑھ نہیں سکتا تھا۔
لاؤنج میں کوئی بھی نہیں تھا۔
جب اس گھر میں کوئی موجود نہیں تھا تو وہاں کیسے کوئی ذی روح دکھائی دیتا؟
"کیسے ہو زین؟"
وہ اپنے دوست کا نمبر ملا کر فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
"میں ٹھیک ہوں... یہ بتاؤ سنا ہے تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا ہے؟"
وہ تشویش سے بولا۔
"ہاں صحیح سنا ہے۔"
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
"آئم سوری یار.... بزنس میں اتنا مصروف ہوں ٹائم ہی نہیں ملا۔"
وہ تاسف سے بولا۔
"اٹس فائن... مجھے پوچھنا تھا کہ تمہارے گھر میں کوئی ملازم موجود ہے؟ مجھے رکھنا تھا اپنے لیے۔"
وہ لب کاٹتا اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
"جتنے ہیں سبھی کام پر لگے ہوۓ ہیں... لیکن تم کہہ رہے ہو تو میں ایک بھیج دیتا ہوں۔"
وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔
"ہاں بھیج دینا...."
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہے پھر میں تھوڑی دیر میں تمہیں کال بیک کرتا ہوں۔"
اس نے عجلت میں کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
"یہ دن آ گئے ہیں...."
وہ فون صوفے پر اچھالتا ہوا بولا۔
"اب بھیج دے وہ بس... "
وہ متفکر سا بولا۔
~~~~~~~~
"خیریت تھی آپ خود یہاں آئیں؟"
وہ صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
"تم زمان کے پاس واپس تو نہیں جاؤ گی نہ؟"
وہ تصدیق کرنا چاہ رہی تھی۔
"آپ کو لگتا ہے اتنا سب ہونے کے بعد بھی میں ان کے اس واپس جاؤں گی؟"
وہ استہزائیہ ہنسی۔
"نہیں... بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔ تو تم کب تک یہاں رہو گی؟"
سندس کی پیشانی پر شکنیں نمایاں تھیں۔
"جاب ڈھونڈ رہی ہوں... امید ہے جلد مل جاےُ گی۔"
وہ مبہم سا مسکرائی۔
"تو تم اپنی فیملی کے پاس نہیں جاؤ گی؟"
وہ تعجب سے بولی۔
"نہیں... وہاں کے حالات کچھ ناساز ہیں۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"پھر کہاں جاؤ گی؟"
وہ آہستہ سے استفسار کرنے لگی۔
"ﷲ مالک ہے۔"
وہ مسکرا کر بولی۔
"میری ایک دوست ہے۔ تم اس کے ساتھ رہ سکتی ہو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلی رہتی ہے۔"
وہ پرسوچ انداز میں بولی۔
"نہیں میں خود دیکھ لوں گی... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"میں تم پر کوئی احسان نہیں کر رہی۔ وہ تم سے رینٹ لے گی۔یوں تمہاری بھی عزت نفس مجروح نہیں ہو گی اور تمہیں سہولت ہو جاےُ گی۔"
وہ بغور اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"لیکن ابھی تو میرے پاس پیسے نہیں ہیں..."
وہ آہستہ سے بولی۔
"جب تک تمہیں جاب نہیں مل جاتی وہ تم سے رینٹ نہیں لے گی...تم آرام سے سوچ لو اس بارے میں۔"
وہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
"تھینک یو... "
وہ تشکرانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"تھینکس کی ضرورت نہیں... زراد کے بعد سب سے زیادہ سفر تم نے کیا۔"
وہ آسودگی سے بولی۔
جنت کے پاس الفاظ کم پڑنے لگے۔
وہ خاموش اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی۔
"میں چلتی ہوں اب۔ ابراہیم انتظار کر رہا ہوگا۔"
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔
جنت بھی کھڑی ہو گئی۔
"مجھے کال کر کے بتا دینا جو تمہیں مناسب لگے۔"
وہ اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
"جی ٹھیک ہے۔"
وہ اس سے الگ ہوتی ہوئی بولی۔
وہ دروازہ بند کر کے اس کمرے کی دیواروں کو گھورنے لگی۔
"دیکھا جاےُ تو اس میں کوئی برائی نہیں..."
وہ بولتی ہوئی چلنے لگی۔
"کل پھر سے جاؤں گی انٹرویو کے لیے۔ شاید کہیں بات بن جاےُ۔"
وہ بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
دو دن سے وہ مسلسل ناکامی کا منہ دیکھ رہی تھی لیکن حوصلہ پست نہیں ہوا اس کا۔
~~~~~~~~~
"بیٹھیں... "
زمان ہاتھ سے اشارہ کرتا ہوا بولا۔
"بہت افسوس ہوا آپ کا سن کر... "
وہ اسے دیکھتے تاسف سے بولے۔
"کس بات کا افسوس؟ مجھے تو کوئی افسوس نہیں تو پھر آپ کو کیوں ہو رہا؟"
وہ بگڑ کر بولا۔
"زمان میں تو...."
وہ بوکھلا کر اسے دیکھنے لگے۔
"مجھے یہ ہمدردیاں نہیں چائیے۔ اگر یہی سب کہنے آئیں ہیں تو جا سکتے ہیں آپ۔"
وہ ان کی بات کاٹتا درشتی سے بولا۔
مقابل ہکا بکا اسے دیکھنے لگا۔
"میرا منہ کیا دیکھ رہے ہیں؟ آئی سیڈ گو(میں نے کہا جاؤ) ۔"
وہ تاؤ کھاتا ہوا بولا۔
"یہ کوئی طریقہ نہیں ہے زمان... "
وہ کہتے ہوۓ کھڑے ہو گئے۔
"آئی ڈونٹ کئیر(مجھے پرواہ نہیں) ۔"
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
وہ جا چکے تھے۔
زمان دو انگلیوں سے پیشانی مسلنے لگا۔
آنکھوں میں نمی سی ابھری جسے اس نے بروقت پیچھے دھکیل دیا۔
اپنی بے بسی پر رونا آ رہا تھا اسے لیکن اتنی آسانی سے وہ جھکنے والا نہیں تھا۔
"میں زمان تیمور ہوں... یہ دنیا مجھے گرا نہیں سکتی۔"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
"سر؟"
ملازم اندر آتا ہوا بولا۔
"اب کیا ہے؟"
وہ کوفت سے بولا۔
"آپ سے...ملنے مینیجر آیا ہے۔"
وہ گھبرا کر بولا۔
"بھیج دو.... "
وہ سانس خارج کرتا ہوا بولا۔
"اب یہ کوئی اچھی خبر ہی لایا ہو... "
وہ ہونٹوں کو دائیں بائیں جنبش دیتا دروازے کی سمت دیکھنے لگا۔
مینیجر اندر آ کر چند لمحے اسے دیکھتا ہے۔
"بولو خاموش کیوں ہو؟"
وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملاتا ہوا بولا۔
"سر قرضہ لینے کے بعد بھی کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا... "
وہ مایوسی سے بولا۔
"اتنے سالوں کا تجربہ ہے تمہارے پاس... تو تم اس کمپنی کو کیوں نہیں سنبھال پا رہے؟ اتنی تنخواہ آخر کس چیز کی دے رہا ہوں میں تمہیں؟"
وہ پیچ و تاب کھا کر بولا۔
"سر حالات ہی ایسے ہیں اس میں اب میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں تو اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں۔"
وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔
"دوسرے کسی بینک سے قرضہ لے لو... لیکن مجھے اپنی کمپنی کو سٹینڈ کرنا ہے۔"
وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔
"سر اس کے لئے آپ کو اس گھر کی رجسٹری دینی ہو گی کیونکہ پہلے فیکٹری کے کاغذات دئیے تھے تو اب یہ گھر... "
وہ اوپر چھت کو دیکھتا دائیں بائیں دیکھنے لگا۔
زمان لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگا۔
مینیجر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"ٹھیک ہے میں دیتا ہوں... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
یہ فیصلہ زمان کے لئے نہایت کٹھن تھا۔
زمان نے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنا فون نکالا۔
ایلن کا نمبر ملایا اور فون کان سے لگا لیا۔
"ہاں ایلن ایک کام کرو... میری کب بورڈ سے پیپرز نکال کر لاؤ۔ لیفٹ سائیڈ والی کب بورڈ کے اندر دراز ہے اس میں پڑے ہیں۔ چابی آکر لے جاؤ مجھ سے۔"
وہ سوچ سوچ کر بول رہا تھا جیسے دل رضامند نہ ہو۔
"تم جاؤ میں بھیجوا دیتا ہوں... "
وہ سر اٹھا کر مینیجر کو دیکھتا ہوا بولا۔
"جی سر ٹھیک ہے۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
وہ بٹن پر ہاتھ رکھتا دھیرے دھیرے کھڑکی کے قریب جاتا ہے۔
"کتنے عجیب حالات ہیں نہ یہ؟ نہ کوئی پاس ہے نہ کسی کا ساتھ ہے؟"
وہ آسودگی سے بولا۔
"اب یہ گھر بھی دینا پڑ رہا ہے۔"
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
"تم فکر ہی مت کرو علی... میں سر کو معلوم نہیں ہونے دوں گا تمہارے متعلق کچھ بھی۔ ویسے بھی پرانا مینیجر سارا ڈیٹا ختم کر کے گیا ہے۔"
وہ قہقہ لگاتا فون کان سے لگاےُ چل رہا تھا۔
وہ گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا۔
"یار دیکھو ڈوبتی ہوئی کمپنی کو اٹھایا نہیں جاتا۔ اسے مزید ڈبو دیا جاتا ہے۔"
بولتے بولتے اس کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ رینگ گئی۔
"اتنی صفائی سے کام کروں گا کہ زمان تیمور جیسا انسان بھی سمجھ نہیں پاےُ گا اور ویسے بھی یہ معذوری انہیں ذہنی دباؤ کا شکار کر دے گی مجھے یقین ہے۔"
وہ گیٹ سے باہر نکل آیا۔
"میں آفس جا کر تمہیں دوبارہ کال کرتا ہوں۔"
وہ فون بند کر کے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
"کیا کروں میں؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا.... ایسا معلوم ہو رہا ہے کچھ ٹھیک نہیں ہونے والا۔"
وہ دونوں ہاتھوں سے بالوں کو پکڑتا ہوا بولا۔
"میں کیسے یہ سب برداشت کر لوں؟ میں ہار نہیں سکتا۔ زمان تیمور کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔"
وہ نفی میں سر ہلا رہا تھا۔
بے بسی ہی بے بسی تھی۔
"جنت کو کال کرتا ہوں۔"
وہ فون اٹھاتا ہوا بولا۔
"اسے بھی کیا کہوں گا؟"
وہ فون بند کرتا ہوا بولا۔
"کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟"
وہ جھنجھلا کر بولا۔
وہ بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔
چہرے پر پریشانی واضح تھی۔
"یہ خسارے، یہ محتاجی... میں پاگل ہو جاؤں گا۔"
وہ منہ پر ہاتھ رکھے بول رہا تھا۔
~~~~~~~~
"میں آپ کو بتا رہی ہوں میں نے ایم اے کیا ہے لیکن میری ڈگری نہیں ہے میرے پاس۔"
وہ آسودگی سے بولنے لگی۔
"ہم آپ کو کیسے رکھ سکتے ہیں آپ خود سوچیں... "
وہ تعجب سے بولی۔
"ٹھیک ہے۔ نو پرابلم... "
وہ اثبات میں سر ہلاتی کھڑی ہو گئی۔
"پندرہ دن ہو گئے اور ابھی تک کہیں سے مثبت جواب نہیں آیا۔"
جنت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی۔
"ﷲ پاک پلیز میری مشکل آسان کر دیں۔"
وہ آسمان کی سمت دیکھتی ہوئی بولی۔
وہ چلتی جا رہی تھی جب اس کی نظر دیوار پر لگے بینر پر گئی۔
"ضرورت براےُ فی میل سٹاف..."
وہ اسے دیکھتی زیر لب دہرانے لگی۔
اس نے فون نکال لیا اور نمبر نوٹ کرنے لگی۔
"انہیں فون کر کے ایڈریس پوچھتی ہوں... پھر یہاں بھی چلی جاؤں گی۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"آپ کے پاس سی وی بھی نہیں ہے... "
مقابل ہونٹوں پر انگلی رکھے اسے دیکھنے لگا۔
"نہیں... "
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"ہمیں ضرورت تو ہے ٹیچر کی لیکن... "
"لیکن؟"
وہ بے چینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولی۔
"آپ ہماری کال کا انتظار کریں... "
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"ٹھیک ہے۔"
اسے تسلی ہوئی۔
"اپنا نمبر اس پر لکھ دیں۔ ہم آپ کو کال کر دیں گے۔"
وہ پیشہ وارانہ مسکراہٹ لئے بولا۔
وہ پین اٹھا کر نمبر لکھنے لگی۔
"تھینک یو... "
وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔
"ﷲ کرے یہاں سے جواب آ جاےُ۔ اب جاتی ہوں... "
وہ فون پر دیکھتی ہوئی بولی۔
"یہ سکول زیادہ دور بھی نہیں ہے پہلے یہاں چلی جاتی ہوں۔"
وہ متلاشی نگاہوں سے رکشہ دیکھتی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~~
"کتنا قرض لوں میں بتاؤں مجھے؟ تم دن بہ دن مجھے پاگل کرتے جا رہے ہو... "
زمان متفکر سا بولا۔
"سر دونوں فیکٹریاں ایسے مقام پر کھڑی ہیں کہ انہیں سٹینڈ کرنا نہایت کٹھن ہے اور پھر تنخواہ تو سب کو دینی ہی ہے کمپنی لاس میں جاےُ یا پرافٹ میں۔"
وہ لاچاری سے شانے اچکاتا ہوا بولا۔
"اس سال کسی کو بونس نہیں ملے گا بتا دینا...."
وہ ناگواری سے بولا۔
یہ پریشانیاں اسے علیل کرتی جا رہی تھیں۔
"جی سر میں بتا دوں گا... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"وہ لان سر؟"
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا جو کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
"لے لو... "
وہ آہستہ سے بولا۔
وہ کمرے سے باہر جا رہا تھا جب ملازم اندر آیا۔
"سر میری تنخواہ؟"
وہ سوالیہ نشان بنا کھڑا تھا۔
زمان خاموش تھا۔
آج اس کے پاس وہ دولت نہیں تھی جس پر وہ غرور کرتا تھا۔
"سر؟"
اسے لگا زمان نے سنا نہیں۔
"نہیں ہے میرے پاس۔"
وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔
اسے شرم محسوس ہو رہی تھی۔
"یہ کیا بات ہوئی؟ آپ مجھ سے کام لے رہے ہیں اور آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں؟ یہ اتنا بڑا گھر کیسے لیا ہے آپ نے؟"
وہ بگڑ کر بولا۔
"میں نے کہا نہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اپنی اوقات سے باہر مت نکلو تم۔"
وہ تلملا اٹھا۔
ایک ملازم اس لہجے میں اس سے بات کرے وہ کہاں برداشت کر سکتا تھا۔ لیکن آج شاید اس کی حالت ایک ملازم سے بھی بدتر تھی۔
"میں زین صاحب کو بتاؤں گا آپ مجھے تنخواہ نہیں دے رہے۔"
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
"جا سکتے ہو یہاں سے.... اور کل سے کام پر آنے کی ضرورت نہیں۔"
وہ رکھائی سے بولا۔
"معذور ہو گئے لیکن اکٹر ابھی بھی نہیں گئی اس بگڑے نواب کی۔"
وہ جل بھن کر کہتا باہر نکل گیا۔
"میرے پاس اتنی دولت ہے کہ ساری زندگی تم لوگوں کو عیش کروا سکتا ہوں۔"
یہ زمان کے ہی الفاظ تھے جو اس کے کان میں بازگشت کر رہے تھے۔
"ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اتنا سب تھا اور آج میں خالی ہاتھ ہوں... "
وہ اپنے ہاتھ دیکھتا ہوا بولا۔
"میرے پاس دوا خریدنے کے پیسے تک نہیں ہیں۔"
بولتے بولتے لب کپکپانے لگے۔
"یہ نہیں ہونا چائیے تھا... یہ شان و شوکت یہ سب ختم نہیں ہو سکتا۔ ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔ میری دولت کیسے ختم ہو سکتی ہے؟"
وہ نفی میں سر ہلاتا بول رہا تھا۔
"میں کیسے اس حال میں آ گیا؟"
وہ خود سے استفسار کر رہا تھا۔
بٹن پر ہاتھ رکھتا وہ آگے بڑھا اور سیگرٹ اٹھا کر ہونٹوں میں دبا لی؟ اس کی تنہائی کی ساتھی یہی تھی۔ یا پھر شراب۔
~~~~~~~~~
"مام آپ کو معلوم ہے زمان کس حال میں ہے؟"
ریحام رازداری سے بولی۔
"کس حال میں؟"
عظمی آہستہ سے بولی۔
"نجانے کتنا قرض اس نے سر چڑھا لیا ہے اور اب تو گھر بھی نہیں رہا۔ اچھا ہوا ہم نے وقت پر اسے چھوڑ دیا۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"مجھے اب فرق نہیں پڑتا۔ یہ اس کی سزا ہے اور وہ تنہا کاٹے گا۔"
آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی۔
"کیا ہوا مام؟"
سندس ابراہیم کو اٹھاےُ وہاں آئی۔
"پتہ نہیں کافی دنوں سے عجیب عجیب سے خواب آ رہے ہیں۔"
وہ پریشان سی بولیں۔
"کیسے خواب؟"
سندس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
ریحام بھی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
"زراد آتا ہے خواب میں۔ خفا ہے مجھ سے پتہ نہیں کیوں؟ اس کی آنکھیں مجھ سے شکوے کرتی ہیں۔"
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
زراد کے نام پر سندس کا چہرہ بھی اتر گیا۔
"مام کیا کہتا ہے وہ آپ کو؟"
ریحام تعجب سے انہیں دیکھنے لگی۔
"کہتا کچھ نہیں ہے۔ بس خاموشی سے دیکھتا رہتا ہے لیکن اس کی آنکھیں سب کہتی ہیں۔"
وہ سسکتی ہوئی بولیں۔
"مام آپ نے بھی تو زمان کو ان دونوں کے خلاف بھڑکایا تھا۔ کہیں نہ کہیں آپ کا بھی حصہ ہے اس میں۔"
سندس نے کافی دیر بعد زبان کھولی۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں نے بھی تو زمان کو کہا تھا زراد اور جنت کے متعلق۔"
وہ دائیں ہاتھ سے چہرہ صاف کرتی ہوئی بولیں۔
"جتنا ہو سکے آپ معافی مانگا کریں۔ شاید ﷲ آپ کو معاف کرے تو زراد بھی کر دے۔"
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
ریحام لب بھینچ کر سندس کو دیکھنے لگی۔
"مما ہم ماموں کے پاس کب جائیں گے؟"
ابراہیم اس کے بالوں سے کھیلتا ہوا بولا۔
"جلد ہی... "
وہ ہمیشہ کی مانند جھوٹ بولتی باہر نکل گئی۔
~~~~~~~~
"جنت تم ڈاکٹر کو چیک کیوں نہیں کروا لیتی؟"
سدرہ خفگی سے بولی۔
"ایسے ہی آپی بس ٹائم نہیں ملتا۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"ٹائم نکالو گی تب نہ....اپنی صحت کا خیال بھی تو رکھو۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
"اس ویک اینڈ پر ان شاءالله...."
وہ اپنا بیگ اٹھاتی ہوئی بولی۔
"میں خود تمہیں لے کر جاؤں گی ورنہ تم تو ایسے ہی لاپرواہی برتتی رہو گی۔"
ان کا غصہ ابھی تک برقرار تھا۔
"آپ خفا مت ہوں اس مرتبہ پکا۔"
وہ انہیں گلے لگاتی ہوئی بولی۔
"چابی لے جاؤ میں آج سندس سے ملنے جاؤں گی۔"
وہ چابی نکالتی بلند آواز میں بولی۔
"کس ٹائم آئیں گیں؟"
وہ چابی بیگ میں ڈالتی ہوئی بولی۔
"دیکھو رات بھی ہو سکتی ہے۔ سندس کا معلوم ہی ہے واپس کہاں آنے دیتی ہے جلدی۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
"چلیں ٹھیک ہے۔ اوکے گولو رات میں ملتے ہیں۔"
وہ چار سالہ حیدر کے رخسار پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔
"باےُ آنی... "
وہ ہاتھ بلاتا ہوا بولا۔
وہ گھر سے باہر نکل آئی۔
وہ پیدل سڑک پر چل رہی تھی۔
"زندگی نے بہت سے سبق سیکھاےُ اور سب سے اہم سبق یہ دیا کہ سب کچھ کھونے کے بعد، تنہا ہونے کے بعد کیسے حیا جاتا ہے؟"
اس کا رخ قبرستان کی جانب تھا۔
"کافی دنوں بعد آئی ہوں تمہاری قبر پر سوری... "
وہ سرخ گلاب اس کی قبر پر پھیلاتی ہوئی بولی۔
"دیکھو میں نے جینا سیکھا لیا۔ سب ختم ہونے کے بعد بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔میں ٹوٹی نہیں۔ ایک نئی زندگی شروع کر دی ہے۔ جس میں پہلا کوئی رشتہ نہیں... "
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"باقی سب کی مانند مجھے اپنی دوست کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے اور دیکھو میں تمہیں سب بتانے یہاں پہنچ جاتی ہوں۔"
وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔
"میں نے خود کو بتا دیا کہ جب کچھ دکھائی نہ دے تو راستے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ ہمت کرنی پڑتی ہے ایک پرسکون زندگی کے لیے۔ سدرہ آپی بہت اچھی ہیں۔ مجھے کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ سگی نہیں بس نام کی بہن ہیں۔"
وہ دور خلا میں دیکھتی بول رہی تھی۔
"فیملی سے بھی بڑھ کر ہیں وہ۔ اور یہ سندس کی وجہ سے ممکن ہوا۔ بیشک ﷲ راستے بنا دیتا ہے۔ وہ ایک دروازہ بند کرنے سے پہلے دوسرا دروازہ کھولتا ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو صرف راستہ تلاشنے کی اور اس میں بھی ﷲ ہماری مدد کرتا ہے وہ کبھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑتا کبھی نہیں۔"
وہ نفی میں سر ہلا رہی تھی اس بات سے انجان کہ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔
"تم ہمیشہ یاد رہو گے مجھے... نہ ہی میں کبھی اپنے اس دوست کو بھولوں گی۔ مجھے زراد تیمور جیسا دوست نہ کبھی ملا نہ کبھی مل سکتا ہے کیونکہ موتی ہر سیپ سے نہیں نکلتے نہ ہی بار بار نکلتے ہیں۔"
وہ مسکراتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"مجھے سکول کے لئے دیر ہو رہی ہے میں پھر کسی دن آؤ گی۔ اور جلدی آؤں گی۔"
وہ بیگ سنبھالتی قبرستان سے باہر نکل آئی۔
وہ سڑک کے کنارے پر چل رہی تھی۔
اسی اثنا میں اس کا فون رنگ کرنے لگا۔
وہ رکی اور بیگ سے فون نکالنے لگی۔
زمان کا نام دیکھ کر پیشانی پر بل پڑ گئے۔
کچھ توقف کے بعد اس نے فون اٹھا لیا۔
~~~~~~~~~
"امی میری بات ہوئی تھی جنت سے وہ نہیں مانتی۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"یہ کیا بات ہوئی؟ ایسے اکیلی کہاں رہتی ہے کیسے گزارہ کرتی ہے؟"
شہناز کی بجاےُ عائشہ بول پڑی۔
"پتہ نہیں... بس وہ چاہتی ہے کہ ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ وہ اسی شہر میں ہے لیکن کہاں معلوم نہیں۔"
وہ بیچارگی سے بولی۔
"کیا یہ سزا تجویز کی ہے اس نے ہم سب کے لیے؟ کہ ہم اس کا منہ دیکھنے کو ترس جائیں؟"
شہناز سسک کر بولیں۔
"امی اس کی تکلیف کا ہم سب اندازہ بھی نہیں لگا سکتے... ہمیں تو معلوم بھی نہیں کیا کیا جھیلا ہے اس نے۔"
مریم غمزدہ سی بولی۔
"لیکن کبیر تو کہہ رہا تھا اسے واپس بلاؤ۔"
عائشہ پر سوچ انداز میں بولی۔
"کبیر بھائی کے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ جب تک جنت نہیں چاہتی ہم کچھ نہیں کر سکتے اور امی میرے خیال میں وہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔"
مریم ان کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔
"کس لحاظ سے یہ فیصلہ درست ہے بتاؤ ذرا مجھے؟"
وہ خفا انداز میں بولیں۔
"امی وہ آپ کے پاس آےُ گی تو کیا سارا خاندان اسے جینے دے گا؟ کبھی کوئی آ کر اسے برا بھلا بولے گا تو کبھی کوئی۔ آپ زبانیں بند کر سکیں گیں ان کی؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
"باتیں تو ابھی بھی ہو رہی ہیں... "
عائشہ نے لقمہ دیا۔
"ہوتی رہیں۔ جس میں ہماری بہن کی خوشی ہے ہمیں اسی کو فوقیت دینی چائیے لوگوں کا کیا ہے وہ آ جاےُ گی تو پھر کون سا منہ بند ہو جائیں گے؟"
وہ ناگواری سے بولی۔
"کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو... یہاں اس کا جینا محال ہی ہوگا۔ پھر سے تلخ کلامیاں, پریشانیاں۔ میری بچی سکون سے نہیں رہے گی۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
"اسی وجہ سے میں نے اسے مجبور نہیں کیا۔اگر وہ پرسکون ہے تو ہم سے دور ہی سہی۔ کچھ وقت لگے گا جب ٹھیک ہو جاےُ گی تو دیکھنا امی خود آےُ گی ہم سے ملنے۔"
وہ ہاتھ سے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی۔
"ﷲ کرے ایسا ہی ہو... "
وہ اداسی سے گویا ہوئیں۔
"میں حمزہ کے کپڑے استری کر دوں؟"
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔
"ہاں ہاں تم کر لو ہم ابھی یہیں ہیں شام تک... "
عائشہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"میں آتی ہوں ابھی... "
وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔
~~~~~~~~
"نہ تم مجھے دیکھنے آئی نہ ہی تم نے فون کرنے کی زحمت کی۔"
زمان فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔
"کوئی جواز نہیں تھا میرے پاس تمہیں دیکھنے کا۔"
وہ بے حسی سے گویا ہوئی۔
"میں تمہارا بھائی ہوں۔"
وہ شکوہ کر گیا۔
"ہاں اور میرے بھائی کے قاتل بھی۔ اور میں کبھی معاف نہیں کروں گی تمہیں زمان۔ میں تو کہتی ہوں ﷲ نے بہت اچھا کیا تمہارے ساتھ بلکہ اس سے بھی بدتر کرنا چائیے تھا۔"
وہ اشک بہاتی پھٹ پڑی۔
"تم مجھے یہ سب بول رہی ہو؟"
وہ حیرت میں مبتلا ہو گیا۔
"ہاں اور اگر مزید سننا نہیں چاہتے تو دوبارہ کبھی مجھے فون مت کرنا۔ زراد کی موت کے ساتھ تم بھی ہمارے لئے اسی دن مر گئے تھے۔"
وہ سرد مہری سے کہتی فون کاٹ گئی۔
زمان ہکا بکا سا اسکرین کو دیکھنے لگا۔
"سب مجھے چھوڑ چکے ہیں۔"
وہ تلخی سے مسکرایا۔
~~~~~~~~
دروازہ پر کھڑے چوکیدار نے اسے سلام کیا اور گیٹ وا کر دیا۔
وہ ہچکچاتی ہوئی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی چلنے لگی۔
نجانے کیوں اسے ویرانی سی محسوس ہو رہی تھی جیسے کسی انسان کا وجود ہی نہ ہو یہاں۔
پورچ میں کوئی گاڑی نہیں کھڑی تھی۔
وہ چلتی ہوئی لاؤنج میں آ گئی۔
"ایلن؟"
وہ آواز دیتی کبھی راہداری میں دیکھتی تو کبھی سیڑھیوں کی جانب۔
"کوئی نہیں ہے یہاں... "
یہ زمان کی آواز تھی۔
وہ راہداری سے نمودار ہوا۔
وہیل چئیر پر بیٹھا کمزور سا انسان زمان تیمور نہیں تھا۔
شیو بڑھی ہوئی کپڑے بھی صاف نہیں لگ رہے تھے۔
وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
"اندر آ جاؤ۔"
وہ کہتا ہوا بٹن پر ہاتھ رکھتا وہیل چئیر راہداری میں موڑتا چلنے لگا۔
وہ کسی ربوٹ کی مانند اس کے حکم کی تعمیل کرتی چلنے لگی۔
"کیسی ہو؟"
وہ ہمیشہ کی مانند کھڑکی کے پاس آ رکا تھا۔
"میں... ٹھیک ہوں... "
وہ ہچکچا رہی تھی۔
"حیرت کی بات ہے تم بیوی ہو میری ایک دفعہ میرا خیال نہیں آیا؟"
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی شکوہ کر گیا۔
"بیوی تھی اب نہیں ہوں۔"
اس نے فوراً تصحیح کی۔
"ٹھیک ہے ڈائیورس ہو گئی تھی مان لیتے ہیں۔ بٹ آئی نیڈ یو(لیکن مجھے تمہاری ضرورت ہے) ۔"
یہ لمحہ کیسا تھا صرف زمان تیمور جانتا تھا۔
ایسا معلوم ہو رہا تھا اپنی ذات کو روند رہا ہے وہ۔
"آپ میرے لیے حلال نہیں ہیں اس لئے میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔"
وہ اس کی بات کا مفہوم سمجھ چکی تھی۔
"پھر میرے بلانے پر آ کیوں گئی؟"
اس نے چوٹ دی۔
اس کا لہجہ یکسر بدل چکا تھا۔
وہ کھردرا پن، مغرور انداز اب نہیں رہا تھا۔ ایک ٹھہراؤ تھا جو اس کے لہجے میں آ چکا تھا۔
"کچھ کام سے آئی تھی... "
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
"کون سے کام سے؟"
زمان رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
"زراد کے روم میں کچھ چیزیں ہیں جو مجھے لینی ہیں۔"
وہ بغور اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
"تو تم نہیں رہو گی میرے ساتھ؟"
وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا بولا۔
"کبھی بھی نہیں۔ جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ معافی کے قابل نہیں ہے۔"
چہرے پر سختی در آئی۔
"تمہاری غلطیوں کی سزا ملتی تھی تمہیں..."
وہ ابھی بھی خود کو غلط نہیں ٹھہرا رہا تھا۔
"جو آپ کرتے تھے اسے ڈومیسٹک وائلنس کہتے ہیں جو کسی بھی لڑکی کو برداشت نہیں کرنا چائیے۔"
وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی۔
"جانتی ہو میں نے تمہیں طلاق کیوں دی تھی؟"
وہ دائیں آبرو اچکا کر بولا۔
"کیوں؟"
جنت کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"تاکہ دربدری تمہارا مقدر بن جاےُ۔ تم تنہا در در کی خاک چھانتی پھرو۔"
وہ ناگواری سے دیکھتا ہوا بولا۔
"اور ایک بات میری بھی لکھ لیں کہیں۔ قدر ہمیشہ کھونے کے بعد ہی آتی ہے پھر وہ چیز ہو یا انسان۔ یاد ہے نئی شرٹس پھینک دیا کرتے تھے آپ۔ اب آپ کو پیسے کی بھی قدر ہو گئی اور میری بھی۔میں بھی میسر تھی آپ کو اور وہ دولت بھی۔اب دونوں نہیں رہے تو ان کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے آپ کو اور آپ مقدر لکھنے والے نہیں ہیں۔ اب تو یہ بھی سمجھ آ گیا ہوگا کہ نعوذبلله آپ خدا نہیں ہیں کیونکہ جو انسان چل نہیں سکتا،واش روم نہیں جا سکتا، اس وہیل چئیر سے اٹھنے کے لئے کسی انسان کی ضرورت ہو وہ کیسے خود کو خدا تصور کر سکتا ہے؟ ﷲ آپ جیسے فرعونوں کا غرور توڑتا ہے خاک میں ملاتا ہے اور زمان تیمور آج آئینے میں اپنا عکس دیکھ لو۔ کیا ابھی بھی کچھ باقی ہے؟"
وہ آنکھیں سکیڑتی ہوئی بولی۔
"اپنی شکل لے کر دفع ہو جاؤ یہاں سے... "
وہ حقارت سے بولا۔
جنت نے ایک نظر اس کے سراپے پر ڈالی۔
اور پھر باہر نکل آئی۔
اس نے جھوٹ بولا تھا اسے زراد کی کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔
وہ جھرجھری لیتی تیز تیز قدم اٹھاتی زمان ویلا سے باہر نکل آئی۔
زمان دانت پیستا روم فریج کے پاس آیا اور اندر سے شراب کی بوتل نکال لی۔
یہ شراب اس نے گاڑی بیچ کر خریدی تھی۔
آخر غم کی دوا بھی کرنی تھی اسے۔
"بھاڑ میں جاؤ تم بھی... زمان تیمور کو کسی کی ضرورت نہیں۔ اکیلا رہ لوں گا میں۔"
دو اشک ٹوٹ کر اس کے رخسار پر آ گرے جسے اس نے بے دردی سے صاف کر لیا۔
وہ اسی مشغلے میں محو تھا جب قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔
وہ ہاتھ روک کر دروازے کی سمت دیکھنے لگا۔
سامنے اس کا بدترین مخالف کھڑا تھا۔
بزنس کی دنیا میں اس کا سب سے بڑا مخلاف وہی تھا۔
"زمان تیمور یہ پوچھنا بیکار ہے کہ تم کیسے ہو؟"
وہ آنکھوں سے گاگلز اتارتا اندر آتا ہوا بولا۔
"کیا لینے آےُ ہو تم یہاں؟"
زمان نا گواری سے بولا۔
"تمہیں دیکھنے آیا تھا۔ یقین مانو بڑا دکھ ہو رہا ہے تمہیں اس حال میں دیکھ کر۔"
وہ آسودگی سے بولا۔
"بہتر ہوگا تم یہاں سے چلے جاؤ۔ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا... اچھے سے جانتا ہوں تم یہاں میرا مذاق بنانے آےُ ہو۔"
وہ ضبط کرتا تھک رہا تھا۔
"ذہانت میں تم سے آگے کوئی نکل نہیں سکا اس کا ثبوت مت دو۔ ویسے یہ بتاؤ اتنا قرض لے رہے ہو واپس کیسے کرو گے؟ ایسے فیکٹریاں چل جائیں گیں؟"
وہ رازدارانہ انداز میں بولا۔
"اٹس ناٹ یور پرابلم( یہ تمہارا مسئلہ نہیں) ۔"
وہ درشتی سے بولا۔
"میں تو مشورہ دینے آیا ہوں۔اگر ضرورت پڑے تو میرے آفس میں جاب کر لینا۔ اوہ اس معذوری میں تم جاب کیسے کرو گے؟"
وہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
زمان مٹھیاں بھینچے ضبط کی انتہا پر تھا۔
ایک ایک لفظ تمانچے کی مانند اس کے منہ پر لگ رہا تھا۔
یہ سب وہ تبھی سے برداشت کر رہا تھا جب سے یہ وہیل چئیر اس کا مقدر بنی تھی۔
وہ چلا گیا تو زمان فون اٹھا کر چوکیدار کا نمبر ملانے لگا۔
کچھ دیر بعد چوکیدار وہاں موجود تھا۔
"جی سر؟"
وہ سر جھکا کر بولا۔
"مجھے بیڈ پر لٹا دو... "
آواز اتنی مدھم تھی کہ بمشکل چوکیدار سمجھ سکا۔
"جی سر... "
وہ کہتا ہوا آگے آیا اور اسے بیڈ پر لٹا دیا۔
"اتنا تو بے بس ہوں میں۔"
وہ آنکھوں میں نمی لئے بولا۔
"سر اور کوئی حکم؟"
وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔
"نہیں... لیکن شکریہ جو تم ابھی تک میرے ساتھ ہو۔"
وہ مدھم آواز میں بولا البتہ نگاہیں دیوار پر تھیں۔
"نہیں سر جی شکریہ کی کیا ضرورت؟ میں چلتا ہوں۔"
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
"جنت تم نے ٹھیک کہا تھا بلکل ٹھیک کہا تھا۔"
وہ شراب کی بوتل ہاتھ میں پکڑے آنکھوں میں نمی لئے بول رہا تھا۔
"میرے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے۔ واقعی میں بھول بیٹھا تھا کہ وہ جو اوپر بیٹھا ہے وہ خدا ہے۔ دولت کے نشے میں چور میں خود کو خدا سمجھ بیٹھا اور اب جب مجھے زمین پر پٹخا گیا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ بادشاہت صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ غرور صرف اسی کو زیب دیتا ہے۔ اگر میرے دل میں خدا کا خوف ہوتا تو شاید میرے ہاتھ میرے بھائی کے خون سے رنگے نہ ہوتے۔ یہ ہاتھ جنت کو تکلیف دینے کو نہ اٹھتا۔ نہ ہی کسی کا نقصان کرنے کو۔"
آج اسے اپنی ہر زیادتی یاد آ رہی تھی۔
چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
شراب کی بوتل لبوں سے لگا لیتا تو خاموش ہو جاتا۔ لبوں سے ہٹا لیتا تو پھر سے بولنے لگتا۔
"جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے نہ وہ ایسے کام نہیں کرتے۔ وہ زمان تیمور جیسے نہیں ہوتے۔ ظلم کرتے ہوۓ ان کے ہاتھ ضرور کانپتے ہیں۔"
وہ مدھم آواز میں بول رہا تھا۔
"میں کیسے یہ سب برداشت کروں؟ کیسے مان لوں یہی سب زندگی ہے؟ بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ میرا دل قبول کرنے پر رضامند نہیں... "
وہ سسکتا ہوا بولا۔
بوتل خالی ہو چکی تھی۔
اس پر نشہ طاری ہو رہا تھا۔
یہی سب بولتے بولتے وہ بےہوش ہو گیا۔ وہ آدھا قالین پر تھا اور آدھا بیڈ پر۔
جب انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے تو ﷲ اسے یاد دلا دیتا ہے کہ تیری کیا اوقات ہے۔
~~~~~~~~
"کیا ہوا جنت؟ میں دیکھ رہی ہوں کچھ دنوں سے پریشان ہو تم؟"
سدرہ کافی کا مگ اس کے سامنے رکھتی ہوئی بولی۔
"حیدر سو گیا؟"
وہ مگ اٹھاتی ہوئی بولی۔
"ہاں... تم وجہ بتاؤ کچھ ہوا ہے؟"
وہ تشویش سے بولی۔
"کچھ دن پہلے زمان نے بلایا تھا مجھے..."
سدرہ تمام حالات سے واقف تھی اس لئے اس نے بتانے کا قصد کیا۔
وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتی بتانے لگی۔
"اور تم چلی گئی؟"
وہ متحیر سی بولی۔
"جی.... "
اس کے بعد وہاں جو باتیں وہیں جنت نے سب اسے بتا دیں۔
"انہیں دیکھ کر تھوڑا دکھ بھی ہوا۔ وہ جیسے بھی تھے میرے شوہر تھے میری زندگی میں آنے والے پہلے مرد تھے۔"
وہ مگ واپس ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی۔
"میں نے مولوی صاحب سے تمہارا مسئلہ پوچھا تھا۔ وہ بتا رہے تھے ایک طلاق ہوئی ہے۔ اگر تم جانا چاہو تو جا سکتی ہو۔ اور تمہاری عدت کے دن بھی ابھی پورے نہیں ہوۓ۔"
وہ آہستگی سے بولیں۔
جنت خاموش اس کا چہرہ تکنے لگی۔
"مجھے برا ضرور لگ رہا ہے کیونکہ مجھ میں انسانیت ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں میں ان کے پاس چلی جاؤں...جو کچھ انہوں نے کیا وہ مٹ نہیں سکتا اور سب سے اہم بات انہوں نے معافی نہیں مانگی۔ پچھتاوے آن گھر رہے ہیں لیکن وہ قبول کرنے کے متمنی نہیں۔ انہوں نے زراد کا قتل کیا، مجھے میرے ابو کو دیکھنے نہیں دیا اورباقی جو ظلم کیے وہ سب ایک طرف۔ میری اس اذیت کا ازالہ ان کی یہ تکلیف نہیں کر سکتی۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
"اچھا چلو ٹھیک ہے جیسے تمہیں مناسب لگے۔ لیکن کیونکہ زمان نے ایک طلاق دی ہے اور عدت پوری ہونے سے قبل اگر شوہر رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ہاں اگر عدت پوری ہو جاےُ اور رجوع نہ کرے تو دوسری طلاق خود بخود ہو جاتی ہے۔ویسے تمہارا اب وہاں جانا بنتا بھی نہیں ہے۔"
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولیں۔
جنت کافی کو گھورتی نجانے کیا سوچنے لگی۔
"جی.... "
وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
~~~~~~~~
"مریم آ بھی جاؤ اب.... "
حمزہ کی خفگی بھری آواز گونجی۔
"جی آ گئی بس... "
وہ رانیہ کو بیڈ سے اٹھاتی ہوئی بولی۔
"ٹائم دیکھو؟"
وہ خفا انداز میں بولا۔
"سوری وہ چیزیں بکھری ہوئی تھیں سوچا سمیٹ کر جاؤں... "
وہ نادم سی بولی۔
"چلو آؤ اب...."
وہ کہتا ہوا بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
حسن کو حمزہ نے اٹھا رکھا تھا۔
حمزہ نے بائیک سٹارٹ کی اور انہیں لے کر نکل گیا۔
"میری جیب کے لحاظ سے جو تمہیں پسند ہے خرید لو اور ہاں بچوں کے لیے بھی لے لینا۔"
وہ دوکان میں داخل ہوتا ہوا بولا۔
"لیکن آپ نے تو کہا تھا.... "
"وہ پہلے کی بات تھی اور آج بھی میں ہی کہہ رہا ہوں۔ یہ دونوں میرے بھی بچے ہیں اب تم یہ رونے کا سیشن سٹارٹ مت کر لینا یہاں... "
وہ اس کی آنکھوں میں ابھرتی نمی کو دیکھتا خفگی سے بولا۔
"نہیں... "
وہ آنکھیں مسلتی ہوئی بولی۔
"وہ والا سوٹ دیکھو...."
وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا بیٹھ گیا۔
مریم بھی اس کے ہمراہ بیٹھ گئی۔
وہ پرسکون سی ہو کر اسے دیکھ رہی تھی جو مختلف سوٹ نکلوا رہا تھا۔
~~~~~~~~
رات کے دو بج رہے تھے۔
ہر سمت تاریکی کا راج تھا۔
"اتنے دن ہو گئے سر نے مجھے بلایا کیوں نہیں؟"
چوکیدار سوچتا ہوا اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔
"میں دو دن چھٹی پر تھا تب بھی سر نے پوچھا تک نہیں.... ان کی اجازت کے بنا جانا بھی مناسب نہیں کہیں غصہ نہ کرنے لگ جائیں۔"
وہ پرسوچ انداز میں کہتا اندر کی جانب چلنے لگا۔
اندرونی دروازہ کھول کر وہ لاؤنج میں آ گیا۔
اس کا رخ زمان کے کمرے کی جانب تھا۔
کمرے کا دروازہ کھولا تو انتہائی گندی بدبو نے اس کا استقبال کیا۔
اس نے ناگواری سے ناک پر ہاتھ رکھ لیا۔
پورے کمرے میں بدبو پھیلی ہوئی تھی اور زمان۔
اسے دیکھتے ہی چوکیدار کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
اس کا جسم کیڑوں سے بھرا ہوا تھا۔
سر قالین پر اور ٹانگیں بیڈ پر تھیں۔
قریب ہی شراب کی بوتل گری ہوئی تھی۔
کتنے دنوں سے وہ اس حال میں تھا اسے معلوم ہی نہ ہوا۔
بدبو ناقابل برداشت تھی وہ فوراً باہر نکل گیا۔
آنکھوں میں نمی تیرنے لگی زمان تیمور کا انجام دیکھ کر۔
کچھ سوچ کر وہ زمان ویلا سے باہر نکل آیا۔
آس پاس کے گھر سے لوگوں کو بلایا اور زمان کے پاس لے آیا۔
تمام لوگ متحیر سے اسے دیکھ رہے تھے۔
کوئی بھی ایک منٹ سے زیادہ اس کے کمرے میں رک نہ سکا۔
کیسا عبرتناک انجام ہوا تھا اس کا۔
اسے دیکھ کر خوف سے آنکھیں بھر آئیں سب کی۔
"اسے اٹھا کر باہر لے آتے ہیں... آخر کفن دفن بھی تو کرنا ہے نہ۔"
انہی لوگوں میں سے کوئی ایک بولا۔
"جی سر... "
چوکیدار اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
سر تا پیر زمان کا وجود کیڑوں سے لبریز تھا۔
کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی اسے ہاتھ لگانے کی کیونکہ اس کا جسم گَل چکا تھا۔
مانو چربی پگھل چکی ہو۔
"اسے اٹھائیں کیسے؟"
اب یہ مسئلہ درپیش آ گیا۔
ایک تو بدبو دوسرا اس کا وجود کیڑوں سے بھرا تھا۔
لوگوں نے جیسے تیسے کر کے اسے بیڈ سے اتارا اور قالین میں لپیٹ دیا۔
چوکیدار نے عظمی کو فون کر دیا تھا۔
مولوی صاحب کو بلوایا گیا۔
تمام لوگوں میں مشاورت ہوئی تو جو اس کی حالت تھی اس کے مطابق یہی طے پایا کہ اسے غسل دئیے بنا ہی دفنا دیا جاےُ۔
بدبو ایسی تھی کہ دم گھٹ رہا تھا لوگ جلد از جلد وہاں سے نکلنا چاہتے تھے۔
جو اس کا حال تھا ایسے میں غسل ممکن نہیں تھا۔
ہر آنکھ اشکبار تھی اس کے انجام کو دیکھ کر۔ کئی لوگوں کے دل خوف سے کانپ اٹھے۔
عظمی، سندس اور ریحام ایک ساتھ وہاں آئیں۔
زمان کی حالت دیکھنے لائق تک نہ تھی۔
وہ اشک بہاتی منہ پر ہاتھ رکھے اسے قالین میں لپٹے دیکھ رہی تھیں۔
الفاظ سب کے دم توڑ چکے تھے۔
زبان کنگ ہو گئی اسے دیکھ کر۔
ایک منٹ سے زیادہ کوئی بھی اسے دیکھ نہیں پا رہا تھا۔
"کیا ہوا؟ اب کس چیز کا انتظار ہو رہا ہے؟"
مولوی صاحب کالونی والوں کے پاس آتے ہوۓ بولے۔
گھنٹہ گزر چکا تھا۔
"مولوی صاحب قبر کھودنے والا بھی تو ملے نہ... اب اس وقت کہاں ڈھونڈیں؟"
وہ پریشانی سے گویا ہوۓ۔
وہ لوگ ممکن کوشش کر رہے تھے کہ جلد از جلد کوئی قبر کھودنے والا مل جاےُ لیکن خدا کے کام میں کون دخل دے سکتا ہے؟
بڑی دقت کا سامنا کرنے کے بعد قبر کھودنے والا مل گیا۔
بنا کفن کے ہی اسے چارپائی پر ڈالا گیا اور جنازہ اٹھا لیا گیا۔
نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔
اب کوئی قبر نہیں مل رہی تھی۔
سب حیران پریشان سے تھے کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ نہ اسے غسل ملا نہ کفن اور اب قبر بھی نہیں مل رہی تھی۔
یہ خدا کی جانب سے عذاب نہیں تو اور کیا تھا؟
بلآخر انہیں قبر ملی تو اسے کھود کر زمان تیمور کو اسی قالین سمیت دفنا دیا گیا۔
اس کا انجام سب کے رونگٹے کھڑے کر گیا تھا۔
دفنانے کے بعد تمام لوگ اپنے اپنے گھر کو چل دئیے۔
چوکیدار نے آکر عظمی کو ہر چیز بتائی۔
وہ اشک بہاتی ریحام کو دیکھ رہی تھی۔
"مام یہ کیسی موت تھی؟"
ریحام کے لب کپکپا رہے تھے۔
"یہ اس کے گناہوں کی سزا تھی شاید...."
سندس زمین کو گھورتی ہوئی بولی۔
آنسو ٹوٹ کر گھاس پر گر رہے تھے۔
"ہو سکتا ہے۔ جس انسان کے پاس بے تحاشا دولت تھی آج اسے دو گز زمین بھی نہیں مل رہی تھی۔ یہ ﷲ کے ہی تو کام ہیں۔ وہ ڈھیل دینا جانتا ہے تو سزا دینا بھی جانتا ہے۔"
عظمی منہ پر ہاتھ رکھے سسکتی ہوئی بولی۔
وہ تینوں باہر گارڈن میں بیٹھی تھیں کیونکہ بدبو پورے گھر میں پھیل چکی تھی۔
"خدا کے کام میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ بیشک وہ حد پار کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"
سندس کھڑی ہوتی اس زمان ویلا پر ایک نظر ڈالتی ہوئی بولی۔
یہ ویلا زمان نے تعمیر کروایا تھا۔
اس گھر سے ان کی ہزاروں یادیں جڑی تھیں۔
اشکوں کی روانی میں اضافہ ہو گیا۔
زندگی ان کی برداشت سے بڑھ کر آزما رہی تھی۔ دونوں بھائیوں کے جنازے دیکھے تھے انہوں نے؟ اور یہ غم کسی طور کم نہیں ہوتا۔
"مجھے تو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی یقین نہیں آ رہا۔"
ریحام کو اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔
"مجھ سے پوچھو... میں نے تو اپنے دو جوان بیٹے کھوےُ ہیں۔"
وہ اشک بہاتی ہوئی بولی۔
"ہم دونوں ہیں نہ آپ کے ساتھ پریشان مت ہوں۔"
ریحام آنکھیں صاف کرتی عظمی کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
لیکن اس لمحے کوئی تسلی کام نہیں آ رہی تھی کیونکہ دکھ ہی اتنا بڑا تھا۔ برا ہی سہی لیکن تھا تو ان کا بیٹا ہی۔
~~~~~~~~~
"جنت یہ دیکھو... "
سدرہ ہکا بکا سی اس کے پاس آئی جو ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔
"کیا؟"
وہ اخبار اس کے ہاتھ سے لیتی ہوئی بولی۔
سامنے زمان تیمور کی تصویر تھی جب وہ کمرے میں تھا۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی۔
"یہ سب کی....کیسے؟"
وہ اخبار ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی۔
"راتوں رات اسے دفنایا اور لوگوں نے اخبار میں چھاپ دی تاکہ یہ خبر جنگل میں آگ کی مانند پھیل جاےُ۔"
وہ کہتی ہوئی بیٹھ گئی۔
"کیا وہ سچ میں اس دنیا میں نہیں رہے؟"
وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔
"اس کا انجام تم دیکھ چکی ہو۔"
وہ اخبار کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
"یہ سب ہوا کیسے؟"
وہ آہستہ سے بولی۔
"تفصیل پڑھی ہے میں۔ بہت افسوسناک واقعہ ہے یہ۔ جانتی ہو اسے نہ غسل دیا گیا نہ ہی کفن... دیکھو غرور کرنے والوں کا ایسا ہی خوفناک انجام ہوتا ہے۔ فرعون اس زمانے کا ہو یا اس زمانے کا خدا اسے خاک میں ہی ملاتا ہے۔"
وہ تاسف سے بولیں۔
جنت کی آنکھیں مزید پھیل گئیں۔
"اور قبر؟ وہ بھی لکھا ہے بہت مشکلوں سے ملی۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
جنت نے ایک نظر پھر سے اخبار پر ڈالی تو زبان کنگ ہو گئی اس کی حالت دیکھ کر۔
"ﷲ نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا یے تاکہ ہم سب اسے دیکھ کر نصیحت پکڑیں۔"
وہ کانٹا ہاتھ میں پکڑے بول رہی تھیں۔
"تم کچھ بول کیوں نہیں رہیں؟"
وہ اس کا ہاتھ ہلاتی ہوئی بولیں۔
"کیا بولو میں؟ زمان کا انجام ایسا ہوگا میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ یہ ﷲ کا انصاف ہے جب انسان اپنی حد پار کرتا ہے تو شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔"
وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بول رہی تھی۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز تھیں۔
"تم ٹھیک ہو؟"
وہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتی ہوئی بولیں۔
"جی... آج سکول سے چھٹی لے رہی ہوں میں۔"
وہ چادر اٹھاتی ہوئی بولی۔
"چھٹی لے رہی ہو تو جا کہاں رہی ہو؟"
وہ ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔
"زراد کی قبر پر.... "
وہ عجیب کیفیت میں مبتلا تھا جسے سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھی۔
~~~~~~~~
"مس جنت آپ بتائیں کہ آخر ہوا کیا؟ سب جاننا چاہتے ہیں۔ زمان تیمور کی ایسی موت لاکھوں سوالوں کو جنم دے گئی ہے۔"
ایکنر اس کے سامنے بیٹھی پوچھ رہی تھی۔
"وہ جیسے بھی تھے میرے شوہر تھے۔ اور میں ان کے بارے میں کچھ برا نہیں بولوں گی۔ ہاں جو ان کی موت ہوئی تو وہ ﷲ کی طرف سے تھی وہ ان کے تکبر کا نتیجہ تھی۔ سبھی جانتے ہیں ان میں غرور آ گیا تھا اور شاید ﷲ نے انہیں سب کے لئے عبرت کی نشانی بنا دیا۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"سننے میں آیا ہے آپ ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوئیں؟"
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"جی ہاں... کیونکہ میرے علم میں نہیں تھا مجھے صبح معلوم ہوا تھا۔"
وہ سپاٹ انداز میں بولی۔
"تو اگر آپ کے علم میں ہوتا تو کیا آپ چلی جاتیں؟"
وہ دلچسپی سے اس کے جواب کی منتظر تھی۔
"میں نہیں جانتی۔ یہ حالات پر منحصر کرتا ہے۔"
وہ سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
"کوئی پیغام جو آپ دینا چاہیں گیں؟"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"جی ایک بہت اہم پیغام ہے جو میں آپ سب کو دینا چاہتی ہوں۔ میں ایک طلاق یافتہ عورت ہوں اور مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہوتا اس کا اعتراف کرنے میں۔ طلاق یافتہ ہونا بری بات نہیں ہے۔ جب قرآن میں خود میرے ﷲ نے فرما دیا کہ اگر تم نباہ نہ کر سکے تو الگ ہو جاؤ لیکن ایک دوسرے کو ایذا مت دو۔"
وہ لمحہ بھر کو سانس لینے کو رکی۔
"تو پھر ہم کون ہوتے ہیں ﷲ کے احکامات سے منہ موڑنے والے؟ اس میں رد و بدل کرنے والے؟ کیا ﷲ اجازت دیتا ہے کہ اس کے احکامات سے انحراف کیا جاےُ؟ اس معاشرے میں طلاق یافتہ کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے کیا آپ نے سوچا ہے کہ طلاق کو عورت کے ماتھے کا داغ بنا دینے کے بعد آپ ﷲ کو کیا جواب دیں گے؟ میں یا آپ کون ہوتے ہیں اصول بنانے والے؟ یہ تو ﷲ کا کام ہے اور اس نے اسی لئے اپنی کتاب بھیجی لیکن دیکھیں پھر بھی ہمارا معاشرہ کس قدر منافقت سے کام لیتا ہے۔"
وہ استہزائیہ ہنسی۔
"ہمارے معاشرے میں عورت ظلم سہتی رہتی ہے طلاق نہیں لیتی کیونکہ یہ دنیا اسے جینے نہیں دے گی۔ اس کے ماں باپ کو ایک پل سکھ کا نہیں لینے دے گی۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
"بیشک طلاق ﷲ کو پسند نہیں لیکن پھر بھی اس نے اجازت دی ہے تو خدارا دوسروں کی زندگی جہنم بنانا چھوڑ دیں۔ اس روایت کو ختم کر دیں کہ طلاق ہوئی ہے تو لڑکی بدکردار, بدچلن ہے یا پھر اس میں کوئی عیب ہے۔"
وہ چہرے پر سنجیدگی طاری کئے بول رہی تھی۔
"اور میری تمام والدین سے ایک درخواست ہے۔ کبھی بھی اپنی بچیوں کو عہد و پیمان میں باندھ کر مت بھیجا کریں۔ ایسا نہ ہو بعد میں ان کی میت کو دیکھ کر پچھتانا پڑے کیونکہ بیٹیاں بڑے بڑے ظلم سہہ جاتی ہیں ماں باپ کی خاطر اور انہیں علم تک نہیں ہونے دیتیں۔"
آنکھیں میں نمی تیرنے لگی تھی۔
"بلکل ٹھیک کہا آپ نے۔ ہمارے معاشرے میں یہی رواج ہے کہ طلاق کا داغ عورت پر لگا دیا جاتا ہے۔ اس سے عزت سے رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے جوکہ نہایت غلط ہے۔ہمیں اپنی سوچ اپنا معاشرہ بدلنا چائیے کیونکہ اس کا خسارہ بھی ہمیں ہی پہنچ رہا ہے۔"
اینکر تاسف سے بول رہی تھی۔
"سوچ بدلیں گے تو معاشرہ بھی بدل جاےُ گا کیونکہ معاشرہ لوگوں سے بنتا ہے تو جب ان لوگوں کی سوچ بدل جاےُ گی تو ہمارا معاشرہ دم بخود بدل جاےُ گا۔ عورت حقیر نہیں ہے اس لئے اسے حقیر جانا نہ جاےُ۔"
اسے خود پر ہوۓ ستم یاد آ رہے تھے۔
"بہت شکریہ جنت آپ کا۔ آپ اس شو میں آئیں اور سب کو حقیقت سے آگاہ کیا۔ ﷲ ہم سب کو ہدایت دے اور آج کے لئے بس اتنا ہی ناظرین پھر ملاقات ہوگی کسی نئے مہمان کے ہمراہ۔"
کہتے ساتھ ہی کیمرہ آف ہو گیا۔
"مجھے لگتا ہے وہ ہم سے ناراض ہے... "
شہناز کبیر کی بازو پکڑتی ہوئی بولیں۔
"امی اس کی آنکھوں کے آنسو سب بتا رہے تھے۔ نجانے کیا کچھ ہوا ہوگا اس کے ساتھ وہاں اور ہم ایسے بے خبر ہوۓ کہ کچھ معلوم ہی نہ ہو سکا۔"
وہ نم آنکھوں سے اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔
لیکن اب جنت وہاں نظر نہیں آ رہی تھی۔
"چلو اپنی بیٹی کا چہرہ تو دیکھا... میں تو ہر نماز کے بعد ﷲ سے معافی مانگتی ہوں آخر میں ہی تو وجہ ہوں اس سب کی۔"
وہ اشک بہاتی ہوئی بولیں۔
"میں کوشش کرتا ہوں جنت کو منانے کی۔ خاندان والوں کو بھی دیکھ لیں گے لیکن اس طرح اکیلے رہنا بھی تو مناسب نہیں۔ کیسے اکیلی سب کرے گی؟"
وہ متفکر سا بولا۔
"لیکن اب کوئی جنت پر زبردستی نہیں کرے گا۔ اگر اسے دور رہ کر خوشی ملتی ہے تو میں خوش ہوں اس کی خوشی میں۔ لیکن اب میری بچی سے ایسا کچھ نہیں کروایا جاےُ کہ جس سے اسے تکلیف پہنچے۔"
وہ سسکیاں لیتی بول رہی تھی۔
"جی ٹھیک ہے... "
وہ اثبات میں سر ہلاتا کھڑا ہو گیا۔
~~~~~~~~
"اس دن میں نہیں آ سکی۔ پتہ نہیں کیوں ہمت ہی نہیں ہوئی۔ جانتے ہو زمان بھی اسی قبرستان میں ہیں۔"
وہ زراد کی قبر پر بیٹھی بول رہی تھی۔
"یہ سزا انہیں میرے مولا نے دی ہے اور ساری دنیا نے دیکھا ہے ان کا یہ عبرتناک انجام۔"
وہ نم آنکھوں سے سامنے دیکھ رہی تھی۔
"کون جانتا تھا کہ ان کے پاس صرف تھوڑی سی زندگی ہے اور دیکھو کسی سے معافی بھی نہیں مانگی انہوں نے۔ کچھ لوگوں کو ﷲ معافی کے قابل بھی نہیں چھوڑتا۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے۔
"میں تم دونوں کے لیے دعا کرتی ہوں کہ خدا آگے کا سفر آسان کرے۔ وہ جیسے بھی تھے لیکن پھر بھی مجھے اتنی نفرت نہیں ہو سکی ان سے کہ میں انہیں برا بھلا بولوں۔"
وہ ہونٹوں کو دائیں بائیں جنبش دیتی اس مٹی کو دیکھنے لگی جہاں وہ سو رہا تھا۔
"چلو اٹھو تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں... "
سدرہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
"آپ؟ یہاں؟"
وہ آنکھوں میں تحیر لئے کھڑی ہو گئی۔
"مجھے معلوم تھا تم یہیں ملو گی۔ باقی چاہے کسی کو بھی بھول جاؤ لیکن تم اسے نہیں بھولوں گی۔"
وہ منہ بنا کر کہتی چلنے لگی۔
"اسے کیسے بھول سکتی ہوں؟ جس نے اتنی بڑی قربانی دی میرے لیے۔ اور اگر میں بھول جاؤں تو یہ زیادتی ہوگی اس کے ساتھ۔"
وہ گردن گھما کر زراد کی قبر کو دیکھتی ہوئی بولی۔
سدرہ اس کا ہاتھ پکڑے چل رہی تھی۔
چہرے پر مبہم سی مسکراہٹ رینگ گئی۔
"تم ہمیشہ زندہ رہو گے۔ ایک اچھی یاد بن کر۔ ایک اچھے دوست بن کر۔ جنت تمہیں مرتے دم تک یاد رکھے گی۔ تمہیں مرنے نہیں دے گی۔ تم ہمیشہ زندہ رہو گے مجھ میں۔"
وہ مسکراتی ہوئی مدھم آواز میں بولی۔
"کیا بولے جا رہی ہو؟"
سدرہ اسے گھورتی ہوئی بولیں۔
"کچھ نہیں چلیں نہ اب... "
وہ انہیں دیکھتی چلنے لگی جو رک گئی تھیں۔
سدرہ خفگی سے دیکھتی اس کے ساتھ آ گئی۔
جنت دھیرے سے مسکرانے لگی۔
آج کا دن ایسا تھا مانو ساری تلخیاں ختم ہو گئیں۔ ایک سکون تھا جو اس کے رگ و پے پر سرایت کر گیا۔
~~~~~~~~~
سات ماہ بعد:
"بہت بہت مبارک ہو تمہیں... "
سندس اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
"آپ سپین سے کب آئیں؟"
وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
"جب مجھے معلوم ہوا کہ ایک پیاری سی ڈول اس دنیا میں آئی ہے۔"
وہ بےبی کارٹ سے اس بچی کو اٹھاتی ہوئی بولی۔
جنت کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
"ماشاءﷲ بہت ہی پیاری ہے ہماری ڈول۔"
وہ اس کے سر پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔
"آپ اتنی دور سے آئیں یہاں..."
جنت ابھی بول رہی تھی کہ سندس نے اسے ٹوک دیا۔
"تم مجھے بہت عزیز ہو زراد کے حوالے سے بھی اور اب تو زمان کے حوالے سے بھی۔"
وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی۔
صرف وہی تھی جس کے ساتھ جنت کا مسلسل رابطہ تھا۔ باقی ہر انسان سے اس نے تعلق تقریباً ختم ہی کر دیا تھا۔
"کیا نام سوچا تم نے؟"
اس نے خود ہی موضوع تبدیل کر لیا۔
"منت.... "
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"نام بھی بلکل اس کے جیسا ہے۔ دیکھو آپ کی پھوپھو ہوں میں...."
وہ منت سے مخاطب تھی۔
"ابراہیم اندر نہیں آیا؟"
وہ سدرہ کو دیکھتی ہوئی بولی جو سائیڈ پر بیٹھی تھی۔
"جی نہیں... تمہیں اتنی خوشی تھی کہ اپنے لاڈلے کو اور مجھے بھی بھول گئیں۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"اوہو اسے پکڑو میں ذرا اسے لے کر آئی... گم نہ ہو جاےُ کہیں۔"
وہ فکر سے کہتی باہر نکل گئی۔
"وہ خود تو چلے گئے لیکن جاتے جاتے اپنی نشانی چھوڑ گئے۔"
وہ اپنی گود میں سوتی اس چھوٹی سی منت کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"یہ تو میری کل کائنات ہے۔ ماما کی جان۔"
وہ منت کے رخسار پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔
آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور زبان پر شکر۔
ختم شد!
I have the skill to write all kinds of articles, I teach my article to eradicate the evil in the society.
She is very famous for her unique writing style.
She chooses a variety of topics to write about.
She has written many stories and has large number of
fans waiting for her novels.
People get a message of peace from my article, people get a different feeling by reading my article, I have been writing for two years, I choose different topics to write my article.
I try to suppress social evils in every one of my articles
My articles are read not only in Pakistan but also in many other countries including some special countries like India, UK, Canada, Australia, Japan, USA etc.
I wish my articles were good because of which people follow me
The Harram Shah novels are published in episodic format every month at various platforms furthermore online release
Novels inurdu pk start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels. Hope you like this Story and to Knows More about the story of the Novel you must read it.
زمرہ: رومانٹک ناولز
urdu pk میں ناول تمام سوشل میڈیا مصنفین کے لیے اپنی تحریریں شائع کرنے کے لیے ایک سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ تمام مصنفین کو خوش آمدید، اپنی تحریری صلاحیتوں کی جانچ کریں۔
وہ رومانوی ناول لکھتے ہیں، زبردستی کی شادی، ہیرو پولیس آفیسر پر مبنی اردو ناول، بہت ہی رومانوی اردو ناول، مکمل رومانوی اردو ناول، اردو ناول، بہترین رومانوی اردو ناول، مکمل گرم رومانوی اردو ناول، مشہور اردو ناول، رومانوی اردو ناول، رومانوی اردو ناولز ہر دور کے ناول، بہترین اردو رومانوی ناول۔ امید ہے کہ آپ کو یہ کہانی پسند آئے گی اور ناول کی کہانی کے بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ اسے ضرور پڑھیں گے۔
مصنف پی ڈی ایف فارم اور آن لائن پڑھنے کے لیے یہاں دستیاب ہے۔
مفت پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اپنی رائے دیں
جیسا کہ آپ سب اردو pk میں ناولز سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارا مقصد صرف علم کو پھیلانے کے لیے آپ کو کتابوں کا بہت بڑا مجموعہ فراہم کرنا ہے جس میں نئے اور پرانے ناولوں کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ ہماری ٹیم اس کے لیے دن رات کام کر رہی ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تمام کتابیں انٹرنیٹ کے ذریعے جمع کی جاتی ہیں۔ آج ہم آپ کو مہوش علی کا ناول دشت وہشت پیش کرنے جا رہے ہیں جو مصنف کا پی ڈی ایف ہے … صرف اپنے قارئین کے لیے۔ مہوش علی کا یہ دشت وھشت ناول پی ڈی ایف شیئرنگ اس کے چاہنے والوں کے لیے ہے۔ تاکہ وہ کتاب سے لطف اندوز ہو سکیں۔ عام طور پر یہ تمام ناول بازار سے باآسانی خریدے جا سکتے ہیں لیکن اس کی ایک قیمت ہوگی جو سب کے لیے خاص طور پر ناول کے شائقین کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ کیونکہ ناول سے محبت کرنے والوں کو بہت سی کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں تو اس صورت میں یقیناً اتنی کتاب خریدنا سستی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم مہوش علی کے ناول دشت وہشت کی پی ڈی ایف الیکٹرانک کاپی صرف اس کے چاہنے والوں یا قارئین کے لیے شیئر کر رہے ہیں۔
उपन्यास का नाम:
लेखक का नाम:
श्रेणी: रोमांटिक उपन्यास
उर्दू पीके में उपन्यास सभी सोशल मीडिया लेखकों के लिए अपने लेखन प्रकाशित करने के लिए एक यात्रा शुरू करते हैं। सभी लेखकों में आपका स्वागत है, अपनी लेखन क्षमताओं का परीक्षण करें।
वे रोमांटिक उपन्यास, जबरन विवाह, नायक पुलिस अधिकारी आधारित उर्दू उपन्यास, बहुत रोमांटिक उर्दू उपन्यास, पूर्ण रोमांटिक उर्दू उपन्यास, उर्दू उपन्यास, सर्वश्रेष्ठ रोमांटिक उर्दू उपन्यास, पूर्ण गर्म रोमांटिक उर्दू उपन्यास, प्रसिद्ध उर्दू उपन्यास, रोमांटिक उर्दू उपन्यास सूची, रोमांटिक उर्दू लिखते हैं सभी समय के उपन्यास, सर्वश्रेष्ठ उर्दू रोमांटिक उपन्यास। आशा है कि आपको यह कहानी पसंद आएगी और उपन्यास की कहानी के बारे में अधिक जानने के लिए आपको इसे अवश्य पढ़ना चाहिए।
लेखक यहां पीडीएफ फॉर्म में डाउनलोड करने और ऑनलाइन पढ़ने के लिए उपलब्ध है।
पीडीएफ को फ्री में डाउनलोड करने के लिए नीचे दिए गए लिंक पर क्लिक करें
मुफ्त डाउनलोड लिंक
डाउनलोड पर क्लिक करें
अपनी प्रतिक्रिया दें
How can a modern child instill a love for the book? Why is it so difficult for today’s children to instill the value and love of reading ? What can you do to make your baby love the world of the printed word? To begin with, let’s try to speculate about what reading gives a modern child? What is its uniqueness and difference from other sources of information? We must try to be honest. What’s the book now? A treasure trove of information? For us, who were growing up in another, “pre-Internet” era, the book was the only repository of knowledge in all possible areas. This book taught us, talking about worlds that were inaccessible, showing many examples of responding to various situations. Everything has changed. Instead of spending hours searching in dusty libraries, just watch a fascinating video. With reduced criticality, this information is conventionally perceived as something objective, as some kind of knowledge. Of course, the Internet makes it easy to familiarize yourself with other sources, but: first, certain search skills are required; secondly, you need a need for analysis, a desire to understand, form your own assessment, and not be content with plagiarizing someone else’s opinion. And what about the book? The book is structured according to different rules. Reading books is akin to meditation, it does not give ready-made pictures, it models them in our mind using symbols. Encourages co-creation by referring to our experience. In this sense, the book is less subjective, although the personality of the author stands behind it with all the delusions. But most importantly, the book adjusts to the pace of our perception, it does not pull with spectacular images. An essential plus of reading: We have the opportunity to stop, analyze, argue, agree. We have the right to pause, to think, to plunge into the problem. This is work, and a person always strives for laziness, for entertainment, for pleasure.
website for writers and readers. all contents on our website are unique and our own property. Novels are for sharing knowledge and provide guidence in real life for the readers.