Dil E Jana Part 2 Novel By Harram Shah Complete Romantic Novel - Novels In Urdu Pk

Sunday, 21 July 2024

Dil E Jana Part 2 Novel By Harram Shah Complete Romantic Novel

Dil E Jana Part 2 Novel By Harram Shah Complete Romantic Novel 

Novels In Urdu Pk

Read Complete Romantic All Novels

Dil E Jana Part 2 By Harram Shah Complete Romantic Novel 

Novel Name :Dil Jana

Writer Name: Harram Shah

Category : Complete Romantic Novel 

 

"آپ کو اس سب میں پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا سجاد۔ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور وہ لوگ اب آپ کو دھمکا رہے ہیں۔کبھی سوچا ہے آپکو کچھ ہو گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔"

اپنی ماں کی روتی ہوئی آواز پر اس گیارہ سالہ بچے کی آنکھ کھلی تھی۔

"پریشان مت ہو ثانیہ ایسے گناہگار لوگ دھمکانے کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں ان کے ڈر سے اب میں انصاف کا دامن چھوڑ دوں؟"

سجاد نے زرا سختی سے کہا تو انکی بیوی ثانیہ کے رونے میں مزید روانی آ گئی۔عبداللہ اپنی ماں کے رونے پر بے چین ہوتا اٹھ بیٹھا اور ایک نگاہ اپنی سات سالہ بہن اور ایک سالہ چھوٹے بھائی کو دیکھا جو سکون کی نیند سو رہے تھے۔

"انصاف کا ٹھیکا ہم نے ہی لیا ہے کیا سجاد۔۔۔۔بس مجھے کچھ نہیں پتہ آپ کل ہی اس کیس سے پیچھے ہٹ جائیں۔سمجھنے کی کوشش کریں بہت امیر سیاسی لوگ ہیں وہ ہمیں ان سے دشمنی مول نہیں لینی چاہیے۔"

ثانیہ نے پھر سے سجاد کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔وہ بس اپنے اس چھوٹے سے آشیانے کو بکھرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔عبداللہ اب دبے پاؤں چلتا کمرے سے باہر آیا اور دروازے کے پیچھے چھپ کر اپنے ماں باپ کو دیکھنے لگا جو رات کے ایک بجے گھر کے ہال میں بیٹھے بحث کر رہے تھے۔

"ثانیہ خدا کا خوف کرو روز قیامت ہمیں اللہ کو منہ دیکھانا ہے۔۔۔۔اس درندے نے چھے سالہ بچی پر ظلم کر کے اسے مار دیا۔جانتی ہو کتنی سی ہوتی ہے چھے سالہ بچی بالکل ہماری بیٹی کی طرح تھی وہ اور تم چاہتی ہو کہ میں ایسے درندے کے خلاف جانے کی بجائے خاموش ہو کر بیٹھ جاؤں تو کیا ہوا کہ وہ اس کے بعد کسی اور بچی کو اپنی درندگی کا نشانہ بنائے گا۔۔۔۔اور۔۔۔۔اور اگر خدا نہ کرے وہ ہماری اپنی ہی بیٹی ہوئی تو بھی مجھے خاموش رہنے کا کہو گی تم۔۔۔"

"سجاد۔۔۔۔"

سجاد کی بات پر ثانیہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں تو سجاد کو بے ساختہ ان پر رحم آیا۔وہ بس اپنے شوہر اور گھر والوں کی حفاظت ہی تو چاہتی تھیں۔

"ہمارے ہاں انصاف پہلے ہی ختم ہوتا جا رہا ہے ثانیہ صرف ایسے لوگوں کی وجہ سے جو اپنی طاقت کے گھمنڈ سے کسی کا بھی منہ بند کر دیتے ہیں اور یقین جانو اگر انصاف نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل جیسی قوم تباہ ہو سکتی ہے تو ہم لوگ کیا ہیں۔"

سجاد نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا۔

"ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو گا۔"

سجاد نے نرمی سے ثانیہ کو سمجھایا تو ثانیہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے۔سجاد میر ایک ایڈووکیٹ تھے جن کے پاس ایک بچی کا کیس آیا تھا جسے ایک سیاستدان کے بھائی نے زیادتی کا نشانہ بنا کر اسے گلا گھونٹ کر مار دیا تھا۔

بچی کا باپ انکے ہاں ڈرائیور تھا اور اپنی بچی کی ضد پر اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔اسے کیا پتہ تھا کہ وہاں اسکی بیٹی پر کیا ظلم ڈھایا جائے گا۔

انہوں نے بچی کے باپ کو خاموش رہنے کا کہا تھا لیکن وہ پھر بھی سجاد کے پاس انصاف کی امید سے آیا تھا۔سجاد نے اسکی فریاد سن کر اسکا کیس لے لیا تھا لیکن اب وہ لوگ سجاد کو دھمکا رہے تھے کہ وہ اس معاملے سے دور رہے ورنہ وہ لوگ اسکی بھی جان لے لیں گے۔مگر سجاد کو ان دھمکیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا انکی اپنی بھی ایک بیٹی تھی اور وہ اس آدمی کا درد سمجھ سکتے تھے۔

انہوں نے ایک بے بس سی نگاہ اپنی بیوی پر ڈالی جو انکی پرواہ میں ہلکان ہوتی رو رہی تھی۔

"چلو چھوڑو یہ باتیں آؤ کمرے میں چل کر سوتے ہیں۔"

سجاد نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کھڑا کیا اور کمرے کی جانب جانے لگے لیکن اچانک ہی انہیں احساس ہوا کہ جیسے ان کے گھر کی چھت پر کوئی چل رہا ہو۔

ثانیہ نے بھی ان آوازوں پر سہم کر اپنے شوہر کو دیکھا۔

"ڈرو مت بچوں کے پاس جاؤ تم میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔"

شاہد نے ثانیہ کو حکم دیا اور خود دراز میں سے اپنا ریوالور پکڑ کر چھت کی جانب چل دیے۔ثانیہ جلدی سے کمرے میں آئیں اور دروازہ بند کر لیا۔

"امی کیا ہوا ہے؟"

تب سے دروازے کے پیچھے چھپے عبداللہ نے سہم کر پوچھا تو ثانیہ نے روتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔کچھ نہیں ہوا میری جان کچھ نہیں ہوا۔"

ثانیہ نے عبداللہ کی کمر سہلاتے ہوئے کہا تبھی انہیں سجاد کے چلانے کی آواز آئی تو ماں بیٹے کا دل دہل گیا۔بہت سے لوگوں کے قدموں کی چاپ اب انہیں اپنے ہال میں سنائی دے رہی تھی۔

"عع۔۔۔عبداللہ پولیس کو فون کرو فوراً۔۔۔۔"

اپنی ماں کے حکم پر عبداللہ جلدی سے فون کی طرف بھاگا اور پولیس کو کال ملانے لگا۔اب وہ لوگ انکے کمرے کا دروازا توڑنے لگے تھے۔

ثانیہ سہم کر اپنے بچوں کے پاس آئیں اور اپنے ایک سالہ بیٹے کو باہوں میں اٹھا کر یہاں وہاں دیکھنے لگیں۔انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔اس سب شور و غل سے انکی بیٹی بھی اٹھ بیٹھی تھی اور اب سہم کر اپنی ماں سے لپٹ رہی تھی۔

پولیس والوں کے فون اٹھاتے ہی عبداللہ نے انہیں بتایا کہ انکے گھر میں کوئی گھس آیا ہے اور انہیں اپنے گھر کا پتہ بتانے لگا۔تبھی ایک دھماکے سے انکے کمرے کا دروازا ٹوٹ گیا اور تین سے چار آدمی کمرے میں داخل ہوئے۔

ایک نے عبداللہ کے ہاتھ سے فون چھینا اور اسے بالوں سے پکڑ کر کمرے سے باہر لے جانے لگا جبکہ دوسرے نے ثانیہ سے انکے بیٹے اور بیٹی کو چھینا اور تیسرا ثانیہ کو زبردستی گھسیٹتا کمرے سے باہر لے آیا۔

ہال میں پہنچ کر اس آدمی نے ثانیہ کو ایک چالیس سالہ آدمی کے پیروں میں پھینکا جبکہ سجاد زخموں سے چور پہلے ہی اس آدمی کے پیروں میں پڑے تھے۔

"دیکھا وکیل کیا انجام نکلا میرے خلاف جانے کا بولا تھا تجھے کہ اس معاملے سے دور رہ لیکن تو نہیں مانا اب دیکھ تیری وجہ سے کیا حال ہے تیرے بیوی بچوں کا۔۔۔۔"

اس آدمی نے سجاد کے منہ پر اپنا جوتا مار کر کہا تو ثانیہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں اور اپنے ہاتھ اس آدمی کے سامنے جوڑ دیے۔

"اللہ کے واسطے ہمیں معاف کر دیں۔۔۔۔ہم دور ہو جائیں گے اس معاملے سے چلے جائیں گے یہاں سے بہت دور۔۔۔۔بس اللہ کے واسطے ہمیں چھوڑ دیں۔۔۔۔"

ثانیہ کے گڑگڑانے پر وہ آدمی قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

"کاش یہ سب پہلے کیا ہوتا تو مجھے خود محنت کر کے یہاں نہ آنا پڑتا لیکن کیا ہے ناں اب تیرے شوہر نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے تو میں بھی اس کے پورے خاندان کو میرے خلاف کھڑے ہونے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دوں گا۔۔۔"

اس آدمی نے اتنا کہہ کر سجاد کو بالوں سے پکڑا اور ہاتھ میں پکڑا ریوالور انکے ماتھے پر رکھ دیا۔

"ابو۔۔۔۔نہیں چھوڑو میرے ابو کو ۔۔۔۔۔"

عبداللہ نے ایک آدمی پکڑ میں مچلتے ہوئے کہا تو اس چالیس سالہ آدمی نے ہنس کو عبداللہ کو دیکھا۔کمرے میں اب ایک سالہ بچے کے رونے کی آواز گونج رہی تھی جو ماں سے جدا ہو کر زارو قطار روئے جا رہا تھا۔

"پہلے اسے چپ کرواتے ہیں۔۔۔۔"

اس آدمی نے دانت پیس کر کہا تو اسکے آدمی نے بچے کو فرش پر بیٹھا دیا۔وہ بچہ بمشکل اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور اس نے اپنی ماں کے پاس آنا چاہا لیکن تبھی اسکا چھوٹا سا وجود ایک گولی کا نشانہ بنا تھا۔

"آہہہہہ۔۔۔۔۔"

ثانیہ کی دلخراش چیخ اپنے گھر میں گونجی تھی۔وہ روتے ہوئے بھاگ کر اپنے بچے کے پاس آئی جس کے ننھے سے وجود میں سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا اور وہ وہیں دم توڑ چکا تھا۔

اس آدمی نے سجاد کو بالوں سے پکڑا جو زخموں سے چور نیم بے ہوش حالت میں تھے اور ان کا رخ ثانیہ کی جانب کیا۔

"دیکھ اپنی ہٹ دھرمی کی سزا ۔۔۔۔"

ثانیہ کو یوں تڑپ تڑپ کر روتا دیکھ سجاد زرا ہوش میں آئے لیکن جب انہوں نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کی حالت دیکھی تو دل میں اٹھنے والے درد پر بلبلا اٹھے۔

"ابھی دیکھ تجھے دوسری سزا بھی دیتا ہوں۔۔۔"

اس سفاک درندے نے اب بندوق کا رخ ثانیہ کی جانب کیا اور گولی چلا دی۔ایک چیخ سجاد کے ہونٹوں سے نکلی اور انہوں نے اس آدمی پر حملہ کرنے کی کمزور سی کوشش کی مگر اس نے ہنستے ہوئے ایک گولی سجاد کے سینے میں بھی اتار دی۔

ایک دھماکے سے سجاد کا وجود زمین بوس ہوا تھا۔پل بھر میں کمرہ تین لاشوں سے بھر گیا تھا۔اب اس درندے نے ایک نگاہ اس سات سالہ بچی پر ڈالی جو شائید صدمے اور خوف سے بے ہوش ہو چکی تھی جبکہ گیارہ سالہ بچہ آدمی کی گرفت میں جھٹپٹا رہا تھا جیسے آزاد ہو کر اپنے ماں باپ کے پاس جانا چاہ رہا ہو۔

"گردن کاٹ دو ان دونوں کی اور گھر کا دروازا کھلا رہنے دینا تا کہ لوگ یہاں آ کر انکا انجام دیکھیں تو جان جائیں کہ رانا زبیر مرزا کے خلاف جانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔"

اتنا کہہ کر رانا زبیر نامی وہ درندہ وہاں سے چلا گیا اور ایک آدمی نے دوسرے کو اشارہ کیا جس نے اس بے ہوش ہوئی بچی کے گلے پر ایک چاقو رکھا اور پوری طاقت سے چلا کر اس بچی کا تڑپتا وجود زمین پر پھینک دیا۔

اس کے بعد وہ آدمی عبداللہ نے پاس آیا اور بالوں سے پکڑ کر اسکا سر اوپر کیا لیکن عبداللہ کی آنسوؤں سے تر لال آنکھوں میں جو آگ تھی وہ دیکھ کر اس آدمی کا دل دہل گیا۔

"میں سب کو مار دوں گا ۔۔۔۔دیکھنا ایک ایک کو مار دوں گا۔۔۔"

عبداللہ نے انتہائی نفرت اور غصے سے کہا تو اس آدمی نے اسکی گردن پر بھی وہ چاقو رکھا اور اس چاقو کو چلا دیا۔اسکی بہن کی طرح عبداللہ کے تڑپتے ہوئے وجود کو زمین پر پھینک کر وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔

لاشوں سے بھرا وہ گھر اب ایک گھر نہیں رہا تھا بلکہ ایک انسان کے سب سے بڑے وحشی درندے ہونے کا گواہ بن گیا تھا۔

           🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

اس بچے نے اپنی سیاہ آنکھیں کھولیں تو پہلی نگاہ سفید رنگ کی چھت پر پڑی۔پہلے پہل تو اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کون ہے یا وہ کہاں ہے پھر اسے اپنے گلے میں اٹھنے والی تکلیف کا احساس ہوا تو آنکھوں کے سامنے کر منظر فلم کی طرح چلنے لگا۔

کچھ لوگوں کا انکے گھر میں آنا اسکے بہن بھائیوں اور اسکے ماں باپ کو مارنا۔وہ سفاک درندہ جس نے وہ سب کیا۔

رانا زبیر مرزا ۔۔۔۔"

اس بچے نے خاموش لبوں سے پکارا تبھی اسکا دھیان سفید کوٹ پہنے ایک آدمی پر گیا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

"نئی زندگی مبارک ہو عبداللہ میر ہم نے تو امید ہی کھو دی تھی لیکن خدا نے تمہیں نئی زندگی دی۔"

اس شفیق ڈاکٹر نے عبداللہ نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔عبداللہ اس سے اپنے گھر والوں کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا لیکن اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔اگر وہ بولنے کی کوشش کرتا تو تکلیف کے علاؤہ کچھ محسوس نہ ہوتا۔

"نہیں بیٹا بولو مت تمہارے گلے کے ٹشوز کو بڑی مشکل سے جوڑا ہے خود کو تکلیف مت دو۔۔۔۔"

ڈاکٹر نے نرمی سے اسے سمجھایا۔

"فکر مت کرو ان شاءاللہ تم جلد ہی بولنے لگو گے لیکن ابھی تمہیں آرام کرنا ہے۔"

عبداللہ نے انکار میں سر ہلایا۔اسے آرام نہیں کرنا تھا اسے اپنے ماں باپ کو دیکھنا تھا اپنے بہن بھائی کو دیکھنا تھا کیا وہ ٹھیک تو تھے

"اا۔۔۔۔اماں۔۔۔۔"

عبداللہ سے بمشکل اتنا ہی بولا گیا تھا اور اتنا بولنے میں ہی اسے بے تحاشا تکلیف ہوئی تھی۔جبکہ اسکی بات پر ڈاکٹر کے چہرے کی مسکان غائب ہوئی تھی۔

"سو جاؤ بیٹا۔۔۔"

ڈاکٹر نے اتنا کہہ کر وہاں سے جانا چاہا لیکن عبداللہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔اسے سونا نہیں تھا اسے اسکے ماں باپ چاہیے تھے۔

"اااا۔۔۔۔۔اماں۔۔۔۔"

اس نے پھر سے کوشش کی تو ڈاکٹر نے رحم سے اس بچے کو دیکھا۔

"تمہارے ماں باپ کو ہم نہیں بچا سکے عبداللہ نہ ہی تمہارے بہن بھائی کو جب تک پولیس انہیں ہسپتال لائی سب ہی دم توڑ چکے تھے بس تم زندہ تھے۔"

ڈاکٹر کی بات پر عبداللہ نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔دو آنسو ٹوٹ کر آنکھوں سے گرے تھے۔

"معاف کرنا بیٹا لیکن ہم کچھ نہیں کر سکے۔"

ڈاکٹر اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور عبداللہ سسک سسک کر رونے لگا۔رونا اسکے گلے کو تکلیف دے رہا تھا لیکن وہ تکلیف اسکے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی جو اپنے ہر رشتے کی موت دیکھ کر اسکے دل میں اٹھ رہی تھی۔

وہ بچہ کتنی ہی دیر بے بسی سے اس بیڈ پر لیٹا آنسو بہاتا رہا تھا لیکن ہر بہتا آنسو اسے مظبوط کرتا جا رہا تھا۔اسے اپنی زندگی خدا کا ایک تحفہ لگنے لگی تھی جس کا ایک ہی مقصد تھا۔رانا زبیر مرزا کی تباہی۔

             🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

عبداللہ کی آنکھ اپنے پاس ہونے والی سرگوشی پر کھلی تھی۔کوئی کافی پریشانی کے عالم میں کسی کو کچھ کہہ رہا تھا۔اسے ہسپتال میں داخل ہوئے تقریباً دو ہفتے ہو چکے تھے۔وہ اب بہتر تو تھا لیکن مکمل طور پر ٹھیک نہیں تھا۔

"سمجھنے کی کوشش کرو اسے فوراً یہاں سے لے جانا ہو گا اسکے دشمنوں کو خبر ہو گئی ہے کہ یہ یہاں ہے اور زندہ ہے بہت جلد وہ اسے مارنے یہاں پہنچتے ہوں گے۔"

یہ عبداللہ کے ڈاکٹر کی آواز تھی۔عبداللہ نے سنجیدگی سے ڈاکٹر کو دیکھا جو اپنے جونئیر سے یہ بات کہہ رہا تھا۔

"لیکن سر ہم اسے لے کے کہاں جا سکتے ہیں۔جیسے لوگوں سے اسکی دشمنی ہے اسے پناہ دینے کا مطلب موت کو گلے لگانا ہو گا تو کون رکھے گا اسے اپنے پاس؟"

ٹیکنیشن نے پریشانی سے پوچھا تو ڈاکٹر اپنا ماتھا سہلانے لگا پھر جیسے اسکے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا۔

"ایک جگہ ہے جہاں یہ لوگ تو کیا انکا سایہ بھی نہیں پہنچ سکے گا۔"

ڈاکٹر کی بات پر ٹیکنیشن حیران ہوا۔

"بہت عرصہ پہلے میری سکردو پوسٹنگ ہوئی تھی وہاں کچھ لوگ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔کسی قبائلی علاقے کے لوگ تھے ان کے سردار کو گولی لگی تھی اور وہ اسکا علاج کروانا چاہتے تھے۔"

ٹیکنیشن کے ماتھے پر بل آئے۔

"کیا کسی گاؤں کا سردار اس بچے کی حفاظت کر لے گا؟"

"وہ کوئی عام سردار نہیں تھا اسکے آدمیوں کے پاس بہت سے ہتھیار تھے اور وہ لوگ اپنے گاؤں کا علیحدہ ہی قانون بنا کر بیٹھے تھے یہ بچہ انکے پاس محفوظ رہے گا۔"

ڈاکٹر نے رحم سے عبداللہ کی جانب دیکھا جو اب اپنی آنکھیں موند چکا تھا لیکن انکی ہر بات سن رہا تھا۔

"لیکن وہ اسے اپنے پاس کیوں رکھیں گے سر؟"

"کیونکہ گاؤں کے سردار نے مجھے کہا تھا کہ میں نے اسکی مدد کی ہے تو بدلے میں میں جو چاہوں وہ کرے گا یوں سمجھ لو وہ میرے احسان کا بدلہ چکانے کے لیے کچھ بھی کرے گا۔"

اب کی بار ٹیکنیشن نے اثبات میں سر ہلایا۔

"آپ مجھے پتہ بتائیں میں ابھی اسی وقت اس بچے کو وہاں لے جاتا ہوں سر اب اسکا ایک پل بھی یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔"

ٹیکنیشن نے پریشانی سے کہا۔اس بچے کے دشمن اسکے سب گھر والوں کو تو انتہائی سفاکی سے مار چکے تھے اب وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ بچہ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

"تو ٹھیک ہے اسے کوہ قراقرم لے جاؤں جہاں پہاڑوں کے دامن میں چھوٹا سا گاؤں ہے وہاں کے سردار یعقوب خان کے سامنے میرا ذکر کرنا اور کہنا میں نے اپنے احسان کا بدلہ مانگا ہے۔"

ٹیکنیشن نے اثبات میں سر ہلایا تو ڈاکٹر نے اسے مکمل پتہ لکھ کر دیا۔وہ پتہ اپنی جیب میں ڈال کر ٹیکنیشن عبداللہ کے پاس آیا اور اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔ڈاکٹر نے ایک چادر سے عبداللہ کو چھپایا اور ٹیکنیشن کی جانب دیکھا۔

"اسکی حفاظت کرنا اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔"

ٹیکنیشن اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔اب اسے بس اس بچے کو وہاں پہنچانا تھا جہاں وہ اپنے دشمنوں سے محفوظ ہوتا۔قراقرم کے وہ پہاڑ اب اس بچے کی منزل تھے۔

            🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ٹیکنیشن عبداللہ کو با حفاظت یعقوب خان کے پاس چھوڑ گیا تھا اور انہیں ڈاکٹر کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ عبداللہ کے بارے میں ہر بات بھی بتائی تھی کہ چھوٹی سی عمر میں اس بچے پر کیا کیا بیت گیا تھا۔

یعقوب خان نے نہ تو عبداللہ سے کچھ کہا تھا اور نہ ہی کچھ پوچھا تھا بس چپ چاپ اپنے گھر میں رکھ لیا جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔عبداللہ کا علاج چلتا رہا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کافی بہتر بھی ہو گیا تھا لیکن نہ تو وہ کسی سے کوئی بات کرتا تھا نہ ہی کبھی عام بچوں کی طرح کھیلتا تھا بس بت بنا ایک جگہ بیٹھا رہتا۔ 

اسے یعقوب خان کے پاس رہتے ایک سال سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا اور وہ مکمل طور پر ٹھیک ہو گیا تھا لیکن پھر بھی اس کے منہ سے کسی نے کبھی ایک لفظ بھی نہیں سنا تھا۔

آج یعقوب خان اسے اپنے ساتھ اپنے آدمیوں کے پاس لے کر آیا تھا جہاں وہ اپنے معمولات طے کرتے تھے۔یعقوب سب سے باتوں میں مصروف تھا جب اچانک اسکا دھیان عبداللہ پر گیا جو اسکی ریوالور ہاتھ میں تھامے غور سے دیکھ رہا تھا۔

یعقوب اپنے آدمیوں سے دور ہٹا اور عبداللہ کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

"اچھا ہے ناں یہ ایک ایسا ہتھیار جو کمزور کو بھی طاقتور بنا دے۔"

یعقوب نے اپنے مخصوص پختون لہجے میں کہا۔

"جانتا ہوں میں تمہارے ساتھ کیا ہوا بچہ یہ بھی جانتا ہے کہ تمہارا باپ وکیل تھا یہ بھی جانتا ہے کہ تم نے پولیس کو بلایا تھا اور پولیس بلائے جانے کے ایک گھنٹہ بعد وہاں پر آیا اور یہ بھی جانتا ہے کہ تم سب کا چیخیں پورے محلے میں گونجنے کے باوجود کوئی تمہاری مدد کو نہیں آیا۔۔۔۔"

یعقوب بولتا جا رہا تھا اور عبداللہ بس وہ بندوق دیکھنے میں مصروف تھا۔

"لیکن شائید تم یہ نہیں کہ پولیس جان بوجھ کر دیر سے آیا تھا کیونکہ ان کو پیسے کھلا کر وہاں دیر سے آنے کا کہا گیا تھا۔"

اب کی بار عبداللہ نے بندوق سے دھیان ہٹا کر یعقوب کو دیکھا تھا۔

"لوگ تم سب کی چیخیں سن کر مدد کرنے کی بجائے چھپ کر اپنے گھر میں بیٹھ گیا تھا تا کہ ان کو کچھ نہ ہو۔"

عبداللہ کی پکڑ اس بندوق کے گرد مظبوط ہوئی تھی۔

"اس دنیا میں کوئی قابل رحم نہیں ہے بچہ کوئی بھی معصوم نہیں ہر انسان مطلب پرست ہوتا ہے جہاں بات اپنے نقصان کی ہو وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔"

یعقوب سنجیدگی سے کہتا ننھے ذہن میں زہر گھولنے لگا۔

"اپنے باپ کو دیکھو کسی کی مدد کے لیے نکلا تھا لیکن کوئی بھی اسکی مدد کے لیے نہیں آیا اس سے جانتے ہو کیا سبق ملتا ہے؟یہاں کوئی بھی مدد اور رحم کے قابل نہیں کیونکہ جب مصیبت تم پر آتا ہے تو کوئی بھی تمہاری مدد کو نہیں آتا۔۔۔۔کسی کو تم پر رحم نہیں آتا۔۔۔۔"

چھوٹی چھوٹی مٹھیوں نے وہ بندوق اپنے ہاتھ میں زور سے کس لی تھی۔

"اس لیے اب تم بھی کسی پر رحم نہ کھانا کسی کا خیال نہ کرنا۔۔۔۔طاقت ور بننا تم اور نہ صرف اپنے دشمن کا سر دھڑ سے الگ کر دینا بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی ایک دہشت بننا جو مطلب پرست ہیں جو کسی کی چیخ و پکار سن کر بھی اسکی مدد نہیں کر سکتا۔۔۔"

یعقوب نے نفرت سے کہا۔

"جانتا ہے تم میں پاکستان کا نہیں افغانستا۔۔۔ن کا ہے جنگ کے وقت یہاں آیا تھا کیونکہ ہم سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستانی ہمارا مدد کرے گا لیکن جانتا ہے تم میرا بیوی کو دو پولیس والے جھوٹے چوری کے الزام میں جیل میں لے گیا۔۔۔۔اور وہاں اس کے ساتھ۔۔۔۔"

یعقوب نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔

"وہاں سے آ کر اس نے اپنا جان لے لیا۔اس دن میں نے سیکھا کہ یہاں اچھا کوئی نہیں سب کہیں نہ کہیں برا ہے اس لیے رحم کے قابل کوئی بھی نہیں۔۔۔۔"

عبداللہ نے ایک نظر یعقوب کی جانب دیکھا۔

"میں اس گاؤں میں آ کر رہنے لگا یہاں کا عورت سے شادی کیا اور لوگوں کی نظر میں ایک عام پاکستانی بن گیا۔۔۔۔"

یعقوب ایک پل کو رکا اور پھر مسکرا دیا۔

"یہاں موجود ہر آدمی یہاں کے نظام یا لوگوں کا ستایا ہے۔لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور نظام نے انہیں انصاف نہیں دیا۔"

یعقوب نے اپنا ہاتھ عبداللہ کے چھوٹے سے کندھے پر رکھا۔

"اور جب کسی ملک کا نظام انصاف نہ کرے تو ہم جیسے لوگوں پر فرض ہوتا ہے انصاف کرنا ایسے بد عنوان قانون اور لوگوں کو جہنم واصل کرنا۔۔۔"

یعقوب کے لہجے میں بہت زیادہ نفرت تھی اور وہی نفرت وہ اس ننھے ذہن میں گاڑھ چکا تھا۔

"ایک بات یاد رکھنا بچہ محبت اور رحم انسان کا کمزوری ہوتا ہے اب ان دونوں کو خود پر حاوی مت ہونے دینا ایک ظالم درندے بن جانا جسے لوگ بس دہشت سمجھیں ۔۔ "

یعقوب نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔

"اپنی جو پہچان تھا بھول جاؤ اب سے تم وہ نہیں جو پہلے تھا اب تم ویرہ بنے گا ویرہ۔۔۔"

عبداللہ نے ناسمجھی سے یعقوب کو دیکھا۔

"ویرہ دہشت کو کہتے ہیں اور اب سے یہی تمہارا نام،تمہاری پہچان ہو گا ایسی پہچان جس کے ذکر پر ہی لوگ خوف سے کانپ جائیں۔۔۔۔"

یعقوب نے ایک اور بندوق اپنی کمر کے پاس سے نکالی اور آسمان کی جانب کر کے گولی چلا دی۔گولی کی آواز پر عبداللہ ایک پل کو سہما لیکن پھر اس نے بھی ہاتھ میں پکڑی بندوق آسمان کی طرف کی اور گولی چلا دی۔

"ویرہ۔۔۔۔

عبداللہ نے ایک سال میں پہلی بار کچھ کہا تو یعقوب مسکرا دیا۔وہ اس عبداللہ کو ویرہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

          🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

رانا زبیر اپنی خواب گاہ میں چین کی نیند سو رہا تھا جب اسے یہ احساس ہوا کہ اسکے قریب کوئی ہے۔اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک چودہ سالہ بچے کو اپنے قریب پایا جو اسکے پاس بندوق تھامے بیڈ کے پاس کھڑا تھا۔

زبیر سہم کر اٹھ بیٹھا اور اس بچے کو دیکھنے لگا جس نے انتہائی سفاکی سے بندوق اسکی جانب کی تھی۔

"کک۔۔۔۔کون ہے تو۔۔۔؟"

"ویرہ۔۔۔۔"

بچے نے عام سا جواب دیا۔

"ککک۔۔۔کون ویرہ۔۔۔۔؟"

اسکی بات پر بچے کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی اور اس نے بندوق کا رخ اسکی ٹانگ کی جانب کیا اور گولی چلا دی۔

"آہہہہہ۔۔۔۔"

زبیر کی چیخ اپنے گھر میں گونجی تھی۔

"یاد آیا یا دلاؤں۔۔۔۔ایڈوکیٹ سجاد میر جس کے گھر میں گھس کر تو نے سب کو مار ڈالا تھا کچھ یاد آیا۔۔۔۔"

ویرہ نے اب بندوق اسکی دوسری ٹانگ کی جانب کی جبکہ وہ کراہتے ہوئے اس سے دور ہونے کی کوشش کر چکا تھا۔

"میں اسی سجاد میر کا بیٹا ہوں رانا زبیر"

اتنا کہہ کر ویرہ نے اسکی دوسری ٹانگ پر بھی گولی مار دی۔اب وہ شخص بیڈ سے نیچے زمین پر گرا تھا بے ہوش ہوتا وجود تکلیف دہ جھٹکوں سے کانپنے لگا تھا۔

"بولا تھا ناں تجھے کہ میں ہی تجھے تیرے انجام تک پہنچاؤں گا۔۔۔۔دیکھ لے آج تیرا یہ طاقت کا غرور مٹی میں ملاؤں گا۔۔۔"

ویرہ آگے بڑھا اور بندوق اسکے سینے پر رکھی۔

"نن۔۔۔نہیں مجھے۔۔۔۔"

اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ویرہ اسکے سینے میں گولی مار چکا تھا۔آج اس نے انتقام کی پہلی سیڑھی چڑھی تھی چودہ سال کی عمر میں پہلی بار کسی کی جان لے کر وہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کا انتقام لے چکا تھا۔ کمرے کے باہر کھڑا یعقوب خان اسکے پاس آیا اور مسکرا دیا۔

"بدلہ بہت بہت مبارک ہو ویرہ۔۔۔۔اب دیکھنا تیرے ساتھ ظلم کرنے والے ہر شخص کا یہی انجام کریں گے ہم۔"

یعقوب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

"شکریہ بابا۔۔۔"

ویرہ نے اتنا کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔پچھلے تین سالوں میں یعقوب خان اسکا جتنا برین واش کر سکتا تھا اس نے کیا تھا۔اس کے کچھے ذہن میں وہ نفرت کی دیواریں کھڑی کر کے اسے ایک سفاک درندہ بنا چکا تھا جس کے دل میں کسی انسان کے لیے رحم یا محبت باقی نہیں رہی تھی۔اگر کچھ بچا تھا تو صرف اور صرف نفرت۔

اپنے ماں باپ کے ہر ایک قاتل سے انتقام لے کر وہ قراقرم کی وادی میں واپس آیا تھا جہاں ایک عام سے گاؤں کی آڑ میں وہ دہشت گرد چھپے بیٹھے تھے جو آئے روز کبھی دھماکے تو کبھی ٹارگٹ کلنگ کر کے لوگوں کا سکون برباد کیے ہوئے تھے اور المیہ تو یہ تھا کہ ویرہ کو وہ ظلم کرنے والے درست لگنے لگے تھے اور باقی ساری دنیا غلط۔

صرف اس وجہ سے کہ جب اس پر ظلم ہوا تھا تو کوئی انکی مدد کو نہیں آیا تھا۔اس وجہ سے اسے پر انسان سے نفرت ہو گئی تھی سوائے یعقوب خان کے جس نے اسکا انتقام لینے میں اسکی مدد کی تھی۔

واپس آنے پر یعقوب خان کو یہ خبر ملی کہ وہ باپ بنے والا ہے تو وہ خوشی سے ہواؤں میں گھومنے لگا۔آخر کار شادی کے پانچ سالوں بعد اسکے ہاں یہ امید آئی تھی۔وہ خوشی خوشی سب سے یہی کہہ رہا تھا کہ اسکے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جسے وہ سب سے بڑی دہشت بنائے گا لیکن نو ماہ کے بعد اسکے ہاں ننھی سی پری کی پیدائش ہوئی تھی۔

یعقوب خان نے تو اس پری کی جانب دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔ویرہ پھر بھی اس بچی کو دیکھنے گیا تھا جو چھوٹی سی موم کی گڑیا ہی تھی بڑی بڑی سنہری آنکھیں گوری رنگت اور گلابی گال اس گڑیا کو بہت پیارا بنا رہے تھے۔

"پیاری ہے ناں یہ ویرہ؟"

یعقوب خان کی بیوی الماس خان نے بہت امید سے پوچھا۔سچ تو یہ تھا کہ بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے یعقوب خان کا سلوک انکے دل کو چھلنی کر گیا تھا۔ویرہ نے بس جواب میں اثبات میں سر ہلایا تھا۔

"میں اسکا نام  مرجان رکھوں گی اسکا مطلب موتی ہوتا ہے یہ بھی تو میرے لیے موتی ہے۔"

الماس نے اس چھوٹی سی جان کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا تو ویرہ نے پھر سے ہاں میں سر ہلا دیا۔تبھی یعقوب وہاں پر آیا اور اس نے گہری نگاہوں سے چھوٹی سی مرجان کر ویرہ کی باہوں میں دیکھا تھا۔

"اسے اسکی ماں کو دے ویرہ اور میرے ساتھ چل۔"

ویرہ نے اثبات میں سر ہلا کر مرجان کو الماس کے ساتھ لیٹا دیا اور خود یعقوب کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا۔

"عورتیں بہت بڑی کمزوری ہوتی ہیں ویرہ انہیں سر نہیں چڑھاتے ورنہ آدمی کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں آئندہ تو الماس کی کوئی بات نہ سننا اسے اسکی اوقات پر رکھ تاکہ اسے احساس ہو کہ مجھے بیٹا نہ دے کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔"

ویرہ اس سے کہنا چاہتا تھا کہ بیٹی پیدا ہونا انکا قصور نہیں تھا یہ تو اللہ کی دین تھی لیکن پھر بھی اس نے ہاں میں سر ہلا دیا کیونکہ ویرہ کے لیے یعقوب خان ہمیشہ ٹھیک ہی ہوتا تھا۔

ویسے بھی ان کے قبیلے میں عورت کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی وہ بس ضروت کا سامان سمجھی جاتی تھی جسکا کام بس آدمی کا گھر سنبھالنا اور اسکے بچے پیدا کرنا تھا اور اسی سوچ کا مالک یعقوب خان ویرہ کو بھی بنا رہا تھا کیونکہ وہ ویرہ کو ہی تو اپنا بیٹا مانتا تھا اپنا جانشین۔۔۔۔

مرجان کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی خدا نے یعقوب خان کو ایک بیٹا عطا کیا تھا جسکی خوشی میں وہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔اس نے بچے کا نام دلاور رکھا اور اپنی ساری محبت اور توجہ اسی پر مرکوز رکھتا لیکن یہ خوشی اس بچے کے تھوڑا بڑے ہوتے ہی ماند پڑھ گئی۔


جب ایک دن دلاور کھیلتے ہوئے بے ہوش ہو گیا اور اسے ہسپتال لے جانے پر پتہ چلا کہ اسکے دل میں سوراخ ہے جس کی وجہ سے وہ مشقت والا کام نہیں کر سکتا ورنہ وہ زندہ نہیں رہے گا۔


اسی دن یعقوب کا اپنے بیٹے کو اپنے جیسا سفاک بنانے کا ہر خواب چکنا چور ہوا تھا اور جو بے رخی وہ مرجان کو دیکھاتا تھا دلاور بھی باپ کی اسی بے رخی کا شکار ہونے لگا۔


دلاور دو سال کا ہوا تو خدا نے پھر سے یعقوب کو اولاد کی امید دی۔اب وہ بس امید ہی کر سکتا تھا کہ اسے ایک تندرست بیٹا نصیب ہو لیکن تیسری اولاد کو بیٹی کے روپ میں دیکھ کر یعقوب خان ہار گیا تھا۔


شائید اسکے نصیب میں ہی نہیں تھا کہ اسکا بیٹا اسکا جانشین بن سکے۔یعقوب اس بات پر افسردہ تھا اور اپنا سارا غصہ وہ الماس پر نکال چکا تھا جو ڈری سہمی پانچ سالہ مرجان اور چار سالہ دلاور کو سینے سے لگائے بس آنسو بہاتی جا رہی تھی جبکہ چند دن پہلے پیدا ہوئی چھوٹی سی گل اپنے باپ کی نفرت سے بے خبر سو رہی تھی۔


الماس کا دل اپنے الفاظ سے چھلنی کر کے وہ غصے کے عالم میں اپنے باقی آدمیوں کے درمیان آیا۔


"کیا ہوا سردار اتنا غصے میں کیوں ہے؟"


اسکے سب سے خاص دوست نے پوچھا۔


"غصہ نہ کروں تو کیا کروں ماڑا تین بچے دیے اس عورت نے مجھے جس میں سے دو تو بیٹیاں ہیں اور جو بیٹا دیا وہ بھی بے کار۔۔۔۔مجھے کچھ ہو گیا تو کون سنبھالے گا یہ سارے معاملات۔۔۔"


یعقوب نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا۔


"جانتا ہے تم نفرت ہے مجھے اس ملک سے اس قوم سے یہاں کی فوج،حکومت یہاں کے ہر باشندے سے۔۔۔اور چاہتا ہوں کہ یہ سب ہماری وجہ سے کبھی سکون میں نہ رہیں لیکن۔۔۔لیکن مجھے میری جیسی اولاد ہی نہیں ملی جو میرا ساتھ نبھا سکے۔"


یعقوب نے ہاتھ غصے سے اس چارپائی پر مار کر کہا جس پر وہ بیٹھا تھا۔


"بس اتنی سی بات۔۔۔اور تمہارے اس بیٹے کا کیا جو چاہے تمہارا خون نہیں لیکن زندہ صرف تمہاری وجہ سے ہے۔۔۔۔"


یعقوب کی آنکھوں میں اس بات پر حیرت اتری تو اسکے دوست نے بیس سالہ ویرہ کی جانب اشارہ کیا جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا طاقت اور دہشت کی مثال لگتا تھا۔


سینے پر ہاتھ باندھے وہ مردہ آنکھوں سے دو لڑکوں کو دیکھ رہا تھا جو ہاتھ میں بندوقیں پکڑے نشانہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ایک بار بھی انکا نشانہ دور پڑی بوتل کو نہیں لگا تھا۔


"اپنے ماں باپ کا انتقام لینے کے بعد سے اس نے کچھ نہیں کیا بس ایک زندہ لاش ہے وہ جس کے چہرے پر غصہ،غم،خوشی جیسا کوئی جذبہ نہیں دیکھا وہ ایک کورا کاغذ ہے سردار جس پر جو لکھ دو گے وہ ہمیشہ کے لیے اس پر چھپ جائے گا۔"


اب کی بار یعقوب کے ماتھے پر بل آئے تھے۔


"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟"


"ویرہ تمہاری وہ اولاد ہو سکتا ہے یعقوب جو تمہیں چاہیے،اپنے نام جیسی دہشت ہو سکتا ہے وہ۔تم اس کے غم اور غصے کا فایدہ اٹھا کر اس میں بس نفرت بھر دو پھر دیکھنا اس نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا وہ۔۔۔۔"


اس بات پر یعقوب نے پھر سے ویرہ کی جانب دیکھا جو اب ایک لڑکے کے ہاتھ سے بندوق اپنے ہاتھ میں پکڑ چکا تھا اور پھر اس نے نشانہ بنایا اور گولی چلا دی جو عین بوتل کے وسط میں لگی۔


یہ دیکھ کر یعقوب کی آنکھوں میں ایک چمک اور ہونٹوں پر ایک مسکان آئی۔اسکا دوست ٹھیک کہہ رہا تھا۔ویرہ ہی اسکی وہ اولاد ہو سکتا تھا جسکا خواب یعقوب نے دیکھا تھا۔


وہ سچ میں ایک کورا کاغذ ہی تھا جسے یعقوب اپنے انداز میں ڈھال کر صرف ایک دہشت بنانا چاہتا تھا ایک ایسا آدمی جسے نفرت کے سوا کچھ کرنا ہی نہ آتا ہو۔


"سردار آپ کے حکم کے مطابق ہم اس فوجی کو پکڑ لائے ہیں جس نے پچھلے دنوں ہمارے مجاہد کو شہید کیا تھا۔"


ایک آدمی نے آ کر یعقوب کو بتایا تو اسکی آنکھوں میں وحشت اتری تھی۔


"اب اس فوجی کو اندازہ ہو گا کہ اس نے کتنا بڑا گناہ کیا ہے۔جیسے اس نے ہمارے مجاہد کی جان لی اب ہم اسکی لاش اسکے گھر والوں تک پہنچائیں گے۔"


یعقوب کی بات پر پاس بیٹھے آدمیوں نے اثبات میں سر ہلایا۔


"تم دونوں چلو میں آتا ہوں۔"


وہ دونوں فوراً اٹھ کر وہاں سے چلے گئے اور یعقوب ویرہ کے پاس آیا جو یکے بعد دیگرے سامنے پڑی بوتلوں کو بغیر چکے اپنی گولی کا نشانہ بنا رہا تھا۔یعقوب اسکے اعلیٰ نشانے پر رشک کیے بغیر نہ رہ سکا۔


"ویرہ میرے شیر۔۔۔۔"


یعقوب نے ویرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ویرہ نے بس ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے بوتل کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔


"جانتے ہو پچھلے دنوں فوج کے ایک کیپٹن نے ہمارے مجاہد کو شہید کیا اور اس بات پر کتنے ہی تمغے اور تعریف حاصل کی۔حالانکہ ہمارا وہ مجاہد کیا کرنے گیا تھا اس ملک میں رہنے والے کافروں کو انکے گرجے سمیت نیست و نابود کرنے۔"


یعقوب نے گہرا سانس لیا۔


"لیکن دیکھو خود کو انصاف کے حامی کہنے والے یہ لوگ کافروں کو پناہ دے کر اپنے مسلمان بھائی کی جان لینا پسند کرتے ہیں۔"


یعقوب نے ویرہ کی جانب دیکھا جو ابھی بھی اپنے دھیان مگن نشانہ لگانے میں مصروف تھا۔


"تمہیں نہیں لگتا ایسے لوگ سزا کے حقدار ہیں جو صحیح اور غلط کی پہچان ہی نہیں کر سکتے۔۔۔۔ایسے لوگ جو گناہ گار کو بچاتے ہیں اور اس گناہ گار کو انجام تک پہنچانے کی چاہ رکھنے والے کی جان لے لیتے ہیں۔۔۔۔"


گولی چلنے کی آواز فضا میں گونجی اور ساتھ ہی بوتل چھناکے سے ٹوٹ گئی۔


"تمہیں لگتا ہو گا کہ اب تمہاری زندگی کا کوئی مقصد نہیں تو اپنی زندگی میں مقصد پیدا کرو ویرہ ایسے لوگوں کو انکے انجام تک پہنچاؤ جو راہ سے بھٹکے ہیں جنہیں صحیح اور غلط کی پہچان نہیں۔۔۔"


اب کی بار ویرہ نے ہاتھ میں پکڑی بندوق سے دھیان ہٹا کر یعقوب کو دیکھا تھا۔


"اپنے بابا کے لیے ویرہ جنہیں انصاف پر چلنے کی یہ سزا ملی کہ انکے سامنے انکے بیوی بچوں کو مار دیا۔"


ویرہ کی پکڑ اپنی بندوق کے گرد مظبوط ہوئی تھی۔


"ان کی روح کو سکون تب ہی ملے گا ویرہ جب وہ اپنے بیٹے کو صحیح راہ پر چلتے دیکھیں گے۔کرپٹ نظام اور کافروں کے تلوے چاٹنے والے اس گھٹیا حکومت اور فوج کے خلاف لڑتا ہوا دیکھیں گے۔"


یعقوب نے ویرہ کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہا تھا۔ویرہ کے ساتھ ہوئے ظلم کا فائیدہ اٹھا کر اسکے اندر نفرت کا بیج بو رہا تھا۔


"آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔"


یعقوب نے ویرہ کو اپنے ساتھ لیا اور اس جگہ لے آیا جہاں اسکے آدمیوں نے آرمی یونیفارم میں ملبوس ایک سپاہی کو پکڑ رکھا تھا۔وہ سپاہی سہمی نگاہوں سے ہر ایک کو دیکھ رہا تھا۔


"ایک آدمی نے کیمرہ آن کیا اور چہرے پر نقاب پہن کر اس سپاہی کے پیچھے آیا اور اسکا چہرہ بالوں سے پکڑ کر اونچا کر دیا۔


"دیکھ لو فوجیو ہمارے ساتھی کی جان لینے کا انجام،یاد رکھنا ہم لوگ چپ بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہماری ایک لاش کے بدلے تمہارے سو فوجی مارنے کی طاقت رکھتے ہیں ہم۔۔۔"


اتنا کہہ کر اس نقاب پوش نے یعقوب کو دیکھا جس نے ویرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


"بتا دو ان لوگوں کو ویرہ ہم سے بھڑنے کا انجام۔۔۔۔"


ویرہ نے اس بات پر ایک نظر اس سپاہی کو دیکھا جو بمشکل چوبیس سے پچیس سال کا تھا اور نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ویرہ کو اس آدمی میں اپنا آپ نظر آیا تھا۔ایسے ہی تو وہ بھی سہم کر اس آدمی کو دیکھ رہا تھا جب اس نے اسکا گلا کاٹا تھا۔


اس کی مدد کے لیے بھی تو کوئی نہیں آیا تھا اس پر بھی تو کسی نے رحم نہیں کھایا تھا تو وہ رحم کیوں کھائے۔ہاں اسکی محبت اور رحم اسکے ماں باپ کے ساتھ ختم ہو گئے تھے۔یہ سب جزبے عبداللہ کے ساتھ مر گئے تھے اب وہ عبداللہ نہیں تھا وہ ویرہ تھا۔


یعقوب کی دل میں ڈالی گئی پھانس نے اپنا اثر دیکھایا تھا۔ویرہ نے وہ بندوق اٹھا کر اس سپاہی کے ماتھے کا نشانہ لیا۔ایک بار اسکے ضمیر نے اسے پکارا تھا اسے بتایا تھا کہ وہ غلط ہے لیکن خود پر ہوئے ظلم اور یعقوب کی دل میں ڈالی گئی نفرت نے ضمیر کی آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا۔


ویرہ نے اپنی آنکھیں بند کیں اور گولی چلا دی جو سیدھا اس لڑکے کے سر کے آر پار ہوئی تھی۔اس کی لاش زمین بوس ہوتے دیکھ ہاتھ میں پکڑی بندوق ویرہ کے ہاتھ سے چھوٹی اور وہ وہاں سے چلا گیا۔


اسکا ضمیر اسے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس نے غلط کیا تھا اس نے گناہ کیا لیکن اس نے اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دیا یہ کہہ کر کہ وہ کیوں رحم کھائے جب اس پر رحم نہیں کیا گیا تھا۔


ہاں اب وہ کسی پر رحم کھانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ دنیا مظلوم کی نہیں اس لیے اب وہ بھی بس ظالم بنے گا اپنے نام جیسا ویرہ بنے گا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

وقت ریت کی مانند سرکتا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے دس سال گزر گئے۔دنیا جہان سے بے خبر پندرہ سالہ مرجان گلابی ہونٹ دانتوں میں دبائے بت بنی پھول پر بیٹھی تتلی کو دیکھ رہی تھی جبکہ دوپٹہ تیز ہوا کے باعث سر سے اتر کر کندھے پر جھول رہا تھا اور ریشمی بھورے بالوں کی لٹیں تیز ہوا کے باعث چوٹی سے نکل کر سرخ و سفید چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔


وہ اس وقت ایک معصوم سی موم کی گڑیا لگ رہی تھی جو سنہری آنکھوں میں شرارت لیے پھول پر بیٹھی رنگ برنگی تتلی کو دیکھ رہی تھی پھر اس نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر اس تتلی کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور جلدی سے اپنے ہاتھوں میں قید کر لیا۔


قید میں آتے ہی تتلی پھڑپھڑانے لگی اور اسکی پروں سے ہونے والی گدگدی پر مرجان کھلکھلا کر ہنس دی لیکن اسے چھوڑا نہیں اور جلدی سے اپنے گھر کی جانب بھاگ گئی۔


"اماں اماں۔۔۔دیکھو میں نے کتنا پیارا تتلی پکڑا ہے ۔۔۔ "


مرجان نے خوشی سے چہکتے ہوئے اردو میں کہا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ اسکی ماں ہو تو اردو آتی ہی نہیں اس لیے فوراً اپنی بات پشتو میں دہرا دی۔اپنے بہن بھائیوں میں بس دلاور اور مرجان کو ہی اردو آتی تھی۔لڑکوں کو اردو سیکھائی جاتی تھی اور مرجان نے دلاور سے باتیں کرتے ہوئے ہی سیکھ لی تھی۔


"احمقه نجلۍ تاسو چیرې یاست؟"(پاگل لڑکی کہاں تھی تم؟)


الماس نے غصے سے اسکے چوٹی سے باہر آتے بالوں اور دوپٹے سے بے نیاز نازک وجود کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"بادل ہو رہے تھے اماں اور اتنی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اس لیے میں پھولوں کے پاس گیا اور دیکھو مجھے کیا ملا۔"


مرجان نے اپنے بند ہاتھ الماس کے سامنے کیے جنہیں اس نے بڑی احتیاط سے زرا کھلا رکھتے ہوئے چھوٹا سا پنجرہ بنایا ہوا تھا۔


"تمہارے بابا کو پتہ چلا ناں کہ دوپٹے کے بغیر دندناتا پھر رہا ہے تم تو چمڑی ادھیڑ دیں گے تمہارا۔۔۔۔۔"


الماس نے اسے ڈراتے ہوئے کہا لیکن مرجان بس مسکرا دی۔


"کیسے پتہ چلے گا صبح صبح تو کام سے شہر چلا گئے تھے وہ مجھے پتہ ہے اب کل آئیں گے اور پھر سے ان سے ڈر ڈر کے جینا ہے ابھی تو کھل کے جینے دو۔۔۔۔"


مرجان نے منہ بنا کر کہا اور اپنے ہاتھوں کو چوما جن میں تتلی قید تھی۔مرجان نہیں چاہتی تھی کہ وہ ہاتھ کھولے اور وہ تتلی اڑ جائے۔


"اچھا چھوڑو ناں یہ دیکھو میں کیا لائی۔"


مرجان نے مسکرا کر کہا اور آہستہ سے اپنے ہاتھ کھولے لیکن ہاتھ کھولتے ہی اسکی مسکان غائب ہوئی تھی کیونکہ اس تتلی کا رنگ مرجان کے سفید ہاتھوں پر لگا تھا اور وہ خود بے جان سی اسکے ہاتھوں پر گری ہوئی تھی۔


"ااا۔۔۔۔۔اسے کیا ہوا۔۔۔؟"


مرجان نے گھبرا کر پوچھا تو الماس نے گہرا سانس لیا۔


"وہ مر گیا مرجان تتلی بہت نازک ہوتا ہے اسے پکڑیں تو مر جاتا ہے۔۔۔"


الماس کی بات اسے پتھر کا کر گئی تھی۔دو آنسو مرجان کی آنکھوں سے ٹوٹ کر اسکی ہتھیلیوں پر گرے تھے۔


"مم۔۔۔۔میں نے اسے مار دیا اماں۔۔۔"


اتنا کہہ کر مرجان سسک سسک کر رونے لگی اور الماس نے بے بسی سے اسے دیکھا۔اسکی دونوں بیٹیاں ہی بہت معصوم اور نازک سے دل کی مالک تھیں۔اس جنت نما جہنم میں رہتے ہوئے بھی وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ وہ کس دنیا کا حصہ ہیں۔


ان کے قبیلے میں مرد عورتوں کو اپنے معاملات سے دور رکھتے تھے۔ان کے مطابق عورتیں ضروت کے سامان سے زیادہ کچھ نہیں تھیں۔


مرجان اور گل دونوں ہی اس بات سے بے خبر تھیں کہ وہ کن جانوروں کا حصہ ہیں لیکن الماس یہ بات جانتی تھی کہ یہ گاؤں کوئی عام گاؤں نہیں تھا نہ ہی ان کے آدمی کوئی عام آدمی تھے بلکہ وہ سب دہشت گرد تھے۔


یہ تب سے تھا جب یعقوب خان اس گاؤں میں آیا تھا اور الماس کے باپ سے اسے خرید ہر آہستہ آہستہ پورے گاؤں پر حکومت قائم کر گیا اور سب آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔اور جو اس کے ساتھ نہیں ملا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔


الماس چاہ کر بھی یہ بات اپنی بیٹیوں کو بتا نہیں پائی تھی جبکہ دلاور اس بات سے آگاہ تھا اور اپنا دل کمزور ہونے کی وجہ سے اپنے باپ کی نظر میں کچھ نہ ہونا اسکا سب سے بڑا غم تھا۔


الماس کا بس چلتا تو وہ اپنے تینوں بچوں کو یہاں سے بہت دور لے جاتی لیکن یہ ناممکن تھا اور ایسی کوشش کر کے وہ اپنی اور اپنے بچوں کی موت کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔الماس نے بے بسی سے مرجان کو دیکھا جو اب سسک سسک کر رو رہی تھی۔


"رو مت مرجان کچھ نہیں ہوتا تم نے جان بوجھ کر تو نہیں مارا ناں اسے۔۔۔"


الماس نے اسے سمجھانا چاہا لیکن مرجان کے آنسؤں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔


"ککک۔۔۔۔کتنا درد ہوا ہو گا اسے۔۔۔۔وہ میرے ہاتھوں میں تڑپ رہی تھی اور میں نے اسے نہیں چھوڑا۔۔۔۔اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہیں کریں گے اماں۔۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا تو الماس اسکے پاس آئیں اور اسکے ہاتھ سے تتلی پکڑ کر باہر پھینکتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا۔


"تمہیں نہیں پتہ تھا ناں تم سے غلطی ہو گئی معاف کر دیں گے اللہ تمہیں۔۔۔"


انہوں نے مرجان کی کمر سہلا کر اسے دلاسہ دیا۔


"چلو اب رونا چھوڑو اور میرے ساتھ آؤ۔۔۔"


الماس مرجان کا ہاتھ پکڑ کر چھوٹے سے گھر کے باورچی خانے میں لے گئیں۔


"میں نے سالن بنا دیا ہے دو روٹیاں بنا اور ویرہ کو دے آ شام ہونے والی ہے پھر۔۔۔دلاور کے سینے میں درد ہو رہا ہے اس لیے وہ نہیں جا پائے گا اور گل کا تو پتہ ہے ناں ویرہ کے سائے سے بھی ڈرتی ہے۔۔۔"


الماس کی بات پر مرجان کے آنسو آنکھوں میں ہی اٹک گئے اور اس نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا۔


"میں دے کے آؤں ان کو کھانا؟"


مرجان نے ایک بار پھر حیرت سے پوچھا۔


"ہاں ناں دلاور سے تو چلا بھی نہیں جا رہا ۔۔۔۔اگر تم نہیں جانا چاہتا تو میں کسی کو۔۔۔"


"نن۔۔۔۔نہیں نہیں میں دے آؤں گی سالن بھی گرم کر کے اچھے سے کھانا دے کر آؤں گی۔۔۔"


مرجان نے فوراً کہا تو الماس مسکرا کر وہاں سے چلی گئی۔اسے دلاور کا خیال رکھنا تھا جسکی طبیعت صبح سے ٹھیک نہیں تھی۔مرجان نے ہاتھ دھو کر جلدی سے روٹی بنائی لیکن وہ اسے پسند نہیں آئی آخر کار دو اور روٹیاں برباد کرنے کے بعد وہ گول سی روٹی بنا چکی تھی۔جسے اس نے مسکراتے ہوئے رومال میں لپیٹا اور ایک پیالی میں گوبھی گوشت کا سالن گرم کرنے کے بعد ڈالا۔


اس پیالی کو سلیقے سے رومال پر رکھ کر وہ جلدی سے بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی اور پیارا سا سبز رنگ کا دوپٹہ نکال کر سر پر لیا۔


"کہاں جا رہی ہو باجی۔۔۔؟"


گل نے حیرت سے اسکے چہرے پر آنے والے رنگوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو اسے کتنا ہی حسین بنا رہے تھے۔


"وہ میں ویرہ لالہ کو کھانا دینے۔۔۔"


مرجان نے ایک نظر چھوٹے سے آئنے میں خود کو دیکھا اور جلدی سے باورچی خانے میں واپس آ گئی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ کھانا ٹھنڈا ہو جائے۔


کھانا پکڑ کر وہ گھر سے باہر نکلی اور مسکرا کر آسمان کو دیکھا جہاں کالے بادل چھائے ہوئے تھے اور ٹھنڈی ہوا جنت نما قراقرم کی اس چھوٹی سی وادی کو مزید خوبصورت بنا رہی تھی۔


انکا کا گاؤں پہاڑوں کے دامن میں چھپی چھوٹی سی وادی میں تھا جس کے اردگرد سر سبز پہاڑ تھے اور ایک جھیل بھر جو جھرنے کی صورت میں پہاڑوں میں سے نکلتی تھی۔


مرجان کو اسکا گاؤں بہت پسند تھا جو گرمیوں میں سر سبز ہوتا تو سردیوں میں وہاں برفباری ہوتی تھی لیکن پھر بھی اس نے حسرت سے اس راستے کو دیکھا جو گاؤں سے باہر جاتا تھا۔


نہ جانے گاؤں سے باہر کی دنیا کیسی تھی؟خیر جیسی بھی ہو مرجان کبھی گاؤں سے باہر نہیں گئی تھی اور نہ ہی ان لوگوں کو وہاں سے جانے کی اجازت تھی۔


مرجان نے مسکرا کر ایک پہاڑ پر موجود چھوٹے سے گھر کو دیکھا جو کہ ویرہ کا تھا۔ویرہ کی طرح ہی اسکا گھر بھی پورے گاؤں سے الگ تھا۔ہر کوئی ویرہ سے ڈرتا تھا لیکن مرجان نہیں۔اسکی وہ خاموشی اور سنجیدگی مرجان کو بہت پسند تھی اسکا دل کرتا تھا کہ وہ یونہی خاموش سا اسکے سامنے بیٹھا رہے اور مرجان اسے دیکھتی جائے۔


وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اسکے بارے میں ایسا کیوں محسوس کرتی تھی لیکن اس نے اپنی سہیلی سے پوچھا تھا کہ کسی کے بارے میں ایسا لگے تو اسکا کیا مطلب ہوتا ہے۔


اسکا مطلب ہوتا ہے کہ تمہیں اس سے محبت ہے۔


اپنی سہیلی کا جواب یاد کر کے مرجان پھر سے شرمائی تھی۔


"اگر ابا کو پتہ چلا نہ کہ کتنی غلط باتیں سوچتی ہوں میں تو جان نکال دیں گے میری۔۔۔"


مرجان نے خود کلامی کی اور اپنے دل پر قابو رکھتی تیزی سے ویرہ کے گھر کی جانب چل دی۔اچانک ہی ہلکی ہلکی بارش شروع ہوئی تو مرجان نے پریشانی سے ہاتھ میں پکڑے کھانے کو دیکھا اور پھر ہلکا سا جھک کر کھانے کو بارش سے بچاتی بھاگتے ہوئے اپنی منزل تک جانے لگی۔


ویرہ کے گھر تک پہنچتے وہ خود تو بھیگ گئی تھی لیکن کھانے پر اس نے ایک پانی کا قطرہ بھی گرنے نہیں دیا تھا۔


اس نے جلدی سے دروازہ کھٹکٹایا اور جس حد تک ہو سکتا تھا اپنا گیلا دوپٹہ ٹھیک کیا۔دروازہ کھلنے پر کالے رنگ کی سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس ویرہ باہر آیا اور مرجان کو وہاں دیکھ کر اسکے ماتھے پر دو بل آئے تھے۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"


"آپ کے لیے آگو لوبھی لایا ہے۔۔۔"


مرجان نے کھانا اسکے سامنے کرتے ہوئے کہا۔


"آآآ۔۔۔۔آلو گوبھی۔۔۔"


مرجان نے فوراً درستی کرتے ہوئے شرمیلی سی مسکان کے ساتھ کہا۔وہ ویرہ کے ساتھ اردو میں ہی بات کرتی تھی کیونکہ ویرہ کو اردو پسند تھی اور وہ زیادہ تر اردو ہی بولتا تھا۔


ویرہ نے خاموشی سے اسکے ہاتھ سے کھانا لے لیا۔تبھی اسکی نگاہ مرجان کے سردی سے کپکپاتے ہاتھوں سے ہوتے اسکے گیلے کپڑوں پر پڑی۔سردی کی شروعات ہونے والی تھی جس کی وجہ سے بارش بہت ٹھنڈی تھی اور بارش بھی تو موسلا دھار ہو رہی تھی۔


"اندر آؤ اور آگ جلا کر بیٹھ جاؤ۔۔۔"


ویرہ سنجیدگی سے حکم دیتا گھر میں داخل ہو گیا تو مرجان بھی اسکے پیچھے چلی گئی۔ویرہ نے آتش دان میں آگ جلائی تو مرجان اسکے پاس بیٹھ گئی۔


"پتہ نہیں بارش کب بند ہو گی اب۔۔۔۔اور اگر نہ ہوئی تو گھر کیسے جاؤں گی۔۔۔؟"


مرجان نے پریشانی سے کہا لیکن ویرہ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ کھانا کھانے لگا۔


"کیسا بنا ہے۔۔۔۔سالن اماں نے بنایا ہے لیکن روٹی میں نے خود بنایا۔۔۔"


"اگر چاہتی ہو کہ اس بارش میں گھر سے نہ نکال دوں تو اب آواز نہ آئے تمہاری۔۔۔۔"


ویرہ نے سختی سے کہا تو مرجان اسکا حکم مانتی فوراً خاموش ہو گئی۔ویرہ کھانا کھانے لگا اور مرجان یہاں وہاں دیکھنے لگی۔اچانک ہی اسکی نظر ایک تتلی پر پڑی جو شائید بھٹکتے ہوئے گھر میں آ گئی تھی اور اب باہر نکلنے کی کوشش میں بار بار کھڑکی سے ٹکرا رہی تھی۔


اسے دیکھ کر مرجان کو وہ تتلی یاد آئی جو اسکی وجہ سے مر گئی تھی۔اسے یاد کرتے ہی مرجان پھر سے رونے لگی۔سوں سوں کی آواز پر ویرہ کے ماتھے پر شکن آئی اور اس نے گھور کر مرجان کو دیکھا۔


"اب رو کیوں رہی ہو؟"


ویرہ نے سختی سے پوچھا۔


"مممم۔۔۔۔میں نے آج ایک تتلی پکڑا تھا۔۔۔"


"تو۔۔۔"


ویرہ نے الجھن سے پوچھا اگر وہ یعقوب کی بیٹی نہ ہوتی تو کب کا اسے گھر سے بارش میں ہی نکال چکا ہوتا۔


"تو وہ مر گیا میرے ہاتھوں میں۔۔۔۔۔"


مرجان نے قمیض کے بازو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ویرہ نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جو ایک تتلی کی وجہ سے رو رہی تھی۔


"یہاں انسان مر جایا کرتے ہیں اور کسی کو پرواہ بھی نہیں ہوتی اور تم تتلی کے مرنے پر رو رہی ہو۔۔۔"


ویرہ کا انداز بہت زیادہ سفاک تھا۔


"وہ ویسے مرتا تو نہیں روتی۔۔۔۔وہ میری وجہ سے مرا۔۔۔نہ میں اسے پکڑتی نہ وہ مرتا۔۔۔۔"


مرجان کے انداز میں بلا کی معصومیت تھی اور ویرہ بت بنا اسے دیکھ رہا تھا۔کہاں وہ کسی کی جان لینے پر بھی خود کو پچھتانے نہیں دیتا تھا اور کہاں وہ لڑکی ایک تتلی کا سوگ منا رہی تھی۔دروازا کھٹکنے کی آواز پر ویرہ نے اپنا دھیان مرجان سے ہٹایا اور اٹھ کر دروازے تک آیا۔


"کیسے ہو میرے شیر۔۔۔"


ویرہ کے دروازہ کھولتے ہی یعقوب خان نے اسکے گلے لگ کر کہا جبکہ اپنے باپ کی آواز پر اندر بیٹھی مرجان کا خون تک سوکھ گیا تھا۔


ویرہ نے بس اثبات میں سر ہلایا اور یعقوب کے ساتھ دو انجان آدمیوں کو گہری نگاہوں سے دیکھا۔


"یہ دونوں کون ہیں۔۔۔؟"


ویرہ کے سوال پر یعقوب نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا۔


"یہ کال ہے اور یہ راگا۔۔۔۔"


یعقوب کے اشارہ کرنے پر پہلے ویرہ نے اس سانولی سی رنگت اور لمبے بالوں والے آدمی کو دیکھا پھر اسکی نظر مغرور نقوش والے اس خوش شکل آدمی پر پڑی جس کا نام راگا تھا۔


"جس کام کے لیے میں شہر گیا تھا اس میں غلطی ہو گئی اور میں فوج کے ہاتھ لگتے لگتے بچا اگر یہ دونوں میری مدد نہ کرتے تو۔۔۔"


یعقوب خان نے گہرا سانس لیا۔


"خیر ان دونوں کا بھی کام وہی ہے جو ہمارا ہے اب یہ دونوں ہمارے ساتھ مل کر ہمارے بھائیوں کی طرح کام کریں گے۔۔۔"


یعقوب کی بات پر ویرہ نے تیکھی نظروں سے راگا کو دیکھا۔


"ہم ان پر بھروسہ کیوں کریں۔۔۔؟یہ فوج کے جاسوس بھی تو ہو سکتے ہیں۔۔۔"


اس بات پر راگا کے ہونٹوں پر خطرناک مسکراہٹ آئی اور وہ ویرہ کے قریب آیا۔


"جب میرے ہاتھوں سے ایک ایک فوجی مرتا دیکھے گا ناں ماڑا تو خودی یقین کر لے گا۔۔۔اور اگر پھر بھی نہیں کرے گا تو مجھے فرق بھی نہیں پڑتا لالے کی جان۔۔۔۔"


راگا کا لہجہ اور انداز پختون ہونے کے ساتھ ساتھ سفاک اور شرارتی سا تھا۔


"ویرہ جب میں نے ان پر بھروسہ کیا ہے تو کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں؟تمہیں لگتا ہے کہ میں غلط فیصلہ کر سکتا ہوں۔"


یعقوب کی بات پر ویرہ نے گہرا سانس لے کر کندھے اچکا دیے۔


"ہمیں اندر نہیں بلاؤ گے۔۔۔بارش ہونے کی وجہ سے سردی ہو گئی ہے۔۔۔"


یعقوب نے اپنے بازو سہلا کر کہا تو ویرہ نے ایک نظر باہر دیکھا۔بارش سچ میں رک چکی تھی۔ویرہ نے دروازے سے ہٹ کر انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔کال اور راگا اسکے کمرے کی جانب چل دیے اور یعقوب ویرہ کے ساتھ اندر جانے لگے۔


"ارے واہ آپ کے ویرہ کے تو رنگیلے شوق لگتے ہیں۔۔۔۔کافی حسین شوق۔۔۔۔"


کال نے مرجان کو دیکھتے ہوئے کہا جو سہم کر کمرے کے ایک کونے میں جا چکی تھی۔ویرہ نے اسکی بات کا مطلب اور اسکی نظروں میں ستائش دیکھی تو اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔


"ہمارے قبیلے کی عورتوں پر نگاہ رکھنے والوں کی آنکھیں نکال لیا کرتے ہیں ہم بہتر ہو گا قابو میں رکھو اپنی نظروں کو۔۔۔۔"


ویرہ بولنے سے زیادہ غرایا تھا۔اسکی غصے سے بھرپور آواز پر یعقوب خان کمرے میں آئے اور مرجان کو وہاں دیکھ کر انکے ماتھے پر بل آئے تھے۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو مرجان خان۔۔۔۔؟"


مرجان اس سوال پر خوف سے اچھل پڑی تھی۔


"و۔۔۔۔وہ ممم۔۔۔۔میں کھانا دد۔۔۔دینے آیا تھا۔۔۔۔۔"


مرجان نے سہم کر بتایا۔


"کیوں دلاور مر گیا ہے کیا؟"


یعقوب کے غصے پر مرجان خوف سے اچھل پڑی۔


"وہ۔۔۔۔لالہ کے سینے۔۔۔مم۔۔۔میں درد ہو رہا تھا۔۔۔"


یعقوب نے اس بات پر گہرا سانس لیا۔


"دفع ہو جاؤ گھر تمہیں اور تمہاری ماں کو گھر آ کر پوچھتا ہوں۔۔۔۔"


مرجان فوراً وہاں سے چلی گئی اور یعقوب نے ان سب کی جانب دیکھا۔


"یہ میرا بیٹی ہے مرجان۔۔۔۔۔"


راگا نے اس بات پر بس ہاں میں سر ہلا دیا جبکہ کال اس راستے کو ہی دیکھ رہا تھا جہاں سے مرجان گئی تھی لیکن اتنا تو وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ لڑکی ان کے سردار کی بیٹی تھی اس پر ہاتھ ڈالنا موت کو منہ لگانے کے مترادف تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راگا اور کال کو لے کر ویرہ کا ہر وسوسہ ختم ہو گیا تھا۔وہ دونوں بھی اسکی طرح سفاک تھے اور بھروسے کے قابل بھی۔کیونکہ انکا بھی وہی مقصد تھا جو ویرہ اور یعقوب خان کا تھا اس نظام اور فوج کی تباہی۔


کال اور راگا کو یہاں آئے ایک سال ہو گیا تھا۔ویرہ کا سب سے اچھا ساتھ راگا سے بنا تھا جو ویرہ سے بھی زیادہ سفاک ثابت ہوتا تھا اور ویرہ کو سب سے اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔


آنے والے ایک سال میں وہ تینوں یعقوب خان کی سب سے بڑی طاقت بن چکے تھے۔راگا،ویرہ اور کال یعقوب انہیں اپنا سرمایا سمجھتا تھا اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اسکو کچھ ہو جانے پر ان تینوں میں سے ہی کوئی اگلا سردار بنے گا۔


یعقوب خان راگا کے ساتھ شہر کسی سے ملنے گئے تھے جبکہ کال اور ویرہ دونوں گاؤں ہی رہے تھے۔انکے گاؤں میں بھی حفاظت کے لیے کسی کا ہونا ضروری تھا۔


شام ہونے والی تھی اور ویرہ حفاظتی اقدامات پہ نظر ڈالتا اپنے گھر واپس جا رہا تھا جب اسکی نظر دور درختوں میں نظر آتے ایک رنگ برنگے آنچل پر پڑی۔اسکے ماتھے پر بل آئے کیونکہ گاؤں کی کسی عورت کو گاؤں سے اتنی دور جانے کی اجازت نہیں تھی تو وہ کون ہو سکتی تھی۔


ویرہ اس جانب چل دیا جہاں پہاڑ کی ایک جانب گھنے درخت تھے جو گھنے جنگل سے پھیلتے ہوئے یہاں تک آ جاتے تھے۔ویرہ اس شخص کو پکڑ کر سزا دینے کا ارادہ رکھتا تھا جس نے انکے گاؤں تک آنے کی جرات کی تھی لیکن قریب ہونے پر جب اسکی نگاہ اس نازک وجود پر پڑی تو وہ اپنی جگہ پر جم سا گیا۔


وہ لڑکی کوئی اور نہیں مرجان تھی جو دنیا جہاں سے بے نیاز اپنا دوپٹہ ہاتھوں میں پکڑے لہراتے ہوئے گھوم رہی تھی جبکہ شام ہوتے ہی نکلنے والے جگنو اسکے گرد گھوم رہے تھے جیسے اسکی خوشی کا حصہ بننا چاہ رہے ہوں۔


کمر تک آتی بھورے بالوں چوٹی اسکے گھومنے کی وجہ سے لہرا رہی تھی۔وہ اپنی مستی میں اتنی مگن تھی کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ویرہ کب سے وہاں کھڑا اسے گھور رہا تھا۔


"مرجان۔۔۔"


ویرہ کی سخت آواز پر مرجان فوراً رک گئی لیکن پھر اسکی آواز کو وہم سمجھتی ہنس دی۔


"وہ یہاں بھلا کیسے آ سکتا ہے یہاں تو کسی کو آنے کا اجازت نہیں۔۔۔۔"


مرجان نے کہا اور کھلکھلا کر ہنستے ہوئے گھومنے لگی۔گھومتے ہوئے اسکا پیر لڑکھڑایا اور وہ کسی کے چوڑے سینے سے جا ٹکرائی۔مرجان سنہری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ایک تو پہلے ہی وہ اسکو خوابوں میں نظر آ کر ستاتا تھا اب کیا دن کو بھی نظر آیا کرے گا۔


"اوئے لالے کی جان خواب کھلی آنکھوں سے بھی آتے ہیں کیا۔۔۔؟"


مرجان نے ویرہ کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا لیکن پھر ان آنکھوں میں غصہ اور اسکے ماتھے پر بل آتے دیکھ وہ اچھل کر ویرہ سے دور ہوئی۔وہ کوئی خواب نہیں تھا بلکہ سچ میں وہاں تھا۔


"وہ۔۔۔وہ وویرہ۔۔۔لا۔۔۔۔"


"تم یہاں کیا کر رہی ہو جانتی ہو ناں یہاں آنے کی اجازت کسی کو نہیں۔۔۔"


مرجان بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی اب وہ اسے کیا بتاتی کہ اپنے باپ کے شہر جانے کی اسے اتنی خوشی ہوئی تھی کہ پل بھر کی اس آزادی کو جینے وہ یہاں آ گئی تھی۔


"وہ۔۔ میں۔۔۔مم۔۔۔میں یہاں تتلی پکڑنے آیا تھا۔۔۔۔"


ویرہ نے آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا۔


"واپس چلو فوراً اور آئندہ یہاں غلطی سے بھی مت آنا ورنہ سخت سے سخت سزا ملے گی۔"


مرجان نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے جانے لگی لیکن تبھی اسکے احساس ہوا کہ جیسے اسکا پیر کسی نے جکڑا ہو۔مرجان نے اپنے پیر کی جانب دیکھا تو سانس سینے میں ہی اٹک گیا اور وہ ایک چیخ کے ساتھ ویرہ کے سینے سے لپٹ گئی۔


اسکی حرکت پر ویرہ حیران رہ گیا۔


"یہ کیا حرکت۔۔۔۔۔"


"سس۔۔۔۔سانپ میرے۔۔۔میرے پیر پر سانپ سے ۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا اور ویرہ کی قمیض کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ کر اسکے سینے میں چہرہ چھپاتے ہوئے رونے لگی۔ویرہ نے گہرا سانس لے کر اسے خود سے دور کیا اور اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس سانپ کو دیکھنے لگا جو اسکی ٹانگ سے لپٹ رہا تھا۔


ویرہ نے ہاتھ بڑھا کر سانپ کر اسکے سر سے جکڑ لیا تا کہ وہ مرجان کو ڈس نہ لے اور پھر اسے کھینچ کر مرجان سے دور کرتے ہوئے سائیڈ پر پھینک دیا۔ویرہ نے کھڑے ہو کر مرجان کو دیکھا جو ابھی بھی آنکھیں موند کر رو رہی تھی۔


"امید ہے اتنی نصیحت کافی ہو گی کہ آئیندہ سے یہاں نہیں آؤ ۔"


اتنا کہہ کر ویرہ وہاں سے جانے لگا تو مرجان بھی اسکے پیچھے لپکی۔وہ گاؤں پہنچے تو ایک آدمی پریشانی کے عالم میں انکے پاس آیا۔


"ویرہ کہاں تھے تم میں جب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں۔"


اس آدمی نے پریشانی سے پشتو میں کہا۔


"کیا ہوا؟"


ویرہ نے اسکی پریشانی دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"سردار اور راگا پر فوج نے حملہ کیا۔سردار کو گولی لگی۔راگا جیسے تیسے انہیں بچا کر لے آیا لیکن وہ۔۔۔۔وہ ٹھیک نہیں۔۔۔اور تمہیں بلا رہے ہیں۔۔۔"


آدمی نے اپنی بات سے مرجان اور ویرہ پر بم گرایا تھا۔

ویرہ فوراً یعقوب کے پاس آیا تھا جو اپنے گھر کے بستر پر پڑے تھے جبکہ ایک ڈاکٹر انکے پاس تھا۔گولی تو راگا اپنے کسی جاننے والے ڈاکٹر سے نکلوا آیا تھا لیکن تکلیف کے باعث یعقوب کی حالت کافی خراب تھی۔

"بابا۔۔۔"

ویرہ کے پکارنے پر یعقوب نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔

"کیسے ہوا یہ۔۔۔؟"

ویرہ نے غصے سے راگا سے پوچھا جو کمرے کے کونے میں کھڑا تھا۔

"ہمیں پھنسایا گیا تھا جب ہم اپنے کام کے لیے وہاں پہنچے فوج پہلے سے وہاں موجود تھی۔جیسے تیسے میں خود کو اور انہیں تو بچا لایا لیکن ہمارے ساتھ گئے آدمی نہیں بچ سکے۔"

ویرہ نے گہرا سانس لے کر یعقوب کو دیکھا جو شائید کچھ کہنا چاہ رہے تھے۔

"ویرہ۔۔۔"

"جی بابا۔۔۔۔"

ویرہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے کہا۔

"مم۔۔۔میں نہیں بچوں گا۔۔۔"

"ایسا مت کہیں کچھ نہیں ہو گا آپ کو۔۔۔"

ویرہ نے سنجیدگی سے کہا چہرے پر ہلکا سا بھی کوئی تاثر نہیں تھا۔

"اا۔۔۔اااگر مجھے کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔تم اور راگا دونوں میں سے کوئی ایک۔۔۔۔ہمارے آدمیوں کی رضامندی سے سردار بن جائے۔۔۔۔"

یعقوب نے حکم دیا تو ویرہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"مم۔۔۔۔میرے بعد میرے گھر والوں کا ک۔۔۔کوئی وارث نہیں ہو گا۔۔۔"

"آپ ایسا مت کہیں بابا آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔"

ویرہ نے پھر سے انہیں دلاسہ دیا۔

"ننن۔۔۔۔نہیں ویرہ اگر مجھے کچھ ہو گیا۔۔۔تو میرے بیوی بچے۔۔۔۔وہ اپنی مرضی کرتا پھرے گا۔۔۔۔آوارہ اور باغی ہو جائے گا۔۔۔۔مم۔۔۔میں ایسا نہیں چاہتا۔۔۔۔"

یعقوب نے پریشانی سے کہا پھر کچھ سوچ کر تکلیف سے بھری نگاہوں سے ویرہ کو دیکھا۔

"ویرہ میں چاہتا ہوں۔۔۔۔میرے مرنے سے پہلے۔۔۔۔تمہارا اور مم۔۔۔مرجان کا نکاح کر دوں۔۔۔"

یعقوب کی بات ویرہ کے لیے کسی طوفان سے کم نہیں تھی۔

"تا کہ گاؤں کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔ان کا بھی کوئی وارث ہو۔۔۔۔"

یعقوب نے بمشکل اتنا بولتے ہوئے کہا سچ تو یہ تھا کہ بولنے سے انہیں سینے میں سخت تکلیف ہو رہی تھی جہاں انہیں گولی لگی تھی۔

"بولو وو۔۔۔ویرہ کرو گے مرجان سے نکاح ؟"

یعقوب نے ہمت کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا تو ویرہ سکتے کے عالم سے باہر آیا اور بے یقینی سے انہیں دیکھنے لگا۔

"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بابا مرجان۔۔۔وہ بہت زیادہ چھوٹی ہے مجھ سے بس سولہ سال کی بچی ہے اور آپ۔۔۔"

ویرہ نے ایک پل رک کر خود پر قابو پایا اور راگا کو دیکھا جو خاموشی سے کمرے کے کونے میں کھڑا تھا۔

"عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ایسے تمہارا میرے گھر سے تعلق بن جائے گا۔۔۔۔تم ان سب کے وارث بن جاؤ گے۔۔۔۔"

یعقوب نے لاپرواہی سے کہا۔

"آپ فکر مت کریں میں ویسے بھی ان کا خیال رکھوں گا اور ویسے بھی آپ ٹھیک ہو جائیں گے اور آپ خود انکا خیال رکھیں گے پریشان مت ہوں۔"

ویرہ نے ہلکا سا ہاتھ انکے سینے پر رکھ کر کہا۔

"نن۔۔۔۔۔نہیں ویرہ میں۔۔۔کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔۔۔۔میرے پاس دو ہی راستے ہیں۔۔۔۔یا تو تم مرجان سے نکاح کر لو یا۔۔۔۔"

"یا؟"

یعقوب کے خاموش ہو جانے پر ویرہ نے پوچھا۔

"یا میں اسکا۔۔۔۔نکاح راگا سے کر دوں گا۔۔۔۔"

اس بات پر ویرہ کے ساتھ ساتھ راگا نے بھی حیرت سے یعقوب خان کو دیکھا۔

"بب۔۔۔بولو راگا تمہیں کوئی اعتراض ۔۔۔۔تو نہیں۔۔۔"

یعقوب کے سوال پر پہلے تو راگا خاموش رہا پھر اسکے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔

"نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔"

ویرہ نے حیرت سے راگا کو دیکھا جو لگ بھگ اسی کی عمر کا تھا بھلا وہ کیسے ایک سولہ سال کی بچی کو قبول کر سکتا تھا۔

"تو۔۔۔۔ٹھیک ہے ویرہ کل تک سوچ لو اگر ۔۔۔۔۔تمہیں اعتراض ہی رہا تو میں۔۔۔۔۔میں کل شام کو مرجان کا نکاح راگا سے کر دوں گا۔۔۔"

"لیکن بابا۔۔۔"

"ب۔۔۔بس ویرہ یہ۔۔۔۔میرا آخری فیصلہ ہے۔۔۔"

اتنا کہہ کر یعقوب نے اپنی آنکھیں موند لیں اور ویرہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر واپس آ گیا۔یعقوب کی باتیں اسکے ذہن پر سوار تھیں۔کیا یہ اس بچی کے ساتھ زیادتی نہیں تھی کہ اسے اس سے پندرہ سال بڑے مرد کے پلے باندھ دیا جاتا۔وہ بھی وہ مرد جس کا جینا مرنا بس خون خرابا تھا لیکن ان کے قبیلے کی عورتوں کا مقدر ایسے مرد ہی تو تھے۔

نہ چاہتے ہوئے بھی ویرہ کی سوچ کا مرکز مرجان تھی۔وہ لڑکی جو ایک تتلی کے مر جانے پر رو دیا کرتی تھی کیا وہ راگا یا ویرہ جیسے سفاک درندے کے ساتھ زندگی گزار پاتی۔

ویرہ اسے تب سے جانتا تھا جب سے وہ پیدا ہوئی تھی۔وہ بچپن میں بندوق کی آواز پر سہم کر رونے لگتی تھی،بجلی کی کڑک اسے ڈراتی تھی غصے سے چلانے پر تو وہ سہم کر بت بن جایا کرتی تھی۔

اس کی معصوم سی مسکراہٹ اور چمکتی سنہری آنکھیں ویرہ ہے ذہن ہر حاوی ہوئی تھیں۔

ویرہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اگر اسکا نکاح راگا سے ہو گیا تو وہ اس کا کیا حال کرے گا۔ویرہ نے راگا کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔وہ بہت زیادہ سفاک تھا دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر اسے سکون ملتا تھا کیا وہ معصوم سی لڑکی ایک پل بھی ایسے شخص کے ساتھ زندہ رہ پاتی۔

اس سوچ پر ویرہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔اس کے دماغ نے اسے سمجھایا کہ وہ اسکی پرواہ کیوں کرے،ویرہ کسی کی بھی پرواہ کیوں کرے اسے سب سے ہی نفرت تھی لیکن چاہ کر بھی یہ خیال ویرہ اپنے دماغ سے جھٹک نہیں پایا تھا۔

پوری رات ایک پل بھی اسکا چین سے نہیں گزرا تھا آخر کار صبح ہوتے تک اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اسے اس لڑکی کی پرواہ نہیں یعقوب خان اگر اسکا نکاح راگا سے کر بھی دیں تو ویرہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ہاں اس نے خود کو یہی سمجھایا تھا کہ مرجان یعقوب خان کے جینے مرنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں جب یعقوب نے اسے بلا کر پھر سے اسکی رضامندی پوچھی تو اسکا جواب وہ نہیں تھا جو اس نے سوچا تھا۔

"مجھے منظور ہے۔۔۔۔میں کروں گا مرجان سے نکاح۔۔۔"

ویرہ کے جواب نے اسے خود حیران کر دیا تھا۔کیا اسے اس لڑکی کی پرواہ تھی جو اسے راگا جیسے سفاک درندے کے ہاتھ لگتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ویرہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا لیکن ویرہ سے جڑ کر بھی اسکا مقدر کونسا اچھا ہو جانا تھا۔

اس معصوم لڑکی کے نصیب میں بس کانٹے اور آنسو ہی لکھے تھے جن کے ساتھ اسے یہ زندگی گزارنی تھی۔

          🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان اپنے اس چھوٹے سے گھر کے دوسرے کمرے میں چہرہ گھٹنوں پر رکھے بیٹھی تھی۔دلاور اور گل بھی خاموشی سے اسکے پاس بیٹھے تھے۔اپنے باپ کی اس حالت پر وہ تینوں پریشان تھے۔

"ابا کو کس نے مارا لالا؟"

گل کی سہمی سی آواز کمرے میں گونجی تو مرجان نے ایک نظر اسے دیکھا جو ڈری سہمی سی کمرے کے کونے میں بیٹھی تھی۔

"فوجیوں نے۔۔۔۔"

دلاور نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

"کیوں؟"

گل کی جانب سے دورسرا سوال آیا تھا۔

"کیونکہ وہ بہت برے ہوتے ہیں ابا کہتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی ہماری جان لینا چاہتے ہیں۔"

دلاور کے جواب پر گل مزید سہم چکی تھی۔

"ففف۔۔۔۔فوجی کیسے ہوتے ہیں۔۔۔۔کک۔۔۔کیا ان کے بڑے بڑے دانت ہوتے ہیں جس سے وہ کھا جاتے ہیں۔۔۔؟"

گل کے اس سوال پر دلاور کے ساتھ ساتھ مرجان بھی ہلکا سا ہنس دی۔

"نہیں وہ بھی انسان ہوتے ہیں بس سبز اور بھورے رنگوں کا لباس پہن کر گھومتے ہیں،ہاتھوں میں بندوقیں تھام کر رکھتے ہیں اور ہمارے دشمن ہیں اسی لیے ہمیں دیکھتے ہی اس بندوق سے گولی مار دیتے ہیں۔۔۔"

دلاور نے عام سے انداز میں کہا۔

"اوہ اچھا تو جب فوجی نظر آئے تو کیا کریں۔۔۔؟"

گل کی جانب سے ایک اور معصوم سا سوال آیا۔

"ان سے جتنا دور ہو سکے بھاگ جاؤ۔۔۔"

دلاور کے انداز میں زرا سی سنجیدگی تھی۔مرجان نے اپنی بہن کو دیکھا جو شائید یہ بات اپنے دماغ میں اچھی طرح لکھ رہی تھی۔تبھی انکی ماں ہاتھ میں ایک جوڑا اور آنکھوں میں آنسو لیے کمرے میں داخل ہوئی۔

"کیا ہوا اماں۔۔۔؟"

اپنی ماں کے چہرے پر اضطراب دیکھ کر دلاور نے پریشانی سے پوچھا۔مگر الماس نے سوال کو نظر انداز کر کے مرجان کو نم آنکھوں سے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑا جوڑا اسکی جانب بڑھایا۔

"یہ لے مرجان اور تیار ہو جا۔۔۔۔شام کو نکاح ہے تیرا۔۔۔۔"

الماس نے کمرے میں موجود ہر شخص پر بم گرایا جبکہ انکی بات پر مرجان کو لگا کہ اسکا سانس حلق میں ہی اٹک گیا ہو۔

"باجی کا نکاح۔۔۔لیکن کس سے۔۔۔؟"

دلاور نے بے چینی سے اٹھ کر پوچھا۔اسکی بہنیں اسے جان سے بھی زیادہ عزیز تھیں ان پر آنچ آنے سے پہلے وہ مرنا پسند کرتا۔

"ویرہ سے۔۔۔۔"

اس بات پر مرجان کا منہ حیرت سے کھل گیا جبکہ دلاور اپنی ماں کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہ اس نے کوئی انوکھی ہی بات کی ہو۔

"لل۔۔۔۔لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے اماں ب۔۔۔باجی ان سے بہت چھوٹا ہے۔۔۔۔اور ابھی صرف سولہ سال کا ہے وہ۔۔۔۔آپ ایسا کیسے کر سکتا ہے۔"

دلاور کے غصے میں اپنی بہن کے لیے محبت اور فکر چھپی تھی۔وہ بھی ویرہ کو جانتا تھا اسکے دل میں کسی کے لیے کوئی رحم نہیں تھا نہ جانے شادی کے بعد وہ مرجان کا کیا حال کرتا۔

"ہمارے قبیلے میں پندرہ سولہ سال کی لڑکی کو بیاہ دیا جاتا ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں اور یہ تمہارے ابا کا فیصلہ ہے دلاور کوئی بھی اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔"

اس بات پر دلاور نے مرجان کو دیکھا جو خاموشی سے وہاں بیٹھی تھی۔

"مم ۔۔میں ابا سے بات کروں گا۔۔۔۔ااا۔۔۔۔انہیں منع کروں گا۔۔۔۔ویرہ لالا۔۔۔۔وہ میری بہن کا خیال نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔"

دلاور نے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا۔طبیعت کی خرابی کے باعث اسکے سینے میں تیز درد اٹھا تھا جس پر اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔

"دلاور تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں وہ تمہیں ڈانٹ دیں گے مت جاؤ وہاں۔۔۔"

الماس نے بیٹے کو سمجھانا چاہا جو اپنی چادر اپنے گرد لپیٹ رہا تھا۔

"نہیں۔۔۔ابا کو اپنا فیصلہ بدلنا ہو گا۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر دلاور دروازے کی جانب بڑھا جب اسکے کانوں میں مرجان کی آواز پڑی۔

"لالا۔۔۔۔مجھے یہ نکاح منظور ہے۔۔۔۔"

دلاور نے حیرت سے مڑ کر مرجان کو دیکھا جو سر جھکائے یہ بات کہہ رہی تھی۔

"باجی۔۔۔"

"مم۔۔۔۔مجھے وہ اچھے لگتے ہیں لالا مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں خوش ہوں۔۔۔"

مرجان نے شرمگیں مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو دلاور کے ساتھ ساتھ الماس بھی سکتے کے عالم میں اپنی بیٹی کو دیکھنے لگی۔

"مرجان تم یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔۔؟"

الماس نے حیرت سے اس سے پوچھا۔کہاں وہ اس لڑکی کا مقدر ایک درندے سے باندھے جانے پر سوگ منا رہے تھے اور وہ خوش تھی۔

"سچ اماں۔۔۔۔وہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔۔۔آپ ابا کو منع نہ کریں۔۔۔"

اتنا کہہ کر مرجان اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنی ماں کے ہاتھ سے نکاح کا جوڑا پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔گل بھی اٹھ کر اپنی بہن کے پیچھے گئی تھی جبکہ الماس اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھیں جو بت بنا ایک جگہ بیٹھا تھا۔

"باجی نہیں سمجھتی۔۔۔۔باجی کو لگتا ہے وہ خاموش سا رہنے والا شخص ہے جو اپنے الفاظ سے کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔۔۔۔وہ نہیں جانتی کو وہ کیسا درندہ ہے۔۔۔۔وہ نہیں جانتی کہ اس گاؤں کا ہر مرد ایک درندہ ہے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر دلاور نے اپنا سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

"اور میں اتنا کمزور ہوں کہ اپنی بہن کا مقدر درندے سے جڑنے سے نہیں روک سکتا۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر دلاور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تو الماس اس کے پاس گئی اور تڑپ کر اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔

"شکر ہے دلاور تم کمزور ہو ورنہ وہ تمہیں بھی اپنے جیسا بنا دیتے۔۔۔شکر ہے خدا کا میرے بیٹے کہ تم ان سب کے جیسے نہیں۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر الماس بھی بے بسی سے رونے لگیں۔وہ دونوں جانتے تھے کہ وہ کچھ بھی کر لیں ان کی معصوم بچیوں کے مقدر میں کسی درندے کا ساتھ ہی لکھا تھا۔

           🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان نہانے کے بعد کپڑے بدل کر اپنے گیلے بالوں میں کنگی کر رہی تھی جب گل اسکے پاس آئی اور پاس بیٹھ کر ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی۔

مرجان کے برعکس گل کی آنکھیں سنہری ہونے کی بجائے نیلی تھیں اور جب وہ مسکراتی تھی تو دونوں گالوں میں گڈھے پڑتے تھے۔سفید رنگ پر اسکے گال ہمیشہ گلاب کی ماند دمکتے رہتے تھے شائید اسی لیے اماں نے اسکا نام گلِ لالہ رکھا تھا۔

"باجی۔۔۔۔"

"ہمممم۔۔۔۔"

مرجان نے مسکرا کر گل کو دیکھا۔

"کیا تمہیں سچ میں ویرہ لالا شادی کرنی ہے؟"

گل کے سوال پر مرجان کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکان آئی اور اس نے ہاں میں سر ہلایا۔

"توبہ اگر میری ان سے شادی ہو رہی ہوتی تو میں رو رو کر مر جاتی مجھے تو بہت ڈر لگتا ہے ان سے۔۔۔۔"

گل نے منہ بنا کر کہا تو مرجان ہلکا سا ہنس دی۔

"تمہیں تو ہر آدمی سے ہی ڈر لگتا ہے کوئی ایک بھی ایسا ہے جس سے تمہیں ڈر نہیں لگتا؟"

مرجان کے سوال پر گل گہری سوچ میں ڈوب گئی۔

""دلاور لالا سے۔۔۔"

اپنی بہن کے معصوم جواب پر مرجان ہنستے ہوئے کنگھی کرنے لگی۔یہ گل کا قصور نہیں تھا کہ وہ اتنی ڈرپوک تھی ان کا باپ ان کے ساتھ سلوک ہی ایسا کرتا آیا تھا کہ گل کو دلاور کے علاؤہ ہر آدمی سے ڈر لگتا تھا۔

"تم خوش ہے باجی؟"

گل نے پھر سے پوچھا تو مرجان نے ہاں میں سر ہلایا۔

"کیوں۔۔۔؟"

اس سوال پر مرجان زرا سا ہچکچائی۔

"مم۔۔۔مجھے نہیں پتہ گل۔۔۔بس وہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔کیوں اچھے لگتے ہیں یہ مجھے نہیں پتہ لیکن ثانیہ۔۔۔۔ثانیہ کہتی ہے کہ مجھے ان سے محبّت ہے اس لیے اچھے لگتے ہیں۔۔۔"

مرجان نے آخری بات آہستہ آواز میں کہی لیکن پھر بھی کمرے میں داخل ہونے والی انکی ماں یہ بات سن چکی تھی۔

"گل تم دلاور کے پاس جاؤ۔۔۔"

اپنی ماں کا حکم مانتی گل اٹھ کر وہاں سے چلی گئی اور الماس مرجان کے پاس آئی جو اضطراب سے اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔

"اا۔۔۔۔اماں میں نے نہیں ثانیہ نے کہا تھا یہ۔۔۔۔"

مرجان نے صفائی دینا چاہی مگر اپنی ماں کو خاموش دیکھ کر وہ مزید گھبرائی تھی۔

"ششش۔۔۔شوہر سے تو محبت کرتے ہیں ناں اماں نہ کریں تو گناہ ہوتا ہے۔۔۔قرآن پاک پڑھاتے ہوئے آپ نے ہی بتایا تھا۔۔۔"

مرجان نے سہم کر کہا تو الماس اسکے پاس آئیں اور اسے اپنے گلے سے لگا کر رونے لگیں۔

"لیکن تمہارا ہونے والا شوہر محبت کے قابل نہیں مرجان۔۔۔تم کیسے اس سے محبت کر سکتی ہو کیسے۔۔۔"

مرجان اپنی ماں سے دور ہوئی اور شرمیلی سی مسکان کے ساتھ انکو دیکھا۔

"مجھے نہیں پتہ بس وہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔۔میں بہت خوش ہوں ان سے شادی ہونے پر۔۔۔"

مرجان نے اتنا کہا اور اپنے بال چوٹی میں باندھنے لگی جبکہ الماس اسکی بات پر بے چین ہوئی تھی۔وہ نہیں چاہتی تھی اسکی بیٹی کا معصوم دل ٹوٹ جائے۔

"تم اس شادی سے خوش کیسے ہو سکتا ہے مرجان تمہارا باپ تمہارا شادی ایک سفاک درندے سے کر رہا ہے جس کے دل میں ہر ایک کے لیے بس نفرت ہے۔۔۔۔"

یعقوب کا فیصلہ سننے کے بعد اپنے گھر واپس جاتے ویرہ کے قدم کمرے سے آنے والی آواز پر رکے اور اس نے کھڑکی میں سے اس ماں کو دیکھا جو صدمے کی حالت میں اپنی سولہ سالہ بیٹی کو بتا رہی تھی جبکہ وہ بیٹی اپنے باپ کے حکم پر خوشی خوشی نکاح کے لیے تیار ہو رہی تھی۔

"اپنی اور اسکی عمر کا فرق دیکھو پندرہ سال بڑا ہے وہ تم سے۔۔۔۔اور تم۔۔۔۔تم کیسے کر سکتا ہے اس سے شادی مرجان کیسے۔۔۔۔"

اس بے بس ماں نے روتے ہوئے کہا اور ویرہ چاہ کر بھی وہاں سے جا نہیں سکا۔وہ اس بارے میں اپنی ہونے والی بیوی کا جواب سننا چاہتا تھا۔

"مجھے وہ پسند ہیں اماں۔۔۔۔اپنی ہر خامی کے ساتھ مجھے پسند ہیں۔۔۔"

مرجان نے ایک شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے پٹھانی بڑی سی ماتھا پٹی اپنے سر پر لگائی جبکہ اسکی بات پر باہر کھڑے ویرہ نے اپنی مٹھیاں غصے سے بھینچ لیں۔

"پاگل ہو گیا ہے مرجان۔۔۔وہ آدمی کبھی پیار نہیں کرے گا تجھ سے نفرت ہے اسے ہر ایک انسان سے۔۔۔۔ویرہ ہے وہ جانتی ہے ویرہ کسے کہتے ہیں دہشت کو اور وہ بس دہشت ہے اسکے سوا کچھ نہیں۔"

اسکی ماں نے روتے ہوئے اسے سمجھایا لیکن مرجان کے چہرے کی مسکان جوں کی توں تھی۔اس نے چھوٹے سے شیشے میں اپنا خوبصورت پٹھانی حسن شرما کر دیکھا تھا۔

"کوئی بات نہیں میری محبت انہیں مجھ سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی دیکھنا اماں وہ میری ہی محبت ہو گی جو ان کو سب سے محبت کرنے پر مجبور کرے گی۔"

مرجان نے بھرپور یقین سے کہا اور باہر کھڑے ویرہ کی بس ہوئی تھی۔وہ جھٹکے سے دروازہ کھولتا چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا اور مرجان کو گھورنے لگا جو ہڑبڑا کر اسے دیکھ رہی تھی۔

"مجھے مرجان سے اکیلے میں بات کرنی ہے آپ باہر جائیں۔۔۔"

ویرہ نے کہا تو مرجان کی ماں سے تھا لیکن اسکا سارا دھیان مرجان پر تھا۔وہ ماں نہ چاہتے ہوئے بھی کمرے سے باہر نکل گئی۔ان کے قبیلے میں کہاں عورت کو کوئی اہمیت حاصل تھی۔

"کیا بکواس کر رہی تھی تم بہت خوش ہو مجھ سے شادی ہونے پر؟"

ویرہ کے غصے سے پوچھنے پر مرجان سہم کر دو قدم پیچھے ہوئی تھی لیکن پھر اس نے ہمت کرنے کا فیصلہ کیا۔آخر کار وہ مرد اسکی چاہت تھا اسکا ہونے والا شوہر۔

"ججج۔۔۔جی مم۔۔۔میں خوش ہوں بہت۔۔۔"

اتنی سی بات پر مرجان کا چہرہ شرم سے دہک گیا تھا لیکن مقابل کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی اسی لیے وہ آگے بڑھا اور اسکی نازک گردن اپنے مظبوط ہاتھ میں سختی سے دبوچ لی۔

"میں نہیں چاہتا کہ تم خوش ہو میں چاہتا ہوں کہ جب تم مجھے قبول کرو تو تمہاری آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر خوف ہو کیونکہ ساری زندگی ان کے سوا تمہیں مجھ سے کچھ نہیں ملنے والا تو ابھی سے عادت ڈال لو۔۔۔۔"

ویرہ کے غرانے پر وہ نازک لڑکی سہم کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔نازک بدن سوکھے پتے کی مانند کانپنے لگا تھا گلابی لب کپکپا کر کسی کو بے چین کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔

"آآ۔۔۔۔آپ۔۔سے مم۔۔۔محبت ہے مجھے۔۔۔ممم۔۔۔میں کیوں رو کے قبول کروں میں۔۔۔۔خوش۔۔۔"

مرجان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ویرہ نے اسکی گردن پر اتنا دباؤ بڑھا دیا کہ مرجان کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔

"نفرت ہے مجھے خوشی سے۔۔۔۔نفرت ہے مجھے محبت سے،نفرت ہے مجھے تم سے۔۔۔۔محبت ہے ناں تمہیں مجھ سے دیکھتے ہیں کب تک جھیلے گی تمہاری یہ محبت ویرہ کی نفرت کو۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر ویرہ نے جھٹکے سے اسے چھوڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔اسکے جاتے ہی بہت سے آنسو مرجان کی آنکھوں سے بہے تھے۔

"مم۔۔۔میں پھر بھی آپ سے محبت کروں گی۔۔۔۔ہمیشہ کروں گی۔۔۔۔پھر دیکھنا آپ کی نفرت ہار جائے گی میری محبت کے آگے۔۔۔۔"

اسکی بے جا نفرت دیکھنے کے باوجود مرجان نے پورے یقین سے کہا مگر وہ معصوم نہیں جانتی تھی کہ جس بے رحم کو وہ دل دے بیٹھی تھی اسے نفرت کے سوا کچھ کرنا ہی نہیں آتا تھا۔

           🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

شام ہو چکی تھی اور نکاح کا وقت بھی۔ویرہ اس وقت نکاح خواں کے ساتھ یعقوب خان کے کمرے میں بیٹھا تھا جبکہ نکاح خواں ضروری معلومات نکاح نامے پر لکھ رہا تھا۔

"دلہے کا نام؟"

نکاح خواں نے ویرہ سے پوچھا۔

"ویرہ۔۔۔"

ویرہ نے سنجیدگی سے اپنی پہچان بتائی جو کتنے ہی سالوں سے اس کی ذات کا حصہ تھی۔

"نکاح کے لیے اصلی نام شرط ہے بیٹا اور اصلی ولدیت بھی۔۔۔"

اس بات پر ویرہ کرب سے اپنی آنکھیں موند گیا۔وہ پہچان جو اسے تکلیف دیتی تھی آج اس نکاح کی وجہ سے پھر سے وہ پہچان پھر سے اسکا حصہ بننے جا رہی تھی۔

"عبداللہ۔۔۔۔عبداللہ میر۔۔۔"

ویرہ نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔

"ولدیت ؟"

اس سوال پر ویرہ کی آنکھوں میں خون اترا انیس سال پہلے کا ہر منظر پھر سے اسکی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا تھا۔

"سجاد میر۔۔۔"

ویرہ نے کرب سے کہا تو نکاح خواں نے اثبات میں سر ہلایا اور یہ معلومات نکاح نامے پر لکھنے لگا۔یعقوب نے اپنا ہاتھ ویرہ کے ہاتھ پر رکھا۔

"فکر مت کرو ویرہ تمہاری پہچان تمہارا راز ہے تمہارے خاص آدمی ہی بس نکاح کے گواہان کی صورت میں شامل ہوں گے۔۔۔۔"

ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔کچھ دیر کے بعد ہی الماس گھونگھٹ میں لپٹی مرجان کو وہاں لائی اور چند آدمی بس گواہی کے لیے وہاں آئے تھے۔اس سب کے ساتھ ہی نکاح کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

"مرجان خان ولد یعقوب خان آپ کا نکاح عبداللہ میر ولد سجاد میر کے ساتھ حق مہر چار لاکھ سکہ رائج الوقت میں ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"

نکاح خواں کے سوال پر مرجان کے ہاتھوں میں لرزش سی ہوئی تھی۔

"عبداللہ۔۔۔"

وہ نام مرجان نے ہلکا سا زیر لب دہرایا اسے اپنے شوہر کا نام دل سے پسند آیا تھا۔اتنا تو سب جانتے تھے کہ ویرہ اسکا اصلی نام نہیں تھا لیکن کوئی بھی اسکا اصلی نام نہیں جانتا تھا اور اب مرجان ان چند لوگوں میں سے تھی جو یہ راز جانتے تھے۔اس شخص کی ہمراز بن کر مرجان کو اپنا آپ بہت خوش قسمت لگ رہا تھا۔

"قبول ہے۔۔۔۔"

مرجان نے آہستہ سے کہا اور تینوں مرتبہ پوچھے جانے پر یہی جواب دہرا دیا۔مرجان سے نکاح نامے پر انگوٹھا لگوا کر نکاح خواں ویرہ کی جانب مڑا۔

"عبداللہ میر ولد سجاد میر آپ کا نکاح مرجان خان ولد یعقوب خان کے ساتھ حق مہر چار لاکھ روکے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔"

ویرہ نے گہرا سانس لے کر اپنی آنکھیں موند لیں۔وہ ایک زندگی اپنے ساتھ جوڑنے جا رہا تھا۔ایک نیا رشتہ بنانے جا رہا تھا اور ایسا نہ کرنے کی قسم وہ انیس سال پہلے کھا چکا تھا ۔

دل کیا کہ انکار کر دے اور پھر اس لڑکی کا نکاح راگا سے ہو جائے گا اور ویرہ کا اس سب سے کوئی ناتا نہیں رہے گا تو کیا ہوا راگا جیسا سفاک درندہ چند دنوں میں ہی اس معصوم سی موم کی گڑیا کو توڑ کر رکھ دے گا۔وہ ویرہ کی زمہ داری تو نہیں جو وہ اسکی پرواہ کرے۔

"قبول ہے۔۔۔"

اپنے دماغ میں اٹھنے والی جنگ کے باجود ویرہ نے کہا اور پھر وہاں مبارکباد کا شور اٹھا۔الماس نے مرجان کو اٹھایا اور وہاں سے لے جانے لگیں۔

"آن آدمیوں کے ساتھ جا کر مرجان کو ویرہ کے گھر چھوڑ آؤ الماس آج سے وہ اپنے شوہر کے گھر رہے گی۔"

اپنے باپ کی بات پر مرجان کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔الماس اسے وہاں سے لے گئیں تو ویرہ بھی وہاں سے چلا گیا۔ابھی وہ کچھ دور ہی گیا تھا جب اسکا سامنا راگا اور کال سے ہوا۔

راگا نے اسے دیکھتے ہی اپنے گلے سے لگایا۔

"شادی خانہ آبادی مبارک لالے کی جان۔۔۔۔"

راگا کی بات پر ویرہ نے اس سے دور ہو کر اثبات میں سر ہلایا۔

"مبارک ہو ویرہ تمہاری تو زندگی بن گئی اور کہاں ہم دونوں کنوارے رہ گئے۔۔۔"

کال نے شرارت سے کہا تو راگا اسکی بات پر ہنس دیا۔

"ویسے قسمت ہے تمہاری دوست سولہ برس کی بالی عمر والی اتنی حسین بیوی ملی ہے تمہیں تمہاری تو زندگی بھر کے لیے چاندی ہو گئی خاص طور پر تمہاری آج کی رات تو بہت رنگین۔۔۔۔"

ابھی کال کے الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب ویرہ نے اسکی گردن اپنے مظبوط ہاتھ میں دبوچی اور لال ہوتی انگارہ آنکھوں سے اسے گھورنے لگا۔

"وہ میری بیوی ہے کال آج کے بعد ایسے الفاظ سوچ سمجھ کر اپنی زبان پر لانا ورنہ کچھ کہنے والی تمہاری زبان ہی باقی نہیں رہے گی۔"

اتنا کہہ ہر ویرہ نے جھٹکے سے کال کو چھوڑا اور وہاں سے چلا گیا۔

"مرے گا تو اس کے ہاتھوں ماڑا۔۔۔"

راگا نے ہنستے ہوئے کال کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ویرہ اپنے گھر پہنچتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں گیا جہاں اسکا سامنا مرجان سے ہوا جو اسے دیکھتے ہی گھبرا کر کھڑی ہوئی تھی۔

ملٹی رنگ کے کھلے سے فراک شلور میں ملبوس ماتھے پر بڑی سی ماتھا پٹی اور سر پر دوپٹہ سجائے وہ کسی مجرم کی مانند سر جھکا کر ویرہ کے سامنے کھڑی تھی جبکہ ہاتھوں کی لرزش اسکی گھبراہٹ عیاں کر رہی تھی۔

"مجھے سونا ہے تم دوسرے کمرے میں جا کر سو جاؤ۔۔۔"

ویرہ نے اپنے کندھوں سے گرم چادر اتار کر سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔

"ججججی۔۔۔؟"

مرجان نے گھبرا کر پوچھا کیا وہ اسے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں رکھنا نہیں چاہتا تھا۔

"ایک بار میں سنائی نہیں دیا چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔"

ویرہ نے غصے سے کہا تو مرجان سہم کر دو قدم دور ہوئی اور نم آنکھیں اٹھا کر ویرہ کو دیکھا۔ویرہ کی نظر ان نم سنہری آنکھوں میں  اٹک سی گئی تھی۔پھر وہاں سے نظر بھٹکتی کپکپاتے ہوئے گلابی لبوں پر گئی تو ویرہ اپنی آنکھیں موند گیا۔

"مجھے اکیلے رہنے کی عادت ہے اس لیے بہتر ہے تم دوسرے کمرے میں چلی جاؤ۔۔۔"

اب کی بار ویرہ نے زرا نرمی سے کہا تو مرجان نے اثبات میں سر ہلایا اور دوسرے کمرے میں آ گئی لیکن وہاں چند صندوقوں اور کھانے پکانے کے سامان کے سوا کچھ نہیں تھا۔

مرجان نے صندوق میں دیکھا کہ شائید اسے زمین پر بچھانے کے لیے کچھ مل جائے لیکن وہاں ایسا کچھ نہ پا کر وہ بے چینی سے یہاں وہاں ٹہلنے لگی۔

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔وہ واپس ویرہ کے کمرے میں جا کر اپنے شوہر کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ یہاں سوتی کہاں۔

گھنٹہ کمرے میں ٹہلنے کے بعد جب وہ تھک گئی تو واپس ویرہ کے کمرے میں آ گئی۔ویرہ جو آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا تھا اسکے آنے کی آہٹ پر اس نے بازو ہٹا کر اسے دیکھا۔

"وہ۔۔۔۔وہ دوسرے کمرے میں سونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ممم۔۔۔۔کیں کہاں سوؤں۔۔۔۔"

ویرہ نے گہرا سانس لیا اور کمرے میں پڑی کرسی کی جانب اشارہ کیا۔

"وہاں بیٹھ جاؤ اور اب تمہاری آواز نہ آئے مجھے ایسے ہونا جیسے یہاں ہو ہی نہیں۔۔۔"

اتنا کہہ کر ویرہ نے کروٹ بدل کر اسکی جانب کمر کر لی۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس رشتے کا احساس اسکے دل میں کوئی خواہش پیدا کرے۔وہ اس پر اپنا کوئی حق یا تقاضا جتانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ ایک تو وہ لڑکی اس اب کے لیے بہت کم عمر تھی اور دوسرا وہ اسے خود سے جوڑ کر اسکے دل میں کوئی ارمان پیدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اسے یہ بات سمجھنی تھی کہ اسکے مقدر میں اسکے شوہر کی محبت نہیں لکھی۔آدھی رات تک نیند کی دیوی ویرہ پر مہربان نہیں ہوئی۔ویسے بھی اسے نیند کہاں آتی تھی وہ رات میں بمشکل دو گھنٹے ہی سونے کا عادی تھا۔

ویرہ نے کروٹ لی تو اسکی نظر مرجان پر پڑی جو اسکی اتاری گئی چادر اپنے گرد لپیٹ کر کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو رہی تھی۔ٹانگیں بھی اس نے کرسی پر رکھی تھیں اور خود کو پوری طرح سے چادر سے لپیٹا تھا بس وہ معصوم چہرہ نظر آ رہا تھا جو وہ ٹیڑھا کر کے اپنے بازو پر رکھے سوئی تھی۔

اسے دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکا تھا کہ وہ کس قدر بے آرام تھی۔صبح تک تو وہ نازک وجود اکڑ جاتا اور اوپر سے وہ چادر سردی کو روکنے کے لیے ناکافی تھی۔

ویرہ نے خود کو بہت سمجھایا کہ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں وہ جیسے مرضی رہے لیکن پھر خود ہی گہرا سانس لے کر اٹھا اور اس کے پاس آیا۔

سب سے پہلے اس نے وہ ماتھا پٹی اسکے سر پر سے اتاری اور پھر اسکا دوپٹہ بھی اس پر سے ہٹا دیا۔زرا سا جھک کر وہ پھولوں سا نازک وجود اپنی باہوں میں اٹھایا اور بستر پر لیٹا کر اپنا کمبل اس پر اوڑھا دیا۔

گرم کمبل ملتے ہی مرجان نے ایک خوشگوار آہ بھری اور گہری نیند میں ڈوب گئی۔ویرہ خود جا کر اس کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ نکال کر اسے پینے لگا۔

نظریں مسلسل اپنی بیوی پر تھیں جو معصوم سے حسن کی مالک اسکے احساسات کو اسی کے خلاف کر رہی تھی۔جواں دل کے جزبات نے الگ طلاطم مچا رکھا تھا جو اسے کہہ رہے تھے کہ اس نازک گڑیا سے اپنا ہر حق وصول کرے۔

ویرہ اسے بچپن سے جانتا تھا۔اس نے اس حسن کے باوجود کبھی نگاہ بھر کر اسے نہیں دیکھا تھا لیکن آج رشتہ بدل جانے پر پل بھر میں اسکا یہ حال کر دینے پر ویرہ اسے گھور رہا تھا۔

"تم مجھے نہیں بدل سکو گی کچھ بھی کر لو۔۔۔۔وہ عبداللہ گیارہ سال کی عمر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ مر چکا ہے اب یہ ویرہ کبھی بھی عبداللہ نہیں بنے گا۔۔۔"

ویرہ کا لہجہ پر عزم تھا۔اس نے خود سے قسم کھائی تھی کہ وہ اس لڑکی کو جس حد تک ہو سکے گا نظر انداز کرے گا۔اپنے دل میں محبت کی ہلکی سی چنگاری بھی نہیں جلنے دے گا لیکن وہ کہاں جانتا تھا عشق آتش تو دنیا جلا کر رکھ دیا کرتی ہے وہ بھلا کسی بشر کے قابو کیسے آتی۔

مرجان کی آنکھ فجر کی اذان پر کھلی تو اس نے اپنے آپ کو بستر پر پایا۔وہ حیرت سے اٹھ بیٹھی۔اسے یاد تھا کہ رات وہ کرسی پر سوئی تھی تو پھر یہاں کیسے آ گئی؟اس سوچ کے ساتھ مرجان نے کرسی کی جانب دیکھا تو اسکی نظر ویرہ پر پڑی جو کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو چکا تھا۔

"ککک۔۔۔۔کیا وہ مجھے کرسی سے بستر تک لایا؟"

یہ سوچ کی مرجان کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی۔وہ سمجھ گئی تھی اسکا شوہر جتنا سنگدل بننے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہے نہیں۔اچانک ہی ایک خیال مرجان کے ذہن میں آیا۔

"لیکن وہ مجھے یہاں لایا کیسے؟کک۔۔۔۔کیا مجھے اٹھا۔۔۔"

یہ سوچتے ہی مرجان اپنے پاؤں کے ناخن تک سرخ ہوئی اور جلدی سے اٹھ کر کمرے سے باہر موجود واش روم میں چلی گئی۔وضو کر کے وہ واپس کمرے میں آئی اور جائے نماز تلاش کرنے لگی لیکن وہاں ایسا کچھ نہ پا کر وہ دوسرے کمرے میں گئی۔آخر کار اسے ایک صندوق میں سے جائے نماز ملا تو اس نے وہ زمین پر بچھایا اور نماز ادا کرنے لگی۔

ویرہ کی آنکھ اچانک کھلی تو پہلی نگاہ بستر پر پڑی لیکن وہاں کسی کو نہ پا کر اسکے ماتھے پر بل آئے۔وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آیا تو اسکی نگاہ ساتھ والے کمرے میں جلتی لائٹ پر پڑی۔

وہ حیرت سے اس کمرے کی جانب بڑھا اور دروازہ کھولنے پر اپنی بیوی کو دیکھا جو دنیا جہان سے بے خبر جائے نماز فرش پر بچھائے نماز پڑھنے میں مصروف تھی۔

ویرہ کتنی ہی دیر وہاں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔اسکے ساتھ موجود آدمی تو باقاعدگی سے نماز ادا کرتے تھے لیکن ویرہ نماز نہیں پڑھتا تھا۔اس نے انیس سالوں سے نماز ادا نہیں کی تھی۔اچانک ہی بہت پرانا منظر اسکی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا۔

"عبداللہ۔۔۔۔عبداللہ بیٹا اٹھو نماز کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔۔۔"

اسکی ماں محبت سے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

"مجھے نیند آئی ہے ماما۔۔۔کل پڑھ لوں گا۔۔۔"

گیارہ سالہ اس بچے نے سستاتے ہوئے کہا۔

"بہت بری بات ہے بیٹا اٹھو ورنہ میں تمہارے بابا کو بتا دوں گی۔"

عبداللہ اس دھمکی کو نظر انداز کرتا سو چکا تھا اور کچھ دیر کے بعد کسی نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا تھا۔

"عبداللہ میر تمہاری ماں نے کہا ناں نماز کا وقت ہو گیا ہے تو اٹھ کیوں نہیں رہے تم؟"

سجاد نے زرا سختی سے اسے گھورتے ہوئے کہا تو عبداللہ نے منہ بنا کر اپنے باپ کو دیکھا۔

"بابا کیا نماز پڑھنا بہت ضروری ہے؟"

"ہاں بہت ضروری ہے اس کے بغیر ہمارے اچھے کاموں کا کوئی فایدہ نہیں ہمارے سب اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔۔۔"

سجاد نے محبت سے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے کہا۔

"اور اگر کسی کا نماز پڑھنے کا دل نہ کرے تو؟"

اس سوال پر سجاد کے ماتھے پر شکن نمایاں ہوئی۔

"تو اسکا مطلب ہے وہ اپنے رب سے دور ہو کر دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا ہے اسے چاہیے کے واپس اپنے رب کے قریب ہو۔"

سجاد نے اپنے بیٹے کا ماتھا چوم کر کہا۔

"اور اگر کسی کو نماز پڑھنے سے خوف آتا ہو تو اسکا کیا مطلب ہے۔۔۔"

سجاد نے حیرت سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔

"میرا دوست ہے وہ سب نمازیں پڑھتا ہے کچھ دن پہلے اس نے چوری کی تو اسکے بعد نماز نہیں پڑھی اس نے کہا مجھے نماز پڑھنے سے ڈر لگ رہا تھا۔"

عبداللہ نے ساری بات سجاد کو بتا دی تو وہ مسکرا دیے۔

"اسکا مطلب ہے بیٹا کہ اس کے گناہ کی وجہ سے اللہ اس سے ناراض ہے وہ اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگ لے اللہ اسے معاف کر دے گا۔۔۔"

عبداللہ نے اس بات پر ہاں میں سر ہلایا لیکن پھر پریشانی سے اپنے بابا کو دیکھا۔

"میرا نماز پڑھنے کا دل نہیں کرتا تو کیا اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی ناراض ہیں؟"

عبداللہ کی آواز میں بہت بے چینی تھی جسے محسوس کر سجاد مسکرا دیے۔

"نہیں بیٹا اللہ تعالیٰ تم سے ناراض نہیں کیونکہ تم تو عبداللہ ہو ناں مطلب اللہ کا بندہ تو کیا اللہ تعالیٰ اپنے اتنے پیارے بندے سے ناراض ہو سکتے ہیں۔۔۔۔"

سجاد نے عبداللہ کا گال نرمی سے کھینچ کر کہا۔

"بس اب کبھی نماز نہ پڑھنے کا یا کوئی بھی گناہ کرنے کا خیال دل میں آئے تو یہ بات یاد رکھ لینا کہ تم عبداللہ ہو اور اللہ کا بندہ گناہ گار نہیں ہوتا۔۔۔"

وہ منظر یاد کر کے ویرہ کرب سے اپنی آنکھیں موند گیا۔دل میں اٹھنے والے اس کرب پر وہ واپس مڑا اور اپنے کمرے میں آ کر بستر پر لیٹ گیا۔آنکھیں موند کر ان پر بازو رکھتے ہوئے اس نے خود کو اس کرب سے آزاد کرنے کی کتنی کوشش کی تھی لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔

اچانک ہی اسے اپنے بازو پر کسی کی سانسیں محسوس ہوئیں تو اس نے آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر مرجان کو دیکھا جو آنکھیں موندیں زیر لب کچھ پڑھ رہی تھی پھر اس نے ویرہ کے چہرے پر پھونک ماری اور مسکرا دی مگر جب آنکھیں کھولنے پر ویرہ کو خود کو گھورتا پایا تو گھبرا کر اسے دیکھنے لگی۔

"کیا کر رہی تھی تم۔۔۔؟"

سختی سے پوچھے گئے سوال پر مرجان نے گھبرا کر اسے دیکھا۔

"ککک۔۔۔کچھ نہیں بس آیت الکرسی پڑھ کر آپ پر پھونک ماری ہے۔۔۔۔ااا۔۔۔اس سے فرشتے آپ کی حفاظت کریں گے۔۔۔"

مرجان نے مسکرا کر کہا لیکن ویرہ کے چہرے کی شکن جوں کی توں تھی۔

"نہیں۔۔۔"

ویرہ کی آواز پر مرجان نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"فرشتے شیطان کی حفاظت نہیں کیا کرتے۔"

مرجان کی آنکھیں اس بات پر حیرت سے پھیل گئیں۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی ویرہ نے کروٹ لے کر اسکی جانب کمر کر لی۔

"مجھے سونا ہے کمرے سے باہر چلی جاؤ اور آج میں دوسرے کمرے میں بستر لگوا دوں گا تو میرے سامنے جتنا کم ہو سکے آنا۔۔۔ "

ویرہ اسے اتنا حکم دے کر خاموش ہو گیا اور مرجان کمرے سے باہر آ گئی۔معصوم دل اپنے شوہر کی باتوں سے بہت دکھی ہوا تھا۔نم آنکھیں اٹھا کر اس نے آسمان کی جانب دیکھا جہاں دن کی ہلکی ہلکی روشنی نمودار ہو رہی تھی۔

"شوہر کو بیوی سے اور بیوی کو شوہر سے محبت ہونی چاہیے ناں اللہ پاک یہی تو آپ کا حکم ہے یہی تو ہمارے نبی پاک کا فرمان ہے۔۔۔۔"

مرجان نے آنکھوں میں نمی سجا کر کہا۔

"میں ان سے محبت کرتی ہوں اللہ پاک دل سے کرتی ہوں۔۔۔۔ان کے دل میں بھی اتنی ہی محبت میرے لیے بھی ڈال دیں آپ کے بس میں کیا نہیں۔۔۔"

مرجان اتنا کہہ کر اپنی آنکھیں موند گئی اور دو آنسو ٹوٹ کر اسکے گال پر بہے تھے۔

"میرے شوہر کے دل میں میرے لیے محبت ڈال دیں اللہ پاک یہی میری سب سے بڑی التجا ہے۔۔"

مرجان نے نم آنکھوں سے تڑپ کر التجا کی تھی اور ایک معصوم دل کی دعا تو کسی عالم کی دعا سے بھی زیادہ طاقت رکھتی ہے۔

           🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

صبح کا سورج نکلتے ہی ایک آدمی ویرہ کے پاس کافی پریشانی کے عالم میں آیا۔اسکا کہنا تھا کہ یعقوب کی طبیعت کافی خراب ہے۔یہ بات سنتے ہی ویرہ اور مرجان یعقوب کے گھر چلے گئے۔راگا اور کال پہلے سے ہی وہاں موجود تھے اور ڈاکٹر یعقوب خان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

کچھ دیر بعد یعقوب خان کی تدفین کا انتظام کر دیا گیا تھا۔ان کے تینوں بچے انکی موت پر دکھی تھے وہ جیسا بھی تھا ان کا باپ تھا اور آج وہ تینوں یتیم ہو گئے تھے۔

انکی تدفین کے بعد سب آدمی ایک ساتھ جمع ہوئے تھے جب ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے بات شروع کی۔

"سردار یعقوب خان کی موت کا دکھ ہم سب کو ہے وہ بہت سالوں سے ہمارے راہبر رہے تھے۔"

اسکی بات پر باقی آدمیوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

"لیکن اب ہمیں اگلا سردار چننا ہے کیونکہ اسکے بغیر ہم بکھر سکتے ہیں۔"

اس بات پر ویرہ نے گہرا سانس لیا۔کتنی جلدی ہوتی ہے انسان کو ایک آدمی کے جاتے ہی اسکی خالی جگہ بھرنے کی۔

"سردار یعقوب خان نے سرداری کے لیے راگا اور ویرہ کو چنا تھا اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم اپنی مرضی سے ان دونوں میں سے جسے چاہیں سردار بنا لیں۔"

اس آدمی نے اتنا کہہ کر راگا کی جانب دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے ایک کونے میں کھڑا تھا۔

"راگا۔۔۔ "

اس کے پکارنے پر راگا اسکے پاس گیا تو اس آدمی نے ویرہ کو دیکھا جو سرد آہ بھر کر راگا کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔

"اب یہ آپ کا فیصلہ ہو گا کہ ان دونوں بہادروں میں سے ہمارا راہنما کون بنے۔۔۔"

سب آدمیوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

"تو جو لوگ راگا کو سردار بنانے کے حق میں ہیں وہ اپنا ہاتھ کھڑا کریں۔"

اس حکم پر پہلے آدمیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کوئی تیس کے قریب آدمیوں نے ہاتھ کھڑا کیا۔اس آدمی نے انکی گنتی کی اور پھر انہیں ہاتھ نیچے کرنے کو کہا۔

"اب وہ لوگ ہاتھ کھڑا کریں جو ویرہ کو سردار دیکھنا چاہتے ہیں۔"

اس بار آدمیوں نے ایک دوسرے کے کانوں میں سر گوشیوں میں اور تقریباً پچاس کے قریب آدمیوں نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔یہ دیکھ کر راگا کے ہونٹوں کو ایک مسکان نے چھوا اور اس نے اپنا ہاتھ ویرہ کے کندھے پر رکھا۔

"تو آج سے ہمارا سردار ویرہ ہو گا ماڑا اور مجھے یقین ہے یہ ہمارے لیے بہتریں سرداد ثابت ہو گا۔"

راگا کی بات پر سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

"کچھ کہنا چاہو گے لالے کی جان۔۔۔"

راگا کے سوال پر ویرہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر سب آدمیوں کی جانب متوجہ ہوا۔

"جانتا ہوں آپ سب نے مجھے سردار کیوں چنا کیونکہ آپ سب مجھے بچپن سے جانتے ہیں جبکہ راگا کو محض ایک سال سے۔"

ویرہ کی بات پر سب آدمیوں نے ہاں میں سر ہلایا۔

"آپ سب کو لگتا ہے کہ میں آپ کے لیے بہترین ثابت ہوں گا لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا۔"

راگا سمیت سب نے حیرت سے ویرہ کی جانب دیکھا۔

"میں وہ کبھی نہیں ہو سکتا جو راگا ہے۔۔۔۔"

ویرہ نے ایک نظر اپنے ساتھ  کھڑے راگا کو دیکھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"میں نہ تو اسکی طرح سفاک ہو سکتا ہوں اور نہ ہی اتنا چالاک ہو سکتا ہوں۔"

اتنا کہہ کر ویرہ لوگوں کی جانب متوجہ ہوا۔

"اس لیے میرے خیال میں سب سے بہترین سردار میں نہیں راگا ہو سکتا ہے جو ہمیں دشمن کی ہر سازش سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے۔"

ویرہ نے اپنا ہاتھ راگا کے کندھے پر رکھا۔

"مجھے سردار بنانے کا آپ سب کا فیصلہ مجھے دل سے قبول ہے لیکن میں سردار ویرہ ہم سب کی بہتری کے لیے راگا کو سردار بناتا ہوں۔۔۔امید کرتا ہوں آپ سب کو میرے فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔"

ویرہ کی بات پر سب آدمی ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگے پھر ایک آدمی کھڑا ہوا۔

"آپ کا حکم سر آنکھوں میں سردار ویرہ،آپ نے بہتر ہی سوچا ہو گا آج سے راگا ہم سب کا سردار ہے۔۔۔۔"

سب لوگوں نے متفق ہو کر اثبات میں سر ہلایا کچھ دیر کے بعد ہی چھوٹی سی تقریب کی گئی اور راگا کی دستار بندی کر کے اسے اگلا سردار چن لیا گیا۔شام تک وہ لوگ وہیں رہے تھے۔

اندھیرا ہونے پر جب ویرہ واپس گھر جانے لگا تو اسکے کان میں راگا کی آواز پڑی۔

"ویرہ ۔۔۔۔"

راگا کے پکارنے پر ویرہ نے پلٹ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"تم نے ایسا کیوں کیا ویرہ؟اپنی جگہ مجھے سردار کیوں بنوایا؟"

"کیونکہ تم ہر لحاظ سے اس کے اہل ہو۔"

ویرہ نے سنجیدگی سے کہا تو راگا مسکرا دیا۔

"کبھی تمہیں مجھ پر اور کال پر بھروسہ نہیں تھا تو میں اب کیا سمجھوں کہ تمہیں مجھ پر بھروسہ ہو گیا ہے؟"

راگا نے مسکرا کر پوچھا۔

"اگر بھروسہ نہ ہوتا تو میں ایسا نہیں کرتا۔۔۔"

راگا نے ہاں میں سر ہلایا۔

"ہم ایک جٹ ہو کر کام کریں گے ویرہ ایک دوسرے کی طاقت بن کر دشمن کو نیست و نابود کر دیں گے۔"

ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

"مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا تمہارے دل میں جو آئے کرو میری زندگی کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ میری وجہ سے ہر کوئی تکلیف میں رہے اور جب تک میرا یہ مقصد پورا ہوتا رہے گا تو تم سردار رہو یا کوئی اور مجھے فرق نہیں پڑتا۔"

راگا نے اسکی بات پر مسکرایا۔

"تو زندگی سے ہر وقت بے زرا کیوں رہتا ہے لالے کی جان کبھی مسکرا بھی لیا کر۔"

راگا نے شرارت سے اسکا کندھا تھپتپایا۔

"کیونکہ مجھے مسکرانے سے نفرت ہے،اس دنیا، اس زندگی سے نفرت ہے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر ویرہ اپنے گھر کی جانب چل دیا جبکہ راگا وہیں کھڑا اس عجیب آدمی کے بارے میں سوچتا رہا جسے سب ویرہ کہتے تھے۔

          🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

یعقوب خان کو گزرے ایک ہفتے سے اوپر کا وقت ہو چکا تھا اور مرجان آج اپنے گھر واپس آئی تھی۔اتنے دنوں سے وہ اپنی ماں اور بہن بھائی کے پاس ہی تھی لیکن آج الماس نے اسے اسکے گھر جانے کا اور اپنے شوہر کا خیال رکھنے کا حکم دیا تھا۔

اسے اپنے باپ کے مر جانے کا کوئی بہت غم نہیں تھا وہ بہت اچھا باپ ثابت نہیں ہوا تھا لیکن تنہا اور بے سہارا ہونے کا خوف ان سب پر حاوی تھا۔فلحال مرجان کی سب سے بڑی پریشانی اسکا بھائی دلاور تھا جس کی بیماری اسکے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔لیکن کوئی بھی کیا کر سکتا تھا اسکا علاج اس چھوٹے سے گاؤں میں تو ناممکن ہی تھا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی مرجان اس کمرے میں آئی جہاں چند صندوق اور باورچی خانے کا سامان تھا جو ایسا لگ رہا تھا کہ صدیوں سے استعمال نہیں ہوا۔

ہوتا بھی کیوں ویرہ کو کھانا انکے گھر سے ہی جاتا تھا لیکن اب مرجان ایسا نہیں چاہتی تھی وہ اس گھر کو اپنا گھر بنا کر سنوارنا چاہتی تھی۔

اس نے دوپٹہ اتار کر کمر پر باندھا اور گھر کی صاف صفائی کرنے لگی۔دونوں صندوق اس نے کمرے کے ایک کونے میں کر دیے اور ان میں سے کپڑے نکال کر ایک میں ویرہ کے اور ایک میں خود کے کپڑے طے کر کے رکھنے لگی۔

پھر باورچی خانے کا سامان اٹھا کر ساتھ والے کمرے میں لے گئی جو کہ خالی تھا اور بند ہونے کی وجہ سے کافی گندہ تھا۔کمرے کو اچھی طرح سے صاف کرنے کے بعد اس نے باورچی خانے کا سارا سامان وہاں سیٹ کیا اور پھر ویرہ کے کمرے میں آ گئی جو باقی گھر کی نسبت صاف ستھرا تھا بس زرا سی سیٹنگ کرنے کی ضرورت تھی۔

مرجان نے جی جان سے وہ بھی کمرہ سیٹ کیا اور ویرہ کے کپڑے پکڑ کر ایک ٹوکری میں ڈال دیے انہیں وہ کل جھیل پر دھونے کا ارادہ رکھتی تھی۔

اس کے فارغ ہونے تک افق پر شام کے سائے نمودار ہونے لگے تھے۔وہ اتنا کام کر کے کافی تھک چکی تھی لیکن پھر بھی کھانا پکانے کے ارادے سے باورچی خانے میں آئی لیکن وہاں پکانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔

مرجان کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے آخر وہ اپنے شوہر کو بھوکا تو نہیں رہنے دے سکتی تھی۔وہ بے چینی سے یہاں وہاں ٹہل رہی تھی جب ویرہ گھر میں داخل ہوا اور اپنے چھوٹے سے گھر کو صاف ستھرا دیکھ کر حیران رہ گیا اور پھر اسکی نظر مرجان پر پڑی جو کافی بے چین نظر آ رہی تھی۔

"تم کیوں آئی ابھی کچھ دن تمہیں وہیں رکنا چاہیے تھا۔"

ویرہ نے بستر پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتارتے ہوئے کہا جب مرجان پانی کا گلاس لے کر آئی اور اسے ویرہ کے سامنے کیا۔

" اچھی بیویاں زیادہ دن گھر سے دور نہیں رہتا۔۔۔"

ویرہ نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا اور پانی کا گلاس پکڑ کر پینے لگا۔مرجان بے چینی سے اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔

"کیا بات ہے؟"

ویرہ نے اسکی پریشانی دیکھ کر پوچھا۔

"وہ گھر۔۔۔کھانا پکانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ہم آج بھوکا سوئے گے کیا۔۔۔۔؟"

مرجان نے معصومیت سے پوچھا تو ویرہ نے گہرا سانس لیا۔

"پہلے کھانا تمہارے گھر سے آتا تھا تو کبھی کچھ لانے کی ضرورت نہیں پڑی۔"

ویرہ نے سنجیدگی سے کہا۔

"جی لیکن اب آپ کا بیوی آ گیا ہے ناں کھانا بنانے کے لیے۔۔۔"

مرجان نے اسکے ہاتھ سے گلاس پکڑتے ہوئے کہا۔

"ہممم مجھے بتا دینا تمہیں کس کس چیز کی ضرورت ہے کل میں سب لے آؤں گا۔۔۔"

ویرہ کا انداز جان چھڑانے والا تھا۔

"لیکن آج ہم کیا کھائے گا زما پاچا"

مرجان کی بات پر ویرہ نے بھویں اچکا کر اسے دیکھا۔

"پاچا؟"

اس بات پر مرجان کے گال گلاب کی ماند دہک اٹھے۔

"جی پاچا بادشاہ کو کہتا ہے ناں پشتو میں اور آپ بھی تو ہمارا بادشاہ ہے تو اس لیے آپ کو پاچا بلایا۔۔۔"

مرجان نے وضاحت دنیا چاہی تو ویرہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

"کیا میں آپ کو پاچا بلا لیا کروں؟"

ویرہ نے اپنے کندھے اچکا دیے تو مرجان مسکرا دی۔

"تو آج ہم کیا کھا۔۔۔"

ابھی الفاظ مرجان کے منہ میں ہی تھے جب دروازہ کھٹکنے لگا۔مرجان ٹھیک سے دوپٹہ لیتے ہوئے دروازے کے پاس آئی تو وہاں دلاور کو دیکھ کر مسکرا دی۔

"لالا آپ؟"

مرجان کو دیکھ کر دلاور بھی مسکرایا۔

"امی نے کھانا بھیجا ہے باجی۔۔۔۔"

دلاور نے رومال میں لپیٹا کھانا مرجان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو اپنی ماں کی محبت پر مرجان کی پلکیں بھیگ گئیں۔شائید اسی لیے ماں کا درجا سب سے افضل ہے کیونکہ وہ دل کی باتیں بھی سمجھ جایا کرتی ہے۔

دلاور کھانا پکڑا کر واپس چلا گیا اور مرجان باورچی خانے میں آ کر سلیقے سے کھانا نکالنے لگی۔آج تو خدا نے انکے رزق کا بندوبست کر دیا تھا لیکن کل سے وہ خود ہی اپنی زمہ داری سنبھالنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

کھانا لے کر وہ ویرہ کے پاس آئی تھی۔دونوں نے مل کر کھانا کھایا تو وہ برتن لے کر باورچی خانے میں چلی گئی اور صاف کرنے کے بعد واپس کمرے میں آ گئی۔

ویرہ جو سونے کی تیاری کر رہا تھا اسے وہاں کھڑے ہو کر انگلیاں چٹخاتے دیکھ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

"اب کیا ہوا؟"

"میں کہاں سوؤں پاچا؟"

اسکی بات پر ویرہ کو یاد آیا کہ اس نے اسکے علیحدہ کمرے میں سونے کا بندوبست کرنا تھا۔ویرہ نے اسے بستر کی جانب اشارہ کیا اور خود جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔

مرجان اسکا حکم مانتی خاموشی سے بستر پر لیٹ گئی اور ویرہ نے اپنی گرم چادر لیتے ہوئے سگریٹ سلگا کر ہونٹوں میں دبا لی۔مرجان کچھ دیر خاموشی سے لیٹی رہی پھر پریشانی سے اسے دیکھا۔

"پاچا۔۔۔"

"ہممم۔۔۔۔"

ویرہ نے سگریٹ کا گہرا کش بھرتے ہوئے پوچھا۔

"آپ وہاں کیسے سوئے گا؟"

"تو تم کیا کہتی ہو کہاں سوؤں میں؟"

ویرہ نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تو مرجان پہلے تو خاموش رہی پھر اس نے اپنا کانپتا ہاتھ اپنے ساتھ موجود خالی جگہ پر رکھا۔

"یہاں میرے پاس سو جائیں۔۔۔"

مرجان کی بات پر ویرہ کی آنکھوں میں عجیب سی تپش آئی۔

"وہاں آیا تو نہ خود سوؤں گا نہ تمہیں سونے دوں گا اس لیے بہتر ہے چپ چاپ سو جاؤ۔۔ "

اتنا کہہ کر ویرہ اپنی آنکھیں کرب سے موند گیا۔

"پاچا۔۔۔"

"سو جاؤ مرجان ۔۔۔۔۔خاموشی سے سو جاؤ۔۔۔۔"

نہ جانے اسکی آواز میں ایسا کیا تھا جسے محسوس کر مرجان خاموشی سے لیٹ کر اپنی آنکھیں موند گئی۔کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں ڈوب چکی تھی اور یہ رات بھی ویرہ نے اس کرسی پر بیٹھ کر اسکا معصوم چہرہ دیکھتے ہوئے گزاری تھی۔

یہ لڑکی اسے اپنے حواس پر طاری ہوتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی اور ویرہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کل ہی وہ علحیدہ کمرے میں اسکے سونے کا انتظام کر دے گا۔اس کے بعد وہ جس حد تک ہو سکے گا اسے خود سے دور رکھے گا۔

           🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

وقت آہستہ آہستہ سے گزرتا گیا اب ویرہ اور مرجان کی شادی کو سال ہونے کو تھا۔ہر گزرتا پل اپنی چاہت کے قریب گزار کر مرجان کی محبت بڑھتی جا رہی تھی لیکن ویرہ بس ایک سخت چٹان ہی ثابت ہوا تھا جس کے دل پر مرجان کی چاہت کوئی اثر نہیں کر پائی تھی۔

اور اب تو مرجان بھی تھکتی جا رہی تھی۔اپنی ماں کا کہا ہر لفظ اسے سچ لگنے لگا تھا شائید ویرہ سچ میں ہی محبت نہیں کر سکتا تھا۔مرجان ہر نماز کے بعد اسکی محبت ہی تو مانگتی تھی لیکن اس ایک سال میں اسکی دعا بھی قبول نہیں ہوئی تھی۔

اب تو مرجان کی محبت تڑپ اختیار کرتی جا رہی تھی مرجان اپنی محبت کے بدلے میں ویرہ کی چاہت چاہتی تھی لیکن اسکی یہ خواہش بس خواہش ہی رہی تھی۔

اول تو وہ اسے نظر انداز کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا اور اگر اس سے بات کرتا تھا تو وہ بھی ایسے جیسے اس پر کوئی احسان کر رہا ہو۔اس ایک سال میں مرجان ویرہ یا اپنے اردگرد بسنے والوں کا سچ نہیں جان پائی تھی۔اس کے لیے ویرہ ایک عام سا شخص تھا جو ہر گناہ سے پاک تھا لیکن سچ تو وہ جانتی ہی نہیں تھی کہ اسکا شوہر انسان کے روپ میں ایک درندہ تھا۔

ویرہ راگا اور کال کا انکے ہر کام میں ساتھ دیتا تھا۔وہ دہشت پھیلانے انکے ساتھ تو نہیں جاتا تھا لیکن انکو انفارمیشن اکٹھا کر کے دینا اور دھماکے میں استمعال ہونے والے بم بنانا ویرہ کا ہی کام تھا۔

جبکہ راگا اور کال ویرہ کی دی گئی انفارمیشن اور بم استعمال کر کے دہشت پھیلاتے تھے۔سب صیح چل رہا تھا عوام،فوج حکومت سب انکی وجہ سے پریشان تھے۔

راگا نے ایک آدمی سلطان کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ان تینوں نے سلطان کو دیکھا تو نہیں تھا لیکن وہ اپنے کاموں کے بدلے انہیں ہتھیار اور پیسے دیتا تھا جو راگا کے لیے کافی تھا۔

ویرہ کو بھی اس راگا سے کوئی مسلہ نہیں تھا لیکن بس اس نے راگا کو محتاط رہنے کا کہا تھا۔آج بھی راگا کچھ آدمیوں کے ساتھ سلطان کا ہی کام سر انجام دینے گیا ہوا تھا۔ویرہ کال کے ساتھ معمالات طے کر کے گھر واپس آیا جب اسکے کانوں میں مرجان کے کھلکھلانے کی آواز پڑی۔

"گل اب تو تھوڑا بڑا ہو جاؤ تم ایک چھپکلی سے ڈر گیا کھا تھوڑی جاتا وہ تمہیں۔۔۔"

مرجان نے ہنس کر کہا اور پھر ہاتھ میں پکڑی قمیض پر کڑھائی کرنے لگی۔وہ اور گل مرجان کے کمرے میں بیٹھیں کڑھائی کرنے میں مصروف تھیں۔

"ہاں کیا پتہ سچ میں کھا جاتا پھر اتنا پیارا بہن کہاں سے ملتا تمہیں ۔۔۔۔"

گل نے منہ بنا کر کہا تو مرجان پھر سے ہنس دی۔

"شکر کرو تم بہت حسین ہو ورنہ خود کو شیشے میں دیکھ کے بھی ڈر جایا کرتا تم۔۔۔"

مرجان نے گل کا گلابی گال نرمی سے چھوا۔

"باجی۔۔۔"

"ہممم ۔۔۔۔"

مرجان کا سارا دھیان کڑھائی پر تھا۔

"تمہیں ویرہ لالا سے ڈر نہیں لگتا؟"

گل کے اس سوال پر باہر کھڑے ویرہ کے ماتھے پر بل آئے۔

"نہیں ڈر کیوں لگے گا وہ میرا شوہر ہے اور شوہر سے ڈر لگتا ہے کیا؟"

مرجان کی آواز پر ایک سایہ سا ویرہ کے چہرے پر آیا۔

"مجھے تو بہت لگتا ہے لالا سامنے آتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ میرا روح ہی جسم سے نکل جائے گا۔۔۔"

گل کی آواز میں ایک خوف تھا۔

"تمہیں تو ہر چیز سے ہی ڈر لگتا ہے۔۔۔"

مرجان نے مسکرا کر کہا اور پھر افسردگی سی اسکے چہرے پر آئی۔

"تمہیں پتہ ہے گل وہ بہت اچھا ہے اس دنیا کا سب سے اچھا انسان میرا خیال رکھتا ہے،مجھ پر ویسے ہاتھ نہیں اٹھاتا جیسے ابا اماں پر اٹھاتے تھے اور مجھ پر ظلم نہیں کرتا بسسس۔۔۔۔"

مرجان کے خاموش ہو جانے پر گل نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"بس؟"

"بس وہ مجھ سے پیار نہیں کرتا گل۔۔۔۔"

مرجان نے اپنے آنسو چھپانے کے لیے اپنا سر جھکا لیا اور باہر کھڑا ویرہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔اسے تو لگا تھا محبت اور پیار کا بھوت مرجان کے سر سے اتر گیا ہو گا لیکن وہ ابھی بھی اسی بکواس کو دل سے لگا کر بیٹھی تھی۔

ویرہ غصے سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا تو دونوں بہنیں گھبرا کر کھڑی ہو گئیں جبکہ گل تو خوف سے سانس ہی لینا بھول چکی تھی۔

"پپ۔۔۔۔پاچا کیا ہوا کچھ چاہیے کیا آپ کو؟"

مرجان کے سوال کا ویرہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتا ان کا گھر کا دروازہ کسی نے بری طرح سے کھٹکھٹایا۔ویرہ باہر آیا تو کال کو پریشان حالت میں وہاں دیکھ کر اسکے ماتھے پر بل آئے۔

"کیا ہوا کال اتنے گڑبڑائے ہوئے کیوں ہو؟"

"ویرہ وہ۔۔۔۔"

کال ایک پل کو رکا اور اس نے تھوک نگلا۔

"راگا کو فوج نے پکڑ لیا ہے۔"

کال نے ویرہ پر بم گرایا تھا۔

راگا بہت بری طرح سے پھنس چکا تھا۔آرمی کو انکے ایک آدمی پر شبہ ہوا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے راگا اور انکے ساتھیوں پر حملہ کیا اور باقی سب کو مار کر راگا کو اپنی قید میں لے لیا۔

اب تو راگا کو قید میں گئے تقریباً تین مہینے ہونے کو تھے لیکن وہ اسے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔راگا کو بہت ہائی سیکیورٹی والی فوجی جیل میں رکھا گیا تھا جہاں سے کسی کو چھڑانا لگ بھگ ناممکن ہی تھا۔

"ویرہ ہم کیا کر رہے ہیں اتنے عرصے سے راگا انکی قید میں ہے اور ہم بس تماشہ دیکھ رہے ہیں۔۔"

کال کے لہجے میں بے چینی تھی جس پر ویرہ نے اسے زرا سختی سے دیکھا۔

"تمہیں کیا لگتا ہے مجھے اسکی پرواہ نہیں؟"

ویرہ کے سوال پر کال دانت کچکچا کر رہ گیا۔

"پرواہ ہوتی تو کیا یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوتے؟کچھ کر کے اسے بچا نہ لیتے۔"

کال نے زرا غصے سے کہا تو ویرہ کے ماتھے پر بل آئے۔

"آئندہ کبھی بھی مجھ سے اس لہجے میں بات مت کرنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"

ویرہ نے وارننگ دے کر باقی آدمیوں کو دیکھا۔

"راگا کو جہاں رکھا گیا ہے وہاں حملہ کر کے اسے بچانے کی کوشش حماقت سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی اور اس سے ہم خود بھی پھنس جائیں گے۔"

ویرہ کی بات پر سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

"تو ہم کیا کریں ویرہ راگا ہمارا سردار ہے۔ویسے بھی وہ ہمارے سب راز جانتا ہے اسے یوں چھوڑ نہیں سکتے ہم۔"

ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

"ہمیں کچھ ایسا کرنا ہو گا جس سے فوج کے پاس اسے چھوڑنے کے علاؤہ کوئی راستہ نہ بچے۔"

ویرہ کی بات پر کال نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"دور اندیشی سے کام لو کال اگر ہم کسی طرح فوج کو اتنا مجبور کر دیں کہ وہ خود راگا کو ہمارے پاس چھوڑ جائیں۔اس سے سانپ بھی مر جاۓ گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔"

کال نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔

"لیکن ایسا کیا ہو گا ویرہ؟"

ایک آدمی کے سوال پر ویرہ نے کچھ کاغذات نکال کر میز پر بچھائے جو کہ کسی جگہ کا نقشہ تھے۔

"راگا کو راولپنڈی کی جیل میں رکھا گیا ہے جہاں بہت خطرناک مجرموں کو رکھا جاتا ہے اور اسکی بہت زیادہ حفاظت کی جاتی ہے۔"

ویرہ کی بات پر سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

"ہم اس جیل کو توڑ نہیں سکتے لیکن کچھ ایسا ہے جس سے ہمارا کام ہو سکتا ہے۔"

ویرہ نے ایک اور نقشہ نکال کر میز پر بچھایا۔

"یہ راولپنڈی کی ایک مشہور یونیورسٹی ہے جہاں کافی امیروں کے بچے پڑھتے ہیں اگر ہم اس یونیورسٹی میں گھس کر بچوں کو یرغمال بنا لیں اور اسکے بدلے راگا کی رہائی کا سودا کریں تو فوج کے پاس ہماری بات ماننے کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔"

ویرہ کی بات پر کال کے ماتھے پر شکن آئی۔

"لیکن یہ کام آسان نہیں ہے بلکہ بہت خطرناک ہے۔"

"خطرہ مول لینا پڑے گا لیکن یہ پھر بھی آسان کام ہے کیونکہ فوج یہ نہیں سوچ رہی ہو گی کہ ہم یہاں حملہ کریں گے بلکہ انہوں نے اپنی ساری توجہ راگا کی جانب کی ہو گی تاکہ کوئی اسے چھڑا نہ لے۔"

کال نے اثبات میں سر ہلایا۔

"لیکن ہم یہ کریں گے کیسے یونیورسٹی پر قبضہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔"

"جانتا ہوں۔۔۔۔"

ویرہ نے سنجیدگی سے کہا اور نقشے میں ایک مقام پر انگلی رکھی۔

"یونیورسٹی شہر سے ہٹ کر سنسان جگہ پر ہے ہمیں ایک سرنگ بنانی ہو گی جو یونیورسٹی میں جا کر کھلے اور اندر سے حملہ کر کے کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیں گے۔"

باقی آدمیوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

"لیکن ہمارے سرنگ کھودنے پر کسی کو شک ہو گیا تو؟"

ایک آدمی کے سوال پر ویرہ نے اسکی جانب دیکھا۔

"اسی بات کا تم لوگ خیال رکھو گے۔کھدائی والے بن کر اس جگہ پر کام کرو گے تا کہ سب کو یہ لگے کہ تم لوگ جگہ کو صاف کر کے رہنے کے قابل بنا رہے ہو اس سے زیادہ کچھ نہیں۔"

اس آدمی نے ہاں میں سر ہلایا تو ویرہ نے واپس اس نقشے کی جانب دیکھا۔

"ہم راگا کو چھڑا کر رہیں گے دیکھنا وہ فوجی خود راگا کو ہم تک پہنچائیں گے اور ایک بار جب وہ راگا کو وہاں لے آئیں تو اندر آئے فوجیوں پر حملہ کر کے انہیں چکما دے کر وہاں سے اسی سرنگ کے راستے نکل جانا۔"

سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

"تو ٹھیک ہے اس کام کی تیاریوں میں لگ جاؤ کیونکہ اس پلین کو پورا کرنے کے لیے ہمیں بہت وقت درکار ہے۔"

اتنا کہہ کر ویرہ وہاں سے چلا گیا۔اس وقت وہ اکیلے رہنا چاہتا تھا۔اس سب کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا۔راگا کے بغیر ساری ذمہ داری اسکے کندھوں پر آ گئی تھی اپنے آدمیوں کے لیے وہ ایک نیا سردار تھا۔

لیکن ویرہ کے لیے راگا کا آزاد ہونا ضروری تھا کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔ویسے بھی راگا ان کا ہر راز جانتا تھا آخر وہ کب تک اپنا منہ بند رکھ پاتا۔

ویرہ گاؤں سے دور ایک سنسان جگہ پر آ کر بیٹھ گیا۔سردی اب زوروں پر تھی جس کی وجہ سے وہاں برف باری شروع ہو چکی تھی۔آج اپنا ایک ساتھی کھونے پر اسے پھر سے وہ دن یاد آ رہا تھا جس دن اس نے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔

اپنے چھوٹے بھائی کا خون سے لے پت وجود اپنی بہن کا کٹا گلا اور اسکا تڑپتا جسم اپنے باپ اور ماں کی لاشیں۔وہ سب پرانی یادیں اسکے ذہن پر سوار ہو رہی تھیں۔ویرہ اپنی سوچوں اس قدر مگن تھا کہ اسے اس سردی کا اندازہ ہی نہیں ہوا جس میں اتنی دیر وہ بس ایک جیکٹ اور گرم چادر کے سہارے بیٹھا رہا۔

رات ہونے پر وہ اپنے کرب کی اس دنیا سے باہر نکلا اور اپنے گھر کی جانب چل دیا لیکن اتنی دیر سردی میں بیٹھنے کا اثر برا ہوا تھا۔گھر آ کر بستر پر لیٹتے ہی اسکا جسم بخار میں مبتلا ہو چکا تھا لیکن ویرہ اپنی ہر تکلیف کو نظر انداز کرتا آنکھیں موند گیا۔بخار کی یہ مدہوشی آج اسے سکون کی نیند تو دے رہی تھی جو اسے اکیس سالوں سے نصیب نہیں ہوئی تھی۔

           🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان پریشانی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔ویرہ گھر آتے ہی کمرے میں جا کر سو چکا تھا۔اس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور یہ بات مرجان کو پریشان کر رہی تھی لیکن وہ اسکے پیچھے اسکے کمرے میں بھی نہیں جا سکتی تھی۔

کیونکہ ویرہ کو مرجان کا اپنے کمرے میں آنا پسند نہیں تھا لیکن یہ بات مرجان اپنے دل کو کیسے سمجھاتی جو حد سے زیادہ بے چین ہو رہا تھا۔

"پتہ نہیں انکا طبیعت ٹھیک ہے یا نہیں ۔۔۔ ایسے کھانا کھائے بغیر تو نہیں سوتا وہ آج کیا ہو گیا۔۔.."

مرجان نے بے چینی سے ٹہلتے ہوئے خود کلامی کی۔

"ایک بار جا کر دیکھوں کیا ۔۔۔۔لیکن اگر ان کو غصہ آ گیا تو۔۔۔۔؟ہاں تو بول دوں گی آپ کو کھانے کا پوچھنا تھا۔۔۔"

مرجان اپنے سوالوں کا خود ہی جواب دے رہی تھی پھر جب اسے سکون نہ آیا تو دبے پاؤں چلتی ویرہ کے کمرے میں آ گئی۔ویرہ اس وقت خود پر کمبل اوڑھے سکون سے سو رہا تھا لیکن نیند میں بھی اسکا جسم سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔

مرجان نے گھبراتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکے ماتھے پر رکھا تو گھبراہٹ پریشانی میں بدل گئی۔اس کا ماتھا بخار کی شدت سے تپ رہا تھا۔

"آآ۔۔۔۔آپ کو اتنا زیادہ بخار ہوا ہے باچا۔۔۔میں جا کے لالا کو بتاتا ہے وہ طبیب لے کر آئے گا۔۔۔"

مرجان یہ بات کہہ کر وہاں سے جانے لگی لیکن ویرہ نے اسکا ہاتھ اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔

"کہیں مت جاؤ ۔۔۔۔پاس رہو میرے۔۔۔"

ویرہ کے حکم پر مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں لیکن وہ اسکا حکم مانتی اسکے سرہانے بیٹھ گئی۔ویرہ نے اپنا سر اسکی گود میں رکھا تو مرجان حیرت سے بت بنی اسے دیکھنے لگی جو اپنا چہرہ اسکے پہلو میں چھپا کر اپنے ہاتھ اسکے گرد لپیٹ چکا تھا۔

"بب۔۔۔باچا۔۔۔"

"سر دباؤ میرا۔۔۔۔بہت زیادہ سر درد ہو رہا ہے۔"

ویرہ کی اس فرمائش پر مرجان نے فوراً اپنے نازک ہاتھ اسکے سر پر رکھے اور نرم ہاتھوں سے اسکا سر دبانے لگی۔

"آپ کو بہت زیادہ بخار ہے ممم ۔۔۔۔مجھے لالا کو بلانے دیں ۔۔۔ "

مرجان نے پریشانی سے کہا لیکن ویرہ نے نہ تو کوئی جواب دیا اور نہ ہی اسے گرفت سے آزاد کیا۔مرجان بے بسی سے اسکا سر دبانے لگی اور ان نرم ہاتھوں کے لمس کا سکون محسوس کرتے بے چین ویرہ کی روح تک کو سکون محسوس ہو رہا تھا۔وہ سکون جو وہ بچپن سے کھو چکا تھا۔

"میں تنہا ہوں دلِ جاناں بہت تنہا 

یہ تنہائی یہ درد مجھے ختم کر دے گا۔۔۔۔"

ویرہ خواب کی سی کیفیت میں آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا اور مرجان اپنا سانس روکے اسکی بات سن رہی تھی۔

"دیکھنا ایک دن اس کرب سے مر جاؤں گا میں اور تمہیں خبر بھی نہیں ہو گی۔"

ویرہ کی بات پر مرجان نے پریشانی سے اسے دیکھا۔

"باچا۔۔"

"بلکہ تمہیں تو اب مجھ سے نفرت ہو جانی چاہیے اتنا برا ہوں میں تمہارا خیال نہیں رکھتا بس تم پر غصہ کرتا ہوں۔میں تو قابل نفرت ہوں ناں تو نفرت کرو مجھ سے دلِ جاناں"

دو آنسو مرجان کی آنکھوں سے ٹوٹ کر ویرہ کے گال پر گرے۔

"مجھ سے محبت مت کرو دلِ جاناں یہ ویرہ اس قابل نہیں۔۔۔بس سمجھ جاؤ اس بات کو۔۔۔۔"

ویرہ مدہوشی میں اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا اور سکون کی نیند سو گیا جبکہ مرجان ابھی بھی اسکا سر دباتی اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی جو اسے آدھا دیکھائی دے رہا تھا جبکہ باقی آدھا اس نے مرجان کے پہلو میں چھپا رکھا تھا۔

"نہیں کر سکتی میں آپ سے نفرت باچا۔۔۔چاہے تو آپ اس سے بھی زیادہ بے رخی دیکھا لو چاہے تو میرا جان لے لو لیکن نہیں کر پائے گا آپ سے نفرت یہ میرے بس میں نہیں ۔۔۔۔"

مرجان نے اسکا چہرہ سہلاتے ہوئے سرگوشی کی۔

"بالکل جیسے آپ سے محبت کرنا میرے بس میں نہیں تھا"

مرجان نے انگلی سے اسکی بند پلکوں کو چھوا اور مسکرا دی۔وہ سکون کی نیند میں کس قدر حسین لگ رہا تھا یہ کوئی مرجان سے پوچھتا۔

گندمی رنگت پر کندھوں تک آتے بال اور لمبی داڑھی۔اس سب پر وہ تیکھے نقوش اور ستواں ناک اسے کس قدر دلکش بناتے تھے۔جب وہ جاگ رہا ہوتا تو اسکی غصے سے بھری آنکھوں میں دیکھنا کتنا مشکل کام ہوتا لیکن ابھی تو مرجان پورے حق سے اسے نہار رہی تھی۔

"زما باچا"(میرے بادشاہ)

مرجان نے بہت حق سے کہا۔انکی شادی کو ایک سال ہو چکا تھا لیکن آج پہلی بار ویرہ نے اسے اپنے اتنا قریب آنے کی اجازت دی تھی۔

اسکی داڑھی سے ہوتے ہوئے مرجان نے مسکرا کر اسکی مونچھوں کو چھوا جن کی میٹھی چبھن سے اسکی انگلیاں سنسنائی تھیں۔مرجان کے سرکتے ہاتھ نے اسکے عنابی لبوں کو چھوا تو مرجان کا دل بہت زور سے دھڑکا اور وہ فوراً اپنا ہاتھ واپس کھینچ گئی۔

اس نے ویرہ کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کی مگر اسے خود سے دور جاتا محسوس کر ویرہ کے ماتھے پر بل آئے تھے۔اس نے مرجان کو ایک جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا اور اسے بستر پر لیٹا کر اپنی آغوش میں بھر لیا۔

اس اچانک ملی قربت پر مرجان کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔

"باچا۔۔۔"

"کہا تھا دور مت جاؤ۔۔۔۔پاس رہو میرے ورنہ جان لے لوں گا۔۔۔"

ویرہ نے اسکی گردن میں چہرہ چھپا کر سرگوشی کی تو مرجان اسکی باہوں میں بت بن گئی۔اسکو قریب محسوس کرتے ویرہ نے سکون کا سانس لیا اور پھر سے گہری نیند میں ڈوب گیا جبکہ مرجان کتنی ہی دیر اسکی باہوں میں جاگتے ہوئے اسکے بال سہلا کر اسے سکون دیتی رہی تھی۔

یہ شخص اسکی محبت تھا اور مرجان اس کے سکون کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی خود کو قربان بھی کر سکتی تھی تو یہ سب کیا تھا۔

آنکھیں کھلیں

 تو میں دیکھوں تجھے 

صرف یہی فرمائش ہے 

پہلی تو مجھ کو یاد نہیں 

تو میری آخری خواہش ہے 

سہہ لوں میں اب تیری کمی 

مجھ سے یہ ہو گا ہی نہیں 

تم ایسے مجھ میں شامل ہو 

تم جان میری تم ہی دل ہو

شائید میں بھلا دوں خود کو بھی 

پر تم کو بھول نہ پاؤں گی 

میں پھر بھی تم کو چاہوں گی 

اس چاہت میں مر جاؤں گی

میں پھر بھی تم کو چاہوں گی

          🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

صبح کی روشنی پر مرجان کی آنکھ کھلی تو وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی۔رات دیر سے سونے کی وجہ سے شائید اسے اٹھنے میں دیر ہو گئی تھی اور ابھی وہ وہاں تنہا تھی۔گزری رات یاد کر کے مرجان کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ آئی۔

کل اسکی سنسان زندگی میں ایک بہار آئی تھی ایک امید آئی تھی کہ اسکے شوہر کا دل مکمل طور پر مردہ نہیں تھا بلکہ اس کے دل میں بھی مرجان کے لیے احساسات تھے مگر وہ انہیں مرجان سے چھپا رہا تھا۔

"دلِ جاناں۔۔۔۔"

ویرہ کے الفاظ یاد کر کے مرجان کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکراہٹ آئی اور وہ بستر سے اٹھی۔فریش ہونے کے بعد اسے ویرہ کا خیال آیا جو شائید گھر سے جا چکا تھا۔

"باچا کی تو طبیعت بھی خراب تھا اور وہ کھانا بھی نہیں کھا کر گیا۔"

مرجان نے پریشانی سے سوچا پھر اسکے لیے کچھ ہلکا پھلکا بنانے کا ارادہ کرتی باورچی خانے میں گئی۔ویرہ کے لیے دلیہ بنا کر اس نے ایک بول میں ڈالا اور چادر لے کر اپنے گھر کی جانب چل دی۔اسکا ارادہ تھا کہ وہ یہ کھانا دلاور کو دے تا کہ وہ ویرہ کو دے آئے۔

مرجان نے گھر پہنچ کر دروازا کھٹکھٹایا تو دروازہ گل نے کھولا اور گھبرا کر یہاں وہاں دیکھنے لگی۔

"باجی آپ آئی ہو۔"

گل نے سکھ کا سانس کے کر کہا اور اسکے اندر آنے کے لیے دروازہ کھول دیا۔

"اتنا ڈرا کیوں ہوا ہے تم گل؟"

مرجان نے اپنی بہن کا گال نرمی سے چھو کر پوچھا۔

"وہ۔۔۔کککک۔۔۔۔کچھ نہیں بس مجھے لگا کوئی اور ہے۔۔۔۔۔تم بتاؤ کوئی کام تھا کیا؟"

گل نے اپنی پریشانی پس پشت ڈال کر پوچھا۔

"ہاں وہ دلاور لالا کہاں ہے؟"

"لالا تو سو رہے ہیں موسم بدلا ہے ناں تو صبح سے انکا طبیعت ٹھیک نہیں تم بتاؤ کوئی کام تھا کیا؟"

گل کی بات پر مرجان نے پریشانی سے اپنے ہاتھ میں موجود ڈبے کو دیکھا۔

"اممم۔۔۔۔کچھ نہیں تم انہیں تنگ نہ کرو چھوٹا سا کام ہے میں دیکھ لوں گی۔۔۔"

اتنا کہہ کر مرجان نے اپنی چادر درست کی اور واپس باہر کی جانب چل دی۔

"اماں کو سلام کہنا۔۔۔"

اتنا کہہ کر مرجان گھر سے باہر نکل آئی اور پریشانی سے وادی کی ایک جانب دیکھا۔جہاں انکے قبیلے کے مردوں کا ڈیرہ تھا۔عورتوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی اسی لیے مرجان نے دلاور کو بھیجنے کا سوچا تھا۔

مرجان نے سوچا کے گھر واپس چلی جائے لیکن پھر اپنے شوہر کے بھوکے ہونے کا خیال آیا تو ہمت کرتی اس ڈیرے کی جانب چل دی۔وہ جانتی تھی کہ اسے وہاں دیکھ کر ویرہ غصہ کرے گا لیکن اسکی صحت کے لیے وہ اتنا تو کر ہی سکتی تھی۔

مرجان آہستہ آہستہ چلتی ڈیرے کے پاس پہنچی تو اسے دور سے ہی ویرہ نظر آیا جو باقی آدمیوں کو کچھ بتا رہا تھا۔مرجان نے آگے بڑھنا چاہا لیکن تبھی ایک آدمی ویرہ کے پاس آیا اور اسکے کان میں کچھ کہا۔

"تم چلو میں آتا ہوں۔۔۔۔"

ویرہ نے اس آدمی کو حکم دیا تو وہ وہاں سے چلا گیا اور ویرہ باقی آدمیوں کو بعد میں بات کرنے کا کہہ کر اس آدمی کے پیچھے چلا گیا۔

مرجان اسکے پیچھے چل پڑی۔وہ قبیلے کی آبادی سے دور ایک سنسان جگہ پر جا رہے تھے جو گھنے درختوں سے بھری تھی اور وہاں کوئی نہیں جاتا تھا۔

ویرہ وہاں پہنچ کر چند آدمیوں کے پاس کھڑا ہو گیا تو مرجان جو اسکے پیچھے آ رہی تھی ایک درخت کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگی۔

"یہ ہمارے قبیلے کی حدود میں گھس آیا ویرہ اور پھر ہمارے ہتھیار دیکھ کر ڈر کر بھاگ گیا۔ہمارے آدمی نے اسکا پیچھا کیا تو پولیس سٹیشن کے باہر ملا یہ انہیں۔۔۔"

کال جو وہاں پہلے سے موجود تھا اس نے ایک آدمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جو کہ ویرہ کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھا رو رہا تھا۔

"ننن۔۔۔نہیں ممم۔۔۔مجھے کچھ نہیں پتہ میں تو۔۔۔۔"

ویرہ اس آدمی کے پاس گیا اور اسکا چہرہ بالوں سے پکڑ کر اونچا کیا۔

"کیا بتانے والا تھا تو پولیس والوں کو یہ کہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں یہ کہ اس قبیلے میں دہشتگرد بستے ہیں۔۔۔۔"

ویرہ کی بات پر اس آدمی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"ننن۔۔۔نہیں ممم۔۔۔۔مجھے معاف کر دو مجھے نہیں پتہ تھا۔۔۔میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔۔۔"

اس آدمی نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔

"فکر مت کر کسی کو کچھ بتانے کے قابل بھی نہیں رہے گا تو۔۔۔"

اتنا کہہ کر ویرہ نے کال کے ہاتھ سے بندوق پکڑی اور اسے آدمی کے ماتھے پر رکھ دیا۔گولی کی ایک آواز سنسان جگہ پر گونجی اور وہ آدمی بے جان ہو کر زمین پر گرا۔سر سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔

یہ دیکھ کر مرجان کے ہاتھ سے کھانے کا ڈبہ چھوٹ کر زمین پر گرا اور اسکی آہٹ پر سب آدمیوں نے پلٹ کر مرجان کو دیکھا جو بے یقینی سے ویرہ کو دیکھ رہی تھی۔مرجان کو وہاں دیکھ کر ویرہ کے ماتھے پر شکن آئی اور وہ غصے سے اسکے پاس آیا۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

ویرہ نے غرا کر پوچھا لیکن مرجان نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ جواب دینے کی حالت میں ہی کہاں تھی۔رنگ خوف سے زرد پڑ گیا تھا جبکہ آنکھیں آنسؤں سے لبریز ہو رہی تھیں۔

ویرہ نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے وہاں سے ساتھ لے گیا۔گھر واپس آ کر اس نے مرجان کو جھٹکے سے فرش پر پھینکا اور غصے سے اسے گھورنے لگا۔

"جانتی ہو ناں وہاں آنے کی اجازت کسی کو نہیں پھر کیوں آئی تم وہاں۔۔۔"

ویرہ نے پوچھا لیکن مرجان بس سانس روکے پر خوف نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔اپنے شوہر کا جو روپ آج اس نے دیکھا تھا وہ مرجان کو آدھا ختم کر گیا تھا۔

"اگر آج کے بعد تم اس طرف آئی تو ٹانگیں توڑ دوں گا تمہاری۔۔۔۔"

ویرہ اسے دھمکی دیتا وہاں سے جانے لگا۔

"کیا ہو آپ۔۔۔۔؟"

مرجان کی آواز پر ویرہ نے مڑ کر اسے دیکھا۔

"آ۔۔۔آپ نے اسے مار دیا۔۔۔اسے مار دیا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟"

مرجان نے روتے ہوئے پوچھا۔اسکا نازک وجود خوف سے لرز رہا تھا۔

"کیونکہ یہی میری پہچان ہے۔مبارک ہو مرجان  تمہارا شوہر ایک درندہ ہے ایک دہشت گرد ۔۔۔۔"

مرجان نے بے یقینی سے ویرہ کو دیکھا جو کتنی بے شرمی سے اس بات کا اعتراف کر رہا تھا۔

"شائید اب تمہارے دماغ سے محبت کا بھوت اتر جائے گا شائید اب مجھ سے نفرت کرنا آسان ہو جائے گا۔"

مرجان اسکی بات پر سسک سسک کر رونے لگی تھی۔

"اگر اب بھی محبت باقی ہے تو تمہیں بتا دوں کہ میں کسی کی بھی جان لے سکتا ہوں ۔۔۔۔تمہاری بھی۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر ویرہ وہاں سے چلا گیا اور مرجان اپنے بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹ کر سسک سسک کر رونے لگی تھی۔اسنے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اسکی زندگی اتنا خوفناک موڑ لے گی۔

            🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ رات بھر گھر واپس نہیں آیا تھا اور مرجان پوری رات اپنے کمرے میں بیٹھی گھٹنوں میں چہرہ دیے روتی رہی تھی۔اسکی محبت چیخ چیخ کر اسے کہہ رہی تھی کہ کیا وہ اسی قابل تھی کہ مرجان اسے ایک درندے پر لٹاتی رہے۔اپنے جزبات اس سے باندھ کر رکھے جس کے لیے کسی کی جان لینے کا گناہ کرنا صرف ایک مزاق تھا۔

ویرہ کا وہ روپ مرجان کو اندر تک توڑ چکا تھا۔صبح ہونے پر اسکے گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکٹایا لیکن مرجان اٹھ کر دروازہ کھولنے کی بجائے اپنی جگہ پر بیٹھ کر آنسو بہاتی رہی تھی۔

کچھ دیر دروازہ کھٹکنے کے بعد خاموشی چھا گئی لیکن پھر دروازا کھلا اور مرجان کی ماں الماس اور گل گھر میں داخل ہوئے۔الماس نے جب اپنی بیٹی کو روتے دیکھا تو پریشان ہو کر اس کے پاس آئیں۔

"مرجان۔۔۔۔کیا ہو گیا رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔"

الماس نے بے چینی سے پوچھا تو مرجان نے ایک نگاہ ان پر ڈالی اور انکے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔الماس نے پریشانی سے گل کو دیکھا جو خود گھبرائی سی مرجان کو دیکھ رہی تھی۔

"کیا ہو گیا ہے مرجان بتا مجھے۔۔۔۔میرا دل بند ہو جائے گا۔۔۔۔"

الماس نے بے چینی سے پوچھا تو مرجان نے انکے سینے سے چہرہ نکالا اور بولنے کی کوشش کرنے لگی۔

"اماں وہ۔۔۔۔وہ باچا۔۔۔"

اتنا کہہ کر مرجان نے گل کو دیکھا جو پریشانی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔

"گل تو گھر جا دلاور کے پاس میں آ جاؤں گی۔"

الماس کے حکم پر گل نے پریشانی سے انہیں دیکھا۔

"لیکن اماں میں اکیلی۔۔۔"

"کچھ نہیں ہوتا جیسا کہا ہے کر اور گھر جا۔۔۔"

گل وہاں سے تنہا جانا نہیں چاہتی تھی پھر بھی اس نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے نکل گئی۔اسکے جاتے ہی الماس نے مرجان کو دیکھا۔

"بتا مجھے مرجان کیا ہوا ہے؟"

الماس کے پوچھنے پر مرجان نے انکی جانب دیکھا اور انہیں ہر بات بتا دی لیکن ساری بات جان کر بھی الماس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں آیا تھا۔

"اماں تم چپ کیوں ہو۔۔۔۔وہ باچا نے کسی کا جان لے لیا اور تم چپ ہو۔۔۔۔"

الماس نے اس بات پر مردہ آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔

"کیونکہ چپ رہنا ہی ہمارا مقدر ہے مرجان چپ رہنا ہی ہمارا بھلائی ہے۔"

مرجان نے حیرت سے اپنی ماں کی جانب دیکھا۔

"صرف تمہارا شوہر ہی نہیں مرجان اس قبیلے کا ہر مرد ایک درندہ ہے اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں اپنی زندگی انہیں کے ساتھ گزارنی ہے۔"

الماس کے لہجے میں موجود بے بسی پر مرجان سسک سسک کر رونے لگی۔

"لیکن مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا اماں۔۔۔۔وہ شخص جسے میں نے اتنا چاہا جسے دل میں اتنا اونچا مقام دیا وہ اس قدر گرا ہوا نکلا ۔۔۔۔مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو رہا۔۔۔۔"

مرجان نے گھٹنوں میں چہرہ دے کر روتے ہوئے کہا۔

"اسے اتنا گرا ہوا بنانے والا بھی تمہارا باپ ہی تھا مرجان۔۔۔۔"

الماس کی بات پر مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔

"عبداللہ تو یہاں ایک گیارہ سال کا بچہ آیا تھا۔ایسا بچہ جس پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے تھے اور تمہارے بابا نے اس کے غم کا فایدہ اٹھا کر اسے اپنے جیسا درندہ بنا دیا۔اسکے دل و دماغ سے صحیح اور غلط کی پہچان مٹا دی۔"

مرجان بس حیرت سے اپنی ماں کو دیکھتی جا رہی تھی۔

"کک۔۔۔کیا ہوا تھا اماں۔۔۔؟"

مرجان کے سوال پر الماس نے گہرا سانس لیا اور اسے ہر بات بتا دی۔کیسے کچھ لوگوں نے عبداللہ کے گھر میں گھس کے اسکی آنکھوں کے سامنے اسکے ماں باپ بہن بھائی کو مار ڈالا کیسے اسکا گلا کاٹ دیا اور کیسے وہ موت سے بچ کر یہاں آ گیا۔

سب سچ جان کر مرجان کو لگنے لگا تھا کہ اسکا دل کرب سے پھٹ جائے گا۔اتنا ظلم سہنے کے بعد وہ زندہ کیسے تھا مرجان یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

"اگر وہ درندہ بنا مرجان تو صرف تمہارے باپ کی وجہ سے جس نے اسکے معصوم ذہن میں زہر گھولا اگر کسی کا قصور ہے تو صرف ایسے لوگوں کا جو معصوم دلوں میں نفرت ڈال کر انہیں گمراہ کرتے ہیں اور جانتی ہو افسوس کی بات کیا ہے؟"

مرجان نے سوالیہ نظروں سے الماس کو دیکھا۔

"سب جان کر بھی ہمیں ایسے دیکھاوا کرنا پڑتا ہے جیسے ہم کچھ نہیں جانتے۔ان درندوں کے درمیان ہمیں عام زندگی کا دیکھاوا کرنا پڑتا ہے اور چاہ کر بھی ہم کچھ نہیں کر پاتیں۔"

الماس نے اپنا ہاتھ مرجان کے کندھے پر رکھا۔

"اور یہی ہماری زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔۔۔"

الماس نے مرجان کا کندھا تھپتپا کر کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔رات تک مرجان اسی جگہ بیٹھی اپنی ماں کی بتائی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔

آخر کار رات کو ویرہ کے گھر آنے کی آہٹ پر مرجان خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور ویرہ کو دیکھا جس نے بس ایک نگاہ اس پر ڈالی تھی اور اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔

پھر سے وہی منظر مرجان کی آنکھوں کے سامنے دوڑ گیا جس میں ویرہ نے انتہائی بے دردی سے اس آدمی کو مارا تھا۔

سب جان کر بھی ہمیں ایسے دیکھاوا کرنا پڑتا ہے جیسے ہم کچھ نہیں جانتے۔ان درندوں کے درمیان ہمیں عام زندگی کا دیکھاوا کرنا پڑتا ہے اور چاہ کر بھی ہم کچھ نہیں کر پاتیں

اپنی ماں کی باتیں یاد کر کے مرجان نے اپنے آنسو پونچھے اور اپنی ماں کا لایا کھانا گرم کر کے ویرہ کو کھانا دینے چلی گئی۔اب وہ اس زندگی،اس رشتے اور اس محبت کو بس ایک سمجھوتا سمجھ کر گزارنے کا ارادہ رکھتی تھی بالکل جیسا اسکی ماں نے کیا تھا۔

ویرہ کا پلین کامیاب ہوا تھا۔تقریباً مزید پانچ مہینے کی جدوجہد اور محنت کے بعد وہ دن آ گیا تھا جب وہ راگا کو فوج کی قید سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے تھے۔کال نے کچھ آدمیوں کے ساتھ مل کر اس کام کو سر انجام دیا تھا جبکہ ویرہ اسے ہر طرح سے گائیڈ کرتا رہا۔


سب سے پہلے تو انہوں نے یونیورسٹی سے زرا فاصلے پر ایک سرنگ کھودنا شروع کی تھی جو یونیورسٹی میں جاتی تھی۔پھر وہاں کے بچوں کو یرغمال بنا کر انہوں نے فوج کو دھمکایا تھا اور بچوں کی زندگی کے بدلے میں ان سے راگا کی آزادی مانگی تھی۔


ویرہ کی سوچ کے عین مطابق فوج خود راگا کو ان کے پاس چھوڑ کر گئی تھی۔صبح ہی کال نے ویرہ کو اطلاع دی تھی کہ وہ یونیورسٹی سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب واپس قبیلے پہنچنے والے تھے۔


ویرہ قبیلے کے چوراہے پر کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا۔پھر ایک گاڑی وہاں رکی اور گاڑی میں سے کال کے بعد راگا کو نکلتا دیکھ ویرہ نے سکھ کا سانس لیا۔


"راگا میرے بھائی۔۔۔"


ویرہ کی بات پر پہلے راگا نے اسے تیکھی نگاہوں سے دیکھا اور پھر مسکرا کر اسکے پاس جا کر گلے سے لگ گیا۔


"کیسے ہو ویرہ؟"


"آزادی مبارک ہو راگا جنگل کا شیر لوٹ آیا ہے۔۔۔۔"


ویرہ نے راگا کا کندھا تھپتھپا کر کہا تبھی اسکی توجہ کال کی جانب گئی جو ایک روتی اور جھٹپٹاتی لڑکی کو کھینچ کر اپنے ساتھ لا رہا تھا۔


"نن۔۔۔۔نہیں چھوڑو مجھے ۔۔۔۔پلیز جانے دو۔۔۔۔بابا۔۔۔۔"


لڑکی کو دیکھ کر ویرہ کے ماتھے پر بل آئے۔کیا کال نہیں جانتا تھا کہ یہاں انجان لوگوں کو لانا منع تھا۔


"یہ کون ہے کال؟"


"لیفٹیننٹ وجدان خان کی بیٹی ہے۔وہاں سے بھاگنے کے لیے ہمیں اسکا سہارا لینا پڑا۔"


ویرہ نے دانت کچکچا کر کال کو دیکھا۔


"تو راستے میں ہی مار کر پھینک آتے اسے ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی۔"


ویرہ نے اپنی بندوق نکالتے ہوئے کہا تا کہ یہ نیک کام خود سر انجام دے سکے۔


"مجھے اچھی لگی ویرہ۔۔۔۔اسے میں اپنے لیے لایا ہوں ۔۔۔"


"اور تیرے اس شوق کی قیمت ہمیں اٹھانی پڑے گی یہ لڑکی ہمارا ٹھکانہ جان چکی ہے کال اب اسکا پچھلی دنیا میں لوٹنا ناممکن ہے۔"


ویرہ کا دل کیا ایک گولی مار کر اس لڑکی کو زندگی نامی قید سے آزاد کر دے۔وہ ایک فوجی کی بیٹی تھی ان کے لیے بہت بڑا مسلہ ہو سکتی تھی۔


"نہیں فکر مت کر ویرہ کچھ دن میرا شوق پورا ہو لے تو وہی کروں گا جو تو چاہتا ہے۔۔۔مار کر پھینک آؤں گا۔"


کال کے چہرے پر اس لڑکی کے لیے کسی قسم کے جزبات کی بجائے حوس اور سفاکی دیکھ کر ویرہ نے گہرا سانس لیا۔


"ٹھیک ہے رکھ لے اسے۔"


ویرہ نے اتنا کہہ کر وہاں سے جانا چاہا۔


"یہ فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو؟"


راگا کی بات پر ویرہ نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔راگا نے آج تک اس لہجے میں اس سے بات نہیں کی تھی۔


"جہاں تک مجھے یاد ہے ویرہ تم لوگوں کا سردار میں ہوں اور تم دونوں میرے ساتھی اس قبیلے میں ہر شے کا فیصلہ سردار کرتا ہے جو راگا ہے ویرہ نہیں۔"


راگا کے انداز نے ویرہ کو حیران کر دیا لیکن اپنی حیرت کو چھپا کر ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔


"تمہارے جانے کے بعد سردار رہا ناں راگا تو یہ بات بھول گیا۔"


ویرہ نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا تو راگا نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"بہتر ہو گا یاد رکھو اصلی سردار راگا ہی ہے کوئی اور نہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر راگا اس لڑکی کے پاس گیا جو تب سے کال کی قید میں جھٹپٹا رہی تھی۔


"میرے کمرے میں چھوڑ کر آ اس ماہ جبین کو لالے کی جان آج سے یہ راگا کا ہوا۔"


راگا نے اس لڑکی کا گال چھو کر کہا۔


"یہ مجھے پسند آئی تھی راگا۔"


کال کی بات پر راگا نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھا۔


"اب مجھے آ گئی بات ختم۔۔۔۔"


کال راگا کی آنکھوں میں جنون دیکھ کر جی سردار کہتا اس لڑکی کو راگا کے گھر کی جانب لے گیا۔


"اب تو ایک لڑکی کی وجہ سے لڑ رہا ہے۔۔۔ہاہاہا فوجیوں نے تجھے منچلا کر دیا۔۔۔۔"


ویرہ نے مصنوعی سا ہنستے ہوئے کہا تو راگا مسکرا دیا پھر چند آدمیوں کی مدد سے وہاں سے جانے لگا۔اسکے جاتے ہی ویرہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی اور اس نے ایک آدمی کو دیکھا۔


"راگا پر نظر رکھو۔۔۔اسکے تیور بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں کہیں فوج سے ہاتھ نہ ملا آیا ہو۔۔۔"


ویرہ کے حکم پر آدمی نے ہاں میں سر ہلایا تو ویرہ خود بھی راگا کے پیچھے چل دیا۔وہ شکل اور باتوں سے انکا راگا ہی تھا لیکن اسکے بدلے انداز ویرہ کو شک میں مبتلا کر رہے تھے۔


ویرہ بس یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ کہیں فوج کے دباؤ میں آ کر راگا نے ان سے ہاتھ تو نہیں ملا لیا تھا مگر سچ کیا تھا اس تو ویرہ واقف ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان رات کا کھانا بنا کر فارغ ہوئی تھی جب ویرہ گھر میں داخل ہوا۔اسے دیکھ کر مرجان نے کھانا نکالا اور ٹرے میں رکھ کر اسکے پیچھے آئی۔


ویرہ منہ ہاتھ دھو کر کمرے میں آیا اور بیڈ پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔مرجان نے بس ایک نگاہ اس پر ڈالی اور وہاں سے جانے لگی۔وہ دونوں ویسے بھی کبھی کبھار بس ضروت کی ہی باتیں کیا کرتے تھے۔


"سنو۔۔۔"


ویرہ کے پکارنے پر مرجان نے سوالیہ نظروں سے مڑ کر اسے دیکھا۔ویرہ نے اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو مرجان اسکے سامنے بیٹھ گئی۔


"راگا واپس آ گیا ہے۔"


اس بات پر مرجان نے اثبات میں سر ہلایا۔


"لیکن اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی آئی ہے۔"


"لڑکی۔۔۔"


مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"ہاں وہ یہاں کی نہیں ہے اور میں کسی پر اتنا بھروسہ نہیں کر سکتا کہ کسی کو اسکے قریب جانے کی اجازت دوں اس لیے۔۔۔"


ویرہ ایک پل کو رکا۔


"اس لیے تم اسے اور راگا کو کھانا دے کر آیا کرو گی اور اگر تم نہیں جا سکتی تو گل یا اماں جایا کریں گی لیکن ان کے علاؤہ اس لڑکی کے قریب کوئی نہیں جا سکتا۔"


ویرہ حکم دیتا کھانے کی جانب متوجہ ہوا جبکہ اسکی ہر بات مرجان کو حیران کر گئی تھی۔


"کیوں۔۔۔؟"


مرجان کے سوال کرنے پر ویرہ نے اسے گھور کر دیکھا۔


"تمہیں جو حکم دیا اسکو مانو سوال جواب کرنے کو نہیں کہا میں نے۔۔۔"


ویرہ نے سختی سے کہا تو مرجان اپنا سر جھکا گئی۔اس کا دل کیا کہ اسے بتائے کہ وہ اسکی بیوی تھی اسکے وجود کا حصہ کوئی غلام نہیں تھی جسے وہ ایسے حکم دے۔


مرجان نے اپنے آنسو پی کر ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے جانے لگی لیکن ویرہ نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے روک لیا۔


"وہ یہاں کی نہیں ہے مرجان بس یہ سمجھ لو یہاں پر قیدی ہے اس لیے بہتر ہے بس اپنا کام کرنا اس سے دل نہ لگا لینا خواہ مخواہ تکلیف ہو گی تمہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ نے اسکی کلائی چھوڑ دی تو مرجان اثبات میں سر ہلا کر کمرے سے باہر آ گئی۔ویرہ خاموشی سے کھانا کھانے لگا جبکہ سوچوں کا مرکز مرجان تھی۔


جس دن سے اس نے ویرہ کا وہ روپ دیکھا تھا وہ بدل گئی تھی۔ویرہ نے اب کبھی اسے پہلے کی طرح مسکراتے ہوئے کھلکھلاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔شائید اسکے لیے یہی ٹھیک تھا کہ وہ جلد ہی یہ بات سمجھ گئی تھی کہ انکی زندگی عام لڑکیوں جیسی نہیں تھی جس میں انہیں پیار ملے اور وہ خوشی خوشی اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزار دیں نہیں انکی زندگی دشوار تھی بہت زیادہ دشوار۔


صبح ہوتے ہی مرجان نے نماز پڑھنے کے بعد ویرہ کے لیے ناشتہ بنایا تھا اور اسے ناشتہ کروا کر بھیجنے کے بعد اسے اس لڑکی کا یاد آیا جس کے بارے میں ویرہ نے اسے بتایا تھا۔


مرجان نے اس کے اور راگا کے لیے بھی ناشتہ تیار کیا اور راگا کے گھر کی جانب چل دی۔قہ راگا کو زیادہ جانتی نہیں تھی بس باقی عورتوں کی طرح اتنا جانتی تھی کہ وہ انکا سردار تھا اور اسکے حسن کی وجہ سے کافی لڑکیوں کو وہ اچھا بھی لگتا تھا۔اس سے زیادہ مرجان کی اس سے کبھی بات بھی نہیں ہوئی تھی۔


مرجان نے اسکے گھر پہنچ کر دروازا کھٹکھٹایا جو کچھ دیر کے بعد راگا نے کھولا اور اسے گھورنے لگا۔


"رررر۔۔۔۔راگا لالا۔۔۔۔ممم۔۔میں آپ کے لیے ناشتہ لایا ہے۔۔۔"


مرجان کی بات پر راگا کی آنکھیں مزید چھوٹی ہوئی تھیں۔


"ااا۔۔۔۔اور یہ مجھ غغ۔۔۔غریب پر اتنی ممم۔۔۔مہربانی کرنے کا کس نے کہا۔۔۔؟"


راگا نے اسی کے انداز میں پوچھا تو مرجان نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔


"م۔۔۔۔میرے شوہر نے؟"


"اس شوہر کا کوئی نام بھی ہو گا یا باقی ساری دنیا اسے شوہر شوہر ہی کہہ کر بلاتا ہے؟"


راگا کی بات پر مرجان بہت گھبرا گئی۔ایک تو پہلے کبھی ویرہ اور دلاور کے علاؤہ اس نے کسی آدمی سے بات نہیں کی تھی اوپر سے یہ عجیب ہی شخص تھا۔


"انکا نام ویرہ ہے۔۔۔"


"کون ویرہ میں تو کسی ویرہ کو نہیں جانتا۔۔۔"


اس بات پر مرجان کا سانس سوکھ گیا۔کیا وہ صحیح گھر آئی تھی ناں۔


"وہ۔۔۔۔وہ ویرہ جو ہیں وہ میرے شوہر ہیں سب جانتا ہے ان کو۔۔۔۔"


مرجان رونے والی ہو گئی تو راگا قہقہ لگا کر ہنس دیا۔


"اوئے ماڑا شکل دیکھو اپنا ایسے گلہری جیسا ہو گیا تھا۔۔۔میں تو مزاق کر رہا تھا پتہ ہے مجھے یہ چھوٹی سی گڑیا اپنے ویرہ جاتا کی ہے۔۔۔"


راگا نے مرجان کے سر پر ہلکی سی چت لگائی تو مرجان حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔


"تمہیں مجھ سے ڈرنے کا کوئی ضرورت نہیں اپنا بڑا لالا سمجھو تم مجھے اور اگر کبھی ویرہ تمہیں تنگ کرے یا رولائے تو مجھے بتانا ۔۔۔۔"


"آپ کیا کرے گا؟"


مرجان نے حیرت سے آنکھیں بڑی کر کے پوچھا۔


"وہ جھیل دیکھ رہا ہے اس میں پھینک کے تمہارے شوہر کا سارا گرم دماغ بلکل قلفی کی طرح ٹھنڈا کر دے گا پھر دیکھنا تمہارا پلو پکڑ کر ہر وقت تمہارے پیچھے چلا کرے گا۔۔۔۔"


اب کی بار مرجان بھی ہلکا سا ہنس دی۔نہ جانے کیوں وہ راگا سے اتنا ڈرتی تھی یہ شخص تو بالکل ویسا نہیں تھا جیسا اس نے سوچا تھا۔


"لالا یہ آپ کے لیے اور۔۔۔اااا۔۔۔۔اس کا ناشتہ۔۔۔"


مرجان نے کھانا اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا تو راگا نے ایک نظر اس کھانے کی جانب دیکھا۔


"تم اندر جا کر خود اسے دو میں نے دیا تو وہ سمجھے گا کہ ذہر ڈال لایا ہوں اور کھائے گا ہی نہیں۔۔۔میں زرا جھیل کے پانی میں نہا کر آتا ہوں ماڑا زخموں کو ٹکور ہو جائے گا۔۔۔"


راگا نے انگڑائی لے کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔مرجان نے گہرا سانس لے کر دروازہ کھولا تو اسکی نگاہ ایک لڑکی پر پڑی جو گھٹنوں میں چہرہ دیے کمرے کے کونے میں بیٹھی رو رہی تھی۔


ریشمی بال اردگرد بکھرے تھے جبکہ اس نے عجیب سا لباس پہنا ہوا تھا۔شلوار کافی تنگ تھی اور کرتی بھی آدھے بازوں والی تھی جبکہ مرجان لوگ تو پورا اور کھلا سا لباس پہنتے تھے۔


"بب۔۔باجی یہ تمہارے لیے ناشتہ۔۔۔"


مرجان کی آواز پر اس لڑکی نے سر اٹھا کر مرجان کو دیکھا تو مرجان ایک پل کے لیے حیران رہ گئی۔وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔بڑی بڑی سی سیاہ کانچ جیسی آنکھیں اور تیکھے نقوش۔


"ککک۔۔۔۔کون ہو تم کیا ان لوگوں نے تمہیں بھی قید کر رکھا ہے؟"


اس لڑکی کے سوال پر مرجان نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں یہ میرا گاؤں ہے مم۔۔۔میں ویرہ کا بیوی ہوں۔۔"


مرجان نے اسے اپنے بارے میں بتایا تو وہ لڑکی جلدی سے اٹھ کر مرجان کے پاس آئی اور اسکے ہاتھ پکڑ لیے۔


"پلیز میری مدد کرو یہ لوگ مجھے زبردستی یہاں لے آئے ہیں۔۔۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے اپنے ماما بابا کے پاس پلیز ہیلپ می۔۔۔"


اس لڑکی نے روتے ہوئے کہا جبکہ اسکی آخری بات مرجان کو سمجھ نہیں آئی تھی۔


"تم کیا کہہ رہا ہے باجی ممم۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔"


مرجان نے گھبرا کر پوچھا۔اس لڑکی کو زبردستی یہاں قید کیے جانے کا خیال اسے ڈرا رہا تھا۔


"میرا نام وانیا ہے۔مم۔۔۔میرے بابا آرمی میں ہیں اور یہ لوگ مجھے میری یونیورسٹی سے کڈنیپ کر کے یہاں لے آئے ہیں۔۔۔پلیز میری مدد کرو مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔۔'


وانیا نے پھر سے روتے ہوئے کہا۔


"آرمی؟"


مرجان نے حیرت سے پوچھا۔


"ہاں آرمی۔۔۔میرے بابا فوجی ہیں۔۔۔"


اس بات پر مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔انہیں فوجیوں سے بچپن سے ڈرایا جاتا تھا اور ان کے بارے میں انہوں نے یہی سنا تھا کہ وہ بہت ظالم لوگ ہوتے ہیں جو بس انہیں مارنا چاہتے ہیں لیکن یہ لڑکی تو ظالم نہیں لگ رہی تھی نہیں وہ تو بہت بے بس اور معصوم لگ رہی تھی بالکل مرجان کی طرح۔


"پلیز میری مدد کرو مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔۔"


وانیا نے پھر سے روتے ہوئے کہا تو مرجان نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔قد میں وہ تقریباً مرجان کے جتنی ہی تھی۔


"شش۔۔رو مت کچھ نہیں ہوتا صبر کرو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔"


مرجان نے اسکی کمر کو سہلا کر کہا تو وانیا کسی کا سہارا ملنے پر مزید گھبرا کر رونے لگی تھی۔


"چلو آؤ کھانا کھاتے ہیں اور تم مجھے اپنے بارے میں سب بتانا۔۔۔۔"


مرجان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بستر پر بیٹھایا اور کھانا نکال کر اسکے سامنے رکھا لیکن وانیا نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا مجھے بس یہاں سے جانا ہے اپنے بابا کے پاس۔۔۔"


مرجان نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"میں نے کہا ناں صبر کرو سب ٹھیک ہو جائے گا ان شاءاللہ ابھی کھانا کھاؤ تا کہ تم میں طاقت آئے۔۔۔"


وانیا نے کچھ کہنا چاہا تو مرجان نے اسکا ہاتھ دبا کر اسے دلاسہ دیا اور پھر نوالہ توڑ کر اسکے ہونٹوں کے پاس کیا تو وانیا نے اسے چپ چاپ کھا لیا۔


"چلو اب مجھے آہستہ آہستہ بتاؤ کون ہو تم اور ہوا کیا تھا۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔"


مرجان کی بات پر وانیا نے اپنے آنسو پونچھے اور آہستہ آہستہ اسے سب بتانے لگی۔


"میرا نام وانیا وجدان خان ہے لفٹیننٹ کرنل وجدان خان کی بیٹی ہوں میں۔"


اس کے بعد وانیا نے اپنے بارے میں ہر بات مرجان کو بتائی اور مرجان اسکی بات سننے کے ساتھ ساتھ اسے کھانا کھلاتی رہی۔اس بات سے بے خبر کہ گھر کے باہر کوئی کھڑا مرجان کی اس رحمدلی کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان بے چینی سے اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے وانیا کی باتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔وانیا ایک فوجی افسر کی بیٹی تھی اور اسکی ایک جڑواں بہن ہانیہ بھی تھی جو بالکل اسکے جیسی دیکھائی دیتی تھی۔


وانیا پڑھنے کے لیے اپنی یونیورسٹی گئی تھی جب کال نے اپنے آدمیوں کے ساتھ وہاں حملہ کر کے سب بچوں کو قید میں لے لیا اور فوج سے راگا کی رہائی کا مطالبہ کرنے لگا۔


فوج سب طالب علموں کی جان بچانے کے لیے راگا کو ان کے پاس لے کر آئی لیکن وہاں سے بھاگنے کے لیے انہوں نے وانیا کا سہارا لیا اور اسے بندوق کی نوک پر رکھ کر فوجیوں سے بچ کر بھاگ گئے۔


مگر وانیا یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی وہ اپنے بابا کے پاس واپس جانا چاہتی تھی۔مرجان کو یاد آیا کہ وہ کتنی ہی دیر اسکے ہاتھ تھام کر روتے ہوئے اس سے التجا کرتی رہی تھی کہ وہ اس کی مدد کرے۔


لیکن مرجان اسکی مدد کیسے کر سکتی تھی وہ تو خود کی مدد کرنے کے قابل نہیں تھی۔اچانک دروازا کھلا اور ویرہ گھر میں داخل ہوا۔مرجان اسے دیکھ کر سیدھی ہوئی تھی۔


"کھانا لے کر میرے کمرے میں آؤ بات کرنی ہے مجھے تم سے۔"


مرجان نے اثبات میں سر ہلایا اور کھانا گرم کر کے ویرہ کے پیچھے اسکے کمرے میں آ گئی۔مرجان نے کھانا اسکے سامنے رکھا تو ویرہ نے اسے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


"صبح کھانا دے آئی تھی اس لڑکی کو؟"


ویرہ کے پوچھنے پر مرجان نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ہممم ٹھیک ہے خود ہی زمہ داری سے اسے اور راگا کو صبح شام کا کھانا پہنچا دیا کرنا اور اپنے کچھ کپڑے بھی اسے دے دینا۔"


مرجان نے پھر سے اثبات میں سر ہلایا تو ویرہ نے نوالا منہ میں ڈال کر ایک نظر مرجان کو دیکھا اور خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔


"سنیے۔۔۔"


"ہمم۔۔۔"


مرجان کے پکارنے پر ویرہ نے اسکی جانب دیکھا۔


"وہ لڑکی۔۔۔وہ فوجی کا بیٹی ہے کیا؟"


مرجان کے سوال پر ویرہ کے ماتھے پر بل آئے تھے۔


"تمہیں کہا تھا اس کے معاملے میں زیادہ شامل ہونے کی ضرورت نہیں بس اتنا کرو جتنا تم سے کہا گیا ہے کچھ گڑبڑ مت کرنا مرجان ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔"


ویرہ اسے وارن کرتا کھانا کھانے لگا۔


"ننن۔۔نہیں وہ بس کافی رو رہا تھا۔۔۔یہاں سے جانا چاہتا تھا وہ لڑکی۔۔۔ممم ۔۔۔مجھے بس اتنا پوچھنا تھا کہ کیا آپ اسے جانے دے گا۔۔۔"


مرجان کے سوال پر ویرہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔


"نہیں وہ اپنی آخری سانس تک یہاں قید رہے گی یا تو خود ہی سسک سسک کر مر جائے گی یا ہو سکتا ہے کہ ہم اسے مار دیں۔"


ویرہ کی بات پر مرجان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔وانیا کتنی معصوم تھی اور وہ ایک معصوم لڑکی کے بارے میں ایسا کیسے کہہ سکتے تھے۔


"اسی لیے تم سے کہا تھا مرجان اس سے دل مت لگانا بس جتنا کہا ہے اتنا کرو "


ویرہ نے تھوڑا سا کھانا کھا کر بس کر دیا تو مرجان خاموشی سے برتن اٹھا کر وہاں سے چلی گئی۔وہ بس وانیا کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ جانے اسکا مقدر کیا ہو گا۔


مرجان بس اس کے لیے دعا ہی کر سکتی تھی کہ اس معصوم کے ساتھ کچھ غلط نہ ہو۔گہرا سانس لے کر مرجان نے کھانا کھانے کا سوچا۔ابھی اس نے ایک نوالا منہ میں ڈالا ہی تھا جب بہت زیادہ نمک کا ذائقہ اس کے منہ میں گھلا۔


"اللہ،،، اتنا زیادہ نمک ڈال دیا میں نے۔۔۔"


مرجان نے گھبرا کر کہا۔بچپن کا ایک منظر اسکی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا جب اسکی ماں نے ہلکا سا نمک تیز کر دیا تھا تو اسکے باپ نے اسکی ماں کو اس بات پر کتنا مارا تھا۔


مرجان نے تو اتنا نمک تیز کیا تھا تو کیا ویرہ بھی اسے۔۔۔۔یہ سوچ کر مرجان گھبرا کر اٹھی اور ویرہ کے کمرے میں آئی اور بے چینی سے دروازا کھٹکھٹانے لگی۔


"کیا ہوا؟"


ویرہ کی اکتائی سی آواز پر مرجان مزید گھبرا کر اور زور سے دروازا کھٹکھٹانے لگی۔اچانک ہی ویرہ نے دروازہ کھولا تو مرجان دروازہ کھلتے ہی شروع ہو گئی۔


"مجھے معاف کر دیں غلطی سے اتنا تیز نمک ہو گیا میں نے جان کے۔۔۔۔"


ویرہ پر نظر پڑتے ہی مرجان کی زبان کو بریک لگا تھا۔وہ شائید کپڑے بدل رہا تھا کیونکہ جسم پر کپڑوں کے نام پر بس ایک شلوار تھی جبکہ چوڑا سینا عیاں ہو رہا تھا۔


مرجان کے رخسار دہک کر گلابی ہو گئے اور اس نے اپنا سر جھکا لیا۔شرم سے گلابی ہوئی وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ویرہ نے اسکی ٹھوڈی کے نیچے انگلی رکھ کر اسکا چہرہ اونچا کیا تھا۔


"کپکپاتی ہوئی بند پلکوں اور تھرتھراتے ہوئے ان گلابی ہونٹوں کا رقص ویرہ کو بے چین کر رہا تھا۔بے ساختہ اسکی پکڑ مرجان کی ٹھوڈی پر سخت ہوئی۔


"کیا کہہ رہی تھی تم؟"


ویرہ کی نظروں کا فوکس ان پھولوں جیسے گلابی ہونٹوں پر تھا۔


"وہ۔۔۔۔میں نے کھانے میں نمک غلطی سے زیادہ کر دیا۔۔۔۔آئندہ ایسا نہیں ہو گا مجھے معاف کر دیں۔"


مرجان نے آنکھیں کھولے بغیر کہا اور اس حسین چہرے کو دیکھ دیکھ کر ویرہ کا دل بے چین ہو رہا تھا۔انکی شادی کو ایک سال سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا اور اسی لیے آج تک ویرہ نے اسے نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا تھا کہ کہیں جزبات بے لگام نہ ہو جائیں۔


"معاف کرنے کا دل تو نہیں کر رہا دل کر رہا ہے سزا دوں تمہیں ایسی سزا کے پھر سے ایسا سوچنے سے پہلے بھی جان نکل جائے تمہاری۔۔۔۔"


ویرہ نے انگوٹھے سے اسکا نچلا ہونٹ سہلا کر کہا جو ایسے نرم و نازک تھا جیسے روئی کا گالا ہو۔ویرہ کے دل میں اس نازک لب کو اپنے ہونٹوں سے چھونے کی چاہ پیدا ہوئی۔ویسے بھی وہ سر سے لے کر پیر تک اسی کی تو تھی ویرہ کا جائز حق بنتا تھا اس پر۔


"نن۔۔۔نہیں مجھے مارنا نہیں لیں ایسا نہیں کروں گی وعدہ۔۔۔۔"


اب کی بار مرجان نے خوف سے نم ہوئی آنکھیں کھول کر کہا تو ویرہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا اور اسکی ٹھوڈی چھوڑ کر اس سے دور ہو گیا۔


"کوئی بات نہیں انسان سے خطا ہو جاتی ہے اگر میں نے تمہیں کچھ کہنا ہوتا تو تبھی کہہ دیتا لیکن میں ایسی باتوں پر عورت کو مارنے کا قائل نہیں۔۔۔"


مرجان نے اسکی بات پر سکھ کا سانس لیا۔


"تو کس بات پر مارتا ہے آپ مجھے بتا دیں تا کہ میں ایسا نہ کرے۔۔۔"


"بس کچھ الٹا کر کے مجھے کچھ الٹا کرنے کا موقع نہ دنیا باقی سب ٹھیک ہے۔"


مرجان نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے جانے لگی۔ویرہ اسکے نظروں سے اوجھل ہوتے تک اسے دیکھتا رہا تھا۔دل اس سے کہہ رہا تھا اسے روک لے اپنے پاس اپنی باہوں میں چھپا لے۔


لیکن ویرہ ایسا نہیں چاہتا تھا وہ اب پھر کبھی کسی انسان کو اپنی کمزوری نہیں بنانے والا تھا۔وہ پھر کبھی کسی سے محبت نہیں کرنے والا تھا کیونکہ جس کو ہم چاہتے ہیں اس کا دور ہونا کتنی تکلیف دیتا ہے یہ کوئی ویرہ سے پوچھتا۔وہ ایک بار پھر سے اس کرب سے گزرنا نہیں چاہتا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان روز ہی وانیا کو کھانا دینے جاتی تھی اور اگر وہ ایسا نہیں کر پاتی تھی تو اسکی ماں یا گل اسے کھانا اور کپڑے دے آتے تھے۔اب تو مرجان کی اس سے کافی دوستی ہو گئی تھی۔وہ معصوم سی گڑیا تھی ہی اتنی پیاری ہر وقت ڈری سہمی سی رہتی تھی۔


مرجان کا دل کرتا تھا کہ وہ اسکی مدد کرے تا کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس جا سکے لیکن مرجان کیا کر سکتی تھی۔وانیا نے اسے اپنے گھر والوں کے بار میں بتایا تھا کہ سب اس سے کتنا پیار کرتے تھے۔


اسکی بہن اور اسکی ماں تو جان چھڑکتی تھیں اس پر اور اس کے بابا زرا سخت تھے لیکن وہ بھی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔وانیا کی اس بات پر مرجان کے دل میں حسرت پیدا ہوئی تھی۔باپ کی محبت کیا ہوتی ہے مرجان تو اس سے واقف ہی نہیں تھی۔


ابھی بھی وہ وانیا کے پاس بیٹھے باتیں کر رہی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتی جا رہی تھیں۔مرجان کا وجود وانیا کا خوف بھگا دیتا تھا تو وانیا بھی مرجان کی تنہائی کی ساتھی بن چکی تھی۔


"تو تمہارا بہن بالکل تمہارے جیسا دیکھتا ہے؟"


مرجان نے پوچھا تو وانیا نے اثبات میں سر ہلایا۔آج وانیا مرجان کے دیے گلابی رنگ کے شلوار کرتے میں ملبوس تھی جس پر رنگ برنگے دھاگوں کی کڑھائی اور شیشوں کا کام ہوا تھا۔اس لباس میں وانیا بہت پیاری لگ رہی تھی۔


"ہاں ہانی دیکھنے میں بالکل میرے جیسی ہے لیکن وہ بہت بہادر ہے اگر میری جگہ وہ ہوتی ناں تو ابھی تک اس راگا کا سر پھاڑ چکی ہوتی۔۔۔۔"


وانیا نے منہ بنا کر کہا تو مرجان ہنس دی پھر گھبرا کر اپنا ہاتھ وانیا کے ہاتھ پر رکھا۔


"وہ تمہیں کچھ کہتا تو نہیں۔۔۔راگا لالا کہیں وہ تمہارے ساتھ۔۔۔"


مرجان اپنی بات مکمل نہیں کر پائی تھی لیکن پھر بھی وانیا نے اسکی بات سمجھ کر انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں وہ ایسا نہیں مجھے ہاتھ تک نہیں لگاتا بس۔۔۔"


"بس۔۔۔۔؟"


مرجان نے وانیا کے خاموش ہو جانے پر پوچھا۔


"بس انتہائی بے شرم آدمی ہے ایسی باتیں کرتا ہے ناں کہ دل کرتا ہے سوئی دھاگے سے منہ سی دوں اسکا۔۔۔۔"


مرجان اسکی بات پر ہنس دی۔


"ویسے اتنا برا بھی نہیں راگا لالا پہلے مجھے لگتا تھا کہ بہت برا اور ظالم ہو گا لیکن جب سے فوج کے پاس سے آیا ہے مجھے تو اچھا لگتا ہے۔۔۔۔"


مرجان نے شرارت سے کہا۔


"ہاں فوج سے جوتے جو پڑے ہوں گے اس لیے سدھر گیا ہے۔۔۔"


وانیا کی بات پر مرجان کھلکھلا کر ہنس دی اور اسے ہنستا دیکھ کر وانیا بھی ہنسنے لگی۔دونوں کافی دیر تک ہنستی رہی تھیں لیکن پھر وانیا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے روتے ہوئے مرجان کو دیکھا۔


"مجھے میرے گھر واپس جانا ہے مرجان میں یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔۔میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔۔۔۔"


وانیا کے رونے پر مرجان نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"مجھے معاف کر دو وانی میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن یقین جانو اگر کچھ کر سکتا تو ضرور کرتا۔۔۔۔"


مرجان کی بے بسی پر وانیا نے اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپایا اور رونے لگی۔جبکہ اسے روتا دیکھ مرجان بھی دکھی ہو چکی تھی لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔باہر کھڑے شخص نے گہری سیاہ نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھا تھا جبکہ وہ دونوں اس سے بے خبر تھیں۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

رات کافی گہری ہو رہی تھی۔ویرہ شائید اپنے کام سے کہیں گیا تھا اور مرجان کو اکیلے ہونے کی وجہ سے نیند نہیں آ رہی تھی۔ویسے تو کسی کی جرات نہیں تھی کہ ویرہ کی غیر موجودگی میں اسکے گھر کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لیتا لیکن پھر بھی وہ تنہائی مرجان کو کھانے کو دور رہی تھی۔


اچانک ہی مرجان کو لگا کہ کوئی دروازا کھٹکھٹا رہا ہو۔مرجان گھبرا کر اٹھی اور پاس پڑی لالٹین جلا کر گھڑی پر ٹائم دیکھا جہاں رات کے دو بج رہے تھے۔


"اا۔۔اس وقت کون ہو سکتا ہے؟"


مرجان نے گھبرا کر سوچا تو دروازا دوبارہ آہستہ سے بجا۔مرجان گھبرا کر اٹھی اور دوپٹہ اچھی طرح سے لے کر دروازے کے پاس آئی۔


"کون ہے؟"


مرجان نے گھبرا کر پوچھا۔


"میں ہوں۔۔۔"


ویرہ کی آواز پر مرجان نے سکھ کا سانس لیا اور دروازہ کھول دیا۔اس کے دروازہ کھولتے ہی کالی چادر میں لپٹا ایک آدمی گھر میں داخل ہوا اور اس نے دروازہ بند کر لیا۔اسے دیکھ کر مرجان کا دل خوف سے بند ہوا کیونکہ وہ اسکا شوہر تو نہیں تھا۔


"ککک۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔بچ۔۔۔"


مرجان نے چلانا چاہا چاہا لیکن وہ آدمی اسکے پاس آیا اور اپنا ہاتھ اسکے منہ پر رکھ دیا۔


"شش۔۔۔۔۔ڈرو نہیں کچھ نہیں کہوں گا میں تمہیں بس میری بات سن لو۔۔۔"


اس آدمی نے نرم سے لہجے میں کہا جبکہ مرجان خوف سے نم ہوئی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔اس نے خود کو پوری طرح سے چادر میں چھپایا تھا بس اسکی سیاہ آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔مرجان کو لگا کہ اس نے وہ آنکھیں کہیں دیکھی ہیں لیکن کہاں یہ اسے یاد نہیں آ رہا تھا۔


"کون ہو تم۔۔؟"


مرجان نے دوبارہ سے گھبرا کر پوچھا۔


"یہ اہم نہیں ہے میری بہن کہ میں کون ہوں بس یہ اہم ہے کہ مجھے کیا چاہیے۔۔۔۔"


"ککک۔۔۔کیا چاہیے؟"


مرجان نے سہم کر پوچھا۔


"تمہاری مدد۔۔۔"


اس آدمی نے شفیق سی آواز میں کہا تو مرجان حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔


"کیسی مدد؟"


مرجان نے اسے سر سے لے کر پیر تک دیکھا۔وہ انکے قبیلے کا آدمی نہیں تھا کیونکہ اسکا اردو بولنے کا لہجہ بہت صاف تھا اور انکے قبیلے میں صرف ویرہ اور کال صاف لہجے میں اردو بولتے تھے۔


تو یہ شخص کون تھا۔اگر وہ انکے قبیلے کا نہیں تھا تو یہاں آیا کیسے؟کسی باہر کے شخص کا یہاں آنا یا یہاں سے کسی کا باہر جانا نا ممکن تھا۔


"اس فوجی کی بیٹی کی آزاد کروانے میں تمہاری مدد چاہیے مجھے۔"


اسکی بات پر مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"وہ لڑکی یہاں نہیں رہ سکتی وہ یہاں کی نہیں ہے مر جائے گی وہ یہاں ہمیں اسے یہاں سے آزاد کرنا ہو گا۔"


"لیکن کیسے ۔۔۔؟"


مرجان نے گھبرا کر پوچھا۔


"وہ سب مجھ پر چھوڑ دو تمہیں بس اسے قبیلے کی حدود سے باہر نکالنا ہے۔ایک بار وہ پہرے داروں کی نظر سے نکل گئی تو ایک فوج کا آدمی اسے اسکے بابا کے پاس چھوڑ آئے گا۔"


مرجان نے اسکی بات پر نگاہیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"یہ کام تم خود کیوں نہیں کر لیتا۔"


"اگر کر سکتا تو ضرور کر لیتا لیکن ایسا کر کے میں ہم دونوں کو خطرے میں ڈال لوں گا لیکن تم۔۔۔۔تم ویرہ کی بیوی ہو تم پر کوئی شک نہیں کرے گا۔۔۔"


ویرہ کے ذکر پر مرجان اضطراب سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔وہ وانیا کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن اپنے شوہر کو دھوکا دے کر نہیں۔


"اگر انہیں پتہ لگ گیا تو وہ مجھے ۔۔۔۔۔"


"نہیں لگے گا تم گھبراؤ نہیں بس تم دو دن کے بعد اسے رات کو یہاں سے باہر نکال دینا باقی سب وہ فوجی دیکھ لے گا جو قبیلے سے باہر وانیا کا انتظار کرتا ہو گا۔"


اسکی بات پر مرجان گہری سوچ میں ڈوب گئی۔اگر اسکی اتنی سی جرات پر اسکی دوست کو آزادی مل سکتی تھی تو وہ ایسا کیوں نہ کرتی۔


"لیکن میں تم پر بھروسہ کیوں کروں اگر تم نے اسے نقصان پہنچا دیا تو؟"


مرجان کی چالاکی پر وہ نقاب پوش مسکرایا۔


"بس یہ سمجھ لو کہ مجھے اس کے بابا وجدان خان نے اسکی مدد کے لیے بھیجا ہے۔میں جو کر رہا ہوں ان ی خواہش کے مطابق کر رہا ہوں۔"


اس آدمی کے منہ سے وانیا کے بابا کا نام سن کر مرجان اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔یعنی وہ وانیا اور اسکے بابا کو جانتا تھا تو کیا وہ واقعی اسکی مدد کر سکتا تھا۔


"بولو بہن کرو گی تم اپنی دوست کی مدد؟"


اس کے پوچھنے پر وانیا بہت بے چین ہوئی۔ایسا کر کے وہ اپنے شوہر کے خلاف جا رہی تھی اگر ویرہ کو پتہ لگ جاتا تو نہ جانے وہ کیا کرتا لیکن وہ اپنی دوست کی مدد کرنا چاہتی تھی۔اسے بے بس نہیں چھوڑ سکتی تھی۔


"ٹھیک ہے میں کروں گی آپ کی مدد۔۔۔"


مرجان نے فیصلہ سنایا۔وہ جانتی تھی کہ ایسا کر کے وہ اپنے لیے خطرہ مول لے چکی تھی لیکن اپنی دوست کے لیے وہ اتنا تو کر ہی سکتی تھی۔

مرجان پریشانی سی کمرے میں ٹہل رہی تھی۔اس نے وانیا کو بتا دیا تھا کہ وہ آج رات اسکی بھاگنے میں مدد کرے گی اور اس انجان آدمی کی کہی بات صحیح ثابت ہوئی تھی۔راگا اور ویرہ دونوں ہی کسی کام سے گاؤں سے دور جا رہے تھے۔


مرجان نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص اتنا کچھ کیسے جانتا تھا لیکن جو بھی تھا وہ وانیا کی مدد کرنا چاہتا تھا اور مرجان بھی ایسا ہی کرنا چاہتی تھی۔رات تک وہ بہت بے چین رہی تھی۔اگر ویرہ کو پتہ لگ جاتا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے تو نہ جانے کیا کر گزرتا لیکن مرجان کو یہ کرنا تھا۔اپنی دوستی کی خاطر۔


رات کے تقریباً بارہ بجنے پر وہ چادر اوڑھ کر چپکے سے گھر سے نکلی اور راگا کے گھر کی جانب چل دی۔وانیا کو اپنے ساتھ لے کر وہ اس راستے کی جانب آئی جہاں اسے اس آدمی نے جانے کا کہا تھا۔اسکی توقع کے عین مطابق اس وقت وہاں کوئی پہرہ دار نہیں تھا۔


"تم اس راستے سے سیدھا بھاگ جاؤ اور پھر وہاں سے دائیں مڑ جانا سامنے ہی تمہیں کالے کپڑوں میں کھڑا شخص نظر آئے گا وہ تمہیں سکردو فوج کے پاس لے جائے گا۔"


مرجان نے اپنی گرم چادر اور ٹارچ وانیا کو دیتے ہوئے کہا۔


"تمہارا بہت شکریہ مرجان مر کر بھی تمہارا احسان نہیں بھولوں گی۔"


وانیا نے مرجان کو گلے لگا کر کہا اور وہاں سے جانے لگی۔


"کون ہے وہاں؟"


ایک آدمی کی آواز پر دونوں نے سہم کر اس جانب دیکھا جہاں سے ایک آدمی اس طرف آ رہا تھا۔


"بھاگو وانیا چھپ جاؤ فوراً۔۔۔۔جلدی۔۔۔"


مرجان کے اتنا کہتے ہی وانیا ایک جانب بھاگ گئی اور مرجان دوسری جانب لیکن اس آدمی نے مرجان کی بجائے وانیا کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔مرجان کا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اگر وہ پکڑی جاتی تو ویرہ اسکا کیا حال کرتا۔


اسے کیسے بھی کر کے اپنے گھر تک پہنچنا تھا تا کہ ویرہ کو پتہ نہ چلے۔دور سے گاڑیاں آنے کی آواز اور روشنی پر مرجان نے گھبرا کر اس جانب دیکھا اور ایک بڑے سے پتھر کے پیچھے چھپ گئی۔


گاڑی کچھ فاصلے پر آ کر رکی اور مرجان اور ویرہ گاڑی میں سے نکلے۔ویرہ کو دیکھ کر مرجان کا روم روم خوف سے کانپ گیا۔


لیکن پھر ایک گھر کی جانب سے کسی لڑکی کے چیخنے کی آواز سنائی دی تو دونوں اس گھر کی جانب چل دیے۔مرجان نے انکے جاتے ہی وہاں سے جانا چاہا لیکن اچانک کی کسی نے اسکا بازو جکڑ لیا۔


مرجان نے سہم کر اس آدمی کو دیکھا جو وانیا کے پیچھے بھاگا تھا۔


"کیا بات ہے ویرہ کو اسکی بیوی کے کرتوت پتہ چلے گا تو مزہ آ جائے گا۔۔۔"


اتنا کہہ کر اس آدمی نے مرجان کو کھینچنا چاہا لیکن مرجان روتے ہوئے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔


"نن۔۔۔۔نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔"


مرجان اپنے آپ کو چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی لیکن اس آدمی کی پکڑ بہت مظبوط تھی۔وہ اسے اس جانب لے جانے لگا جہاں ویرہ گیا تھا۔مرجان کا حلق خوف سے سوکھ گیا تھا وہ اس آدمی کی پکڑ میں مزید مچلنے لگی لیکن وہ اسے سیدھا ویرہ کے پاس لے گیا جو حیرت سے مرجان کو دیکھ رہا تھا۔


"ما هغه جهيل ته نږدې وموندله هغې له دې نجلۍ سره مرسته وکړه چې وتښتي (میں نے اسے جھیل کے قریب پایا۔یہ اس لڑکی بھاگنے میں مدد کر رہی تھی۔)"


اس آدمی کی بات پر مرجان ویرہ کی رگیں غصے سے تنے ہوئے دیکھ سکتی تھی۔وہ مرجان کے پاس آیا اور اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔


"زه بخښنه۔۔۔۔"


مرجان نے معافی مانگنی چاہی لیکن ویرہ کی گھوری پر اسکے الفاظ منہ میں ہی اٹک گئے اور وہ سہم کر اسے دیکھنے لگی۔


"تم اس کو نہیں لے کر جا سکتے راگا۔۔۔"


کال کی آواز پر مرجان کا دھیان راگا کی جانب گیا جو روتی ہوئی وانیا کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے لے جانا چاہ رہا تھا۔


"کیا کہا تو نے؟"


راگا بولنے سے زیادہ غرایا تھا۔


"تم اسے یہاں سے نہیں لے جا سکتے راگا یہ اب میری ہے چاہے تو ویرہ سے پوچھ لو۔۔۔۔"


اس بات پر مرجان نے بھی گھبر کر ویرہ کی جانب دیکھا جس کے ماتھے پر شکن تھی۔ضرور وہ بھی کال کی بات سمجھ نہیں سکا۔


"تمہیں یاد نہیں راگا ہمارے قبیلے کا اصول ہے جب کوئی قیدی عورت ایک آدمی کو چھوڑ کر دوسرے کے پاس آئے تو وہ اس کی ہو جاتی ہے اور تمہاری عورت میرے پاس خود چل کر آئی ہے۔۔۔۔اب یہ میری ہوئی راگا تم اسے نہیں لے جا سکتے۔۔۔۔"


کال کی بات پر مرجان نے گھبرا کر وانیا کو دیکھا۔کیا وہ چھپنے کے لیے کال کے گھر میں گھس گئی تھی؟اگر ایسا تھا تو یہ بہت بڑی مصیبت تھی کیونکہ کال سچ کہہ رہا تھا۔انکے گاؤں کا یہی اصول تھا۔


"میں نہیں مانتا اس اصول کو۔۔۔"


راگا نے غصے سے کہا لیکن کال بس مسکرا دیا۔


"مانو یا نہ مانو اصول تو یہی ہے اور سردار ہونے کے ناطے تمہیں اس اصول پر چلنا ہی ہوگا۔"


مرجان نے افسوس سے وانیا کی جانب دیکھا جو زارو قطار رو رہی تھی۔مرجان تو اسکی مدد کرنا چاہتی تھی اسے کیا پتہ تھا کہ وہ دونوں اتنی بڑی مصیبت میں پھنس جائیں گی۔


"کال صحیح کہہ رہا ہے راگا اب اس لڑکی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔۔۔"


ویرہ کی آواز پر مرجان نے حیرت سے اپنے شوہر کی جانب دیکھا پھر اس نے وانیا کو دیکھا جو کال اور ویرہ کے خوف سے راگا کے بازو سے چپکی ہوئی تھی۔


"اگر بات حق کی ہی ہے تو پھر اس پر ایسا حق حاصل کروں گا کہ تم تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے مجھ سے دور کر میرے حق پر سوال نہیں اٹھا سکے گی۔۔۔۔"


وانیا نے سہم کر راگا کو دیکھا تھا۔


"مولوی کو بلاؤ ویرہ میں ابھی اسی وقت اس سے نکاح کروں گا۔"


راگا کی بات پر وانیا کے ساتھ ساتھ مرجان کا سانس بھی اس کے حلق میں اٹک گیا۔وانیا آزادی کی چاہ میں بہت بڑی مشکل میں پھنس چکی تھی۔


"راگا یہ تم کیا۔۔۔۔؟"


"جیسا کہا ہے ویسا کرو ویرہ"


راگا کے سختی سے کہنے پر مرجان نے بے بسی سے وانیا کو دیکھا جو روتے ہوئے انکار میں سر ہلا رہی تھی۔


"ممم۔۔۔۔۔میں آپ سے نکاح نہیں کروں گی۔۔۔"


"تم سے پوچھا نہیں تمہیں بتایا ہے یہ نکاح ہوگا اور اسی وقت ہو گا۔۔۔۔"


راگا نے اسکے بازو پر اپنی پکڑ مظبوط کر کے کہا۔


""نہیں کروں گی میں آپ سے نکاح۔۔۔۔انکار کر دوں گی میں۔۔۔۔"


وانیا روتے ہوئے چلائی تھی۔


""نہیں کرو گی تم یہ نکاح؟"


راگا کی آواز میں موجود غصے پر مرجان کی روح تک کانپ گئی تھی اور ایسی ہی کچھ حالت وانیا کی بھی تھی لیکن پھر بھی اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔راگا نے جھٹکے سے وانیا کا نازک وجود کال کی جانب پھینکا جس نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔


"تمہاری ہوئی یہ جو مرضی کرو اس کے ساتھ۔۔۔۔"


راگا اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا لیکن وانیا سسک کر راگا کے پاس آئی اور اسکے بازو سے لپٹ گئی۔


""مم۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر مت جائیں ۔۔۔۔مم۔۔۔۔مجھے اس کے پاس نہیں رہنا۔۔۔۔"


وانیا نے روتے ہوئے کہا تھا جبکہ راگا نے اسے گھورا۔


""تمہارے پاس اس وقت دو ہی راستے ہیں یا تو مجھے قبول کر کے ہمیشہ کے لیے میری حفاظت میں آ جاؤ یا کال کے پاس چلی جاؤ فیصلہ تمہارا ہے۔۔۔۔"


راگا کی بات پر وانیا نے ایک نگاہ کال پر ڈالی جو حوس بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔پھر وہ بے بسی اپنی نم آنکھیں موند گئی۔اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔


"مم۔۔۔۔مجھے یہ نکاح منظور ہے۔۔۔۔"


وانیا کے جواب پر مرجان نے نم آنکھوں سے اپنی دوست کو دیکھا جبکہ راگا کے ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ آئی تھی۔


"میں ابھی اور اسی وقت اس سے نکاح کروں گا۔۔۔"


راگا نے ویرہ سے کہا تو ویرہ نے ایک نگاہ اپنی پکڑ میں بت بنی مرجان کو دیکھا۔


"جو مرضی کرو میری بلا سے اس وقت مجھے کسی کو اسکی بے وقوفی کا مزہ چکھانا ہے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ مرجان کو اپنے ساتھ کھینچ کر لے جانے لگا۔مرجان نے نم آنکھوں سے اپنے شوہر کی جانب دیکھا۔


"راگا لالہ کو ایسا نہ کرنے دیں ۔۔۔۔ووو۔۔۔وانیا یہاں کا نہیں ہے وہ کیسے ان سے نکاح کر سکتا۔۔۔یہ اس کے ساتھ زیادتی ۔۔۔"


ویرہ نے اچانک رک کر مرجان کو دیکھا تو اسکے الفاظ خوف سے حلق میں ہی اٹک گئے۔


"اس وقت اسکی بجائے اپنی پرواہ کرو تم۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ اسے اپنے گھر لے گیا اور مرجان کو اپنے کمرے میں لے جا کر جھٹکے سے چھوڑا۔اپنا توازن برقرار نہ رکھتی مرجان فرش پر گری تھی۔


"کیوں کیا تم نے ایسا؟"


ویرہ نے مٹھیاں بھینچ کر پوچھا۔مرجان نے آج پہلی مرتبہ اسے اتنے غصے میں دیکھا تھا ورنہ وہ تو بس ہر وقت سرد مہر سی سنجیدگی میں رہتا تھا لیکن اس کے غصے کے باوجود مرجان نے ہمت کرنے کا فیصلہ کیا۔


"وو۔۔۔۔وانیا یہاں سے جانا چاہتا ہے۔۔۔۔۔وہ اپنے بابا کے پاس جانا چاہتا ہے میں۔۔۔بس اسکا مدد۔۔۔۔"


مرجان کے الفاظ منہ میں ہی تھے جب ویرہ اسکے پاس آیا اور اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔


"کہا تھا ناں تم سے کہ کوئی بے وقوفی مت کرنا۔۔۔۔کہا تھا ناں پھر کیسے ہمت ہوئی تمہاری یہ سب کرنے کی۔۔۔"


ویرہ کے غصے سے چلانے پر مرجان کا روم روم خوف سے کانپ گیا۔


"وو۔۔۔۔وہ میرا دوست ہے اور اسکی مدد کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔مر بھی۔۔ "


چٹاخ۔۔۔ایک زور دار تھپڑ مرجان کے گال پر پڑا تھا جس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ وہ اوندھے منہ زمین پر جا گری۔


"اگر پھر کبھی یہ لفظ تمہاری زبان پر آیا تو اس لڑکی کے لیے مرنے کی نوبت نہیں آئے گی میں خود تمہاری جان لے لوں گا۔۔"


ویرہ نے غصے سے کہا جبکہ مرجان بس اپنے گال پر ہاتھ رکھے تو رہی تھی جس میں اتنی تکلیف ہو رہی تھی جیسے کہ وہ ٹوٹ چکا ہو۔


"آج کے بعد تم ایسی بے وقوفی نہیں کرو گی وہ لڑکی یہاں مرے یا جیے اس سے تمہارا کوئی لینا دنیا نہیں۔۔۔تم بس اتنا کرو گی جتنا تمہیں کہا گیا ہے۔۔۔۔سمجھ گئی؟"


ویرہ نے غصے مرجان کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو سر جھکائے رو رہی تھی۔پھر مرجان نے آنسو پونچھے اور سر اٹھا کر ویرہ کو دیکھا۔


"سمجھ گیا۔۔۔۔اچھی طرح سے سمجھ گیا۔۔۔۔۔"


مرجان کے مڑنے پر ویرہ کی نظر اسکے نازک گال پر پڑی تھی جس پر اسکی انگلیوں کے نیلے نشان واضح ہو رہے تھے جبکہ نازک ہونٹ پھٹنے کی وجہ سے اسکے پاس سے خون نکل رہا تھا۔


"اور یہ بھی سمجھ گیا کہ میں کیا ہوں۔۔۔میرا حیثیت کیا ہے۔۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا جبکہ ویرہ کی نظریں بس اسکے گال پر تھیں۔


"یہ سمجھ گیا کہ میں بس آپ کے پیر کا جوتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔یہ سمجھ گیا کہ آپ کو جو سمجھا تھا آپ وہ نہیں میرے ابا جیسے ہو آپ بالکل انکے جیسا ظالم اور سنگ دل۔۔۔۔"


مرجان نے اتنا کہہ کر اپنے آنسو پونچھے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔


"اور فکر مت کریں اب میں کچھ غلط نہیں کرے گا۔۔۔۔اب بس اپنی ماں جیسا زندہ لاش بن جائے گا بالکل جیسا ابا چاہتے تھے۔۔۔۔بالکل جیسا آپ چاہتا ہے۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا اور ویرہ ضبط سے اپنی آنکھیں موند گیا۔


"آپ کے ہاتھ کا کٹھ پُتلی بن کر رہوں گی۔۔۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر مرجان روتے ہوئے کمرے سے نکل گئی اور ویرہ نے اپنے اس ہاتھ کو دیکھا جس کا نشان اس نے مرجان کے نازک گال پر چھوڑا تھا۔


اپنے ہاتھ کو مٹھی میں بھینچ کر اس نے دیوار میں اتنی شدت سے مارا کہ ایک دراڑ دیوار میں نمایاں ہوئی تھی لیکن یہ کافی نہیں تھا ویرہ کا دل کر رہا تھا اپنا وہ ہاتھ توڑ دے جس سے اس نے مرجان کے چہرے سے زیادہ اسکے دل اور اسکے جزبات کو تکلیف پہنچائی تھی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان کتنی ہی دیر اپنے کمرے میں واپس آنے کے بعد روتی رہی تھی۔وہ تھپڑ اسکے چہرے سے زیادہ اسکے دل کو چھلنی کر گیا تھا۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ویرہ اس حد تک جا سکتا ہے لیکن اسکی اس حرکت نے مرجان کے نازک دل کو بری طرح سے توڑ کر رکھ دیا تھا۔


اپنے دل کر ان زخموں پر آنسو بہاتی وہ کب سو گئی اسے اندازہ اسے بھی نہیں ہوا تھا۔تقریباً فجر کے وقت ویرہ اسکے کمرے میں آیا تو اس نے مرجان کو سوتے ہوئے پایا۔


پلکوں پر ٹھہرے آنسو اسکے بہت دیر تک رونے کی گواہی دیے رہے تھے۔ویرہ نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اسکے گال کو چھوا جہاں اسکے بھاری ہاتھ کا نشان تھا۔ایک بار پھر سے اپنے ہاتھ کو مٹھی میں بھینچ کر اس نے فرش پر مارا تھا۔


وہ جانتا تھا کہ مرجان نے غلطی کی تھی لیکن اسکا رد عمل ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔وہ تو پھولوں جیسی نازک تھی پھر کیسے ویرہ نے اپنی طاقت کا استعمال اسے خلاف کیا۔ویرہ نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اسکے گال کو چھوا۔


"جانتا ہوں میرے عمل نے تمہیں تکلیف دی ہے دلِ جاناں لیکن پھر کبھی یوں مرنے کی بات مت کرنا۔۔ "


ویرہ نے مردہ آنکھوں سے اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے سرگوشی کی۔


"کسی اپنے کی موت کا کیا کرب ہوتا ہے یہ تم نہیں جانتی۔۔۔"


ویرہ نے نرمی سے اسکا گال سہلایا۔


"اب کسی اپنے کو کھونے کی سکت نہیں ہے مجھ میں۔۔۔"


ویرہ یہ بات کہہ کر کرب سے اپنی آنکھیں موند گیا۔


"تم سوچ بھی نہیں سکتی تمہاری اس بیوقوفی کا نتیجہ کیا نکل سکتا تھا۔۔۔۔"


ویرہ نے گہرا سانس لے کر کہا۔


"اگر وہ لڑکی بھاگ جاتی یا اسے کچھ ہو جاتا تو تم قبیلے کے قانون کے مطابق سزا کی حقدار ہو جاتی۔۔۔راگا اپنی عورت کے چھن جانے پر تمہیں مجھ سے چھیننے کا حق رکھتا تھا۔"


اس بات پر ویرہ ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ گیا جبکہ آنکھوں میں جنون اترا تھا۔


"اور اسکے ایسا کرنے سے پہلے میں اسکی جان لے لیتا۔۔۔۔اور ایسا کر کے میں سب ختم کر دیتا۔۔۔"


ویرہ نے مرجان کی جانب دیکھا جو اس سے انجان سو رہی تھی۔


"اسی لیے نہیں چاہتا تھا میں تمہیں اپنانا نہیں چاہتا تھا کہ تم میرے قریب آؤ۔"


ویرہ کی ہلکی سی سرگوشی اس خالی کمرے میں گونجی جس سے بے خبر مرجان پلکوں پر آنسو سجائے سو رہی تھی۔


"میں مکمل طور پر بکھرا ہوا ہوں دلِ جاناں اور تم مجھے سمیٹ نہیں پاؤ گی۔۔۔۔"


ویرہ نے پھر سے اسکا گال نرمی سے سہلایا۔


"لیکن تمہاری دوری مجھے مزید توڑ دے گی اور ایسا ہوا تو یا میں خود مر جاؤں گا ۔۔۔۔"


ویرہ ایک پل کو رکا اور اسکی آنکھوں میں دہکتی وحشت نمایاں ہوئی۔


"یا سب کو مار دوں گا۔۔۔۔اس دنیا کو جلا دوں گا جس میں تم نہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ اپنی مٹھیاں بھینچتا اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔دل و دماغ کی جنگ اس پر حاوی ہو رہی تھی۔اس لڑکی کو لے کر اپنے جزبات سمجھنے سے وہ غافل تھا اور یہ احساسات اسکے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

صبح مرجان کی آنکھ کھلی تو ویرہ گھر نہیں تھا۔شائید اس کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ اپنے کام کے لیے جا چکا تھا لیکن مرجان کو اس بات پر اعتراض نہیں تھا۔اس وقت وہ ویرہ کا سامنا کرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔


اس نے وانیا کے لیے ناشتہ بنایا اور راگا کے گھر کی جانب چل دی۔دروازہ کھٹکھٹانے پر راگا نے دروازہ کھولا۔


"لالہ ناشتہ۔۔۔"


مرجان کے کہنے پر راگا نے اثبات میں سر ہلا کر اسے اندر آنے کا کہا جبکہ سنجیدہ نگاہیں مرجان کے گال پر موجود نشان پر تھیں۔


"کل سے تم ناشتہ نہیں لاؤ گی مرجان اب میرا بیوی ہے وہ خود بنایا کرے اور ساتھ ہی ساتھ اسے ہر کام سمجھا دینا اب کمرے میں بند رہنے کی بجائے اسے میرا ہر کام سنبھالنا ہے۔"


راگا کی بات نے مرجان کو حیران کیا۔یعنی راگا نے اپنی بات سچ ثابت کی تھی وہ وانیا سے نکاح کر چکا تھا۔


آپ مجھے باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔۔۔؟"


وانیا کی آواز پر مرجان کا دھیان اسکی جانب گیا۔


"بالکل۔۔"


"آپکو ڈر نہیں لگتا کہ میں بھاگ جاؤں گی؟"


وانیا کے سوال پر مرجان کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لے کیا اسے یہاں سے بھاگنا اتنا ہی آسان لگتا تھا۔


"کہا نا کہ اب تمہارا ہر راستہ صرف مجھ تک آتا ہے تو مجھ سے دور جاؤ گی کہاں۔۔۔؟"


راگا نے ہنستے ہوئے ایک آنکھ دبا کر کہا اور کمرے سے نکل گیا۔مرجان خاموشی سے وانیا کے لیے ناشتہ نکالنے لگی۔


آئی ایم سوری مرجان مجھے معاف کر دو میری وجہ سے تمہارے شوہر نے تمہیں مارا۔۔۔"


وانیا کی بات پر مرجان نے اپنا گال چھوا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔


"نہیں وانی یہ تمہارا غلطی نہیں آج یا کل تو یہ ہونا ہی تھا لیکن میں نے نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنی جلدی ہو گا۔۔۔۔وہ بہت برے سہی وانی لیکن انہوں نے کبھی مجھے مارا نہیں لیکن رات یہ بھی کمی پورا کر دیا انہوں نے۔۔۔"


مرجان کی بات پر وانیا کے رونے میں روانی آئی تھی۔


"مجھے یہاں نہیں رہنا مرجان۔۔۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے میں کیا کروں ۔۔۔۔"


"بس اللہ پر بھروسہ رکھو وانی وہ جلد ہی تمہارے لیے وصیلہ پیدا کرے گا۔۔۔"


مرجان نے سنجیدگی سے کہا تو وانیا اسکے پاس بیٹھ گئی اور اسے روتے ہوئے گزری رات کا ہر واقع بتانے لگی کہ کیسے کال سے بچنے کے لیے اس نے راگا کو قبول کر لیا تھا لیکن وہ ایسا کرنا نہیں چاہتی تھی وہ ایک لفٹیننٹ کی بیٹی ہو کر دہشتگرد کی بیوی کیسے بن سکتی تھی؟


اور یہ بات مرجان بھی سمجھ سکتی تھی۔ہاں وانیا راگا کے ساتھ رشتہ نہیں نبھا سکتی تھی اسکی دنیا الگ تھی اور اسے اس دنیا میں زبردستی رکھنا اسکے ساتھ زیادتی تھی۔مرجان خود تو اس دنیا سے علیحدہ نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ یہاں پیدا ہوئی تھی یہ جہنم اسکا مقدر تھا لیکن وہ وانیا کو یہاں سے نکالنا چاہتی تھی کچھ بھی کر کے۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ راگا کے ساتھ کام کی باتیں کر رہا تھا۔راگا چاہتا تھا کہ اب وہ لوگ سلطان کی غلامی چھوڑ کر خود مختار ہوں اور خود ایک دہشت،ایک طاقت بنے اور ویرہ نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔


یہی نہیں اس نے پہلی بار راگا کو اپنی آپ بیتی سنائی تھی اسے وہ سب بتایا تھا جو اسکے ساتھ ہوا اور اس بات پر ویرہ خود حیران تھا۔وہ راگا کو تقریباً تین سالوں سے جانتا تھا لیکن آج تک اس نے کسی پر اتنا بھروسہ نہیں کیا تھا کہ اسے اپنا ماضی بتا دے تو اب ایسا کیا ہوا تھا کہ ویرہ نے راگا کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا۔


راگا نے ویرہ کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔


"فکر مت کر ویرہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔"


ویرہ نے آنکھیں موند کر ہاں میں سر ہلایا تو راگا نے اسکے کندھے سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور اسکی نگاہ ویرہ کے ہاتھ پر گئی۔جس کی انگلیاں لال ہو رہی تھیں اور بہت جگہ خراشیں لگی تھیں جیسے اس نے اپنا ہاتھ کہیں زور سے مارا ہو۔


"تو نے کل رات اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھایا کیا؟"


راگا کے سوال پر ویرہ نے اپنی آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔


"یہ میرا ذاتی۔۔۔۔"


"جانتا ہوں ماڑا کہ یہ تیرا ذاتی معاملہ ہے میں بس ایک دوست ہونے کے ناطے سے پوچھ رہا ہوں۔"


راگا نے اسکی بات کاٹ کر کہا تو ویرہ نے گہرا سانس لیا۔


"عورتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بعض اوقات انہیں انکی حد یاد دلانی پڑتی ہے راگا ورنہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔"


ویرہ نے یعقوب خان کا رٹایا ہوا سبق راگا کو بتا دیا۔ جس پر راگا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی۔


"نہیں ویرہ تو غلط ہے۔۔۔عورت ایک ایسے پھول کی مانند ہوتی ہے جسے محبت سے رکھو تو اپنے مالک کی خاطر کھل جاتا ہے اسکے لیے کسی بھی طوفان سے لڑ جاتا ہے لیکن اگر اس سے سختی سے پیش آؤ تو بہت آسانی سے مرجھا جاتا ہے وہ۔۔۔۔عورت بہت عظیم ہوتا ہے ماڑا۔۔۔۔لیکن وہ خوف کی وجہ سے صرف تب تک تمہارے ساتھ رہے گا جب تک وہ خوف قائم رہے گا لیکن محبت کی وجہ سے وہ تا قیامت تمہارا ہی ہو کر رہے گا۔"


راگا کی بات پر ویرہ گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔تو کیا مرجان اسکے سامنے ہنسنا مسکرانا،اس باتیں کرنا ،یہاں تک کہ اسے باچا بلانا اسی لیے چھوڑ گئی تھی کہ ویرہ کے سلوک سے وہ ٹوٹ چکی تھی۔


اسکے دل کے سب جزبات ختم ہو گئے تھے اور اگر ویرہ کے لیے کوئی جذبہ بچا تھا تو وہ صرف ڈر کا تھا؟ویرہ کو یہ بات صیحح لگنی چاہیے تھی وہ یہی تو چاہتا تھا کہ مرجان اس سے صرف ڈرے اور اس سے محبت کرنا چھوڑ دے لیکن اس سب کی وجہ سے وہ مرجھا گئی تھی۔


ہاں اسکا وہ نازک پھول مرجھا گیا تھا وہ اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی اور اسکی وجہ ویرہ تھا۔وہ تو اپنے دل میں اسکے لیے کھرے جزبات رکھتی تھی لیکن ویرہ نے اسکے جزبات کو اپنی بے رخی سے روند کر اسے مرجھانے پر مجبور کر دیا تھا۔


انہیں سوچوں کے ساتھ ویرہ گھر واپس آیا۔ سب سے پہلے بے چین نگاہوں نے مرجان کو تلاش کرنا چاہا۔وہ اسے باورچی خانے میں کام کرتی نظر آئی تو اسے دیکھ کر ویرہ کو اپنے دل میں سکون اترتا محسوس ہوا تھا۔


"سنو۔۔۔۔"


ویرہ کے پکارنے پر مرجان نے اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ویرہ کی نظر بھٹک کر پھر سے اپنے دیے نشان پر گئی تو ایک بار پھر سے اپنی مٹھی بھینچ گیا۔اپنے ہاتھ کو دی گئی سزا اسے بہت کم لگ رہی تھی۔


"اب۔۔۔۔اب کیسی ہو تم؟"


ویرہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس سے کیا کہے۔


"ٹھیک ہوں۔۔۔"


مرجان نے سنجیدگی سے کہا اور کھانا بنانے لگی۔ویرہ کا دل کیا وہ پہلے کی طرح اسے مسکرا کر دیکھے اس سے معصوم سی باتیں کرے۔اسے زما باچا بلائے۔


"سنو۔۔۔"


ویرہ کے پکارنے پر مرجان نے پھر سے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"جی...؟"


تم مجھے اب باچا کہہ کر کیوں نہیں بلاتی؟


ویرہ نے دل میں سوال کیا لیکن اس سوال کو زبان پر نہیں لا پایا تھا۔


"کچھ نہیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ باورچی خانے سے باہر نکل گیا اور مرجان خاموشی سے اپنا کام کرنے لگی۔ویرہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا چاہتا تھا۔


وہ یہی چاہتا تھا کہ مرجان کے دل میں موجود محبت ختم ہو جائے اس کے دل میں ویرہ کو لے کر کوئی جذبہ نہ ہو تا کہ اگر کل کو اسے کچھ ہو جائے تو مرجان دکھی ہونے کی بجائے خوش ہو اور اپنی زندگی میں آگے بڑھ جائے۔


اب جب ایسا ہو چکا تھا مرجان اپنے دل میں چھپی اس محبت کو،اپنے سارے جزبات کو ختم کر چکی تھی تو ویرہ کیوں بے چین ہو رہا تھا۔


اسے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ اس معصوم دل سے اپنی محبت ختم کر کے اس کے اپنی دنیا اجاڑ لی ہو۔ویرہ اپنے جزبات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔کاش کوئی اسے سمجھا پاتا کہ یہ جزبات عشق کی وہی آتش تھی جسے وہ مرجان کے دل سے اپنی بے رخی کے زریعے بجھانا چاہتا تھا۔


لیکن اس آتش عشق کو دنیا کے ساتھ سمندر بھی ناں بجھا پائیں تو وہ کیا چیز تھا۔اس کے دل میں ابھی اس آتش نے بس ایک چنگاری پکڑی تھی ابھی تو اس نے اسے جلا کر کندن سے سونا بنانا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان ویرہ کے کپڑے دھونے کے لیے جھیل کے پاس گئی تھی۔اسکے ذہن پر صرف وانیا کا ہی خیال سوار تھا۔وہ خود جو زندگی جی رہی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ وانیا بھی وہ زندگی جیے۔


وانیا نے جو اسے بتایا تھا اس سے مرجان کو یہی اندازہ ہوا تھا کہ راگا اتنا برا انسان بھی نہیں تھا۔وانیا سے نکاح ہونے کے باجود،ہر حق ہونے کے باجود اس نے اس سے کوئی زور زبردستی نہیں کی تھی۔


لیکن اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ وانیا سب بھول کر راگا کے ساتھ زندگی گزارنے لگ جاتی اسے اسکی دنیا میں لوٹ کر واپس جانا تھا لیکن مرجان سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسکی مدد کیسے کرے وہ پہلے ہی خود کے ساتھ ساتھ وانیا کی مشکل بڑھا چکی تھی۔


مرجان کپڑے دھوتے ہوئے وانیا کے بارے میں سوچ رہی تھی جب ایک سپاہی گشت کرتا اسکی جانب آیا۔اس نے ہاتھ میں بندوق پکڑی تھی اور چہرے کو سفید اور لال عربی رومال سے ڈھانپا ہوا تھا بلکہ جیسے انکے ہاں کا ہر سپاہی کرتا تھا۔


وہ مرجان کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا گیا اور یہاں وہاں دیکھنے لگا۔مرجان نے باقی عورتوں کی جانب دیکھا جو اس سے کچھ فاصلے پر اپنے دھیان کپڑے دھو رہی تھیں۔


"مجھے معاف کر دو بہن میری وجہ سے تم مشکل میں پھنس گئی اور وہ بھی۔۔۔"


اس آدمی کی آواز پر مرجان حیرت سے پلٹی کیونکہ یہ اسی آدمی کی آواز تھی جو اس رات انکے گھر آیا تھا۔


"پیچھے مڑ کر مجھے مت دیکھو سب کو شک ہو جائے گا بس اپنے دھیان اپنا کام کرتی رہو ۔۔۔"


وہ آدمی بات تو مرجان سے کر رہا تھا لیکن اسکا دھیان یہاں وہاں تھا اور مرجان بھی ایسا کرنے لگی۔ہاتھ کپڑے دھو رہے تھے لیکن ساری توجہ پیچھے کھڑے اس شخص پر تھی۔


"نہیں لالہ قصور آپ کا نہیں میرا تھا مجھے ٹارچ لے کر نہیں جانا چاہیے تھا اسی کی وجہ سے وہ پہرے دار ہماری طرف آیا۔۔۔۔"


مرجان نے کپڑے دھوتے ہوئے کہا تو اس آدمی نے گہرا سانس لیا۔


"نہیں بہن میرا قصور تھا۔اپنے مقصد کے لیے تمہیں مصیبت میں ڈالا میں نے لیکن فکر مت کرو اب میں ایسا نہیں کروں گا میں خود ہی کچھ کر کے اسے آزاد کروا لوں گا تم پریشان مت ہو۔۔۔بس۔۔۔۔بس مجھے بڑا بھائی سمجھ کر معاف کر دینا۔"


اتنا کہہ کر وہ آدمی وہاں سے جانے لگا۔


"نہیں۔۔۔۔"


مرجان نے ہلکے سے کہا تو وہ اپنی جگہ پر رک گیا۔


"نہیں لالہ مجھے آپکا مدد کرنا ہے۔۔۔وانیا دوست ہے میرا اکیلا نہیں چھوڑ سکتی اسے۔۔۔۔"


مرجان نے گویا حتمی فیصلہ سنایا۔


"لیکن اگر پھر سے کوئی مسلہ ہو گیا تو۔۔۔"


"اس بار کوئی مسلہ نہیں ہو گا کیونکہ میں یہ کام اکیلے نہیں کروں گی بس آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں۔"


مرجان کی بات پر اس آدمی نے گہرا سانس لیا۔


"ٹھیک ہے لیکن اسے تنہا بھیجنا تا کہ تمہارا نام نہ آئے باقی سب میں دیکھ لوں گا۔"


مرجان نے ہاں میں سر ہلایا۔


"کب اور کیسے کرنا ہے سب؟"


مرجان کے سوال پر وہ آدمی کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔


"راگا سردار اپنے نکاح کی خوشی میں ایک جشن رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے ہم اسی جشن کی بھیڑ کا فایدہ اٹھا کر اس کو بھگائیں گے۔"


مرجان نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ آدمی وہاں سے جانے لگا۔مرجان نے ایک نگاہ اسے دیکھا تو اسکی نظر نقاب میں سے ہلکا سا نظر آتے اسکے گال پر موجود ایک زخم پر گئی جو آنکھ سے زرا سا نیچے تھا۔


وہ زخم پرانا تھا لیکن اتنا بھی نہیں اور مرجان کو لگا کہ اس نے وہ زخم پہلے بھی کہیں دیکھا تھا۔یہی اس کی اچھی بات تھی وہ ایک بار دیکھی چیز کو آسانی سے نہیں بھولتی تھی۔


بہت سوچنے کے بعد اچانک اسکے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا۔اسے یاد آیا کہ اس نے وہ زخم کس کے گال پر دیکھا تھا۔ساتھ اسے اس آدمی کی آنکھیں یاد آئیں جو ہوبہو اِسی آدمی کے جیسی تھیں۔


اپنے انکشاف پر مرجان کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ایسا کیسے ہو سکتا تھا اگر یہی وہ آدمی تھا تو وہ وانیا کو چھڑانے کی جدوجہد کیوں کر رہا تھا۔


مرجان کو لگا کہ اسکا دماغ گھوم جائے گا یا وہ پاگل ہو جائے گی۔وہ اس آدمی کا مقصد سمجھ نہیں پا رہی تھی لیکن ایک بات وہ سمجھ چکی تھی۔مرجان کو وانیا کی پرواہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی وہ پہلے سے ہی محفوظ ہاتھوں میں تھی۔

"جانان تم پاگل ہو گئی ہو یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟"


اپنی بیٹی کی بات پر الماس نے حیرت سے اسے دیکھا جو شائید پاگل ہو گئی تھی تبھی ایسی بات کر رہی تھی جبکہ بستر پر بیٹھا دلاور بس خاموشی سے اپنی بڑی بہن کو دیکھ رہا تھا۔


"صحیح کہہ رہی ہوں اماں ہمیں وانیا کی مدد کرنی ہے یہاں سے بھاگنے میں۔۔۔"


مرجان نے عام سے انداز میں کہا جیسے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہو۔


"پاگل ہو گئی ہو تم یہ سب ایک انجان آدمی کے کہنے پر کر رہی ہو جسے جانتی بھی نہیں تم اور انجام سوچا ہے تم نے کیا ہو گا اگر ہم پکڑے گئے تو؟"


الماس نے حیرت سے پوچھا تو مرجان ہلکا سا مسکرائی۔


"وہ شخص انجان نہیں ہے اور جتنا کچھ وہ وانیا کے لیے کر رہا مجھے یقین ہے وہ ہم پر آنچ بھی نہیں آنے دے گا بس آپ کو میری مدد کرنی ہے۔۔۔۔"


مرجان نے دلاور کی جانب دیکھا جو خاموشی سے انکی باتیں سن رہا تھا۔


"اس رات جو ہوا اس کے بعد ویرہ مجھ پر بھروسہ نہیں کریں گے اسی لیے وانیا کو گاؤں کی سرحد سے نکالنے میں کسی اور کو اسکی مدد کرنی ہو گی۔۔۔"


"اور تم کیا چاہتی ہو ایسا کون کرے؟"


الماس نے مرجان کو گھورتے ہوئے پوچھا تو مرجان نے گھبرا کر دلاور کی جانب دیکھا۔


"دلاور لالہ۔۔۔"


اب کی بار الماس اپنا سر تھام کر بیٹھ گئیں۔


"بالکل پاگل ہو گئی ہو تم مرجان وہ لوگ گولی مار دیں گے دلاور کو۔۔۔"


"ایسا کچھ نہیں ہو گا یقین کریں اماں وہ ہمیں کچھ نہیں ہونے دیں گے مجھے یقین ہے ان پر ۔۔۔۔"


مرجان نے بے چینی سے کہا لیکن الماس مطمئن نہیں ہوئی تھیں۔مرجان انکے پاس آئی اور اپنا ہاتھ انکے کندھے پر رکھا۔


"ہم مظلوم ہیں اماں مجبور ہیں لیکن جب تک خاموش تماشائی بن کر سب برداشت کریں گے کیا ہم نے مرنا نہیں روز قیامت اپنے اللہ کو منہ نہیں دیکھانا؟"


مرجان کی بات پر الماس نے اسکی جانب دیکھا۔


"کم از کم ایک بار تو بہادری کا ایسا کام کر دیں کہ اپنے خدا کے سامنے سر اٹھانے کے قابل ہو جائیں اماں ورنہ یقین کریں ہمارا سر دنیا میں جھکا ہی رہے گا اور آخرت میں بھی۔۔۔"


مرجان کی بات پر دو آنسو ٹوٹ کر الماس کی آنکھوں سے بہے۔لیکن وہ کیا کر سکتی تھیں وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے بچوں پر کوئی آنچ آئے۔


"باجی صحیح کہہ رہی ہیں اماں ۔۔۔"


دلاور کی آواز پر دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"میں وانیا باجی کی مدد کروں گا باجی۔۔۔"


دلاور کی بات پر مرجان نے نم آنکھوں سے مسکرا کر اپنے بہادر بھائی کو دیکھا۔


"لیکن آپ کو مجھے بتانا ہو گا کہ وہ شخص کون ہے جو آپ کی اس کام میں مدد کر رہا ہے؟"


دلاور کے سوال پر مرجان کا سر جھک گیا۔


"یہ میں نہیں بتا سکتی دلاور کیونکہ اگر وہ اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہتے تو میرے سامنے چہرہ چھپا کر نہیں آتے۔۔۔"


دلاور نے اثبات میں سر ہلایا۔


"بس اتنا سمجھ لو کہ اس شخص کو میں بہت برا اور ظالم سمجھتی تھی لیکن وہ ایسا نہیں وہ درندے کے روپ میں چھپا مسیحا ہے۔"


مرجان نے اتنا کہہ کر دلاور کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا۔


"تو بس پھر ہمیں انتظار کرنا ہو گا راگا سردار کے جشن کا۔"


مرجان اسکی بات پر مسکرا دی۔


"بالکل۔۔۔"


مرجان نے اتنا کہہ کر اپنی ماں کو دیکھا جو خاموشی سے اپنا سر جھکا گئی تھیں۔مرجان سمجھ گئی تھی کہ وہ ماں بس اپنی اولاد کے لیے خوفزدہ ہے اور انکا ڈر جائز بھی تھا انکی اولاد درندوں میں جو پل رہی تھی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ جو صبح ہوتے ہی گھر سے نکل گیا تھا تقریباً دس بجے ناشتہ کرنے کی غرض سے گھر واپس آیا۔ہمیشہ کی طرح گھر میں داخل ہوتے ہی اسکی بے چین نگاہوں نے مرجان کو ڈھونڈا تھا۔وہ اسے باورچی خانے میں نظر آئی تو ایک سکون سا دل میں اترا تھا۔


"کھانا لگا دو۔۔۔"


مرجان ویرہ کی آواز پر اچھلی اور اثبات میں سر ہلایا۔ویرہ نہانے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا اور اپنے بالوں میں تولیہ رگڑ رہا تھا جب مرجان کھانا لے کر کمرے میں آئی۔ویرہ خاموشی سے بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تو مرجان جانے کے لیے مڑی۔


"رکو۔۔۔"


ویرہ کے حکم پر مرجان کے قدم فوراً رک گئے۔


"میرے پاس بیٹھو۔۔۔"


مرجان خاموشی سے اسکے سامنے بیٹھ گئی تو ویرہ کھانا کھانے لگا۔وہ مرجان کو بے چینی سے اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔


"کچھ کہنا ہے تم نے؟"


ویرہ کے سوال پر مرجان نے اثبات میں سر ہلایا۔


"میں اماں کے گھر چلی جاؤں؟"


مرجان کے اجازت مانگنے پر ویرہ نے اسکی جانب دیکھا۔


"کوئی خاص وجہ؟"


ویرہ کے سوال پر مرجان اسکے پاس سے اٹھ کر باورچی خانے گئی اور ایک ڈبہ لے کر اسکے پاس آئی۔


"وہ میں نے ان کو یہ دینا تھا۔"


"کیا ہے یہ ؟"


ویرہ نے ڈبے کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"وہ برفی ہے بیسن کا میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ان کا منہ میٹھا کروانے کے لیے؟"


مرجان نے زرا سا گھبرا کر کہا تو ویرہ کے ماتھے پر شکن آئی۔


"منہ میٹھا کروانے کے لیے؟"


"جی وہ آج کے دن میں پیدا ہوا تھا ناں تو وانیا نے بتایا کہ جس دن ہم پیدا ہوتا ہے وہ دن بہت خاص ہوتا ہے۔اس نے کہا آج میرا سسس۔۔۔ساللل۔۔۔۔"


مرجان لفظ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔


"سالگرہ۔۔۔"


ویرہ نے اسکی مشکل آسان کی تو مرجان نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔


"جی آج میرا سالگرہ ہے اور وانیا نے کہا اس دن اپنے گھر والوں کا منہ میٹھا کراتے ہیں اور ان سے دعائیں لیتے ہیں۔۔۔"


مرجان نے اسے بتایا جبکہ ویرہ کہیں کھو سا گیا تھا۔بہت سال پہلے کا ایک منظر اسکی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا۔ادھی رات کے وقت اسکی آنکھ کھلی تھی جب اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے سامنے پایا تھا۔


"ہیپی برتھڈے ٹو یو ہیپی برتھڈے ٹو یو ہیپی برتھڈے ڈئیر عبداللہ ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔۔۔"


اسکی ماں نے گایا تو اسکے بابا ہنستے ہوئے تالیاں بجانے لگے۔پھر انہوں نے ایک کیک عبداللہ کے سامنے کیا۔


"چلو اب جلدی سے کیک کاٹو اور ہمارا منہ میٹھا کرواؤ تا کہ زیادہ سی دعائیں دیں تمہیں۔۔۔"


اسکی ماں نے اسکے بال سہلا کر کہا تو اس نے کیک کو دیکھا اور اس پر لگی موم بتیاں بجھا کر کیک کاٹ کر اپنی ماں کے ہونٹوں کی جانب کیا۔


"ارے واہ سب بچے ہمیشہ پہلے مما کو چوز کرتے ہیں یہ تو زیادتی ہے ناں۔۔۔"


اسکے بابا نے منہ بنا کر کہا تو وہ کیک کا ٹکڑا اپنے بابا کے ہونٹوں کے پاس لے گیا۔


"ہمیشہ خوش رہو بیٹا اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو لمبی عمر دیں آمین۔۔۔"


اسکی ماں نے اسکا ماتھا چوم کر کہا تو لاڈ سے ان سے لپٹ گیا۔


"ویسے بہت جلدی بڑا نہیں ہو رہا یہ گیارہ سال کا ہو گیا زرا بریک لگاؤ مسٹر عبداللہ ابھی مجھے میرا چھوٹا سا بیٹا ہی پسند ہے۔"


سجاد نے عبداللہ کے بال بکھیر کر کہا تو اسکی ماں ہنس دیں اور اپنے ماں باپ کو خوش دیکھ وہ بھی ہنس دیا تھا۔


"آج سارا دن ہم ہمارے بیٹے کی پسند سے گزاریں گے باہر گھومنے چلیں گے اور باہر کھانا کھائیں گے۔۔۔"


سجاد کی بات پر عبداللہ اور اسکی ماں کا چہرہ کھل اٹھا اور ان کی خوشی دیکھ کر سجاد بھی خوش ہو گیا۔


"سنیے۔۔۔"


مرجان نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا تو ویرہ اپنی یادوں کے سحر سے باہر نکلا۔


"میں جاؤں کیا؟"


ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا تو مرجان اپنے کمرے میں جانے کے لیے مڑی۔


"سنو۔۔۔"


ویرہ کے پکارنے پر مرجان نے پلٹ کر اسے دیکھا۔


"جی۔۔۔؟"


ویرہ کھانا چھوڑ کر اٹھا اور اسکے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔


"میرا منہ میٹھا نہیں کرواؤ گی؟"


ویرہ کے سوال پر مرجان نے بوکھلا کر ہاتھ میں موجود ڈبے کو دیکھا۔


"مجھ سے بھی تو تمہارا کوئی تعلق ہے اور اگر دیکھا جائے تو مجھ سے تمہارا سب سے گہرا تعلق ہے۔۔"


ویرہ کی آواز میں ایک جنون ایک احساس ملکیت سا تھا۔مرجان نے ہاں میں سر ہلایا اور ڈبہ کھول کر ویرہ کے سامنے کیا۔


"اپنے ہاتھوں سے کھلاتے ہیں۔"


ویرہ کی بات پر مرجان نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑا ڈبہ دیکھا اور پھر اس میں سے ایک ٹکڑا نکال کر ویرہ کے ہونٹوں تک لے گئی۔ویرہ نے آدھا ٹکڑا اپنے منہ میں لیا تو اسکے ہونٹ مرجان کی انگلیوں سے مس ہوئے۔


اسکے اتنے سے لمس پر ہی مرجان کا دل بہت زور سے دھڑکا اور اس نے فوراً اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔


"کتنے سال کی ہو گئی ہو تم؟"


ویرہ کے سوال پر مرجان نے کپکپاتی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ اسکے بہت قریب کھڑا تھا اور اسکی قربت پر مرجان کی ہتھیلیاں پسینے سے نم ہو رہی تھیں۔


"اٹھارہ۔۔۔"


"اٹھارہ؟"


ویرہ نے حیرت سے آنکھیں کھول کر پوچھا۔


"تم تو سولہ سال کی نہیں تھی؟"


اس سوال پر مرجان ہلکا سا ہنسی۔


"ہاں تو کیا میں نے ساری زندگی سولہ سال کا ہی رہنا تھا کیا؟ ہمارے نکاح کے وقت تھا لیکن اب ہمارے نکاح کو ڈیڑھ سال ہو گیا ہے اور آج میں اٹھارہ سال کا ہو گئی ہوں۔۔"


مرجان نے اترا کر کہا تو ویرہ نے گہرا سانس لے کر ہاں میں سر ہلایا۔


"اب میں جاؤں؟"


مرجان نے پھر سے پوچھا تو ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔مرجان وہاں سے جانے لگی تو اچانک ویرہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


"منہ میٹھا کروانے کے بعد تحفہ بھی لیتے ہیں۔"


ویرہ کی بات پر مرجان نے پریشانی سے اسکی جانب دیکھا۔


"یہ تو وانیا نے نہیں بتایا تھا۔"


"لیکن میں بتا رہا ہوں ناں۔۔۔"


ویرہ نے اسے زرا سا کھینچ کر دوبارہ اپنے سامنے کیا۔مرجان نے بوکھلا کر اسے دیکھا۔


"میں کیا تحفہ لوں؟"


"جو تمہارا دل کرے۔"


ویرہ نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔اپنی قربت پر اسکا پلکیں جھکانا یوں ہچکچانا اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔


"جو بھی میرا دل کرے؟"


مرجان نے نظریں اٹھا کر پوچھا تو ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا لیکن اس سے پہلے مرجان کچھ کہتی ویرہ بول اٹھا۔


"اس لڑکی کی آزادی کے علاؤہ کچھ بھی۔۔۔"


ویرہ کی بات پر مرجان کا منہ بن گیا جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ وہی مانگنے والی تھی۔کافی سوچنے کے بعد ایک خیال مرجان کے دماغ میں آیا تو اس نے پر جوش نگاہیں اٹھا کر ویرہ کو دیکھا۔


"میں وہاں جانا چاہتی ہوں جہاں سے ہمارے گاؤں کا جھیل آتا ہے میں نے سنا ہے وہاں ایک جھرنا ہے مجھے وہ دیکھنا ہے۔۔۔"


مرجان کی فرمائش پر ویرہ نے گہرا سانس لیا۔


"تم جانتی ہو گاؤں کی حدود سے باہر لڑکیوں کو جانے کی اجازت نہیں۔"


"جانتی ہوں لیکن اکیلا جانے کا اجازت نہیں اس لیے آپ میرے ساتھ چلے جانا پھر کسی کو مسلہ نہیں ہو گا۔۔۔"


مرجان نے جلدی سے کہا جبکہ اسکے چہرے پر موجود بے چینی اور آنکھوں کی چمک کو دیکھ کر ویرہ منع نہیں کر پایا۔


"ٹھیک ہے چلو۔۔۔"


ویرہ کی بات پر مرجان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا تھا۔


"مم۔۔۔میں یہ چھوڑ کر آتی ہوں۔۔۔"


اتنا کہہ کر مرجان کمرے سے باہر بھاگ گئی اور ویرہ نے اپنی گرم چادر پکڑ کر اپنے گرد لپیٹ تھی۔اسکا دل اس سے پوچھ رہا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا اور اس نے دل سے جھوٹ بولا دیا کہ وہ ایسا اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے کر رہا ہے جبکہ اسکے جواب پر دل طنزیہ ہنسی ہنس دیا تھا۔تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد مرجان بھورے رنگ کی چادر پکڑ کر کمرے آئی۔


"چلیں؟"


مرجان کے پوچھنے پر ویرہ نے اسکی جانب دیکھا تو نظریں پلٹنا ہی بھول گیا۔وہ کپڑے بھی تبدیل کر آئی تھی اور اس وقت رنگ برنگی کڑھائی اور شیشوں کے کام سے سجے لال فراک اور سبز شلوار میں ملبوس تھی۔


آنکھوں کو گہرے کاجل سے سجا کر اس نے روایتی طور پر لگائے جانے والے تین کالے ٹیکے اپنی ٹھوڈی پر لگائے تھے اور اتنے سے سنگھار پر ہی وہ جنت سے اتری حور لگنے لگی تھی۔ویرہ کے قدم خود بخود اسکی جانب بڑھنے لگے اتنا کہ وہ اسکے بالکل پاس آ کر کھڑا ہو گیا جبکہ نظریں بس اس معصوم سرخ و سفید چہرے پر ٹکی تھیں۔


"چلیں ۔۔۔۔"


مرجان نے پوچھا تو ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔اسکے جواب پر مرجان نے مسکرا کر وہ بھوری چادر اپنے سر پر رکھی جو کہ انکا روایتی ٹوپی برقع تھا۔


اسے سر پر رکھ کر مرجان اسے اپنے چہرے پر گرانے لگی تو ویرہ نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔مرجان نے کاجل سے سجی سنہری آنکھیں اٹھا کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"رکو۔۔۔ابھی مت چھپاؤ خود کو۔۔۔۔"


ویرہ کی آواز جزبات کی آنچ سے بوجھل تھی اور اسکی پر تپش نگاہوں نے مرجان کو پلکوں کا پردہ گرانے پر مجبور کر دیا تھا۔اسکی نگاہوں کی حرارت سے مرجان کے گال دہک کر مزید گلابی ہو گئے تھے جبکہ نازک گلابی ہونٹ کپکپا کر ویرہ کو مزید بے چین کر رہے تھے۔نہ جانے نظروں کی یہ کونسی پیاس تھی جو اسے دیکھنے سے بجھنے کی بجائے مزید بڑھتی جا رہی تھی۔


"دد۔۔۔دیر ہو جائے گا۔۔۔۔"


جب وہ کتنی ہی دیر مرجان کا ہاتھ تھامے وہاں کھڑا اسے دیکھتا رہا تو مرجان نے گھبرا کر کہا۔ویرہ نے اسکا ہاتھ چھوڑا تو مرجان نے فوراً وہ برقع خود پر گرا لیا جس نے اسے مکمل طور پر چھپا دیا تھا۔یہاں تک کہ اسکی آنکھیں بھی جالی سے چھپ گئی تھیں۔


ویرہ نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لے کر گھر سے باہر نکل آیا۔کافی دشوار اور پتھریلے راستوں پر سے چلنے کے بعد آخر کار وہ دونوں اس جھرنے کے پاس پہنچ گئے تھے۔


وہ جھرنا ایک پہاڑ کے دامن سے نکل کر انکی جھیل میں گرتا تھا جبکہ جھرنے کے قریب ایک جگہ کافی سارے درخت سے جو جھرنے کے ساتھ موجود پہاڑ کے ساتھ اوپر کی جانب پھیلے ہوئے تھے۔


پہاڑوں کی چوٹیوں پر ابھی بھی سردیوں میں پڑنے والی برف موجود تھی جبکہ نیچے وادی میں اب سبزہ اور پتھر پھیلے ہوئے تھے۔


مرجان حیرت سے منہ کھولے قدرت کے اس حسین نظارے کو دیکھ رہی تھی۔جھرنے کے گرنے کی آواز اور لوگوں سے دور اس جگہ کا سکون مرجان کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔ویرہ نے اسکا ہاتھ چھوڑا تو مرجان نے اسکی جانب دیکھا۔


"جتنا وقت یہاں گزارنا چاہتی ہو گزار لو،جو کرنا چاہتی ہو کر لو بس میری نظروں سے اوجھل مت ہونا۔۔۔۔"


ویرہ حکم دے کر ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا اور مرجان اپنا برقع اٹھا کر سر پر رکھے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔ وہاں چلنے والی ہوا کی وجہ سے مرجان کا برقع بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے گر کر اسے پریشان کر رہا تھا۔


"اسے اتار دو یہاں ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں۔۔۔"


ویرہ کی بات پر مرجان نے گھبرا کر اسے دیکھا۔


"لیکن میں اپنا دوپٹہ نہیں لایا ساتھ۔۔۔"


مرجان نے مسلہ بیان کیا تو ویرہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے پاس آیا اور اسکا برقع اسکے سر سے ہٹا کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔


"تو کیا ہوا میں کوئی غیر نہیں شوہر ہوں تمہارا،تمہارا محرم،اس جسم و جاں کا مالک مجھ سے کیسا پردہ۔۔۔"


ویرہ کی گمبھیر آواز میں کہے گئے الفاظ پر مرجان کانپ سی گئی تھی۔ویرہ اپنا ہاتھ اسکے سر کے پیچھے لے گیا اور اسکے بالوں کو پونی کی قید سے آزاد کرتے ہوئے کھول دیا۔


"میں چاہتا ہوں تم اپنی خواہش کو کھل کر جیو بغیر کسی گھبراہٹ کے بالکل ویسے جیسے تم اسے جینا چاہتی ہو۔۔۔"


مرجان کے لمبے بھورے بال ہوا میں اڑنے لگے تھے۔


"سچ۔۔"


مرجان نے چہرے سے بال ہٹا کر پوچھا تو ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔اسکے جواب پر مرجان کھل کر مسکرائی اور بھاگنے والے انداز میں اس جھرنے کے پاس گئی۔وہ ان پلوں کو کھل کر جینا چاہتی تھی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ اس پتھر پر بیٹھے مرجان کو دیکھ رہا تھا جو جھیل کے کنارے بیٹھی تیزی سے بہتا پانی اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے چہرے پر چھینٹے مار کر ہنس رہی تھی۔کتنی دیر سے وہ اسکی معصوم اٹھکیلیاں دیکھ رہا تھا۔


وہ کبھی بھاگتی تھی تو کبھی جھیل کے کنارے بیٹھ کر پیر جھلانے لگتی۔کتنی ہی دیر اسکے ریشمی گھنے بال ہوا میں لہراتے رہے تھے اور اب وہ انکی چوٹی بنا کر نہ جانے کون سے جنگلی پھول اکٹھا کر کے ان میں سجا چکی تھی۔


وہ اپنے ان پلوں کو ویسے ہی کھل کر جی رہی تھی جیسے وہ چاہتی تھی اور ویرہ بس اسے دیکھ کر ہی جی رہا تھا۔ بیس سالوں کے بعد آج مرجان کو یوں ہنستا کھیلتا دیکھ اسے لگ رہا تھا کہ وہ بھی زندہ تھا اسکے سینے میں بھی ایک دل تھا جو اس لڑکی کو دیکھ کر دھڑک رہا تھا۔


مرجان جو پانی کے چھینٹے اپنے چہرے پر مار رہی تھی اس نے پانی ہاتھوں میں پکڑا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔وہ جلدی سے اٹھی اور بھاگ کر ویرہ کے پاس آئی۔


"یہ دیکھیں کتنا پیارا مچھلی ہے۔۔۔۔"


مرجان نے اپنے ہاتھ اسکے آگے کیے جن میں موجد تھوڑے سے پانی میں چھوٹی سی مچھلی تیر رہی تھی۔ایک نظر اس مچھلی کو دیکھ کر ویرہ نے مرجان کے چہرے پر جگمگاتی خوشی کو دیکھا۔


"ہم بہت بہت زیادہ خوبصورت ہے یقین کرو کبھی اتنا حسین کچھ اور نہیں دیکھا۔۔۔۔"


ویرہ نے اسکا معصوم چہرہ دیکھتے ہوئے کہا تو مرجان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔


"ہے ناں۔۔۔۔لیکن پانی ختم ہو رہا ہے یہ مر جائے گا۔۔۔"


اتنا کہہ کر مرجان واپس پانی کے پاس گئی اور اس مچھلی کو واپس پانی میں پھینک دیا۔اس کے بعد مرجان واپس درختوں کی جانب چلی گئی جب اسکی نظر ایک عجیب سے درخت پر پڑی جس پر سفید پھول تھے۔


"آپکو پتہ ہے یہ کونسا پھول ہے؟"


مرجان کے سوال پر ویرہ نے انکار میں سر ہلایا۔


"لیکن ایک بات جانتا ہوں کہ اس درخت کو ہلاؤ گی تو یہ پھول تم پر اپنی برسات کر دیں گے۔"


ویرہ کی بات پر مرجان نے آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھا اور پھر اس درخت کو ہلایا۔اسکے ہلکا سا ہلانے پر کتنے ہی پھول ٹوٹ کر مرجان پر گرے۔


یہ دیکھ کر مرجان کھکھلا کر ہنسی اور اس درخت کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ہلانے لگی اور اب وہ پھول بارش کی مانند اس پر برس رہے تھے۔ویرہ اسے پھولوں کی اس بارش میں یوں خوشی سے کھلکھلاتا دیکھ کر کھو سا گیا تھا۔


اس وقت کوئی اس سے اس لڑکی کی وقعت پوچھتا تو وہ بلا خوف کہتا کہ وہ اس لڑکی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر سکتا تھا۔مرجان ان پھولوں کو اپنے چہرے پر گرتا محسوس کر آنکھیں موند گئی اور ویرہ اسکو دیکھ کر اپنے دل میں سکون اتارتا رہا تھا۔


تم میرے ہو اس پل میرے ہو

کل شائید یہ عالم نہ رہے

کچھ ایسا ہو تم تم نہ رہو

کچھ ایسا ہو ہم ہم نہ رہیں

یہ راستے الگ ہو جائیں

چلتے چلتے ہم کھو جائیں

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا

اس چاہت میں مر جاؤں گا

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا

میری جان میں ہر خاموشی میں

تیرے پیار کے نغمے گاؤں گا

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا


جب پھول درخت سے گرنا بند ہو گئے تو مرجان ہنستے ہوئے ویرہ کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔


"اتنا مزہ مجھے کبھی نہیں آیا۔۔۔۔"


مرجان نے ہنستے ہوئے اسے بتایا تو ویرہ حسرت سے اسکے چہرے کی اس خوشی کو دیکھنے لگا۔پھر اس نے نرمی سے اپنا ہاتھ اسکے اس گال پر رکھا جس پر اس نے تھپڑ مارا تھا جسکا ہلکا سا نشان ابھی بھی قائم تھا۔


"تو کیا تم نے مجھے معاف کرو گی۔۔۔۔؟"


ویرہ نے اسکا گلا سہلا کر پوچھا تو مرجان کی مسکان غائب ہو گئی۔وہ سمجھ گئی تھی ویرہ کا اشارہ کس جانب تھا۔پہلے تو وہ خاموش رہی پھر نگاہیں اٹھا کر ویرہ کو دیکھا۔


"جب میرا آپ سے شادی ہونے والا تھا تو اماں نے کہا تھا کہ آپ بالکل اچھا نہیں بلکہ برا ہے بالکل میرے ابا کی طرح۔۔۔۔"


یہ بات کہتے ہوئے مرجان کے چہرے پر افسردگی آئی تھی جو ویرہ کو بالکل اچھی نہیں لگی تھی۔


"لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا تھا مجھے لگتا تھا آپ بالکل ویسا نہیں ہو گا آپ میرا خیال رکھے گا،مجھ سے پیار کرے گا اور کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔"


مرجان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنے گال کو انگلیوں کے پوروں سے ہلکا سا چھوا۔


"آپ نے مجھے پیار نہیں کیا میں برداشت کر گیا۔۔۔۔"


مرجان کی پلکوں پر پھر سے آنسو ٹھہر گئے تھے۔


"آپ نے میرا خیال نہیں رکھا مجھے بیوی کی بجائے اپنا غلام سمجھا میں وہ بھی برداشت کر گیا۔۔۔"


پلکوں پر ٹھہرے آنسو بہہ کر مرجان نے گال پر بہے تھے اور ویرہ اپنے دوسرے ہاتھ کو مٹھی میں بھینچ گیا۔


"لیکن یہ۔۔۔یہ مجھ سے برداشت نہیں ہو گا۔۔۔اگر آپ نے بار بار ایسا کیا تو نہیں سہہ پائے گا۔۔۔۔ میں مر جائے۔۔۔۔"


اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ویرہ نے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا تھا۔


"پھر کبھی مرنے کی بات نہیں کرنا ۔۔۔۔"


ویرہ نے سختی سے حکم دیا تو مرجان نے اسکا ہاتھ اپنے نازک ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے منہ سے ہٹایا۔


"تو پھر آپ بھی پھر کبھی مجھ پر ہاتھ نہ اٹھانا کبھی نہیں۔۔۔"


مرجان کی بات پر ویرہ اپنی آنکھیں موند گیا۔اس نے مرجان کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں نرمی سے پکڑا۔


"وعدہ کرتا ہوں پھر ایسا کبھی نہیں ہو گا۔۔۔"


اسکی بات پر مرجان نے اپنے آنسو پونچھے اور مسکرا دی۔


"تو میرا بھی وعدہ ہے میں پھر کبھی ایسی بات نہیں کروں گی۔۔۔۔"


مرجان نے اتنا کہہ کر اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں پر رکھ دیے۔


"اور میں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔"


مرجان نے نرمی سے کہا جبکہ ویرہ تو بس اسے دیکھتا جا رہا تھا۔مرجان نے اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں سے ہٹائے لیکن ویرہ نے اپنے ہاتھ اسکے چہرے سے نہیں ہٹائے۔


وہ آہستہ آہستہ اسکے قریب ہونے لگا تھا اور مرجان کی دھڑکنیں اسکے سینے میں تھمنے لگیں۔ویرہ کو اپنے قریب ہوتا دیکھ مرجان اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔


ویرہ کے ہونٹوں کا لمس اور مونچھوں کی چبھن اپنے گال پر محسوس کر مرجان کا روم روم کانپ گیا تھا۔جبکہ ویرہ اسکے گال کو اپنے محبت بھرے لمس سے منور کرنے بعد اسکے گلابی ہونٹوں کو دیکھنے لگا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ ان گلاب کی پنکھڑیوں کو اپنی گرفت میں لیتا مرجان بول اٹھی۔


"مجھے بھوک لگا ہے۔۔۔"


مرجان کی بات پر ویرہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا اور اس سے دور ہوا۔مرجان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔


"لیکن میں نے ابھی واپس نہیں جانا۔۔۔۔اتنی جلدی نہیں۔۔۔۔"


ویرہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہوا اور اسے لے کر گھنے درختوں کی جانب چل دیا تھوڑی دیر یہاں وہاں دیکھنے کے بعد اسے جنگلی بیروں کی ایک بیل دیکھائی دی۔


ویرہ نے اس سے بیریاں اتار کر مرجان کو دیں تو مرجان نے حیرت سے انکی جانب دیکھا۔


"انہیں کھاتے ہیں؟"


"کھاتے ہیں تو ہی دے رہا ہوں ناں۔۔۔۔"


ویرہ کی بات مانتے ہوئے مرجان نے ایک بیری کو ہلکا سا چکھا۔اسکا ذائقہ ترش اور میٹھا تھا اور وہ بہت مزے کی تھیں۔ویرہ نے اسے جتنی رس دار بیریاں دیں مرجان انہیں کھا چکی تھی۔


اسکے بعد ویرہ اسے جھرنے کے پاس واپس لایا مرجان نے پانی پیا اور مسکرا کر ویرہ کی جانب دیکھا۔


"مننه"(شکریہ)


مرجان نے مسکرا کر کہا اور پھر ویرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اپنے ساتھ یہاں وہاں گھمانے لگی۔اسے یہاں وہاں گھماتے ہوئے مرجان کتنی ہی معصوم باتیں اسے کر چکی تھی۔اپنے جزبات اپنی معصوم خواہشیں وہ سب ویرہ کو بتانے لگی تھی اور اسکی باتوں میں کھویا ویرہ آج اتنے سالوں کے بعد کھل کر جیا تھا۔


سارا دن کیسے گزر گیا دونوں کو ہی اسکا اندازہ نہیں ہوا تھا۔جب آسمان پر شام کے سائے لہرانے لگے تو ویرہ نے مرجان کی چادر واپس پکڑی اور اسے مرجان کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔


"اب ہمیں واپس چلنا ہے۔۔۔۔"


ویرہ کی بات پر مرجان نے منہ بنا کر اسے دیکھا اور پھر اسکی اگلی حرکت نے ویرہ کو حیران کر دیا۔وہ اپنی باہیں ویرہ کے گلے میں ڈال کر اس سے لپٹ چکی تھی۔


"یہ میری زندگی کا سب سے اچھا دن تھا میری سالگرہ کو میرے لیے اتنا خاص بنانے کا شکریہ۔۔۔۔"


مرجان نے اس سے لپٹ کر کہا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ویرہ کے ہاتھ اسکی نازک کمر کے گرد لپٹے تھے۔اس نے مرجان کو سینے سے لگا کر سکون سے آنکھیں موند لیں۔


مرجان نے سر اسکے سینے سے اٹھا کر اونچا کرتے ہوئے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"میں نہیں چاہتی آج کا دن ختم ہو۔۔۔۔"


"میں بھی۔۔۔"


ویرہ نے اسکا حسین چہرہ دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اسکی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کر دیے۔


"لیکن ہر اچھی چیز کو ختم ہو جانا ہوتا ہے اور یہی اس زندگی کی تلخ سچائی ہے۔۔۔"


مرجان نے اسکی بات پر غور کر کے ہاں میں سر ہلایا اور وہ چادر اپنے سر پر لے کر خود کو چھپانے لگی۔اس سے پہلے کہ وہ برقع خود پر گراتی ویرہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔


"ابھی نہیں۔۔۔۔ابھی مت چھپاؤ خود کو۔۔۔"


ویرہ کے یہ بات کہنے پر مرجان کے گال دہک کر گلابی ہوئے تھے اور وہ پھر سے کتنی ہی دیر وہاں کھڑا اسے دیکھتا رہا تھا۔شام کو نکلنے والے جگنو اب دونوں کے گرد منڈرا کر انہیں روشنی دے رہے تھے۔


"دیر ہو جائے گا۔۔۔"


مرجان نے آہستہ سے کہا کہ شائید ویرہ اسے چھوڑ دے یا لو دیتی وہ نظریں اسکے چہرے سے ہٹا لے۔


"ہو جانے دو۔۔۔"


ویرہ نے گھمبیر آواز میں کہا تو مرجان اسکی آواز کی شدت پر کانپ سی گئی۔ویرہ نے اسے سردی میں کپکپاتے دیکھا تو گہرا سانس لے کر خود ہی اسے چھپا دیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس لے جانے لگا۔گھر واپس پہنچ کر مرجان اپنی چادر اتارنے لگی۔


"تمہیں اماں کے گھر جا کر انکا منہ میٹھا نہیں کروانا۔۔۔"


ویرہ کے سوال پر مرجان نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔


"چلو میں تمہیں وہاں چھوڑ دیتا ہوں آج رات تم وہیں رک جانا۔۔۔"


ویرہ ایسا چاہتا تو نہیں تھا لیکن فلحال یہی بہتر تھا کہ وہ اسے خود سے دور کر دیتا۔وہ لڑکی بہت بری طرح سے اسکے حواس پر طاری ہو گئی تھی اور ویرہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ جزبات میں خود پر باندھے ضبط توڑ دے۔


"شکریہ۔۔۔۔"


مرجان نے واپس برقع خود پر ڈالا اور برفی کا ڈبہ لینے گئی۔


"مرجان۔۔۔"


ویرہ کے پکارنے پر مرجان نے مڑ کر اسے دیکھا۔


"مجھے باچا بلایا کرو اور کچھ بھی ہو جائے مجھے باچا بلانا مت چھوڑنا۔۔۔"


ویرہ کی بات پر مرجان کا منہ خوشگوار حیرت سے کھل گیا تھا۔


"میں باہر تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ گھر سے باہر نکل گیا اور مرجان آج کا دن یاد کر کے مسکراتی باورچی خانے سے وہ ڈبہ لے کر اسکے پیچھے چلی گئی۔ویرہ نے اسے اسکی ماں کے گھر چھوڑا اور باہر سے ہی مڑ کر واپس جانے لگا جب مرجان کی آواز نے اسکے قدم روکے تھے۔


"خدا حافظ زما باچا"


مرجان اتنا کہہ کر شرمیلی سی مسکان کے ساتھ اپنی ماں کے گھر میں چلی گئی اور ویرہ اپنی پرانی مرجان کو واپس پا کر سکون حاصل کرتا اپنے گھر کی جانب چل دیا تھا۔

اگلے دن راگا نے اپنے نکاح کی خوشی میں ایک جشن کا انتظام کیا تھا۔وہ جشن ہی راگا کا ولیمہ تھا اور مرجان کو اسی موقعے کا انتظار تھا۔جب سب آدمی جشن میں مصروف ہو گئے تو مرجان نے وانیا کو ایک ٹوپی برقع پہنا کر دلاور کے ساتھ بھیج دیا۔


مردوں کا انتظام باہر کھلے میدان میں جبکہ عورتوں کا ایک گھر میں کیا گیا تھا۔اور اب مرجان پریشانی سے اس گھر کے کمرے میں ٹہلتی بس یہ دعا کر رہی تھی کہ وانیا اپنی منزل پر صحیح سلامت پہنچ جائے۔الماس کی نگاہ ہنوز مرجان پر تھی اور وہ بھی اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔


کچھ دیر بعد باہر سے شور کی آواز پر مرجان گھبرا کر کھڑکی کے پاس گئی لیکن وانیا کو کال کی گرفت میں جھٹپٹاتا دیکھ اس نے سرد آہ بھری۔یعنی وہ پھر سے ناکام ہو گئے تھے۔


کال نے وانیا کو راگا کے قدموں میں پھینکا جا پر راگا نے خطرناک نگاہیں اٹھا کر کال کو دیکھا۔


"اس کو تم پکڑ کے لایا؟"


راگا کے پوچھنے پر کال نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ہاں راگا۔۔۔۔"


"او تم تو کمال ہے مانا،تمہیں تو انعام ملنا چاہیے۔۔۔۔"


راگا اٹھ کر کال کے قریب آیا اور اسکا دائیاں ہاتھ تھام لیا۔لیکن پھر راگا نے اپنی کمر کے پاس سے چاقو نکالا اور اسے پوری طاقت سے کال کے ہاتھ پر دے مارا۔کال کا ہاتھ کٹ کر زمین پر گرا تھا۔اس خوفناک منظر اور کال کی دردناک چیخوں پر مرجان کا دل حلق کو آیا اور وہ کھڑکی سے دور ہو گئی۔


"کہا تھا نا اسے پھر سے چھوا تو کچھ چھونے کے قابل نہیں رہے گا اب اسکے بارے میں سوچا بھی نا تو اس ہاتھ کی جگہ تیرا دماغ زمین پر ہو گا ۔۔۔۔"


راگا کی آواز میں موجود جنون کو محسوس کر مرجان حیران رہ گئی۔کیا راگا وانیا سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اسکو صرف چھونے پر اتنی بڑی سزا دے دی۔


""یہ لڑکی راگا کا ملکیت ہے، جنون ہے یہ راگا کا اسکو چھونا تو دور کسی نے اسے نظر بھر دیکھا بھی تو راگا اسکا آنکھیں نوچ لے گا۔۔۔۔۔هغه زما ده۔"(وہ میری ہے)


راگا کی اونچی آواز اس جگہ گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ کچھ آدمی کال کو اٹھا کر اسکے گھر لے گئے تھے اور راگا نے مرجان کو بلا کر اسکے ساتھ وانیا کو اپنے گھر بھجوا دیا تھا۔


وہاں جو کچھ بھی ہوا تھا اس کے زیر اثر وانیا ابھی بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔مرجان نے اسے اپنے گلے سے لگا کر دلاسہ دنیا چاہا تو وانیا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"مجھے یہاں نہیں رہنا مرجان۔۔۔۔

نہیں رہنا۔۔۔۔ مجھے میرے بابا کے پاس جانا ہے مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔۔"


وانیا نے زارو قطار روتے ہوئے کہا تو مرجان اسکی کمر سہلانے لگی۔


"ڈرو مت وانیا۔۔۔۔راگا لالہ تم سے عشق کرتا ہے وہ تمہارا خیال رکھے گا وہ تمہیں کبھی کچھ نہیں ہونے دے گا۔"


مرجان نے اسے سمجھایا لیکن وانیا نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں چاہیے مجھے انکا عشق،،،،کچھ نہیں چاہیے مجھے،،،،مجھے بس یہاں سے جانا ہے،،،جانا ہے یہاں سے،،،،"


وانیا اتنا کہہ کر سسک سسک کر رو دی اور مرجان اسے بس دلاسہ دینے کی کوشش کرتی رہی۔شام تک وہ وانیا کے پاس ہی رہی تھی۔پھر جب راگا گھر میں آیا تو مرجان اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔


مرجان گھر پہنچی تو اسکی نظر ویرہ پر پڑی جو گھر کی دہلیز پر بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔مرجان اسے دیکھ کر گھبرائی تھی نہ جانے وہ اب اسے کیا سزا دیتا۔


ویرہ خاموشی سے اٹھ کر مرجان کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔مرجان کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ ویرہ اب اسکے ساتھ کیا کرے گا۔


"تمہیں سمجھایا تھا ناں کہ پھر سے کوئی بیوقوفی مت کرنا لیکن تم نے پھر سے وہی کیا۔"


ویرہ نے سنجیدگی سے کہا تو مرجان سر جھکا کر اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔


"میں نے اسے نہیں بھگایا۔۔۔نہ میں اسکے ساتھ گیا۔۔۔"


مرجان کی بات پر ویرہ نے گہرا سانس لیا۔


"ہاں لیکن دلاور کو اپنی جگہ بھیجا۔۔۔۔"


مرجان نے گھبرا کر ویرہ کو دیکھا۔


"لالہ کا کوئی غلطی نہیں ہے انہوں نے بس میرا بات مانا آپ انہیں کوئی سزا نہ دینا مجھے دے لیں ہر سزا۔۔۔"


مرجان نے ویرہ کے پاس آ کر بے چینی سے کہا تو ویرہ نے گہرا سانس لے کر اپنے ہاتھ اسکے کندھوں پر رکھے۔


"دیکھو مرجان جس دنیا میں ہم رہتے ہیں یہاں ہم چاہ کر بھی کسی کا احساس نہیں کر پاتے۔چاہے خطا کرنے والا ہمارا اپنا ہی کیوں ناں ہو ہمیں اسے سزا دینی پڑتی ہے۔"


مرجان نے اس بات پر اپنا سر جھکا لیا جبکہ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔


"میں بس اپنا دوست کا مدد کرنا۔۔۔"


"جانتا ہوں لیکن اسکے لیے خود اور اپنے گھر والوں کو خطرے میں ڈالنا عقلمندی نہیں بے وقوفی ہے یقین کرو اس دنیا میں سب سے پہلے بس اپنوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔"


ویرہ کی بات کو سمجھ کر مرجان نے اثبات میں سر ہلایا۔


"امید کرتا ہوں پھر سے مجھے یہ بات تمہیں نہیں سمجھانی پڑے گی۔تم مجھے سختی کرنے کا اب کوئی موقع نہیں دو گی؟"


ویرہ کے سوال پر مرجان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔


"وعدہ۔۔۔"


ویرہ اثبات میں سر ہلا کر اس سے دور ہوا۔


"آ۔۔۔۔آپ لالہ کو سزا تو نہیں دیں گے ناں۔۔۔؟"


مرجان نے سہم کر پوچھا تو ویرہ نے گہرا سانس لیا۔


"فلحال اس بات کو میں نے اور راگا کے دبا دیا ہے لیکن پھر کبھی اپنی بیوقوفی میں دلاور یا گل کو شامل مت کرنا تم نہیں چاہو گی تمہاری وجہ سے انہیں سزا ملے۔"


مرجان نے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا۔ویرہ نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اس وقت وہ گلابی اور پیلے رنگ کے لباس میں ملبوس تھی اور ویرہ کو اس سے نظریں ہٹانا دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا۔


"میں کل راگا کے ساتھ کسی کام سے جا رہا ہوں ہو سکتا ہے واپس آنے میں وقت لگ جائے۔"


ڈیڑھ سال کی شادی میں ویرہ نے اسے پہلی بار کہیں جانے سے پہلے بتایا تھا اور اسکے دور جانے کے خیال سے مرجان کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔


"کب واپس آئیں گے؟"


مرجان نے بے چینی سے پوچھا۔


"پتہ نہیں ہو سکتا ہے چار سے پانچ دن لگ جائیں۔۔۔"


ویرہ نے کندھے اچکا کر کہا تو مرجان نے ہاں میں سر ہلایا لیکن چہرے پر افسردگی واضح تھی۔مرجان خاموشی سے اپنے کمرے میں آ گئی لیکن سوچوں کا مرکز بس اسکا شوہر تھا۔


اسے تو لگا تھا کہ مرجان کی اس حرکت پر وہ اسے سزا دے گا لیکن اسکا اسکے بھائی کی حفاظت کرنا اور اسے یوں نرمی سے سمجھانا مرجان کے دل کو لگا تھا۔


اس نے سونے کی بہت کوشش کی لیکن اسکے شوہر کا خیال اسے سونے ہی نہیں دے رہا تھا۔آخر کار وہ اٹھی اور دوپٹہ اپنے کندھوں پر پھیلا کر ویرہ کے کمرے کی جانب چل دی۔دروازہ کھول کر وہ کمرے میں آئی تو نظر ویرہ پر پڑی جو آنکھوں پر بازو رکھے سو رہا تھا۔


مرجان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پاس آئی اور زرا سا جھک کر اپنا ہاتھ اسکے مظبوط بازو پر رکھا۔


"باچا۔۔۔۔"


ویرہ جس کی آنکھ کچھ دیر پہلے ہی لگی تھی اس نے فوراً اپنی آنکھوں سے ہاتھ اٹھا کر اسے دیکھا۔ریشمی بال کھلے ہونے کی وجہ سے اسکے گرد بکھرے تھے اور اسکے قریب جھکی وہ ویرہ کا دل دھڑکا رہی تھی۔


"مت جائیں باچا آپ کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگے گا"


مرجان نے نم آنکھوں سے کہا۔ویرہ کو پہلے ہی اسکا وجود مدہوش کرتا تھا اب رات کے اس پہر اسے اپنے اتنا قریب دیکھ کر وہ اپنے دل اور اپنے جزبات کے سامنے ہار چکا تھا۔


اس نے مرجان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے جھٹکے سے کھینچ کر خود پر گراتے ہوئے اپنی باہوں میں لے لیا۔


"باچا۔۔۔۔"


مرجان نے گھبرا اسکے سینے پر ہاتھ رکھے تھے۔اسکے بال گھنی آبشار کی مانند دونوں کے گرد پھیل گئے اور انکی بھینی خوشبو نے ویرہ کے جزبات کو مزید بے چین کیا تھا۔ویرہ نے ہاتھ بڑھا کر اسکے چہرے سے بال ہٹائے اور جان لٹاتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔


"تم بہت حسین ہو زمہ مینہ بہت زیادہ حسین تمہارے بال،تمہارا یہ معصوم چہرہ،تمہارا کردار سب بہت حسین ہے۔۔۔"


ویرہ نے گھمبیر آواز میں کہنے پر مرجان نے گھبرا کر اسے دیکھا۔


"میں تمہارے قابل نہیں دلِ جاناں نہ صورت سے،نہ کردار سے،تم ہر لحاظ سے مجھ سے افضل ہو۔۔۔۔میں تمہارے قابل نہیں میری جان۔۔۔"


ویرہ نے اسکا چہرہ نرمی سے سہلاتے ہوئے سرگوشی کی۔


"لیکن میری خود غرضی تو دیکھو یہ سب جانتے ہوئے بھی تمہیں خود سے دور نہیں کر سکتا۔۔۔۔مر جاؤں گا میں تم سے دور ہو کر۔۔۔"


ویرہ نے سرگوشی کرتے ہوئے اسکی گردن میں چہرہ چھپایا تو مرجان کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگے گئیں۔


"میں بھی آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا باچا میں بھی آپ کے بنا مر۔۔۔۔"


مرجان نے سرگوشی کی لیکن ویرہ کے ہونٹ اپنی گردن پر محسوس کر کے مرجان کے الفاظ اسکے منہ میں ہی دب گئے۔


"باچا۔۔۔۔"


مرجان نے گھبرا کر اسے پکارا تو ویرہ نے اسکی گردن سے منہ نکال کر اسے دیکھا۔نظر ان کپکپاتے نازک سے گلابی ہونٹوں میں اٹک سی گئی تھی۔وہ اب مزید اپنی خواہش کو دل میں دبا کر نہیں رکھنا چاہتا تھا اسکے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا تھا۔


اس نے اپنا ہاتھ مرجان کے بالوں میں پھنسایا اور اسے خود پر مزید جھکاتے ہوئے ان نازک پنکھڑیوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا۔اسکی حرکت پر مرجان کا دل سوکھے پتے کی مانند کانپ گیا۔


اس نے ویرہ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر خود کو اس سے دور کرنا چاہا لیکن اسکی اس مزاحمت کا الٹا اثر ہوا تھا۔ویرہ کے عمل میں مزید شدت آئی تھی اور وہ کروٹ بدل کر مرجان پر حاوی ہو گیا۔


اسکی شدت پر مرجان کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک گیا تھا لیکن وہ اسکی مظبوط پکڑ میں ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔اپنے شوہر کے اس جنون کو سہنے کے سوا اسکے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔


دوسری جانب اسکی قربت ویرہ کے سلگتے دل پر ٹھنڈی پھوار کی مانند گر کر اسے سکون دے رہی تھی۔اسکا دل اس سے التجا کر رہا تھا کہ ہر حد پار کر جائے،ساری دوری مٹا دے، اس نازک گڑیا کو خود میں چھپا کر اس سے اپنا ہر حق وصول کر لے۔


کتنی ہی دیر وہ مرجان پر جھکا اپنی پیاسی روح کو سیراب کرتا رہا تھا اور اسکی قربت پر بے حال ہوتی مرجان اسکے سینے پر ہاتھ رکھے اب اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔


آخر کار جب ویرہ کو محسوس ہوا کہ وہ سانس بھی نہیں لے پا رہی تھی اس سے دور ہو کر اسے گہرے گہرے سانس بھرتے ہوئے دیکھنے لگا۔مرجان نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر اپنا لہو چھلکاتا چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔


ویرہ بھی اپنے جزبات پر قابو پاتا آنکھیں موند کر اسکی گردن میں اپنا چہرہ دے چکا تھا۔


"مجھے سکون دو مرجان میری روح ہمیشہ سے بے چین ہے اور اسکا سکون صرف تم ہو صرف تم۔۔۔"


ویرہ کی آواز میں کتنا ہی کرب تھا جسے محسوس کرتے مرجان کا دل کٹ کر رہ گیا۔اس نے اپنے ہاتھ ویرہ کے سر پر رکھے اور اسکے بال سہلانے لگی اور ویرہ بھی محبت کے اس سکون کو پا کر کچھ ہی دیر میں سو چکا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا اپنے اس زرا سے اظہار سے وہ اس لڑکی کو کس قدر معتبر کر چکا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ اور راگا اگلی صبح ہی گاؤں سے چلے گئے تھے۔ویرہ کی عدم موجودگی میں مرجان اپنا زیادہ تر وقت وانیا کے ساتھ ہی گزارتی تھی۔وانیا سے اسکی دوستی بہت گہری ہوتی جا رہی تھی اور مرجان کو تو وہ اپنی چھوٹی بہن سمجھتی تھی۔


تین دن ہو گئے تھے ویرہ اور راگا کو گئے اور ان دونوں میں مرجان نے وانیا کو بھگانے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ انکی حفاظت کے لیے انکے شوہر نہیں تھے جو وہ انکی عدم موجودگی میں کوئی خطرہ مول لیتی۔


ابھی رات کے تقریباً دس بج رہے تھے اور مرجان بستر پر لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی۔بہت کوشش کے باجود اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔اچانک اسکے ذہن میں ویرہ کا خیال آیا تو اسے ویرہ کے جانے سے پہلے کی رات ذہن میں آئی۔


اس رات کو یاد کر کے مرجان کے چہرے نے لہو چھلکایا تھا۔اسکا ہاتھ اپنے ہونٹوں تک گیا جہاں وہ اپنی محبت کا لمس چھوڑ کر گیا تھا۔


اچانک سے باہر کا دروازا کھلنے کی آواز پر مرجان گھبرا کر اٹھی۔اس نے اپنی عقل پر ماتم کیا کہ اس نے دروازے کو کنڈی کیوں نہیں لگائی تھی۔


مرجان جوتے اور دوپٹے کے بغیر اٹھی اور آہستہ سے اپنے کمرے کے دروازے کے پاس آ کر اس نے ہلکا سا دروازہ کھولا لیکن باہر ویرہ کو دیکھ کر اسکا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔


"زما باچا۔۔۔"


مرجان کی آواز پر دروازے کو کنڈی لگاتے ویرہ نے پلٹ کر اسے دیکھا تو مرجان دروازہ کھول کر بھاگنے والے انداز میں اس کے پاس آئی اور اس کے سینے سے لپٹ گئی۔


"میں نے آپ کو بہت یاد کیا باچا۔۔۔بہت۔۔۔"


مرجان نے خوشی سے اسکے سینے سے لپٹتے ہوئے کہا۔ویرہ کے ہاتھ خود بخود اسکی کمر تک گئے اور اس نے اسے اپنے مزید قریب کر لیا۔اب وہ اسے کیا بتاتا کہ یہ تین دن اس نے بھی تین سالوں کی طرح کاٹے تھے۔


کتنی ہی دیر وہ مرجان کو اپنی باہوں میں لیے وہاں کھڑا رہا تھا پھر مرجان کو اپنی حالت اور بے اختیاری کا اندازہ ہوا تو جھجک کر ویرہ سے دور ہوئی۔ویرہ کی نظر اس کے نازک وجود پر پڑی جو دوپٹے سے بے نیاز اسکے سامنے لہو چھلکاتے چہرے کے ساتھ کھڑی تھی۔


"مم۔۔۔۔میں اپنے کمرے میں جاتا ہے۔۔۔"


مرجان نے اپنے کمرے میں جانا چاہا لیکن اسکی کلائی ویرہ کی دہکتی گرفت میں آئی تھی۔مرجان نے گھبرا کر اسے دیکھا لیکن اسکی آنکھوں میں جنون اور شدت کے ایک طوفان کو امڈتا دیکھ کانپ کر رہ گئی۔


"باچا۔۔ "


مرجان نے اپنی کلائی چھڑوانا چاہی لیکن ویرہ نے اسے ایک جھٹکے سے کھینچ کر اپنی پناہوں میں لیا اور اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اونچا کرتے ہوئے شدت سے اسکے نازک ہونٹوں پر جھک گیا۔


مرجان نے گھبرا کر اسکی قمیض کا کالر اپنی مٹھی میں جکڑا۔ویرہ اپنی ہر مجبوری خود سے کیا ہر وعدہ بھلائے فرصت سے محبت کا جام پینے میں مصروف تھا جبکہ مرجان اسکی گرفت میں کپکپانے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔


پھر خود ہی وہ اس نے مرجان کی سانسوں کو اپنی قید سے آزاد کیا تو مرجان گہرے سانس بھرتے ہوئے اسے گلال ہوئے چہرے کے ساتھ دیکھنے لگی۔اسے اپنی قربت پر یوں بے حال ہوتا دیکھ ویرہ کی بس ہوئی تھی۔تین دن سے یہ لڑکی اس کے حواس،اسکے ہر خیال پر حاوی تھی اور اب اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر ویرہ کو لگ رہا تھا کہ وہ اس سے ایک پل بھی دور رہا تو وہ مر جائے گا،فنا ہو جائے گا۔


ویرہ نے اسکا نازک وجود اپنی باہوں میں بھرا اور اسے اپنے کمرے میں لے آیا۔مرجان کی جھکی پلکیں اور اسکی شدت سے سرخ ہوتے ہونٹ اسے مزید بے خود کر رہے تھے۔اسے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ وہ اسی کی ہے لے لے اس سے اپنا ہر حق۔


ویرہ نے اسے بستر پر لیٹایا اور خود بھی اس پر جھک کر اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رکھ دیے۔مرجان کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا۔


"آآ۔۔۔۔آپ کو بھوک لگا ہو گا باچا۔۔۔مم۔۔۔۔میں کھانا گرم کر کے لاتی ہوں۔۔۔"


مرجان نے اسکی پکڑ سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔نتیجاً ویرہ نے اپنے دانت اسکی شفاف گردن پر رکھے اور ایک سرخ نشان اسکی نازک گردن پر آیا تھا۔مرجان نے سسک کر تکیہ اپنی مٹھی میں بھینچا تھا۔


"مجھے صرف تمہاری ضرورت ہے دلِ جاناں،صرف تم چاہیے ہو مجھے اور کچھ نہیں۔۔۔۔"


ویرہ نے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسکے کان کی لو کو اپنے لبوں سے کاٹا۔مرجان اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی نازک وجود سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔


"تھک چکا ہوں میں مرجان اپنی ساری زندگی اس تپتے صحرا میں بھٹک کر تھک گیا ہوں۔۔۔۔"


ویرہ نے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے۔


"تم اس تپتے صحرا میں ٹھنڈے پانی کی جھیل کی مانند ہو دلِ جاناں اس بھٹکتے مسافر کو ڈوبا لو خود میں۔۔۔۔دو پل کا سکون دے دو اسے۔۔۔۔"


ویرہ کی اس سرگوشی میں اتنی تڑپ،اتنی بے چینی تھی کہ مرجان اسے خود سے دور نہیں کر پائی۔نرمی سے اپنی باہیں اسکے گلے میں ڈال کر اس نے اپنا آپ اپنے محرم کو سونپ دیا تھا۔وہ اسی کی تو تھی اسکے سکون کا سامان تو کیوں اپنے شوہر کو تڑپتا چھوڑتی وہ۔


اس کی خود سپردگی پر ایک نظر اسکے حیا سے سرخ ہوئے چہرے کو دیکھتا ویرہ اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔اسکے ہاتھ اسے مزید خود سے قریب کرنے لگے تھے۔


مرجان اسکی شدتوں اور بے چین جزبوں کو اپنی نازک جان پر جھیلتی بے حال ہو رہی تھی لیکن اس نے اب اپنے شوہر کو خود سے دور نہیں کیا تھا۔اسکا ہر کرب،اسکی ہر تکلیف کو اس نے اپنے نازک وجود میں چن لیا تھا۔


جیسے جیسے رات گزرتی گئی ویرہ کی شدت اور جنون اس نازک گڑیا کے لیے بڑھتا گیا لیکن اسکے جنون میں بے پناہ محبت چھپی تھی اور اس محبت کو محسوس کرتے مرجان کو اپنا آپ بہت زیادہ قیمتی لگنے لگا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ اسکی پناہوں میں سکون کی نیند سو رہا تھا اور مرجان اسکے بالوں میں اپنی انگلیاں چلا رہی تھی۔اسے اپنی شدتوں سے دوچار کر کے وہ کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا لیکن مرجان نہیں سو پا رہی تھی۔


نہیں وہ ان لمحوں کو کھل کر جینا چاہتی تھی جب اسکا روم روم اپنے شوہر کی محبت اور اسکی خوشبو میں رچا تھا۔مرجان نے اپنے سینے پر دیکھا جہاں ویرہ اپنا چہرہ رکھے سکون کی نیند سو رہا تھا جبکہ اسکے ہاتھ مرجان کے گرد لپٹے تھے۔


مرجان اسکے بھاری وجود کے نیچے چھپ سی گئی تھی لیکن وہ اسے جگا کر اسے بے آرام نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ شخص اسکے لیے بہت اہم تھا خود سے زیادہ اپنی جان سے زیادہ اہم تھا۔


وہ نہیں جانتی تھی کہ ان کے مستقبل میں کیا لکھا تھا۔وہ کل کو سوچ کر پریشان ہونے والوں میں سے نہیں تھی وہ حال کو کھل کر جینے والوں میں سے تھی۔


آج اسے لگ رہا تھا کہ اسکی محبت جیت گئی ہو۔اس نازک لڑکی نے اپنی محبت سے اس مظبوط طاقت ور آدمی کو زیر کر لیا تھا۔اب بس وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے اس دنیا ان لوگوں سے دور لے جائے بہت دور جہاں وہ دونوں خوش رہ سکیں۔ہر گناہ،ہر برے آدمی سے دور بس ان دونوں کا ایک جہان ہو جہاں صرف مرجان اور اسکا باچا ہو۔


وہ جانتی تھی کہ وہ خود برا نہیں تھا اسے ایسا بنانے والے اسکے حالات اور مرجان کا باپ تھا لیکن اب مرجان ہی اسکے دل سے دنیا کے لیے یہ نفرت ختم کرنا چاہتی تھی وہ اس دنیا کی تلخی سے دور محبتوں کے ایک جہان میں کے جانا چاہتی تھی جہاں وہ عبداللہ بن کر رہ سکے ویرہ نہیں۔


مرجان نے سر جھکا کر ویرہ کو دیکھا اور اپنا ہاتھ نرمی سے اسکے چہرے پر رکھ کر اسکے چہرے کے نقوش کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے چھونے لگی۔


"جانان نہ زمہ

تانہ زار شمہ ذہ

جانان نہ زمہ

تانہ زار شمہ ذہ

قربان شمہ ذہ

جانان شمہ ذہ

جانان شمہ ذہ

قربان شمہ ذہ"


مرجان نے اسکے چہرے کو محبت سے چھوتی ہوئے سرگوشی کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔اس نے بہت عرصہ پہلے اپنے قبیلے کے ایک آدمی کو یہ الفاظ گاتے ہوئے سنا تھا تب سے یہ الفاظ اس کے دل پر رقم ہو گئے تھے۔


"مطلب کیا ہے ان کا۔۔۔؟"


ویرہ نے نیند سے گھمبیر آواز میں پوچھا تو مرجان نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن وہ سو رہا تھا۔شائید وہ نیند میں ہی اسکے الفاظ محسوس کر چکا تھا اور نیند میں ہی اس سے یہ بات پوچھ رہا تھا۔


ویرہ کو پشتو آتی تھی وہ یہ الفاظ سمجھ سکتا تھا لیکن پھر بھی مرجان اسے یہ سب بتانا چاہتی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے سمجھے۔مرجان مسکرا کر اپنا ہاتھ اسکے بالوں میں چلانے لگی۔


"میری جان

تیرے لیے میری جان قربان

میری جان

تیرے لیے میری جان قربان

تیرے لیے سب قربان

میری جان

میری جان

تیرے لیے سب قربان"


مرجان نے ویرہ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سرگوشی کی اور پھر زرا سا جھک کر اپنے ہونٹ نرمی سے اسکے ماتھے پر رکھے۔اس رات نے دونوں کو ایک دوسرے کا کر دیا تھا لیکن آنے والے دن نے اپنی آڑ میں کتنے ہی امتحان چھپا رکھے تھے جن پر سے ان دونوں کو ابھی گزرنا تھا۔

مرجان کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو کمرے میں تنہا پایا۔وہ اٹھ کر بیٹھی تو نظر خود پر گئی۔اس وقت وہ ویرہ کی ہی کالے رنگ کی قمیض میں ملبوس تھی جو اسکے لیے بہت زیادہ کھلی تھی۔کل رات کا گزرا ہر پل یاد کر کے مرجان نے حیا سا دہکتا چہرہ اپنے گھٹنوں میں چھپایا۔


لیکن اسکا شوہر کہاں تھا کیا وہ جا چکا تھا۔مرجان نے اٹھ کر گھر کا جائزہ لیا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ سچ میں جا چکا تھا۔یہ جان کر اسے زرا سی مایوسی ہوئی تھی ۔وہ ابھی اس سے دور نہیں رہنا چاہتی تھی۔وہ اپنا وقت اسکے ساتھ گزارنا چاہتی تھی ۔


خیر اس نے فریش ہو کر کپڑے بدلے اور ناشتہ بنا تیار کر کے راگا کے گھر کی جانب چل دی۔وہ آج بہت زیادہ خوش تھی جیسے اسے پورا جہان مل گیا ہو۔مرجان نے دروازہ ہلکا سا کھٹکھٹانے کے بعد کھولا اور وانیا کے پاس گئی جو اپنا سر گھٹنوں پر رکھے گم سم سی بیٹھی تھی۔


"کیسا ہے پیارا لڑکی؟"


مرجان نے محبت سے پوچھا تو وانیا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔


"دم گھٹنے لگا ہے اپنی اس قید سے۔۔۔"


"ارے اس میں کونسا بڑی بات ہے چلو آج میں تم کو یہاں سے باہر لے کے جاتا ہے زرا تم کو یہ دیکھا دے گا کہ ہمارا گاؤں کتنا پیارا ہے اور ہم جھیل سے انکے کپڑے بھی دھو لے گا۔۔۔"


وانیا نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا تو مرجان مسکرا دی اور اسے اپنے ساتھ جھیل کے کنارے لے آئی جہاں وہ کپڑے دھویا کرتی تھی۔انکی وادی کی خوبصورتی کو وانیا منہ کھولے حیرت سے دیکھ رہی تھی اور ایسا کرتے ہوئے وہ کوئی چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی۔مرجان نے ہنس کر اسے دیکھا۔


"چلو وانی اب تم بھی لالہ کے کپڑے دھو لو ماڑا یا بس نظارے دیکھنے آئی ہو ساتھ۔۔۔"


مرجان کی بات پر وانیا نے کپڑے پکڑ کر پانی میں ڈالے لیکن پانی کی ٹھنڈک پر فوراً اپنا ہاتھ واپس کھینچ گئی۔


"اففف اتنا ٹھنڈا پانی۔۔۔مم۔۔۔میں نہیں کر رہی یہ گندے کپڑے پہنیں میری بلا سے۔۔۔"


وانیا کی بات پر مرجان قہقہ لگا کر ہنس دی اور راگا کے کپڑے بھی خود ہی پکڑ لیے۔


"تم بس نظارے دیکھو۔۔۔"


مرجان اتنا کہہ کر کپڑے دھونے لگی۔


"یہ تمہاری گردن پر کیا ہوا؟"


وانیا کے سوال پر مرجان کا ہاتھ اپنی گردن تک گیا اور پھر اسکا چہرہ گلال ہو گیا۔


""کک ۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔"


"تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو کسی چیز نے کاٹا ہے کیا؟"


وانیا کے اس سوال پر مرجان نے شرما کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔


"ارے مرجان ہوا کیا ہے؟"


"کک۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا ماڑا یہ تو بس۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے وانی میں اتنا خوش کیوں ہے کیونکہ جب کل رات وہ واپس آئے تو انہوں نے۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ میرے بغیر شہر انہیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا اور انہوں نے مجھے زما مینہ کہا۔۔۔۔"


مرجان نے شرماتے ہوئے وانیا کو بتایا۔


" ویسے اس سب کا تمہاری چوٹ سے کیا تعلق ہے؟"


مرجان کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لے یہ لڑکی کس حد تک بیوقوف تھی۔


"یہ چوٹ نہیں ہے ماڑا۔۔۔۔۔یہ تو بس وہ۔۔۔۔انہوں نے"


مرجان اتنا کہہ کر پھر سے اپنا چہرہ شرم سے ہاتھوں میں چھپا گئی جبکہ وانیا اسکا مطلب سمجھتی خود بھی شرم سے گلابی ہوئی تھی۔


"مم۔۔۔۔میں گھر جا رہی ہوں۔۔۔"


وانیا نے جلدی سے اٹھ کر کہا لیکن اسکا پاؤں پھسلا اور اپنا توازن برقرار نہ رکھتی وہ سیدھا جھیل کے پانی میں جا گری۔مرجان کا دل حلق کو آیا۔


"وانیا۔۔۔۔"


مرجان ایک چیخ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور وانیا کو دیکھنے لگی جو پانی میں ڈوبنے سے خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پیر چلا رہی تھی لیکن سب بے سود ہی ثابت ہوا۔


"بچاؤ کوئی بچاؤ ۔۔۔۔۔مرسته"


مرجان روتے ہوئے چلائی اور اسکی چیخ و پکار سن کر ویرہ اور راگا بھاگ کر اسکے پاس آئے۔


"کیا ہوا ؟"


ویرہ نے گھبرا کر مرجان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا۔


"وہ وانیا۔۔۔۔وہ پانی میں گر گیا۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا تو بغیر کچھ سوچے سمجھے راگا نے اپنی جیکٹ اتار کر پانی میں چھلانگ لگا دی۔کچھ دیر بعد ہی وہ وانیا کو پانی سے نکال چکا تھا اور کبھی بے چینی سے اسکے سینے پر دباؤ ڈالتا تو کبھی اسکو اپنی سانسیں دیتا۔


آخر کار وانیا گہرے سانس بھرنے لگی تو راگا کے ساتھ ساتھ مرجان نے بھی سکھ کا سانس لیا اور وانیا کو لے کر راگا کے گھر چلے گئے۔مرجان نے اسے کپڑے تبدیل کروائے اور اسکے اوپر کمبل اوڑھا کر گھر واپس آ گئی۔


اسکا ارادہ تھا کہ وانیا کے لیے گرم یخنی بنائے تا کہ اسے آرام ملے اور اپنے ارادے کے تحت وہ کام کر رہی تھی جب اپنے پیچھے سے ویرہ کی آواز آئی۔


"تم ٹھیک ہو؟"


ویرہ کی موجودگی پر اسکا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔


"جج۔۔۔جی۔۔۔"


مرجان نے گھبرا کر کہا تو ویرہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا اور اسکے ہاتھ پکڑ کر ٹٹولنے لگا جیسے تسلی کرنا چاہ رہا ہو کہ وہ ٹھیک تھی۔


"میں سچ میں ٹھیک ہوں باچا۔۔۔"


مرجان نے مسکرا کر کہا تو ویرہ کے چہرے پر سکون آیا۔


"ویسے اگر میں ٹھیک نہ ہوتا تو آپ کیا کرتے اگر وانیا کی جگہ میں پانی میں گر۔۔۔"


مرجان کے الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب ویرہ نے اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اسے جھٹکے سے اپنے قریب کھینچا۔


"بولا تھا ناں کہ ایسا پھر کبھی مت کہنا کیوں مجھے تڑپا کر سکون ملتا ہے تمہیں۔۔۔؟"


ویرہ نے غصے سے پوچھا تو مرجان اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔۔


"جاننا چاہتی ہو کیا کرتا میں تو سنو اس پورے گاؤں کو جلا دیتا سب کچھ نیست و نابود کر دیتا۔۔۔"


ویرہ کی بات پر مرجان نے سہم کر اسے دیکھا۔


"تمہارے لیے یہ جنون کس حد تک بڑھ چکا ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی اور یہی میرا سب سے بڑا مسلہ ہے تم میرا سب سے بڑا مسلہ ہو۔۔۔"


ویرہ نے اسے جھٹکے سے چھوڑا اور مڑ کر وہاں سے جانے لگا۔مرجان جلدی سے اسکے پاس آئی اور پیچھے سے اسکی کمر سے لپٹ گئی۔


"تو مسلہ ختم کرتے ہیں باچا چلے جاتے ہیں یہاں سے دور بہت دور جہاں آپ کے اور میرے سوا کوئی نہ ہو کوئی مجبوری نہیں،کوئی پابندی نہیں بس ہم اور ہمارا محبت۔۔۔"


مرجان کی بات پر ویرہ اپنی آنکھیں موند گیا۔


"کاش کاش ایسا ہو سکتا مرجان لیکن نہیں یہ زندگی ہی تمہارے شوہر کی سچائی ہے جو تمہیں اور مجھے دونوں کو قبول کرنی ہو گی۔"


اتنا کہہ کر ویرہ خود کو چھڑوا کر گھر سے باہر نکل گیا اور مرجان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔وہ اسکا مسلہ سمجھ سکتی تھی۔وہ مرجان کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتا تھا کیونکہ انکے معاشرے میں کمزور مرد کی کوئی جگہ نہیں تھی۔


تو کیا مرجان کو ساری زندگی اسی بھرم میں گزارنی تھی کہ اسکا شوہر اس سے محبت کرتا تھا۔جنون تھی وہ اسکا،اسکا سکون،اسکی بے چینی سب وہ تھی لیکن پھر بھی وہ اپنے احساسات اسے نہیں بتا سکتا تھا ۔


مرجان کرب سے اپنی آنکھیں موند گئی وہ بس دعا کر سکتی تھی کہ کوئی ایسا معجزہ ہو جائے کہ وہ اپنے شوہر کو اس دنیا اور یہاں کی مجبوریوں سے دور لے جائے بہت بہت دور۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ رات کافی دیر تک گھر واپس نہیں آیا تھا۔سب سے دور تنہا بیٹھا وہ مرجان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔اس نے تو خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی اسکے قریب نہیں جائے گا کبھی اسے خود سے نہیں جوڑے گا پھر نہ جانے کل رات وہ کیسے بہک گیا۔


اسے یاد تھا صبح اسکی آنکھیں کھلی تو پہلی نگاہ اپنی باہوں میں سوتی ہوئی مرجان پر پڑی۔چہرے پر اسکی محبت کے رنگ سجائے وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ ویرہ کا دل کیا ایک بار پھر سے اسکی آغوش میں کھو کر پورا جہان بھلا دے۔


اس نے کیسے خود کو اس سے دور کیا تھا یہ وہی جانتا تھا۔دل پر ایک بوجھ سا تھا کہ جب وہ اسے وہ محبت نہیں دے سکتا تھا جس کے وہ قابل تھی تو اس نے کیونکر اسے خود سے باندھا۔ساری زندگی اسے اذیت دینے کے لیے؟


عورتیں بہت بڑی کمزوری ہوتی ہیں ویرہ انہیں سر نہیں چڑھاتے ورنہ آدمی کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔


یعقوب خان کے کہے الفاظ ویرہ کے ذہن میں گردش کرنے لگے۔کیا سچ میں مرجان اسکی کمزوری بنتی جا رہی تھی اور وہ لڑکی وانیا راگا کی کمزوری بنتی جا رہی تھی؟ویرہ نے سرد آہ بھر کر اپنے ہاتھ اپنے بالوں میں چلائے۔


اسے خود کو مرجان سے دور کرنا ہو گا وہ اس میں اس قدر نہیں کھو سکتا تھا کہ خود کو ہی بھول جائے اپنی پہچان بھول جائے۔وہ ایک دہشت تھا اور اسکی کوئی کمزوری نہیں ہو سکتی تھی بالکل جیسا یعقوب خان نے اسے بچپن سے سمجھایا تھا۔ وہ راگا کو بھی ایسا کرنے سے روکے گا۔ان کا مقصد کچھ اور تھا اور یہ لڑکیاں انہیں کمزور نہیں کر سکتی تھیں۔


ویرہ کے ذہن پر منفی سوچوں نے گھیرا کیا تھا اور اپنی سوچوں کو جھٹکتا اٹھ کر گھر واپس جانے لگا۔وہ اپنے کمرے میں آیا تو نظر اپنے بستر پر پڑی جہاں مرجان اسکے کمبل میں چھپی سکون کی نیند سو رہی تھی۔


لالٹین کی روشنی میں اسکا چہرہ دمک رہا تھا ویرہ کے قدم خود بخود اسکی جانب اٹھے۔مرجان کے پاس بیٹھ کر اس نے نرمی سے اسکے گال کو چھوا تو مرجان کی آنکھیں کھل گئیں اور اس نے مسکرا کر ویرہ کو دیکھا۔


"آپ کہاں تھا باچا میں کب سے آپکا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔"


مرجان لاڈ سے کہتے ہوئے اس سے لپٹ گئی اور اپنا چہرہ اسکے پہلو میں چھپا لیا۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"


ویرہ کے سوال پر مرجان نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"یہاں کے سوا جاؤں گی بھی کہاں میں تو وہیں رہوں گی ناں جہاں میرے باچا ہیں۔۔۔"


مرجان کے لہجے میں بہت محبت بہت نرمی تھی۔ویرہ اسکے چہرے کی معصومیت میں کھو سا گیا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ پھر سے بہک جاتا اس نے اٹھ کر وہاں سے جانا چاہا لیکن مرجان نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔


"جو دل میں ہے وہ صبح مجھے بتا دینا ابھی سو جائیں رات بہت ہو گیا ہے۔۔۔"


مرجان نے اپنے ساتھ جگہ بنا کر کہا تو ویرہ کچھ کہے بغیر اسکے ساتھ لیٹ گیا۔مرجان نے اپنا سر اسکے سینے پر رکھا اور آنکھیں موند گئی۔


"صبح جب آپ میری چیخ سن کر وہاں آیا تھا تو اتنا گھبرایا ہوا کیوں تھا؟"


مرجان کے سوال پر ویرہ نے گہرا سانس لیا۔


"مجھے لگا تمہیں کچھ ہو گیا۔"


ویرہ کی پکڑ اسکی کمر کے گرد مظبوط ہوئی تھی۔


"اور اگر وانیا کی جگہ میں پانی میں گرتا تو کیا آپ بھی راگا لالہ کی طرح مجھے بچاتا؟"


مرجان نے اسکی قمیض کے بٹن پر اپنی انگلی پھیرتے ہوئے پوچھا۔


"ایسی باتیں کرنے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔"


ویرہ نے بے رخی سے کہا۔


"تو کیسی باتیں کرنے میں دلچسپی ہے؟"


مرجان نے مسکرا کر پوچھا تو ویرہ نے اسکی جانب دیکھا اور اسکے چہرے کی مسکان میں کھو گیا۔


"مجھے اس وقت باتیں کرنے میں ہی دلچسپی نہیں ہے۔"


اس سے پہلے کے مرجان کچھ کہتی ویرہ اسکے ہونٹوں پر جھک گیا اور اسے اپنی پناہوں میں چھپا لیا۔ایک بار پھر سے وہ اپنے جزبات سے لڑی جانے والی جنگ ہار چکا تھا۔


یہ لڑکی آہستہ آہستہ اسکی رنگوں میں نشے کی طرح شامل ہو رہی تھی،اسے کمزور کر رہی تھی بالکل جیسا یعقوب نے اسے سمجھایا تھا۔اب دیکھنا یہ تھا کہ ویرہ کی یہ کمزوری اسے آباد کرنے والی تھی یا برباد۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

صبح ویرہ کی آنکھ کھلی تو نظر مرجان پر پڑی جو اسکی پناہوں میں سمٹی سو رہی تھی۔اسے دیکھ کر ویرہ کو کل رات کا خیال آیا کہ وہ کیسے ایک بار پھر اسکے سامنے جھک گیا تھا۔


نہیں اب وہ مزید ایک عورت کے ہاتھ کا کھلونا بننے والا نہیں تھا اسے اپنی پہچان یاد رکھنی ہو گی کہ وہ کون تھا۔ویرہ اٹھ کر فریش ہوا اور گھر سے باہر نکل گیا۔اپنے مخصوص ڈیرے پر پہنچ کر وہ کافی دیر تک راگا کا انتظار کرتا رہا تھا جب راگا نہیں آیا تو وہ خود اسکے گھر کی جانب چل دیا۔


دروازا کھٹکھٹانے پر راگا باہر آیا جو ویرہ کو وہاں دیکھ کر دلکشی سے مسکرا دیا۔


"کیا ہو گیا لالے کی جان آج تم کو کیسے یاد آ گیا اس نا چیز کا۔۔۔"


راگا نے شرارت سے پوچھا لیکن ویرہ اپنی مٹھیاں غصے سے بھینچ گیا۔


"تم کیا کر رہے ہو راگا؟اپنا مقصد بھول چکے ہو کیا؟بھول گئے ہو ہم کون ہے بس ایک لڑکی کے غلام ہو کر رہ گئے ہو تم۔"


ویرہ کے غصے سے کہنے پر راگا نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"اپنے لہجے پر قابو رکھو ویرہ اور مجھے بتاؤ کہ کہنا کیا چاہتے ہو تم؟"


راگا نے غصے زرا سختی سے کہا۔


"وہ لڑکی دشمنوں کی بیٹی ہے اور کل تمہاری آنکھوں میں میں نے اسکے لیے پروا دیکھی تم بدل گئے ہو راگا کمزور ہوتے جا رہے ہو۔"


ویرہ نے غصے سے مٹھیاں بھینچ کر کہا کہیں ناں کہیں وہ یہ باتیں خود سے بھی کہنا چاہتا تھا۔آخر مرجان بھی تو اسے کمزور کر رہی تھی۔


"کہاں ہے وہ راگا جس سے سب ڈرتے تھے کہاں ہے وہ جو ہر انسان کو خود سے دور بھگانے کی طاقت رکھتا تھا؟تم وہ راگا نہیں ہو ایسا لگتا ہے جیسے تم کوئی اور ہو۔۔۔۔"


ویرہ کی بات پر راگا کے ماتھے پر بل آئے اور پھر وہ قہقہ لگا کر ہنس دیا۔ویرہ نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔


"او ماڑا دھوکا کھا گیا ناں راگا ہے ہی اتنا کمال کوئی اسے سمجھ ہی کہاں پایا ہے۔۔۔"


ویرہ نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسکی جانب دیکھا۔


"تجھے کیا لگا لالے کی جان کہ راگا اپنا مقصد بھلا دے گا وہ بھی ایک لڑکی کی خاطر؟ہوں۔۔۔۔اتنا آسان نہیں ہے راگا کو مٹھی میں لینا وہ لڑکی اور اس کے لیے فکر اور نرمی بس ایک کھیل ہے ماڑا۔۔۔"


"کھیل۔۔۔؟"


ویرہ نے حیرت سے پوچھا تو راگا مسکرا دیا۔


"ہاں ماڑا کھیل اس لڑکی کے دل میں اتر کر اسکے باپ کو قابو میں لانے کا کھیل۔"


راگا نے سفاک مسکان کے ساتھ کہا جبکہ ویرہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔


""کچھ پلوں کا کھیل رہ گیا ہے بس ویرہ پھر دیکھنا جو فوجی ہماری راہ کا کانٹا بن رہے ہیں نا وہ ہی میری راہ کے کانٹے ہٹائیں گے۔۔۔۔"


"تمہیں کیا لگتا ہے راگا صرف ایک لڑکی کی وجہ سے ایسا ہوگا؟"


ویرہ کے سوال پر راگا ہلکا سا ہنس دیا۔


"وہ صرف ایک لڑکی ہی تو نہیں ہے ویرہ وہ ایک بہت خاص فوجی کی لاڈلی بیٹی ہے۔۔۔۔تم شاید جانتے نہیں وجدان خان کو آئی ایس آئی ایجنٹ رہ چکا ہے وہ۔۔۔ہمارے جیسے کتنے ہی دہشت گردوں کو انجام تک پہنچایا ہے اس نے۔۔۔۔"


راگا کی بات پر ویرہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔وہ وجدان خان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا بس نام سنا تھا اس نے اس کا۔


"اور اب جب اسے یہ پتا چلے گا کہ اس کی جان سے پیاری بیٹی ایک دہشت گرد کو اپنا دل دے بیٹھی ہے تو تم یہ سوچو ماڑا کہ وہ بے بس ہو کر کیا کچھ نہیں کرے گا ہمارے لیے۔۔۔۔"


ویرہ نے نگاہیں اٹھا کر راگا کی جانب دیکھا۔


"ہاہاہا۔۔۔۔تم دیکھنا ویرہ مجھ سے اپنی بیٹی کی آزادی کے لیے ملک کے ساتھ بغاوت تک کر جائے گا وہ۔۔۔۔"


" اسی لئے تم اس سے نرمی اور پیار کا کھیل کھیل رہے تھے؟اسے جو لگا کہ تم نے اسے کال سے بچانے کے لئے یہ نکاح کیا تھا وہ سب۔۔۔۔۔"


ویرہ نے حیرت سے پوچھا۔اس نے راگا کی سفاکی اور بے رحمی کو بہت کم سمجھا تھا یہ شخص اسکی سوچ سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا تھا۔


"ہاں ویرہ اس فوجی کی اولاد سے وہ محبت بس ایک کھیل تھا تاکہ اس لڑکی کے ذریعے میں وجدان خان کو قابو میں لا سکوں۔۔۔۔"


اس سے پہلے کہ ویرہ اسے کچھ کہتا وانیا دروازہ کھول کر باہر آئی اور اس نے ایک تھپڑ راگا کے منہ پر مارا۔ویرہ نے حیرت سے اس لڑکی کی اس جرات کو دیکھا۔


"مجھے لگا تھا کہ تم اتنے برے انسان نہیں جتنے بنتے ہو۔۔۔۔مجھے لگا تھا کہ تمہارے اندر بھی اچھائی ہے لیکن میں غلط تھی تم برے نہیں انتہائی گھٹیا انسان ہو۔۔۔۔۔جس کے نزدیک کسی کے جذبات بس کھلونا ہیں۔۔۔۔"


وانیا زارو قطار روتے ہوئے اسکے سینے پر مکے برسا رہی تھی۔


"لیکن اب میں تمہارا کھلونا نہیں بنوں گی۔۔۔چلی جاؤں گی میں یہاں سے کچھ بھی ہو جائے چلی جاؤں گی۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر وانیہ وہاں سے جانے لگی لیکن اگلے ہی لمحے اس کے بال راگا کی مٹھی میں تھے۔


"تم نے کہا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ گی اور ہم تمہیں جانے دیں گے؟ تم تو ضرورت سے زیادہ معصوم ہو جان راگا اچھا ہی ہے تمہیں سب معلوم ہوگیا اب تمہارے بدلے تمہارے باپ سے ایک خودکش دھماکہ کروانے کا زیادہ مزہ آئے گا۔۔۔۔۔"


ویرہ نے راگا کو ستائشی نگاہوں سے دیکھا۔وہ ایک لڑکی کی خاطر کمزور نہیں ہوا تھا اور ویرہ کو بھی ایسا ہی کرنا تھا۔وہ بھی مرجان کو یہاں کے باقی مردوں کی طرح بس ضروت کا سامان سمجھے گا اور اسے اپنی راہ میں حائل نہیں ہونے دے گا۔


"تم اپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوگے دیکھنا تم۔۔۔۔۔"


وانیا نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تو راگا ہنس کر اسکے کان کے قریب ہوا اور کچھ سرگوشی میں کہا جو ویرہ نہیں سن پایا۔راگا وانیا کے جھٹپٹاتے وجود کو واپس گھر میں لے گیا اور ویرہ واپس ڈیرے کی جانب چل دیا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ بھی مرجان کو اپنے حواس پر طاری ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان نے شام کا کھانا تیار کیا اور اسے وانیا کے لیے لے جانے لگی۔آج اسے اچھی خاصی دیر ہو گئی تھی اور اسے لگ رہا تھا کہ وانیا کا بھوک سے برا حال ہو رہا ہو گا۔مرجان جب راگا کے گھر پہنچی تو اسے وانیا ایک کونے میں سمٹ کر روتی ہوئی نظر آئی۔


"وانی۔۔۔کیا ہوا رو کیوں رہا ہے تم؟"


مرجان نے گھبرا کر اسکے پاس آ کر پوچھا تو وانیا اسکے گلے سے لگ کر سسک سسک کر رو دی۔


"وہ بہت برے ہیں مرجان بہت برے۔۔۔۔مجھے لگا تھا کہ وہ بھی انسان ہیں ان کے سینے میں بھی دل ہے لیکن نہیں۔۔۔۔وہ انسان کے روپ میں بس ایک درندہ ہے جس کے لیے۔۔۔۔انسان یا اسکے جزبات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔۔۔۔"


وانیا نے رو کر کہا تو مرجان گھبرا کر اسکی کمر سہلانے لگی۔


"مجھے بتاؤ تو سہی کہ ہوا کیا ہے؟"


وانیا نے روتے ہوئے ہر بات مرجان کو بتا دی اور وہ باتیں سن کر مرجان پریشان ہوئی تھی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔راگا کیا تھا یا اسکا کونسا روپ سچا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔


شام تک مرجان وانیا کے پاس اسے دلاسہ دیتی رہی تھی لیکن وانیا کے رونے میں کمی نہیں آئی نہ ہی اس نے کچھ کھایا تھا۔آخر کار شام ہو جانے پر مرجان اپنے گھر واپس جانے لگی۔


گھر سے نکلتے ہی اسکا سامنا راگا سے ہوا تو مرجان ہمت کرتے ہوئے اسکے پاس آئی۔


"آپ نے وہ سب کیوں کہا لالہ؟"


مرجان کے سوال پر راگا نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"میں جانتی ہوں آپ ہی وہ آدمی ہے جس نے مجھ سے وانیا کا مدد کرنے کا کہا تھا پھر آپ اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟"


مرجان نے بے یقینی سے پوچھا تو راگا نے گہرا سانس لیا۔


"میں نہیں جانتا کہ تم کیا کہہ رہی ہو۔"


"آپ جانتا ہے میں کیا کہہ رہی ہوں اور سمجھتا ہے بس۔۔۔بس میں آپ کو سمجھ نہیں پا رہی۔۔۔"


مرجان نے افسردگی سے اسکی جانب دیکھا۔


"اس نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں بس روتا جا رہا ہے۔"


مرجان کی بات پر راگا نے ایک نظر اسے دیکھا تو مرجان اپنا سر جھکا گئی۔


"میں نہیں جانتی آپ کون ہے یا کیا چاہتا ہے۔۔۔بس اتنا جانتی ہوں کہ آپ برا نہیں آپ کی آنکھوں میں میں نے وانیا کے لیے عشق دیکھا ہے آپ مر سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دے سکتا۔۔۔"


مرجان نے وضاحت دے کر راگا کو دیکھا جو بغیر کوئی تاثر دیے اسکی بات سن رہا تھا۔


"میری دوست کا خیال رکھنا لالہ وہ بہت معصوم اور نازک سا دل رکھتا ہے۔۔۔"


اتنا کہہ کر مرجان وہاں سے چلی گئی۔گھر آ کر وہ کتنی ہی دیر ویرہ کا انتظار کرتی رہی تھی لیکن ویرہ گھر آیا ہی نہیں تھا۔آخر کار تھک ہار کر وہ اسکے بستر پر لیٹ گئی اور اسکے تکیے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔


اس تکیے میں سے مرجان کو ویرہ کی خوشبو آرہی تھی۔کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں جا چکی تھی۔


رات کے تقریباً دو بجے ویرہ گھر واپس آیا تو اس نے مرجان کو اپنا تکیہ سینے سے لگا کر سوتے ہوئے پایا۔ویرہ کو اس تکیے سے جلن ہو رہی تھی جو اسکی باہوں میں تھا۔


اسے دیکھتے ہی اپنے دل کے بدلنے والے احساسات پر ویرہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر باہر آ گیا اور سگریٹ سلگا کر اپنے ہونٹوں میں دبا لی۔


نہیں ویرہ تم ایک لڑکی کے سامنے نہیں جھکو گے کمزور نہیں پڑ سکتے تم۔جو تمہارا دل خواہش کر رہا ہے وہ تمہاری منزل نہیں۔تم ایک عام آدمی کی طرح اسکے ساتھ خوشحال زندگی نہیں گزار سکتے کیونکہ تم عام آدمی نہیں ہو۔اس بات کو سمجھو اور پہلے جیسے ویرہ بن جاؤ ورنہ وہ تمہاری پہچان مٹا کر رکھ دے گی اور تمہاری پہچان کے ساتھ وہ تمہاری خودی کو مٹا کر رکھ دے گی۔


ویرہ کے دماغ نے اس سے کہا تو وہ اپنے بال اپنی مٹھیوں میں نوچ گیا۔ہاں وہ کمزور نہیں پڑے گا وہ پہلے جیسا ویرہ بن جائے گا سنگ دل اور سرد مہر جس کے دل تک کسی کی رسائی نہیں ہو گی اسکی دلِ جاناں کی بھی نہیں۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ نہا کر آیا تھا اور اب تیار ہو رہا تھا۔حسب معمول مرجان فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد پھر سے سو چکی تھی اور وہ روز کی طرح اسکے اٹھنے سے پہلے ہی گھر سے نکل جانا چاہتا تھا۔


ویرہ اپنی قمیض کے بٹن بند کر رہا تھا جب اچانک دو نازک ہاتھوں نے اسکے ہاتھ تھامے اور مرجان اسکا بٹن اپنے ہاتھ میں لے کر بند کرنے لگی۔


"پھر سے میرے اٹھنے سے پہلے ہی تیار ہو کر گھر سے جانے والا تھا ناں آپ۔۔۔۔"


مرجان نے سنہری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا لیکن ویرہ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔


"آپ مجھے نظر انداز کیوں کر رہا ہے باچا؟"


مرجان کے لہجے کی افسردگی پر ویرہ کا دل بہت بے چین ہوا تھا لیکن اس بے چینی کو وہ چھپا گیا۔


"مییں تمہیں نظر انداز کیوں کروں گا؟"


ویرہ نے سرد مہری سے اپنا گریبان اسکے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوئے کہا اور اپنے نم بال اپنی انگلیوں سے سنوارنے لگا۔


"آپ کر رہے ہیں باچا روز میرے سونے کے بعد گھر آتے ہیں اور اٹھنے سے پہلے چلے جاتے ہیں۔۔۔مجھ سے کوئی غلطی ہوا ہے کیا؟"


مرجان نے نم آواز میں پوچھا تو ویرہ اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔یعنی اب وہ اس لڑکی کی آنکھ میں ایک آنسو بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔


"ہاں غلطی ہوئی ہے تم سے مرجان میرے قریب آنے کی غلطی کی ہے تم نے مجھے نہیں پسند کہ ہر وقت کوئی میرے قریب ہونے کی کوشش کرتا رہے بھول گئی ہو کیا کہ نفرت ہے مجھے ہر انسان سے۔۔۔"


ویرہ نے بے رخی کی انتہا سے کہا لیکن اسکے دل نے اسے جھوٹا کہا تھا۔


"نہیں۔۔۔۔نہیں بھولا میں باچا کرتے ہوں گے آپ سب سے نفرت لیکن مجھ سے نہیں۔۔۔آپ مجھ سے نفرت نہیں کرتا باچا محبت کرتا ہے آپ مجھے سے۔۔۔۔"


مرجان کی بات ویرہ کا دل بہت زور سے دھڑکا گئی تھی اور اپنے دل کی اس بے اختیاری سے نفرت ہوئی تھی ویرہ کو۔اسکے جزبات اس سے زیادہ اب اس لڑکی کی سننے لگے تھے۔


"نہیں مرجان تم بھی سب میں شامل ہو نفرت ہے مجھے ہر انسان سے۔۔۔۔۔تم سے بھی۔۔۔۔"


ویرہ نے زرا سا رک کر کہا تو مرجان حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔سنہری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔وہ ویرہ کے سامنے آئی اور اسکے بازو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیے۔


"تو وہ سب کیا تھا جو میں نے محسوس کیا جو میں نے آپ کی آنکھوں میں دیکھا باچا جب آپ اپنا پیار مجھ پر لٹا رہے تھے کیا تھا وہ سب۔۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے چلا کر پوچھا۔ویرہ کچھ دیر خاموشی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتا رہا تھا۔ان حسین آنکھوں میں وہ آنسو اسے بہت تکلیف دے رہے تھے لیکن ویرہ نے سب ابھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ نہیں چاہتا تھا دیر ہو جائے اور یہ آنسو ان دونوں کے لیے روگ بن جائیں۔


" ضرورت صرف تمہارے وجود کی طلب تھی مجھے جو پوری ہو گئی۔۔۔۔"


مرجان کے ہاتھ ویرہ کے بازوں سے دور ہوئے اور وہ ہکی بکی سی اسے دیکھنے لگی۔کیا وہ جانتا تھا وہ کیا کہہ رہا تھا وہ ان کی پاکیزہ محبت کو ہوس کا نام دے رہا تھا۔


"جھوٹ۔۔۔۔جھوٹ بول رہا ہے آپ زما باچا۔۔۔"


مرجان نے بے یقینی سے کہا اور اسے یوں بکھرتا دیکھ ویرہ کا دل تڑپ اٹھا تھا۔اسکا دل کیا کہ اسے اپنی باہوں میں لے لے اسے چیخ چیخ کر کہے کہ ہاں وہ جھوٹ بول رہا تھا۔


"اگر تمہیں یہ سب جھوٹ سمجھ کر خوش ہونا ہے تو ہوتی رہو لیکن میں نے وہی بتایا ہے جو میرے دل میں تھا۔"


ویرہ نے کندھے اچکا کر کہا اور وہاں سے جانے لگا لیکن مرجان اسکے سامنے آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھ دیا۔


"یہی بات میرے سر کی قسم کھا کر کہیں کہ آپ کو مجھ سے پیار نہیں۔۔۔۔اور اگر ایسا ہی ہے تو دعا کریں کہ اگلے پل سے پہلے موت آ جائے مجھے کیونکہ یہ احساس موت سے زیادہ دردناک ہے۔۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا اور ویرہ بے بسی سے اپنی آنکھیں موند گیا۔اس نے مرجان کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور وہاں سے جانے لگا۔


"ڈرپوک ہو آپ باچا ڈرپوک۔۔۔"


مرجان کی طنزیہ آواز نے ویرہ کے قدم روکے۔


"دنیا آپ سے ڈرتا ہے اور آپ اپنے دل سے کہ کہیں اس میں کوئی اتر نہ جائے۔۔۔لیکن آپ کو پتہ ہے باچا۔۔۔"


مرجان اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی اور پھر ویرہ کے سامنے آئی۔اسکے ہونٹوں پر گھائل مسکان اور آنکھوں میں آنسو تھے۔


"میں اس دل میں اتر چکا ہے اب اگر آپ کو اپنے دل سے ہی جھوٹ بولنا ہے تو بول کے خوش ہوتے رہو لیکن سچ یہی ہے یہاں صرف پر میں بس چکا ہے اور آپ چاہ کر بھی مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتا۔"


مرجان نے ویرہ کے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا اسکے ہونٹوں پر ایک فاتح مسکان تھی جیسے کہ وہ جیت گئی ہو۔اس سے پہلے کہ ویرہ اسے کچھ کہتا انکے گھر کا دروازا دھڑام سے کھلا اور ایک آدمی پریشانی کے عالم میں گھر میں داخل ہوا۔


"ویرہ ہم پر فوج نے حملہ کر دیا ہے۔۔۔۔"


اس آدمی کی بات پر ویرہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں جبکہ مرجان کا دل خوف سے بند ہوا تھا۔

اس آدمی کی بات سن کر ویرہ فوراً اپنے کمرے میں گیا۔مرجان گھبرا کر اسکے پیچھے آئی تھی۔ویرہ نے بستر کے نیچے سے اپنا ریوالور نکالا اور باہر جانے لگا جب اسکی نظر مرجان پر پڑی جو سہمی نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"باچا۔۔۔"


ویرہ مرجان کے پاس آیا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔


"تم اپنی اماں کے گھر جاؤ مرجان اور انکے ساتھ ہی رہنا۔۔۔"


ویرہ نے اسے حکم دیا تو مرجان انکار میں سر ہلانے لگی۔


"جو کہا ہے کرو مرجان۔۔۔"


ویرہ نے سختی سے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے آیا۔


"اسے لے کر یعقوب خان کے گھر جاؤ اور ان سب کے ساتھ ہی رہنا۔میری بیوی اور اسکے گھر والوں کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔"


ویرہ کے حکم پر اس آدمی نے ہاں میں سر ہلایا۔ویرہ نے مرجان کا ہاتھ چھوڑا لیکن وہ اسکے بازو سے لپٹ گئی۔


"میرے ساتھ چلیں باچا۔۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا اور ویرہ نے ایک نظر اسکی آنکھوں میں ان آنسؤں کو دیکھا۔


"میں آ جاؤں گا تمہارے پاس فکر مت کرو لیکن ان فوجیوں کو انکے انجام تک پہنچانے کے بعد۔"


اتنا کہہ کر ویرہ وہاں سے چلا گیا اور وہ آدمی مرجان کا بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا لیکن مرجان کی نظریں ویرہ پر تھیں۔نہ جانے کیوں اسکا دل کہہ رہا تھا کہ اس نے اسے جانے دیا تو وہ اسے کھو دے گی۔


وہ آدمی مرجان کو اسکے گھر والوں کے پاس لے آیا جو ڈرے سہمے سے گھر میں بیٹھے تھے۔مرجان کو دیکھ کر الماس تڑپ کر اسکے پاس آئیں اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔


اس آدمی نے دروازہ بند کیا اور بندوق پکڑ کر دروازے کے پاس کھڑا ہو گیا۔باہر سے گولیوں کی آوازیں آنے لگی تھیں اور گل ان آوازوں سے ڈرتی دلاور سے لپٹ رہی تھی جیسے اسکے اندر ہی چھپ جائے گی۔


"وو۔۔۔۔وہ ہمیں مار دیں گے کیا لالہ۔۔۔"


گل نے روتے ہوئے دلاور سے پوچھا جو خود بھی پریشان دکھائی دے رہا تھا۔


"ڈرو مت گل کچھ نہیں ہو گا۔۔۔"


دلاور نے اسے سمجھایا۔


"نہیں لالہ آپ نے کہا تھا یہ فوجی بہت ظالم ہوتے ہیں وہ ہمیں مار دیں گے۔۔"


گل نے اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپایا اور رونے لگی۔مرجان الماس سے لپٹی بیٹھی تھی۔اسے خود کا کوئی خوف نہیں تھا اگر فکر تھی تو صرف ویرہ کی۔ہر چلنے والی گولی پر اسکا دل دہل اٹھتا تھا کہ کہیں یہ گولی اسکے شوہر پر تو نہیں چلی۔


اب انہیں قدموں کی چاپ اپنے گھر کے قریب آتی ہوئی سنائی دے رہی تھی۔پھر کسی نے دروازہ زور سے پیٹا۔


"جو بھی ہے دروازہ کھولو اور خود کو سیرنڈر کر دو۔۔۔۔"


ایک رعب دار آواز انکے کانوں میں پڑی۔گل سہم کر دلاور کے بازو سے مزید مظبوطی سے چپک گئی۔الماس نے مرجان کو سختی سے خود میں بھینچا تھا جبکہ انکی حفاظت کے لیے کھڑا آدمی اپنی بندوق دروازے کی جانب کر چکا تھا۔


"تمہیں کیا لگا تھا یہ لوگ اتنی آسانی سے بات مان لیتے ہیں؟توڑ دو دروازہ۔۔"


ایک آدمی کی سنجیدہ سی آواز انکے کانوں میں پڑی۔


"یس کیپٹن۔۔۔۔"


دو آدمیوں نے ایک ساتھ کہا اور دروازے کو زور زور سے دھکیلنے لگے۔تھوڑی ہی دیر بعد دروازا ٹوٹ کر زمین پر گرا تو اندر کھڑے آدمی نے آنے والے فوجیوں پر گولی چلائی جو سامنے موجود فوجی کے بازو میں لگی۔


اس سے پہلے کہ وہ باقیوں کو مارتا ایک گولی اسکا سینا چیر گئی اور وہ دھڑام سے زمین پر گرا۔یہ دیکھ کر گل کے ہونٹوں سے ایک چیخ نکلی تھی۔ایک فوجی گھر میں داخل ہوا اور اس نے وہاں کا جائزہ لیا۔


"یہاں تین عورتیں اور ایک لڑکا ہے کیپٹن۔۔۔۔"


اس نے بندوق ان سب کی جانب کرتے ہوئے کہا۔ایک دوسرا آدمی گھر میں داخل ہوا۔کلین شیو اور چھوٹے چھوٹے بالوں والا آرمی یونیفارم میں ملبوس وہ چوبیس سالہ آدمی کافی خوش شکل تھا۔اس نے صورتحال کا جائزہ لے کر بندوق تھامے سپاہی کو گھورا۔


"بندوق نیچے کرو سمجھ نہیں آ رہا وہ ڈرے ہوئے ہیں۔۔۔"


اپنے کیپٹن کے حکم پر وہ بندوق نیچے کر چکا تھا۔اس نے سب کی جانب دیکھا۔


"آپ ڈریں مت ہم آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔پلیز ہمارے ساتھ تعاون کریں ہم آپکو یہاں سے آزاد کروا کر محفوظ جگہ پہنچا دیں گے۔۔۔"


اس کیپٹن نے اتنا کہہ کر سپاہی کو اشارہ کیا تو وہ دلاور کے پاس گیا اور اسے پکڑ لیا لیکن گل دلاور کے بازو سے دور نہیں ہوئی تھی۔


"نہیں۔۔۔لالہ۔۔۔چھوڑو میرے لالہ کو۔۔۔"


گل نے روتے ہوئے کہا جبکہ دوسرا سپاہی مرجان اور الماس کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔


"ڈرو نہیں آپ میں نے کہا ناں اگر آپ کچھ غلط نہیں کریں گے تو ہم بھی آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔"


کیپٹن نے گل سے کہا لیکن اس نے دلاور کا بازو نہیں چھوڑا۔آخر کار وہ خود اسکے پاس آیا اور اسے بازو سے پکڑ کر دلاور سے دور کیا۔


"نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔لالہ۔۔۔بچاؤ۔۔

بچاؤ۔۔۔۔"


گل نے روتے ہوئے چلانا شروع کر دیا اور کیپٹن کی گرفت سے اپنا بازو چھڑانے کی جدوجہد کرنے لگی۔


"بس چپ آواز نہ آئے اب تمہاری۔۔۔۔"


کیپٹن نے غصے سے کہا تو گل فوراً چپ ہو گئی اور سہم کر اسکی جانب دیکھنے لگی۔کیپٹن نے ایک نظر اس سرخ و سفید چہرے اور نیلی آنکھوں والے معصوم حسن کو دیکھ کر نظر پھیر لی۔وہ لڑکی مشکل سے پندرہ سال کی تھی۔


"کہا ناں کہ کچھ نہیں کریں گے ہم الٹا بچانے آئیں ہیں تم لوگوں کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی؟"


کیپٹن نے غصے سے کہا تو گل خوف سے سانس تک لینا بھول گئی۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا گل کا سر چکرایا اور وہ بے ہوش ہو کر اسکی باہوں میں جھول گئی۔


"گل۔۔۔۔"


دلاور نے پریشانی سے اسے دیکھا اور تڑپ کر اسکی جانب جانا چاہا لیکن فوجی نے اسے آزاد نہیں کیا۔


"چھوڑو میری بہن کو۔۔۔"


دلاور نے کیپٹن کو گھور کر کہا تو کیپٹن نے گہرا سانس لیا اور اس لڑکی کا نازک وجود اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔


"باہر باقی سپاہیوں تک پہنچاؤ انہیں پھر یہاں کے باقی لوگوں کو بھی آزادی دلاتے ہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر کیپٹن نے سپاہیوں کو چلنے کا اشارہ کیا تو وہ سب کو لے کر گاؤں سے باہر جانے لگے لیکن مرجان نہیں جانا چاہتی تھی نہیں۔۔۔اسے اپنے شوہر کے پاس جانا تھا خوف سے اسکا دل بند ہو رہا تھا۔


مرجان نے اس سپاہی کو دیکھا جس کی گرفت میں وہ تھی۔اسکے بازو سے گولی لگنے وجہ سے خون بہہ رہا تھا۔جیسے ہی وہ لوگ کھلے میدان میں پہنچے مرجان نے پوری طاقت لگا کر خود کو چھڑوایا اور وہاں سے بھاگنے لگی۔


"رک جاؤ لڑکی۔۔۔۔"


ایک رعب دار آواز مرجان کے کانوں سے ٹکرائی لیکن وہ رکی نہیں۔اسے اپنے باچا کے پاس جانا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ سپاہی کچھ کر پاتے مرجان انکی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔


مرجان بے چینی سے یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔اسے ہر طرف صرف فوجی نظر آ رہے تھے جو وہاں کی عورتوں اور بچوں کو وہاں سے لے کر جا رہے تھے۔


اچانک گولیوں کی آواز مرجان کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ اس طرف بھاگ گئی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ لوگ ویرہ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے لیکن اگر وہ اسے مارنا چاہتے تھے تو مرجان بھی اسکے ساتھ مرے گی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ غصے کے عالم میں وہاں آیا جہاں سب آدمی جمع تھے۔ویرہ نے ایک طائرانہ نگاہ سب پر ڈالی۔


"راگا اور کال کہاں ہیں؟"


ویرہ کے سوال پر سب نے سر جھکا لیا۔


"کال تو کافی دنوں سے غائب ہے ویرہ اور راگا سردار کو بھی صبح سے نہیں دیکھا۔"


ایک آدمی کے بتانے پر ویرہ نے گہرا سانس لیا اور سب آدمیوں کی جانب دیکھا۔


"ان فوجیوں میں اتنی جرات آ گئی ہے کہ یہ ہم پر حملہ کریں،ہمارے گھروں پر حملہ کریں۔ انہیں اس غلطی کی سزا ملے گی۔۔۔۔"


ویرہ کے چلا کر کہنے پر سب نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ان سب کا وہ انجام کر کے بھیجیں گے کہ پھر سے فوج ہمارے پیچھے اپنی سپاہی بھیجنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے گی۔"


ویرہ کی دہاڑ پر سب نے اپنی بندوق اونچی کر کے لبیک کہا اور حملے کی تیاری کرنے لگے۔تبھی راگا وہاں پر آیا تو ویرہ نے اسے گھور کر دیکھا۔


"کہاں تھے تم راگا؟ ان آرمی والوں میں اتنی ہمت آ گئی ہے کہ ہم پر یہاں حملہ کردیا لیکن فکر مت کرو یہ غلطی ان کی آخری غلطی بنا دیں گے۔۔۔۔"


ویرہ نے ایک آدمی کو اشارہ کیا۔


"میں بھی انہیں کا جائزہ لینے گیا تھا ویرہ وہ تعداد میں ہم سے زیادہ ہیں اگر انہوں نے ہم پر پہلے حملہ کیا تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔اسی لیے بہتر یہی ہے کہ ہم ان پر پہلے حملہ کریں۔۔۔۔"


راگا کی بات سے متفق ہو کر ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ہمیں ہوشیاری سے کام لینا ہوگا۔ ہمارے جتنے بھی آدمی ہیں سب کو ساتھ لو۔ آدھے آدمی ان پر شمال سے حملہ کرو اور ویرہ تم اور میں جنوب سے ان پر حملہ کریں گے۔"


ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا اور آدمیوں کو بٹ جانے کا اشارہ کیا۔


"مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ہم میں کون سا ایسا جاسوس ہے جس نے فوج کو ہمارا ٹھکانہ بتایا ۔۔۔۔اگر پتہ چل گیا نا راگا تو وہ موت مانگے گا اور اسے موت بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔"


ویرہ نے راگا کے ساتھ چلتے ہوئے غصے سے مٹھیاں بھینچ کر کہا جبکہ آدھے آدمی انکے پیچھے آ رہے تھے اور باقی دوسری جانب جا چکے تھے۔اچانک ہی راگا ایک جگہ پہنچ کر رک گیا تو ویرہ نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔


"کیا ہوا راگا؟"


"کچھ نہیں ویرہ تمہیں بس یہ بتانا تھا کہ وہ جاسوس میں ہی ہوں۔۔۔"


اس سے پہلے کہ ویرہ راگا کی بات کا مطلب سمجھتا گھاس اور درختوں کے پیچھے چھپے فوجیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور سب دہشتگردوں کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر وہ سب کو یا تو مار چکے تھے یا حراست میں لے چکے تھے۔ویرہ نے حیرت سے ارد گرد ایک نظر دیکھا اور اپنی بندوق فوراً راگا پر تان دی۔


"غدار۔۔۔۔"


ویرہ نے گولی چلائی لیکن راگا عین وقت پر جھک کر اپنے آپ کو اس گولی سے بچا چکا تھا۔پھر خود فورا آگے بڑا اور ایک ٹانگ ویرہ کے بازو پر مار کر اسکی بندوق کو گرایا۔ویرہ نے اپنا ہاتھ بہت زور سے راگا کے گال پر مارنا چاہا لیکن راگا اس سے بھی بچتا ویرہ کی ٹانگ پر اپنی ٹانگ مار کر اسے زمین پر گرا گیا اور اسکی گردن کو دبوچ لیا۔


"نہیں ویرہ میں غدار نہیں ہوں بلکہ غدار تو تم ہو جو خود پر ہوئے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے اپنے وطن سے ہی غدار ہو گیا۔۔۔لیکن اس کا غداری کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے ویرہ۔۔۔۔معصوموں کی جان لے کر تمہارے گھر والوں کی روح کو سکون نہیں ملا ویرہ انہیں تکلیف ہوئی ۔۔۔۔"


اپنے گھر والوں کے ذکر پر ویرہ غم و غصے کی کیفیت سے چلایا اور راگا کی پکڑ سے نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ پکڑ بہت مضبوط تھی۔


"ہاں ویرہ اپنے بیٹے کو قاتل بنا دیکھ وہ انصاف پسند آدمی بہت دکھی ہوا ہو گا۔۔۔ابھی بھی وقت ہے سمجھ جاؤ دوست۔۔۔۔انصاف کی تلاش میں تم نے غلط راہ چنی۔۔۔۔۔"


راگا نے ویرہ کے کان میں کہا لیکن ویرہ کی مزاحمت ترک نہیں ہوئی۔


"نہیں۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گا کسی کو نہ ان خاموش تماشائی بن کر موت دیکھنے والوں کو اور نہ ہی زندگیوں کا سودا کرنے والوں کو۔۔۔"


ویرہ راگا کی گرفت میں پھڑپھڑاتا غصے سے چلایا۔غم اور غصہ اس پر حاوی ہو چکے تھے۔اس وقت وہ کوئی بے قابو جانور لگ رہا تھا جسے سنبھالنا راگا کے لیے بھی مشکل تھا۔


"عبداللہ۔۔۔۔"


مرجان کی آواز پر ویرہ جدوجہد کرنا بند ہوا تھا۔اس نے نظریں اٹھا کر مرجان کو دیکھا جو ایک سپاہی کی گرفت میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ویرہ بس مردہ آنکھوں سے اسے دیکھتا جا رہا تھا۔


""ابھی بھی وقت ہے سوچ لو عبداللہ۔۔۔۔اور کسی کے لیے نہ سہی مرجان کے لیے۔۔۔مر جائے گی وہ تمہاری لاش دیکھ کر۔۔۔۔"


راگا نے اسکے کان میں سرگوشی کی تو دو آنسو ویرہ کی آنکھوں سے بہہ کر اسکے گال پر گرے۔وہ چاہتا تو سب سے لڑتے لڑتے خود کو فنا کر دیتا لیکن اسکا کیا کرتا جو روتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔جسکی نظروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ ویرہ کے سینے سے نکلنے والی آخری سانس اسکی موت ہو گی۔


"جانتا ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا وہ بہت بڑا ظلم تھا اور اس نے ظلم نے تمہیں ظالم بنا دیا دوست۔۔۔ان ظالموں سے بھی زیادہ ظالم تو کیا فرق رہا ان میں اور تم میں۔۔۔۔؟"


راگا نے انتہائی نرم لہجے میں کہا تو ویرہ نے اسکے بازو چھوڑ دیے اور اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ کر سسک سسک کر رو دیا۔راگا نے فوجی کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کر ویرہ کو زنجیر پہنائی اور اس بکھرے شخص کو اپنے ساتھ لے گیا۔


جبکہ مرجان مردہ آنکھوں سے ویرہ کو خود سے دور جاتا دیکھ رہی تھی۔وہ لوگ ویرہ کو ایک گاڑی میں ڈال چکے تھے جب مرجان میں حرکت آئی اس نے اپنا آپ چھڑایا اور ویرہ کی جانب بھاگنے لگی۔


"باچا۔۔۔۔نہیں چھوڑو۔۔۔میرے باچا کو۔۔۔"


مرجان روتے ہوئے چلائی اس سے پہلے کہ وہ ویرہ تک پہنچتی راگا نے اسے پکڑ کر اسکے قریب جانے سے روکا۔


"نہیں ۔۔۔باچا۔۔۔۔راگا لالہ مجھے ان کے پاس جانا ہے جو سزا انہیں دے گا مجھے بھی دے دینا بس مجھے ان کے پاس جانا ہے۔۔ "


مرجان نے سسک کر روتے ہوئے کہا جبکہ فوجی ویرہ کی گاڑی کا دروازا بند کر چکے تھے۔گاڑی سٹارٹ ہوئی اور وہاں سے جانے لگی تو مرجان نے تڑپ کر راگا کی گرفت سے نکلنا چاہا۔


"نہیں مرجان۔۔۔۔نہیں بھروسہ کرو مجھ پر۔۔۔۔پلیز اپنا بڑا بھائی سمجھ کر بھروسہ کر لو مجھ پر۔۔۔"


راگا نے اسے چھوڑے بغیر کہا تو مرجان گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چیخ چیخ کر رونے لگی۔


"تو یہ بہن آپ کو بتا دیتی ہے لالہ مر جائے گا وہ اپنے باچا کے بغیر مر جائے گا۔۔۔۔"


مرجان نے زارو قطار روتے ہوئے کہا اور راگا بے بسی سے نم آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا لیکن وہ اسکے لیے کیا کر سکتا تھا اسکی اور اپنی زندگی میں یہ کانٹے ویرہ نے خود بچھائے تھے۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان مردہ حالت میں ایک کونے میں بیٹھی تھی جبکہ الماس اسکے پاس بیٹھیں پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔تین دن گزر چکے تھے لیکن اتنے دنوں سے مرجان نے ایک لفظ نہیں بولا تھا بس یونہی ایک جگہ پر بیٹھ کر آنسو بہاتی رہتی تھی۔الماس اسکی پریشانی میں گھلتی چلی جا رہی تھیں۔


وہ لوگ آرمی کے کیمپ میں موجود تھے۔جہاں انہیں سب گاؤں والوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ان سب کی تحقیقات تک انہیں یہیں رکھا جانا تھا اور اسکے بعد وہ فوج کی طرف سے آزاد تھے لیکن وہ سب آزاد ہو کر جاتے بھی کہاں ان کے سہارے ان کے آدمی یا تو مارے جا چکے تھے یا جیل میں قید تھے۔


گناہ تو ان نے آدمیوں کا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی،آزادی کے باجود سزا ان کی عورتوں اور بچوں نے بھگتنی تھی۔چند سپاہی ان کے لیے کھانا لے کر آئے تو دلاور اٹھا اور کھانا لا کر الماس کو دیا۔


الماس نے نوالہ توڑ کر مرجان کے ہونٹوں کی جانب کیا لیکن ہمیشہ کی طرح اس نے کچھ بھی نہیں کھایا۔الماس نے بے بسی سے دلاور اور گل کو دیکھا اور سسک سسک کر رو دیں۔


"ایسا مت کر مرجان مت کر خود کو یوں ختم۔۔۔مر جائے گی تو ایسے تھوڑا تو رحم کر خود پر۔"


الماس نے روتے ہوئے کہا۔ لیکن مرجان کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں آیا تھا۔اس نے تو کوئی جواب بھی نہیں دیا۔تبھی ایک آرمی آفیسر اس کیمپ میں داخل ہوا اور سب لوگوں پر نظر دوڑانے لگا۔


"ان چاروں کو میرے ساتھ بھیجو۔۔۔"


اس افسر نے مرجان اور اسکے گھر والوں کی جانب اشارہ کر کے کہا۔


"بٹ کیپٹن امان ابھی تو سب کی تحقیقات چل رہی ہے اور اس سے پہلے کسی کو نہیں چھوڑا جانا تھا۔"


سپاہی نے خود کو دیا جانے والا حکم کیپٹن امان کو بتایا تو امان کے اپنی جیب سے ایک لفافہ نکال کر سپاہی کے سامنے کیا۔


"جرنل شہیر کا آرڈر ہے۔۔۔"


سپاہی نے اثبات میں سر ہلایا اور الماس کے پاس آیا۔


"اماں چلیں آپ چاروں کو آزاد کیا جا رہا ہے۔۔۔"


وہ سپاہی جانتا تھا کہ الماس کو اردو نہیں آتی اسی لیے اس نے یہ بات پشتو میں کہی تھی۔الماس نے حیرت سے اس سپاہی کی جانب دیکھا۔


"آزاد۔۔۔لیکن ہم آزاد ہو کر جائیں گے کہاں ہمارا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے،ہمارا کوئی سہارا نہیں۔"


یہ بات کہتے ہوئے الماس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔


"یہ کیا کہہ رہی ہیں؟"


امان نے سپاہی کے پاس آ کر پوچھا تو سپاہی نے الماس کی بات اسے بتائیں۔


"انہیں کہو وہ اس ملک کے باشندے ہیں یہ پورا ملک انکا گھر ہے اور ہم سب انکا سہارا ہیں ۔ان کے مردوں کے گناہوں کی سزا انہیں نہیں دی جائے گی۔۔۔۔"


سپاہی نے امان کی بات الماس کو بتائی تو انہوں نے حیرت سے امان کو دیکھا جو آرمی یونیفارم میں مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا۔وہ وہی کیپٹن تھا جو اس دن انہیں انکے گھر سے لے کر گیا تھا۔


"اب چلیں آپ کا نیا گھر آپ کا انتظار کر رہا ہے۔۔۔"


"گھر؟"


دلاور نے حیرت سے پوچھا تو امان نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔الماس نے مرجان کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اسے کیمپ سے باہر لے جانے لگیں۔دلاور نے گل کا ہاتھ پکڑا جو سہم کر امان کو دیکھتے ہوئے دلاور کے بازو سے چپکی تھی۔


"یہ مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ہے؟"


امان کے سوال پر دلاور مسکرا دیا۔


"یہ آپ سے نہیں آپ کی وردی سے ڈرتا ہے۔۔۔"


دلاور کی بات پر امان کے ماتھے پر بل آئے تھے۔


"مطلب؟"


"مطلب اسے فوجیوں سے ڈر لگتا ہے۔۔۔"


دلاور نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اپنی چھوٹی بہن کو اپنے ساتھ لگایا تو امان مسکرا دیا۔اس نے ایک نظر نیلی آنکھوں والی اس گلابی سی گڑیا کو دیکھا۔امان نے انہیں گاڑی میں بیٹھایا اور ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔


کچھ دیر کے بعد وہ لوگ ایک گھر کے باہر رکے۔تقریباً دس مرلے پر بنا وہ گھر بہت خوبصورت سا تھا۔


"آئیے۔۔۔۔"


امان نے انہیں کہا تو الماس گھبراتے ہوئے مرجان کو لے کر گاڑی سے اتری اور دلاور کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔دلاور نے گھبرا کر یہاں وہاں دیکھا اور گل کا ہاتھ پکڑتا گھر میں داخل ہو گیا۔


گھر جتنا خوبصورت باہر سے تھا اندر سے اتنا بھی زیادہ شاندار تھا۔سارا گھر سامان سے بھرا پڑا تھا۔گل اور دلاور تو حیرت سے آنکھیں کھولے یہاں وہاں دیکھ رہے تھے۔


"سر میں لے آیا انہیں جیسا آپ نے کہا تھا۔"


امان نے ہال میں کھڑے ایک آدمی سے کہا جو اسکے یہ بات کہنے پر پلٹا اور مسکرا کر انکی جانب آیا۔


"اسلام و علیکم ۔۔۔۔کیسے ہیں سب آپ کو یہاں آنے میں مسلہ تو نہیں ہوا؟"


اس آدمی نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔اسے تو وہ لوگ جانتے بھی نہیں تھے پھر وہ ان سے اتنی محبت سے بات کیوں کر رہا تھا۔


"کون ہے آپ اور ہمیں یہاں کیوں بلایا ہے؟"


الماس نے گھبراتے ہوئے پوچھا تو وہ مسکرا دیا۔


"میرا نام عماد ہے عماد بنگش اور مجھے آپ اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔"


عماد نے الماس کی آسانی کے لیے یہ بات پشتو میں کہی تو وہ حیرت سے اسکی جانب دیکھنے لگیں۔


"لیکن میں تو تمہیں جانتی بھی نہیں۔۔۔"


الماس نے حیرت سے پوچھا۔


"جی لیکن میں آپ سب کو جانتا ہوں آپ پریشان مت ہوں۔۔۔"


عماد نے نرمی سے کہا اور مسکرا کر مرجان کو دیکھا جو بت بنی وہاں کھڑی تھی۔


"یہ آپ سب کا گھر ہے آپ یہیں رہیں گے اب سے اور آپ کو کسی چیز کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں سب دیکھ لوں گا۔۔۔۔"


عماد کی بات پر الماس نے پریشانی سے دلاور کو دیکھا۔


"لیکن تم ہمارے لیے اتنا سب کیوں کر رہے ہو؟"


الماس کے لہجے میں بہت حیرانی تھی۔


"بس یہ سمجھ لیں کسی سے کیا وعدہ نبھا رہا ہوں۔۔۔"


اتنا کہہ کر عماد الماس کے پاس آیا اور اپنا ہاتھ انکے کندھے پر رکھا۔


"مجھے پر بھروسہ کریں اماں جی میں بس آپ سب کا خیال رکھنا چاہتا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔۔"


الماس نے عماد کی آنکھوں میں سچائی دیکھی تھی۔وہ اپنے بچوں کے معاملے میں کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن اپنے بیمار بیٹے اور دو بیٹیوں کو لے کر وہ جاتی بھی کہاں۔کچھ سوچ کر انہوں نے ہاں میں سر ہلایا تو عماد مسکرا دیا۔


"چلیں آئیں آپ کو آپ کا گھر دیکھاتا ہوں۔۔۔"


عماد نے انہیں ساتھ چلنے کا کہا تو وہ سب اسکے پیچھے چل دیے۔گھر میں ٹوٹل چھے کمرے تھے اور سب ہی بہت خوبصورت تھے عماد نے تو سب کے لیے علیحدہ علیحدہ کمرہ تیار کروایا تھا لیکن الماس کا ارادہ خود دلاور کے ساتھ رہنے کا تھا اور گل اور مرجان کو ایک کمرے میں رکھنا چاہتی تھیں۔


"ابھی آپ لوگ آرام کر لیں پھر کل ہم بازار چلیں گے تا کہ آپ کپڑے اور ضرورت کا جو سامان آپ کو چاہیے آپ وہ لے سکیں۔۔۔"


عماد نے نرمی سے کہا تو الماس نے ہاں میں سر ہلایا اور اسے ڈھیروں دعائیں دیں۔عماد کچھ ہی دیر میں امان کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔


"اماں کیا یہ سچ میں اب ہمارا گھر ہے؟"


گل نے خوشی سے پوچھا تو الماس مسکرا دیں لیکن انہوں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اس سوال کا جواب انکے پاس خود بھی نہیں تھا۔وہ اس عماد بنگش کو جانتے تو نہیں تھے لیکن فلحال وہ انکی اس مشکل زندگی میں ایک فرشتہ بن کر آیا تھا۔

یہ فوجی جیل کی کال کوٹھری کا ایک منظر تھا اور ویرہ اس کال کوٹھری کے اندھیرے میں گم سم سا بیٹھا تھا۔کچھ دیر پہلے ہی فوجی اس سے پوچھ تاچھ کر کے گئے تھے لیکن اسکی زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوا تھا۔


انہوں نے اسکی زبان کھلانے کے لیے اسے مارا بھی تھا مگر کچھ بولنا تو دور اسکے ہونٹوں سے ایک سسکی بھی نہیں نکلی تھی۔ابھی بھی اسکا پورا وجود زخموں سے دکھ رہا تھا لیکن وہ بس دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔


جسم کے وہ زخم تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھے جو زخم اس کے دل پر لگے تھے۔ویرہ نے اپنی آنکھیں بند کیں تو مرجان کا مسکراتا ہوا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔


چلے جاتے ہیں یہاں سے دور بہت دور جہاں آپ کے اور میرے سوا کوئی نہ ہو کوئی مجبوری نہیں،کوئی پابندی نہیں بس ہم اور ہمارا محبت۔۔۔


مرجان کے الفاظ یاد کر کے ویرہ کرب سے اپنی آنکھیں بھینچ گیا۔اس کال کوٹھری میں اسے بند ہوئے شائید پندرہ دن گزر چکے تھے اور اب شائید اس نے ساری زندگی یہیں گزارنی تھی اسکے بنا اسکی یادوں کے سہارے۔


"باچا۔۔۔۔نہیں چھوڑو۔۔۔میرے باچا کو۔۔۔"


ویرہ کو مرجان کا اسکے لیے رونا تڑپنا یاد آیا تو دو آنسو اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر اسکے گال پر بہے۔کاش کاش وہ اسے ایک بار دیکھ سکتا صرف ایک بار اس سے مل کر یہ کہہ سکتا کہ۔۔۔۔کہ وہ بھول جائے اسے زندگی میں آگے بڑھ جائے کیونکہ اسکا مقدر یہ کوٹھری اور اسکی چار دیواری سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔


دروازہ کھلنے کی چرچراہٹ پر ویرہ خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور دروازے کی جانب دیکھا جہاں آرمی یونیفارم میں ملبوس ایک افسر کوٹھری میں داخل ہوا تھا۔


"کیسے ہو ویرہ۔۔۔؟"


اس افسر نے ویرہ کے پاس آتے ہوئے پوچھا اور کوٹھری میں موجود بینچ پر بیٹھ گیا جو کہ ویرہ کا بستر تھا۔


"پتہ چلا کہ تم بہت سخت جان ہو جواب دینا تو کیا تمہارے ہونٹوں سے ایک آہ تک نہیں نکلی۔۔۔"


اس افسر نے مسکرا کر کہا جبکہ ویرہ بس مردہ آنکھوں سے ایک غیر مرئی نقتے کو دیکھتا جا رہا تھا۔


"خیر میرا نام شہریار بنگش ہے فوج میں مجھے جنرل شہیر کہا جاتا ہے۔۔۔"


جنرل شہیر نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔


"اور میں تمہارے بارے میں سب جانتا ہوں ویرہ۔۔۔یہ بھی کہ تمہارا اصلی نام ویرہ نہیں بلکہ عبداللہ میر ہے ایڈوکیٹ سجاد میر کے بیٹے۔۔۔"


اب کی بار ویرہ نے نظریں اٹھا کر جنرل شہیر کی جانب دیکھا۔


"سب جانتے ہیں انکے گھر والوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔۔۔۔یہ بھی کہ انکا ایک بیٹا بچ گیا تھا جو ہسپتال سے کہیں بھاگ گیا لیکن کسی کو پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا۔۔۔"


جنرل شہیر نے ایک سرد آہ بھری۔


"ایڈوکیٹ سجاد کو پوری عوام اس قوم کا ہیرو مانتی ہے جس نے انصاف کی خاطر سر کٹا تو لیا لیکن سر جھکایا نہیں۔۔۔لیکن اگر اس عزیم انسان کے بیٹے کو دنیا جانے گی تو کیا بنے گا اس عزت کا۔۔۔"


جنرل شہیر کی بات پر ویرہ اپنی مٹھیاں غصے سے بھینچ گیا۔


"غصہ آ رہا ہے؟ آنا بھی چاہیے جو کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے اور یہ بات تم بھی جانتے ہو۔۔۔"


جنرل شہیر کے لہجے میں کوئی طنز نہیں تھا بس انہوں نے عام سی بات کہی تھی۔


"لیکن جو تم نہیں جانتے۔۔۔۔میں وہ تمہیں بتانے آیا ہوں۔۔۔"


جنرل شہیر نے ایک فائل پکڑ کر ویرہ کے سامنے کی اور باہر کھڑے سپاہی کو لائٹ جلانے کا اشارہ کیا۔کچھ دیر کے بعد کوٹھری میں موجود بلب جل اٹھا۔ویرہ نے اس فائل کو کھول کر دیکھا جس میں کسی ڈاکٹر کا ذکر تھا۔


"یہ ڈاکٹر حسن تھے وہ ڈاکٹر جنہوں نے سجاد میر کے بیٹے عبداللہ میر کی جان بچائی تھی۔"


اس بات پر ویرہ نے حیرت سے جنرل شہیر کو دیکھ کر فائل پر موجود تصویر کو دیکھا۔وہ مہربان سا ڈاکٹر اسے یاد آیا۔


"جانتے ہو اس ڈاکٹر کو اس بچے کی جان بچانے کی وجہ سے دھمکایا جاتا رہا لیکن پھر بھی اس نے اس بچے کی جان بچائی۔۔۔۔"


ویرہ کی نظریں بس فائل پر موجود آدمی کی تصویر پر ٹکی تھیں۔


" یہ شخص اب زندہ نہیں۔۔۔"


ویرہ نے حیرت سے جنرل شہیر کو دیکھا۔


"دو سال پہلے اس کے ہاسپٹل میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں یہ ڈاکٹر اپنے مریضوں کے ساتھ شہید ہو گئے۔"


اب کی بار ویرہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"اور جانتے ہو وہ دھماکہ کس نے کیا تھا؟۔۔۔۔راگا نے۔۔۔۔تمہارے بنائے ہوئے بم سے۔۔۔"


اس بات پر ویرہ کو لگا کہ اسکا دل بند ہو جائے گا وہ فائل اسکے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے گری تھی۔


"دنیا کو سزا دینا چاہتے تھے ناں تم اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کی سزا۔یہ تو وہ شخص تھا جس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کر کے تمہیں بچایا تھا۔۔۔اسکا کیا قصور تھا ویرہ۔۔۔؟"


ویرہ پھٹی آنکھوں سے سامنے موجود دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے جنرل شہیر نے اپنے الفاظ سے اسکی روح فنا کر دی ہو۔


"مانتا ہوں تم پر ظلم ہوا لیکن ظلم کا ہونا ہمیں ظالم بننا تو نہیں سیکھاتا۔۔۔بولو ویرہ کیا فرق رہ گیا تم میں اور ان لوگوں میں جنہوں نے تمہارے گھر والوں کو مارا تھا۔۔۔۔؟"


جنرل شہیر نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"کچھ نہیں کوئی فرق نہیں رہا۔۔۔ظلم انہوں نے بھی کیا اور تم نے بھی۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر جنرل شہیر اٹھ کر وہاں سے چلے گئے اور ویرہ کی نظر پاس پڑی اس فائل پر گئی۔اس نے اپنے بال مٹھیوں میں دبوچے اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔اسکی آہ و پکار میں اتنا درد تھا کہ باہر کھڑا سپاہی بھی اسے رحم سے دیکھنے لگا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان گم سم سی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔الماس ابھی اسے کھانا کھلا کر گئی تھی۔ان سب کی زندگی عماد نے سیٹ کر دی تھی۔گل ایک سکول میں جا رہی تھی اور دلاور کا علاج چل رہا تھا جس سے اسکی طبیعت کافی بہتر بھی ہونے لگی تھی۔


اگر کوئی ابھی بھی سنبھل نہیں سکا تھا تو وہ مرجان تھی جو بس مردہ حالت میں ایک جگہ پڑی رہتی تھی۔نہ کسی سے بات کرتی تھی اور نہ ہی ہنستی تھی۔اگر الماس اور گل اسکے کھانے کا دھیان نہ رکھتیں تو وہ شائید کھانا بھی بھول جاتی۔


الماس کو اسکی بہت پروا تھی۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ اپنی بیٹی کے اس غم کو کیسے کم کریں۔


"اسلام و علیکم اماں۔۔۔"


عماد کی آواز پر الماس مسکرا دیں۔وہ ہمیشہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اونچی سلام لینے کا عادی تھا۔


"و علیکم السلام کیسے ہو بیٹا؟"


الماس نے اسکے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا تو عماد مسکرا دیا۔


"میں بالکل ٹھیک ہوں بس یہ گول گپے راستے میں دکھے تو اپنی بہنوں کے لیے لے آیا۔کہاں ہیں وہ؟"


عماد نے گول گپے پلیٹ میں نکالتے ہوئے پوچھا تو الماس مسکرا دیں۔عماد کو لے کر انکے سارے خدشات دور ہو چکے تھے کیونکہ عماد کی آنکھوں میں ان کی بیٹیوں کے لیے وہ ہی عزت تھی جو وہ دلاور کی آنکھوں میں دیکھتی تھیں۔


"گل تو ابھی سکول ہے دلاور اسے لینے گیا ہے مرجان اپنے کمرے میں ہے۔۔۔۔"


مرجان کے ذکر پر الماس کے لہجے میں افسردگی آئی تھی۔


"ٹھیک ہے میں اسے خود یہ دے کر آتا ہوں۔۔۔"


عماد اتنا کہہ کر مرجان کے کمرے کی جانب چل دیا۔کمرے میں آ کر اس نے مرجان کو دیکھا جو گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھی تھی۔عماد نے ایک کرسی اسکے پاس رکھی اور اس پر بیٹھ کر گول گپے اسکے سامنے کیے۔


"یہ دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا چلو اب جلدی سے سارے کھا لو پھر گل آئے گی تو اسے خوب چڑانا۔۔۔"


عماد نے ناک سکیڑ کر کہا لیکن مرجان نے کوئی جواب نہیں دیا۔


"اچھا تو میری بہن کو گول گپے پسند نہیں کچھ اور کھائے گی تو بتاؤ مجھے کیا کھانا ہے وہ لے کر آتا ہوں۔۔۔"


مرجان کے پھر سے کوئی جواب نہ دینے پر عماد نے گہرا سانس لیا۔


"کچھ تو بولو مرجان ایسے تو مت کرو خود کے ساتھ۔۔۔"


عماد نے سنجیدگی سے کہا لیکن جب مرجان مسلسل خاموش رہی تو وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگا۔


"راگا لالہ۔۔۔"


مرجان کی آواز نے عماد کے قدم روکے اس نے حیرت سے مڑ کر مرجان کو دیکھا۔


"میں جانتی ہوں آپ راگا لالہ ہو۔۔۔"


عماد واپس اسکے پاس آیا اور اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔


"میں راگا کیسے ہو سکتا ہوں ہمارا تو چہرہ بھی نہیں ملتا۔۔۔"


عماد کی بات پر مرجان نے مردہ آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"لیکن یہ آنکھیں۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ راگا لالہ ہو۔۔۔۔۔"


مرجان نے بھرپور یقین سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔


"راگا مر چکا ہے مرجان بھلا میں کیسے ۔۔۔"


"نہیں آپ وہ راگا نہیں وہ سفاک درندہ تھا جس کی آنکھوں میں کسی کے لیے عزت نہیں تھا لیکن جب آپ فوج کے پاس سے آیا تو آپ وہ راگا نہیں تھا لالہ۔۔۔۔۔آپ بس وہ راگا نہیں تھا۔۔۔"


عماد نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا۔


"میں تمیں سچ نہیں بتا سکتا مرجان مجھے اجازت نہیں۔۔۔"


عماد نے مجبوری سے کہا لیکن مرجان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسکے پاس بیٹھ گیا۔


"دیکھو جو تمہیں بتاؤں وہ بس ہمارے درمیان رہے گا وعدہ؟"


مرجان نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔عماد نے گہرا سانس لیا۔


"ہاں میں ہی راگا تھا لیکن میں راگا ہو کر بھی راگا نہیں تھا۔۔۔۔"


اس بات پر مرجان نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا۔


"میرا پورا نام عماد بنگش ہے مرجان۔۔۔میجر عماد بنگش،جنرل شہریار بنگش کا بیٹا اور میں فوج میں ہوں۔۔۔۔۔"


اس بات پر مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"فوج نے راگا کو کبھی قید سے آزاد کیا ہی نہیں تھا بلکہ اسکی جگہ میں آیا تھا راگا بن کر،روپ بدل کر تا کہ اسکے ساتھیوں کو پکڑ سکوں۔۔۔۔"


عماد کی بات پر دو آنسو ٹوٹ کر مرجان کی آنکھوں سے گرے۔


"میں نہیں دیکھ سکتا تھا تم سب کے ساتھ کچھ غلط ہو میں جانتا ہوں تم سب معصوم تھے اسی لیے میں تم سب کو اپنے پاس لے آیا۔۔۔۔اور وعدہ کرتا ہوں اپنی آخری سانس تک تم لوگوں کا خیال رکھوں گا ۔۔۔"


عماد نے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور اٹھ کر وہاں سے جانے لگا۔


"لالہ۔۔۔۔"


مرجان نے تڑپ کر اسے پکارا تو عماد نے اسکی جانب دیکھا جو اب سسک سسک کر رونے لگی تھی۔


"وہ۔۔۔۔وہ کیسے ہیں لالہ۔۔۔؟"


مرجان کے سوال پر عماد کرب سے اپنی آنکھیں موند گیا۔اب وہ اسے کیا جواب دیتا کہ اسکا شوہر اپنے گناہوں کی سزا کال کوٹھری میں کاٹ رہا تھا۔


"اسے بھول جاؤ مرجان ۔۔۔۔"


عماد نے بے رحمی سے کہا تو مرجان نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"کیا آپ سانس لینا بھول سکتا ہے۔۔۔۔؟"


عماد نے آنکھیں موند کر سرد آہ بھری۔


"اس نے جو راہ چنی مرجان اس پر بس کانٹے ہیں اور کچھ نہیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ عماد نے وہاں سے جانا چاہا۔


"کیا کانٹا ہے۔۔۔۔مجھے بتاؤ لالہ کیا ہے انکا سزا مجھے جاننا ہے۔۔۔"


مرجان نے عماد کے سامنے آ کر کہا تو عماد بے بسی سے اسے دیکھنے لگا۔


"مرجان۔۔۔"


"نہیں لالہ بتاؤ مجھے کیا انجام ہو گا ان کا۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے پوچھا تو عماد اپنا ماتھا سہلانے لگا پھر اس نے مرجان کو سچ بتانے کا فیصلہ کیا۔


"صرف دو۔۔۔یا عمر بھر کی قید یا۔۔۔"


"یا؟"


عماد کے خاموش ہو جانے پر مرجان نے بے چینی سے پوچھا۔اسے لگ رہا تھا اسکا دل بند ہو جائے گا۔


"یا موت۔۔۔۔"


مرجان کا دل سچ میں رک گیا تھا سانس سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔اسکا سر بری طرح سے چکرایا۔اس سے پہلے کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گرتی عماد نے اسے تھام لیا۔


وہ اور الماس فوراً اسے ہسپتال لے کر گئے تھے اور اب بے چینی سے ہسپتال کے ہال میں ٹہل رہے تھے۔تبھی ڈاکٹر وارڈ سے باہر آئی تو عماد بے چینی سے انکے پاس گیا۔


"سب ٹھیک ہے ناں ڈاکٹر؟"


"آپ انکے ہزبینڈ ہیں؟"


ڈاکٹر نے عماد کے سوال پر اپنا ہی سوال کیا تو عماد نے انکار میں سر ہلایا۔


"میں اسکا بڑا بھائی ہوں۔۔۔"


عماد کی بات پر ڈاکٹر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


"مبارک ہو مسٹر آپ ماموں بننے والے ہیں۔۔۔۔"


ڈاکٹر کے الفاظ پر عماد اپنی آنکھیں موند گیا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ خوش ہو یا اپنی بہن کی قسمت پر آنسو بہائے۔

مرجان کو ہوش آیا تو الماس جلدی سے اسکے پاس گئیں اور اسکا چہرہ چومنے لگیں۔مرجان نے گھبرا کر ہسپتال کے کمرے کو دیکھا۔


"میں کہاں ہوں۔۔۔کیا ہوا تھا؟"


مرجان کے سوال پر الماس اپنے آنسو پونچھ کر مسکرائیں۔


"تم ہسپتال ہو مرجان۔۔۔۔تم ماں بننے والی ہو۔۔۔"


اپنی ماں کی بات پر پہلے تو مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور پھر وہ سسک سسک کر رونے لگی۔الماس نے تڑپ کر عماد کو دیکھا جو خاموشی سے ایک کونے میں کھڑا تھا۔


"مرجان۔۔۔"


"نہیں اماں نہیں۔۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔میرا بچہ کیسے رہے گا اپنے باپ کے بغیر کیسے۔۔۔۔"


مرجان کے رو کر کہنے پر الماس بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔


"اماں کیا ہو گیا ہے اسے سمجھانے کی بجائے آپ خود روئے جا رہی ہیں۔۔۔۔چلیں آئیں میرے ساتھ۔"


عماد نے الماس کا ہاتھ پکڑ کر کہا اور انہیں اپنے ساتھ لگاتا کمرے سے باہر لے گیا۔کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو مرجان ویسے ہی رونے میں مصروف تھی۔


"تمہیں کیا لگتا ہے یوں رو کر خود کو ختم کرنا کسی چیز کا حل ہے؟"


عماد نے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسکے پاس کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔


"تو کیا کروں میں لالہ کیسے رہے گا میرا بچہ باپ کے پیار کے بغیر اپنی ہر سانس کے ساتھ وہ باپ کے پیار کو ترسے گا۔۔۔۔میں کیا کروں لالہ۔۔۔۔کیسے کروں گی اسکی محرومی دور میں کیسے۔۔۔۔"


مرجان یوں سسک سسک کر روتے ہوئے اسے کوئی دماغی مریضہ لگ رہی تھی۔


"اس سے بہتر ہے کہ ہم دونوں مر جائیں۔۔۔ہاں لالہ جب آپ لوگ میرے باچا کو مارو گے تو ساتھ ہم دونوں کو بھی مار ...."


"مرجان۔۔۔"


عماد نے غصے سے کہا تو مرجان نے سہم کر اسے دیکھا پھر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔عماد اسکے پاس پڑی کرسی پر بیٹھا اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔


"ایسے مت کرو مرجان اس حال میں تمہارا اتنا پریشان ہونا تم دونوں کے لیے صیح نہیں ہے۔۔۔"


"تو اچھا ہے ناں اپنے سائبان کی موت دیکھ سے پہلے ہی ہم۔۔۔"


"بس مرجان کیوں کر رہی ہو تم ایسی باتیں۔۔۔"


عماد نے غصے سے کہا تو مرجان نے کرب ناک آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"تو کیا کہوں میں لالہ۔۔۔نہیں رہ سکتی میں انکے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔۔"


عماد نے ایک سرد آہ بھری اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔


"میری بات سنو وعدہ کرو مجھ سے تم کہ اپنا اور اپنے بچے کا خیال رکھو گی۔یہ رونا چھوڑ کر اس ننھی جان کا سوچو گی جو ابھی اس دنیا میں ہی نہیں آیا۔۔۔"


عماد نے اسے سمجھایا لیکن مرجان نے کوئی جواب نہیں دیا وہ بس آنسو بہانے میں مصروف تھی۔


"بدلے میں میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ویرہ کو آزاد کروانے کی کوشش کروں گا۔۔۔"


مرجان کے آنسو اسکی آنکھوں میں ہی تھم گئے تھے۔اس نے حیرت سے عماد کی جانب دیکھا۔


"اپنا جی جان لگا دوں گا اسے آزاد کروا کر ایک عزت والی زندگی دینے میں لیکن میری شرط یہ ہے کہ تمہیں اپنا خیال رکھنا ہو گا۔۔۔"


عماد کی بات پر مرجان اپنا سر جھکا گئی۔


"بولو مرجان کرتی ہو وعدہ۔۔"


عماد کے پوچھنے پر کچھ دیر تک مرجان خاموش رہی پھر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔


"وعدہ۔۔۔"


مرجان نے آنسو پونچھ کر کہا تو عماد مسکرا دیا۔بس اب عماد کو یہ سوچنا تھا کہ اپنی بہن سے کیا وعدہ اسے پورا کیسے کرنا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ حسب معمول دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔اسکا ماضی ایک کڑوی یاد کی طرح اسکی آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا۔


"تم نے اس بچے کو کیوں مارا عبداللہ؟"


اپنے باپ کی آواز اسکے کانوں میں گونجی تھی۔


"اس نے مجھ سے لڑائی کی تھی بابا پہلے اس نے مجھے مارا تو میں نے بھی مارا۔۔۔"


عبداللہ نے کندھے اچکا کر کہا۔


"بری بات ہے عبداللہ پھر کیا فرق رہ گیا اس میں اور تم میں۔۔۔"


اپنے باپ کی آواز پر وہ کرب سے آنکھیں موند گیا۔


"تو کیا کرتا میں بابا۔۔۔"


"چلے جاتے وہاں سے اس سے دور اور جب موقع آنے پر وہ تم سے معافی مانگتا تو معاف کر دیتے۔۔۔۔تم عبداللہ ہو ناں اللہ کا بندہ اور اللہ کا بندہ معاف کر دیتا ہے میری جان وہ ظالم نہیں ہوتا۔۔۔۔"


اس یاد پر دو آنسو ٹوٹ کر ویرہ کی آنکھوں سے گرے تھے۔


"ایک بات یاد رکھنا بچہ محبت اور رحم انسان کا کمزوری ہوتا ہے اب ان دونوں کو خود پر حاوی مت ہونے دینا ایک ظالم درندے بن جانا جسے لوگ بس دہشت سمجھیں"


اب کی بار یعقوب خان کی آواز اسکے کانوں میں گونجی تھی۔


"اس لیے اب تم بھی کسی پر رحم نہ کھانا کسی کا خیال نہ کرنا۔۔۔۔طاقت ور بننا تم اور نہ صرف اپنے دشمن کا سر دھڑ سے الگ کر دینا"


یعقوب خان کا گھولا ہوا زہر اسے اپنی رگوں میں چلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔


"اپنی جو پہچان تھا بھول جاؤ اب سے تم وہ نہیں جو پہلے تھا اب تم ویرہ بنے گا ویرہ۔۔۔۔"


ویرہ نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اسکا دل کر رہا تھا خود کو فنا کر دے۔ان ہاتھوں کو توڑ دے جو معصوم لوگوں کی موت کا باعث بنے تھے اس وجود کو ختم کر دے جو عبداللہ سے ویرہ بنا تھا۔


"کرتے ہوں گے آپ سب سے نفرت لیکن مجھ سے نہیں۔۔۔آپ مجھ سے نفرت نہیں کرتا باچا محبت کرتا ہے آپ مجھے سے۔۔۔۔"


مرجان کی آواز اسکے کانوں میں گونجی تو ویرہ کی بس ہوئی وہ اپنے بال ہاتھوں میں دبوچ کر سسک سسک کر رونے لگا۔


"مم۔۔۔میں پھر بھی آپ سے محبت کروں گی۔۔۔۔ہمیشہ کروں گی۔۔۔۔پھر دیکھنا آپ کی نفرت ہار جائے گی میری محبت کے آگے"


اسے یاد کر کے ویرہ کا دل تڑپ اٹھا تھا۔سب سے زیادہ ظلم تو اس نے اسی پر کیا تھا جو اس سے محبت کرتی تھی۔کیا زندگی تھی اسکی اپنی آخری سانس تک ایک دہشتگرد کی بیوی مانا جانا اس سے جڑ کر رہنا۔


نہیں۔۔۔نہیں تھا ویرہ اس محبت کے قابل نہیں تھا وہ اس رشتے کے قابل۔وہ کیوں مرجان کو خود سے جوڑ کر رکھتا نہیں تھا وہ اسکے قابل۔


اچانک ہی چرچراہٹ کی آواز پر ویرہ نے دروازے کی جانب دیکھا جسے کھول کر ایک ہیولا سا کال کوٹھری میں داخل ہوا تھا۔پھر وہاں کا بلب چلا اور روشنی ہو گئی۔اس روشنی پر ویرہ نے اپنی آنکھوں کو زور سے میچ لیا۔


"کیسے ہو ویرہ۔۔۔۔؟"


جنرل شہیر کی آواز پر ویرہ نے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔


"ابھی بھی بات نہیں کرو گے۔۔۔۔؟"


جنرل شہیر نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔پہلے تو ویرہ خاموش رہا پھر کال کوٹھری میں اسکی آواز گونجی۔


"کروں گا بات۔۔۔۔"


ویرہ کی بات پر جنرل شہیر کے چہرے پر ایک مسکان آئی۔شکر تھا مہینے میں پہلی بار اس نے زبان پر لگا تالا تو کھولا تھا۔


"لیکن آپ سے نہیں راگا سے۔۔۔"


ویرہ کی اگلی بات پر جنرل شہیر کے ماتھے پر بل آئے تھے۔


"راگا؟"


ویرہ نے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔


"یہ زبان اب صرف اسی کے سامنے کھلے گی تو اسے یہاں بلائیں ورنہ جتنی طاقت ہے لگا کر دیکھ لیں،جتنی اذیت دے سکتے ہیں دے لیں لیکن مجھ میں چھپے رازوں تک نہیں پہنچ پائیں گے۔۔۔۔"


جنرل شہیر نے ویرہ کی آنکھوں میں ایک عزم دیکھا تھا۔وہ سچ کہہ رہا تھا وہ کچھ بھی کر لیتے ویرہ کو جواب دینے پر مجبور نہیں کر سکتے تھے۔وہ ڈر کر جواب دینے والوں میں سے نہیں تھا۔


جنرل شہیر اٹھے اور خاموشی سے اس کال کوٹھری سے باہر نکل گئے۔ایک بار پھر سے لائٹ بند ہو گئی اور وہ اندھیرا اور ماضی کی یادیں پھر سے ویرہ کا مقدر بن گئیں۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

عماد ویرہ کی خواہش کے مطابق اس سے ملنے آیا تھا اور ایسا اس نے کیسے ممکن کیا تھا یہ وہی جانتا تھا۔کیونکہ عماد سیکرٹ ایجنٹ تھا اور اسکے بارے میں کوئی نہیں جان سکتا تھا لیکن عماد نے بھی اپنے بابا جنرل شہیر کے جنرل ہونے کا فایدہ اٹھایا تھا اور انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ ویرہ سے اپنی سچائی چھپائے گا۔


عماد کال کوٹھری میں داخل ہوا جہاں کافی اندھیرا تھا بس دروازے پر لگی چھوٹی سی کھڑکی میں سے روشنی پھوٹ رہی تھی لیکن اس روشنی میں عماد کا چہرہ نظر آنا ناممکن تھا۔


"کہو ویرہ کیا کہنا تھا تمہیں مجھ سے۔۔۔"


عماد نے راگا کی آواز میں کہا تو ویرہ زنجیروں میں جکڑے ویرہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا لیکن اسے عماد کے ہیولے کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔


"مرجان کیسی ہے؟"


مرجان کا نام زبان پر لاتے ہوئے ویرہ کی آواز میں بہت کرب تھا۔


"ٹھیک ہے دوست، اسکی فکر مت کرو وہ اور اسکے گھر والے با حفاظت میرے پاس ہیں اور میری آخری سانس تک وہ حفظ و امان سے میرے پاس ہی رہیں گے ۔"


عماد نے نرمی سے کہا تو ویرہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔شائید راگا جب فوج سے چھوٹ کر آیا تھا تب سے ہی فوج سے ہاتھ ملا چکا تھا لیکن ویرہ کو اندازہ ہی نہیں ہوا۔


"تم سے ایک کام تھا فوجی۔۔۔۔"


ویرہ نے فوجی لفظ پر زور دیا کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ راگا فوج سے ہاتھ ملا کر خود بھی اس میں شامل ہو چکا تھا۔


"ہاں کہو ویرہ۔۔۔"


ویرہ نے سرد آہ بھری اور نم آنکھوں سے اسکے ہیولے کو دیکھنا چاہا۔


"میں جانتا ہوں کہ اب میرا مقدر ساری زندگی اس کوٹھری میں رہنا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ یہ زندگی مرجان میرے نام سے جڑ کر برباد کرے اس لیے تم مجھے طلاق کے کاغذات بنوا دو تا کہ میں اسے آزاد کر سکوں ۔۔"


طلاق کا لفظ زبان پر لاتے ہوئے ویرہ کو لگا تھا کہ کسی نے اسکا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔


"معاف کرنا دوست لیکن بہت دیر ہو گئی اب ایسا نہیں ہو سکتا چاہ کر بھی تم مرجان کو طلاق نہیں دے سکتے۔۔۔"


ویرہ نے حیرت سے عماد کو دیکھا۔


"کیوں۔۔۔؟"


""کیونکہ مرجان تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے ویرہ ۔۔۔۔تم بہت جلد باپ بننے والے ہو۔۔۔۔"


ویرہ نے حیرت سے عماد کو دیکھا۔کیا راگا سچ کہہ رہا تھا مرجان۔۔۔۔ویرہ کو رات یاد آئی جب وہ راگا کے ساتھ واپس آیا تھا۔اتنے دن مرجان سے دور رہنے کے بعد اپنی تڑپ اور بے چینیوں میں ویرہ ہر حد پار کر گیا تھا۔


اب سب یاد کر کے ویرہ کا دل کر رہا تھا اپنی جان لے لے۔کاش کاش وہ ایسا نہ کرتا۔ مرجان کے ساتھ ساتھ وہ اس نھنی جان کی زندگی بھی تباہ کر چکا تھا جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھی اور اگر اسکی بیٹی پیدا ہوتی تو۔۔۔۔کیا ہوتا اس کا مستقبل وہ تو ساری زندگی ایک دہشتگرد کی اولاد کہلاتی۔


یہ سب سوچ کر ویرہ نے اپنے بال اپنی مٹھیوں میں بھینچے اور چیخ چیخ کر رونے لگا جبکہ عماد بس اسے رحم کی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


"جانتا ہوں ویرہ کہ جو تمہارے ساتھ ہوا وہ بہت بڑا ظلم تھا لیکن خود پر ہوا ظلم ہمیں ظالم بننا تو نہیں سیکھاتا ویرہ۔۔۔اگر ظلم کرنا ہی ہے تو ان پر کرو جو اس قابل ہیں۔۔۔"


عماد کی آواز میں اسکے لیے بہت دکھ تھا۔


"جانتے ہو کال کون تھا ویرہ ؟اسکا اصلی نام کمار شنکر ہے اور نام سے اندازہ لگا لیا ہو گا تم نے کہ اسکا تعلق کہاں سے ہے اور راگا ارف راگھوو کرشن بھی۔۔۔۔اپنے غصے میں تم اپنے ملک کے خلاف ہی کن کا ساتھ دیتے رہے ویرہ۔۔"


عماد کی بات پر ویرہ کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔اسے خاموش دیکھ کر عماد وہاں سے جانے لگا جب اسکے کانوں میں ویرہ کی آواز پڑی۔


"مرجان کا بہت خیال رکھنا۔۔۔۔تمہیں اللہ کا واسطہ۔۔۔"


عماد اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا اور ویرہ اپنے احساس گناہ میں دبتا چلا گیا۔ہاں اسکی یہی سزا تھی کہ وہ اپنے بچے اور بیوی کے بغیر تڑپ تڑپ کر اس زندگی کو کاٹے کیونکہ وہ بھی تو نہ جانے کتنوں کے گھر اجاڑنے کا باعث بنا تھا۔


ہاں یہ سب ویرہ کے گناہوں کی سزا تھی جو اسے تو کاٹنی ہی تھی لیکن مرجان اور اسکی اولاد کو سزا صرف اس سے منسلک ہونے کی وجہ سے کاٹنی تھی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان گم سم سی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔وہ عماد سے کیا وعدہ نبھا رہی تھی۔اب وہ روتی نہیں تھی بس اپنے بچے کی خاطر نہ چاہتے ہوئے بھی جی رہی تھی۔مرجان کا ہاتھ بے ساختہ اپنے پیٹ پر گیا جہاں انکی محبت کی نشانی پل رہی تھی۔


کیسے جیتا اس دنیا میں وہ معصوم اپنے باپ کی محبت کے بغیر۔کیا یہ دنیا اسے جینے دیتی؟اسے ہر پل یہ احساس دلاتی کہ وہ ایک دہشت گرد کی اولاد ہے۔


یہ سب سوچ کر کتنے ہی آنسو مرجان کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔تبھی اسکے کمرے کا دروازا کھٹکا تو وہ آنسو پونچھ کر سیدھی ہوئی اور دوپٹہ سر پر لیا۔


عماد مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا تو مرجان اسے دیکھ کر ہلکے سے مسکرا دی۔


"چلو آنکھیں بند کرو تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔"


"سس۔۔سرپرائز؟


مرجان نے ناسمجھی سے پوچھا۔


"چھوڑو تم سب آنکھیں بند کرو۔۔۔"


مرجان اسکے منہ بنا کر کہنے پر مسکرائی اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔


"اب اپنی آنکھیں کھولو ۔۔"


مرجان نے آنکھیں کھولیں تو اسے لگا کہ یہ اسکی آنکھوں کا دھوکا ہو اسکے سامنے ہی وانیا مسکراتے ہوئے کھڑی تھی۔


"وانی۔۔۔۔"


مرجان کے پکارنے پر وانیا اسکے پاس آئی اور اسکے گلے سے لگ گئی۔اپنی پیاری دوست کا سہارا ملتے ہی مرجان کی آنکھیں پھر سے نم ہوئی تھیں۔


"لو اس لیے نہیں لایا تمہاری بھابھی کو یہاں کہ اسے رو کر دیکھاؤ۔اب رونا نہیں خوشی خوشی اس سے باتیں کرو میں اماں کے ساتھ مل کر کچھ اچھا سا بنا کر لاتا ہوں دونوں کے لیے۔"


عماد اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور مرجان نے نم آنکھوں سے مسکرا کر وانیا کو دیکھا۔


"کیسی ہو تم وانیا؟"


مرجان کے سوال پر وانیا مسکرائی۔


"اب تمہیں دیکھ لیا ناں اب بالکل ٹھیک ہوں لیکن تم ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔"


ایک افسردہ سی مسکان مرجان کے ہونٹوں پر آئی تھی۔


"ان کے بغیر میں کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے وانی۔۔۔؟"


وانیا نے نم آنکھوں سے مرجان کو دیکھا۔


"عماد نے مجھے بتایا ویرہ بھائی کے بارے میں۔۔۔"


وانیا نے مرجان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔


"فکر مت کرو مرجان سب ٹھیک ہو جائے گا۔"


مرجان نے اپنا سر انکار میں ہلایا۔


"کچھ ٹھیک نہیں ہو گا ایسا لگتا ہے سب ختم ہو گیا۔۔۔"


اتنا کہہ کر مرجان پھر سے رونے لگی اور وانیا نے بے بسی سے اسے دیکھا۔پھر کچھ سوچ کر اسکا چہرہ ہاتھ میں تھاما اور اسکے آنسو پونچھ دیے۔


"کبھی بھی سب ختم نہیں ہوتا مرجان۔۔۔"


وانیا ہلکا سا مسکرائی۔


"پتہ ہے میں اپنے سائے سے بھی ڈرنے والی لڑکی تھی جو سب سے بچنے کا سہارا اپنی جڑواں بہن کو سمجھتی تھی۔پھر ایک دن میری یونیورسٹی پر حملہ ہوا اور دہشتگرد مجھے میری بہن،میرے ماں باپ سے دور لے گئے۔سب اپنوں سے دور تنہا کر دیا مجھے۔اس دن مجھے لگا کہ سب ختم ہو گیا۔۔۔"


وانیا کی بات پر مرجان خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔


"لیکن پھر دہشتگردوں کے ہی سردار راگا نے میری حفاظت کی مجھے اپنے ساتھی سے بچانے کے لیے اپنے نکاح میں لیا۔ہر حق ہوتے ہوئے بھی مجھ سے کوئی زبردستی نہیں کی اور مجھے تحفظ میں رکھا اور ان سب باتوں کی وجہ سے میرا دل اسکی جانب مائل ہو گیا۔پتہ ہے مرجان جس دن میں نے اپنے دل کے احساسات راگا کے لیے محسوس کیے اس دن مجھے لگا سب ختم ہو گیا۔"


مرجان بس بت بنی وانیا کی باتیں سن رہی تھی جو ایسا لگ رہا تھا کہ کہیں کھوئی کھوئی سی یہ بات کہہ رہی ہو۔


"پھر ایک دن میں نے راگا کو ایک فوجی پر بندوق تانے دیکھا میں نے انہیں روکا کہ وہ اسے نہ ماریں لیکن وہ نہیں رکے تو میں نے۔۔۔۔میں نے ان کو گولی مار دی۔۔۔"


مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔


"اسکے دل پر گولی ماری مرجان جس کے لیے میرا دل تڑپتا تھا اور اس دن ان کا بے جان وجود دیکھ کر مجھے لگا کہ سب ختم ہو گیا۔۔"


مرجان نے اپنا ہاتھ وانیا کے ہاتھ پر رکھا۔


"پھر ایک دن میرے بابا نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میرا نکاح اپنے جنرل کے بیٹے سے طے ہر دیا ہے میں یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی مرجان۔۔۔مجھے لگا کہ میں راگا کے سوا کسی کی ہو نہیں پاؤں گی لیکن پھر بھی اپنے بابا کے مان کی خاطر انکی بات مان گئی اور جب میں نے اپنے بابا کی رضا کے لیے وہ نکاح قبول کیا تو مجھے لگا سب ختم ہو گیا۔

۔"


وانیا نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور مسکرائی۔


"لیکن پھر میں نے اپنے شوہر کو دیکھا۔عماد کو دیکھا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ تو وہی ہیں۔وہ ہی میرے راگا تھے مرجان جنہوں نے مجھے تحفظ دیا تھا میرا خیال رکھا تھا۔"


وانیا نے مرجان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑے۔


"انہوں نے مجھے بتایا کہ راگا کی جگہ وہ راگا کا روپ لے کر وہاں گئے تھے اور اصلی راگا کو تو انہوں نے کبھی آزاد ہی نہیں کیا تھا۔۔۔۔"


مرجان کے ماتھے پر بل آئے۔


"تو وہ کون تھا جسے تم نے مارا؟"


مرجان کے سوال پر وانیا نے سرد آہ بھری۔


"وہ اصلی راگا تھا جو جیل سے بھاگ آیا تھا اور یہاں واپس آ کر سب کو عماد کی سچائی بتانا چاہتا تھا لیکن تب مجھے یہ بات نہیں پتہ تھی۔"


مرجان نے اثبات میں سر ہلایا۔


"لیکن دیکھو مرجان خدا نے مجھے ہر امتحان سے نکالا مجھے ایسے آدمی کی محبت دی جسے میں نے چاہا تھا دیکھنا اللہ تعالیٰ تمہیں بھی تمہاری چاہت اور خوشیاں ضرور دیں گے ان شاءاللہ۔"


وانیا نے مسکرا کر کہا تو مرجان کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ آئی۔


"لیکن کیسے وانیا میرا شوہر کوئی دہشتگرد کے بھیس میں چھپا فوجی نہیں تھا وہ سچ میں دہشتگرد تھا اور قانون انہیں سزا دیتا ہے وانیا معاف نہیں کرتا۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا تو وانیا مسکرا دی۔


"جب ہمارا رب کچھ کرنا چاہتا ہے ناں مرجان تو اسکے سامنے کیوں،کیونکر اہمیت نہیں رکھتا۔وہ بس کن کہتا ہے اور سب ہو جاتا ہے تم بس دعا کرو۔۔۔۔"


وانیا نے اسکا چہرہ ہاتھ میں پکڑ کر کہا تو مرجان نے آنسو پونچھ کر ہاں میں سر ہلایا۔


"بتا دیا سب کچھ اپنی دوست کو مل گیا دل کو چین؟"


عماد ٹرے لے کمرے میں داخل ہوا تو وانیا اسکی بات پر ہنس دی۔


"سب بتایا ہے تو یہ بھی بتاتی کہ تم اس قدر بیوقوف تھی کہ یہ تک نوٹس نہیں کیا کہ جس راگا سے تمہارا نکاح ہوا تھا اسکا نام عماد بنگش ولد شہریار بنگش تھا اور جس فوجی کے بیٹے سے تمہارا نکاح ہوا اسکا نام بھی عماد بنگش ولد شہریار بنگش تھا۔۔۔سچ میں بے وقوف بیوی دے دی ہے اللہ نے۔۔۔"


مرجان اور وانیا دونوں ہی اسکی بات پر ہنس دیں اور انہیں ہنستا دیکھ عماد مسکرا دیا۔اس نے نرمی سے اپنا ہاتھ مرجان کے سر پر رکھا۔


"تم بس یونہی مسکراتی رہا کرو اسے میں اکثر ہی یہاں لاتا رہوں گا۔۔۔"


عماد نے وانیا کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا تو مرجان نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔اپنی دوست کو واپس پا کر کچھ دیر کے لیے ہی سہی وہ اپنا ہر غم بھول گئی تھی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗


چرچراہٹ کی آواز پر دروازہ کھلا اور جنرل شہیر اس کال کوٹھری میں داخل ہوئے۔ویرہ حسب معمول زنجیروں میں جکڑا ایک کونے میں بیٹھا تھا۔


"کیسے ہو ویرہ؟"


جنرل شہیر کی آواز پر ویرہ نے انکی جانب مردہ آنکھوں سے دیکھا۔


"تم نے کہا تھا کہ تم راگا سے بات کرو گے ہم نے تمہاری اس سے بات کروائی کیا تم اب بھی کچھ نہیں کہنا چاہتے۔۔۔۔"


جنرل شہیر کی بات پر ویرہ نے گہرا سانس لیا۔


"آزاد کشمیر کے پہاڑوں میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو دیکھنے میں تو عام سا قبیلہ ہے لیکن اس میں رہنے والا ہر آدمی ہماری طرح ہی ایک دہشتگرد ہے۔۔۔"


ویرہ کی بات پر جنرل شہیر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"مشہور سیاستدان عباس جاوید سیاست کی آڑ میں چھپ کر دہشتگردوں کو سپورٹ کرتا ہے اور ان سے اپنے کام کراتا ہے۔"


ویرہ کی ہر بات جنرل شہیر کو پہلے سے بھی زیادہ حیران کر رہی تھی۔


"اور یہی نہیں تم لوگوں میں چھپا ایک میجر۔۔۔میجر ابراہیم شیخ دہشتگردوں کا جاسوس ہے۔۔۔۔"


جنرل شہیر اب اپنا ماتھا پکڑ چکے تھے۔


"ایسے اور بہت سے راز ہیں جو میں جانتا ہوں۔ایسے راز جو تمہاری سوچ کے پاس سے بھی نہیں گزر سکتے۔"


ویرہ کی بات پر جنرل شہیر نے اسکی جانب دیکھا۔


"بتانا چاہو گے سب ہمیں؟"


جنرل شہیر کے سوال پر ویرہ کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ آئی تھی۔


"مفت میں؟"


"کیا چاہتے ہو تم؟"


جنرل شہیر نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تو ویرہ کرب سے اپنی آنکھیں موند گیا۔


"صرف ایک موقع۔۔۔۔"


جنرل شہیر نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔


"جس جس کو میں جانتا ہوں اسے پکڑوانے میں تم لگوں کا ساتھ دوں گا لیکن اسکے بعد مجھے آزادی چاہیے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ پھر سے دیوار کے ساتھ اپنا سر ٹکا کر آنکھیں موند گیا۔جنرل شہیر کچھ دیر اسے دیکھتے رہے پھر اٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔جو ویرہ مانگ رہا تھا وہ بہت مشکل تھا۔۔۔۔بہت زیادہ مشکل۔۔۔


ویرہ کی بتائی ہر بات سچ ثابت ہوئی تھی۔فوج نے جب اپنے جاسوس ویرہ کے بتائے لوگوں کے پیچھے لگائے تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ لوگ شرافت کی آڑ میں چھپے کیا کالے کارنامے انجام دے رہے تھے۔


جنرل شہیر کے کہنے پر باقی جرنیل کو بھی ویرہ پر یقین ہوا تھا لیکن اتنا نہیں کہ اسے آزاد کر دیتے۔ہو سکتا تھا وہ آزادی پانے کے لیے یہ جان بوجھ کر کر رہا ہو اور پھر آزادی ملتے ہی اسی دنیا میں لوٹ جاتا۔ویسے بھی فوج کے مطابق اسکے گناہ سزا کے قابل تھے معافی کے نہیں۔


پچھلے آٹھ مہینے سے ویرہ اسی کال کوٹھری میں قید تھا۔جو انفارمیشن اس نے جنرل شہیر کو دی تھی اسکے بعد اس نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔یہاں تک کہ سپاہیوں نے اسے مارا بھی تھا لیکن ہمیشہ کی طرح الفاظ تو دور اسکے ہونٹوں سے ایک آہ بھی نہیں نکلی تھی۔


ابھی بھی وہ اپنی جیل کے فرش پر پڑا تھا۔جسم اس پر مارے جانے والے ڈنڈوں کی تکلیف سے ٹوٹ رہا تھا۔دل دماغ سب کچھ اس وقت اذیت میں تھے۔ویرہ نے اپنی آنکھیں موندیں تو ایک ہنستا مسکراتا چہرہ اسکی نظروں کے سامنے آیا۔


میں اس دل میں اتر چکا ہے اب اگر آپ کو اپنے دل سے ہی جھوٹ بولنا ہے تو بول کے خوش ہوتے رہو لیکن سچ یہی ہے یہاں صرف پر میں بس چکا ہے اور آپ چاہ کر بھی مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتا۔


مرجان کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی اور اسکا معصوم چہرہ یاد کر وہ اپنی ہر تکلیف بھلا گیا تھا۔ہر اذیت سے غافل ہو گیا تھا اگر کچھ یاد تھا تو صرف اسکی دلِ جاناں۔


"ہاؤ ڈئیر یو ہمت کیسے ہوئی اسے ہاتھ لگانے کی کس کے حکم پر تم لوگوں نے اسے جسمانی ریمانڈ دیا۔۔۔"


جنرل شہیر کی آواز پر ویرہ نے اپنی بند آنکھیں کھولیں جو اسکی جیل کے دروازے میں کھڑے اسکے جسم پر موجود زخم دیکھ کر یہ سوال کر رہے تھے۔


"سر وہ۔۔۔برگیڈیر فہد۔۔۔"


"یہاں آرڈر میرا چلے گا سمجھے اور آج کے بعد اسے کوئی میرے حکم کے بغیر ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔۔۔۔"


جنرل شہیر کے حکم پر سپاہی نے ہاں میں سر ہلایا تو جنرل شہیر ویرہ کے پاس آئے۔ویرہ اٹھ کر بیٹھ گیا آٹھ مہینوں سے قید میں رہ کر اسکا حلیہ مکمل طور پر بدل چکا تھا۔داڑھی اور بال کافی بڑھ چکے تھے اور جلد پر سیاہی نمودار ہونے لگی تھی۔


"تمہاری دی گئی ساری انفارمیشن درست نکلی ویرہ۔۔۔۔ہم لوگوں نے سب غداروں کو ثبوتوں کے ساتھ پکڑ لیا ہے اور یہ سب صرف تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔۔"


جنرل شہیر کی بات پر ویرہ کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔


"اور اس سب کا انعام بھی مجھے مل چکا ہے۔"


ویرہ نے اپنے گال پر موجود کٹ کو سہلاتے ہوئے کہا تو جنرل شہیر کو افسوس ہوا لیکن انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔


"راگا تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔امید ہے اسکی بات سننے کے بعد تم ہمارے اور کام آ سکو گے۔۔۔"


جنرل شہیر اتنا کہہ کر جانے کے لیے مڑے۔وہ لائٹ جو جنرل شہیر کے آتے ہی جلائی گئی تھی اب بجھ چکی تھی اور کمرہ ایک بار پھر سے اندھیرے میں ڈوب گیا۔


ویرہ نے آنکھیں موند کر اپنا سر دیوار سے ٹکا دیا۔


"ویرہ۔۔۔"


راگا کی آواز پر ویرہ نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں لیکن راگا ہمیشہ کی طرح اندھیرے میں ہی کھڑا تھا بس ویرہ کے پیچھے دیوار پر موجود چھوٹی سی کھڑکی میں سے ہلکی سی روشنی پھوٹ رہی تھی جو راگا کی چوڑی چھاتی پر پڑ رہی تھی۔


"اب تم مجھ سے کیا پوچھنے آئے ہو مجھے جو بتانا تھا بتا چکا ہوں۔۔۔"


ویرہ نے بے رخی سے کہا۔


"جانتا ہوں اور میں تم سے کچھ پوچھنے نہیں آیا۔۔۔۔بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر بھروسہ رکھو میں سب ٹھیک کر دوں گا۔۔۔۔"


"بھروسہ۔۔۔۔"


ویرہ قہقہ لگا کر ہنسا۔


"تم کرتے ہو مجھ پر بھروسہ؟؟"


ویرہ کے سوال پر راگا خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔


"ہماری آخری ملاقات میں تم نے مجھے بتایا تھا کہ راگا کا اصلی نام راگھوو تھا یعنی تم راگا نہیں ہو سکتے پھر کون ہو تم؟"


ویرہ نے سیدھے ہوتے ہوئے پوچھا جبکہ دوسری جانب خاموشی قائم رہی تھی۔


"فوجی۔۔۔۔تم ایک فوجی تھے جو راگا بن کر ہمارے درمیان رہ رہے تھے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا۔۔۔اصلی راگا جیل میں سڑتا رہا اور ہم تمہیں ہی اصلی راگا سمجھتے رہے یا تو تم بہت زیادہ چالاک تھے یا ہم بہت زیادہ بے وقوف۔"


ویرہ نے اپنی مٹھیاں کس کے کہا۔


"تمہیں کیا لگتا ہے؟"


اب اس آدمی کی آواز بدل چکی تھی۔وہ راگا کی آواز نہیں تھی بلکہ اس سے بلکل مختلف گھمبیر سی سنجیدہ آواز تھی۔


"مجھے لگتا ہے ہم ہی بے وقوت تھے اور ابھی بھی میں بے وقوف ہی ہوں جو یہ امید لگائے بیٹھا ہوں کہ اسے ایک بار دیکھنے کی آخری چاہ پوری ہو گی۔ہاں بیوقوف ہی ہوں جو ایسے شخص پر بھروسہ کرنے کی سوچ رہا تھا جسے مجھ پر بھروسہ ہی نہیں۔۔۔۔"


ویرہ نے کرب سے اپنی آنکھیں موند کر کہا۔


"فکر مت کرو فوجی مجھے اپنا انجام پتہ ہے کوئی امید نہیں لگا بیٹھا میں۔جانتا ہوں میری سزا کیا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میں اسی قابل ہوں میرے جیسا ہر درندہ اسی قابل ہے۔۔۔۔"


ویرہ کی آواز میں اپنے لیے بہت زیادہ نفرت چھپی ہوئی تھی۔وہ شخص اپنے کیے ہر گناہ پر پچھتا رہا تھا۔


"جب بھی مجھے پھانسی کے تختے پر لے جانا ہو بتا دینا میں بخوشی چل دوں گا بس۔۔۔۔"


ویرہ ایک پل کو رکا دو آنسو اسکی پلکوں پر ٹھہرے تھے۔


"بس ایک بار مجھے اسے دیکھا دینا بس دور سے ہی پھر شائید سکون ہے مر جاؤں۔۔۔"


ویرہ اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا اور اندھیرے میں کھڑا وہ ہیولا بہت دیر وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا تھا۔


'تم غلط ہو ویرہ۔۔۔"


اس بات پر ویرہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا لیکن اسکے ہیولے کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔اچانک ہی وہ آدمی اسکے پاس آیا اور زرا سا جھکا۔


سلاخوں سے آنے والی روشنی اسکے چہرے پر گری تھی اور ویرہ اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔اسکی بس آنکھیں راگا سے ملتی تھیں باقی چہرہ اس سے الگ تھا لیکن اسکے باوجود وہ خود کو راگا بنا گیا تھا۔


"مجھے تم پر بھروسہ ہے دوست۔میجر عماد بنگش کو تم پر پورا بھروسہ ہے اور میں تمہیں اتنی آسانی سے مرنے نہیں دوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں اس راہ پر تم چلے نہیں تھے تمہیں چلایا گیا تھا اور اب سیدھی راہ پر تمہیں میں چلاوں گا عبداللہ سجاد میر۔۔۔"


اتنا کہہ عماد اس سے دور ہوا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ ویرہ حیرت سے وہیں بیٹھا اسکی باتوں پر غور کرتا رہا۔عماد نے ابھی بہت بڑا اصول توڑا تھا اسے اپنی پہچان کسی کو بتانے کی اجازت نہیں تھی یہ بات ویرہ بھی جانتا تھا لیکن پھر بھی وہ یہ اصول توڑ گیا تھا تو کیا اسکا یہی مطلب تھا۔


میجر عماد بنگش کو ویرہ پر بھروسہ تھا لیکن شائید وہ نہیں جانتا تھا کہ ویرہ کو ہی اب خود پر بھروسہ نہیں تھا۔آزادی یا سزا دونوں ہی اس پچھتاوے اور احساس گناہ کو نہیں مٹا سکتی تھیں جو اسکو اندر ہی اندر سے نگل رہا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

"سر آپ لوگ سمجھنے کی کوشش کریں۔اسے قید میں رکھنا یا سزا دینے سے ہمیں کوئی فایدہ نہیں ہو گا بلکہ ہمیں اسکی سکلز سے فائیدہ اٹھانا چاہیے۔۔۔۔"


عماد نے اپنے سامنے بیٹھے جنریل سے کہا۔کافی جدوجہد ہے بعد اس نے اپنے بابا جنرل شہیر کو اس میٹنگ کے لیے آمادہ کیا تھا۔


"میجر عماد آپ جانتے ہیں ناں آپ کیا کہہ رہے ہیں وہ دہشتگرد جس نے ہمارے ملک و قوم کو نقصان پہنچایا ہماری عوام کی موت کا سبب بنا آپ اسے نہ صرف آزاد کرنے بلکہ فوج میں شامل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔"


ایک جنرل نے زرا سختی سے کہا تو عماد سرد آہ بھر کر رہ گیا۔


"یہ بات میں نے راگا کی باری تو نہیں کہی تھی سر بلکہ اسے قید میں رکھ کر خود اسکی جگہ گیا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ راگا کسی قسم کر رحم کے قابل نہیں لیکن ویرہ۔۔۔۔وہ اس سے مختلف ہے۔۔۔۔"


"کیسے؟"


ایک جنرل نے سنجیدگی سے پوچھا تو عماد نے انکی جانب دیکھا۔


"وہ سجاد میر کا بیٹا ہے سر اور آپ بھی جانتے ہیں انکی فیملی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔۔۔ایسے میں وہ ان لوگوں کے ہاتھ لگ گیا جنہوں نے اس کے ساتھ ہوئے ظلم کو استعمال کر کے اس کے دل میں نفرت پیدا کی۔ایسی سچوئیشن میں اسکی جگہ اگر میں یا آپ لوگ بھی ہوتے تو ہم بھی آج ویرہ کی جگہ پر ہوتے۔۔۔"


عماد کی بات پر سب جنرل نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔


"لیکن اب اسے احساس ہو چکا ہے کہ وہ غلط تھا وہ جانتا ہے جس راہ پر وہ چلا وہ صحیح نہیں تھی اور کیا جب ایک بھٹکا ہوا راہ راست پر آ جائے تو اسے معافی کی جگہ سزا دی جاتی ہے؟"


عماد نے سب کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"سر ہمارا دین بھی ہمیں معاف کرنا اور موقع دینا سیکھاتا ہے۔۔۔"


عماد نے اپنے دلائل پیش کیے تو ایک جنرل نے گہرا سانس لیا اور کرسی پر آگے ہو کر بیٹھے۔


"دیکھیں میجر آپ کو کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا ہم اتنا بڑا فیصلہ صرف جزبات کی بناہ پر نہیں لے سکتے۔اسے خود کو ثابت کرنا ہو گا پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔۔۔۔"


انکی بات سمجھ کر عماد نے اثبات میں سر ہلایا اور انہیں سیلیوٹ پیش کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔باہر ہی امان کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا۔


"کیا بنا سر؟"


امان کے پوچھنے پر عماد نے انکار میں سر ہلایا۔


"اتنا آسان نہیں ہے سر جو آپ کہہ رہے ہیں وہ چھوٹی بات نہیں۔فوجی عدالت کے مطابق بھی ویرہ کو عمر بھر کی قید کی سزا سنائی جا چکی ہے وہ بھی تب تک جب تک اس سے ساری معلومات مل نہ جائے اسکے بعد فوجی عدالت کا کیا فیصلہ ہو گا آپ اس سے واقف ہیں۔۔۔۔"


امان کی بات پر عماد نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا ماتھا ہاتھ میں تھام کر سہلانے لگا۔


"کیپٹن امان۔۔۔"


"یس سر؟"


"تمہیں میں کیسا فوجی لگتا ہوں؟"


عماد کے سوال پر پہلے تو امان حیران ہوا پھر مسکرا دیا۔عماد باہر کی جانب جانے لگا تو امان بھی اسکے پیچھے پیچھے چل دیا۔


"سچ کہوں تو پہلے آپ کے بارے میں کچھ جانتا نہیں تھا پھر مجھے پتہ چلا کہ ہمیں ایک سر پھرے ایجنٹ کو بچانے کے مشن پر جانا ہے جو خود مشہور دہشتگرد بن کر انکی نگری میں گیا ہوا تھا اور اب اصلی دہشتگرد جیل سے بھاگ چکا تھا تو ہمیں آپ کو ریسکیو کرنا تھا اس سے پہلے کہ وہ وہاں پہنچ پاتا۔"


امان کی بات پر عماد مسکرا دیا۔


"پھر جب آپ کو اصلی راگا کی لاش اپنے کندھے پر ڈال کر لاتے دیکھا تو بس آپ کا فین ہو گیا سوچا کہ آپ کے جیسا بہادر بننا ہے۔۔۔"


امان نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا تو عماد ہنس دیا۔


"اسے میں نے نہیں میری بہادر بیوی نے مارا تھا۔۔۔"


یہ بات کہتے ہوئے عماد کی آنکھوں میں ایک چمک آئی تھی پھر وہ خود کو سنسان جگہ پر پا کر امان کی جانب مڑا۔


"مجھ پر بھروسہ کرتے ہو ؟"


"آف کورس آر پوچھنے کی بات ہے۔۔"


امان نے پورے یقین سے جواب دیا۔


"پھر ایک مشن میں میرا ساتھ دو گے؟"


امان نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔


"لیکن یہ جان لو کیپٹن وہ مشن نہیں بلکہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہے اگر پکڑے گئے تو ہو سکتا ہے کہ نوکری تو جائے ہی جائے ساتھ ہی غداری کا الزام لے کر ہم بھی جیل میں جائیں۔۔۔"


عماد نے اتنا ڈراؤنا نقشہ کھینچا کہ امان اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔


"سوچ لو دو گے میرا ساتھ؟"


عماد کے پوچھنے پر امان نے کچھ دیر سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔


"جب میں نے کہا تھا کہ آپ پر بھروسہ ہے تو ہے۔۔۔۔میں آپ کے ساتھ ہوں سر۔۔۔"


عماد امان کی بات پر مسکرایا اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔


"اچھے آفسر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی ہو تم امان۔۔۔"


امان اپنی تعریف پر چھاتی چوڑی کر کے مسکرایا۔


"شادی شدہ ہو؟"


"نو سر۔۔۔"


امان نے فوراً جواب دیا تو عماد ہنس دیا۔


"کیوں؟"


عماد نے حیرت سے پوچھا۔دیکھنے میں امان چوبیس سے پچیس سال کا انتہائی خوبرو جوان تھا۔


"بس سر ایک نیلی آنکھوں والی گڑیا پسند آ گئی ہے اب اسکے علاوہ کوئی لڑکی آنکھ کو بھا ہی نہیں رہی۔۔"


امان کا جواب عماد کو ہنسنے پر مجبور کر گیا۔


"تو اسی گڑیا سے کر لو شادی۔۔۔"


امان کے ہونٹوں کو شرمیلی سی مسکراہٹ نے چھوا۔


"ابھی بہت زیادہ چھوٹی ہے وہ سر بس انتظار کر رہا ہوں تھوڑی سی بڑی ہو جائے تو اسکے بھائی سے مانگ لوں اسے۔۔۔"


امان نے عماد کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تو اسکی بات کا مطلب سمجھ کر عماد کا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔


"اس بھائی کو تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا البتہ اسکا ایک اور کافی خطرناک سا بھائی ہے جو تب تک جیل سے بھی باہر آ جائے گا اسکے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔۔"


عماد نے کندھے اچکا کر شرارت سے کہا۔


"ایک بھائی شیشے میں اتار لیا ہے دوسرا بھی اتار لوں گا۔۔۔"


امان نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو عماد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔اس نے جب مرجان اور اسکے گھر والوں کی زمہ داری اٹھائی تھی تو وہ کافی ڈرا ہوا تھا کہ نہ جانے انکا خیال رکھ بھی پائے گا یا نہیں لیکن آج اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکا آدھا بوجھ اتر گیا ہو۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا شائید آدھی رات ہو رہی تھی۔ویرہ اپنی کال کوٹھری میں موجود بستر پر لیٹا تھا۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ویسے بھی وہ بہت کم ہی سو پاتا تھا۔


اچانک ہی اپنی کوٹھری کے باہر ہونے والے ہلکے سے شور پر ویرہ حیرت سے اٹھ بیٹھا پھر اسکی کوٹھری کا دروازا کھلا اور ایک ہیولا کوٹھری میں داخل ہوا۔


"کون ہو تم؟"


ویرہ نے حیرت سے پوچھا لیکن وہ ہیولا خاموشی سے اسکے پیروں اور گلے سے زنجیر ہٹانے لگا لیکن اسکے ہاتھوں کی زنجیر نہیں ہٹا پایا جو کہ ایک چابی سے کھلنی تھی۔


"چلو ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔۔۔"


ویرہ فوراً ہی عماد کی آواز پہچان گیا۔


"پاگل ہو گئے ہو تم عماد بنگش میرے لیے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لے رہے ہو؟"


ویرہ نے حیرت سے پوچھا۔


"سب پتہ لگ جائے گا بس تم میرے ساتھ چلو۔۔۔"


عماد نے اسکے زنجیر میں بندھے ہاتھ پکڑے اور اسے کوٹھری سے باہر لے آیا جہاں ایک فوجی بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔


"سب سیٹ ہے امان؟"


عماد کے سوال پر اس فوجی نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔


"یس سر۔۔۔"


"کیمرے ؟"


عماد نے دوسرا سوال پوچھا۔


"بند کر چکا ہوں سر۔۔۔"


عماد نے ہاں میں سر ہلایا اور ویرہ کو لے کر وہاں سے جانے لگا۔امان یہاں وہاں دیکھتا اسکے پیچھے چل دیا۔جو پہرے دار وہاں موجود تھے امان انہیں نیند کی دوائی کھانے میں ملا کر دے چکا تھا اور اب وہ گہری نیند سو رہے تھے۔


عماد نے ویرہ کو لا کر گاڑی میں بیٹھانا چاہا لیکن ویرہ نے اپنا سر انکار میں ہلا دیا۔


"نہیں فوجی میں بھاگنے والوں میں سے نہیں۔۔۔"


ویرہ کی سنجیدگی سے کہی بات پر عماد مسکرا دیا۔


"فکر مت کرو ہمیشہ کے لیے نہیں بھگا رہا صبح واپس قید میں ڈال دوں گا لیکن ابھی میرے ساتھ چلو وعدہ کرتا ہوں دعائیں دو گے۔۔۔"


عماد کی بات پر ویرہ کے ماتھے پر بل آئے لیکن وہ چپ چاپ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔امان نے پیسنجر سیٹ سنبھالی اور عماد گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔


"جھک کر سیٹ کے پیچھے چھپ جاؤ۔۔۔"


عماد نے جیل کے دروازے پر کھڑے سپاہیوں کو دیکھتے ہوئے کہا تو ویرہ فوراً سیٹ کے پیچھے چھپ گیا۔


"کیپٹن آپ اس وقت یہاں؟"


ایک سپاہی نے امان کے چہرے پر لائٹ مار کر پوچھا۔


"ہاں بس مجھے فارغ ہوتے زرا دیر ہو گئی تھی۔"


امان کی بات پر سپاہی نے اثبات میں سر ہلایا اور لائٹ عماد کے چہرے پر ماری۔


"یہ کون ہے سر؟"


"میں ڈرائیور سوری سر یونیفارم بھول گیا۔۔"


عماد نے معصوم سا منہ بنا کر کہا تو سپاہی نے اثبات میں سر ہلایا اور انہیں جانے کی اجازت دی۔امان نے شکر کا سانس لیا اور سیٹ کے پیچھے چھپے ویرہ کو دیکھا۔


"باہر آ جاؤ۔۔۔"


ویرہ خاموشی سے سیدھا ہو کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔


"تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو عماد۔۔۔

جواب دو۔۔۔۔"


ویرہ کے سختی سے پوچھنے پر عماد مسکرا دیا۔


"چل یار لڑکی نہیں ہو تم جسکو کڈنیپ کر کے اسکا فایدہ اٹھا لوں گا۔۔۔"


عماد کے مزاق پر امان ہنس دیا۔تھوڑی دیر کے بعد ہی گاڑی ایک ہسپتال کے باہر رکی اور عماد امان کی جانب مڑا۔


"سیکیورٹی کیمراز سب ہینڈل کرو۔۔۔"


امان اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا اور ویرہ نے پریشانی سے عماد کو دیکھا۔


"کیا ہوا ہے کیوں لائے ہو تم مجھے یہاں؟"


ویرہ کے لہجے میں بے پناہ فکر تھی۔اسکا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔کیا سب ٹھیک تو تھا کیا وہ تو ٹھیک تھی؟


بہت سے وسوسے ویرہ کے دل میں آ رہے تھے لیکن عماد نے کوئی جواب نہیں دیا۔تھوڑی دیر کے بعد امان وہاں پر آیا۔


"سب سیٹ ہے سر۔۔۔"


عماد گاڑی سے نکلا اور اس نے ویرہ کو بھی گاڑی سے نکالا۔امان نے اپنی گھڑی کو دیکھا اور پھر وہاں کی لائٹ چلی گئی اور پورا ہسپتال اندھیرے میں ڈوب گیا۔


"سیدھا جا کر لیفٹ کاریڈور سے تیسرا کمرہ ہے سر۔۔۔۔لائٹ پانچ منٹ میں آ جائے گی۔"


عماد نے اثبات میں سر ہلایا اور ویرہ کو لے کر ہسپتال میں داخل ہو گیا۔اندازے سے اندھیرے میں چلتے وہ اس کمرے میں گیا جو امان نے بتایا تھا۔کمرے میں پہنچ کر عماد نے گھڑی کی جانب دیکھا اور پھر پورے دو منٹ کے بعد لائٹ دوبارہ آن ہو گئی۔


روشنی کے ہوتے ہی ویرہ کی پہلی نظر مرجان پر پڑی جو بے ہوش حالت میں ہسپتال کے بستر پر پڑی۔اسے یوں بے سدھ پڑا دیکھ کر ویرہ کے دل کی دھڑکن ایک پل کو رکی تھی۔اسکا خدشہ سہی تھا اسکی بیوی کو کچھ ہوا تھا۔


ویرہ پریشانی سے اسکے پاس جانے لگا لیکن تبھی وہ راستے میں پڑے ایک پنگھوڑے سے ٹکرایا۔ویرہ نے نظریں جھکا کر دیکھا تو اسے لگا کہ اسکے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔


اس پنگھوڑے میں ایک ننھا سا وجود سو رہا تھا۔وہ گلابی سا چھوٹا سا وجود ویرہ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اسے اپنی باہوں میں لے لے۔


اسے یونہی بت بن کر اس بچے کو تکتا ہوا دیکھ کر عماد نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"خدا نے تمہیں بیٹے سے نوازا ہے میرے دوست بہت بہت مبارک ہو تمہیں۔۔۔"


ویرہ نے حیرت سے پلٹ کر عماد کو دیکھا تو عماد نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔دو آنسو ویرہ کی پلکوں سے ہو کر گالوں پر بہے اور اس نے مڑ کر اس چھوٹی سی جان کو دیکھا جو اسکا بیٹا تھا۔


"میں باہر تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ہمارے پاس آدھا گھنٹا ہے اسکے بعد میں تمہیں لینے آؤں گا۔۔۔۔"


عماد کی بات پر ویرہ نے نظریں اٹھا کر مرجان کو دیکھا جو شائید کافی گہری نیند میں تھی۔


"معاف کرنا دوست کسی کو بھی تمہارے باہر ہونے کا پتہ نہیں چلنے دے سکتے تھے ورنہ بہت مسلہ ہو جاتا اس لیے اسے بے ہوش کرنا پڑا۔"


ویرہ نے سمجھ کر ہاں میں سر ہلایا تو عماد کمرے سے باہر نکل گیا۔ویرہ نے پھر سے اپنے بیٹے کی جانب دیکھا جو کمبل میں لپٹا گہری نیند سو رہا تھا۔


ویرہ کی آنکھوں سے کتنے ہی آنسو ٹوٹ کر اس بچے پر گرے تھے۔باپ ہونے کی خوشی کیا ہوتی ہے اسکا احساس ویرہ کو ہو رہا تھا۔


ویرہ نے جھک کر اسے اپنی باہوں میں لینا چاہا لیکن اپنے ہاتھوں پر لگی زنجیر دیکھ کر اسکے ہاتھ وہیں رک گئے۔


کاش ہر گناہ گار گناہ کرنے سے پہلے اپنوں کے بارے میں سوچ لیتا کاش وہ یہ سوچ لیتا کہ اسکے ہاتھوں کی بیڑیاں اسے اسکے ہر رشتے سے چھین لیں گیں۔اگر وہ ایسا سوچ لیتا تو گناہوں سے بچ جاتا اور اپنوں سے دور ہونے سے بھی۔


ویرہ نے خود پر قابو پاتے ہوئے اپنے بیٹے کو اٹھایا اور پھر اسے اپنے سینے لگا لیا۔اپنے خون کی کشش کو محسوس کر ویرہ کی بس ہوئی تھی۔وہ بچے کو سینے سے لگائے گھٹنوں کے بل بیٹھا اور سسک سسک کر رو دیا۔


کاش وہ ویرہ نہ ہوتا کاش وہ عبداللہ ہوتا تو آج اسکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہوتے۔کاش اسکے پیروں میں گناہوں کی بیڑیاں نہ ہوتیں کاش۔۔۔۔


ویرہ نے اپنے بچے کا چہرہ سینے سے نکالا اور اسے چٹا چٹ چوم ڈالا۔اسکی گھنی مونچھوں اور داڑھی کی چبھن شائید اس نازک سی جان کو پسند نہیں آئی تھی اسی لیے اس نے منہ بنایا اور رونے لگا۔


ویرہ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔اور اسکی پیٹھ تھپتھپا کر اسے دلاسہ دینے لگا۔کچھ ہی دیر میں وہ دوبارہ سو چکا تھا۔ویرہ کی نظر مرجان پر گئی تو اسے باہوں میں تھامے مرجان کے پاس آیا اور اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔


"دیکھو ناں تم نے مجھے اتنی بڑی خوشی دی اور میں ہی تمہارے ساتھ نہیں۔۔۔۔"


ویرہ نے مرجان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے محبت سے کہا۔


"اسی دن سے ڈرتا تھا میں دلِ جاناں نہیں جوڑنا چاہتا تھا کسی کو اپنے ساتھ۔"


ویرہ نے کرب سے کہتے ہوئے اپنا ماتھا مرجان کے ماتھے سے ٹکایا۔


"اب دیکھو خود کے ساتھ ساتھ تمہیں اور اسے دونوں کو برباد کر دیا۔۔۔۔"


ویرہ نے اپنے سینے کی جانب دیکھ کر کہا جہاں اسکا بیٹا گہری نیند میں ڈوبا ہوا تھا۔


"کوئی مجھ سے پوچھے دلِ جانان میں تمہارے اور اسکے ساتھ جینے کے لیے کیا نہیں کر سکتا۔۔۔۔ننگے پیر جلتے انگاروں پر چل جاؤں۔۔۔۔"


ویرہ نے کرب سے کہا۔بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر مرجان کے چہرے پر گرے۔


"لیکن اب میں کچھ نہیں کر سکتا میرے گناہ میرے پیروں کی زنجیر بنے بیٹھے ہیں۔۔۔"


ویرہ نے اپنی آنکھیں موند لیں۔


"اب میرے گناہوں کی سزا یہی ہے کہ زندگی تم دونوں کے لیے تڑپ تڑپ کر اس کال کوٹھری میں گزاروں اور آخرت۔۔۔۔"


آخرت کا سوچ کر ویرہ کے جسم کے ساتھ ساتھ اسکی روح تک کانپ گئی تھی۔


"اور آخرت میں تم دونوں کو جنت کی راہ پر چلتا دیکھ خود جہنم کی جانب مڑ جاؤں۔۔۔"


ویرہ کی آواز میں بہت تڑپ بہت زیادہ کرب تھا اسکی پکڑ اسکے بیٹے پر مظبوط ہوئی۔


"مجھے کوئی معاف نہیں کرے گا دلِ جاناں نہ یہ دنیا اور نہ ہی اللہ۔۔۔۔میرے گناہوں نے مجھے معافی کے قابل چھوڑا ہی نہیں۔۔۔"


ویرہ کے آنسو متواتر اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔


"تم دونوں کی دنیا میں میری کوئی جگہ نہیں نہ اس جہان میں نہ ہی اس جہان میں۔"


ویرہ نے اپنے ہونٹ مرجان کے ماتھے سے ٹکا دیے۔دل تھا کہ تڑپ تڑپ کر کہہ رہا تھا کہ وقت تھم جائے یہ پل کبھی ختم نہ ہوں،وہ اپنے سکون سے کبھی جدا نہ ہو لیکن وقت بھی کبھی کسی کے لیے رکا ہے کیا۔


عماد نے ہلکا سا دروازہ کھٹکٹایا اور اسکی آواز باہر سے ویرہ کو آئی۔


"بس پانچ منٹ اور عبداللہ۔۔۔"


عماد کی آواز پر اس نے گہرا سانس لیا اور اٹھ کر اپنے بیٹے کو واپس اسکے پنگھوڑے میں ڈالا۔ایک آخری نگاہ اپنے معصوم بچے کے چہرے پر ڈال کر ویرہ نے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


ایک بار پھر سے بیت سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے۔ویرہ اس سے دور ہو کر مرجان کے اس آیا اور ہاتھ بڑھا کر اسکے چہرے کو چھوا۔


"الوداع میری دلِ جاناں ہو سکے تو بھول جانا اپنے باچا کو اسکی یاد تمہیں تکلیف کے سوا کچھ نہیں دے گی۔"


اتنا کہہ کر ویرہ اسکے ماتھے پر جھکا اور نرمی سے اپنے ہونٹ اس پر رکھے۔بہت سے آنسو مرجان کے چہرے پر گرے جن کو محسوس کر مرجان کی پلکوں میں جنبش ہوئی تھی اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں اور اسکی دھندلاتی نظر ویرہ پر پڑی۔


"زما باچا۔۔"


مرجان نے ہلکی سی سرگوشی کی تو ویرہ نے تڑپ کر اسے دیکھا لیکن شائید وہ ابھی بھی اپنی دوائی کے زیر اثر ہی تھی۔


"میرے پاس واپس لوٹ آئیں زما باچا آپ کی مرجان مر جائے گی آپ کے بنا۔۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر مرجان دوائی کے زیر اثر پھر سے گہری نیند میں ڈوب گئی جبکہ اسکے الفاظ ویرہ کو پتھر کا کر چکے تھے۔خود سے کی جانے والی نفرت مزید بڑھ گئی تھی۔


آخر کیوں گناہگار خود سے جڑے رشتوں کا نہیں سوچتا۔ایک گناہ سے وہ جتنا برباد اپنے دشمن کو کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ برباد خود کو بھی تو کر لیتا ہے جیسے ویرہ خود کو تباہ و برباد کر چکا تھا۔


ویرہ نے کرب سے اپنی آنکھیں موندیں اور تبھی ہسپتال کی لائٹ پھر سے چلی گئی۔عماد کمرے میں آیا اور ویرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے لے گیا۔


اسے گاڑی میں بیٹھا کر وہ واپس جانے لگے۔سارا راستہ ویرہ ایک خاموش بت بنا بیٹھا رہا تھا۔وہ لوگ جیسے تیسے ویرہ کو سب سے چھپ چھپا کر کال کوٹھری میں واپس لے آئے تھے۔


عماد نے پھر سے ویرہ کو اسکی زنجیریں پہنائیں اور وہاں سے جانے لگا۔


"فوجی۔۔۔۔"


ویرہ کی آواز پر عماد نے مڑ کر اسے دیکھا۔


"یہ دہشتگرد تمہارا احسان کبھی نہیں بھولے گا۔۔۔"


ویرہ کی بات پر عماد ہلکا سا مسکرا دیا۔


"یہ ایک فوجی کا دہشتگرد پر احسان نہیں بلکہ میرا ایک انسان ہونے کے ناطے فرض تھا۔۔۔ایک مجرم گناہ گار بھی انسان ہی ہوتا ہے ویرہ بس اسے ایک انسان سمجھنے کی دیر ہے۔۔۔ "


ویرہ نے کرب ناک آنکھوں سے اسکی جانب دیکھنا چاہا لیکن اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آیا۔


"تم بہت عظیم ہو عماد بنگش۔۔۔"


ویرہ کی بات پر عماد مسکرا دیا۔


"اور تمہیں بھی اپنے جیسا عظیم بناؤں گا عبداللہ میر۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر عماد وہاں سے چلا گیا اور ویرہ دیوار سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گیا۔اسکی بیوی اور بچے کا چہرہ اسکے دل میں سکون بن کر دوڑ رہا تھا۔


"ایسا کبھی نہیں ہو سکتا میرے گناہوں کی کوئی معافی نہیں۔۔۔یہ دنیا مجھے معاف بھی کر دے میرا رب نہیں کرے گا۔"


ویرہ نے اوپر کو دیکھتے ہوئے کہا اور اپنی آنکھیں موند گیا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اسکا رب رحمان ہے وہ تو پچھتانے پر منکروں کو بخش دے تو وہ کیا تھا۔

"ارے مرجان اٹھ بھی جاؤ اب چھوٹی سی جان کو بھوکا مارو گی کیا؟"


کسی نے مرجان کا کندھا ہلا کر کہا تو مرجان نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں لیکن سر میں اٹھنے والے درد پر جلدی سے واپس آنکھیں بھینچ گئی۔


"مرجان اٹھ جاؤ ناں کب سے رو رہا ہے تمہارا بیٹا بھوک لگی ہے اسے۔۔۔۔"


اپنی ماں کی آواز پہچان کر مرجان نے ہمت کر کے آنکھیں کھولیں اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔الماس نے اسکے چھوٹے سے بیٹے کو اسکی گود میں دیا تو مرجان جیسے تیسے اسے دودھ پلانے لگی۔


"ماشاءاللہ بہت ہی پیارا ہے یہ دیکھو آنکھیں بالکل تمہارے جیسی ہیں ناں اسکی سنہری رنگ کی اور ناک اور ہونٹ بالکل۔۔۔"


"بالکل میرے باچا جیسے ہیں۔۔۔"


مرجان نے اپنی ماں کی بات کاٹ کر کہا تو وہ افسردگی سے مسکرا دیں۔مرجان نے اپنے بیٹے کے چھوٹے سے گال کو سہلایا اور دو آنسو اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر اسکے گال پر گرے تھے۔


"وہ اسے کبھی نہیں دیکھی پائیں گے۔۔۔جان بھی نہیں پائیں گے انکا ایک بیٹا بھی ہے۔۔۔"


مرجان نے روتے ہوئے کہا تو الماس بے بسی سے اسے دیکھنے لگیں۔


"مرجان بس کر دے خود کو ہلکان کرنا کب تک اپنی جان جلاتی رہے گی اسکی یاد میں۔۔۔"


الماس نے اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر تڑپتے ہوئے کہا۔پچھلے نو ماہ سے انہوں نے اسے ایک بار بھی مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔


"اپنی آخری سانس تک اماں آخری سانس تک۔۔۔۔"


مرجان نے اتنا کہہ کر اپنے بیٹے کو دیکھا جسکا پیٹ بھر چکا تھا۔اس نے اسے احتیاط سے سینے سے لگا کر ڈکار دلوانا چاہا لیکن پھر اسکی چھوٹی سی گردن میں اپنا چہرہ چھپا کر سسک سسک کر رو دی۔


"ارے ارے میں سب کو یہاں بے بی دیکھانے لایا ہوں یہ اموشنل سین نہیں۔۔۔"


عماد جو ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا مرجان کو اس طرح روتے دیکھ منہ بنا کر بولا۔مرجان نے سر اٹھا کر عماد کے ساتھ آئی وانیا اور اپنے بہن بھائی گل اور دلاور کو دیکھا۔


"وانیا اس سے لے لو بے بی یہ تو اسے اپنے جیسا روندو بنا دے گی۔۔۔"


عماد نے شرارت سے کہا تو وانیا مسکرا کر مرجان کے پاس آئی۔اپنی دوست کو گلے سے لگا کر مبارک دینے کے بعد اس نے بچے کو اٹھایا اور اسے لے کر گل اور دلاور کے پاس آئی جو اپنے بھانجے کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے۔


"ماشاءاللہ کتنا پیارا ہے ناں یہ بالکل میرے جیسا لگتا ہے۔۔۔"


گل نے اسے باہوں میں لیتے ہوئے کہا۔


" اپنی شکل دیکھو اور اسکی دیکھو کہاں تم چڑیل اور کہاں یہ کوہ کاف کا شہزادہ۔۔۔"


دلاور نے شرارت سے کہا تو گل نے منہ بنا لیا۔


"جی اور آپ کوہ کاف کے جن۔۔۔"


گل نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تو سب اسکی بات پر ہنس دیے۔


"سر آپ نے بلایا تھا۔"


گل کو عین اپنے پیچھے سے آواز آئی تو اس نے گھبرا کر پیچھے دیکھا لیکن وہاں امان کو آرمی یونیفارم میں کھڑا دیکھ اسکا رنگ فق ہو گیا اور وہ جلدی سے پاس کھڑی وانیا کے بازو سے چپک گئی۔


"یس کیپٹن آپ زرا دلاور کو اسکے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے ویسے مجھے لے جانا تھا لیکن میں زرا سا مصروف تھا تو نہیں چاہتا کہ اسکا چیک اپ مس ہو۔۔۔"


امان نے فوراً ہاں میں سر ہلایا اور دلاور کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔


"گل تم بھی چلو ساتھ ۔۔۔۔"


دلاور نے شرارت سے کہا وہ جانتا تھا اسکی بہن امان سے بہت ڈرتی تھی خاص طور پر تب جب وہ آرمی یونیفارم میں ہوتا تھا۔اسکا فوجیوں کا ڈر ابھی بھی جوں کا توں قائم تھا۔


"نن۔۔۔نن۔۔۔۔نہیں میں کیوں جاؤں۔۔۔۔بیمار آپ ہو لالہ میں نہیں۔۔۔"


گل نے وانیا کے پیچھے سے امان کو دیکھتے ہوئے سہم کر کہا تو امان سرد آہ بھر کر رہ گیا۔


"دیکھنا ساری زندگی اسی یونیفارم میں مجھے دیکھ کر گزارو گی تم میری نیلی آنکھوں والی گڑیا۔۔۔"


امان نے خود کلامی کی اور دلاور کو آنے کا اشارہ کرتا باہر چلا گیا۔گل نے سکھ کا سانس لیا۔عماد وانیا کے پاس آیا اور مسکرا کر بچے کو دیکھنے لگا۔


"نام کیا سوچا ہے اسکا؟"


عماد کے پوچھنے پر مرجان نے اپنے آنسو پونچھے۔


"کچھ نہیں۔۔۔"


عماد نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"میں رکھ لوں؟"


مرجان نے مسکرا کر فوراً ہاں میں سر ہلایا۔


"ضرور لالہ۔۔۔"


عماد نے مسکرا کر بچے کی جانب دیکھا۔


"قلب۔۔۔قلبِ عبداللہ ۔۔۔۔ہمارے عبداللہ کا دل۔۔۔"


عماد کی بات پر کتنے ہی آنسو مرجان کی آنکھوں سے بہے تھے۔وانیا نے قلب کو عماد کو پکڑایا اور مرجان کے پاس آ کر اسے سینے سے لگا لیا۔


"سب ٹھیک ہو جائے گا مرجان دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔"


وانیا نے بے بسی سے عماد کی جانب دیکھا جیسے نظروں سے ہی اس سے التجا کر رہی ہو کہ کچھ کریں۔۔۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

وقت ریت کی مانند سرکتا گیا۔ویرہ نے مزید ایک سال اس قید میں گزار دیا تھا۔ہر پل کوٹھری کے اس اندھیرے میں بیٹھا وہ یہی سوچتا رہتا تھا کہ مرجان اور اسکا بیٹا کیسے ہوں گے۔وہ کیسی شرارتیں کرتا ہو گا مرجان کو زیادہ ستاتا تو نہیں ہو گا۔


عماد نے اسے بتایا تھا کہ اس نے اسکے بیٹے کا نام قلب رکھا ہے اور ویرہ تو بس اسکو اور مرجان کا یاد کر کے اپنی زندگی کاٹے جا رہا تھا۔


ویرہ جو کچھ جانتا تھا وہ سب آرمی کو بتا چکا تھا جسکا آرمی کو بہت فایدہ بھی ہوا تھا لیکن اسکے تعاون کے باوجود وہ ویرہ کو آزاد نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ایک دہشتگرد جسے عمر بھر قید کی سزا سنائی گئی ہو اسے آزاد کرنا کہاں آسان تھا۔


اب تو ویرہ بھی یہی سوچتا تھا کہ اسے اپنی ہر سانس اس کال کوٹھری میں سسک سسک کر گزارنی تھی اور اب اسے اپنی یہ سزا منظور تھی وہ اسی کے قابل تھا۔


"اہم۔۔۔اہم۔۔۔۔"


کسی کے کھانسنے کی آواز پر ویرہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ہلکی سی روشنی میں اسے عماد کھڑا ہوا نظر آیا۔


"جلدی سے اٹھ کر مجھ سے گلے ملو اپنے باپ سے لڑ کر بہت جدوجہد کے بعد تھوڑا سا ٹائم ملا ہے مجھے۔۔۔۔"


عماد نے بازو پھیلا کر کہا تو ویرہ نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر گہرا سانس لے کر کھڑے ہوتے ہوئے اسکے گلے لگ گیا۔


"اب مبارک دو مجھے۔۔۔۔"


"کس بات کی؟"


ویرہ نے حیرت سے پوچھا تو عماد ہلکا سا ہنس دیا۔


"اللہ نے مجھے بھی اپنی نعمت سے نوازا ہے بیٹا دیا ہے مجھے۔۔۔۔"


ویرہ عماد سے دور ہوا اور اسکے چہرے کی خوشی دیکھ کر مسکرا دیا۔


"بہت بہت مبارک ہو تمہیں۔۔۔"


ویرہ نے دل سے اسے مبارکباد پیش کی۔


"شکریہ یارا۔"


"نام کیا رکھا ہے بیٹے کا؟"


ویرہ نے مسکراتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔


"یارم۔۔۔"


"یارم؟"


ویرہ نے حیرت سے پوچھا۔


"ہاں یار میری بیگم صاحبہ نے رکھا ہے نہ جانے کونسے ناول پڑھ پڑھ کر اسی کے ہیرو کا نام رکھ دیا اب پتہ نہیں نام جیسا عاشق بنائے گی میرے بیٹے کو۔۔۔۔"


عماد نے ہنس کر کہا تو ویرہ بھی ہلکا سا ہنس دیا۔


"دیکھنا تم تمہارا اور میرا بیٹا بڑے ہو کر سب سے اچھے دوست بنیں گے زیادہ نہیں بس ایک سال کا ہی فرق ہے لیکن پھر بھی ان کی دوستی مثالی ہو گی۔"


عماد کے بھرپور یقین کے ساتھ کہنے پر ویرہ کو اپنے بیٹے کی یاد آئی تھی۔اس نے افسردگی سے عماد کی جانب دیکھا۔


"کیسا ہے وہ؟"


ویرہ کے آہستہ سے پوچھنے پر عماد مسکرایا۔


"بہت شرارتی جب سے اسے پیر لگے ہیں نہ خود ایک پل سکون کرتا ہے اور نہ مرجان کو کرنے دیتا ہے بس سارا سارا دن اسے اپنے پیچھے بھگاتا رہتا ہے۔۔"


عماد نے ہلکا سا ہنس کر ویرہ کی جانب دیکھا لیکن اسکے چہرے پر افسردگی دیکھ کر اسکا کندھا تھام گیا۔


"ایک دن تم بھی ان کے ساتھ ہو گے عبداللہ ان کی خوشیوں میں شامل۔۔۔"


ویرہ نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"انکی دنیا میں میری کوئی جگہ نہیں۔۔۔"


عماد نے اس سے مزید کچھ کہنا چاہا لیکن باہر کھڑے سپاہی کے دروازہ کھٹکھٹانے پر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔


"ایک تو یہ۔۔۔قسم سے میرا باپ جنرل نہ ہوتا تو کب کا نوکری سے نکال چکے ہوتے یہ لوگ مجھے۔۔۔"


عماد نے ہنستے ہوئے کہا اور اپنا ہاتھ ویرہ کے کندھے پر رکھا۔


"میں سب ٹھیک کر دوں گا ویرہ بس مجھے وقت چاہیے۔۔۔۔"


عماد کی تسلی پر ویرہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔عماد آخری نگاہ اس پر ڈالتا وہاں سے چلا گیا اور ویرہ پھر سے دیوار کے ساتھ بیٹھ کر ٹیک لگا گیا۔دل میں اپنے بیٹے کو دیکھنے کی حسرت پیدا ہو رہی تھی،اسکی شرارتوں،اسکی اٹھکیلیوں کا حصہ بننے کی حسرت لیکن حسرتیں بھی کبھی پوری ہوا کرتی ہیں۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

جنرل شہیر پریشانی کے عالم میں اپنے دفتر میں ٹہل رہے تھے۔انہوں نے عماد کو اپنے پاس بلایا تھا لیکن ابھی تک وہ وہاں نہیں آیا تھا۔


"نے آئی کم ان سر؟"


عماد کی آواز پر انہوں نے بے چینی سے دروازے کی جانب دیکھا اور ہاں میں سر ہلایا۔عماد نے اندر آ کر مخصوص انداز میں انہیں سیلیوٹ کیا لیکن انکے چہرے پر پریشانی دیکھ کر پریشان ہوا۔


"کیا ہوا بابا سب ٹھیک تو ہے؟"


جنرل شہیر نے انکار میں سر ہلایا۔


"سب ٹھیک نہیں ہے عماد یہ دیکھو۔۔۔۔"


انہوں نے میز پر پڑا لیپ ٹاپ عماد کی جانب گھمایا جس میں ایک وڈیو چل رہی تھی۔اس وڈیو میں ایک بچہ بری طرح سے رو رہا تھا جبکہ ایک نقاب پوش اسکی گردن پر چاقو رکھے اسکے پیچھے کھڑا تھا۔


"کرنل صاحب اگر بیٹے کی جان پیاری ہے تو فوج سے کہو کہ جو دہشت گرد ویرہ انکی گرفت میں ہے اسے ہمیں دے دیں ورنہ۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر نقاب پوش نے چاقو بچے کی گردن پر مزید مظبوطی سے رکھا تو بچہ سسک سسک کر رونے لگا اور ساتھ ہی وہ وڈیو ختم ہو گئی۔


"یہ سب۔۔۔۔۔"


"کسی نے کرنل جواد کے بیٹے کو اگوا کر لیا ہے اور بدلے میں ویرہ کو مانگ رہا ہے ساتھ اڈریس بھی بھیجا ہے انہوں نے جہاں ویرہ کو لانے کا کہا ہے۔"


جنرل شہیر نے ایک پرچی عماد کو دیتے ہوئے کہا جہاں خیبرپختونخوا کے ایک علاقے کا پتہ تھا۔


"اگر ہم نے انکی بات نہ مانی تو وہ کرنل کے بیٹے کو نہیں چھوڑیں گے۔۔۔"


عماد نے پریشانی سے اپنا ماتھا سہلایا۔


"تمہیں کیا لگتا ہے عماد وہ لوگ ویرہ کو چھڑوانا چاہ رہے ہیں؟"


عماد نے فوراً اپنا سر انکار میں ہلایا۔


"وہ جانتے ہیں کہ ویرہ بہتوں ہے راز جانتا ہے اور فوج اتنے سارے دہشتگردوں کو پکڑنے یا مارنے میں کامیاب ہوئی ہے تو ویرہ کی وجہ سے جس نے ان کے بارے میں بتایا۔۔۔۔وہ اسے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔۔۔"


عماد کی بات پر جنرل شہیر بھی کافی پریشان ہوئے۔


"کیا فیصلہ لیا جا رہا ہے اس بارے میں؟"


عماد نے اضطراب سے پوچھا۔


"وہ لوگ ویرہ کو انہیں دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔"


اس بات پر عماد پریشانی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ایک جانب ایک معصوم بچے کی زندگی کا فیصلہ تھا تو دوسری جانب اسکا دوست۔


"مجھے ویرہ سے ملنا ہے اسی وقت۔۔"


عماد نے گویا اپنا فیصلہ سنایا۔


"تم جانتے ہو عماد تمہارا اس سے ملنا کتنا ڈینجرس ہے اگر آرمی کو پتہ چلا کہ تم اپنی آئیڈنٹٹی ظاہر کر چکے ہو تو تمہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔"


"جانتا ہوں اور مجھے پرواہ نہیں۔۔"


عماد نے سنجیدگی سے کہا۔


"ویسے بھی اگر آپ جنرل ہو کر اتنا نہیں سنبھال سکتے تو فایدہ جنرل ہونے کا۔"


اتنا کہہ کر عماد وہاں سے چلا گیا اور جنرل شہیر گہرا سانس لے کر فون ملانے لگے۔اب انہیں اپنے بیٹے کی بات مان کر اسکی ملاقات بھی تو کروانی تھی ویرہ سے۔


عماد ہیڈکوارٹر سے سیدھا اس جیل میں آیا جہاں ویرہ کو رکھا گیا تھا۔سپاہی نے اسے دیکھتے ہی جیل کا دروازا کھول دیا تو عماد جلدی سے اس کوٹھری میں داخل ہوا اور پریشانی سے ویرہ کو دیکھا جو آنکھیں موندیں فرش پر بیٹھا تھا۔


اسکی آہٹ پر آنکھیں کھول کر ویرہ نے اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دیا۔


"کافی جلدی واپس ملنے نہیں آ گئے تم ابھی چند دن پہلے ہی تو آئے تھے۔"


عماد ضبط سے اپنی آنکھیں موند گیا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ویرہ کو سب کیسے بتائے۔


"کیا بات ہے؟"


آخر ویرہ نے ہی پوچھا تو عماد نے ہمت کی اور ساری بات ویرہ کو بتا دی۔جسے سن کر ویرہ بھی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔


"تمہیں کیا لگتا ہے کون ہیں یہ لوگ؟"


کچھ سوچ کر ویرہ نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں جانتا جس جس کے بارے میں جانتا تھا میں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔"


اس بات پر عماد نے پریشانی سے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔


"آرمی تمہیں ان کو دینے کا سوچ رہی ہے۔"


اس بات پر ویرہ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔


"اچھی بات ہے۔۔۔۔"


"اچھی بات ہے؟پاگل ہو گئے ہو تم ویرہ وہ تمہیں مار دیں گے جانتے ہو ناں تم نے انکے راز کھول کر غداری کی ہے انکے ساتھ اور سزا تم جانتے ہو پھر بھی یہ کہہ رہے ہو۔"


عماد اسکی بات کاٹ کر غصے سے چلایا۔


"تو کیا چاہتے ہو تم؟"


ویرہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔


"مجھے نہیں پتہ لیکن میں تمہیں یوں بلی کا بکرا نہیں بننے دوں گا بھگا دوں گا تمہیں دور بھیج دوں گا جہاں تم پھر سے جی سکو۔"


عماد کی بات پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ویرہ کے ہونٹوں پر آئی۔


"اور اس بچے کا کیا؟"


"وہ آرمی کی زمہ داری ہے تمہاری نہیں ہم کچھ نہ کچھ کر کے اسے بچا لیں گے۔"


عماد نے حل نکالا۔


"نہیں عماد بنگش تم ان لوگوں کو نہیں جانتے جو وقت انہوں نے دیا ہے اس سے ایک پل کی دیری اور وہ اس بچے کو مار دیں گے اور پھر نیا شکار ڈھونڈنے نکل پڑیں گے۔"


ویرہ نے اسے اس بچے کے انجام سے آگاہ کیا۔


"تو کیا کروں ویرہ تمہیں یوں مرنے کے لیے چھوڑ دوں؟"


عماد کے سوال پر ویرہ ہلکا سا مسکرا کر اپنی جگہ سے اٹھا اور خود ہر بندگی زنجیروں کو ساتھ گھسیٹتا اسکے پاس آیا۔


"میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے عماد میں ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وہ بچہ تمہاری قوم کا سرمایا ہے میرے بدلے اسکی جان گنوانا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔"


ویرہ ایک پل کو رکا اور پھر ہلکا سا ہنس دیا۔


"ویسے بھی میں کوئی نیک فرشتہ نہیں جو میری پرواہ کی جائے میں گناہ گار ہوں عماد اور گناہ گار کو سزا ملتی ہے۔۔۔۔"


عماد نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔


"اور مرجان کا کیا؟تمہاری اولاد کا کیا؟اسے یتیم کرنا اسکے ساتھ زیادتی نہیں؟مرجان اس لیے زندہ ہے کہ وہ جانتی ہے تم زندہ ہو اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا اسکا ویرہ؟"


عماد کے سوالوں کا ویرہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔


"میں ایسا نہیں ہونے دوں گا تم تیار رہنا ویرہ میں تمہیں یہاں سے بھگا دوں گا۔۔۔"


اتنا کہہ کر عماد وہاں سے جانے لگا۔


"نہیں عماد۔۔۔میں نہیں بھاگوں گا۔پہلے بھی اگر بھاگنے کی بجائے بہادری دیکھائی ہوتی اپنے باپ کا بدلہ لینے کی بجائے انکے لیے انصاف تلاش کیا ہوتا تو آج میں یہاں نہیں ہوتا۔۔۔۔اب میں پھر سے نہیں بھاگوں گا۔۔۔"


عماد نے پلٹ کر ویرہ کو دیکھا۔وہ جانتا تھا کہ وہ کچھ بھی کر لے ویرہ اپنی بات سے پلٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔اب اسے کسی نے کسی طرح اپنے دوست کی حفاظت کرنی تھی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان جان لٹاتی نگاہوں سے اپنے ایک سالہ بیٹے قلب کو دیکھ رہی تھی جو دلچسپی سے بیڈ پر سوئے یارم کو دیکھنے میں مصروف تھا۔ابھی کچھ دیر پہلے وہ وانیا سے ملنے اس کے گھر آئی تھی۔


ایسا کر کے اسکی اپنی تنہائی بھی دور ہوتی تھی اور قلب بھی یارم کے ساتھ بہت خوش رہتا تھا۔قلب نے یارم کی بند پلکوں کو چھوا تو مرجان مسکرا دی۔


اسکا بیٹا ہی تو اسکے جینے کا سہارا تھا اگر وہ نہ ہوتا تو شائید مرجان سسک سسک کر مر جاتی۔


"کیا سوچ رہی ہو؟"


وانیا جو یارم کے پاس ہی نیم دراز تھی مسکرا کر پوچھنے لگی۔


"سوچ رہی ہوں اگر اللہ مجھے قلب نہ دیتا تو میرا کیا بنتا۔۔۔۔"


مرجان کی بات پر وانیا کے ماتھے پر بل آئے۔


"کیوں نہ دیتے اللہ تعالیٰ اسے تمہیں۔مرجان اولاد ہی ہمارے لیے سب کچھ ہوتی ہے خدا نے نعمت سے نوازا ہے تو اسکا شکر ادا کرو۔۔۔۔"


وانیا نے اسے سمجھایا۔


"ہاں وانی اولاد بہت بڑی نعمت ہے لیکن انکے بغیر زندگی خالی اور بے مقصد ہے جسکی کمی کوئی بھی پوری نہیں کر سکتا۔۔۔۔"


یہ بات کہتے ہوئے مرجان کی آنکھوں میں آنسو آئے تو وانیا نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"میں سمجھ سکتی ہوں مرجان۔۔۔۔"


وانیا نے نرمی سے اسکا ہاتھ دبا کر کہا اور پھر مسکرا کر قلب کو دیکھا جو سوئے ہوئے یارم کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔


"وہ سویا ہوا ہے ناں خالہ کی جان ابھی نہیں اٹھے گا۔۔۔۔"


وانیا نے پیار سے قلب کو بتایا تو قلب نے اپنی بڑی بڑی سنہری آنکھوں سے وانیا کو دیکھا اور پھر ایک تھپڑ یارم کے منہ پر مارا جس سے یارم بلبلا کر رونے لگا۔


"قلب۔۔۔"


مرجان نے اپنے بیٹے کی حرکت پر حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔


"بے بی اتا۔۔۔۔"


قلب نے یارم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو اسکی بات سمجھ کر وانیا قہقہ لگا کر ہنس دی۔یعنی وہ اسے تھپڑ مار کر اٹھانے میں کامیاب ہوا تھا۔


"بہت تیز ہوتا جا رہا ہے یہ ماڑا لگتا ہے رسی سے باندھنا مڑے گا اسے۔۔۔"


مرجان نے مصنوعی غصے سے قلب کو گھورتے ہوئے کہا تو وہ ماں کے غصے پر سہم کر اسکے سینے سے لگ گیا۔مرجان نے مسکرا کر اسے خود سے لگایا اور آنکھیں موند گئی۔


"پتہ نہیں میرا شہزادہ بڑا ہو کر کیا گل کھلائے گا آخر عماد بنگش کا بیٹا ہے یہ بھی ۔"


وانیا نے یارم کو دیکھتے ہوئے کہا جو ابھی بھی منہ بنا کر رو رہا تھا جیسے خود ہر ہوا ظلم بیان کرنا چاہ رہا ہو۔مرجان وانیا کی بات پر ہنس دی تو وانیا بھی مسکرا دی۔تبھی عماد پریشانی کے عالم میں کمرے میں داخل ہوا۔


"لو عماد بھی آ گئے ۔۔"


وانیا نے عماد کو دیکھتے ہوئے کہا تو مرجان نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا اور عماد کو دیکھ کر مسکرا دی۔


"اسلام و علیکم لالہ۔۔۔۔کیسے ہیں آپ؟"


عماد نے ہاں میں سر ہلا کر جواب دیا اور بس دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ مرجان ویرہ کے بارے میں مت پوچھے کیونکہ اس میں جھوٹ بولنے کی سکت باقی نہیں تھی۔


"آئیں زرا اور دیکھیں آج آپ کے بیٹے نے نہ اٹھنے پر تھپڑ کھایا ہے بڑے بھائی سے۔۔۔"


وانیا کی بات پر مرجان ہلکا سا ہنسی جبکہ قلب عماد کو دیکھتے ہی اسکی گرفت میں مچلنے لگا تھا۔مرجان نے اسے چھوڑا تو وہ ڈگمگاتے قدم اٹھاتا عماد کے پاس گیا اور اسکے سامنے اپنی باہیں پھیلانے لگا۔


"ماماں۔۔۔"


مرجان نے اسے عماد کے لیے ماموں سیکھایا تھا جو اس سے بولا نہیں جاتا تھا تو وہ اسے ماماں ہی بلا پاتا تھا۔عماد نے جھک کر اسے باہوں میں اٹھا لیا۔


"ماماں۔۔۔۔بابا۔۔۔۔"


قلب نے باہر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا لیکن اسکے منہ سے بابا سن کر عماد کی بس ہوئی تھی۔اسے لگا تھا کہ وہ اس بچے سے انصاف نہیں کر پایا تھا وہ لڑکی جسے اس نے اپنی چھوٹی بہن کہا تھا اسے اسکی خوشیاں نہیں دلا پایا تھا۔


عماد نے قلب کو مرجان کی گود میں دیا اور خود وہاں سے چلا گیا۔وہ ایک پل کے لیے بھی مرجان اور قلب کا سامنہ نہیں کر سکتا تھا۔


"انہیں کیا ہوا؟"


وانیا نے حیرت سے پوچھا تو مرجان نے اپنے کندھے اچکا دیے۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکی زندگی میں کیا طوفان آنے والا تھا لیکن عماد اس طوفان کی آمد سے واقف تھا اور اپنی بہن کو یوں اجڑتے دیکھنا اسکی برداشت سے باہر تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

سارے انتظامات مکمل کیے جا چکے تھے۔ویرہ کو چند فوجیوں کے ساتھ اس جگہ روانہ کر دیا گیا تھا جہاں اسے لانے کا کہا گیا تھا۔سارا راستہ ویرہ بس یہی سوچتا رہا تھا کہ آج اسکا قصہ بھی ختم ہو جائے گا۔وہ اسی راہ پر مرے گا جو اس نے چنی تھی۔جو اس نے بویا تھا آج اسے کاٹنے کا وقت آ چکا تھا لیکن ویرہ کو اسکا کوئی غم نہیں تھا وہ اسی قابل تھا۔


اچانک گاڑی رکی اور ایک سپاہی ویرہ کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی پہنانے لگا۔ویرہ نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا۔


"تمہیں پہلے کہیں دیکھا ہے۔"


ویرہ کی بات پر وہ سپاہی مسکرایا۔


"میں کیپٹن امان،ایک سال پہلے ملے تھے ہم عماد سر کے ساتھ تھا میں۔۔۔۔"


ویرہ کو فوراً وہ رات یاد آئی جب عماد نے اسے اسکا بیٹا دیکھانے کے لیے جیل سے بھگایا تھا تب یہی سپاہی تھا جس نے عماد کی مدد کی تھی۔


"تمہارا شکریہ۔تم نہیں جانتے تم نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا تھا۔"


ویرہ نے جزبات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔


"میں نے وہ کیا جو انسان ہونے کے ناطے میرا فرض تھا اور آج آپ بھی وہی کر رہے ہیں۔سچ پوچھیں تو مجھ میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں ہم دونوں ہی اس قوم کے سپاہی ہیں۔۔۔"


امان نے سنجیدگی سے کہا لیکن ویرہ نے انکار میں سر ہلایا۔


"میں کوئی سپاہی نہیں میں مجرم ہوں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ گاڑی سے اتر گیا تو امان بھی اسکے ساتھ آیا۔وہ ایک سنسان میدانی علاقہ تھا جہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔پھر دو گاڑیاں وہاں رکیں جن میں سے چند نقاب پوش باہر آئے۔


"ویرہ کو ہمارے حوالے کر دو۔"


ایک آدمی نے حکم دیا تو سپاہیوں نے امان کی جانب دیکھا۔


"پہلے بچے کو لاؤ۔۔۔۔"


امان کے کہنے پر ایک نقاب پوش نے دوسرے کو اشارہ کیا تو اس نے گاڑی میں سے بچے کو نکالا جو خوف سے رو رہا تھا۔جبکہ ایک بڑی سی جیکٹ اسے پہنا رکھی تھی۔


"تم ویرہ کو چھوڑو وہ ہماری طرف آئے گا اور بچہ تمہاری طرف پھر تم یہاں سے چلے جانا ۔۔۔"


نقاب پوش چلایا تو امان نے اثبات میں سر ہلایا۔


"اگر کچھ چالاکی کریں تو گولیوں کی بوچھاڑ کر دینا ان پر۔۔۔۔"


امان نے ساتھ کھڑے سپاہی کو آہستہ سے کہا جس نے اثبات میں سر ہلایا۔سپاہیوں نے ویرہ کو چھوڑا تو وہ ان نقاب پوشوں کی جانب جانے لگا۔انہوں نے بھی بچے کو چھوڑا جو روتے ہوئے بھاگ کر فوجیوں کے پاس آیا۔


ویرہ جیسے ہی نقاب پوشوں کے پاس پہنچا دو آدمیوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔


"اب تم جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"


نقاب پوش چلایا تو امان نے بچے کو اٹھایا اور سپاہیوں کو اشارہ کرتا واپس گاڑی میں آ گیا اور گاڑی چلا کر وہاں سے چلے گئے۔فوجیوں کے جاتے ہی ایک نقاب پوش نے اپنی بندوق کا پچھلا حصہ ویرہ کے منہ پر مارا جسکی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ویرہ زمین پر جا گرا۔


"غدار۔۔۔فوج سے ہاتھ ملا کر ہمارے راز کھولے گا تم۔۔۔۔انجام نہیں سوچا اپنا۔۔۔"


اس نے ویرہ کو اپنے پیر سے مارتے ہوئے کہا لیکن ویرہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ بس چپ چاپ مار کھا رہا تھا۔آخر کا وہ خود ہی اسے مار کر پیچھے ہو گیا۔


"ہمیں اسے یہاں سے لے جانا چاہیے اس سے پہلے کہ فوج یہاں واپس آ جائے۔۔"


ایک نقاب پوش نے کہا۔


"نہیں۔۔۔یہ غدار ہمارے ساتھ نہیں جائے گا اور اگر فوج واپس آیا تو انہیں بس اسکی لاش ملے گی۔"


اتنا کہہ کر اس نقاب پوش نے اپنی بندوق کی نوک ویرہ کے ماتھے پر رکھ دی۔


"کوئی آخری خواہش۔۔۔۔؟"


"کون ہو تم؟"


ویرہ نے فوراً اپنی آخری خواہش ظاہر کی تو سب نقاب پوش ہنسنے لگے۔


"بھول گئے ہمیں ویرہ تمہارے ہی ساتھی تھے ہم جنہوں نے تمہیں اپنا سردار چنا تمہیں ایسی طاقت سمجھا جو کٹ تو سکتا تھا لیکن جھک نہیں سکتا تھا مگر آج تم جھک گئے ویرہ کمزور نکلے تم بہت کمزور اور کمزور انسان کی ہم میں کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔"


ویرہ نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پل بھر میں انہیں پہچان گیا۔وہ اسکے ہی ساتھی تھے جو شائید کسی طرح اس حملے سے بچ گئے تھے جو فوج نے کیا تھا اور اب نئے ساتھی بنا کر طاقت ور ہو کر آئے تھے۔


"ٹھیک ہے دے لو سزا معافی کی مجھے چاہ بھی نہیں ہے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ اپنی آنکھیں موند گیا۔اپنے بچے اور مرجان کا معصوم چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے آیا۔انہیں آنکھوں میں بسا کر وہ دنیا سے رخصت ہونے کو تیار تھا۔بندوق کی نوک شدید سختی سے ویرہ کے ماتھے پر رکھی گئی تھی اور پھر گولی چلنے کی آواز فضا میں گونجی۔

گولی چلنے کی آواز پر ویرہ کی پلکوں میں جنبش ہوئی لیکن جب اسے کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوا تو اس نے حیرت سے آنکھیں کھول کر اپنے سامنے موجود آدمی کو دیکھا جس کے سینے پر گولی لگی تھی اور وہ اب زمین پر ڈھیر ہو چکا تھا۔


ویرہ نے پلٹ کر دیکھا جہاں امان باقی فوجیوں کے ساتھ بندوق تھامے پکڑا تھا۔


"حملہ۔۔۔۔"


ایک نقاب پوش چلایا تو دہشتگردوں نے فوجیوں پر فائرنگ کرنا شروع کی لیکن وہ لوگ وہاں موجود پتھروں کے پیچھے چھپ گئے اور ایک ایک کر کے دہشتگردوں کو نشانہ بنانے لگے جنہیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا۔


ویرہ کے پاس کھڑے نقاب پوش نے ایک سپاہی پر گولی چلانا چاہی لیکن ویرہ نے اسے دکھا دے کر اسکا نشانہ خطا کر دیا اور جلدی سے اٹھ کر اسکی گردن ہاتھوں میں لگی ہتھ کڑی میں دبوچ کر جھٹکے سے توڑ دی۔


دہشتگردوں نے جب فوج کو خود پر حاوی ہوتے دیکھا تو کچھ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے بھاگنے لگے لیکن فوج نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے انکا یہ منصوبہ بھی ناکام بنا دیا۔


امان ویرہ کے پاس آیا اور اسکے ہاتھوں سے بندوق پکڑ کر اسکے ہاتھ کھولنے لگا۔


"تم لوگ واپس کیوں لوٹ آئے؟"


ویرہ نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"کیونکہ ایک سپاہی کبھی بھی اپنے ساتھی کو تنہا نہیں چھوڑتا اپنی آخری سانس تک نہیں۔۔۔۔"


امان نے مسکرا کر کہا۔


"ویسے بھی اس کام پر عماد سر نے مجھے لگوایا تھا اور تاکید کی تھی کہ آپکو کچھ ہوا تو اچھا نہیں ہو گا پھر سنیر کا حکم سر آنکھوں پر۔۔۔۔"


امان کی بات پر ویرہ بھی مسکرا دیا تبھی ایک سپاہی گھبراتے ہوئے امان کے پاس آیا۔


"کیپٹن جلدی میرے ساتھ آئیں۔۔۔"


سپاہی نے گھبراتے ہوئے کہا۔


"کیا ہوا؟"


امان نے پریشانی سے پوچھا اور اسکے پیچھے چل دیا۔وہ سپاہی اسے گاڑی کے پاس لے کر آیا جس میں کرنل کا بیٹا موجود تھا۔سپاہی اس کے جسم سے وہ بڑی سی جیکٹ اتار چکے تھے اور اس نے نیچے ایک بم موجود تھا جو اس بچے کو پہنایا گیا تھا۔


"ڈیم اٹ۔۔۔۔"


امان نے پریشانی سے اس ٹائم بم کو دیکھا جس پھٹنے میں محض تین منٹ باقی تھے اور اسے اس بم کا کوئی نالج نہیں تھا۔


"سر اب ہم کیا کریں۔۔۔یہ لوگ تو سوچ سے زیادہ خطرناک نکلے ایک معصوم بچے کے ساتھ ایسا۔۔۔۔"


ایک سپاہی نے پریشانی سے کہا جبکہ امان کو خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔خود یہاں سے جانے کے لیے یا بیک اپ بلانے کے لیے کم از کم پندرہ منٹ درکار تھے اور بچے کے پاس بس تین منٹ ہی باقی تھے۔


تبھی ویرہ وہاں پر آیا اور اس بچے پر بندھے بم کو دیکھنے لگا۔


"ہٹو یہاں سے۔۔۔۔"


ویرہ نے امان کو سائید پر کرتے ہوئے کہا اور خود بم کا قریب سے معائنہ کرنے لگا۔


"یہ تم کیا کر رہے ہو؟"


ایک سپاہی نے غصے سے پوچھا لیکن امان نے اسے گھور کر چپ کرنے کا کہا۔


"میں نے اپنی ساری زندگی یہی سب بنانے میں گزاری ہے۔۔۔۔یہ کوئی اتنا پیچیدہ بم نہیں ہے۔۔۔۔"


ویرہ نے اس بم کے اوپر کا حصہ ہٹا کر اسکے نیچے موجود تاروں کو دیکھا۔


"دور ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"


ویرہ نے امان اور باقی سپاہیوں سے کہا لیکن امان نے انکار میں سر ہلایا۔


"میری چھوٹی سے غلطی اور یہ پھٹ جائے گا مر جاؤ گے تم سب ہمارے ساتھ دور ہو جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔"


ویرہ نے انہیں سمجھانا چاہا۔


"نہیں ویرہ ہم مصیبت میں پیٹھ دیکھانے والوں میں سے نہیں۔۔"


امان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو ویرہ نے پریشانی سے انہیں دیکھا پھر بم کی تاروں کو دیکھنے لگا۔بم پھٹنے میں بس ایک منٹ باقی تھا۔


"انہیں کاٹنے کے لیے کچھ دو۔"


امان نے فوراً جوتے میں سے اپنا چاقو نکال کر ویرہ کو دیا۔ویرہ مخصوص تاروں کو پکڑ کر کاٹ دیا اب بس ایک اور تار کاٹنی تھی لیکن ویرہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کونسی ہے۔ویرہ نے اس بچے کے چہرے پر خوف کو دیکھا پھر گہرا سانس لے کر ایک تار پکڑی اور اسے کاٹ دیا۔


بم کا چلتا ٹائم رک گیا اور ویرہ نے سکھ کا سانس لے کر گاڑی سے باہر نکل آیا۔سب سپاہیوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر اسکے لیے تالیاں بجانے لگے۔انکی حرکت پر ویرہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"بولا تھا ناں کہ تم ایک سپاہی ہو جو تم نے کیا وہ مجرم نہیں کر سکتا۔۔۔"


امان نے اتنا کہہ کر ویرہ کو اپنے گلے سے لگا لیا اور ویرہ حیرت سے پتھر کا ہو گیا۔کیا اس نے سچ میں کچھ ایسا کر دیا تھا جس سے وہ انہیں اتنا عزم لگ رہا تھا۔


ویرہ کی نظر پیچھے زمین پر اوندھے پڑے ایک نقاب پوش پر پڑی جو آہستہ سے ہلا تھا پھر اس نے بندوق پکڑی اور امان کی کمر کی جانب کر دی۔بغیر کچھ سوچے سمجھے ویرہ پلٹا اور امان کو پیچھے کر کے خود کو آگے کر دیا۔


اس آدمی کی چلائی گولی سیدھا ویرہ کی کمر میں لگی۔یہ دیکھ کر ایک سپاہی نے اس آدمی پر گولی چلا دی اور وہ بے جان ہو گیا۔امان نے حیرت سے ویرہ کو دیکھا جس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور کمر سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔


"اسے گاڑی میں ڈالو فوراً ۔۔۔۔"


امان چلایا تو باقی سپاہیوں نے ویرہ کو گاڑی میں ڈالا اور انہوں نے جلدی سے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ویرہ نے امان کا ہاتھ اپنے کانپتے ہاتھوں میں تھاما تھا۔


"عع۔۔۔۔عماد سے کہنا۔۔۔۔۔کہ۔۔۔۔۔اسسس۔۔۔اسے میرا الوداع کہہ دے۔۔۔۔۔اسے کہنا۔۔۔ممم۔۔۔مجھے بھول جائے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر ویرہ کا وجود بے جان ہو گیا اور امان نے پریشانی سے اسے دیکھا۔وہ بھی سمجھ چکا تھا کہ ویرہ کس کی بات کر رہا تھا۔موت کے دہانے پر بھی اسے بس اپنی محبت اپنی بیوی کی پرواہ تھی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

عماد پریشانی کے عالم میں ہاسپٹل داخل ہوا تھا۔کچھ وقت پہلے ہی جنرل شہیر نے اسے ویرہ کے بارے میں بتایا تھا تب ہی عماد اس علاقے کے لیے نکل پڑا جس کے ہسپتال میں وہ سب ویرہ کو لے کر گئے تھے۔


ہر طرح کے حالات سے نمٹنے والا ایجنٹ اس وقت اپنے دوست کی فکر میں بے حال ہو رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اگر ویرہ کو کچھ ہو گیا تو وہ کیا کرے گا؟مرجان کو کیا جواب دے گا؟


"امان۔۔۔"


امان کو دیکھتے ہی عماد بے چینی سے اسکی جانب بڑھا جو خود بھی کافی پریشان تھا۔


"کیسا ہے وہ؟"


"آپریشن کافی دیر سے جاری ہے اس کے علاؤہ ڈاکٹرز نے کچھ نہیں بتایا۔"


امان نے اسے بتایا تو عماد پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ چلانے لگا۔


"ہوا کیسے یہ سب امان تم نے کہا تھا کہ تم سب ہینڈل کر لو گے تم نے کہا تھا مجھے شامل ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔"


عماد کی بے چینی پر امان نے اسے ہر بات بتا دی جسے سن کر عماد اپنا سر پکڑ کر وہاں موجود بینچ پر بیٹھ گیا۔امان نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"جانتے ہو امان جب میں راگا بن کر انکے درمیان گیا تو وہاں مجھے ہر کوئی ایک سفاک درندہ لگتا تھا لیکن ویرہ نہیں۔۔۔وہ سب سے مختلف تھا۔اسے لگتا تھا کہ رحم اور محبت سے عاری ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔"


عماد نے امان کی جانب دیکھا۔


"پہلی نظر میں اسکے اندر موجود رحم کو دیکھا تھا میں نے جسے اس نے غم و غصے کی چادر سے ڈھانپ رکھا تھا۔"


عماد کی آواز میں نمی محسوس کر امان نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"وہ برا نہیں ہے امان برا انسان گناہ پر پچھتاتا نہیں بلکہ ہٹ دھرمی سے اسے ہی درست مانتا ہے وہ برا نہیں امان۔۔۔"


عماد نے بے بسی سے کہا۔


"جانتا ہوں سر اور دیکھنا ان کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔"


امان نے بھرپور یقین سے کہا تو عماد نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ہاں اسے کچھ نہیں ہو گا کیونکہ اگر اسے کچھ ہوا تو اپنی بہن سے نظریں نہیں ملا پاؤں گا ساری زندگی۔"


عماد نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر کہا اور پھر امان کے ساتھ انتظار کرنے لگا۔کچھ دیر کے بعد ہی ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو عماد اور امان بے چینی سے انکی جانب بڑھے۔


"وہ خطرے سے باہر ہیں۔شکر ہے گولی نے انکی بیک بون کو ڈیمج نہیں کیا ورنہ وہ ساری زندگی چل نہیں پاتے۔"


ڈاکٹر کی بات پر دونوں نے شکر ادا کیا۔


"ابھی وہ کچھ دیر کے لیے وہیں رہیں گے پھر انہیں وارڈ میں شفٹ کر دیا جائے گا۔"


ڈاکٹر کے بتانے پر عماد نے اثبات میں سر ہلایا۔ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا اور امان مسکرا کر عماد کی جانب مڑا۔


"وہ ٹھیک ہیں سر۔"


عماد نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور اپنا ہاتھ امان کے کندھے پر رکھا۔


"تم بہت اچھے انسان ہو امان۔۔۔"


امان اپنی تعریف پر مسکرا دیا۔


"آپ فکر مت کریں سر میں انکے پاس ہوں۔"


عماد نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔


"ہاں امان تم اسکے پاس رکو اور میں اب اسکی زندگی کی ہر مشکل کو ختم کروں گا بس بہت ہو گیا اب انہیں میری بات ماننی ہی ہو گی ورنہ قسم ہے مجھے اپنے بیٹے کی ایسی جگہ چھپاؤں گا ویرہ کو سارہ زندگی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا وہ انہیں۔"


اتنا کہہ کر عماد وہاں سے چلا گیا اور امان گہرا سانس لے کر وہیں بینچ پر بیٹھ گیا۔نہ جانے عماد اب اپنے دوست کے لیے کس حد تک جانے والا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

عماد کے کہنے پر جنرل شہیر نے اسکی میٹنگ باقی جرنیل کے ساتھ ساتھ چیف آف آرمی سے بھی کروائی تھی۔ویرہ نے جیسے اس بچے کی جان بچائی اور پھر جیسے امان کو بچانے کے لیے گولی کھائی اس سب کے گواہ وہ سپاہی تھے جو یہ باتیں اپنے سینیرز کو بتا چکے تھے ۔


"میرا صرف ایک سوال ہے سر ابھی بھی آپ سب کو ویرہ پر یقین نہیں ہوا؟کیا وہ آپ کو ابھی بھی رحم کرنے کے،معاف کرنے کے قابل نہیں لگتا؟"


عماد نے یہ سوال کرتے ہوئے سب افسروں کی جانب دیکھا جو سنجیدگی سے وہاں بیٹھے تھے۔


"آپ کو وہ مجرم لگتا ہے ناں تو بتائیں کونسا مجرم اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ایک بچے کی جان بچاتا ہے؟بتائیں مجھے کونسا مجرم ایک سپاہی پر چلنے والی گولی خود پر لے لیتا ہے۔اس سب کے باوجود آپ سب یہ سوچ رہے ہیں کہ کل کو وہ ہمیں دھوکہ نہ دے دے۔کیا جو اس نے کیا اس کے بعد وفا کا کوئی اور ثبوت باقی رہ جاتا ہے؟"


عماد نے سنجیدگی سے پوچھا تو چیف آف آرمی زرا سا آگے ہو کر بیٹھے۔


"آپ کیا چاہتے ہیں میجر؟"


چیف آف آرمی کے سوال پر عماد اطمینان سے مسکرایا۔


"سر جو اس نے کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ویرہ میں سمجھ داری،بہادری،وفا،جانثاری گویا وہ سب کچھ ہے جو ایک سپاہی میں ہونا چاہیے۔اسکا نشانہ بہت اچھا ہے،بم اور دھماکہ خیز مواد کا بہت نالج ہے اسے اور فائٹنگ سکلز بھی اس میں ہیں۔سب سے بڑی بات وہ انڈر ورلڈ کی دنیا کے ان چھپے ہوئے لوگوں کو بھی جانتا ہے جنہیں ہم نہیں جانتے ایسا ٹیلنٹ جیل میں بند رکھنا عقلمندی نہیں سر اگر وہ راہ راست پر آ گیا ہے تو ہمیں اسکی خوبیوں کو اس ملک کے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔"


عماد ایک پل کو خاموش ہوا اور اس نے سب کی جانب دیکھا۔


"میں چاہتا ہوں کہ ویرہ کو نہ صرف آزاد کیا جائے بلکہ آپ اسے آرمی میں شامل کر کے میری ایسسٹینسی میں دے دیں۔"


عماد کی ڈیمانڈ پر سب افسر ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔


"ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا بہت سی مثالیں ملیں گی سر جس میں مجرموں نے سدھر کر سپاہیوں کا ساتھ دیا ہو انکے ساتھ مل کر کام کیا ہو۔"


عماد نے بھر پور کانفیڈینس سے کہا۔


"اور ایسی بھی بہت مثالیں ہیں میجر عماد جس میں ان مجرموں نے سپاہیوں اور حکومت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہو۔اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ویرہ ایسا نہیں کرے گا؟"


چیف آف آرمی کے اس سوال پر عماد گہری سوچ میں ڈوب گیا۔


"خاموش کیوں ہو گئے میجر بتائیں ہے اس بات کی کوئی گارنٹی؟کیا آپ اس کی ضمانت کے سکتے ہیں کہ وہ کل کو دغا نہیں کرے گا؟"


عماد نے کچھ دیر تک اس بارے میں سوچا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔


"یس سر میں لیتا ہوں اس بات کی گارنٹی۔"


چیف آف آرمی نے دلچسپی سے عماد کو دیکھا جو انکے بہترین ایجینٹس میں سے ایک تھا۔


"ان دیٹ کیس اگر کل کو ویرہ نے کوئی دھوکہ دیا یا کچھ غلط کیا تو اس کے ساتھ ساتھ آپ بھی سزا کے حقدار ہوں گے اور آپکو بھی وہی سزا ملے گی جو ویرہ کی ہو گی۔کیا آپ کو منظور ہے یہ؟"


جنرل شہیر نے گھبرا کر عماد کو دیکھا۔یہ بات کوئی اتنی چھوٹی بات نہیں تھی۔عماد کے مستقبل اسکی زندگی کا معاملہ تھا۔


"یس سر۔۔۔میں ویرہ کی گارنٹی لیتا ہوں اگر اس نے دغا کی تو مجھے بھی وہی سزا ملے جو ویرہ کی ہو۔"


عماد کے اس جذبے کو دیکھ کر چیف آف آرمی کی آنکھوں میں چمک سی آئی اور انہوں نے باقی جرنیل کی جانب دیکھا۔


"کیا لگتا ہے آپ سب کو ویرہ کو معاف کر کے ایک موقع دیتے ہوئے اپنے ساتھ شامل کرنا چاہیے یا نہیں؟"


چیف آف آرمی کے اس سوال پر باقی جرنیل ا

ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگے۔


"ہمارے خیال سے میجر عماد ٹھیک کہہ رہے ہیں ہمیں اسے موقع دینا چاہیے۔"


ایک جنرل نے سب کی جانب سے کہا تو چیف آف آرمی اثبات میں سر ہلا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔باقی سب افسران بھی انکے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔


"ویرہ ایک سال کی ٹریننگ کے بعد میجر عماد کی ایسسٹینسی میں کام کرے گا لیکن باہر کی دنیا میں کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہونی چاہیے۔دنیا کے لیے ویرہ کو دہشتگردوں نے مار دیا اب عماد کے ساتھ جو کام کرے گا اسکی وہ پہچان نہیں ہو گی۔"


سب نے متفق ہو کر اثبات میں سر ہلایا۔چیف آف آرمی نے عماد کی جانب دیکھا۔


"آپ کی بہادری اور دانشمندی کے بہت قصے سنے ہیں میں نے میجر عماد امید ہے یہ فیصلہ آپ کے حق میں اچھا ثابت ہو اور ویرہ پر بھی ہمیں یونہی فخر ہو جیسے آپ پر ہے۔"


عماد نے اثبات میں سر ہلا کر انہیں سیلیوٹ کیا تو چیف آف آرمی وہاں سے چلے گئے اور باقی جرنیل بھی انکے پیچھے کانفرنس روم سے باہر نکل گئے۔


انکے جاتے ہی عماد نم آنکھوں سے مسکرا کر جنرل شہیر کی جانب مڑا اور انکے گلے سے لگ گیا۔


"یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا بابا بہت بہت شکریہ ہر چیز کے لیے۔۔۔"


بیٹے کی اس محبت پر جنرل شہیر کی پلکیں بھی نم ہو گئیں۔


"نہیں عماد یہ سب تمہاری سچی دوستی کی وجہ سے ہوا۔یاد رکھو بیٹا وفا میں بہت طاقت ہوتی ہے۔"


عماد نے اثبات میں سر ہلایا اور ان سے دور ہوا۔


"اب بس ایک سال ٹریننگ کی بات ہے پھر ویرہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہو گا بالکل جیسا تم نے اسکی بیوی سے وعدہ کیا تھا۔"


جنرل شہیر نے عماد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔


"ویرہ نہیں بابا عبداللہ۔۔۔۔عبداللہ سجاد میر۔۔۔"


جنرل شہیر نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلے گئے۔عماد کا بس میں چل رہا تھا کہ وہ خوشی سے جھوم اٹھتا۔وہ جلد از جلد یہ خبر وانیا کو دینا چاہتا تھا۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

ویرہ کی آنکھیں کھلیں تو پہلی نگاہ عماد پر گئی جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔اسے دیکھ کر ویرہ نے منہ بسور لیا۔کم از کم دو ہفتوں سے وہ اس ہسپتال میں تھا اور وہ اب اسکا حال پوچھنے آیا تھا جب وہ ٹھیک ہو چکا تھا۔


"اب بھی نہ آتے احسان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔"


ویرہ کی بات پر عماد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔


"بس سوچا دیکھتا ہوں میری صورت دیکھے بغیر رہ بھی سکتے ہو یا نہیں وہی نہ ہو مجھے دیکھ دیکھ کر مرجان سے زیادہ مجھ سے محبت ہو جائے تمہیں۔۔۔۔"


عماد نے اسکے پاس کرسی پر بیٹھتے ہوئے ایک آنکھ دبا کر کہا۔


"ایسا کبھی نہیں ہونے والا۔"


ویرہ کے ماتھے پر بل آئے اور وہ بھی بیڈ سے ٹیک لگا کر اٹھ بیٹھا۔اس سے پہلے کہ عماد مزید کچھ کہتا ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوا اور ویرہ کا چیک اپ کرنے لگا۔


"یہ اب ٹھیک ہیں سر آپ ان کو ساتھ لے جا سکتے ہیں۔میں ڈسچارج پیپرز ریڈی کروا دیتا ہوں۔"


ڈاکٹر کو لگا عماد بھی عام کپڑوں میں فوج کا ہی آدمی ہو گا اس لیے اسے فارمل طریقے سے بتا کر باہر نکل گیا۔


"تو چلنے کے لیے تیار ہو تم؟"


عماد کے سوال پر ویرہ کے ہونٹوں پر گھائل مسکراہٹ آئی۔


"یہ بھی پوچھنے کی بات ہے میں اور تم دونوں اس بات سے واقف ہیں کے میری منزل کہاں ہے۔۔ "


ویرہ نے افسردگی سے سرد آہ بھر کر کہا۔تھوڑی دیر کے بعد ایک ملازم آیا جس نے ویرہ کو ویل چئیر پر بیٹھایا اور اسے لے کر باہر آ گئے جہاں امان گاڑی کے پاس کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا۔


یہ دو ہفتے امان ہی ویرہ کی نگرانی پر رہا تھا اور ویرہ کی اس سے اچھی خاصی پہچان ہو گئی تھی۔امان چار بہن بھائی تھے جن میں سے وہ سب سے چھوٹا تھا اور شوخ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ بہت رحمدل انسان تھا۔


گاڑی کے پاس پہنچ کر ویرہ اپنی کمر میں موجود تکلیف کو نظر انداز کرتا کھڑا ہوا اور اپنے ہاتھ عماد کے سامنے کیے۔


"پہنا لو ہتھ کڑی ۔۔۔۔۔"


ویرہ کی بات پر عماد نے مسکرا کر امان کو دیکھا جو خود بھی مسکرایا پھر اس نے ایک لفافہ عماد کی جانب کیا جسے عماد نے ویرہ کو پکڑا دیا۔


"یہ کیا ہے؟"


ویرہ نے حیرت سے پوچھا۔


"تمہاری کتھ کڑی جو اب تمہیں ساری زندگی کے لیے لگ گئی ہے۔"


اس بات پر ویرہ کے ماتھے پر بل آئے اور اس نے اس لفافے کو کھول کر اندر موجود کاغذ نکالا۔وہ آرمی کی جانب سے ایک لیٹر تھا جو عبداللہ سجاد میر کے لیے تھا۔جس میں لکھا تھا کہ عبداللہ کی لگن ،صلاحیتوں اور بہادری کو دیکھتے ہوئے فوج نے اسکی سزا معاف کر دی ہے اور اسے ایک سال کی ٹریننگ کے بعد عماد بنگش کے ساتھ ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرنا ہو گا۔اس سب کے علاؤہ کچھ لیگل ڈاکیومنٹس اور اسکا سیلری لیٹر بھی اس لیٹر کے ساتھ شامل تھا۔


ویرہ نے حیرت سے پھٹی آنکھیں اٹھا کر عماد کو دیکھا۔


"یہ سب کیا ہے؟"


ویرہ کی آواز جزبات کی شدت سے کانپ رہی تھی۔


"میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ تمہیں ساری زندگی اس جیل میں رہنے نہیں دوں گا تو اپنا وعدہ کیسے پورا نہ کرتا۔۔۔۔"


عماد نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا تو دو آنسو ویرہ کی آنکھوں سے بہے۔


",میں ۔۔۔۔میں اس قابل نہیں۔۔۔۔میں نے بہت گناہ کیے ہیں عماد میں سزا کے قابل ہوں معافی کے نہیں۔۔۔۔"


عماد اسکی بات پر مسکرایا۔


"جو معافی مانگ کر راہ راست پر آنا چاہے اسے موقع ملنا چاہیے یہ ہمارے رب نے ہمیں سیکھایا ہے۔۔۔"


عماد نے کہا تو ویرہ نے ایک بار پھر سے ہاتھ میں موجود لیٹر کو دیکھا پھر وہ آگے بڑھا اور عماد کے گلے لگ کر رو دیا۔عماد کی خود کی پلکیں بھی نم ہو گئی تھیں۔


"بس کرو اب مجھے بھی رولاؤ گے کیا؟"


عماد نے اسے خود سے دور کر کے شرارت سے کہا۔


"میں تمہارے احسان مر کر بھی نہیں چکا پاؤں گا عماد شکریہ راگا کی جگہ لے کر میری زندگی میں آنے کے لیے،شکریہ ہر چیز کے لیے۔"


عماد نے اسکے گال پر ہاتھ رکھا اور مسکرا دیا۔


"دوستی میں کوئی احسان نہیں ہوتا میں نے جو کیا وہ میرا فرض تھا۔"


عماد نے محبت سے کہا تو ویرہ مسکرا دیا۔


"رہے نہ رہے یہ جیون کبھی

بنی یہ رہے دوستی

ہے تیری قسم او یارا میرے

جدا ہم نہ ہوں گے کبھی۔"


امان کے گنگنانے پر دونوں نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔


"سوچا آپ دونوں کو بیک گراؤنڈ میوزک دے دوں زرا ماحول بن جائے ۔۔۔۔۔ویسے اب ایک دوسرے کو کس تو نہیں کر لیں گے ناں ارادہ ہے تو بتا دے میں چلا جاؤں بھائی یہاں سے۔۔۔"


امان نے شرارت سے کہا تو عماد اور ویرہ قہقہ لگا کر ہنس دیے اور انہیں ہنستا دیکھ امان بھی ہنس دیا۔


"چلیں سر اب انہیں ہیڈ کوارٹر لے کر جانا ہے تا کہ ٹھیک ہونے پر اپنی ٹریننگ سٹارٹ کر سکیں۔"


امان کی بات پر ویرہ نے پریشانی سے عماد کو دیکھا۔


"میں پہلے مرجان اور قلب سے نہیں مل سکتا کیا؟"


ویرہ کی بے چینی پر عماد نے مسکرا کر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"بالکل مل سکتے ہو لیکن جہاں دو سال صبر کیا ہے بس ایک سال اور کر لو میں چاہتا ہوں تم ان سے ویرہ نہیں بلکہ عبداللہ بن کر ملو۔"


اس بات پر ویرہ کی پلکیں پھر سے بھیگ گئیں اور اس نے اثبات میں سر ہلایا۔


"تو چلو۔۔۔"


امان نے ویرہ کو گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔


"پہلے زرا کسی حجام کے پاس چلو بہت جنگل ہے یہاں کاٹنے کو۔۔۔"


عماد نے ویرہ کے لمبے بالوں اور داڑھی کو دیکھتے ہوئے کہا تو امان ہنس دیا۔پھر وہ انہیں ایک جینٹس سلون لے کر گیا جہاں انہوں نے ویرہ کے لمبے بال کٹوا کر اسکی کلین شیو کروائی۔


جب آدمی یہ سب کر کے ویرہ سے دور ہوا تو ویرہ نے حیرت سے خود کو آئنے میں دیکھا۔وہ ایک بالکل ہی الگ انسان لگ رہا تھا۔


"واؤ اتنے برے بھی نہیں دیکھتے تم۔"


عماد نے شرارت سے کہا تو ویرہ بھی اسکے ساتھ ہنس دیا۔


"تمہیں کیا لگتا ہے دشمن مجھے پہچان تو نہیں لیں گے؟"


ویرہ کے سوال پر عماد مسکرا دیا۔


"مجھے پہچان لیا تھا تم لوگوں نے جب میں راگا بن کر آیا تھا؟او لالے کی جان داڑھی انسان کا پورا شکل بدل دیتا ہے "


آخری بات عماد نے راگا کی آواز میں کہی تو ویرہ ہلکا سا ہنس دیا۔


"پہچان بدلنے میں تمہارے جتنا ماہر نہیں میں۔۔۔۔"


ویرہ نے عماد کو آئنے میں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"فکر مت کرو میں بنا دوں گا عبداللہ میر ۔۔۔"


عماد نے ویرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ویرہ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔عماد بنگش اسکے لیے دوستی کی مثال تھا جس نے اپنے دوست کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور اسے گھنے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آیا۔اس نے اپنا کیا وعدہ پورا کیا تھا وہ ویرہ کو پھر سے عبداللہ میر بنانے میں کامیاب ہوا تھا۔

ایک سال بعد)

"میں سچے دل سے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوص دل سے پاکستان کا حامد اور وفا دار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حمایت کروں گا اور یہ کہ میں پاکستان کی فوج میں رہ کر پاکستان کی خدمت ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا اور یہ کہ میں زمینی ،بحری یا فضائی راستے سے جہاں بھی جانے کا حکم ملا جاؤں گا اور یہ کہ میں اپنی جان کو اپنے ملک کی خاطر وقف کرنے سے نہیں کتراؤں گا۔"


عبداللہ نے حلف نامے پڑھ کر اس پر دستخط کیے اور اپنے سامنے موجود افسران کو دیکھا جنہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر اس سے ہاتھ ملا کر اسے فوج میں خوش آمید کہا۔


"کانگریچولیشنز مسٹر عبداللہ میر سب کو موقع نہیں ملتا راہ راست پر چلنے کا لیکن آپ کو ملا ہے امید ہے آپ اس موقع کے دل سے قدر کریں گے۔"


جنرل شہیر نے عبداللہ کے پاس آ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔


"شیور سر۔"


عبداللہ نے انہیں سیلیوٹ کر کے کہا تو وہ مسکرا دیے۔


"اوکے جنٹلمین اب ہم نے آپ کو آزاد کیا جا کر اپنے دوست سے مل لیں تب سے باہر بے چینی سے ٹہل رہا ہے۔۔۔۔"


جنرل شہیر نے باہر کی جانب اشارہ کیا تو ویرہ انہیں سیلیوٹ کرتا باہر آ گیا جہاں عماد بے چینی سے اسکا انتظار کر رہا تھا۔


"گڈ ایوننگ میجر۔۔۔"


عماد کو دیکھ کر عبداللہ نے جی جان سے سیلیوٹ کرتے ہوئے کہا تو عماد اسکی جانب پلٹا اور حیرت سے اسے دیکھا۔عبداللہ اس وقت آرمی یونیفارم میں ملبوس تھا جو شائید اسے حلف اٹھانے کے لیے دیا گیا تھا کیونکہ عبداللہ نے عماد کے ساتھ کام کرنا تھا اور انہیں یونیفارم درکار نہیں تھا۔


"میجر کے بچے گلے مل یہ سیلیوٹ کسی اور کو مارنا۔۔۔"


عماد نے عبداللہ کو گلے لگایا تو وہ ہنس دیا اور عماد نے بھی اس سے دور ہو کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔اس وقت اسے آرمی یونیفارم میں دیکھ کر عماد کی آنکھوں میں ایک مان ایک غرور تھا جیسے کسی باپ کی آنکھوں میں اپنی اولاد کو کامیاب دیکھ کر ہوتا ہے۔


"چلو اب چینج کر لو چلنا ہے ہمیں۔"


"کہاں؟"


ویرہ نے اپنے ہوسٹل کے کمرے کی جانب جاتے ہوئے پوچھا تو عماد بھی اسکے ساتھ ساتھ چل دیا۔


"فلحال زرا کسی ریسٹورنٹ میں چلیں گے کھانا کھائیں گے پھر ساری رات گھومیں گے پھریں گے عیاشی کریں گے دونوں یار مل کر۔۔۔"


عبداللہ کے ماتھے پر یہ بات جان کر بل آئے اور اس نے انکار میں سر ہلایا۔


"مجھے بس میرے گھر جانا ہے تم نہیں جانتے عماد یہ ایک سال میں نے کس قدر بے چینی سے کاٹا ہے۔۔۔"


عبداللہ کی چہرے پر خواب کی سی کیفیت ایک تھی۔


"جانتے ہو جب انسان میں کوئی امید باقی نہ ہو تو وہ اپنی ساری زندگی اندھیرے میں قید بھی گزار لے لیکن جب امید کی روشنی سورج کی کرن بن کر اس پر پھوٹ رہی ہو تو ایک سیکنڈ بھی ہزار سالوں کی مانند لگتا ہے۔"


ویرہ نے مسکرا کر کہا اور اپنے کپڑے طے کر کے اپنے بیگ میں رکھنے لگا۔


"واہ تم تو فلاسفر ہو گئے ہو بھئی۔"


"زندگی سب سیکھا دیتی ہے۔۔۔"


عبداللہ نے کندھے اچکا کر کہا اور کپڑے پکڑ کر واش روم میں چینج کرنے کے لیے چلا گیا۔کچھ دیر کے بعد ہی وہ نیلی جینز کی پینٹ پر ایک بلیک شرٹ پہنے باہر آیا اور اپنے چھوٹے چھوٹے بالوں میں ہاتھ چلا کر انہیں سیٹ کیا۔


"چلو۔۔۔"


عبداللہ نے کہا تو عماد جو اسے ہی دیکھ رہا تھا مسکرا دیا۔


"بالکل بدل گئے ہو تم ایک نئے انسان بن گئے ہو اور یہ تبدیلی بہت اچھی ہے۔"


عماد کی بات پر عبداللہ بھی مسکرا دیا۔


"میرے بدلنے کی وجہ اگر کوئی ہے تو بس میری مرجان اور میرا بیٹا۔۔۔"


عماد کے ماتھے پر شکن نمایاں ہوئی اور وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔


"پچھلے سال تک تو وجہ میں تھا واہ بھئی بیوی کے پاس کیا جا رہے ہو پارٹی ہی بدل لی۔"


عماد کا بسورا ہوا منہ دیکھ کر عبداللہ ہنس دیا۔


"تم نے میرا ساتھ نبھایا لیکن وجہ میری مرجان اور قلب ہی تھے۔انکی محبت نے مجھ میں بدلنے اور جینے کی چاہ پیدا کی جسکے بغیر میں بس ایک بے جان وجود تھا،بالکل کورا جزبات سے عاری۔۔۔سمجھ گئے ناں۔"


عبداللہ نے اسے سمجھانا چاہا۔


"سمجھ گیا جی سب سمجھ گیا۔"


"کیا سمجھے؟"


عبداللہ نے اپنے چوڑے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا۔


"یہی کی تم زن مرید ہو۔۔۔۔"


عماد نے شرارت سے کہا تو عبداللہ ہنسنا شروع ہوا اور ہنستا ہی چلا گیا جبکہ اسے ہنستا دیکھ عماد مسکرا کر اسکے پاس آیا اور اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"چلو عبداللہ تمہارے سب امتحان آج ختم ہوئے،تمہاری خوشیاں اور تمہاری زندگی تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔۔۔۔"


عماد کی بات پر عبداللہ نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے بیگ کو کندھے پر ڈالتا اسکے ساتھ اپنی نئی منزل کی جانب چل دیا۔جہاں خوشیاں اسکی منتظر تھیں،اسکی دلِ جاناں اسکی منتظر تھی۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

"یہ پہنو مرجان یہ بہت پیارا لگے گا تم پر۔۔۔۔"


وانیا نے ایک لال رنگ کا فراک مرجان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا جسکی سینے پر گولڈن کام ہوا تھا جبکہ باقی چنٹوں والا حصہ نیٹ کا تھا جو پیروں تک آتا تھا۔


"یہ تو بہت بھاری ہے وانی کسی کا شادی تھوڑا ہے جو میں یہ پہنوں اور تم مجھے بتا بھی تو نہیں رہا کہ مجھے تیار کیوں کر رہی ہو۔۔۔"


مرجان نے الجھن سے پوچھا تو وانیا سرد آہ بھر کر رہ گئی۔ایک سال سے وہ خوشی کی یہ خبر اپنی دوست سے کیسے چھپائے بیٹھی تھی یہ بس وہی جانتی تھی۔عماد نے اسے اپنی قسم سے باندھا نہ ہوتا تو وہ کب کا مرجان کو سب بتا چکی ہوتی۔


"ارے بتایا تو ہے یارم کا برتھ ڈے ہے۔۔۔"


وانیا نے جان چھڑانے کے لیے کہا۔


"یارم کا برتھ ڈے تو تین مہینے پہلے ہی ہوا تھا اب تین مہینوں میں دوسرا برتھڈے کیسے آ گیا۔"


مرجان کی بات پر وانیا نے سر پکڑ لیا۔


"وہ بس اسکے دادا کی خواہش پر دوبارہ کر رہے ہیں تم زیادہ سوال مت کرو اور تیار ہو ناں۔۔۔دیکھو گل،دلاور اور اماں عماد کے ساتھ چلے بھی گئے ہیں بس ہم بچے ہیں۔۔۔"


مرجان نے گہرا سانس لیا اور کپڑے پکڑ کر واش روم میں چلی گئی۔وانیا نے مسکرا کر یارم اور قلب کو دیکھا جو ایک کونے میں بیٹھے کھیل رہے تھے۔


وانیا نے مسکرا کر دونوں کو دیکھا اور انکے پاس آئی۔


"ماما کی جان۔۔۔۔خالہ کی جان۔۔۔۔"


وانیا نے پہلے یارم اور پھر قلب کا گال چوم کر کہا تو دونوں ہنس دیے۔یارم تو اسکا بیٹا تھا ہی لیکن قلب بھی اسکے اور عماد کے بہت قریب تھا اور یارم تو قلب کی جان تھا جسے دیکھتے ہی وہ خوشی سے جھوم اٹھتا تھا۔


"ماما۔۔۔باؤ۔۔۔۔"


قلب نے پیچھے دیکھ کر کہا اور جلدی سے اٹھ کر مرجان کے پاس گیا جو لال فراک پہن کر باہر آئی تھی۔


قلب نے اسکا فراک پکڑ کر پھر سے باؤ(واؤ) کہا تو مرجان نے مسکرا کر اسے باہوں میں اٹھا لیا۔اسکا بیٹا ہی تو اسکی جان تھا۔


"اسے چھوڑو ناں اور تیار ہو جلدی سے ٹائم نہیں ہے۔۔۔"


وانیا نے بے چینی سے کہا اور قلب کو اسکی باہوں سے لے کر زمین پر کھڑا کیا۔پھر ایک لال رنگ کی سینڈل لا کر مرجان کے پیروں میں رکھی۔


"وانیا یہ بہت اونچا ہے میں گر جاؤں گی اسے پہن کے۔۔۔"


مرجان نے اسکی ہائی ہیلز دیکھتے ہوئے کہا۔


"کچھ نہیں ہوتا یہی پہنو گی تم۔۔۔"


مرجان نے گہرا سانس لے کر وہ جوتا پہننے لگی جب قلب نے دوسرا جوتا پکڑا اور اسکے پیروں میں رکھ کر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسے پہنانے لگا۔


"ہائے تمہارا بیٹا کتنا سویٹ ہے ناں کتنا خیال ہے اسے تمہارا اور میرا شہزادہ۔۔۔"


وانیا نے اتنا کہہ کر یارم کی جانب دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔


"یارم۔۔۔۔"


وانیا بھاگ کر اسکے پاس آئی اور اسکے ہاتھ سے لال رنگ کی لپسٹک پکڑی جو وہ کھانے میں مصروف تھا۔وانیا کو دیکھ کر یارم نے اپنے چار دانت دیکھائے جو لال ہو چکے تھے۔


"یا اللہ کیا کروں میں اسکا۔۔۔"


وانیا نے اسے باہوں میں اٹھایا اور واش روم لے گئی۔تھوڑی دیر کے بعد وہ یارم کو منہ صاف کر کے باہر آئی تب تک مرجان بھی جوتا پہن چکی تھی۔وانیا نے یارم کو قلب کے پاس کھڑا کیا اور خود مرجان کے پاس آئی جو اپنے بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی۔


"ارے کھلے چھوڑو انہیں اتنے پیارے بال ہیں تمہارے۔۔۔ "


وانیا نے خود اسکے بال پکڑ کر کھول دیے اور ان میں کنگھی کرنے لگی۔


"توبہ وانیا میں ایسے بال کھول کر کہیں نہیں جاتا ماڑا۔۔۔"


وانیا اسکی بات پر مسکرائی۔


"اچھا گاڑی میں بیٹھ کر باندھ لینا ابھی کھلے ہی رہنے دو۔۔۔"


وانیا نے اسے بالوں میں کنگھی کی اور لال رنگ کی لپسٹک اسکی جانب کی۔


"لو یہ بھی لگاؤ اور یہ گجرے پہنو اچھے لگیں گے۔۔۔"


مرجان نے منہ بسور کر لپسٹک کو دیکھا لیکن وانیا کے گھورنے پر وہ پکڑ کر لگا لی۔


"وانیا۔۔۔"


عماد کے پکارنے پر وانیا نے اسے آئی کہا اور خود یارم اور قلب کو باہوں میں اٹھا لیا۔


"رکو قلب کو میں اٹھاتی ہوں ناں۔۔۔"


مرجان نے آگے بڑھنا چاہا۔


"نہیں میں لے جاؤں گی تم گجرے پہن کر آنا ورنہ ناراض ہو جاؤں گی۔۔۔۔"


وانیا نے جلدی سے کہا اور قلب اور یارم کو لے کر وہاں سے چلی گئی۔مرجان نے سرد آہ بھر کر وہ گجرے بھی ہاتھوں میں پہن لیے اور پھر دوپٹہ ایک کندھے پر ڈال کر چادر ہاتھ میں پکڑتی باہر ہال میں آ گئی لیکن گاڑی کے جانے کی آواز پر اسکے ماتھے پر بل آ گئے۔


"وانی اور لالہ مجھے بھول گئے کیا؟"


مرجان نے حیرت سے سوچا اور ہال میں موجود فون کی جانب بڑھی تا کہ عماد کو فون کر سکے۔تبھی اسکو اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی۔


مرجان نے پلٹ کر دیکھا اور ہاتھ میں پکڑا ریسیور اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا۔وہ بدل چکا تھا پینٹ شرٹ پہنے چھوٹے بالوں اور داڑھی کے بغیر چہرے کے ساتھ وہ بالکل ایک مختلف انسان لگ رہا تھا لیکن کیا ایسا ہو سکتا تھا کہ مرجان اپنے باچا کو نہ پہچانتی وہ تو ہزاروں میں بھی اسکا چہرہ پہچان لیتی۔


"باچا۔۔۔"


مرجان نے ہلکی سی سرگوشی کی اور کتنے ہی آنسو اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے۔عبداللہ خود بھی جگہ پر جما بس اسے دیکھتا جا رہا تھا۔آج تین سال کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔


ایک دوسرے کو پھر سے دیکھنے کی ایک ہونے کی چاہ تو ان کے دلوں میں کب سے دبی تھی لیکن دونوں کو ہی یہ لگا تھا کہ ایسا ناممکن ہے۔یہ زندگی انہیں ایک دونوں کے بغیر کاٹنی ہے لیکن ہمارے رب کے لیے نہ ممکن کچھ بھی نہیں اور ان دونوں کا ایک دوسرے کے سامنے ہونا اس بات کی جیتی جاگتی مثال تھا۔


"ی۔۔۔یہ سچ میں آپ۔۔۔آپ ہیں باچا۔۔۔ممم۔۔۔میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ۔۔۔۔۔آآ ۔۔۔۔آپ لوٹ آیا؟"


مرجان نے روتے ہوئے پوچھا تو عبداللہ اپنے آنسو پونچھ کر اسکی جانب بڑھنے لگا۔


"چھو کر دیکھ لو۔۔۔"


عبداللہ نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے کیا تو مرجان کتنی ہی دیر اسکے ہاتھ کو دیکھتی رہی پھر اس نے آہستہ سے عبداللہ کا ہاتھ تھام لیا۔اسے سچ میں ہاں پا کر مرجان کی بس ہوئی تھی اس نے عبداللہ کا ہاتھ اپنے ماتھے سے لگایا اور سسک سسک کر رونے لگی۔


عبداللہ نے اسے کھینچ کر اپنی باہوں میں کے لیا۔دل ایک بار پھر سے دھڑکنا شروع ہوا تھا،اسے لگنے لگا تھا وہ بھی زندہ ہے۔


مرجان کتنی ہی دیر اسکی باہوں میں کھڑی روتی رہی تھی اور عبداللہ اسے اپنے قریب محسوس کرتا نم آنکھیں موندے اپنے دل میں سکون اتارتا رہا تھا۔


"باچا یہ سچ میں آپ ہیں۔۔۔۔آپ۔۔۔ آپ اب کبھی جائیں گے تو نہیں۔۔۔میں آپ کو نہیں جانے دوں گی ۔۔۔۔کہیں نہیں جانے دوں گی۔۔۔"


مرجان نے اسکے گرد اپنی پکڑ مظبوط کرتے ہوئے کہا تو عبداللہ مسکرا دیا اور اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"نہیں مرجان اب میں کبھی دور نہیں جاؤں گا تم سے اور اپنے بیٹے سے۔ میں لوٹ آیا ہوں تم دونوں کے پاس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔"


عبداللہ نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر انگوٹھے سے اسکے آنسو پونچھے۔


"آپ۔۔۔۔آپ نے قلب کو دیکھا وہ بالکل آپ کے جیسا ہے۔۔۔"


اسکی بے چینی پر ویرہ مسکرا دیا۔


"ہاں دیکھا اسے اپنی باہوں میں اٹھایا پیار کیا۔۔۔"


"لیکن وہ ہے کہاں۔۔۔۔؟"


مرجان نے بے چینی سے پوچھا۔


"عماد اسے اپنے ساتھ لے گیا۔"


"کیوں؟"


مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"شائید اس لیے کہ یہ وقت میں تمہارے ساتھ گزار سکوں۔۔ "


عبداللہ نے اسکا گال اپنے انگوٹھے سے سہلایا تو مرجان کے گالوں پر سرخی نمایاں ہوئی اور اس نے ہاتھ بڑھا کر عبداللہ کے بالوں کو چھوا جو اب کاٹ دیے گئے تھے۔


"آپ بہت بدل گئے ہیں باچا۔۔۔"


مرجان نے مسکرا کر کہا۔


"ہاں دلِ جاناں بدل گیا ہوں میں سر سے پیر تک ایک نیا انسان بن گیا ہوں۔اب میں وہ ویرہ نہیں رہا عبداللہ بن گیا ہوں اور یہ سب صرف تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔"


"میری وجہ سے؟"


مرجان نے حیرت سے پوچھا۔


"ہاں مرجان تمہاری وجہ سے۔تم نے جو کہا تھا کر دیکھایا۔تم نے کہا تھا کہ تمہاری محبت مجھے بدل دے گی مجھ میں موجود نفرت اور برائی کو مٹا کر مجھے سب کو چاہنے پر مجبور کر دے گی اور دیکھو آج ایسا ہی ہوا۔بدل دیا تم نے مجھے۔مٹا دی میرے دل میں موجود نفرت اور رنگوں سے بھر دی میری زندگی۔۔۔۔"


مرجان اسکی بات پر نم آنکھوں سے مسکرا کر اسکے گلے سے لگ گئی اور ویرہ بھی اسے اپنی باہوں میں لیتا سکون سے آنکھیں موند گیا۔کتنی ہی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کی باہوں میں کھڑے اپنے دل میں سکون اتارتے رہے تھے۔ایک دوسرے کو یہ یقین دلاتے رہے تھے کہ وہ ایک ہیں اب کبھی ایک دوسرے سے دور نہیں ہوں گے۔


کچھ اور تھا میں کچھ اور ہی تھا

تو نے ہی مجھ کو نکھارا ہے

اب جو مجھ بھی مجھ میں پیارا ہے

وہ ہر رنگ تمہارا ہے

جو کل تھا تیرا ساتھ ملے

ہاتھوں میں نہ یہ ہاتھ رہے

کچھ آدھے ادھورے لمحے لیے

دل کا یہ شہر سجاؤں گا

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا

اس چاہت میں مر جاؤں گا

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا۔


ایک دوسرے کی پناہوں میں کھڑے ان دونوں کو وقت کا اندازہ ہی نہیں رہا تھا پھر مرجان ایک خیال کے تحت اس سے دور ہوئی۔


"آپ کو بھوک لگا ہو گا مم۔۔۔میں کھانا لگاتی۔۔۔"


مرجان نے کچن کی جانب جانا چاہا لیکن عبداللہ نے واپس اسے اپنی جانب کھینچ کر اپنی باہوں میں لے لیا۔


"نہیں مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں بس تم میرے پاس رہو اور کچھ نہیں چاہیے مجھے اس دنیا میں۔۔۔"


عبداللہ نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے پھر نرمی سے اسکی آنکھوں کو چوما۔


"باچا۔۔۔آپ گھر دیکھیں ناں اتنا پیارا گھر دیا ہے عماد لالہ نے ہمیں تحفے میں۔۔۔"


مرجان نے اس کے جزبات پر بند باندھنے کی ایک اور کوشش کی لیکن اب وہ اسکے دونوں رخساروں پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا۔


"مجھے تمہارے علاؤہ کچھ نہیں دیکھنا۔"


عبداللہ نے اسکے ہونٹ کے کونے کو نرمی سے چوما تو مرجان کا روم روم کانپ اٹھا۔


"ت۔۔۔تو آپ کو ٹی وی لگا دیتی ہوں بہت مزے کا چیز ہے بہت کچھ ملتا ہے اس پر سننے کو۔۔۔"


مرجان نے گھبراتے ہوئے کہا۔


"مجھے تمہارے علاؤہ کسی کو نہیں سننا۔۔۔"


اتنا کہہ کر عبداللہ نے اسکے لپسٹک سے سجے سرخ ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا۔مرجان نے کانپتے ہاتھوں میں اسکا گریبان جکڑا اور اسکی باہوں میں کھڑی اس کی محبت کو محسوس کرتی رہی۔


اچانک ہی عبداللہ اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا تو مرجان نے گھبرا کر اسے دیکھا۔


"باچا۔۔۔"


عبداللہ نے جانثار نگاہوں سے اسکا چہرہ دیکھا اور اس کمرے کی جانب چل دیا جہاں سے اس نے اسے آتے دیکھا تھا۔


"بولو جانِ باچا آج تمہیں دیکھنے،تمہیں سننے،تمہیں محسوس کرنے کے لیے ہی تو میں یہاں ہوں ۔۔۔۔۔"


عبداللہ نے اسے بیڈ پر لیٹایا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھا۔


"یہ دل صرف تمہارے لیے دھڑکتا ہے دل جاناں یہ سانسیں صرف تمہارے لئے چلتی ہیں۔تمہارے بغیر میں کچھ نہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر عبداللہ نے اسکی نم پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھے۔


"میں بھی آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی باچا۔۔۔"


مرجان نے محبت سے کہا تو عبداللہ اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔


"میرے جزبات تم سے زرا الگ ہیں۔۔"


"وہ کیسے؟"


مرجان نے مسکرا کر پوچھا تو عبداللہ نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا۔


"جانان نہ زمہ

تانہ زار شمہ ذہ"


عبداللہ نے اسکی آنکھوں کو چوم کر کہا تو مرجان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"قربان شمہ ذہ

جانان شمہ ذہ"


اب کی بار عبداللہ نے اسکے گال کو چوما۔


"جانان شمہ ذہ

قربان شمہ ذہ"


اتنا کہہ کر عبداللہ پھر سے اسکے ہونٹوں پر جھک گیا اور مرجان بس تکیہ اپنی مٹھیوں میں جکڑ کر رہ گئی۔جب عبداللہ اس سے دور ہوا تو مرجان نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔


"آپ نے یہ سب سنا تھا ممم۔۔مجھے لگا آپ سو رہے تھے۔"


مرجان نے وہ رات یاد کرتے ہوئے کہا جب وہ دونوں پہلی بار ایک دوسرے کے قریب آئے تھے جب مرجان نے اسکے سوتے ہوئے اسے یہ الفاظ کہے تھے۔


"ایسا ہو سکتا تھا ان پلوں کا ایک لمحہ بھی میں ضائع کر سکتا تھا وہ پل میرا سب کچھ تھے دلِ جاناں تم میرا سب کچھ ہو۔۔۔"


عبداللہ نے محبت سے کہا تو مرجان خود میں ہی سمٹ گئی۔عبداللہ کی نظروں سے اسکا یہ سمٹنا اور شرمانا چھپا نہیں رہا تھا۔اس نے مسکراتے ہوئے اس پر سے اسکا دوپٹہ ہٹایا اور اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔


"اب آپ پھر کبھی مجھ سے دور مت جائے گا باچا نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر ۔۔"


مرجان نے نم آواز کہا۔عبداللہ نے اسکی گردن سے منہ نکال کر اسے دیکھا۔


"کل کا مت سوچو صرف ان پلوں کو محسوس کر جب ہم ایک دوسرے کے پاس ہیں۔یہ لمحات سب سے قیمتی ہیں دلِ جاناں۔۔۔"


اتنا کہہ کر عبداللہ نے اس کے نازک وجود کو اپنی گرفت میں لے لیا۔اتنے سالوں کی جدائی کا جنون اور شدت وہ آہستہ آہستہ اسکی رگوں میں انڈیلنے لگا۔


مرجان کو اپنی فراک کی زپ کھلتی محسوس ہوئی تو زور سے اپنی آنکھیں میچ گئی۔اسکے بعد اس نے اپنے کندھے سے شرٹ سرکتی محسوس کی تو عبداللہ سے دور ہونا چاہا۔


"باچا۔۔۔"


"جی دلِ جاناں۔۔۔"


عبداللہ نے بھی اتنی ہی محبت سے اسے پکارا اور اس سے دور ہو کر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔اسکے چوڑے سینے پر نظر پڑتے ہی مرجان نے شرما کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور اسکی اداؤں پر جانثار ہوتے عبداللہ اپنی شرٹ اتار کر اس پر حاوی ہو گیا۔


گزرتی رات نے انکے درمیان موجود ہر دوری مٹا دی تھی۔ ان کے صبر کا پھل انہیں دیا جا چکا تھا آج وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

مرجان اسکی باہوں میں سمٹی آنکھیں بند کیے اسکی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔ابھی بھی وہ مرجان سے دور نہیں ہوا تھا۔ساری رات اپنی محبتوں اور شدتوں کی آنچ میں اس نے مرجان کو جلایا تھا۔اب تو فجر کی اذانیں ہونے لگی تھیں اور وہ ابھی بھی اسے اپنی آغوش میں بھرے اپنی محبت اس پر لٹا رہا تھا۔


"باچا۔۔۔اب چھوڑیں ناں مجھے دیکھیں کتنا دیر ہو گیا ہے۔۔۔"


مرجان نے اسے روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اسکی گردن پر سرکتے ہونٹ رکے اور اسے دانت اپنی گردن پر گڑھتے محسوس ہوئے۔


"باچا میں تھک گئی ہوں ناں ۔۔۔۔"


مرجان نے محبت سے کہا تو عبداللہ نے اسکی گردن سے چہرہ نکال کر دیکھا۔


"اتنے سال میرے بغیر رہی ہو اب دوری کا سوچنا بھی مت ۔۔۔"


اتنا کہہ کر وہ پھر سے اسکی گردن پر جھک گیا اور مرجان بے بسی سے اسکی باہوں میں سمٹنے لگی۔اسے لگا تھا کہ اب اسکا دل بھر جائے گا لیکن اپنی تشنگی مٹانے کے باوجود جب وہ اس سے دور نہیں ہوا تو مرجان نے منہ بسور کر اسے دیکھا۔


"چھوڑیں ناں اب مجھے نماز پڑھنا ہے۔۔۔"


مرجان کے اتنا کہتے ہی عبداللہ نے فوراً اسکو چھوڑ دیا تو مرجان نے شرمیلی سی مسکان کے ساتھ اسے دیکھا اور جلدی سے واش روم میں بند ہو گئی۔


فریش ہو کر ایک ہلکا گلابی سوٹ پہنے وہ باہر آئی اور دوپٹے کا حجاب بنا کر جائے نماز بچا کر نماز پڑھنے لگی۔عبداللہ خواب کی سی کیفیت میں اسے دیکھتا جا رہا تھا۔


کوئی اس قدر پاکیزہ اس قدر معصوم کیسے دکھ سکتا تھا جتنی مرجان نماز پڑھتے ہوئے لگ رہی تھی۔سلام پھیر کر مرجان نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور نم پلکوں سے کتنی ہی دیر دعا مانگتی رہی۔ پھر اٹھ کر عبداللہ کے پاس آئی اور آیت الکرسی پڑھ کر اس پر پھونک ماری۔عبداللہ نے مسکرا کر اسکے معصوم چہرے کو دیکھا۔


"چلیں اب آپ بھی اٹھ کر نماز پڑھیں۔ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا ہے ناں کہ اس نے ہمیں پھر سے ملا دیا۔اس گناہ کی دنیا سے دور ایک عزت کی زندگی جینے کا موقع دیا۔بہت احسان ہیں اللہ کے ہم پر سب کا شکریہ ادا کرنا ہے ہمیں۔۔۔۔"


مرجان کی بات پر عبداللہ کے چہرے کی مسکان غائب ہوئی۔اس نے اپنے اعمال سے سب کو راضی کر لیا تھا سب کے دل جیت کر انہیں خود کو معاف کرنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن اپنے رب سے تو وہ کبھی معافی مانگ ہی نہیں پایا تھا۔اس میں ایسا کرنے کی ہمت ہی پیدا نہیں ہو رہی تھی۔


"کیا ہوا؟"


اسکے چہرے پر اضطراب دیکھ کر مرجان نے محبت سے پوچھا۔


"میں کس منہ سے نماز پڑھوں مرجان کیسے اللہ کے سامنے کھڑے ہو جاؤں۔۔۔جبکہ میرے گناہ میرے سامنے ہیں۔۔۔جبکہ میں جانتا ہوں میرے گناہوں کی کوئی بخشش نہیں۔۔۔۔"


عبداللہ نے پر خوف نگاہوں سے مرجان کی جانب دیکھا۔


"جانتی ہو جیل کی قید میں کتنی ہی بار رب سے معافی مانگنے کا سوچا لیکن کبھی ہمت نہیں ہوئی اسکے سامنے کھڑے ہونے کے احساس سے میری روح کانپ جاتی ہے۔۔۔۔میرے گناہوں کی کوئی معافی نہیں مرجان کوئی معافی نہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر عبداللہ نے اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپایا اور سسک سسک کر رو دیا۔اسکی اس حالت پر مرجان کی پلکیں بھی بھیگ گئیں۔اس نے عبداللہ کے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اسے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔


"آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف نہیں کریں گے۔اگر یہ حقیر انسان آپ کو معاف کر کے ایک موقع دے سکتے ہیں تو وہ تو رب العالمین ہے باچا۔۔۔"


مرجان نے اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کو صاف کیا۔


"پتہ ہے وہ ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں تو آپ کو کیسے لگا وہ آپ کو معاف نہیں کریں گے آپ معافی مانگ کر تو دیکھیں آپ کے دل کا ہر وسوسہ،سارا خوف ختم ہو جائے گا۔۔۔"


مرجان نے اسے محبت سے سمجھایا۔اس وقت وہ آنسو بہاتا اسے ایک چھوٹا سا بچہ لگ رہا تھا۔


"اگر نہیں معاف کیا تو؟"


"تو میں آپ کے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں گی ہر نماز میں ہر دعا میں۔۔۔"


اسکی محبت ہر عبداللہ نے مسکرا کر اسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکا دیا۔


"خدا نے تمہیں ایک تحفے کے طور پر دیا ہے مجھے مرجان۔۔۔سمجھ نہیں آتا کہ کیوں مجھ گناہ گار کو اس نے تم جیسی فرشتہ صفت دے دی۔۔۔۔"


عبداللہ کی بات پر مرجان مسکرا دی۔


"کیونکہ وہ رحمٰن ہے باچا آپ اس سے معافی مانگ کر تو دیکھ میرا رب خالی ہاتھ کسی کو نہیں لوٹاتا۔۔۔۔"


عبداللہ اثبات میں سر ہلاتا اٹھا اور فریش ہونے چلا گیا۔کچھ دیر کے بعد وہ سفید شلوار قمیض پہنے واش روم سے باہر آیا اور مرجان کے بچھائے جائے نماز پر کھڑا ہو گیا۔


اس نے ہاتھ اٹھا کر اپنے کانوں کے پاس لے جانا چاہے لیکن اس میں ہمت ہی نہیں ہوئی تھی۔خوف سے روم روم کانپ اٹھا تھا۔اسکی حالت دیکھ کر مرجان اسکے پاس آئی اور اسکے ہاتھ تھام کر اسے دیکھا۔


"وہ رحمٰن ہے باچا منکروں تک کو بخش دے ظالموں کو بخش دے۔بھٹکی راہ سے سیدھی راہ پر آنے والوں سے منہ نہیں پھیرتا میرا رب۔۔۔"


اتنا کہہ کر مرجان اس سے دور ہو گئی اور اسکی باتوں کے زیر اثر عبداللہ نے نماز پڑھنا شروع کی۔جب وہ سجدے میں جھکا تو بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر بہے۔


وہ ایسا سجدہ تھا جس سے وہ اٹھنا ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ایسا سکون اسے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا جیسا اس سجدے میں ہو رہا تھا۔


نماز پڑھ کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اپنے لیے بخشش مانگتے اسکی آنکھیں پھر سے بہنے لگیں اور وہ سسک سسک کر رو دیا۔مرجان نے نم آنکھوں سے اپنے شوہر کو رب کی بارگاہ میں تڑپتے دیکھا اور پھر اسے اسکے رب کے ساتھ تنہا چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔


وہ جانتی تھی کہ اپنے رب سے بخشش مانگ کر اسکے دل میں موجود ہر وسوسہ ختم ہو جائے گا اپنا تمام احساس گناہ رب کے سامنے بہا کر وہ ایک نیا انسان بن کر کمرے سے باہر نکلے گا۔

تقریباً صبح کے دس بجے عبداللہ اور مرجان عماد کے گھر آئے تھے جہاں باقی سب نے اسکا استقبال کیا تھا۔گل تو ہمیشہ کی طرح اس سے کترائی ہی تھی جبکہ دلاور اور الماس اس سے کافی خوش دلی سے ملے تھے کیونکہ وہ دل سے مرجان کے لیے خوش تھے۔


"ماما۔۔۔۔"


ابھی وہ سب سے مل ہی رہی تھے جب مرجان کے کانوں میں قلب کی آواز پڑی اور وہ بھاگتا ہوا مرجان کے پاس آیا۔مرجان نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور اسکا چہرہ محبت سے چومنے لگی۔


عبداللہ نے حسرت سے اپنے بیٹے کی جانب دیکھا جو چور نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔


"قلب یہ آپ کے بابا ہیں۔۔۔"


مرجان نے قلب کو بتایا تو قلب نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا پھر مرجان کے سینے میں چھپ گیا۔عبداللہ نے اسے مرجان کی باہوں سے لینا چاہا تو پہلے تو قلب کترایا لیکن جب اسکی باہوں کا تحفظ اور اسکے لمس میں محبت محسوس کی تو آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھنے لگا۔


"میں تمہارا بابا ہوں میری جان۔۔۔"


عبداللہ نے نم آنکھوں سے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا جو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔پھر قلب نے اسکی ناک اپنے چھوٹے سے ہاتھ میں پکڑی۔


"میلا بابا شونا نئیں۔۔۔۔ماما شونی ۔۔۔۔۔"(میرے بابا پیارے نہیں ماما پیاری ہیں)


قلب کی بات سمجھ کر سب لوگ قہقہ لگا کر ہنس دیے اور عبداللہ نے چٹا چٹ اپنے بیٹے کو چوم ڈالا۔کم از کم اسکے بیٹے نے اسے بابا تو کہا تھا۔


جنرل شہیر اور انکی بیوی بھی انکی خوشیوں میں شامل تھے۔سب نے خوشی سے ساتھ مل کر ناشتہ کیا۔اپنی بیٹی کو اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ ہنستا مسکراتا دیکھ الماس نے بے ساختہ اسکی نظر اتاری تھی۔آخر کار مرجان کی تین سال سے مانگی جانے والی دعائیں قبول ہوئی تھیں۔اسکی محبت اسکی خوشیاں اسے مل گئی تھیں۔


عبداللہ جان لٹاتی نظروں سے قلب کو دیکھ رہا تھا جو ہال کے کونے میں یارم کے ساتھ اسکے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔


قلب بار بار یارم کو کیوب کا ٹاور بنا کر دیکھا رہا تھا لیکن یارم اپنے چھوٹے ہاتھوں سے وہ ٹاور بنا نہیں پا رہا تھا۔آخر کار قلب نے غصے سے یارم کو دیکھا اور پھر ایک تھپڑ اسکے منہ پر مار دیا۔


"قلب۔۔۔"


مرجان نے اٹھ کر یارم کو پکڑنا چاہا جو منہ بنا کر رونے لگا تھا لیکن پھر قلب نے ہی یارم کو گلے سے لگا کر پیار کیا۔


"پال چے مالا پال چے۔۔۔۔"(پیار سے مارا پیار سے)


قلب کی بات پر یارم چپ کر کے پھر سے کھیلنے لگا اور وانیا سر جھٹک کر ہنس دی۔


"ڈرامے باز ہیں دونوں۔۔۔"


عبداللہ بھی مسکرا کر عماد کی جانب متوجہ ہو گیا جو اس سے باتیں کر رہا تھا۔کھانے کے بعد امان وہاں پر آیا تو عماد اور عبداللہ اس سے ملنے کے لیے ڈرائنگ روم میں آئے۔سلام دعا کے بعد دونوں امان کے سامنے بیٹھ گئے۔


"سوچا عبداللہ سر کو مبارکباد دے دوں آرمی میں شامل ہونے کے لیے۔"


امان نے بات شروع کی تو عبداللہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔


"ویسے سر کیا میں بھی آپ دونوں کے ساتھ شامل ہو سکتا ہوں یو نو ایک سیکرٹ ایجنٹ کے طور پر۔۔۔"


امان نے دلچسپی سے پوچھا۔


"تم جو کر رہے ہو ناں بیسٹ کر رہے ہو بس وہی کرتے رہو۔۔۔۔"


عماد نے اسے کہا تو امان نے گہرا سانس لیا۔


"ویسے کیا ہے ناں ایک سپاہی کی زندگی گھر والوں سے دور سب سے دور رہنا یہ بھی نہ پتہ ہونا کہ اپنے مشن سے گھر واپس پہنچیں گے بھی یا نہیں۔۔۔"


امان نے اپنے جزبات ظاہر کیے۔


"نہیں میرے لیے مشکل نہیں کیونکہ میرا ایک اصول ہے۔"


"کیا؟"


عبداللہ نے دلچسپی سے پوچھا۔


"جب فیلمی کے پاس ہو تو سوچو تمہاری کوئی ڈیوٹی نہیں اور جب ڈیوٹی پر ہو تو سوچو تمہاری کوئی فیملی نہیں۔"


عماد نے کندھے اچکا کر کہا تو عبداللہ مسکرا دیا۔


"اچھی سوچ ہے۔"


امان نے دونوں کو مسکرا کر دیکھا اور پھر سیدھا ہو کر بیٹھا۔


"مجھے آپ دونوں سے ایک اور بات کرنی ہے۔"


"ہاں کہو۔۔۔۔"


عماد نے مسکرا کر کہا تو امان اضطراب سے اپنے ہاتھ مسلنے لگا۔


"میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔"


عماد اور عبداللہ دونوں کے ماتھے پر بل آئے تھے۔


"تو ہم سے اجازت کیوں مانگ رہے ہو ہم تمہاری گرل فرینڈز تو نہیں ۔۔۔"


عماد کی بات پر عبداللہ ہنس دیا۔


"نہیں آپ سمجھ نہیں رہے سر میں۔۔۔پلیز عبداللہ سر میرا سر مت پھاڑیے گا لیکن وہ۔۔۔۔"


امان نے گہرا سانس لے کر خود میں ہمت پیدا کی اور پھر ایک ہی سانس میں بولا۔


"مجھے گل اچھی لگتی ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو۔۔۔"


امان کا انداز ایسا تھا جیسے اپنے سینئیر سے چھٹی مانگ رہا ہو۔عماد اسکے انداز پر ہنس دیا جبکہ عبداللہ نے اسے زرا گھور کر دیکھا۔


"تمہارے ماں باپ ہیں؟"


"جی سر الحمد اللہ۔۔۔"


امان نے فوراً کہا۔حالانکہ عبداللہ رینک میں امان سے کم تھا لیکن پھر بھی امان کا اسے سر کہنا اسے مسکرانے پر مجبور کر گیا۔


"تو انہیں ہمارے گھر بھیجو رشتے کے لیے پھر کرتے ہیں تمہارا کچھ ۔۔۔۔"


امان کا اس بات پر چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔


"تھینک یو سر تھینک یو سو مچ وعدہ کرتا ہوں اسکا جان سے زیادہ خیال رکھوں گا۔۔۔"


عبداللہ اسکی خوشی اور جزبات دیکھ کر مسکرا دیا۔ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد امان وہاں سے چلا گیا اور وہ دونوں بھی باہر آئے۔


عبداللہ کی نظر مرجان پر پڑی جو خوشی سے چہکتے ہوئے گل اور وانیا سے باتیں کر رہی تھی جبکہ اسکا بیٹا مرجان کی گود میں لیٹا سکون سے سو رہا تھا۔


اپنے اس کل جہان کو دیکھ کر عبداللہ کے دل میں سکون اترنے لگا۔اسے لگ رہا تھا کہ یہ زندگی رب سے معافی مانگنے اور اسکا شکر ادا کرنے کے لیے بہت چھوٹی ہے۔

🅗🅐🅡🅡🅐🅜 🅢🅗🅐🅗

آج گل کی بارات تھی اور مرجان اسکے لیے تیار ہو رہی تھی۔اس نے وانیا کے کہنے پر اپنے لیے لائٹ پنک کلر کی ایک میکسی لی تھی جبکہ عبداللہ اور قلب کے لیے اس نے میچنگ سکن کلر کے شلوار کرتے لیے تھے جن پر ہلکی گلابی واسکٹ تھی۔قلب کو تو وہ پہلے ہی تیار کر کے دلاور کے پاس بھیج چکی تھی اور عبداللہ بھی کپڑے پہن کر کمرے میں آ گیا تو مرجان کو دیکھ کر نظر پلٹنا ہی بھول گیا۔


پچھلے دو مہینے سے وہ ان کے پاس رہ رہا تھا اور مرجان کو وہ سادگی میں بھی دیکھتا تھا تو دیکھتا ہی رہ جاتا تھا اور آج تو وہ کوئی آسمان سے اتری پری ہی لگ رہی تھی۔


"ارے باچا آپ آ گئے یہ بند کریں نہیں ہو رہا۔۔۔"


مرجان نے الجھن سے وہ نیکلس عبداللہ کے سامنے کرتے ہوئے کہا جو وہ پہننا چاہ رہی تھی۔عبداللہ اسکے پاس آیا اور اور نیکلس اپنے ہاتھ میں لے کر اسکی کمر پر پھیلے بالوں کو ہٹایا۔


میکسی کا پچھلا گلا زرا سا گہرا تھا جس سے مرجان کی سفید کمر نمایاں ہو رہی تھی۔عبداللہ نے جھک کر وہاں اپنے ہونٹ رکھے تو مرجان اپنا ہاتھ دھڑکتے دل پر رکھ گئی۔


"باچا ۔۔۔"


"جی جانِ باچا۔۔۔"


عبداللہ نے اتنے پیار سے کہا کہ مرجان سانس تک لینا بھول گئی۔


"اس سب کا وقت نہیں دیر ہو جائے گا۔۔۔"


مرجان کی بات پر عبداللہ مسکرا دیا اور اب کی بار اسکی نازک گردن کو ہونٹوں سے چھوا۔


"تو ٹھیک ہے وعدہ کرو واپس آنے پر اس حسن کو ٹھیک سے خراج بخشنے کا موقع دو گی۔"


مرجان نے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا تا کہ ابھی کے لیے تو وہ اسکا دامن چھوڑ دے۔عبداللہ نے مسکرا کر وہ نیکلس اسے پہنایا اور آئنے میں سے اسے دیکھنے لگا۔


"تاسو ترټولو ښکلی شی یاست چې ما هیڅکله صحنه درلوده"(آج تک تم سے زیادہ حسین میں نے کچھ نہیں دیکھا)


عبداللہ نے اسکی گردن چوم کر کہا تو مرجان کانپ کر رہ گئی۔تبھی انکے کمرے کا دروازا کھٹکا تو عبداللہ مرجان سے دور ہوا اور دروازہ کھولا۔


"لالہ دیر ہو رہی ہے اب چلیں بارات پہنچنے والی ہو گی۔"


دلاور نے عبداللہ سے کہا تو اس نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔عماد کے علاج کروانے کی وجہ سے اب دلاور کی طبیعت کافی بہتر رہنے لگی تھی اور جب سے عبداللہ واپس آیا تھا اسکا رویہ اور محبت دیکھ کر دلاور اور گل کا ہر خدشہ،ہر خوف دور ہو گیا تھا۔اب وہ دونوں عبداللہ کو اپنا بھائی سمجھتے تھے۔


عبداللہ کی نظر دلاور کے بازوؤں پر پڑی جن میں موجود قلب عبداللہ کی جانب جھک رہا تھا۔


عبداللہ نے فوراً اسے اپنی باہوں میں لے لیا اور دلاور کو چلنے کا کہہ کر خود مرجان کے پاس آیا جو مکمل تیار ہو چکی تھی۔


"تم وانیا اور گل کے ساتھ پالر کیوں نہیں گئی۔"


عبداللہ نے اسکے حسین چہرے کو محبت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"کیونکہ وہ بہت زیادہ میک اپ لگا دیتا ہے منہ پر پھر انسان کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔۔۔"


عبداللہ اسکی بات پر مسکرایا۔


"سچ ہے ویسے بھی میری بیوی اتنی حسین ہے کہ اسے اس سب کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔"


عبداللہ نے اسکے گال پر اپنے ہونٹ رکھ کر کہا لیکن اس سے پہلے کہ مرجان اسے کچھ کہتی قلب چیخ مار کر مرجان کی جانب جھکا اور اسکا گال صاف کرنے لگا جہاں عبداللہ نے اپنے ہونٹ رکھے تھے۔


"واہ بیٹے میری بیوی پر میرا ہی لمس برداشت نہیں ہو رہا تجھ سے۔۔۔"


عبداللہ نے واپس مرجان کا گال چوما تو قلب پھر سے چلایا اور مرجان کا گال صاف کرنے لگا۔مرجان نے ہنستے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنی باہوں میں لے لیا۔


عبداللہ کو پھر سے مرجان کے گال پر جھکتا دیکھ قلب آگے ہوا اور اپنا گال مرجان کے گال پر رکھ دیا تا کہ عبداللہ اسے نہ چوم سے۔


"میلا ماما۔۔۔۔"


قلب نے مرجان پر اپنی ملکیت ظاہر کی تو عبداللہ اور مرجان ہنس دیے پھر عبداللہ نے قلب کے گال کو چوما اور دونوں کو اپنے ساتھ لگاتا باہر کی جانب چل دیا جہاں سب انکا انتظار کر رہے تھے۔


تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ اس میرج ہال پہنچے جہاں گل کی بارات آنی تھی۔گل کی شادی کا سارا انتظام عماد نے کیا تھا کیونکہ اسکا کہنا تھا کہ گل اسکی بہن ہے ویرہ کی تو وہ سالی ہے اور بہن کی شادی بھائی کرتا ہے بہنوئی نہیں۔


شادی پر پہنچ کر مرجان نے قلب کو عبداللہ کے حوالے کیا اور خود گل کے پاس چلی گئی۔عبداللہ قلب کو اٹھائے عماد کے پاس گیا لیکن جب اس نے عماد کو دیکھا تو اسکی ہنسی چھوٹ گئی کیونکہ عماد بھی یارم کو اٹھائے گھوم رہا تھا۔دونوں باپ بیٹے نے ایک جیسا گرے کلر کا پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا۔


"اب بیگمات نے نگینوں والے کپڑے پہنے ہیں تو وہ تو بچوں کو نہیں اٹھائیں گی ناں ہم ملازم ہیں ناں ان کے اس کام کے لیے۔۔۔۔"


عماد نے شرارتاً کہا تو عبداللہ ہنس دیا۔یارم عماد کی جیب میں لگے گلابی رومال کو کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔عماد نے اسے غصے سے گھورا تو جواب میں یارم کھلکھلا کر ہنس دیا۔


"ویسے کیسی عجیب بات ہے ناں راگا اور ویرہ وہ دونوں جن کے نام سے سب کی روح کانپ جاتی تھی ان سے یہ چھٹانکیں نہیں ڈرتیں۔"


عماد نے اتنا کہہ کر یارم کے گال پر دانت گاڑھے تو یارم چیخ کر رونے لگا اور پھر اس نے عماد کے منہ پر حملہ کرنا چاہا جیسے اسے نوچ ہی دے گا۔عماد نے اس سے بچ کر ہنستے ہوئے عبداللہ کو دیکھا جسکی گود میں موجود قلب بس دلچسپی سے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔


"تمہارا سپوت پھر بھی زرا شریف ہے۔۔۔۔"


عبداللہ نے مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھا۔


"جیسے بھی ہیں یہ سپوت جان ہیں اپنی۔۔۔"


عبداللہ نے قلب کا گال چوما تو وہ مسکرا دیا۔ان دو مہینوں میں وہ عبداللہ کے کافی قریب آ چکا تھا کیونکہ عبداللہ اسے پیار ہی اتنا کرتا تھا۔


"یہ بات تو ہے۔۔۔"


عماد نے بھی محبت سے یارم کا گال چوم کر کہا اور پھر سنجیدگی سے عبداللہ کو دیکھا۔


"یاد ہے ناں اگلے ہفتے ہمیں مشن کے سلسلے میں بنگلہ دیش جانا ہے ۔۔۔۔تیار ہو اپنے پہلے مشن کے لیے۔"


عبداللہ نے ہاں میں سر ہلایا۔ابھی کچھ دن پہلے ہی اسے مشن کی انفارمیشن اور ڈیٹیلز بھیجی گئی تھیں۔کچھ سمگلرز وہاں چھپے بیٹھے تھے اور انہیں انکا ٹھکانہ معلوم کرنے وہاں جانا تھا۔


"دل سے تیار ہوں۔۔۔"


عماد نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔تبھی وہاں بارات کی آمد ہوئی لیکن دلہے کو دیکھ کر دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ امان اس وقت مکمل آرمی یونیفارم میں ملبوس تھا۔بس سر پر ٹوپی نہیں پہنی تھی۔


"اسکو چھٹی نہیں ملی تھی کیا شادی کے لیے؟"


عبداللہ نے حیرت سے پوچھا تو عماد اپنے کندھے اچکا گیا۔


"پتہ نہیں مجھ سے کہہ دیتا بابا کے سامنے سفارش ڈال کر دلوا دیتا چھٹی اسے۔"


عماد کی بات پر عبداللہ ہنس دیا۔انہوں نے آگے بڑھ کر امان کو ویلکم کیا۔


"ویسے جیجا جی شادی پر یہ یونیفارم پہننا نئی رسم ہے کیا؟"


عماد نے شرارت سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تو امان مسکرا دیا۔


"وہ بات یہ ہے سالہ جی کہ آپ کی بہن زرا ڈرتی تھی فوجیوں سے تو میں چاہتا تھا بھول نہ جائے کہیں کہ اسکی شادی ایک فوجی سے ہو رہی ہے۔"


امان کے لاجک ہر عماد اور عبداللہ ہنس دیے اور اسے لے کر سٹیج کی جانب چل دیے۔کچھ دیر کے بعد مولوی صاحب وہاں آئے اور انہوں نے پہلے امان سے اور پھر گل کے پاس جا کر اس سے اسکی رضا مندی پوچھتے ہوئے دونوں کا نکاح کرایا۔


نکاح ہو جانے کے بعد مرجان اور وانیا گل کو ہال میں لے کر آئیں۔جب گل نے نگاہیں اٹھا کر اپنے دلہے کو دیکھا تو اسکا منہ بن گیا۔


"یہ جان بوجھ کر انہوں نے مجھے چڑانے کے لیے پہنا ہے۔۔۔ایک تو میرا فوجی سے شادی کروا دیا اور اوپر سے اسکا کپڑا بھی نہیں بدلوایا بڑا ظالم ہے آپ لوگ باجی۔۔۔"


گل نے وانیا اور مرجان سے کہا تو وہ ہنس دیں۔انہوں نے اسے امان کے بغل میں بیٹھایا اور مرجان مسکرا کر عبداللہ کے پاس آ کھڑی ہوئی جبکہ وانیا عماد کے بغل میں جا چکی تھی۔


امان اور گل ایک ساتھ بیٹھے بہت پیارے لگ رہے تھے۔ گل کے ہاتھوں کی لرزش دیکھ امان مسکرا دیا اور زرا سا اسکی جانب جھکا۔


"اب تو فوجی کی بیوی بن گئی ہو میری نیلی آنکھوں والی گڑیا تمہارا یہ فوجیوں کا ڈر نہ ختم کیا تو کہنا۔۔۔"


امان کی سرگوشی پر گل کانپ کر رہ گئی اور شکوہ کناں نگاہوں سے عماد کو دیکھا۔جیسے کہنا چاہ رہی ہو لالہ یہی فوجی رہ گیا تھا میرے لیے۔


"ارے میری بہنا پریشان مت ہو اور کپڑے بھی ہیں اس کے پاس ساری زندگی اسے ایک ہی جوڑے میں دیکھ دیکھ کر نہیں گزارو گی۔"


عماد کی بات پر سب کے ساتھ ساتھ امان بھی ہنس دیا اور اسے ہنستا دیکھ گل کی گھبراہٹ تھوڑی کم ہوئی اور وہ مسکرا دی۔


سب لوگ خوشیوں میں مگن تھے۔عبداللہ نے مرجان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگایا اور اسکے کان کے قریب جھکا۔


"وعدہ یاد ہے ناں تمہاری آج کی رات میری ہے۔۔۔"


عبداللہ کی بات پر مرجان کے ہاتھ کانپ گئے۔


"باچا سب لوگ ہیں یہاں پر شرم کریں۔۔۔۔"


مرجان نے گھبراتے ہوئے کہا تو عبداللہ کے لب مسکرا دیے۔


"کیسی شرم اپنی بیوی سے کہہ رہا ہوں بھئی کسی اور کی بیوی سے تو نہیں کہہ رہا ہے ناں قلب ۔۔۔۔"

عبداللہ نے قلب سے پوچھا جو اسکی گود میں موجود مسکراتے ہوئے مرجان کو دیکھ رہا تھا۔عبداللہ نے شرارت سے مرجان کے گال کے پاس اپنا منہ کیا تو قلب نے فوراً اپنا ہاتھ مرجان کے گال پر رکھ دیا اور چیخ مار کر عبداللہ کو گھورنے لگا۔

"جو حکم میرے جگر کے ٹکڑے۔"

عبداللہ نے قلب کا ماتھا چوم کر کہا اور پھر نرمی سے اپنے ہونٹ مرجان کے سر پر رکھتے ہوئے گل اور امان کی خوشیوں کا حصہ بن گیا۔ان کی زندگی پر چھائی کالک اب ہٹ چکی تھی اور اب انکی زندگی میں بس خوشیاں تھیں جنہیں ان کو اپنے دامن میں بھرنا تھا۔

ختم شد!


Dil E Jana Romatic Novel 




I have the skill to write all kinds of articles, I teach my article to eradicate the evil in the society.

She is very famous for her unique writing style.

She chooses a variety of topics to write about. 

She has written many stories and has large number of

fans waiting for her novels.

People get a message of peace from my article, people get a different feeling by reading my article, I have been writing for two years, I choose different topics to write my article.

I try to suppress social evils in every one of my articles

My articles are read not only in Pakistan but also in many other countries including some special countries like India, UK, Canada, Australia, Japan, USA etc.

I wish my articles were good because of which people follow me

The Harram Shah  novels are published in episodic format every month at various platforms furthermore online release


Novels inurdu pk start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.

They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels. Hope you like this Story and to Knows More about the story of the Novel you must read it.

 give your feedback 

زمرہ: رومانٹک ناولز

 

urdu pk میں ناول تمام سوشل میڈیا مصنفین کے لیے اپنی تحریریں شائع کرنے کے لیے ایک سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ تمام مصنفین کو خوش آمدید، اپنی تحریری صلاحیتوں کی جانچ کریں۔

 

وہ رومانوی ناول لکھتے ہیں، زبردستی کی شادی، ہیرو پولیس آفیسر پر مبنی اردو ناول، بہت ہی رومانوی اردو ناول، مکمل رومانوی اردو ناول، اردو ناول، بہترین رومانوی اردو ناول، مکمل گرم رومانوی اردو ناول، مشہور اردو ناول، رومانوی اردو ناول، رومانوی اردو ناولز ہر دور کے ناول، بہترین اردو رومانوی ناول۔ امید ہے کہ آپ کو یہ کہانی پسند آئے گی اور ناول کی کہانی کے بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ اسے ضرور پڑھیں گے۔

 

مصنف پی ڈی ایف فارم اور آن لائن پڑھنے کے لیے یہاں دستیاب ہے۔

 

مفت پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

 

مفتڈاؤن لوڈ لنک

 

ڈاؤنلوڈ پر کلک کریں۔

اپنی رائے دیں

 

جیسا کہ آپ سب اردو pk میں ناولز سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارا مقصد صرف علم کو پھیلانے کے لیے آپ کو کتابوں کا بہت بڑا مجموعہ فراہم کرنا ہے جس میں نئے اور پرانے ناولوں کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ ہماری ٹیم اس کے لیے دن رات کام کر رہی ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تمام کتابیں انٹرنیٹ کے ذریعے جمع کی جاتی ہیں۔ آج ہم آپ کو مہوش علی کا ناول دشت وہشت پیش کرنے جا رہے ہیں جو مصنف کا پی ڈی ایف ہے … صرف اپنے قارئین کے لیے۔ مہوش علی کا یہ دشت وھشت ناول پی ڈی ایف شیئرنگ اس کے چاہنے والوں کے لیے ہے۔ تاکہ وہ کتاب سے لطف اندوز ہو سکیں۔ عام طور پر یہ تمام ناول بازار سے باآسانی خریدے جا سکتے ہیں لیکن اس کی ایک قیمت ہوگی جو سب کے لیے خاص طور پر ناول کے شائقین کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ کیونکہ ناول سے محبت کرنے والوں کو بہت سی کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں تو اس صورت میں یقیناً اتنی کتاب خریدنا سستی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم مہوش علی کے ناول دشت وہشت کی پی ڈی ایف الیکٹرانک کاپی صرف اس کے چاہنے والوں یا قارئین کے لیے شیئر کر رہے ہیں۔

उपन्यास का नाम:

 

लेखक का नाम:

 

श्रेणी: रोमांटिक उपन्यास

 

उर्दू पीके में उपन्यास सभी सोशल मीडिया लेखकों के लिए अपने लेखन प्रकाशित करने के लिए एक यात्रा शुरू करते हैं। सभी लेखकों में आपका स्वागत हैअपनी लेखन क्षमताओं का परीक्षण करें।

 

वे रोमांटिक उपन्यासजबरन विवाहनायक पुलिस अधिकारी आधारित उर्दू उपन्यासबहुत रोमांटिक उर्दू उपन्यासपूर्ण रोमांटिक उर्दू उपन्यासउर्दू उपन्याससर्वश्रेष्ठ रोमांटिक उर्दू उपन्यासपूर्ण गर्म रोमांटिक उर्दू उपन्यासप्रसिद्ध उर्दू उपन्यासरोमांटिक उर्दू उपन्यास सूचीरोमांटिक उर्दू लिखते हैं सभी समय के उपन्याससर्वश्रेष्ठ उर्दू रोमांटिक उपन्यास। आशा है कि आपको यह कहानी पसंद आएगी और उपन्यास की कहानी के बारे में अधिक जानने के लिए आपको इसे अवश्य पढ़ना चाहिए।

 

लेखक यहां पीडीएफ फॉर्म में डाउनलोड करने और ऑनलाइन पढ़ने के लिए उपलब्ध है।

 

पीडीएफ को फ्री में डाउनलोड करने के लिए नीचे दिए गए लिंक पर क्लिक करें

 

मुफ्त डाउनलोड लिंक

 

डाउनलोड पर क्लिक करें

 

अपनी प्रतिक्रिया दें

 

How can a modern child instill a love for the book? Why is it so difficult for today’s children to instill the value and love of reading ? What can you do to make your baby love the world of the printed word? To begin with, let’s try to speculate about what reading gives a modern child? What is its uniqueness and difference from other sources of information? We must try to be honest. What’s the book now? A treasure trove of information? For us, who were growing up in another, “pre-Internet” era, the book was the only repository of knowledge in all possible areas. This book taught us, talking about worlds that were inaccessible, showing many examples of responding to various situations. Everything has changed. Instead of spending hours searching in dusty libraries, just watch a fascinating video. With reduced criticality, this information is conventionally perceived as something objective, as some kind of knowledge. Of course, the Internet makes it easy to familiarize yourself with other sources, but: first, certain search skills are required; secondly, you need a need for analysis, a desire to understand, form your own assessment, and not be content with plagiarizing someone else’s opinion. And what about the book? The book is structured according to different rules. Reading books is akin to meditation, it does not give ready-made pictures, it models them in our mind using symbols. Encourages co-creation by referring to our experience. In this sense, the book is less subjective, although the personality of the author stands behind it with all the delusions. But most importantly, the book adjusts to the pace of our perception, it does not pull with spectacular images. An essential plus of reading: We have the opportunity to stop, analyze, argue, agree. We have the right to pause, to think, to plunge into the problem. This is work, and a person always strives for laziness, for entertainment, for pleasure.

Disclaimer

 

website for writers and readers. all contents on our website are unique and our own property. Novels are for sharing knowledge and provide guidence in real life for the readers.